قسط 1
ماضی۔۔
“میں زید علی اپنے پورے حوش و حواس میں تمہیں طلاق دیتا ہوں تمہیں طلاق دیتا ہوں تمہیں طلاق دیتا ہوں”
وہ غصے سے اسے دیکھتے ہوئے اونچی آواز میں الفاظ بولتا سامنے موجود وجود کو بےجان کرگیا
“کککک۔۔۔۔ککیا بول رہے ہیں یہ آپ”
سندس مردہ نگاہوں سے سامنے موجود اس بےحس انسان کو دیکھتی بےبس سی بولی
“تم جیسی عورتیں اسی کے قابل ہوتی ہیں تمہیں کیا لگا میں تم سے شادی کرکے اپنے خاندان کی تمہیں عزت بناؤ گا “
وہ چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ سجائے اس کا مذاق اڑانے والے انداز میں کہنے لگے
“یہ میری اولاد ہے آپ ایسا نہیں کرسکتے ہیں پلیززز مجھ پر رحم کھائیں آپ کیا بول رہے ہیں”
سندس محترمہ آنکھوں میں بےتحاشہ آنسو لیے اس شخص کے سامنے گڑگڑانے لگی
“یہ صرف میرا بیٹا ہے”
زید علی اپنی گود میں موجود بچے پر نظر ڈال کر سندس محترمہ کو بتانے لگ گیا جس پر وہ زاروقطار رونے لگ گئی
“آپ ایسا نہیں کرسکتے ہیں میرے بیٹے کو مجھ سے جدا نہیں کرسکتے ہیں میرا بیٹا مجھے دے دو خدا کیلیے مجھے دے دو”
زید علی سن کر باتوں کو مکمل طور پر نظرانداز کرتے ہوئے اسے اسی حالت میں چھوڑ کر چل دیے وہ روتے ہوئے اس بےرحم شخص کی منتیں کرتی رہی اور زمین پر گر گئی مگر وہ جا چکا تھا۔
حال۔
سردیوں کی صبح تھی لاہور کے علاقے میں موجود ایک چھوٹا سا گھر مگر بہت خوبصورت بنا ہوا تھا
سمینہ محترمہ کچن میں موجود شاید ناشتہ بنانے میں مصروف تھی اور عنایت صاحب باہر ٹی وی لاؤنچ کے صوفے پر بیٹھے نیوز دیکھ رہے تھے
“سنیں اپنی لاڈلی کو اٹھا دیں یونیورسٹی کا پہلا دن ہے اس کا دیر ہونے پر مجھے ہی بولے گی”
سمینہ محترمہ عنایت صاحب کو کچن سے آواز لگاتے ہوئے کہنے لگی وہ ان کی بات سن کر صوفے سے اٹھے اور منہا کے کمرے کی جانب بڑھنے لگے مگر اس سے پہلے درمیانے قد کی لڑکی کمرے سے باہر آتی دیکھائی دی سفید رنگ کا گھٹنوں تک آتا فراک زیب تن کیے جینز پہنے پیروں پر جوگرز چڑھائے دودھیانہ رنگت کی مالک دیکھنے میں بہت خوبصورت ہیزل گرین بڑی بڑی آنکھیں تیکھی ناک گلابی خوبصورت ہونٹ سر پر حجاب لیے وہ دیکھنے میں بہت پیاری تھی
“آج خیریت تو ہے نا سورج کہاں سے نکلا ہے”
عنایت صاحب منہا کو وقت پر اٹھا اور تیار پاتا دیکھ حیرانگی سے کہنے لگ گئے
“اللہ خیر ہی کرے”
سمینہ محترمہ بھی کچن سے باہر آتی اسے تیار دیکھ فوراً سے کہنے لگی اور عنایت صاحب اور سکینہ محترمہ مسکرادیے
“آپ لوگ میرا مذاق اڑا رہے ہیں۔ نا جلدی اٹھو تو مسئلہ دیر سے اٹھی تو مسئلہ افف”
