ادھورے خواب

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 10

”آخر کیو کرتی ہیں آپ میرے ساتھ ایسا.؟ کیا معذور ہونا یا نہ ہونا میرے بس میں ہے.؟ کیا اپنی خوشی سے اس وہیل چیئر پر بیٹھی ہوں.؟ کیوں کرتی ہیں آپ مجھ سے اتنی نفرت کیوں۔ قدسیہ بیگم کے جانے کے بعد کافی دیر تک رونے کے بعد بھی اسے سکون نہ آیا تو خود سے باتیں کرنے لگی۔
شکر ہے مامی نے مجھے ایک تقریب میں شامل ہوں نے کی اجازت تو دی اگر یہ بھی نہ دیتی تو میں کیا کرتی، اپنی ہی بہنو کو دلہن بنا دیکھنے کا میرا یہ خواب بھی ادھورا رہ جاتا،
مامی بھی شاید اپنے بیٹے کی وجہ سے مجھ سے نفرت کرنے لگی ہے پہلے تو مامی مجھ سے اتنی کھچی کھچی نہیں رہتی تھی، آخر کون سی ماں اپنے بیٹے کی شادی ایک اپاہج سے کرنے کو تیار ہوگی، لیکن اس سب میں میرا کیا قصور ہے اگر وہ آئزہ کو نہیں مجھے پسند کرتا ہے، ۔ پھر کچھ یاد آنے پر اسکے دماغ نے مامی کی طرف داری کی تو دل فوراً جواز پیش کیا۔
“سب تمھارا قصور ہے ارحم.! نہ تم وہ بات کرتے نہ ہی مامی مجھے میری ہی بہنوں سے دور کرتی، مامی کو لگتا میں تمھیں آئزہ سے چھین لوں گی، مگر مامی میں آپ کو کیسے یقین دلاؤ کہ میں آئزہ سے کبھی بھی ارحم کو نہیں چھین سکتی، وہ میری بہن کی محبت ہے اور میں اپنی بہن کی خوشیاں کیسے چھین سکتی ہوں۔ طوبیٰ انہی سوچوں میں گم تھی کہ ایک بار پھر دروازہ کھلنے کی آواز پر سہم گئی۔
”آپی.! آپ کیا ہر وقت خود کو کمرے میں بند رکھتی ہیں باہر آئے سب کے ساتھ بیٹھیں، دیکھیں باہر کتنی رونق لگی ہے، وہاج بھائی بھی آئے ہیں اپنی ماما کے ساتھ۔مقابل کی کیفیت سے انجان آئزہ نے لائٹ اون کرتے ہوئے اپنی دھن میں بولتی چلی گئی۔
”پلیز آئزہ.! لائٹ بند کرو.! روشنی میری آنکھوں میں چھب رہی ہے پہلے ہی میرا سر درد سے پھٹ رہا ہے۔ آنکھوں پر ہاتھ رکھے اٹھ کر بیٹھتے اسنے خود کو نارمل رکھنے کی کوشش کی۔
”آپی.! آپ کو ارحم کا پتا ہے نا وہ پھر ناراض ہوگے.! آئزہ کو ارحم کی فکر ہوئی۔
”نہیں ہوگا.! اگر ہو بھی تو اسے کہہ دینا اسے میری فکر کرنے کی ضرورت نہیں.! بال کان کے پیچھے کرتے اسنے نظریں ملانے سے گریز کیا۔
”کیا باتیں ہو رہی ہیں.؟ ارحم کمرے داخل ہوا جس پر وہ سیدھی ہوکر بیٹھتی رخ پھیر گئی
آپ خود ہی دیکھ لیں ارحم.! آپی کہہ رہی ہیں مجھے باہر نہیں آنا۔ آئزہ نے بتایا۔
“اچھا تو پھر ٹھیک ہے.! لاپروائی برتی۔ جس پر دونوں کی متعجب نظریں ایک ساتھ ہی ارحم کی سمت اٹھی۔
”یہ آپ ہی ہے ناں.؟ آئزہ کی حیرت بنوز برقرار تھی۔
”آپ تو آپی کو کبھی اپنی مرضی نہیں کرنے دیتے.؟
”میں نے اپنی مرضی کی ہی کب اگر میں اپنی مرضی کرتا تو آج منظر کچھ اور ہی ہوتا۔ طوبیٰ پر نظریں ٹکائےانداز معنی خیز تھا جس پر طوبیٰ نے فوراً سے اپنی آنکھیں پھیر لی تھی۔
”اچھا چلو باہر مہمان آگئیں ہیں.؟ ارحم کہہ آئزہ سے رہا تھا نظریں طوبیٰ پر مرکوز تھی جو منہ پھیرے بیٹھی تھی۔
”آئزہ.! جاتے ہوئے لائٹ بند کر دینا۔ ارحم کی جانب دیکھے بغیر کہا۔
”تم اندھیرے میں تنہا ہی مرنا، کوئی نہیں آئے گا پوچھنے۔ ارحم طنزاً کہتے وہاں سے چلا گیا آئزہ بھی اسکی معیت چلی گئی اور وہ ہمیشہ کی طرح تنہا رہ گئی۔
💛💛💛💛💛💛💛💛💛💛
”لانچ میں سب بیٹھیں باتیں کر رہے تھے جبکہ آزر خان کی متلاشی نظریں طوبیٰ کو ڈھونڈ رہی تھی کتنے دن ہو گئے ہیں تمھیں ایک نظر دیکھے۔
”صبر رکھ یار آج ہم آئیں ہیں تو بات کر کے ہی جائیں گیں۔ارحم سے آزر کی بیچنی چھپی نہ تھی تبھی اسکے تلقین کی جس پر اسنے اثبات میں سر کو جنبش دی
اس دن ارحم نے ازر کو طوبیٰ سے وہ سب کہتے سن لیا اسی لیے اصرار نہ کیا باہر آنے کیلئے۔ارحم کو تو آزر کا آنا ہی برداشت نہیں ہو رہا تھا۔
”وہاج.! پلیز بات کرو آنکل سے.؟ آزر کی بےتابی بڑھتی جارہی تھی۔
”کرتے ہیں.! کرتے ہیں.! تھوڑا تو صبر کروں،وہ بھی اسکی حالت سے محضوظ ہو رہا تھا جس پر آزر نے اسے تیز نظروں سے دیکھا۔
”ماما.! ہم جس بات کیلئے آئیں ہیں وہ بات کریں.؟. وہاج نے فرحانہ سے کو گویا یاد دلایا۔
”جی بھائی صاحب.! آج ہم آپ کے پاس ایک عرضی لیکر حاضر ہوئے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ آپ خالی ہاتھ نہیں لوٹائیں گیں۔ فرحانہ بیگم نے چائے کا ٹیبل پر رکھتے ہوئے تمہید باندھی تو یک دم ماحول سنجیدہ ہو گیا۔
”جی آپ نے فون پر بھی یہی کہا، کیا بات ہے صاف صاف کہیں اب ہمیں پریشانی ہو رہی ہے۔ آریان صاحب نے سنجیدگی سے استفسار کیا۔ باقی سب بھی انھی کی جانب متوجہ ہوئیں۔
”اریان صاحب.! آج میں اپنے دوسرے بیٹے کے لیۓ آپ کی بیٹی کا رشتہ لے کر آئی ہوں اور مجھے یقین ہیں آپ انکار نہیں کریں گیں.؟۔ انکی اگلی بات پر سب کو سانپ سونگھ گیا آریان اور سائرہ نے ایک دوسرے کو دیکھا
باقی سب فرحانہ بیگم کو دیکھنے لگے جیسے انھیں فرحانہ کی دماغی حالت شبہ ہوا ہو۔
لائبہ تو وہاج سے منسوب ہے اور آئزہ میرے بیٹے کی منکوحہ تو آپ کس کی بات کر رہی ہیں۔ اس پہلے کے اریان صاحب کچھ بولتے قدسیہ بیگم تجسّس کے ہاتھوں مجبور ہوکر پوچھ بیٹھی۔
جی میں طوبیٰ کی بات کر رہی ہوں۔ فرحانہ بیگم گویا بمم پھوڑ کر سب کو دھنگ کر دیا ارحم کا تو بس نہیں چل رہا تھا کہ سب کو گھر سے دھکیں مار کر نکال دے خاص کر کے آزر کو۔
”انکل پلیز انکار نہیں کرنا میں یقین دلاتا ہوں کہ آپ کو کبھی شکایت کا موقع نہیں دونگا۔ آریان کو خاموش دیکھ کر آزر نے یقین دہانی کروانے کی کوشش کی۔ جس پر ارحم سلگ کر رہ گیا۔
”مگر طوبیٰ شادی نہیں کرنا ہی نہیں چاہتی۔ سائرہ نے اطلاع دی۔
”آنٹی.! میں اسے منا لونگا آپ لوگ بس ہاں کر دیں.! اصرار کیا
جس پر ایک بار پھر لانچ میں خاموشی چھا گئ تھی۔
”وہ کبھی نہیں مانے گی میں اسے اچھے سے جانتا ہوں.! ارحم خاموشی کو توڑا۔
”تم فکر نہیں کرو میں جانتا ہوں مجھے کیا کرنا ہے۔ آزر کو اسکا بولنا پسند نہیں آیا تھا۔
”میں ابھی آپی کو لیکر آتی ہوں پھر آپ ان سے پوچھ لیجیے گا انکی مرضی..؟ آئزہ خوشی سے دیدنی تھی تیزی سے اٹھی تو ارحم نے ایسی نظروں سے دیکھا کے وہ وہی بیٹھ گئی۔
”لیکن وہ تو اپاہج ہے۔ قدسیہ بیگم بولی وہ کہا باز انے والی تھی۔
”مجھے فرق نہیں پڑتا ان سب باتوں سے میں محبت کرتا ہوں طوبیٰ سے آنکل آپ بس ہاں کر دیں، میرے لیے اتنا ہی کافی ہے۔ اٹل لہجے میں کہتے ایک مرتبہ پھر آریان صاحب سے ریکوسٹ کی۔ارحم کی تو آنکھوں میں جیسے خون اتر ایا تھا
”بیٹا بھلا ہمیں کیا اعتراض ہوسکتا آپ تو ہمارے دیکھے بھالے ہو لیکن.؟ طوبیٰ کبھی نہیں مانے گی۔ اریان صاحب نے نیم رضامندی ظاہر کی تو فرحانہ بیگم اور وہاج پر سکون ہوئے۔
”میں منا لونگا آنکل.؟ آپ فکر نہیں کریں اس کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہوگا۔ پر مسرت انداز میں کہتے ہوئے اسکی آنکھوں میں بلا کا یقین تھا جس پر آریان صاحب نے چہرے پر تبسم لیے آنکھوں کو جنبش دی تو آزر پورے وجود میں سرشاری کی لہر دوڑ گئی۔
”تھینک یو آنکل.! تھینک یو سو مچ.! آپ کی ایک ہاں نے مُجھے نئی زندگی دیدی۔ وہ اٹھ کر آگے بڑھا تو آریان صاحب نے بھی اسے کھڑے ہوکر گلے لگا لیا۔وہاج نے بھی ازر کو مبارک دی تھی سب خوش تھے
”میں ابھی آپ سب کا منہ میٹھا کرواتی ہوں.! آئزہ اپنی جگہ سے اٹھی۔
”ایک اور بات ہے جو میں آپ سب سے کہنا چاہتا ہوں.؟ اسے قبل کے آئزہ و لائبہ ڈرائنگ روم سے نکلتے آزر کی آواز نے انکے قدموں کو ساکت کیا۔
”پلیز.!کوئی بھی یہ بات طوبیٰ کو ابھی نہ بتائے جب تک میں اسے منا نہیں لیتا تب تک تو بالکل نہیں, پلیز.؟ ازر نے ریکوسٹ کی تھی۔
”لیکن آزر بھائی.! مجھے تو ابھی بتانا ہے آپی کو، میں دیکھنا چاہتی وہ یہ جان کر کیسے ریئکٹ کرتی ہیں۔ آئزہ کی بے تابی عروج پر تھی۔
“پلیز.! تھوڑا وقت دیں.؟
ٹھیک ہے تم جو چاہو گے وہی ہوگا۔ آریان صاحب نے یقین دہانی کروائی۔
ایک طرف آزر من چاہی مراد بر آنے پر خوشی پھولے نہیں سما رہا تھا اب تو وہ بس ایک نظر طوبیٰ کو دیکھنے کا خواہاں تھا۔
