قسط 1
چٹھی نا کوئی سندیس
جانے وہ کون سا دیس
جہاں تم چلے گئے
اس دل پے لگا کے ٹھیس
جانے وہ کونسا دیس
جہاں تم چلے گئے
جہاں تم چلے گئے
بیشک یہ بہت ہی درد بھرا گیت ہے ایسا کے سننا والا رودے لیکن اگر اس وقت کوئی مہک ابرار احمد کو یہ گیت گاتے سن لے تو ہنستے ہنستے پاگل ہوجائے بلکہ اگر گیت کار اپنے لفظوں کی ایسی بے قدری دیکھ لے تو ہمیشہ کے لیے توبہ کرلے آواز تو اچھی تھی لیکن نا سر نا تال نا دل کا استمعال نا دماغ کا بس زبان سے الٹی سیدھی آوازیں نکال کر ٹائم پاس ہو رہا تھا
لان کا یہ حصہ خاص اس کے نام تھا جہاں ہر خوبصورت سے خوبصورت پھول اور پودے اکٹھا تھا جن کا خیال وہ خود رکھتی تھی اس وقت بھی ایک ہاتھ میں پائپ تھامے پودوں کو پانی دے رہی تھی گانا گاتے ہوئے دوسرا ہاتھ کبھی دہائی کے انداز میں پیشانی تک جاتا تو کبھی دل تک اور چہرے کے زاویے تو اللہ معاف کرے
اس دل پے لگا کے ٹھیس
جانے وہ کونسا دیس
جہاں تم چلے گئے
جہاں تم چلے_——
کان کے قریب ایک انجانی آواز سے اُسے بریک لگ گیا
جانم دیکھ لو مٹ گئی دوریاں
میں یہاں ہُوں
یہاں ہُوں
یہاں ہُوں یہاں
خوبصورت آواز دھیما لہجہ کسی نے اس کے گیت کا جواب دیا تھا ایک پل کو لگا وہم ہے تسلی کے لیے جب مڑی تو ساتھ میں پائپ بھی مڑا اور سامنے والے کو بن بادل برسات کے اچھے خاصے دیدار کروادیے بیچارہ پہلے تو گھبرایا اور دو قدم پیچھے ہوا لیکن اگلے ہی پل گھبراہٹ مسکراہٹ میں بدل گئی جبکہ مہک کے چہرے پر حیرانی کے سوا کچھ نہیں تھا پائپ اسی پوزیشن میں سامنے والے کو بھگو رہا تھا اور وہ شاک سی ہوکر یہ سوچ رہی تھی صبح سے پڑھے جانے والے ناول کا اثر تو نہیں جو یہ گمان ہو رہا ہے کے اس کا ہیرو سامنے کھڑا ہے
سفید رنگت خوبصورت نقوش چھ فٹ ہائیٹ سٹائل سے سیٹ کیے براؤن بال براؤن آنکھیں بلیک شرٹ بلیو جینس پہنے بلکل ویسا ہی تو ہے
کیا آپ کے یہاں ہر کسی کا ویلکم ایسے ہی کیا جاتا ہے
مہک کا ارادہ نہ پاکر بیچارے کو کہنا ہی پڑا وہ ہوش کی دنیا میں آئی اور کرنٹ کھاکر پائپ نیچے پھینکا
او تیری_——
ج–ج–جی و وہ ہ میں—–س س —-
وہ جب بھی گھبراتی لفظ اور آواز ساتھ ہی نہیں دیتے تھے
میں— مجھے لگا
بہت افسوس ہوا جان کر کے آپ ہکلی ہے
وہ واپس دو قدم آگے آیا
جی؟
مہک کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی
جی ہاں— آپ اتنی خوبصورت ہے لیکن دیکھیے نا یہ ہکلانے کی بیماری دیکر خدا نے آپکے ساتھ کیسی زیادتی کردی
وہ شکوہ کنان نظروں سے آسمان کو دیکھنے لگا
او ہیلو آپ سے کس نے کہا میں ہکلی ہوں
وہ غصے میں آگئی
لیجئے ابھی میں نے خود سنا آپ نے جیسے ج ج جی و و وہ کہا کیا وہ ہکلانا نہیں ہے
اس نے باقاعدہ نقل اتاری
ارے وہ تو آپ کو اچانک سامنے دیکھ کر میں گھبرا گئی تھی اسلئے زبان لڑکھڑا گئی اس کا مطلب یہ تو نہیں کے میں ہکلی ہوں
وہ حیرت اور غصے سے بولی
اوووو تو یہ بات ہے—
جی بالکل یہی بات ہے— کسی کو جج کرنے سے پہلے انسان کو تسلی کر لینا چاہیے کہ حقیقت کیا ہے آپ یونہی بنا جانے کیسے——-ایک منٹ
کچھ دھیان میں آتے ہی لفظوں کو بریک لگ گئے
ویسے آپ ہے کون اور یہاں کیا کر رہے ہے
سامنے والے نے اس کے حیرت زدہ چہرے کو دیکھتے ہوئے دونوں ہاتھ سینے پر باندھدے
ارے واہ—- جلدی خیال آگیا آپ کو تعارف کا—– مجھے تو لگا آپ پہلے مجھے کھانا پانی دینگی پھر پوچھیں گی میں کون ہوں
مصنوعی حیرت سے بولا
باتیں مت بنائیں کون ہے آپ اور آپ کو اندر کس نے آنے دیا
اس نے ارد گرد نظریں دوڑا کر کسی کو تلاشنا چاہا لیکن کوئی نظر نہیں آیا
مجھے اندر آنے کے لیے کسی کی اجازت درکار نہیں ہے میں اپنی مرضی کا مالک ہوں
وہ کالر جھاڑتے ہوئے بولا
دیکھیے آپ جو بھی ہے چلے جایئے یہاں سے ورنہ میں آپکو زبردستی باہر نکلواونگی
اس نے انگلی دکھاتے ہوئے سختی سے کہا
چلا جاؤنگا لیکن جس مقصد سے آیا ہوں وہ تو پورا کرنے دیجیے
وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا
کہیے کیوں آئے ہے
وہ دونوں ہاتھ کمر پر رکھتے ہوئے بولی
میں آپ سے آپکا ہاتھ مانگنے آیا ہوں
وہ اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے مسکرا کر بولا مہک کی آنکھیں حیرت سے اور بڑی ہو گئی
ہائے اللہ —-ہاتھ تو ایسے مانگ رہے ہو جیسے الیکشن جیتنے کے لیے ووٹ —–بے شرم آدمی نکلو یہاں سے ورنہ تمہاری خیر نہیں
اس نے غصے سے آنکھیں دکھائے
آپ کا ہاتھ لیے بنا تو میں جاؤنگا نہیں آپ چاہیں جو کرلے
وہ ڈھٹائی سے بولا مہک کا منہ حیرت سے کھلا رہ گیا
دیکھو میں تمہیں وارن کر رہی ہوں اس سے پہلے کے میں اپنی شرافت بھول کر تمہیں__—–
ارے بیٹا آپ کب آئے
وہ کچھ اور کہتی ایسے سے پہلے ابرار صاحب کی آواز نے دونوں کو متوجہ کیا وہ مسکراتے ہوئے آگے بڑھا جبکہ مہک وہی کھڑی حیرت سے دونوں کو دیکھتی رہی
السلامُ علیکم ماموں جان
وہ خوشدلی سے اُن کے گلے لگا ابرار صاحب نے اسے کندھوں سے تھام کر سیدھا کیا مسکراتے ہوئے دیکھا
یہ سب کیا ہے بیٹا
انھونے اس کے گیلے کپڑے دیکھ کر حیرت سے پوچھا
مہک یہ کیا حرکتِ ہے بیٹا دیکھیے کیا حالت کردی آپ نے ان کی
وہ مہک کی جانب رخ کیے خفگی سے بولے وہ اُن کے پاس آئی
پاپا آپ جانتے ہیں یہ ابھی ابھی کہہ رہے تھے کہ————
ماموں جان میں یہ کہہ تھا کہ یہ مجھے پہچانتی ہے کہ نہیں لیکن دیکھیے یہ تو مجھے پہچان ہی نہیں پائی
اس کا ارادہ بھانپ کر وہ فوراً بولا تاکہ پول نا کھل جائے مہک نے اسے غصے سے گھورا
واقعی آپ نے انہیں پہنچانا نہیں بیٹا یہ آرین ہے
ابرار صاحب کی حیرت کی کوئی انتہا نہیں جبکہ اس کا نام سن کر مہک نے تھوک نگلتے ہوئے اپنی گھبراہٹ دور کرنے کی ناکام کوشش کی اور پھٹی آنکھوں سے اُسے دیکھا وہ مسکراہٹ ضبط کیے اُسکے خوفزدہ چہرے کو دیکھ رہا تھا
سوری پاپا و وہ میں——
وہ نظر اٹھانے کے قابل نا رہی
اچھا اچھا چلئے فلحال انہیں اندر لے جائیں آرین آپ کپڑے چینج کرلے بیٹا ہم بعد میں آپسے ملتے ہیں
وہ مہک کو حکم سنا کر اُس کے کاندھے پر تھپکی دیتے باہر نکل گئے اور وہ انہیں جاتے دیکھتی رہ گئی
اُونہوں اُونہوں اُونہوں——
اس نے کھانس کر اسے متوجہ کیا وہ گڑبڑا کر اس جانب مڑی اور ایسے مسکرائی جیسے کسی نے کنپٹی پر بندوق رکھ کر حکم دیا ہو
سوری _——- میری وجہ سے تمہارے کپڑے بھیگ گئے میں—
That’s not the matter mahek
میں تم سے صرف اس بات پر ناراض ہُوں کے تم نے مجھے پہنچانا نہیں یقین نہیں ہورہا مجھے
وہ اس کی بات بیچ میں کاٹتے ہوئے بولا
سوری—- ۔۔۔ اندر چلو نا پلیز
وہ بات بدلنے لگی
چلئے
**************************
شاندار اور وسیع احمد ولا کے رہائشی ابرار احمد اسرار احمد اور زاویار احمد تینوں بھائی شہر کے مشہور ڈاکٹر تھے اُن کا اپنا بہت بڑا ہسپتال تھا تینوں کی فیملی ایک ساتھ ایک ہی کوٹھی میں رہتے تھے آپس میں روایتی بھائیوں کی طرح کوئی تلخیاں نہیں بلکہ بہت محبت تھی دو بہنیں تھی نزہت اور نرگس– نزہت بیگم اپنے شوہر کے انتقال کے بعد سے ان کے ساتھ ہی رہتی تھیں نرگس بیگم کے شوہر بزنس میں ترقی کے لیے بارہ سال پہلے اپنی فیملی کے ساتھ انگلینڈ میں سیٹل ہو گئے تھے
سب سے بڑے ابرار احمد اور صباحت بیگم کی اکلوتی بیٹی مہک جو شادی کے آٹھ سال بعد دعاؤں اور منتوں سے پیدا ہوئی تھی
اسرار احمد اور زکیہ بیگم کے دو بیٹے تھے افعان جو ڈاکٹر بن رہا تھا چھوٹا عیان جو اپنی مرضی کے مطابق پڑھ کر بزنس کرنا چاہتا تھا
زاویار احمد اور عارفہ بیگم کے دو بیٹیاں مدیحہ جو مہک کی ہم عمر تھی اور دوسری مائرا جو گھر میں سب سے چھوٹی بارہویں جماعت کی طالبہ تھی
نزہت پھُوپھی کی ایک بیٹی حیا اور ایک بیٹا نہال جو مہک مدیحہ کا ہم عمر تھا
نرگس پھوپھو کے سب سے بڑا آرین تھا اس سے چھوٹے عدنان اور ہانیہ جو جڑواں تھے
پھوپھو عدنان اور ہانیہ تو ہر سال آیا کرتے تھے اب بھی ایک ہفتے سے وہ لوگ یہیں تھے لیکن آرین آج بارہ سال بعد آیا تھا اسلئے وہ اُسے پہچان نہیں پائی سارے کزین سے وہ رابطے میں تھا مہک سے بھی بات کرنے کی کوشش کی لیکن مہک نے اُس سے کبھی بات نہیں کی کیونکہ وہ صرف کزن نہیں تھا جو وہ اس سے بے جھجھک بات کرتی
دونوں کا رشتہِ بچپن سے طے تھا اور سب شروع سے ہی اس بات سے واقف تھے انگلینڈ جانے سے پہلے سب کی خواہش پر مہک کو آرین سے منسوب کردیا گیا تھا
وہ دونوں اندر آئے سامنے ہی ساری خواتین بیٹھے باتوں میں مشغول تھے
آرین
صباحت بیگم اس پر نظر پڑتے ہی خوشی اور بے یقینی سے بولی سب نے ہی اُن کی نظروں کا تعاقب کیا
السلامُ علیکم
وہ آگے بڑھا صباحت بیگم نے اسے گلے لگالیا اُن کی آنکھیں خوشی سے بھر گئی آرین اُنھیں شروع سے ہی بےحد عزیز تھا کئی سال اولاد سے محروم رہنے پر وہ آرین کو پیار کرکے ہی خوش ہوتی تھی وہ بھی انہیں اپنی امی مانتا تھا مہک حوالے سے یہ محبت اور بڑھ گئی تھی
کیسا ہے ہمارا بیٹا
وہ اس کا چہرہ دونوں ہاتھوں سے تھامتے ہوئے بولی
اب تک تو ٹھیک تھا لیکن اب آپ کو روتا دیکھ کر ٹھیک ہو سکتا ہے کیا
وہ ہاتھ سے اُن کے آنسو صاف کرتا بولا
اتنے سال بعد دیکھ رہی ہوں تمہیں—– کل کی ہی بات لگتی ہے جب چھوٹے سے تھے جب میرا آنچل پکڑ کر امی امی کرتے پیچھے گھومتے تھے
دونوں مسکرادیے
بھابھی یہ آج بھی وہی بچّہ ہے بس قد بڑھ گیا ہے ورنہ حرکتیں تو آج بھی بلکل بچوں جیسی ہے
نرگس پھوپھو نے آگے آکر کہا آرین مسکراتے ہوئے آگے بڑھ کر دونوں مامی اور خالہ سے ملا
آرین بیٹے یوں اچانک آگئے اطلاع کیوں نہیں دی ہم تمہارا زوردار ویلکم کرتے
عارفہ بیگم نے کہا
اگر بتا کر آتا تو آپ لوگوں کو سرپرائز کیسے ملتا اور مجھے آپ لوگوں کا یہ ری ایکشن کیسے دیکھنے ملتا
وہ مسکراتے ہوئے بولا
ارے یہ تمہارے کپڑے اتنے گیلے کیسے ہوگئے آرین
نرگس نے حیرت سے پوچھا مہک نے زبان دانتوں تلے دبائی
مام کسی پاگل لڑکی نے مجھے پودا سمجھ کر پانی ڈال دیا
وہ اس پر ایک نظر ڈال کر مسکراتے ہوئے بولا
کون تھی وہ اندھی جسے انسان اور پودے میں فرق نظر نہیں آیا
زکیہ بیگم نے غصے سے پوچھا
چاچی میں آپ کو اندھی نظر آتی ہوں
وہ سلگ کر بولی
تو کیا تم نے پانی پھینکا آرین پر
عارفہ چاچی نے حیرت سے پوچھا
چاچی میں نے جان بوجھ کر نہیں پھینکا غلطی سے ہو گیا
وہ اصلاح کرتے ہوئے بولی
ہاں یہ غلطیاں تو تم سے ہر وقت ہوتی ہے کبھی کوئی کام صحیح بھی کیا ہے تم نے
امی نے ڈانٹ لگائی تو اس کا منہ بن گیا
رہنے دیں مامی جان غلطی میری تھی ایکدم سے سامنے آگیا تو یہ ڈر گئی اور پائپ میری طرف ہوگیا
وہ اس کی روتی صورت دیکھ کر بولا
سن لیا نا آپ نے–
وہ ڈھٹائی سے بولی
ہاں سن لیا —-تمہیں بچانے کے لیے میرے بیٹے نے الزام اپنے سر لے لیا
امی نے اسے ہیرو بنادیا جب کے مہک کا منہ حیرت سے کھلا رہ گیا باقی سب نے بمشکل اپنی ہنسی روکی
امی—
وہ صدمے سے بولی
بس بس-
انھونے ہاتھ دکھا کر اُسے خاموش کر دیا
جاؤ بیٹا تم جاکر کپڑے بدل لو ورنہ سردی ہو جائیگی
وہ آرین سے مخاطب ہوئی
جی—– میرا لگیج گاڑی میں ہے
وہ دھیان آنے پر بولا
تم جاؤ میں سامان اوپر ہی بھجواتی ہوں مہک جاؤ
انھونے ساتھ میں مہک کو حکم سنایا وہ اثبات میں سر ہلاتا آگے بڑھ گیا وہ بھی اس کے پیچھے چلدی
عیان مدیحہ سب کہاں ہے کوئی نظر نہیں آرہا
وہ حیرت سے بولا
پتا نہیں کچھ دیر پہلے تو سب یہیں تھے شاید چھت پر گئے ہو
وہ ادھر اُدھر نظریں دوڑاتے ہوئے بولی
سیڑھیاں چڑھ کر ایک روم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مہک اُسے اندر لے آئی اندر قدم رکھتے ہی شیطانوں کی ٹولی نے ہلا بول دیا
میرا پیا گھر آیا او رام جی
میرا پیا گھر آیا او رام جی
پانچوں بھنگڑا کرتے ہوئے زور زور سے گانے لگے آرین ہنسی روکے اُنھیں دیکھنے لگا جبکہ مہک کا غصّہ اس کے چہرے پر نظر آرہا تھا
بسسس—-اب بند بھی کرو یہ سب —
وہ چینخ کر بولی تو سب کو خاموش ہونا پڑا اب وہ سب باری باری آرین سے ملنے لگے
آپ کہاں چلی
مہک موقع دیکھ کر نکلنے لگی جب ہانیہ نے اس کے سامنے آتے ہوئے راستہ روک دیا
ہانی پلیز مجھے جانے دو مجھے کچھ کام ہے
ہانیہ نے نفی میں گردن ہلاکر اُسے کھینچتے ہوئے صوفے پر گرادیا
سوری بھائی جان ہماری وجہ سے آپکی رومینٹک میٹنگ میں خلل پڑگیا
عدنان اُسے آنکھ مارتے ہوئے شرارت سے بولا بدلے میں اس نے عدنان کے پیٹ میں گھونسا مارا
یہ کیا آرین بھائی آتے ہی صرف اپنی فیوچر وائف میں لگ گئے یہ نہیں کے پہلے بہنوں سے سلام دعا ہی کرلے
مدیحہ نے شکایت کی وہ مسکردیا
سو مسٹر آرین صدیقی آج بارہ سال بعد آپ اپنی منگیتر مہک ابرار احمد سے مل رہے ہیں پلیز اپنی خوشی کی گہرائی کے بارے میں کچھ بتائے
عیان نے پاس رکھی بوتل کو مائک بناتے ہوئے رپورٹر کی طرح سوال کیا آرین آستین چڑھاتا اُسے مارنے کو آگے بڑھا تو وہ فوراً مہک کے پیچھے آکر چھپ گیا آرین ایک نظر پریشان سی مہک پر ڈال کر واپس اپنی جگہ پر آگیا تو عیان نے سکون کی سانس لی اور سیدھا ہوکر بیٹھ گیا
عیان بھائی میں کیا کہہ رہی ہوں اتنا یادگار دن ہے کیوں نہ ان دونوں کی ایک تصویر لے لے
حیا نے خوش ہوتے ہوئے آئیڈیا دیا
واؤ گریٹ آئیڈیا یار
عدنان نے موبائل نکالتے ہوئے کہا حیا نے مہک کو زبردستی اٹھا کر اس کے قریب کھڑے کر دیا اور دو تین تصویریں لے لی
بھائی ذرا کپل کی طرح پوز کیجئے نا
عدنان نے قریب ہونے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا جس پر پہلے تو اس نے گھورا پھر مسکراتے ہوئے تھوڑا قریب ہوا اور مہک نے ایک پل ضائع کئے بغیر باہر کے لیے دوڑ لگادی زوردار قہقہوں نے اس کا دور تک پیچھا کیا