وہ منہ بسورے بولتے ساتھ کندھے پر بیگ لٹکاتے ہوئے ڈائننگ کی جانب بڑھ گئی عنایت صاحب بھی ڈائننگ پر بیٹھ گئے سکینہ محترمہ ناشتہ لگانے لگ گئی ان تینوں نے مل کر ناشتہ کیا
“ماما مجھے دیر ہورہی ہے چلیں بابا”
منہا جوس کا گلاس پی کر میز پر رکھتے ہوئے کرسی کھسکا کر کھڑی ہوتی عنایت صاحب کو اشارہ کرنے لگ گئی وہ کھڑے ہوگئے سکینہ بھی اس کے سر پر آتی پھوکے مارنے لگ گئی وہ پانچ منٹ سے مسلسل اس پر پھوکے مار رہی تھی
“ماما میں یونیورسٹی جارہی ہوں جنگ پر نہیں جارہی ہوں اللہ حافظ”
منہا سمینہ محترمہ کو دیکھتے ہوئے بولتی گلے لگ کر باہر کی جانب بڑھ گئی وہ باہر آتے ہی گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی اور عنایت صاحب گاڑی سڑک پر دوہرا گئے اس دوران وہ دونوں پورے راستے باتیں کرتے رہے تبھی عنایت صاحب نے پچیس منٹ کی ڈرائیو ہے بعد گاڑی یونیورسٹی کے باہر روک دی
“منہا بیٹا اب میری عزت آپ کے ہاتھ میں ہے میں نے اپنی پوری زندگی میں صرف عزت ہی کمائی ہے اور ایک باپ کی عزت اس کی بیٹی کے ہاتھوں میں ہوتی ہے میں تم پر اعتبار کرکے یہاں بھیج رہا ہوں میرے اعتبار کو ٹوٹنے مت دینا اور میری عزت کو خراب نہ کرنا جاؤ خدا حافظ”
عنایت صاحب اسے سنجیدہ لہجے میں سمجھاتے ہوئے کہنے لگے جس پر وہ مسکراتے ہوئے بات کو سمجھتی سر کو خم دے گئی
“آپ بےفکر ہوجائیں بابا”
منہا انہیں کہتے ساتھ گاڑی سے باہر نکلی نظر یونیورسٹی پر ڈالی تو آنکھیں چمک گئی وہ مسکراتے ہوئے اندر کی جانب بڑھ گئی
وہ مین گیٹ کراس کرتی اندر کی جانب بڑھ رہی جب اچانک اسے اپنے پیچھے کسی بائک کی آواز سنائی دی وہ مڑ کر دیکھنے لگی مگر وہ شخص بغیر رکے تیزی سے آگے بڑھنے لگا اس سے پہلے وہ ٹکراتی وہ تیزی سے اس جگہ سے ہٹی اور وہ تھوڑا آگے اپنی ہیوی بائیک لاتا اسے بریک لگا گیا بلیک ہیوی بائیک میں موجود سیاہ شرٹ نیچے سیاہ ہی پینٹ میں ملبوس وہ سٹینڈ لگاتا ہیلمٹ اتار کر اپنے بال ٹھیک کرتا بائک سے اترا کسرتی جسامت سیاہ گردن آتے بال سفید رنگت ڈارک براؤن آنکھیں مغرور ناک وہ دیکھنے میں بےحد ہینڈسم تھا اور وہاں موجود بہت سی لڑکیوں کا کرش تھا مسکراتا تو ڈمپل بنتا تھا مگر مسکرانا اس نے سیکھا نہیں تھا The swagger boy of university “عابر زید علی” اس نے مڑ کر اس لڑکی پر نظر ڈالی سر تا پیر مکمل اس کا جائزہ لینے لگا اور نظریں ہیزل گرین رنگ کی آنکھوں میں ٹھہر سی گئی منہا غصے بھری نگاہ اس پر ڈالتی اس کی جانب بڑھنے لگی
“اس سے بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے تمہاری بےعزتی ہوگی صرف اور کچھ بھی نہیں”
ایک لڑکی اس کا ہاتھ تھام کر اس کے بڑھتے قدم روکتی اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگی منہا نے ایک نظر اسے دیکھا
“یہ جو مرضی کریں ہاں ان کے باپ کی یونیورسٹی ہے”
منہا اس لڑکی پر ایک نظر ڈال کر مڑ کر اسے دیکھتی اونچی آواز میں غصے سے بولی وہ جو آگے کی جانب بڑھ رہا تھا اس کی بات سن کر بڑھتے قدم رک گئے اور مڑ کر اپنی سخت نگاہیں اس کے چہرے پر مرکوز کرگیا
“میرے باپ کی ہی ہے”
عابر سرد لہجے میں اسے بتانا ضروری سمجھنے لگی منہا اسے دیکھتی خاموشی سے آگے کی جانب بڑھنے لگی وہ لڑکی بھی اس کیساتھ چل رہی تھی
“کون سے ڈیپارٹمنٹ سے ہو”
امل اسے دیکھتے ہوئے اس کیساتھ چلتی پوچھنے لگی منہا نے اسے دیکھا
“بی ایس ان فزکس”
منہا اسے دیکھتے ہوئے جواب دینے لگ گئی
“میں بھی اسی ڈیپارٹمنٹ کی ہوں”
امل مسکراتے ہوئے بتانے لگی منہا بھی ہلکا سا مسکرا دی
“امل”
وہ اس کی جانب ہاتھ بڑھاتے ہوئے اسے دیکھ کر کہنے لگی منہا نے اس کا ہاتھ فوراً تھام لیا
“منہا”
وہ مسکراتے ہوئے اس کا ہاتھ تھامے جواب دینے لگ گئی اور وہ دونوں اس طرح دوست بن گئے۔
ڈیپارٹمنٹ پہنچنے کے بعد وہ دونوں کلاس میں جاکر بیٹھ گئے لیکچرز شروع ہوگئے ہر پروفیسر اور مس آکر اپنا انٹروڈیکشن وغیرہ کروانے لگے اور لیکچرز وغیرہ لیتے رہے اسی طرح یونیورسٹی کا اوف ٹائم ہوگیا
“میری تو بس یہی دعا ہے کہ میرا سامنا اس انسان سے دوبارہ نہ ہو آمین”
منہا چیزیں سمیٹتے ہوئے امل کو دیکھتے ہوئے کہنے لگی
“بہتر بھی یہی ہے تمہارے لیے”
امل بھی اسے دیکھتی مسکرا کر کہنے لگی اور دونوں کلاس روم سے باہر کی جانب بڑھ گئی
منہا جیسے ہی نیچے گیٹ پر آئی تو عنایت صاحب موجود تھے وہ فوراً سے ان کی جانب بڑھ گئی۔۔
گاڑی گھر کے باہر رکی اور گاڑی سے اتر کر گھر کے اندر چل دی سلام کرکے سمینہ محترمہ سے ملنے لگی
“کیسی تھا پہلا دن وہاں سب ٹھیک تھا نا”
سمینہ محترمہ فکرمند سی اسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی منہا نے انہیں دیکھا
“کیسا سوال ہے ماما جیسے سکول اور کالج ہوتا ہے ویسے ہی یونیورسٹی بھی ہوتی ہے”
منہا فوراً سے انہیں دیکھتے ہوئے جواب دینے لگ گئی
“نہیں یونیورسٹی میں تو لڑکے بھی ہوتے ہیں نا”
سمینہ محترمہ اسے دیکھتے ہوئے پریشان سی بولی منہا نے پیچھے کھڑے عنایت صاحب کی جانب دیکھا جو کندھے اچکا گئے
