قسط 1
اس وقت صبح کے ساتھ بج رہے تھے وہ اپنے کمرے میں گہری نیند سو رہی تھی جب کسی نے۔اس کے دروازے پہ دستک دی مگر وہ گہری نیند سوتی رہی ۔
مہر انساء اٹھ جا ناشتہ لگنے میں باقی آدھا گھنٹہ رہ گیا ہے۔ اس کی ماں زور سے بولی۔ اماں چھٹیوں میں تو سکون سے سونے دو۔ مہرانساء نے غصے میں کہا۔ میں تو سونے دو مگر بات آغا جان کی ہے ۔ اس کی ماں نے اب آواز تھوڑی آہستہ کی۔آغان جان کا بس چلے تو ہم سانس بھی ان کی مرضی سے لے ۔ مہرانساء منہ بنا کے بولی۔ مہرو آہستہ بول آغا جان یہ کوئی سن لے گا تو تیری خیر نہیں ۔ امی نے اسے ڈانٹا۔ آغا جان کو تو میرے کمرے کے ساتھ کان لگا کے سننا کے علاوہ اور کوئی کام نہیں ہے جیسے۔ وہ کہتی باتھ روم چلی گئی اور ماں سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔
آغا جان گاؤں کے سربراہ ہے جن کے اپنے بنائے اصول ہیں اور آج تک کسی نے ان کے اصولوں کے خلاف جانے کی ہمت نہ کی اور جس نے کی ا س کا انجام پورے گاؤں نے دیکھا۔ آغا جان کے دو بیٹے ہیں ۔ آغا فیصل خان آغا اکبر خان ۔ آغا فیصل بڑا بیٹا جن کا ایک بیٹا مہر چھوٹے بیٹے آغا اکبر خان جن۔ کے دو بچے ایک بیٹا ابراہیم اور دوسری بیٹی مہروانساء
اس وقت وہ سب کھانے کی میز پہ موجود تھے اکبر ہماری جو دوسرے گاؤں والی زمین ہے وہ اپنے بیٹے ابراہیم کے نام کر وادوں۔ آغا جان نے اپنے بیٹے اکبر سے روعبدار آواز میں کہا۔ وہ کیسے وہ تو میرے بیٹے فیصل کے نام ہے آپ اسے کیسے ابراہیم کے نام کرواسکتے ہیں۔ بی اماں تھوڑا ڈر کے بولی۔ ہمارا ایک ہی بیٹا ہے اکبر فیصل میرے لیے کب کا مر گیا آئندہ اس کا نام مت لینا میرے سامنے۔ آغا جان نے چیخ کر کہا اور فوراََ وہاں سے اٹھ کے چلے گئی ناشتے کی میز پہ موجود تمام لوگ ڈر گئے۔
چلو ناشتہ تو سکون سے کریں گے۔ مہرو دل میں بولی۔ وہ اپنے کمرے کی کھڑکی پہ کھڑی بار بار آسمان کو دیکھ رہی تھی مجھے لگتا ہےبارش ہو گی سکینہ۔ مہرو نے اپنے ساتھ کھڑی سکینہ سے کہا۔ اللہ نہ کرے باجی ساتھ والی چچا ولیت کی بیٹی کی مہندی ہے ہم نے وہاں جانا ہے پتہ ہے باجی اس کی شادی اکیتیس سال کی عمر میں ہو رہی ہے میں بیئس سال کی میں نظر نہ آئی اس سبزی والے کو وہ نظر آ گئی ۔ سکینہ افسوس سے بولی۔ چپ کرو سکینہ تم اور تمہاری شادی کا رونا میں چھت پہ جا رہی ہو۔ مہرو غصے سے کہتی جانے لگی۔ باجی چھت پہ مت جانا آغا جان نے دیکھا تو قیامت آ جائی گی گھر میں۔ سکینہ نے مہرو کو جاتے ہوئے روکا۔
اس وقت تیز بارش ہورہی تھی اور مہرو بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ تبھی آغا جان کی گاڑی گراج میں آکے روکی۔ آغا اکبر گاڑی سے اترا اور اس کی نظر مہرو پہ پڑی اس نے دل میں یہی دعا کی کے آغا جان کی نظر مہرو پہ نہ جائے۔
(بلیک شرٹ جینز کی پینٹ لمبا قد ہلکی ہلکی داڑھی چہرے پہ سنجیدگی وہ کسی ہیرو سے کم نہ دیکھتا تھا )یار میں بہت خوش ہو ۔ خضر کمرے میں آتا ہوا بولا۔ ڈاکٹر کی ڈگری سے زیادہ کیا خوشی کی خبر ہو سکتی ہے۔ مہر سوالیہ نظروں سے خضر سے پوچھنے لگا یار ساتھ والی امینہ میرے ساتھ ڈیٹ پر جانے کے لیئے تیار ہو گئی ۔
تو کس سے لڑکیوں کی باتیں کر رہا ہے جس نے سات سالوں میں کسی لڑکی کو مڑ کر نہیں دیکھا پیچھے سے آتے عامر نے ہنس کر کہا ۔یار آخر لڑکیوں سے دور کیوں بھاگتا ہے اگر میں نے وجہ بتا دی تم دونوں کے منہ کھلے کھلے کے رہ جائے گے مہر نے مسکرا کر جواب دیا تو آج بتا ہی دے ۔ عامر خضر کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کے بولا۔
یہ چھوڑو اور اپنا سمان پیک کرو۔ مہر نے۔ان کی باتوں کو نظر انداز کر کے کہا۔پہلے خود کہتا اور پھر بتاتا بھی نہیں عجیب لڑکا ہے تو۔ خضر نے منہ بناتے ہوئے کہا۔ میں ایسا ہی ہو۔ مہر کے چہرے پہ ابھی بھی سنجیدگی تھی۔
تہجد کا وقت تھا وہ نماز میں بیٹھی دعا کے لیے ہاتھ اٹھائی روتے ہوئے بس یہی دعا مانگ رہی تھی یا اللہ اسے میرا اور اپنا رشتہ یاد ہوں کون کہ سکتا تھا دن میں سب کو تنگ کرنے والی مہرو اپنے خدا کے سامنے گڑگڑاتے ہوئے کسی کو دعاؤں میں مانگ رہی تھی۔ اسی وقت اس کے دروازے پہ دستک ہوئی۔مہرو نے جلدی جلدی اپنی آنسو صاف کیے نماز لپیٹے اور دروازے کھولنے چلی گئی ۔
ابا آپ۔ مہروحیرانگی سے بولی۔ کوئی کام تھا۔ کچھ پل خاموش رہی پھر بول دی۔ کیوں میں اپنی بیٹی کے کمرے میں نہیں آ سکتا کیا۔ آغا اکبر مسکراتے ہوئے کہنے لگےنہیں میرا وہ مطلب نہیں تھا۔ مہرو انہیں راستہ دیتے ہوئے بولی۔ مہرو میری جان آغا جان تمھیں چھت پہ جانے سے منع کرتے ہیں پھر آپ کیوں جاتی ہوں۔ آغا اکبر نرم لہجے میں اپنی بیٹی سے پوچھنے لگے۔ ابا مجھے بارش پسند ہے۔ مہرو نظریں جھکائیں بولی۔ آپ کے کمرے میں بیلکونی ہے نہ آپ وہاں سے بارش کو دیکھ لیا کرو مجھے اچھا نہیں لگتا آغا جان جب آپ کو ڈانٹتے ہیں۔ آغا اکبر نے۔اسے سمجھایا۔ جی ٹھیک ہے۔ ایک اچھی بیٹی کی طرح اس نے اپنے باپ کی بات مانی۔ شاباش اب سو جاؤ کافی دیر ہو گئی۔ آغا اکبر کہتا چلا گیا۔ اور مہرو نے اپنی سانس بہال کی۔