وہی دوسری جانب ارحم سے ازر کی خوشی برداشت نہیں ہو رہی تھی ہوتی بھی کیسے آخر وہ اسکی محبت تھی اور اپنی محبت کو کیسی اور کا ہوتا ہوا دیکھنا آسان نہیں ہوتا،ارحم کا تو صبر جواب دینے لگا طوبیٰ کے وعدے نے اسکے ہاتھ باندھ رکھے تھیں ورنہ تو اسکا دل چاہ رہا تھا چیخ چیخ کر سب کو بتائے کے وہ آئزہ سے نہیں طوبیٰ سے محبت کرتا ہے اور اسی سے شادی کرنا چاہتا ہے جس پر ضبط کیے وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور تیکھی نظروں سے اپنی ماں کو دیکھتے تیزی واک آؤٹ کر گیا۔
💛💛💛💛💛💛💛
”وہاج کال پر بات کرنے باہر آیا جس کہ پیچھے ہی آزر بھی چلا آیا جس کی نظریں بنوز طوبیٰ کو ڈھونڈنے میں کوشاں تھی جو اسے کہی نظر نہ آئی۔
”ازر بھائی.! آپی یہاں نہیں ہیں۔ آئزہ جو کسی کام سے وہاں آئی تھی آزر کو دیکھ اسکی جانب آتے دھیرے سے بولی تو آزر نے فوراً سے گڑبڑا کر ایسے چونکا جیسے اسکی چوری پکڑی گئی ہو۔
”وہ تو۔۔۔۔! میں بس۔۔۔۔؟ آزر نے ہڑبڑاہٹ میں وضاحت دینی چاہی جس پر آئزہ کے چہرے پر مسکراہٹ ڈور گئی۔
جی۔۔۔۔!! جی۔۔۔!! آپ تو بس آپی کو ڈھونڈ رہے ہیں.؟ وہ بھی کہاں باز آنے والی تھی۔
”کیا ہو رہا ہے یہاں۔۔.؟ کال بند کر کے موبائل جیب میں رکھتے وہ بھی انکی جانب متوجہ ہوا۔
کچھ نہیں.! میں بس بھائی سے پوچھ رہی تھی کہ کچھ چاہیے تو نہیں۔.؟ معصومیت چہرے پر سجائے آئزہ نے بات بدلی۔
کیا مطلب چاہئے تو نہیں.! تمھیں نظر نہیں آرہا کہ میرا دوست کسی کو دیکھنے کیلئے کس قدر بیچین ہے،اور تم ہوکہ کچھ سمجھ ہی نہیں رہی۔ وہاج بظاہر آزر کی طرف داری کرتے آزر کی حالت سے محضوظ ہو رہا تھا جس پر اسنے گھوری سے نوازا
”ویسے یہ ہے کہاں.؟ اندر بھی نہیں تھی یہاں بھی نہیں.؟ وہاج نے خود ہی پوچھ کر آزر کی مشکل حل کی۔
”وہ آپی کی طبیعت نہیں ٹھیک ہے نا“ اس لئے اپنے کمرے میں ہیں۔ آئزہ کے بتانے پر آزر متفکر ہوا
کیا ہوا اسے۔۔.؟
ہاں.! ہاں۔! بتاؤ میرا دوست بہت اچھا ڈاکٹر بھی ہے ضرورت پڑنے پر علاج بھی کرلیتا ہے، کیوں آزر.؟ اسکی فکر کو دیکھ کر وہاج نے چھیڑا۔
”تم کبھی سیریس ہوسکتے ہو.؟ سختی سے ٹوکا جس پر آئزہ بھی سنجیدہ ہوئی۔
”پریشان ہونے کی بات نہیں،بس ویسے ہی وہ ذیادہ تر اپنے کمرے میں بند رہتی ہیں۔ آزر کی بیچینی دیکھ آئزہ نے وضاحت کی۔
”مجھے اسے ملنا ہے تم بتا سکتی ہو کمرا کہاں اسکا۔ دو ٹوک انداز میں پوچھا جس پر آئزہ کا بے ساختہ ہاتھ اسکے کمرے کی جانب اٹھا جبکہ وہاج تو اسکے دبنگ انداز میں ہی دنگ رہ گیا اور وہ انھیں وہی چھوڑ کر طوبیٰ کے کمرے کی اور بڑھ گیا۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial