قسط 1
میری اجازت کے بغیر کاپی پیسٹ کرنا سخت منع ہے اگر کوٸی میرا ناول کاپی پیسٹ کرنا چاہتا ہے تو پہلے میری پرمیشن لے
کردارو کے نام
چوہدریوں کا خاندان جہاں لڑکی پیدا ہونا مطلب گناھ سمجھا جاتا تھا
یارم چوہدری
بہن پر جان دینے اور لینے والا انسان
شایان چوہدری
بچپن میں ہی عشق کی عزیم بیماری میں مُبتلا ہوا
ارحام سلطان
سلطان مینشن کا چشم چراغ اکلوتا خون دس سال کی عمر میں بدلے کی أگ سینے میں لیے بیٹھا تھا
عُروشہا چوہدری
خاندان میں پہلی لڑکی جس کو زندگی بخشی گٸ تھی حق سچ پر جی جان لگا دینے والی
ولید بخش چوہدری
کہنے کو گاٶں کا مُحافظ تھا مگر اُس جیسا درندہ بھی کوٸ نہیں تھا گاٶں والوں کے لیے
راشد چوہدری
اولاد سے زیادہ پیسوں پر بھکنے والا انسان
سُجاد چوہدری
جس کا پسدید کھیلونا عورت تھی جو عورت کی عزت سے کھیل کر خود کو مرد سمجھتا تھا
شاہدہ بیگم چوہدری
ہمیشہ اولاد کو خطرے سے أگاھ کرنے والی
ممتازبیگم چوہدری
ایسی بدنصیب عورت جس نے اپنی ننی سی جان کو زندہ دفن ہوتے دیکھا


بی بی جی وو وہ ۔۔نوکرانی پھولتی سانس لیتی گھبراہٹ خوف اس کے چہرے سے صاف ظاہر تھا پریشانی کے مارے لڑکھڑاتی زبان سے بولی
بھاگتی ہوٸی وہ روبرو کھڑی شاہدہ بیگم کو دیکھ کر اپنی بے حال سانسیں قابو کرنے لگی تھی
شاہدہ بیگم اس کے پکارنے سےگھور کے اس کی اور متوجہ ہوٸی تھی
کُتے پیچھے لگٸے ہوۓ ہیں کیا جو اس طرح بھاگتی ہوٸی أرہی ہو حویلی کے طور طریقہ بھول گٸی ہو اگر بھول بیٹھی ہو تو اپنی موت کو داوا دیا ہے تم نے زیبی
وہ اکڑ دار لہجہ میں گوٸی زیبی حویلی کی وفادار خاتون کہیں سالوں سے ان کے ساتھ تھی
نہیں بی بی جی میں حویلی کے اصول کبھی نہیں بھول سکتی پ پر وہ
شکر ہے کم سے کم اصول یاد ہیں تو اب أگٸے بولوں گی بھی کب سے و وہ پ پر لگا رکھا ہے
اس کی نقل اتار کر بولی
بی بی جی وہ عُروشہا بی بی گھر سے بھاگ رہی ہے
نوکرانی کا اتنا کہنا تھا کہ اس کی چلتی زبان کو شاہدہ بیگم کے زور دار تماچے نے روک دی أنکھوں میں انگار برس رہے تھے شاہدہ بیگم اپنی لاڈلی بیٹی کے بارے میں اتنی بے ھودا بات کیسے برداش کرتی وہ بھی ایک نوکرانی کے منہ سے
تم شاید بھول گٸی ہو جس کے بارے میں تم بکواس کر رہی ہو وہ اس حویلی کی بیٹی ہے تمھاری کالی زبان سے نکلتے الفاظ کسی نے سن لیے تو سوچوں میں تمھارا کیا حشر کروں گٸی
شاہدہ بیگم أنکھوں میں خون لیے دھمکی عمیز لہجے میں کہا
معاف کر دیں بی بی جی میں نے ابھی أپ کو یہ بات نہیں بتاٸی تو واقعی سچ میں حویلی میں قیامت أجاۓ گی
سہی أخری اور پہلی غلطی سمجھ کر معاف کر رہی ہوں دوبارہ یہ گُستاخی نہیں ہونی چاہیے بھول کر بھی اور بولوں
وہ بی بی جی میرے کہنے کا مطلب تھا عُروشہا بی بی جہاں پنجاٸیت لگٸی ہیں أج پھر وہاں جا رہی ہے
نوکرانی پورے بات کہہ کر شاہدہ بیگم کا چہرہ دیکھ رہی تھیں جو ایک دم سے پیلا پڑ گیا تھا
چلو میرے ساتھ اور ہاں اس بات کا ذکر تم کسی سے نہیں کروگی أٸی بات سمجھ ورنہ
شاہدہ بیگم وارنگ دیتی أگٸے عُروشہا کے کمرے کی طرف چل دی نوکرانی نے سر ہاں میں ہلایا
شاہدہ بیگم جیسے کمرے کے اندر داخل ہوٸیں ان کے پیروں سے زمین ہل گٸی تھی عُروشہا کمرے میں کہی موجود نہیں تھی ان کا چہرہ خوفزدہ ہوگیا تھا
پورا کمرا چھان مارا مگر عُروشہا کا کہی پتا نہیں چلا ان کی نظر کھولی کھڑکی پر گٸی تھیں کھڑکی کے نیچھے جھانک کر دیکھا جہان عُروشہا کے ڈھیر سارے دوپٹوں کی رسی بندھی ہوٸی تھی جس کا سہارا لیتی شاید وہ نیچھے اتری تھی
شاہدہ بیگم کو اپنا سانس پھولا ہوا محسوس ہوا تھا سر ہاتھ میں دیٸے وہ پریشانی کی حالت میں بیڈ پہ بیٹھ گی
زیبی تم جلدی نہیں بتا سکتی تھی دیکھوں تمھاری وجہ سے دیر ہو گٸی اور عُروشہا کھڑکی سے باہر چلی گٸی ہیں یہ لڑکی کب سدھریں گٸی کیوں اس کو ایک بات سمجھ نہیں أتی پتا نہیں اب کونسی قیامت ٹوٹے گٸی یا اللہ پاک مدد کر خود تو مرے گٸی ساتھ میں مجھے بھی یہ لڑکی لے ڈوبے گٸی ۔۔۔
بی بی جی أپ پریشان نہیں ہو ان شااللہ سب ٹھیک ہوگا ۔۔ نوکرانی تسلی دینے لگٸی شاہدہ بیگم بس سر ہلاتی رھ گٸی تھی أخر اور کر بھی کیا سکتی تھی
ولید بخش چوہدری کے دو بیٹے تھے وہ اپنے گاٶں کا سردار تھا جن کا فیصلا پتھر کی لکیر مانا جاتا تھا کسی میں اتنی جُرت نہیں تھی کہ ان کے کسی غلط فیصلے پر بھی أواز اٹھاۓ لوگوں کے دلوں میں ولید بخش چوہدری نے اپنا ایسا خوف پیدا کر دیا تھا کہ کوٸی مظلوم ان کے خلاف أواز اٹھانہ تو دور کی بات ہے سہی سے بات بھی نہیں کرتے تھے اس خوف سے کہ کہیں ولید بخش چوہدری کوغصہ نا أجاٸے اور ان کی بے گناھ جان لی جاٸیں
ان کے بڑے بیٹے کا نام راشد چوہدری ان کی دو اولادیں تھیں بڑا بیٹا یارم جو اپنے دادا جان کا لاڈلا تھا بلکہ یہ کہنا زیادہ مُناسب ہوگا کہ ان کی جان بستی ہے اپنے پوتوں میں
انہیں اگر نا پسند تھی تو صرف عُروشہا پورے خاندان میں یہ پہلی لڑکی تھی جس کو زندہ دفنایا نہیں گیا تھا
ورنہ أج تک جتنی لڑکیاں اُس خاندان میں پیدا ہوٸی ان سب کو مٹی میں ملا دیا گیا تھا
یارم جو کہ عُروشہا کا بھاٸی اس سے نو سال بڑا تھا اس نے اپنی بہن کو مرنے نہیں دیا
یارم ولید بخش چوہدری کے أگٸے ڈال بن کر کھڑا ہوگیا بہن کے لیے ولید بخش چوہدری پوتے کی لگاتار جدوجہد دیکھ کر عُروشہا کو مارنے کا ادارہ رد کر دیا تھا
پوتا جو بغاوت پر اتر أیا تھا أخر انہیں پیچھے تو ہٹنا ہی تھا
دوسرے نمبر پر عُروشہا تھی حویلی کے تین ہی لوگ اس سے پیار کرتے تھے باقیوں کو تو وہ زہر لگتی تھی
ولید بخش کے دوسرے بیٹے کا نام ساجد چوہدری تھا ان کا ایک ہی بیٹا تھا جس کا نام شایان چوہدری تھا
شایان چوہدری یارم چوہدری ہم عمر تھے دونوں نے ایک ساتھ شہر میں رھ کر اپنی پڑھاٸی پوری کی عُروشہا لاسٹ سمسٹر کی اسٹوڈنٹ تھی یارم چوہدری شایان چوہدری دونوں نے مل کر اس کی پڑھاٸی کے لیے ولید بخش چوہدری کے أگٸے ہر نا ممکن کوشش کر کے عُروشہا کو شہر والے کالیج میں ایڈمیشن لیکر دی بس وہ پیپر دینے جاتی تھی کیونکہ اس کو بس اتنی أزادی دی گٸی تھی
شاہدہ بیگم اور ان کی دیورانی ممتاز بیگم دونوں کی بھی أپس میں کبھی نہیں بنی ۔۔۔۔۔۔ یہ تھا چوہدری خاندان
حیدر سلطان اور ولید بخش چوہدری کی دوستی بے مثال کی حد تک بے مثال رہی تھیں یہاں تک کہ لوگ ان کو دوست کم اور بھاٸی زیادہ کہتے تھے دونوں خاندان کی اتنی گہری تھی کہ اکثر گھر أنا جانا رہتا تھا
پھر ایک دن اچانک ایسا کیا ہوگیا تھا کہ گہری دوستی گہری دشمنی میں بدل گٸی تھی جو کہ سالوں سے لیکے اب تک دشمنی قاٸم تھی
حیدر سلطان کاایک بیٹا تھا جس کا نام قربان سلطان تھا
ان کا بھی ایک ہی بیٹا تھاجو کہ پرکشش کی حد سے زیادہ پرکشش تھا اور ہیڈسم بھی ۔۔
ہر لڑکی اس مغرور شہزادے کی بیوی بننے کی خواہش مند تھیں دودھیا سفید رنگت قد چھ فٹ ہلکی داڑھی أنکھوں کا رنگ براٶں سگریٹ پینے کے بعد بھی ہونٹوں کا رنگ گلابی رہا
۔۔۔ حیدر سلطان ولیدبخش چوہدری دونوں الگ گاٶں کے سردار تھے ان کی دوستی کی وجہ سے ۔دو گاٶں ایک گاٶں کی ماندہ کہلایا جاتا تھا
جب دوستی ہی نہیں رہی تو گاٶں بھی الگ ہوگٸے تھے عام گاٶں کے لوگ بھی أپس میں بات چیت نہیں کرتے تھے یہ بھی حکم ولید بخش چوہدری کا دیا گیا تھا
ان کی دوستی بچپن سے لیکر جوانی تک رہی پر افسوس جیسے اچانک ان کی دنیا ہی بدل گٸی اب وہ دونوں گاٶں میں ہر دن خون خرابا ہوتا نظر أتا تھا کبھی یا تو سرداروں کا جھگڑا یا کبھی عام گاٶں والوں کا
أپس میں جھگڑا ہوتا تھا تو دونوں گاٶں کے بیچوں بیچ پنجاٸیت لگاٸی جاتی تھیں جو کہ أج بھی ایسا کچھ ہوا تھا
حیدر سلطان کی طبیعت خراب رہنے کی وجہ سے انہوں نے سرداری کی زمیداری اپنے پوتے کو دی یانے أرحام سلطان کو پہلے تو اپنے بیٹے قربان
سلطان کو کہاں کہ وہ ان کی کرسی سمبھالے مگر انہوں نے صاف الفاظ میں یہ کہہ کر منع کردیا تھا کہ أج یا تو کل کرسی کا مالک ارحام ہے اسلیۓ أرحام سلطان کو موقعہ کی نسبت کو دیکھ کر اور سمجھ کے زمیداری أرحام سلطان کو دی تھی
وہ بہت منع کرتا رہا مگر باپ اور داداجان کے اتنے اسرار کی وجہ سے زمیداری سمبھالی بلکہ بہت اچھے سے وہ سب دیکھتا رہتا تھا
ارحام سلطان کا شہر میں اس کا ایک الگ بزنس بھی تھا اس کے ساتھ ساتھ وہ سرداری کی کرسی بھی سمبھال لیتا تھا
وہ دس سال کی عمر میں گاٶں چھوڑ کے چلا گیا تھا اور شہر بیگلون میں اپنا بسیرا قاٸم کیا پڑھاٸی کی اور ایک اپنی الگ پہچان بناٸی تھی حیدر سلطان بہت بیمار تھے اس وجہ سے گاٶں أیا تھا لیکن اس بات سے وہ بےخبر کہ حیدر سلطان اس کو سرداری کی کرسی سوپ دۓ گا
یا اللہ پاک میری حق سچ کی لڑاٸی میں میری مدد کرنا تو جانتا ہے مظلوموں پرظلم ہوتا ہوا میں نہیں دیکھ سکتی
آسمان کی اور دیکھتی دعا طلب کر رہی تھی اس نے اپنا چہرہ ایک کالی لمبی چادر میں چُپا لیا تھا چادر اپنے اردگرد بھی اچھے سے اوڑھی لی تھی
پنجاٸیت میں سب لوگ موجود تھے دونوں گاٶں کے لوگ اور سردار ایک ساٸڈ پر ولید بخش چوہدری کرسی پر ٹانگ پر ٹانگ جماۓ بڑے شان سے بیٹھے اپنی مونچھوں کو گول گول کر رہا تھا ان کے دونوں بیٹے اور پوتے بھی موجود تھے
أرحام سلطان خداکے علاوہ کسی سےڈرتا نہیں تھا وہ اکیلا ہی کافی تھا ان کے لیےاس کا روعب ہی چوہدری خاندان کو ہمیشہ ہلا کر رک دیتا تھا
مگر کہا جاتا ہے نا کہ کتے کے دھنک کبھی سیدی نہیں ہوسکتی
اس طرح ہی ولید بخش چوہدری بھی کبھی ہار نہیں مانتا تھا
سفید کلر کے شلوار قمیص میں ملبوس تھا داٸیں ہاتھ میں گھڑی پھنی ہوٸی تھی أنکھوں میں خون سوار تھا خونخوار نظروں سے وہ پورے چوہدری خاندان کو دیکھ رہا تھا اس کے لیے کوٸی مشکل نہیں تھا وہ تو بس ایک وعدہ میں بندہ ہوا تھا جو کہ حیدر سلطان نے اس کو دیا تھا
کہو کیوں پنجاٸیت ایکٹی کی ہے
ولید بخش چوہدری ارحام سلطان کی اور دیکھ کر گویا تھا
ولید بخش چوہدری أپ جتنے بھولے بننے کی ایکٹنگ کر رہے ہو تم لوگوں پر سوٹ نہیں کرتا خیر یہ تو اپ کی پُرانی عادت ہے
ارحام سلطان بھی طنزیہ تیر چلا گیا تھا مگر سامنے بیٹھے شخص پر اُس کی بات کا زرا بھی اثر نہیں ہوا
مدے کی بات پر أٶ تمھاری طرح ہم اپنا قیمتی وقت فالتوں کی باتیں لیکر پنجاٸیت نہیں بلاتے
راشد چوہدری نفرت سے گوۓ
جی جیسے تو مجھے اور پورے گاٶں کو تو پتا ہی نہیں کہ أپ کا کتنا قیمتی وقت ہے اور یہ کہاں کہاں برباد ہوتا ہے
یہ باتیں بعد میں کینٹیوں کریں گٸے ابھی مُدے کی بات ہے تو سُنو
ولید بخش چوہدری جی أپ کے دوسرے بیٹے نے میرے گاٶں کی ایک لڑکی جو کہ میری سلطان حویلی میں کام کرتی تھی آپ کے اس درندے بیٹے نے اس کی عزت میں ہاتھ ڈالا ہے بلکہ اتنا ہی نہیں جب حواس پوری کر لی تو اس معصوم کو بے دردی سے مار کر زندہ زمین میں گاڑ دیا گیا ہے
ارحام خونخوار شیر کی طرح ایک ایک جملا دانت پیستے ادا کیا
ساجد چوہدری نے اور الفاظ تو سن نے ان سن نے کردیۓ مگر اس کا دھیان خود کو درندے کہنے والےالفاظ پر اٹک گیا تھا وہ أگٸے ارحام سلطان کی جانب بڑھا
کیا کہا میں درندہ کیا ثبوت ہے تمھارے پاس کہ یہ سب میں نے کیا
ہے ۔۔۔۔۔
ارحام سلطان کے لیے ثبوت ڈھونڈنا کوٸی مشکل کام نہیں مجھے شک نہیں پورا یقین ہیں تم جیسے درندے کے علاوہ اور کوٸی یہ کام کر ہی نہیں سکتا ویسے چوہدری خاندان کی فطرت میں شامل ہے سالوں پہلے بھی وہ اپنی زبان سے مُکر گیۓ تھےاور أج بھی اپنی اوقات دیکھا رہے ہیں
ارحام سلطان کرسی کو لات مار کے دور دھکا دیا سجاد چوہدری کے سامنے کھڑا أنکھوں میں برسوں پہلے والی أگ لیے کھڑا تھا أج بھی اس کے اندر سالوں پہلے جو کچھ ہوا تھا وہ أگ اس کو اندر سے جلا رہی تھی طیش سے اس کا پرپور لہجہ تھا
پہلے ثبوت دیکھاٶں ہمھیں کہ ان سب کے پیچھے میرا بیٹا ہے میں خود اسے سزا کے طور پر تمھارے حوالے کروں گا
ولید بخش چوہدری معملا گرم ہوتا دیکھ با مشکل خود کو ٹھنڈا رکھ رہے تھے ولید بخش نے چوداری نظر گھوماٸی جہاں سب ہی ارحام سلطان کی باتوں کو سہی کہہ رہے تھے اسلیے یکدم انہیں معملا سمبھالنا پڑا
عُروشہا دور سے سب دیکھ رہی تھی اسے ارحام سلطان نہیں دیکھ رہا تھا کیونکہ اس کو صاف نظر نہیں أ رہا تھا وہ ان سے دور کھڑی تھی
اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ جس پنجاٸیت میں وہ حویلی سے اپنی موت کو داوا دۓ کر أٸی ہے صرف اس کے گاٶں کا فیصلا نہیں بلکہ ارحام سلطان کے گاٶں کا بھی ہوگا اگر اس کو پتا ہوتا تو یہ بھول کر بھی ایسی غلطی کبھی نہیں کرتی
ارحام سلطان ولید بخش کی سب چالاکیاں سمجھ اور دیکھا رہا تھا مگر وہ بھی اس کھیل کا پکا کھیلاڑی تھا
اس نے اپنے قدم اگٸے بڑھاۓ ولید بخش چوہدری کی طرف دیکھا ہی تھا کہ اس کی پیچھے کھڑی لڑکی پر نظر گٸی
بڑی سی کالی چادر میں چہرہ اچھی طرح چُپا لیا تھا اس کی أنکھیں ارحام سلطان کو اس کی اور متوجہ کر گٸی تھیں جھیل سی بڑی أنکھیں جن میں کاجل لگایا ہوا تھا دومنٹ کے لیے وہ سب کچھ بھول کر اسے تکنے لگا
اس کو دیکھ ارحام سلطان نے ولید بخش چوہدری کی اور دیکھ شیطانی مسکراہٹ اچلاٸی
ارحام سلطان کی مسکراہٹ ولید بخش چوہدری کو ایک نٸے خطرے کی گھنٹی سُناٸی دۓ رہی تھی
وہ جیسے ارحام سلطان کی نظروں کی اور جاچتے دیکھا ایک دم سے چادر میں کھڑی لڑکی کو دور سے ہی پہچان گیا ہاتھوں کی مٹھیاں زور سے بند کی
یارم یہاں أٶں
ولید بخش چوہدری ساٸڈ پر کھڑے ہوۓ پوتے کو بلایا تھا
جی دادا جان
یارم احترام سے چوہدری کے أگٸے کھڑا ہو گیا
عُروشہا کیا رہی ہیں یہاں کتنی بار کہا ہے اس لڑکی کو میں اپنے سامنے نہ دیکھوں تو وہ یہاں کیا کر رہی ہے اگر پنجاٸیت میں کسی نے اس کو دیکھ لیا تو میرے لیے مشکل ہوگٸی کیا ہر بار اس کو ایک بات سمجھ نہیں أتی پنجاٸیت میں عورت کو أنا منع ہے جلدی سے لیں جاٶں اسے یہاں سے اس سے پہلے کہ کوٸی اس کودیکھ لے میری عزت کی دھجیاں اوڑانے پر تُلی ہوٸیں ہے تمھاری خبیس بہن
دادا جان زبان سمبھالیں أپ میری بہن کے بارے میں غلط بات کہہ رہے ہیں اور عُروشہا یہاں نہیں ہیں اپ کو شاید غلط فیھمی ہوٸی ہے
اچھا میں غلط بول رہا ہوں تو زرا وہاں دیکھوں تم تو اپنی بہن کو پہچان نے میں کوٸی غلطی نہیں کرو گۓ ہیں نا
ولید بخش چوہدری غصہ میں کہتے یارم کو دور کھڑی بلیک چادر میں کھڑی لڑکی کی اور اشارہ کیا اس سے یکدم جھٹکا لگا کیونکہ بہت سمجھایا تھا یارم نے اس سے کہ ان چیزوں سے دور رہے مگر وہ کہاں باز أتی تھی اس کے سر پر تو صرف حق سچ کی لڑاٸی لڑنے کا بھوت سوار تھا
یارم جلدی سے اس کی طرف بھاگا
عُرو تم یہاں کیا کر رہی ہو
پیچھے سے جانی پھچانی مردانہ أواز پر وہ پیچھے مڑ کر چونکی
لالا أپ
عُروشہا کو اندازہ نہیں تھا کہ یارم کا اسے یوں سامنا ہوگا
چلوں یہاں سے
لالا میری بات تو سنیں وہ میں
یارم غصہ میں اس کا ہاتھ پکڑ چل دیا عُروشہا کی ایک نہ سُنی
جب تم ثبوت لاٶں گٸے پھر دوبارہ پنجاٸیت بُلانا پنجاٸیت بلانا کوٸی بچوں کا کھیل نہیں مسٹر ارحام سلطان
ولید بخش چوہدری کو یہ معملا یہاں روکنا تھا حویلی جاکر اس سے ایک اور معملا بھی دیکھنا تھا
چوہدری کا اچانک پنجاٸیت سے اٹھ کر جانا ارحام سلطان کو ایک نیا موقعہ دۓ گیا تھا
ولید بخش چوہدری تمھارے پورے خاندان کو ارحام سلطان نے مٹی کی دُھول نہ چٹواٸی تو کہنا جب دوبارہ أہی گیا ہوں تو کیوں نہ پورانا بدل لے لیا جاۓ
وہ خود سے ایک عہدہ کر بیٹھا تھا–