“آپ ہی سمجھائیں بابا انہیں مجھے تو بہت نیند آرہی ہے سونے لگی ہوں میں”
منہا کہتے ساتھ کرسی سے کھڑی ہوتی بولتے ساتھ اندر کی جانب بڑھنے لگی
“کچھ کھا کر سو ایسے مت سو منہا بچے”
سمینہ محترمہ اسے فوراً سے بولی جس پر وہ کمرے میں گھس گئی
“افف یہ لڑکی کبھی نہیں سنتی میری”
سمینہ محترمہ سر پیٹ کر خفگی سے بولی عنایت صاحب انہیں دیکھ رہے تھے
“کبھی ہماری اتنی فکر کرلیے کریں بیگم”
عنایت صاحب پیار سے انہیں دیکھتے ہوئے بولے جس پر سمینہ محترمہ نے ان کی جانب دیکھا
“آپ کو اپنی فکر کبھی نظر ہی نہیں آتی ہے”
سمینہ محترمہ کہتے ساتھ واپس کچن کی جانب بڑھ گئی عنایت صاحب مسکراتے ہوئے کمرے کی جانب بڑھ گئے۔
~~~~~~~~~~~~~
یہ ڈیفینس کی ایک بہت بڑی اور خوبصورتی کوٹھی تھی عابر گھر میں داخل ہوا تو اسے عجیب سے وحشت سی ہوئی گھر میں بلکل خاموشی سی چھائی ہوئی تھی
“عابر سر آپ کیلیے کھانا لگاؤ”
بابا عابد کے پاس آتے ہوئے احتراماً اس سے پوچھنے لگا عابر نے نظریں گھما کر اس کی جانب دیکھا
“ڈیڈ کہاں ہے؟”
وہ بابا کو دیکھتے ہوئے آئبرو اچکائے پوچھنے لگا
“جی وہ تو بزنس کے کام کیلیے کراچی گئے ہوئے ہیں”
بابا سر جھکائے عابر کو جواب دینے لگ گیا
“اور آپ کی بیگم صاحبہ”
عابر بیزار لہجے میں ان سے فہمیدہ کا پوچھنے لگا
“جی وہ اپنی کٹی پارٹی میں گئی ہوئی ہیں”
وہ فورا سے اس کا بھی جواب دینے لگ گیا عابر خاموشی سے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا
وہ کمرے میں بیٹھا بیڈکراؤن سے سر ٹکائے ہوئے مسلسل سوچوں میں گم تھا اپنے اندر کی بےسکونی کو ختم کرنے کیلیے وہ سگریٹ سلگانے لگ گیا کمرا بہت بڑا اور فرنشڈ بہت ہی خوبصورت ہوا ہوا تھا چار سے پانچ گھنٹے وہ لگاتار سگریٹ سلگاتا خود کو سکون دلانے کی ناکام سی کوشش کررہا تھا اچانک اسے بھوک کا احساس ہوا تو وہ سگریٹ ڈسٹ بین میں پھینک کر بالوں کو ٹھیک کرتا کمرے سے باہر کی جانب بڑھ گیا
“بیٹا اگر اس نے تمہیں تھوڑا سا مار لیا تو اس میں کوئی بڑی بات نہیں ہے رہنے کے لیے اتنا بڑا گھر دیا ہے ہر آسائش اس نے تمہیں دی ہے تو ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظر انداز کیا کرو خیر میری ایک پارٹی مجھے وہاں جانا تم کھانا کھا لینا “
فہمیدہ اپنی بیٹی ازنا کو دیکھتے ہوئے فوراً سے کہنے لگی وہ خاموشی سے سن رہی تھی
“واہ کیا سوچ ہے آپ کی بہت خوب”
عابر زور سے تالی بجا کر داد دینے والے انداز میں بولا اس کی آواز پر دونوں کا دھیان اس پر گیا
“اگر ڈیڈ تھوڑی سی آواز اونچی کرلیں تو آپ پورا گھر سر پر اٹھا لیتی ہیں بیٹی پچھلے چھ مہینے سے اس گھٹیا شخص سے مار کھا رہی ہے تو کوئی بات نہیں کیا کہنے آپ کے مسز زید علی”
عابر انہیں سرد نگاہوں سے دیکھتے ہوئے تلخ لہجے میں کہنے لگا
“تمہیں اس معاملے میں بولنے کی ضرورت نہیں ہے اور ویسے بھی تم جیسوں کے منہ لگنا پسند نہیں کرتی ہوں”
فہمین محترمہ عابر کو گھور کر دیکھتی منہ بنائے بولی
“سیم ٹو یو”
عابر چہرے پر مسکراہٹ سجاتا انہیں کہتے ساتھ غصہ دلا گیا اور وہ غصے سے بیگ اٹھا کر چل دی
“کتنی دفعہ منع کیا ہے تمہیں مام سے بحث مت کیا کرو “
ازنا عابر کی جانب دیکھتی خفا لہجے میں کہنے لگی عابر اس کے پاس آیا
“وہ جو مرضی بولیں”
عابر فوراً سے بولا جس پر ازنا خاموش ہوگئی
“میں نے تمہیں کراٹیں کس لیے سیکھائے تھے اس نے مارا تو اسے بھی مارتی”
عابر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھے اسے کہنے لگا ازنا ہنسنے لگ گئی
“پاگل ہو تم”
وہ ہنستے ہوئے اسے دیکھ کر بولی عابر بھی ہلکا سا مسکرادیا ڈمپل نمودار ہوا
“آؤ تمہیں بہت ہی زبردست کھانا کھلاتا ہوں چلو میرے ساتھ”
عابر اسے اپنے ساتھ باہر لے جاتے ہوئے بولا وہ مسکراتے ہوئے اس کے ساتھ چل دی
~~~~~~~~~~~~~
عنایت صاحب لان میں بیٹھے اسوقت فون پر گیم کھیلنے میں مصروف تھے تبھی منہا ان کیلیے کافی کا کپ ہاتھ میں لیے آئی اور ٹیبل پر رکھ گئی اور خود بھی کرسی کھسکا کر بیٹھ گئی
“بابا”
منہا کافی کا گھونٹ بھرتے ہوئے انہیں دیکھ کر پکارنے لگی
“جی بابا کی پیاری بیٹی”
عنایت صاحب مسکراتے ہوئے پیار سے کہنے لگے
“یہ پیسے والے لوگوں میں اتنا گھمنڈ کس چیز کا ہوتا ہے”
منہا چہرے پر سنجیدگی سجائے انہیں سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی
“گھمنڈ نہیں ہوتا بیٹا بس تربیت ایسی ہوتی ہے ان کی کچھ لوگوں کو حالات ایسا بنا دیتے ہیں اور کچھ کہ نہیں سکتے کسی کے بارے میں ہوسکتا ہے کوئی برا نہ ہو مگر اس کے ساتھ کچھ ایسا ہوا ہو جو اسے برا بنا دے اچھا سوچنا چاہیے ہمیشہ ہمیں”
عنایت صاحب فون رکھتے ہوئے منہا کو دیکھتے ہوئے بتانے لگی منہا انہیں غور سے سن رہی تھی
“مگر اسے دیکھ کر ایسا تو نہیں لگتا کہ وہ کسی پریشان میں ہو صحیح لگ رہا تھا بلکل”
منہا عابر کو یاد کرتے ہوئے دل میں کہنے لگی تبھی سمینہ محترمہ لان میں آ گئی
“تم ابھی تک جاگ رہی ہو چلو سوجاؤ صبح یونیورسٹی بھی جانا ہے”
وہ منہا کو دیکھتے ہوئے فوراً سے کہنے لگی منہا نے انہیں دیکھا
“ماما میں چھوٹی بچی نہیں ہوں دس بجے ہیں ابھی صرف سوجاؤ گی میں”
منہا انہیں دیکھتے ہوئے انہیں سمجھانے کی ناکام کوشش کرنے لگ گئی
“بیگم آپ آئیں میرے ہمارے ساتھ کافی پیجیے”
عنایت صاحب سمینہ محترمہ کو بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگے
“پھر کافی پی رہے ہیں آپ اتنی مہنگی ہوگئی ہے اور آپ دونوں”
سمینہ محترمہ حیرانگی سے منہ اور عنایت صاحب کو دیکھتے ہوئے کہنے لگی وہ دونوں ہنس دیے
“بیگم میں پینے کیلیے ہی لاتا ہوں”
عنایت صاحب ہنستے ہوئے کہنے لگے منہا بھی ہنس رہی تھی
“آپ دونوں ہر وقت میرا مذاق اڑاتے رہتے ہیں میں آپ دونوں کے ساتھ بھی نہیں بیٹھوں گی”
سمینہ محترمہ ناراضگی جتلائے بولی جس پر وہ دونوں اپنی ہنسی کنٹرول کر گئے
“نہیں ہنس رہے کہ آپ پر آئیے بیٹھیے کیا باتیں کرتی ہیں آپ بیگم ہم آپ کا مذاق بنائیں گے”
عنایت صاحب انہیں دیکھتے ہوئے پیار سے بولے منہا مسکراتے ہوئے انہیں دیکھتی اہم اہم کرتی تنگ کرنے لگی
“ایک سیلفی لیتے ہیں”
منہا کہتے ساتھ فون کا کیمرہ اون کرتی اسی طرح بیٹھے سیلفی بنا گئی اور مسکرادی۔۔
~~~~~~~~~~~~
وہ لائبریری سے کوئی اہم کتاب لیتی اسے کھول کر پڑتے ہوئے اپنے ڈیپارٹمنٹ کی جانب بڑھنے لگی نظریں کتاب پر ہونے کی وجہ سے وہ سامنے موجود شخص کو نہ دیکھ سکی اور بری طرح ٹکر ہوگئی عابر کی نظر بھی اس پر گئی ییلو کلر کے فراک میں نیچے ہم رنگ ٹراؤزر پہنے سر پر سیاہ حجاب لیے وہ بےحد پیاری لگ رہی تھی منہا کی نظر اس پر گئی تو حلق تک کڑوا ہوگیا اور وہ خاموشی سے سائیڈ سے گزرنے لگی
“اچھا ہے تم بھی مجھ سے ڈرنے لگی ہو”
وہ گردن موڑ کر اس کی پشت کو تکتے ہوئے اسے ناجانے کیوں مخاطب کرگیا منہا کے بڑھتے قدم رکے اور اس نے مڑ کر عابر کو دیکھا اور اس کی جانب بڑھتی مقابل میں کھڑی ہوگئی
“ڈرنا نہیں سیکھا میں نے لیکن تم جیسے لوگوں کے منہ لگنے سے بہتر ہے انسان خاموشی ہی رہے”
منہا اسے دیکھتے ہوئے اسی کی ٹون میں اسے جواب دیتی عابر کیساتھ ساتھ وہاں موجود اس کے دوستوں کو بھی حیران کر گئی ہیزل گرین آنکھیں ڈارک براؤن آنکھوں سے ٹکرائی اور منہا خاموش سے آگے کی جانب بڑھنے لگی
“اے آج کے بعد کبھی مجھ سے سامنا ہو تو تمیز کے دائرے میں رہ کر بات کرنا سمجھتی کیا ہو خود کو”
عابر سرخ آنکھیں لیے اسے جاتا دیکھتا انتہائی اونچی آواز میں بولا منہا سنی ان سنی کرتی بس چلتی گئی
“سی یو سون بریو گرل”
وہ داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اسکی پشت پر نظریں جمائے دل میں بولا۔۔