راز وفا

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 12

صبح سے ماسٹر صاحب کے اس چھوٹے سے گھر میں چہل پہل تھی چونکہ ستمبر کا تیسرا ہفتہ تھا اس لیے فضا بڑی خوشگوار سی تھی ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا کی وجہ سے ماسٹر صاحب کے چھوٹے سے گھر میں جیسے بہاریں رقص کر رہیں تھیں گھر اتنا بڑا چھوٹا بھی نہیں تھا صحن کی آخر میں پودوں کا سر سبز پوش منظر بھی دیدنی تھی پودوں پہ گلاب کے پھول کی تازگی اور شگفتگی کی حکمرانی تھی مختصر یہ کہ گھر میں چلتی ٹھنڈی ہوا کی وجہ سے قوت و تازگی کی تاثیر تھی برآمدے کے اندر تینوں کمرے صاف ستھرے چمکے ہوئے لگ رہے تھے بیٹھک میں مردوں کے بیٹھنے کا انتظام تھا جبکہ برآمدے میں صوفے لگا کہ آگے پیچھے کرسیاں رکھی گئی تھیں ماسٹر صاحب نے نکاح کے سارے انتظامات اپنی تقلید میں کروائے تھے نکاح کی رسم کا وقت گیارہ بجے کا تھا__”
مانی جو ساری رات گھر سے باہر تھا ابھی گھر میں داخل ہوا شیو بناتے ماسٹر صاحب نے اسے کینہ توُز نگاہوں سے دیکھا تھا مانی نے ایک نظر باپ کو دیکھا جو اس ہی گھور رہے تھے( شیشے کے سامنے وہ باتھ سے باہر بنی چھوٹی سی ڈیوڑھی جس میں بسین کے اوپر شیشہ ٹنگا ہوا تھا جہاں ابا نے اپنی ڈاڑھی کا سامان رکھا ہوا تھا ایک شیشہ ساتھ کیل میں ایک لمبے دھاگے سے کنگھی باندھی ہوئی تھی کنگھی کا باندھنا اس لیے تھا کہ ہر دوسرے تیسرے روز ان کی کنگھی غائب ہوتی اس لیے تنگ آکر انھوں نے یہ انتظام کیا کہ مانی ان کے سامان کو ہاتھ نہ لگائے اور یہ احتیاط صرف اور صرف اپنے بگڑے سپوت کی وجہ سے تھی مگر مانی بھی اپنے نام کا ایک تھا ابا کو ذرا سا اپنے کام میں مصروف دیکھتا تو جلدی سے ابا کی کنگھی سے بال بناتا اور نکل جاتا جس سے ماسٹر صاحب ابھی تک انجان تھے) مانی ان کو دیکھتا لاپروا انداز سے چلتا ہوا چھت کی طرف بڑھ رہا تھا
الو کے پٹھے بغیرت انسان __” نیچے آ میں کتنے دنوں سے تیری حرکتیں دیکھ کہ چپ ہوں تو اسکا مطلب یہ نہیں ہے کہ توُ میری نرمی کا ناجائز فائدہ اٹھائے __”
تیرے کپڑے میں نے تیری ماں سے استری کروا دیے ہیں جا
اور نہا دھو کہ تیار ہو کہ صاف ستھرے کپڑے پہن آج کے دن توُ مجھے اس حلیے میں دکھائی دیا تو میں نے چپل اتار لینی ہے اور پھر مہمانوں کے سامنے تیرا وہ حل کرنا ہے کہ تیری آنے والی سونسلیں یاد رکھیں ___” بھاری رعب دار آواز میں کہتے انھوں نے اس کے کے قدم منجمند کرتے اسے دھمکی دی __”
یاد رہے ابا نکاح آپ کی بیٹی کا ہے آپ کا نہیں__” اسی لیے یہ نو عمر دو شیزاؤں کی طرح بھن سنور کے جب میرے دل پہ چھریاں چلاتے ہیں تو مجھے اپنی پکی پکی مشعوقعہ لگتے ہیں ___” ایک سیڑھی ذرا نیچے قدم رکھتے اس کا انداز ایسا تھا کہ ماسٹر صاحب نے تیکھی نگاہوں سے گھورا وہ جب بھی ایسی بات کرتا ماسٹر صاحب کا الٹے ہاتھ کا تھپڑ اس کے ہوش ٹھکانے لگا دیتا مگر اب تو وہ چھوٹی چھوٹی بات پہ مارنے سے بھی جیسے عاجز آگئے اس لیے وہ جو بھی بکواس کرتا محض اسے گھورنے پہ اکتفا کرتے __”
وہ نہیں جانتے تھے مگر وہ شخص نو سال کی عمر میں پہلی بار باغی ہوا تھا جب ابا نے بغیر کسی غلطی سے مارا تھا اس پہلی بغاوت کی وجہ سے وہ نو سال کا بچہ ساری رات کمرے کے اندر مقید اسٹور روم میں زوروں کی گرمی اور اندھیرے میں بند رہا پھر زارا بیگم کے دباؤ میں آکہ ماسٹر صاحب ساری رات گھر سے باہر ڈھونڈتے رہے انھوں نے مساجد تک میں اعلان کروا دیا تھا لیکن اس کا سراغ کئی نہ ملا صبح جب ماسٹر صاحب واپس آئے تو اسے گھر میں کھیلتا پایا __”
( نو سال کی عمر میں بغاوت کی طرف اسکا پہلا قدم تھا اس کے بعد وہ کئی کئی دن ابا کی مار کی وجہ سے گھر سے باہر رہتا اس واقعے کے بعد تو ابا کو تنگ کرنے کےلیے اس نے جائے پناہ اسٹور روم میں بنالی تھی
گیارہ سال کی عمر میں جب وہ اپنے ہم عمر دوستوں کے ساتھ ریس کے مقابلے میں شہر گیا ابا کو اس بات پہ ڈر تھا کہ کوئی چھوٹی سے عمر میں اسے غلط کاموں پہ نہ لگا دے __” جب اس نے مغرب کے بعد گھر میں قدم رکھا تو ابا نے اسے رسی سے باندھ کہ مارا تھا کہ یہ مار وہ کبھی بھولے گا اور بغیر سوچے سمجھے گھر سے باہر نہیں نکلے گا کبھی کبھی تو زارا بیگم بیٹے کو بچاتے بچاتے خود بھی شوہر کی عتاب کی زد میں آجاتیں تھیں لیکن مانی نے نہیں سدھرنا تھا وہ نہ سدھرا الٹا سدھرنے کی بجائے وہ مزید بگڑتا چلا گیا تھا
میٹرک کے امتحان سے جب وہ فارغ ہوا تنگ آکہ ابا نے اسے شہر کے قریبی ہوسٹل بجوا دیا مگر چار سال کے بعد وہ گھر آیا تو اسکا حلیہ مزید بگڑا گیا پھٹی جینز ، کانوں میں مندری پہنے لمبے بال رکھ کے گلیوں میں گھومنا ، اکثر راتیں وہ راتوں کو گھر میں ایک دو بجے قدم رکھتا ، زیادہ تر وہ گھر سے غائب ہی رہتا تھا اسے انسان بنانے کےلیے کافی سوچ و بچار کے ساتھ انھوں نے اسکا نکاح نورِ حرم کے ساتھ کروا دیا مگر وہ انسان بنے والی چیز ہوتا تو پہلے ہی بن جاتا___”)
بکواس بند کرو اپنی جو کہہ رہا ہوں چپ چاپ وہ کرو جلدی ___” سر جھٹکتے انھوں نے اسے گھورا تھا
مانی جلدی کر___” نہا لے علیزے کے سسرال والے رسم کی ادائیگی کیے آ رہے ہیں توُ تیار ہوجا ___’ اندر سے زارا بیگم نےاسے ابا کے ساتھ بحث کرتے دیکھا تو ہانک لگائی ماں کی آواز پہ وہ قدم برآمدے کی طرف بڑھا گیا تھا
کچھ دیر بعد وہ نہا کہ سفید سوٹ پہن کہ باہر نکلا اور ایک چور نگاہ گھر کی جانب ڈروائی جب یہ اطمینان ہوگیا کہ ابا بیٹھک میں ہیں جلدی سے تولیے سے بال رگڑتا ڈیوڑھی میں آتے ابا کی کنگھی سے بال بناتا برآمدے کی جانب بڑھ گیا تھا۔۔۔
سفید کاٹن کے سوٹ پہنے وہ اندر گیا بھر کہ سرما اپنی آنکھوں میں لگایا لمبے بال سنوارتا گردن میں مندری پہنتا وہ طائرانہ نگاہ خود پہ ڈالتے سیٹی کی دھن بجاتا گھر سے نکلا تھا ۔۔۔”
مانی آج کے دن کہاں جا رہے ہو تم ___” علیزے جو اپنے کپڑے استری کر رہی تھی آج پہلی دفعہ چہک کہ بولی تھی
