قسط: 1
وہ دو دن سے گھر نہیں گیا تھا کیونکہ بات ہی کچھ ہی
ایسی تھی اس کی محبت جو کہ چار سال اس کے نام رہی تھی آج پل میں اسکے چھوٹے بھائی حسنال بخت کے نام ہوگئی تھی وہ اپنی ذات میں سلجھا ہوا شخص بہت بکھرا ہوا تھا اس بکھرے پن کی وجہ اشنال بخت تھی روشنال بخت کو تو یقین نہیں آرہاتھا کہ اشنال بخت اس کے ساتھ ایسا کرے گی وہ جو اسے بارہ سال چھوٹی تھی اس کا منہ اسے بچہ بچہ کہتے کہتے نہیں تھکتا تھا وہ دو دن پہلے اس کی بیوی بنا گئی تھی اگر اشنال بخت اس کے سامنے ہوتی تو روشنال بخت اس کا حشر کر دیتا پچھلے دو گھنٹوں سے وہ مسلسل کمرے میں ٹہل رہا تھا اسے سب سے زیادہ دکھ تو اس بات کا تھا کہ اس کے والدین جو اس کی تعریفیں کرتے کرتے نہیں تھکتے تھے اشنال کی ایک بات کی وجہ وہ ساری عزت ریت کا محل ثابت ہوئی تھیں بابا کی ایک بات وہ سہہ نہیں پا رہا تھا کہ مجھے تم سے یہ امید نہیں تھی بار بار بابا کی آواز اس کے کانوں میں گونج رہی تھی ۔ دو دن سے اس کو کوئی بلا نہیں رہا تھا غصہ جب حد سے سوا ہوا تھا تو گھر کی طرف قدم بڑھائے کیونکہ دو دن سے وہ گھر والوں کے طعنے ہی برداشت کر رہا تھا ۔۔۔ وہ کمرے میں آیا ڈور لاک لگایا پھر بیڈ کی طرف بڑھا لیکن یہ کیا وہ اس کے بیڈ پہ سوئی ہوئی تھی جس کی وجہ سے اسکے غصے کا گراف اور بڑھا تھا اٹھو میری نیندیں برباد کر کہ مزے کر رہی ہو روشنال بخت نے غصے سے بلیکنٹ اتار کر نیچے پینھکا تھا جس سے اشنال کے کپڑے بے ترتیب هوئے تھے ۔۔۔اے اٹھو بے غیرت عورت وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اپنا غصہ کنڑول نہیں کرپایا تھااس کو اپنے سامنے دیکھ کر جو آیا بول گیا تھا اشنال اس کو دیکھ کر اٹھ بیٹھی تھی بھا۔۔۔۔بھائی آپ یہاں وہ اٹھ کر ایک دم سے اٹھ کر اس کے گلے لگی تھی اشنال اس کی گالی نہیں سنی اس لیے اس کے ساتھ لپٹ گئی ۔۔بھائی آپ تو مجھے جانتے ہیں نا میں ایسی نہیں ہوں ۔۔چٹاخ وہ اسے خود سے علحیدہ کرتا اس کے نازک لب پہ تھپڑ رسید کرگیا تھا خبردار بازاری عورت تمیں کس نے کہا ہے کہ میرے روم میں آؤ تمھاری ہمت کیسے ہوئی ۔۔۔وہ مجھے چھوٹی امی نے کہا تھا کہ آئندہ میں اس کمرے میں رہوں گی وہ سہم کر بولی تھی! تو اپنی جگہ پہ سو یہاں میں تمھیں برداشت نہیں کر سکتا وہ اسے نیچے زمین پر دھکا دیتے ہوئے بولا تھ یہ جگی ہے تمھاری۔ اشنال نے تو اس کے تیور دیکھ کر سہمی تھی ۔۔۔آپ بھی مجھے غلط سمجھ رہے ہیں مم ۔۔میری بات آپ نہیں سنے گے نا میں تو سمجھی تھی آپ دنیا کہ آخری انسان ہوں گے جو میری بات رد نہیں کریں گے ۔۔۔ایک اور لفظ نہیں آج میں بولوں گا اور تم سنو گی واقعی ایسی لڑکی نہیں ہو یہ بات کاش مجھے سمجھ آجاتی ۔۔۔۔یہ لفظ تو اٹھارہ سال کہ معصوم لڑکی پر تازیانہ بن کر لگا تھا۔ بھ۔۔بھائی آپ میری بات تو سنیں۔۔۔۔؟ بھائی ۔۔۔!بغیرت عورت جو تم نے کیا ہے آج تھمارا اور میرا نکاح ہوا ہے پھر معصومعیت کا ناٹک کر رہی ہو میں نے تو تمھیں بہن سمجھا تھا لیکن تم نے مجھے بھائی نہیں سمجھا بتاؤ کیوں کیا تم نے ۔۔۔۔؟اب زمین پر بیٹھا اس کے پاس اس کو جنجھوڑ رہا تھا میرے ماں باپ کا یقین اٹھ گیا مجھ سے ۔۔۔میری محبت مجھ سے جدا کر دی ہے تم نے ۔۔۔میرے بھائی کو میرے خلاف کر دیا ہے تم نے ایسی کونسی آگ تھی جو تم مجھ سے بجھانا چاہتی تھی ۔۔۔۔۔ سب لوگوں نے مجھ پہ بہت مان کیا تھا ٹوٹ گیا پل میں جو کہ میں نہیں توڑا تم نے توڑا ہے ۔۔۔۔پلییز میں سب کو بتا دوں گی سچ کیا ہے کہ مجھے منال آپی نے اس رات آپ کے کمرے میں ۔۔۔۔۔! اپنی بکواس کرو یہ نہ ہو زندہ زمین میں گاڑ دو واہیات عورت ۔۔خبردار جو تم نے منال کے بارے میں کچھ کہا اپنے گناہ اس بچاری پہ نہ تھوپو ۔۔ تھو ہے تم پر ۔۔اپنی بہن کی خوشیاں چھین لی ہے تم نے میں تو پھر ۔۔۔۔ اشنال کی تو مانو کاٹو تو بدن میں لہو نہیں وہ والی حالت تھی ۔۔پلیز آپ میرے لیے یہ الفاظ استعمال نہیں کرسکتے ممم ۔۔۔میں تو آپکی لاڈلی تھی نا ۔۔۔ آپ میرے لیے میرے سامنے اتنی آبس ورڈنگ یوز کر رہے ہیں وہ اتنے معصوم لہجے میں بات کر رہی تھی کہ ایک پل تو روشنال بخت بھی ٹھٹکا تھا لیکن اس کے آگے اس کے الفاظ آئے تھے جس کی وجہ سے وہ جل کر رہ گیا تھا۔۔۔۔۔تمھارے چہرے پر معصومیت کا جو ماسک ہے نا کل تمھاری گھٹیا حرکتوں کی وجہ سے اتر گیا ہے مم۔۔میں آپ کے سامنے کل گھر والوں کو بولوں گی کہ آپ بے قصور ہیں مم۔۔میں سب ٹھیک کر دوں گی پھر ۔۔پھر تو آپ مجھے غلط نہیں کہیں گے نا اور گالیاں بھی نہیں دیں گے نا۔۔۔۔وہ بڑی آس سے پوچھ رہی تھی۔۔۔ کیا ٹھیک کرو گی میرے ماں باپ کا بھروسہ تو تم نے توڑ دیا ہے ۔مم تم نے تمھاری وجہ سے منال مجھ سے دور ہوگئی ہے تمھیں تو پتہ تھا نا کہ میں اس سے کتنی محبت کرتا ہوں پھر کیوں یہ فریب ۔ ۔۔تمھارے ایسا کرنے سے کچھ نہیں ٹھیک ہوگا نہ میری کھوئی ہوئی عزت واپس آئے گی اور نہ مجھے منال مل پائے گی تمھاری وجہ سے صرف اور صرف تمھاری وجہ سے میں نے اسے کھودیا ہے میں دو سے اس سے نظریں نہیں ملا پا رہا لیکن یہ مت سوچنا کہ میں تمھیں چھوڑ دوں گا میں تمھاری زندگی میں ایسا زہر گھولوں گا تم جی سکوگی اور نہ تم مر سکو گی موت مانگو گی تو موت نہیں ملیں گی اور زندہ تو میں تمھیں رہنے نہیں دوں گا یہ کہتے ہوئے وہ اس کے قریب ہوگیا تھا اس کا دوپٹہ اس کے وجود سے علحیدہ کر گیا تھا ۔۔۔وہ ٹھنڈی زمین پہ بیٹھی پیچھے کو سرکنے لگی اتنی بچی نہیں تھی کہ اس کی نگاہوں کو سمجھ نہیں پاتی عورت اپنے اوپر پڑی ہر نگاہ سمجھ لیتی ہے لیکن آج اس کی نگاہوں سے اپنے عزت نظر نہیں آرہی تھی۔مم میں نے کچھ نہیں کیا ہے ۔۔۔آج تمھاری وجہ سے سب کی نظروں میں میرا مذاق بن رہا ہے صرف اور صرف تمھاری وجہ سے اور تم کہہ رہی ہو میں نے کچھ نہیں کیا۔۔بہت شوق تھا تمھیں مجھے سے شادی کا تم نے کاٹھ کا الو سمجھ لیا تھا سب نے مجھے تمھارا شوہر بنایا ہے تو میں کیوں اس رشتے سے دور رہوں آج تمھیں تمھارا شوہر بن کر دکھاؤں گا ۔ اس کی بات سن کر اس کا معصوم سا دل بند ہونے لگا پلیز نہیں ۔نن۔۔نہیں ۔ جب میں نے سب کی جلی بھنی سنی ہیں تو تمھیں کیوں نہ اس درد سے گزاروں ۔۔نہ۔۔نہ آپ تو میرے سپر مین ہے نہ آ ۔۔آپ میرے ساتھ ایسا نہیں کرسکتے وہ ناقابل یقین حالت اپنی آواز کی کپکاہٹ پا کر بولی ۔ میں تمھیں ایسا کرکے دکھاؤں گا ۔۔۔آج اشنال کا یقن ٹوٹنے کی دہلیز پر تھا وہ اپنے اور اس کے درمیان ذرا سا فاصلہ بھی مٹا گیا تھا۔۔۔ جبکہ اشنال بخت کا آج مان ٹوٹنے پہ آیا ہوا تھا وہ جس شخص کی آنکھوں میں عزت ،مان اور عقیدت ہوتی تھی آج نفرت غصہ اور ضد تھی …. آج وہ اس کی سانسیں چھننے پہ آیا ہوا تھا رات کا ایک بج رہا تھا سب سکون سے بستروں پہ سو رہے تھے لیکن وہ اپنا مان ٹوٹٹے ہوئے دیکھ رہی تھی ۔۔۔پلیز نہیں نہیں مم۔۔میں تو آپکی ایشو ہوں نہ ۔۔۔ سب کیا سوچیں گے پلیز چل۔۔چلیں جائیں یہاں سے ۔۔۔۔۔! مم..میں مر جاؤں گی ۔۔۔ایشو نہیں تم میری نام نہاد بیوی ہو جو کہ کل بڑے مزے سے محبت کا اظہار کر رہی تھی تم نہ ملے تو میں مر جاؤں گی یہ تم ہی تھی گھٹیا عورت جو کل اسی کمرے میں مجھ سے اظہارِ محبت کر رہی تھی وہ اس کے الفاظ دھرا رہا تھا جنازہ نکال کہ رکھ دیا ہے تم نے میری عزت کا ۔۔۔۔ وہ پھر سے ذرا فاصلے پر ہو کر اٹھنے لگی جب پھر وہ اس سے اپنی طرف گھیسٹنے لگا ۔۔خبر دار یہاں سے تو جانا بھی نہیں جن لوگوں کے سامنے میرا تماشہ بنا ان سب کے سامنے تمھارا تماشہ بنے گا ۔۔۔ نہ۔۔۔نہیں پلیز نہیں۔۔
؎وہ بگڑنا وصل کی رات کا
؎وہ نہیں نہیں کی ہر ادا
از ابیا علی
وہ معنی خیزی سے شعر پڑھتا اسے اپنی گسیھٹ چکا تھا ۔۔۔روشنال بخت نے پل میں اسکا برسوں کا اعتبار توڑ دیا تھا اس کی سسکیاں مزاحمیتیں کچھ کام نہ آئی تھیں نفرت کی آگ میں روشنال کے سارے احساسات مر چکے تھے وہ اسے بھی اس اذیت سے گزارنا چاہتا تھا جس اذیت سے وہ خود گزرا تھا آج اشنال بخت اپنا سب کچھ ہار گئی تھی اس نے جو کہا تھا وہ کر کے دکھایا تھا نہ اس زندو ں میں چھوڑا نہ مردوں میں آج لوگ جیت گئے تھے منال جیت گئی تھی لیکن اشنال اپنا سب کچھ ہار گئی عزت تک ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منال کو تو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ ایک پل میں کیا سے کیا ہوگیا تھا جو گھڑا اس نے اشنال کےلیے کھودا تھا وہ خود اس میں جا گری تھی۔۔۔
دروازہ کھولیں میں کہہ رہا ہوں دروازہ کھولیں منال ان سوچوں میں گم تھی جب حسنال کی آواز آئی تھی ۔۔۔۔ کیا ہے کیوں میرا جینا حرام کر رہے ہو ۔۔۔وہ دروازے کھولتی دانت پیس کر بولی ۔۔۔
میں آپ کا شوہر ہوں آپ میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتی۔۔وہ بھی شاید اس کی عزت ہی کر رہا تھا ۔۔۔۔شوہر ہو میں نے گود تو نہیں نہ لیا ۔۔۔ تو لیں لے نہ نہ چار سال بڑی ہے ہیں وہ ہاتھ پھیلانے والے انداز میں کھولتا اسے آنکھ ونک کرتا ڈھٹائی سے بولا تھا ۔۔۔ چپ ایک دم چپ بدتمیز انسان ۔۔۔میں تو تمھیں چھوٹا بچہ سمجھتی تھی ۔۔۔۔۔آپ اپنی آنکھوں کا علاج کروائیں سب سے پہلے تو میں آپ سے بڑا ہی لگتا ہوں اور دوسرا اب میں شوہر بن گیا ہوں آپ کا اب تو مجھے بچہ سمجھنے کی غلطی کبھی مت کرئیے گا ورنہ نتائج کی ذمہ دار آپ خود ہوں گی ابھی وہ اپنی چپل اتارتی ہی کہ جس دروازے سے اندر آیا تھا اسی سے نکلتا پھرسے بند کرگیا تھا ۔۔۔۔کھولو ۔۔بدتمیز انسان میں تمھیں چھوڑوں گی نہیں ۔۔۔۔۔میں نے تو کہا تھا کہ آپ مجھے پکڑے اور ذرا کس کے پکڑیں لیکن آپ کی اپنی غلطی ہے ۔۔۔۔
Abeeha Ali shah :فیس بک پیج