قسط 1
وہ سفید بے داغ خوبصورت وھائٹ ڈریس میں گلابی پھولوں کے درمیان کھڑی تھی کھلا آسمان سہانا موسم مہکتے گلاب لیکن اسکی نظر کسی کو تلاش رہی تھی دور کہیں کسی کو ڈھونڈ رہی تھی خاموش ماحول میں گھوڑے کے پیروں کی چاپ کی آواز گونجنے لگی اسکے ہونٹوں پر ہلکی سی ہنسی نمودار ہوئی کوئی برق رفتاری سے دوڑاتا ہوا سفید گھوڑا اسی جانب لئے آرہا تھا اور اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو رہی تھی بہت تیز سب کچھ بہت دھندلا تھا لیکن جیسے جیسے وہ نزدیک آرہا تھا سب منظر صاف ہونے لگا تھا بلیک پینٹ أور بلیک ہی شرٹ پہنے چہرے کالے کپڑے سے ڈھکا ہوا تھا صرف آنکھیں نظر آرہی تھی جس میں بلا کی سنجیدگی تھی اس کے قریب آکر وہ گھوڑے سے نیچے اتر ..وہ اب اس کے بہت قریب کھڑا تھا اور مسلسل اسکی آنکھوں میں دیکھ رہا تھاوہ بھی اس کی بولتی آنکھوں میں دیکھنے سے گریز نا کر سکی کتنے ہی پل یوں خاموشی سے گزر گئے اس نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا تاکے شہزادے کے چہرے سے نقاب ہٹا کر اسکا چہرا دیکھ سکے بس چند پلوں کا انتظار باقی تھا اس کے بعد یہ پردہ اٹھ جانے والا تھا لیکن اچانک سے کہیں شور سا سنائی دیا کوئی اسے پکار رہا تھا
ماہی…..ماہی……… اٹھ بھی جاؤ….. کب تک سوتی رہوگی
عائشہ نے اسے نیند سے جگایا تو وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی اور اطراف میں دیکھنے لگی وہ اب بھی خواب کے سحر میں تھی عائشہ اسے حیرانی سے دیکھنے لگی
کیا ہوا ماہی ……….
عائشہ نے حیرانی سے پوچھا
اففف ……عاشی تھوڑی دیر بعد جگاتی تو کیا ہو جاتا
اس نے خفگی سے کہا جب کہ عائشہ کی حیرت قائم تھی
کتنا خوبصورت خواب دیکھ رہے تھے ہم …..ہمارا شہزادہ……… آج اپنے سفید گھوڑے پر ہم سے ملنے آیا تھا بس اس کا چہرہ دیکھنے ہی والے تھے لیکن تم…..
اس نے مدہوش لہجے میں کہا پھر ایکدم سے غصہ ہو کر بولی
افف اللہ ……..تم اور تمہارا شہزادہ……………راجکماری ماہی شیخ زرا ان خوابوں کی دنیا سے باہر نکلو پاپا کب سے تمہیں بلا رہے ہیں اٹھو
عاشی اس پر برس پڑی
اچھا ٹھیک ہے…… تم چلو ہم آتے ہے
اس نے انگڑائی لیتے ہوے کہا عائشہ مسکراتی ہوئ باہر چلی گئی
ہمارا شہزادہ……
اس نے مسکراتے ہوئے ایک گہری آہ کے ساتھ کہا
+++++++++++++++++++++++
اسلام علیکم نانی
علی باہر سے گھر آیا تو حسینہ بیگم ڈراونگ روم میں صوفے پر موجود تھی اس نے سلام کیا اور ان کے قریب ہی صوفے پر بیٹھ گیا انہوں نے پیشانی پر پیار کرتے ہوئے اسے سلام کا جواب دیا
وہ انکی اکلوتی بیٹی کا سب سے چھوٹا بیٹا تھااور ان دنوں چھٹیوں میں یہاں آیا یہاں ہوا تھا
یہ سب کیا ہے نانی
اس نے سامنے ٹیبل پر ڈھیر سارے سجے سجائے تھال اور ٹوکریاں دیکھ کر پوچھا وہ ایک پل.خاموش رہی پریشانی ان کے چہرے سے عیاں تھی
بیٹا ……..تم تو جانتے ہو حارث کو ……کچھ فیصلہ کر لے تو اسے سمجھانا نا ممکن ہے……یہ سب اسی کے کہنے پر ہم شیخ صاحب کے گھر جانے کی تیاری کر رہے ہیں
انہوں نے بے بسی سے کہا
لیکن نانی… بھائی …وہ کبھی نہیں مانینگے آپ جانتی ہے نا….
علی نے گویا انھیں یاد دلایا تب ہی ثرّیا بیگم وہاں آئی علی نے انھیں سلام کیا
بلکل سہی کہہ رہے ہو بیٹا تم لیکن کیا کریں حارث صاحب بھی کچھ سننے کو تیار نہیں ہے دونوں اپنی ضد پر قائم ہے میں تو دونوں کو سمجھا سمجھا کر تھک گئ ہوں لیکن کوئی اثر نہیں ہے… کچھ سمجھ نہیں آرہا کیا ہو رہا ہے
ثرّیا بیگم نے سر تھام لیا
مامی جان آپ فکر نا کریں سب ٹھیک ہوگا
علی نے ان کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر تسسلی دی وہ ہلکا سا مسکرائی
تینوں باتوں میں مصروف تھے جب آہل گھر میں داخل ہوا کان میں بلوٹوتھ لگائے کسی سے بات کر رہا تھا چہرے پر گہری سنجیدگی اور غصہ تھا بلیک فارمل سوٹ میں کلائ پر سلور گھڑی پہنے ایک ہاتھ پینٹ کئ جیب میں …..
ایک کام کہا تھا وہ بھی نہیں ہوا تم سے…….تم اچھی طرح جانتے ہو مجھے کام میں کوتاہی ہرگز پسند نہیں ہے سب کمپلیٹ کر کے مجھے آج کے آج ہی ریپورٹ چاہیئے دھیٹس اٹ…….
اس نے سخت لہجے میں کہا اور فون کٹ کیا
.یہ سب کیا ہے مام….
.
. اس نےٹیبل کی جانب اشارہ کر کے کہا ثرّیا بیگم اور دادی نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا
بیٹا…… وہ…… یہ سب شیخ صاحب کے گھر…………
انھوں نے ہچکچاتے ہوئے کہا
……… what the hell
اس نے ثرّیا بیگم کی بات کاٹ کرغصّے سے کہا
میرے منع کرنے کے باوجود آپ لوگ یہ سب کر رہے ہے….. آخر کیوں
اس نے غصّے سے چلّا کر کہا
ہمارے کہنےپر کیا جا رہا ہے یہ سب
حارث صاحب نے سیڑھیاں اترتے ہوئے آرام سے کہا
.
میں کہہ چکا ہوں میں یہ شادی ہرگز نہیں کرونگا
اس نے بنا ان کی جانب دیکھے دبے غصّے سے کہا
.
اور ہم بھی کہہ چکے ہے کہ آپ کی شادی ہوگی تو شیخ صاحب کی بیٹی سے…ہم انہیں زبان دے چکے ہے
اس بار ان کے لہجے میں غصہ تھا ثرّیا بیگم نے انھیں روکنا چاہا لیکن انھوں نے ہاتھ اٹھا کر انھیں آگے بڑھنے سے روک دیا
آپ کو زبان دینے سے پہلے مجھ سے پوچھنا چاہیے تھا
.
اب بھی نظریں نہیں ملائی
ہمیں کسی سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے ہم سہی اور غلط جانتے ہیں اور اس گھر کا ہر فیصلہ لینے کا حق رکھتے ہے
.
یہ فیصلہ میری زندگی کا بھی ہے اور میں اپنی زندگی میں کسی تھرڈ کلاس جاہل گنوار لڑکی کو شامل نہیں کر سکتااس لئے مجھے آپ کا یہ فیصلہ منظور نہیں ہے
اب کے وہ ان کی جانب دیکھ کر بولا سب ہی اپنی جگہ بہت پریشان تھے لیکن کچھ کہنے کی نا اجازت تھی نا ہمّت
بھائی پلیز …..
علی نے اگے بڑھ کر اسے روکنا چاہا لیکن اس نے جیسے سنا ہی نہیں
جسے ہمارا فیصلہ منظور نہیں ہمیں اس سے رشتہ رکھنا منظور نہیں…..
.
انھوں نے غصے سے کہا
.
حارث …….یہ کیسی باتیں کر رہے ہو تم
.
دادی نے بات کو زیادہ بڑھتے دیکھا تو گھبرا کر کہا
ہم سہی کہہ رہے ہیں امّی اگر اسے اپنے باپ کی زبان کا عزّت کا خیال نہیں تو ہم بھی بھول جاینگے کے ہمارا کوئی بیٹا ہے
.
انھوں نے ایک ٹک کہا اور باہر کی جانب بڑھ گئے
.
یہ بات ویسے بھی آپ بھول چکے ہے ڈیڈ…..
.
اس نے اسی سمت دیکھ کر زور کی آواز میں کہا تاکہ وہ سن سکے اور خود تیز تیز قدموں سے سیڑھیاں چڑھ گیا
.
یا اللہ یہ سب کیا ہو رہا ہے….
دادی پریشانی سے اپنا سر تھام کر بیٹھ گئی
ثرّیا بیگم نے انھیں سنبھالنے لگیں
نانی پلیز آپ پریشان نا ہو میں بھائی سے بات کرتا ہوں
.
وہ خود جانتا تھا کے اس کے بس میں کچھ نہیں لیکن موقع کی نزاکت دیکھ کر انھیں تسسلی دی
وہ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آیا تو وہ روم میں نہیں تھا علی نے سلائڈنگ ڈور کھول کر باہر آیا جہاں پول سائیڈ ایریا تھا وہ ایک جانب کھڑا پودوں کو پانی دے رہا تھا یہ پودے اسے جان سے زیادہ عزیز تھے وہ پریشان ہو اداس ہو تو وہ یہی کرتا تھا
بھائی…….
علی نے دھیرے سے پکارا
علی پلیز…… اگر تم مجھے سمجھانے یا کوئی لوجک لگانے آئے ہو تو میں تمھیں بتا دوں کہ اس سب کا کوئی فائدہ نہیں میرا فیصلہ نہیں بدلنے والا… اور بہتر ہی ہوگا اگر تم اس سب سے دور رہو
اس نے بنا اس کی جانب مڑے اٹل لہجے میں کہا
لیکن بھائی………….
علی نے کچھ کہنا چاہا لیکن اس نے مڑ کر اسے ہاتھ اٹھا کر روکا
لیو می الون….
علی ہار مان کر باہر نکل گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابراھیم ولا میں کل چھ افراد تھے
حارث رضا ابراھیم جو کے شہر کی جانی مانی ہستیوں میں شمار تھے سماج میں انھیں ایک اہم مقام حاصل تھا
انکی والدہ گھر کی سب سے بڑی حسینہ بیگم
حارث رضا ابراھیم کی بیگم ثرّیا
سب سے بڑی بیٹی رائمہ جو طلاق شدہ تھی
اس سے چھ سال چھوٹا اہل رضا ابراھیم سخت مزاج اپنے بزنس کو آسمان کی بلندیوں تک پھچانے والا
حارث رضا ابراھیم نے اپنے بیٹے کا نکاح اپنے ہی۔ آفس کے ایک ورکر شیخ اقبال صاحب کی بھتیجی سے کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس کے لیے اہل تیار نہیں تھا