جنت میں ___” یہ کہتے لحظہ بھر کےلیے رکا تو علیزے نے اسے تیکھے چتونوں سے گھورا چند ثانیے تو وہ اسکے چمکتے سے نظریں ہی نہیں ہٹا پایا __”
کہہ تو ایسے رہے ہو جیسے سارا دن مصلہ تم نے ہی بچھایا ہوتا ہے __” تمسخر سی ہنسی اڑاتے اس نے مانی کو پلٹ کہ جاتا دیکھا__”
کیوں جنت میں جانے کےلیے صرف مُصلے کا بچھا ہونا ضروری ہے ___؟ پھر سے رک ایک قدم پلٹ کر کہا گیا
باتوں کو گمھاؤ بات ___” آج کے دن بھی کئی اپنے لفنگے نشئی دوستوں میں بیٹھ کہ ابو کو میرے سسرال والوں کے سامنے ذلیل نہیں کروانا __” وہ منہ بناتی اپنے کپڑے استری کرتی طنزیہ سی بولی جیسے اپنے نکاح کے موقع پہ مانی کا یہ حلیہ پسند نہ آیا ہو___”
کیوں تیرے سسرال والے ححج کرکے آ رہے ہیں جو ان کےلیے پھول لے کہ دروازے میں کھڑا ہو جاؤں __” کہہ تو ایسے رہی ہے جیسے سسرال والے نہیں عمرے سے واپسی والے مبارک لوگوں کا قافلہ آ رہا ہو__” وہ بھی اپنے نام کا ایک تھا ادھار چکانا تو جیسے خود پہ فرض سمجھتا تھا__”
سر پہ ڈوپٹہ کرو اپنے یہ__” ہر وقت دانت نکال کہ ہنستی ہو تو زہر لگتی ہو مجھے___” پٹہ تو کتے کے گلے میں بھی ہوتا ہے
اگر ان بالوں کو ڈھانپ نہیں سکتی تو پٹرول لا دوں گا ماچس کی تیلی سے ان کو آگ لگا لینا پھر نہ نہ ڈوھولا ہوگا نہ رولا ہوگا__” اس کے چہرے پہ رنگت روشن کرنے کا ماسک لگا ہوا دیکھ کہ وہ جل ہی تو گیا جب سےآیا تھا وہ اسے مختلف کریموں کا مساج کرتے دیکھ رہا تگا ویسے تو وہ ہر وقت ڈوپٹے میں رہتی تھی لیکن مانی کو اسے اسطرح جیسے ناگوار گزرا تھا __”
یہ تم اپنے ڈیڑھ سال بڑے ہونے کا روعب میرے سامنے نہ ہی جھاڑو تو اچھا ہی ہوگا مراسی کہیں کے__” کچھ گھنٹوں بعد میرے سسرال والے آئیں گے تو مجھ جیسی شہزادی کی نظریں اتارنے کے پیسے واریں گے پیسے __” وہ نظریں جو کسی مراسی نے لگا دی تھی ___”
شہزادی صاحبہ ___” آپ کے سسرال والوں نے ابھی پیکنگ دیکھی ہے مال نہیں دیکھا پیکنگ کا کیا ہے وہ تو انسان دو تین سو کی کروالیتا ہے کسی بھی سستے سے سستے پارلر سے __” اس کا اشارہ اس کے چہرہ پہ لگے ماسک کی طرف تھا گویا ساری خوبصورتی کا کمال ہی میک اپ ہو__
کمینہ گھٹیا انسان __خود کو کبھی شیشے میں دیکھا ہے دور سے بندہ پہچان لیتا ہے کہ عابد خانم سر لگانے کےلیے جتن کر رہے ہے___”وہ جو اس کی بات پہ حیرت سے منہ کھولے کھڑی تھی سمجھ آنے پہ اس کے لمبے بالوں پہ صلوتیں سناتی چیخ پڑی جو اب داخلی دروازے سے باہر تھا _
کچھ دیر بعد وہ خود کو ٹھنڈا کیے منہ دھونے کےلیے بیسن کی طرف آئی تھی اور ماسک اتارنے لگی تھی_
❤❤❤❤
تقربیاً ڈیڑھ بجے وہ گھر پہنچا تو گھر میں چہل پہل سی تھی ابا کو مہمانوں کے ساتھ خوش گیپوں میں مصروف دیکھ کہ وہ بیٹھک کی طرف بڑھا سب لوگوں نے ایک عجیب سی نظر سے اسے دیکھا __”
جہاں پہ اسکا ہونے والا بہنوئی صائم بیٹھا ہوا تھا مانی نے اسے دیکھتے آگے بڑھ کہ صائم کو مصافحہ کیا تو وہصائم وہ واحد تھا جو خود بھی اٹھتا نہایت ہی گرم جوشی سے اسکے گلے لگا تھا صائم نے اس شخص کے حلیے پہ نہیں دیا شاید وہ دلوں کا بادشاہ تھا جس نے اس کے ظاہر کی طرف نہیں دیکھا ابا کی گھورتی نگاہیں خود پہ پاتا وہ صائم کے ساتھ ہی صوفے پہ ٹک گیا ___
تقربیاً بیس منٹ بعد مولوی نے صائم سے نکاح کی رضا مندی کا پوچھا تین باہر اس کے اثبات میں سر ہلنے کے بعد اس نے نکاح نامے پہ دستخط کیے تو مولانا ، ماسٹر صاحب اور علیزے کا سسر بیٹھک کی گھر کے اندرونی جانب کھلتے دروازے سے باہر نکلتے برآمدے کی طرف داخل ہوئے تھے
علیزے کے قبول و ایجاب کا سلسلہ طے پاتے ہی مبارک باد کا شور گونج اٹھا ابا نے علیزے کے سر پہ ہاتھ رکھا تو وہ شدت سے رودی علیزہ کی نند نے یہ کہہ کہ اسے بمشکل چپ کروایا کہ رخصتی نہیں فلحال تو ہم نکاح کر رہے ہیں پاگل__”
اس کے بعد سلامی کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا کچھ دیر بعد صائم کو علیزے کے سنگ بیٹھا دیا گیا تھا اپنی ماں کے کہنے پہ صائم نے علیزے کو انگوٹھی پہنائی تو علیزے کے دیور نے سب جوڑیوں کی باری باری تصویریں بنائیں تھیں
آخر میں زارا بیگم نے نورِ حرم کی طرف اشارہ کیا دوسرے لفظوں میں مانی کے سنگ بیٹھنے کا حکم دیا جو ہلکے کم والے سنبز رنگ کے نفیس سے فراق میں سر پہ سلیقے سے ڈوپٹہ اوڑھے خود بھی بہت نفیس لگ رہی تھی مانی جانتا تھا وہ اس کے ساتھ نہیں بیٹھے گی اس لیے ایک ٹیڑھی نگاہ اٹھا کہ کرسی پہ بیٹھی نورِ حرم کی جانب دیکھا اور پھر نظر پلٹی ہی نہیں تھی وہ کتنے دیر اس کے چہرے کی ملاحت میں کھویا نورِ حرم نے تو اسے دیکھنا تک گوارہ نہیں کیا__”
چاچی وہ دراصل مجھے تصویریں لینا اچھا نہیں لگتا نا __” اس نے سہولت سے کہتے انکار کرنا چاہا سب کی نظریں جیسے نورِ حرم پہ ٹک کہ رہ گئی تھی__”
ایسے موقعوں پہ انکار کرنا بہت بُری بات ہے نورِ حرم زندگی میں ایسے موقعے بہت کم ملتے ہیں شوق نہیں بھی ہے تو بھی بنوالو انھوں نے مان سے کہا تو انکا مان نہ توڑو ___”
ایک وقت آتا ہے خوشی غمی پہ انسان نہیں رہتے مگر وہ اور ان سے منسلک خوشگوار یادیں دل میں نقش ہوکہ رہ جاتی ہیں ___” دانت نکال کہ مانی کہا تو سب خواتین ہنس پڑی کہ کتنا اتاؤلا تھا وہ لڑکا اپنی بیوی کے ساتھ تصویر بنانے کےلیے___”
صائمہ بیگم نے نرمی سے کہا تو ناچار وہ اٹھتی علیزے کے ساتھ بیٹھی مانی بھی مسکرا کہ صائم کے ساتھ ٹک گیا تھا لب پیوست کیے وہ پہلی بار سنجیدہ
انداز میں بیٹھا تھا تصویروں کا مراحل طے ہوتے ہی وہ اٹھ کھڑے ہوئے تھے__”
❤❤❤❤
سارے مہمان رخصت ہوگئے تھے علیزے نکاح کے بعد کپڑے تبدیل کرکے گھر کی صفائی کےلیے کمر باندھ لی
ساری کرسیوں پہ ترتیب سے ان کی جگہ سیٹ کیا ویسے تو نور حرم سارے برتن دھو کہ گھرچلی گئی کیونکہ اسکے ٹیوشن کے بچوں کا وقت ہوگیا اس لیے معذرت کرتی تقربیاً دس منٹ پہلے ہی گھر گئی تھی ماسٹر صاحب اپنے بک ڈپو پہ چلے گئے اب ان کی واپسی رات کو ہی تھی اماں صائمہ تائی کے پاس چلی گئیں ۔۔۔”
علیزے نے برآمدے سے صفائی شروع کر دی جب برآمدے کو چمکا کہ فارغ ہوئی تو دہک سے رہ گئی تھی صوفے پہ مانی بیٹھا ہوا تھا اس کی آنکھیں سرخ تھی وہ صوفے پہ بیٹھا ٹانگوں پہ ہاتھ رکھے وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا جو کمر کے گرد ڈوپٹہ کس کے صفائی کر رہی تھی __”
مانی ___” کیا ہوا ہے__؟ڈوپٹہ کی گرہ کھولتے وہ اپنے گرد پھیلائے صوفے کے قریب جاتے ہوئے بولی__”
بل بتھوڑی توُ اتنی جلدی ہم سب کو چھوڑ کہ چلی جائے گی __” بس تین ماہ اور ہمارے پاس رہے گی اس کے بعد تُو ہمارے گھر کے آنگن کو ویران کر جائیگی __” شدت گریہ زار آنکھیں اس کے چہرے پہ جمائیں وہ بچوں کے سے انداز میں بولا اس کہ انداز میں معصومیت ہی ایسی تھی کہ علیزے اس کے نزدیک صوفے پہ بیٹھ گئی
تو کیا ہوا میں تم لوگوں سے ملنے آجایا کروں گی __” اس میں اتنی دکھی آتمہ بننے کی ضرورت تو نہیں ہے ویسے __” وہ اس کے بال کھنچتے اس کی آنکھوں میں چھائی سرخی دیکھ کہ بولی __”
مگر پھر تو بہینں پرائی ہو جاتی ہیں ___” فرمائش کرتے ہوئے بھی ڈرتی ہیں __” یہ کہتے وہ اسے اپنے ساتھ لگا گیا آنکھوں سے کچھ باغی آنسوؤں نکل آئے کہنے کو وہ اس سے ڈیڑھ سال بڑا تھا مگر ایسے لگتا ابھی ایسے لگ رہا تھا جیسے دس سال چھوٹا ہو مانی نے اس کہ سر پہ پیار دیا تھا__”
مانی کے بچے کیا ہوا ہے ___؟ علیزے نے اسے الگ ہوتے تشویش سے پوچھا ___
بچہ پیدا ہوا ہے میرا __” اس لیے رو رہا ہوں بل بتھوڑی کہیں کی آنکھ میں کوئی چیز چلی گئی تھی کب سے آنکھیں جھپکا رہا ہوں مگر درد ہے کہ بڑھتا چلا جا رہا ہے ___” اس نے دائیں آنکھ کہ پپوٹے کے نیچے انگلی پھرتے زچ ہوکہ کہا تھا_
کمینے انسان مجھے لگا کہ تم میری جدائی کا سوچ کہ رو رہے ہو ___” وہ جسے آج پہلی بار اسے اپنے بھائی پہ لاڈ آیا اس کی بات تو اسکا دل کیا کہ مانی کا سر پھاڑ دے __”
جاؤ کہ منہ دھو رکھو بل بتھوڑی کہیں کی مانی اور تیری جدائی کےلیے وہ بھی تین مہینے پہلے روئے گا جس دن تیری رخصتی ہوگی اس دن میں تو شکرانے کے سو نوافل ادا کروں گا کہ کالی بلا میرے اوپر سے ٹل گئی وہ اسکا کھلا ہوا منہ دیکھ کہ ہنس کر قہقہ لگاتے بولا__”
خومخواہ میں میرےاتنے قمیتی آنسؤں ضائع کرا دئیے توُ نے بل بتھوڑی ___” یہ کہتے اس کے بڑے سے پھیلے ڈوپٹہ ک کونہ اٹھا کہ آنسو صاف کرتے وہ غم سے بولا جیسے آنسؤ نہیں اسکا خو”ن بہا ہو___”
اچھا صبر تم ادھر ہی بیٹھو میں آ رہا ہوں ___” اسے گھورتے دیکھ کہ وہ گڑ بڑا یہ کہہ کہ اندر چلا گیا___” کچھ دیر بعد اس کے ہاتھ میں خشک میوہ جات پھل فروٹ کا ٹوکری تھا جو علیزے کے سسرال والے رسم و رواج کے مطابق لے کہ آئے تھے
مانی یہ اسے چپ چاپ واپس رکھ کہ آکہ یہ میرے سسرال والے لائیں ہیں لہذا اس پہ میرا حق ہے __ ” اس کے ہاتھ میں اپنی چیز دیکھنا تو علیزے کےلیے سوہان روح تھا___”
بہن بھائیوں میں کیا تیرا کیا میرا ___” یہ جو صرف میرا میرا کرتے ہیں یہ بڑے کمظرف لوگ ہوتے ہیں دنیا تو ان کی ہوجاتی ہے لیکن پھر آخرت ان کہ نہیں رہتی ___”
میں جانتا ہوں بل بتھوڑی توُ میری نیک بہن ہے آخرت تیری پہلی ترجیح ہوگی __” وہ ٹوکری کو کھولتا چیزیں نکالتا بول رہا تھا
میں تو نیک ہوں __مگر تمھارا نہیں پتہ تمھاری اتنی نیک باتیں ہضم نہیں ہو رہی مجھے __” اس نے کہتے جیسے ہی منہ پھیرا مانی کو کرتے کی جیب میں چیزیں ٹرانسفر کرتے دیکھا تو بنا چپل پہنے اس کی طرف بھاگی تھی
کچھ ہی پل میں دونوں کے لڑنے کی وجہ سے بر آمدے میں چیزیں بکھری ہوئی تھیں ٹوکری میں سے آدھی چیزیں نکل کہ صوفے کے نیچے چلی گئیں زارا بیگم تائی کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں ان کے لڑنے کی واضح آواز سنائی دی تو وہ جلدی سے گھر پہنچی آگے ان کو ہاتھا پائی میں مصروف دیکھ کہ انھوں نے اپنا سر پیٹ لیا تھا
❤❤❤❤
اوئے چاچا چل نکل یہاں سے صرف تین مہنیے کا کہا تھا مگر توُ تو سانپ ہی بن کے بیٹھ گیا ___”
شام کا وقت تھا مانی جیدی اور محمود کے ساتھ سوٹوں کے ساتھ شغل لگا رہا تھا جب اسے کچھ شور سنائی دیا وہ سمینٹ کے بنے تھڑے سے اٹھتا جیسے ہی نیچے اترا تو سامنے ارباز رازق چاچا کا گریبان پکڑے کھڑا تھا رازق چاچا کے چہرے کی رنگت اڑی ہاتھ کانپتے دیکھتے معاملے کو سمجھنے کی کوشش کرتا چاچا کی دکان کھڑا ہوگیا تھا__”
خدا سے ڈر ارباز ___یہ سٹور میری حق حلال کی کمائی ہے تیرے باپ نے میری ہر چیز پہ قبضہ کرلیا میں نے ہر چیز تیرے باپ کے نام کردی ہوٹل تک تیرے باپ نے مجھ سے چھین لیا لیکن اب یہ سٹور مرتے دم تک نہیں دوں گا میری اولاد کے رزق کا ذریعہ ہے یہ سٹور ___”
دیکھ ارباز میرے جیتے جی یہ ممکن نہیں ہے ہاں اگر میں مرگیا تو میری قبر کو لات مار کہ یہ اسٹور بھی اپنے نام کروالینا مگر میری زندگی میں اپنے بچوں کے ساتھ یہ نا انصافی نہیں ہونے دے سکتا اپنے جیتے جی تو میں ان پہ آنچ نہیں آنے دوں گا میرا مر”نے کے بعدا خدا مالک ہے انکا__”
رازق چاچا بے بسی کی عملی تصویر لگ رہے تھے ان کے ہاتھ کانپ رہے تھے شکل و صورت سے کمزور لگ رہے تھے مگر اولاد کےلیے وہ تو جیسے مرنے کےلیے تیار ہوگئے __”
ارباز رازق چاچا کا بھتیجا تھا یہ واویلا تو سب دکانداروں اور لوگوں کےلیے روز کا تماشہ تھا ہر دوسرے تیسرے دن پنتیس سالہ ارباز اپنی طاقت کے بل بوتے پہ
روز تماشہ اور پورا محلہ یہ تماشہ دیکھتے مگر کوئی بھی مدد کےلیے آتا کچھ تو جیسے اس فری کے تماشے سے محفوظ ہوتے تھے آج بھی سب دکانوں سے نکل آئے تھے
دیکھ چاچا بکواس مت کر میرے غیرت مند باپ کے خلاف نہیں تو میں تیری ہڈیاں توڑ دوں گا ___” وہ چیختا ہوا بولا جیسے اپنے باپ کےلیے یہ سننا پسند نہیں آیا تھا__”
مرد کا بچہ ہے تو ہاتھ لگا کہ دکھا __” اس سے دوگناہ اونچی آواز میں بولتے مانی نے قدم دکان کے اندر بڑھائے تھے اس کے بولنے کی اتنی غراہٹ تھی کہ سارے ساکت و صامت جہاں کے تھے وہاں کھڑے رہ گئے تھے __”
اوئے چھوٹے توُ بیچ میں مت بول یہ میرا اور چاچے کا معاملہ ہے تیرے ابھی بنٹے کھیلنے کا دن ہے تو وہ جا کہ کھیل ___”
ہاں چاچا کیا سوچا توُ نے دیکھ آخری بار پوچھ رہا ہوں آرام سے مان جا دستخط کر دے __” اپنی اولاد کا کمزور سا ہی سہی مگرسہارا تو ہے نا__” کچھ ان کا خیال کرلے
ہمدردی و افسوس سے کہتے اس نے قہقہ لگایا تھا __
توُ جو کچھ کر لے ارباز لیکن میں نہیں کروں گا دستخط __”
چاچا مجبوری ہے میری __کیونکہ تجھے عزت راس نہیں آتی کیا کروں میں پھر آخری موقع دیا توُ نہیں مانا اس ے زیادہ میں کیا کرسکتا ہوں __”
ارباز نے یہ سنتے ڈنڈا اٹھا لیا کہ ایک دو لگا کہ سٹور اپنے نام کروا لے گا وہ انکے نزدیک جانے لگا جب رازق چاچا نے پیچھے کی جانب لینے لگے تھے آخر سٹول کے ساتھ لگنے سے پیچھے کی جانب گرے کچھ ہی دیر میں چیخ کی سنائی دی یہ چیخ رازق چاچا کی نہیں تھی بلکہ ارباز کی تھی
آخری موقع دیا تھا نا ہاتھ نہیں لگانا __” مانی نے ارباز کے ہاتھ سے ڈنڈا کھینچ کر پھینکا اور پھر گریبان سے پکڑ کہ اٹھا کہ دکان سے باہر پھینکا تھا ارباز درد سے کرا رہ تھا
تُو چھوٹا موٹا بدمعاش ہے نا __” مانی محلے کا نامی گرامی بدمعاش ہے ہر بری خصلت اس میں پائی جاتی ہے
اس لیے کہتا تھا ذرا بچ کہ رے __”
کچھ دیر پہلے اسکے کہے گئے الفاظ اسی کے انداز میں لوٹاتے مانی اس کے اوپر جھک کہے اور اعزاز کی صورت میں تھپڑ اس کہ منہ پہ مارا اس کے الٹے ہاتھ کے زناٹے دار تھپڑ سے ارباز کا کام تمام کر دیا تھا یکے بعد دیگرے جب منہ پہ تھپڑ پڑے تو ارباز کو اپنے آنے کا مقصد بھول گیا تھا ارباز یہ دیکھ کہ رہ گیا اپنے سے دوگناہ چھوٹے لڑکے کے ہاتھوں کھلونا بن کہ رہ گیا تھا
ماحول میں مو” ت سے پہلے کی خاموشی کا سکوت تھا سوئی بھی گرتی تو آواز صاف سنی جاسکتی تھی سب منہ کھولے اسے دیکھ رہے تھے وہ نشئی تھا شرابی تھا
باغی تھا خود سر تھا لیکن اپنے سے کمزور انسان کے ساتھ ناانصافی نہ کرتا تھا اور نہ ہوتے دیکھ سکتا ہے ناانصافی ہوتے دیکھ کہ چپ رہنا تو وہ نشئی انسان اپنی شان کے خلاف سمجھتا تھا۔۔۔
وہ اندر گیا ڈنڈا اٹھایا اور رازق چاچا کو ہاتھوں سے تھام کہ اٹھاتا باہر لے کہ آیا ڈنڈا رازق چاچا کے ہاتھوں میں تھمایا_”
یہ لو چاچا ___” اور اتنا اس خبیث کی اولاد کو اتنا مر
مار کہ جب تک اس کی دی گئی اذیت کم نہ ہوجائے __” وہ ایک تنبہیی نگاہ ارباز پہ ڈالتے پیچھے کھڑا رازق چاچا کہ ہاتھ کانپنے لگ پڑے __”
چاچا میں جو کہہ وہ کرو__” توُ جتنا ڈرے گا یہ دنیا تجھے اتنی ہی ڈرائے گی چچا ڈر کو اپنے اندر سے ایسے نکال جیسے سوتے ہوئے اپنے سارے غم نیند کے حوالے کر دیتا ہے
اس کی یہ کہنے کی دیر تھی چچا نے زور دار ڈنڈا ارباز کو مارا اور پھر یکے بعد دیگرے مارتے چلے گئے پھر ہانپ کہ ڈنڈا پیچھے پھینک دیا تھا
اب بتا چاچا تیرے بھتیجے کو کندھے پہ بیٹھا کہ تیرے غیرت مند بھائی کے پاس چھوڑ کہ آوں یا گھسیٹ کے؟ ___” ایک نظر کراہتے ہوئے ارباز کی جانب دیکھتے لفنگے انداز میں آنکھ مار کہ کہا تھا __”
نہیں چاچا ___” ایسا نہ کرنا تیرے سگے بھائی کا بیٹا ہوں کچھ خیال کر___” دیکھ چاچا مجھے پتہ ہے میں نے تجھ سے بہت بدتمیزی کی مگر چاچا بس آج معاف کر دے _آئندہ میں کبھی بھی تیرے اور ابا کی لڑائی میں نہیں گھسؤں گا میں نے تو ابا کو منع کیا لیکن ابا نے بہت بے عزت کیا اوپر سے یہ بھی کہا کہ تو مرد ہے تو چاچا سے دستخط کروا کہ لے __” اگر ابا مجھے نہ بہکاتا تو کبھی یہ حرکت کرنے کا نہ سوچتا آج معاف کر دے بس اور اس سے کہہ کہ مجھے آج چھوڑ دے بس اس کے بعد تیرے اور معاملے میں ہرگز نہیں آؤں گا تو جان اور ابا جانے __” میں اپنی آج والی حرکت پہ بہت شرمندہ ہوں __”
وہ کراہتا ہو ہاتھ جوڑ کہ بولا کہ وہ سچ مچ گھسیٹ کہ ہی نہ لے کہ جائیں ___”
چاچا اب تیرا فیصلہ ہے توُ کیا چاہتا ہے ___؟ منہ میں ڈالی ببل کا غبارہ بناتے مانی نے گلے میں پڑی چین کو چھیڑتے کہا اس کی یہ کہنے کی دیر تھی جب رازق چاچا چھلکتی آنکھوں سے اس کے گلے آ لگے__”
آج اگر توُ نہ ہوتا نا تو مانی میرے بچے فاقوں سے مر جاتے آج اسے چھوڑ دے اسکی آخر ی خطا سمجھ کہ__” چاچا نے اس کے ہاتھ چومتے تشکر سے کہا ۔۔۔”
خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں
بنوں میں پھرتے مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس
کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا
(علامہ محمد اقبال)
جیدی دومنٹ کے اندر موٹر سائیکل لے کہ آ اسے ہسپتال لے کہ چلتے ہیں یہ نہ ہو یہ میرے متھے لگ جائے __” وہ چاچا سے نظریں ہٹاتا جیدے سے مخاطب ہوا__”
کچھ دیر اس نے ہاتھوں کے سہارے سے اٹھا کہ اربازکو موٹو سائیکل پہ بیٹھایا ہوسپٹل کےلیے روانہ ہوئے پیچھے سب انھیں حیرت سے دیکھ رہے تھء
وہ پہلا شخص تھا جس نے زخم بھی خود دیا اور مسیحائی بھی خود کر رہا تھا
ہائے اوئے __ ارباز کے کراہنے کی آواز آ رہی تھی
اوئے آواز بند کر اپنی ___” میرے پاس فیڈر نہیں ہے اور نہ میں تیری ماں ہوں جو تجھے ننھے کاکوں کی طرح بہلاؤں گی چپ کرکے ہسپتال تک بیٹھا رہے یہ نو ہو کہ تجھے مزید زخمی کرنا پڑ جائے __” ارباز کی آواز سنتے مانی نے ذرا غصے سے کہا تھا__
اور کچھ نہ کر بس اپنی ٹانگ کے نیچے سے میرا بازو نکال دے کب سے تیری ٹانگ کے نیچے دبا ہوا ہے مجھے درد ہو رہا ہےhai بازؤں میں ___گھگھائی انداز میں ارباز نے کہا کہ یہ نہ ہو مانی پھر سے اسے مارنا شروع کر دے اور ہوا بھی یہ جب اس کی آواز آتی مانی اپنے ہاتھوں کا فرض ادا کرتا جس نے پہلے زخم دیا اب پھر مار مار کہ علاج کروانے کےلیے لے کہ ہسپتال لے کہ جا رہا تھا__”
انھوں نے ہوسپٹل کے آگے بائیک روکی تو ارباز نے اپنے زخموں سمیٹ گہرا سانس بھرا تھا اس کے دل میں ایک دعا تھی کہ کسی دشمن کو مانی کی مار نہ مارے جیسے اس کو پڑی تھی __”
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial