راز وفا

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 1

شام کی سرخی ہر طرف پھیلی ہوئی تھی باہر بچوں کے کھلینے کی مخصوص آوازیں آرہی تھی یہ محلہ نہ زیادہ بڑا تھا نہ زیادہ چھوٹا لیکن ۔۔۔سنگھیوں کی محفلیں ، میچ کرکٹ ہاکی وغیرہ کےلیے علحیدہ ایک ویرانی میں بندوبست کیا گیا تھا بوڑھوں اور ادھیڑ عمروں کےلیے برگد کے درخت کے نیچے رفیق نمبر دار کی ویران سی حویلی میں چرپائیاں بچھائی گئی تھیں جہاں وہ عصر سے مغرب تک بیٹھ کر سیاست کو زیر بحث لاتے چونکہ رفیق صاحب کی یہ جگہ روڈ کے ساتھ تھی تو آنے جانے والوں اور دیکھنے سننے والوں کو کافی دلچسپ لگتا تھا کیونکہ ماحول اچھا ہوتا تھا تو سب اس میں ہوتے تھے یہ دور بھی پرانے وقتوں کی یاد دلا دیتا تھا ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بغیرت ایک دفعہ میرے ہاتھ تو لگے ساری بغیرتی ناک کے ذریعے باہر نکالوں گا ماسٹر جی کا غصے سے برا حال تھا ان کی رعب دار آواز سے علیزے اور زارا بیگم بہت زیادہ گبھرائی ہوئی تھی ۔
آخر ہوا کیا ہے آپ ہر وقت اس کے پیچھے لگے رہتے ہیں زارہ بیگم بالا آخر ہمت کرتے ہوئے بولیں تھیں ۔
یہ پوچھو کیا نہیں ہوا تمھاری اس ذلیل اولاد نے مجھے بدنام کرنے کی کوئی کثر نہیں چھوڑی گلی محلے میں مجھے بدنام کرکے رکھ دیا ہے تمھارے اس لاڈلے نے ۔۔۔؟
تمھاری اس اولاد سے تنگ آگیا ہوں یہ ساری تمھاری دی گئی آزادیوں کا نتیجہ ہے ۔آج اسے طارق کے اڈے پر موالیوں کے ساتھ اپنی سے بڑی عمر والوں کے ساتھ سوٹہ لگاتے دیکھا ہے تمھیں پتہ ہے مجھے اتنی شرم آئی دل کیا زمین پھٹے اور میں اس میں سما جاؤں دل تو میرا کر رہا تھا وہاں سے اسے اٹھاؤں اور چپلوں سے مار کر سڑک سے گھیسٹتا ہوا لاؤں لیکن مجھے اپنی بدنامی سے اور اپنی تیس سالوں کی بنائی گئی عزت سے ڈر لگتا ہے کہ کہیں وہ نہ تباہ ہو جائے ۔۔۔اور تو اور حلیہ دیکھنا ہے اسکا ۔۔۔؟
مجھے تو وہ خالص مراثیوں کا بیٹا لگتا ہے اور بھی تو میرے دو بچے ہیں نہ کبھی سراٹھا کر انہوں نے بات نہیں کی کہ کہیں میں خفا نہ ہوجاؤں ۔۔۔۔۔ اور ایک وہ ہے ساری ساری رات گھر نہیں آتا ۔۔۔یہ ہے تمھاری تربیت ۔۔۔! میں نے سوچا نکاح کروں گا تو وہ ٹھیک ہو جائے گا مجھے لگتا ہے میں نے اپنی معصوم بھتیجی کی زندگی خراب کر دی ہے میں اس ڈر سے جی نہیں پا رہا کہ روزِ محشر میں اپنے بھائی کو کیا جواب دوں گا وہ زارا بیگم پہ برہم ہورہے تھے جب وہ اپنے مخصوص دھن سے سیٹی بجاتا اندر داخل ہوا تھا۔۔۔
بالوں کا عجیب سا ڈیزائن بنا ہوا تھا ہاتھ میں دھاگے بندھے اور پھٹی تنگ سی جینز پہنے ہاتھوں سے چابیاں گھماتا وہ پورا موالی لگ رہا تھا وہ مانی تھا ۔۔ محلے کا بگڑا ترین لڑکا ۔۔ایک نمبر کا آوارہ ۔۔۔۔! ایک قسم کا وہ خبیثوں کا ڈان مانا جاتا تھا اور اسے جیسے فخر تھا اس بات پہ کہ وہ بگڑا ہوا ہے ۔۔۔۔”
پہلے تو ماسٹر جی اس پہ اتنا غصہ نہیں کرتے ۔۔۔مگر پچھلے تین چار مہنیوں سے اسکی عادیتیں مکمل خراب ہو رہی تھیں اس لیے وہ اسے عاجز ہوگئے تھے
کہاں سے آ رہے ہو تم۔۔۔؟ماسٹر صاحب خاموشی سے اس کے نزدیک گئے تھے جو بڑے بھنگی انداز لیے مسکرا رہا تھا دروازے سے اندر داخل ہوتے وقت اس نے سیگریٹ کو زمین اور دھوئیں کو اڑاتا پھر سیگریٹ کو مسلتا اپنے بکواس سٹائل چال سے صحن کی طرف آیا۔۔۔۔”
آپ مجھ سے کچھ کہہ رہے ہیں ابا حضور ۔۔۔! ایک لوفرانہ مسکراہٹ اس کے چہرے پر آئی تھی ۔میں تو کھیلنے گیا تھا وہ چابی گھماتا ہوا بولا تھا ۔۔۔
بکواس کرتا ہے ۔۔۔مجھے سب بتانا ہے اور انسانوں کی طرح بتانا ۔۔۔۔میں نے تجھے خود دیکھا ہے ۔۔۔ توُ طارق کے اڈے پر کیا کر رہا تھا۔۔۔؟ انہوں نے اپنے طریقے سے پوچھا تھا۔
پہلے آپ بتائیں ماسٹر جی ۔۔۔”آپ ادھر کیا کر رہے تھے کوئی سوٹہ ووٹہ تو نہیں لگایا تب لی تو شیلا کی طرح جوانی چھائی ہوئی ہے آپ پہ ….؟ وہ ان کے قریب آتا راز داری سے پوچھنے لگا
الو کا پٹھہ ۔۔۔۔کمینہ۔۔۔۔آج ساری بغیرتی ناک کے ذریعے نکالوں گا ۔۔تو پھر مجھے سکون آئے گا۔۔۔
ماسٹر جی نے اپنا جوتا اتارا اور پھر جو اُ سے مارنا شروع کیا اور پھر نہ دیکھا لگتی کہاں وہ بھی چپ چاپ مار کھاتا۔۔۔۔۔۔مانی کے ابا آپ کیوں اس پر ہاتھ اٹھا رہے ہیں ۔۔۔؟ وہ اس کے آگے ہوئیں ۔۔۔۔ہاں تم اسے اور شہہ دو تا کہ یہ ہماری زندگی خراب کر دے ۔۔۔۔! دیکھ لینا اس کی وجہ سے ایک دن میرے گھر پولیس آئے گی۔۔ جس طرح اس کے حالات ہیں یہ مجھے ڈاکو ہی بنتا نظر آرہا ہے ۔۔۔وہ جوتا پھینک کر پہنتے ہوئے کمرے میں چلے چلے گئے تھے۔
تم ایسی حرکتیں کیوں کرتے جس سے ان کو تکلیف ہوتی ہے ۔۔۔!وہ اس کو دیکھتی ہوئی بولی جو آنکھیں چھوٹی کیے اپنی پشت کو سہلاتا ہوا ان کو دیکھ رہا تھا۔۔۔
تھمارے ابو نے مجھے کہا ہے ۔۔۔۔کہ اب اگر تم کسی نشئی یا شرابی کے ساتھ نظر آئے وہ تمھاری ہڈیاں توڑ دیں گے
ماسٹر ہوں گے وہ سکول میں….” میری پیاری ماں ۔۔۔! ادھر میرے وہ وٹکے ہی ہیں ….اور ہڈیاں توڑنا تو ان کا روز کام ہیں انھیں بولنا اماں کہ کوئی ایسا طریقہ اختیار کریں۔۔۔۔جسے مجھ پہ اثر ہوجائے۔۔۔لیکن شاید وہ طریقہ مشکل ہی نہیں ماسٹر جی کےلیے ناممکن ہے۔”
واقعی تمھارے ابا ٹھیک کہتے ہیں تم پیار کی زبان کے قابل ہی نہیں ہو ۔۔۔۔وہ ہمیشہ کی طرح اسے سمجھاتے سمجھاتے تھک گئی ۔۔۔!
ہائے شکر ہے آپ نے مانا تو سہی کہ میں پیار کے لائق نہیں ہوں۔۔” وہ آنکھیں دباتا اٹھ کھڑا ہوا۔۔ “
اب کہاں جا رہے ہو ۔۔۔۔! وہ سخت دلگیر لہجہ لیے بولیں۔۔”
اماں جن کو برے کاموں کی لت لگ جائیں ان کو راہ ست پہ لانا مشکل ہی ناممکن ہوتا ہے۔۔۔علیزے کچن سے باہر نکلتی مانی کو سناتے ہوئے بولی ۔۔۔”
تم اپنی زبان بند کرو ۔۔۔۔تم میری ماں مت بنو۔۔۔۔ ” مانی نے اٹھ کر علیزے کی طرف آنکھیں نکالتے کہا ۔۔۔۔ “
کس کس کو چپ کرواؤ گے ۔۔۔کس کس کی زبان بند کرو گے ۔۔۔گناہ گناہ ہی ہوتا ہے مانی ۔۔۔۔کبھی بوڑھے باپ کو دیکھ لو۔۔۔۔” تمھیں ان پہ رحم نہیں آتا ۔۔۔۔” وہ ہمارے لیے کیا کیا نہیں کرتے رہے۔۔۔ ” انھوں نے جس چیز کی طرف تمھیں لگانا چاہا ۔۔۔تم اس سے دور ہٹ گئے ۔۔۔ان کو جس چیز سے محبت ہوتی ہے تم اس سے نفرت کرتے ہو ۔۔۔!
بھائی کو دیکھ لو۔۔۔وہ اتنے شریف اور سلجھے ہوئے ہیں وہ بابا کے آئیڈئل بیٹے ہیں ان کی جاب اچھی ہے بابا جو چاہتے تھے جیسا ویسے ہی وہ بن گئے۔۔۔” وہ جو منع کرنے کیے نکلی تھی اب خود اس کو سمجھانے لگی۔۔
مجھے ان پہ کیا مجھے خود پہ رحم نہیں آتا ۔۔۔ ” بس یہ یا اور کچھ۔۔۔۔ ؟ اور دوسرا میں اپنے دوستوں کے پاس جار ہا ہوں۔۔۔۔اس لیے فلسفیانہ لیکچر اپنے پاس سنھبال کہ رکھے۔۔۔”
اس نے اپنے سے ڈیڑھ سال چھوٹی بہن کو پریشان دیکھا اور پھر مکرونہ ہنسی ہنستا چابیاں انگلی میں گمھاتا مڑا ۔۔۔”
بے غیرت ہو تم ایک نمبر کے گھٹیا جس کو سگے باپ کی پرواہ نہیں ہوگی اسے دوسروں کی پرواہ کیا ہوگی۔۔اللہ کرے مر جاؤ تم ۔۔۔! وہ اس پہ لعنت کا نشان بھیجتی ہوئی بولی۔۔۔۔”
شکریہ شکریہ بہن جی۔۔۔۔وہ مکروہانہ ہنسی ہنستا باہر نکل گیا تھا۔
****”
نورِ حرم غیر محسوس طریقے سے چادر اپنے منہ کے آگے کرتی تیز تیز قدم گھر کی طرف جا رہی تھی
مگر گلی کے نکڑ میں مانی اور اس کے دوست کو قہقہ لگاتے دیکھ کر اس کا حلق تک کڑوا ہوا ۔۔۔” وہ جلدی سے دوسری جانب سے ہوتی وہ راستہ ہی بدل گئی۔۔
کہاں گئی تھی تم۔۔۔۔ ؟وہ گلی کا موڑ مڑتی گھر کی طرف گئی مگر اس کی قسمت بڑی تھی جب مانی کے بے ڈھنگی آواز اس کے کانوں میں پڑی ۔۔۔وہ ایک قدم رکتی پھر سے تیز قدم اٹھانے لگی۔۔۔”
اے لڑکی بتاؤ نا۔۔۔۔؟ اس نے پھر سے پکارا اور وہ مٹھیاں بھینچتی واپس پلٹی۔۔۔”
کس حق سے بتاؤں میں کہاں گئی تھی ۔۔۔؟ وہ بڑی ضبط سے کہہ رہی تھی ورنہ سامنے والی شخصیت دیکھ کہ کچھ کہنے سے روک نہ پاتی مگر ضبط کے علاوہ چارہ بھی کوئی نہیں تھا ۔۔۔”
ہائے شوہر ہوں تمھارا کچھ تو خیال کر لیا کرو بیگم ۔۔۔پوچھنا تو فرض بنتا ہیں کہ کہاں گئی تھی ۔۔۔؟
ہونہہ ۔۔۔! ہنہ شوہر __ ۔۔۔ وہ استزائیہ ہنسی تھی۔۔
پتہ ہے اس حلیے میں لوگ جب تمھیں دیکھتے ہونگے؟ تو ان سے یہ خیال کرنا مشکل ہوتا ہوگا کہ مرد ہو یا عورت۔۔۔وہ اس کے لمبے بالوں۔۔۔ہاتھ میں بندھے بے شمار دھاگوں اور پھٹی جینز کی طرف اشارہ کرتی بولی حلیہ بہت عجیب تھا اسکا ………!
نورِ حرم۔۔۔۔مانی نے اس کی چلتی زبان کو دیکھ کر مکرونہ ہنسی ہنستا اس کی طرف قدم بڑھانے لگا۔۔
اسکو اپنی طرف آتا دیکھ کر نورِحرم روح حرم کی روح سنسا کہ رہ گئی ۔۔۔۔! وہ دل میں خدا کا ورد کیے اپنے اللہ کو پکارنے لگی کہ کوئی تو آکہ اس شیطان سے اسے بچالے۔۔۔۔؟
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial