ادھورے خواب

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 11

”ارحم گھر سے نکل تو آیا مگر اب اسے جانا کہاں ہے نہ منزل کا پتہ تھا نہ راستوں کو وہ بس انجان راہوں میں پر ریش ڈرائیونگ کرتا اپنے اندر چلتے خلفشار کو کم کرنے کی تگ و دو میں اسکے جبڑے بینچ گئے تھے۔
”اپنے حواس زائل ہوتے ہوئے محسوس ہوئے ضبط کی ساری طنابیں ٹوٹ گئی ایک آنسوں ٹوٹ کر گال پر پھسل گیا جس کے ساتھ ہی بریک لگی اور جھٹکے سے اسکا سر سٹیرنگ جا لگا۔
لوگ کہتے ہیں کہ مرد روتے نہیں جو یہ کہتے ہیں اگر آج اس خوبرو نوجوان کو اسطرح بچوں کی طرح بلک بلک کر روتا دیکھ لیتے تو جان جاتے کہ مرد کو بھی درد ہوتا اور اگر درد ہو اور اسکی شدت ناقابل برداشت ہو جائے تو پھر وہ روتا بھی ہے اور اس طرح کہ دیکھنے والے کو ششدر کر دے۔
بچپن لڑکپن کی یادے کیسی فلم کی طرح اسکے سامنے چلنے لگی اسے بھی کہا انداز تھا کہ ایک ڈرامہ اسکی زندگی کی حقیقت بن جائے گا۔
”ارحم.! آج مامی نے میری پڑھائی چھڑوا دی کہتی ہیں میں اپاہج پڑھ لکھ کر کیا کرو گی.؟ ارحم تم تو جانتے ہو مجھے کتنا شوق ہے آگے پڑھنے اور۔۔۔۔۔۔!! بارہ سالہ طوبیٰ افسردگی سے بتاتے ہوئے رکی۔
اور۔۔۔۔!! دس سالہ ارحم پوچھتے ہوئے جھولے پر اسکے پہلوں میں بیٹھا۔
اور یہ کہ اچھا ہی ہے مُجھے بھی نہیں پڑھنا آگے وہاں سب بچے مجھے تنگ کرتے ہیں، عجیب عجیب ناموں سے پکارتے جو مجھے اچھا نہیں لگتا۔ اسی انداز میں مزید کہتے ہوئے دو موتی ٹوٹ کر بہہ گئیں جسے ارحم نے اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے صاف کئے۔
”تم کیوں پریشان ہو رہی ہو طوبیٰ.! میں ہوں ناں.؟ تمھارے ساتھ میں ماما کو سمجھاؤں گا۔
جب تک تمھارا یہ دوست تمھارے ساتھ ہے تمھیں کسی بات کی فکری کرنے کی ضرورت نہیں اور تم دیکھنا میں ان بچوں کو بھی نہیں چھوڑوں گا جنھوں نے میری اتنی پیاری دوست کو تنگ کیا۔ ارحم نے اپنے تائی اسکی دل جوئی کی جو خود اسکی کے آنسوں کی وجہ جانے کے قابل نہیں تھا۔
”تھنک یوں.! ارحم مگر تم مامی سے کچھ مت کہنا نہیں تو پھر وہ مجھے ڈانٹے گی۔ دل میں چھپا ڈر زبان پر لائی۔
یک دم منظر بدل گیا۔
“طوبیٰ.! طوبیٰ.! یہ دیکھوں میں تمھارے لیے کیا لیکر آیا ہوں.؟ وہ پکارتے کمرے میں داخل ہوا۔
”کیا۔۔۔! وہ جو خاموشی سے بالکونی میں رکھیں پودوں کی شاخوں کو چھانٹ رہی تھی ارحم کی آواز پر اسکی جانب متوجہ ہوئی۔
”کینوس.! کلرز.!
ارحم.؟ تمھیں کیسے پتا چل جاتا ہے مجھے کیا چاہئے۔ اسکے پاس اپنے پسندیدہ چیزوں کو دیکھ وہ خوشی سے چہک اٹھی۔
تم کچھ سوچو اور میں ناں لاؤں ایسا ہو سکتا ہے بھلا.؟ اسکے سامنے کینوس سیٹ کرتے ہوئے بولا
”تھنک یوں ارحم.! وہ شکر گزار ہوئی
”تھینکس.! کام نہیں چلے گا، تمھیں میری پینٹگ بنانی پڑے گی۔ انداز شرطیہ تھا جس پر وہ اثبات میں سر ہلا گئی۔
منظر ایک مرتبہ پھر تبدیل ہوا۔
”میرے پاس تمھارے لیے ایک اچھی خبر ہے۔ دونوں ہاتھوں کو پشت پر باندھے اسکی طرف آیا۔
”تمھارے چہرے کی خوشی بتا رہی ہے ضرور کوئی بڑی بات ہے۔ انداز لگایا۔
“آینی گیسس.؟
”کہیں تمھارا یونی میں ایڈمیشن تو نہیں ہو گیا.؟ انداز سوالیہ جس پر ارحم نے مسکراتے ہوئے اثبات سر ہلایا تو وہ بھی مسکرا دی
”آئیم سو ہیپی فور یوں ارحم.! کب دے رہے ہو اب ٹریٹ۔ خوش ہوتے ہوئے پوچھا۔
“تم اپنی آنکھیں بند کرو.؟ تمھاری ٹریٹ تمہارے سامنے ہوگی۔ارحم کے کہنے پر اسنے گھنی پلکیں گرائی پہلی بار ارحم کے دل نے بیٹ مس کیا کتنی معصوم کتنی خوبصورت تھی اسکے سامنے بیٹھی لڑکی اسے کبھی پتا ہی نہ چلا یونہی اسکے چہرے کے دیکھتے ایک ہاتھ پر آئسکریم اور دوسرے پر چوکلیٹ رکھی۔
”اوپن یور آیز.! اسکے حسن میں بہکتے بے ساختہ جھک کر سرگوشی کی جس پر چونکتے طوبیٰ نے ارحم کو خود سے دور کیا جبکہ اس کا دل خوف سے لرزنے لگا۔
”یہ کیا بدتمیزی ہے ارحم.! یک یک اسکے لہجے میں سرد مہری در آئی
اور یہ دونوں چیزیں اپنے پاس رکھوں تم نے سمجھ کیا رکھا ہے مجھے، ہنس کر بات کیا کر لی تم تو اپنی حد ہی بھول آئندہ ایسی حرکت کرنے سے قبل سو بار سوچ لینا آئی سمجھ.!
سختی سے کہتے اسنے انگلی اٹھائی۔
“میں تو مذاق کر رہا تھا آئی ایم سوری اگر تمہیں اچھا نہیں لگا تو.! ارحم نے بات بدلتے ہوئے وضاحت کی
“مجھے ایسا مذاق ہر گز نہیں پسند نہ ہی اب ہم بچیں ہیں اسلئے بہتر ہے کہ اپنی حد میں رہو.! وہ سلگتے ہوئے اپنی بات کہہ کر اندر چلی گئی۔
”ارحم کو آج بھی وہ دن اچھی طرح یاد تھا جب طوبیٰ نے اس کی محبت کو اپنی قسم دے کر اسکے ہاتھ باندھ دیے تھیں۔
”طوبیٰ اپنے پودوں کی شاخوں کو چھانٹتے ان سے باتیں کرنے میں مشغول تھی کہ۔
”بھوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!“ دبے پاؤں آکر کسی نے زور سے اسکے کان کے پاس کیا جس پر ہاتھ میں پکڑا کٹر چھوٹ کر زمین بوس ہوا۔
یہ کیا بات ہوئی ارحم ایسے کیسی کو ڈراتے ہیں.؟ طوبیٰ نے اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر ڈر ہی گئی جس کے چہرے کے تاثرات دیکھتے ارحم کی ہنسی پورے لان میں گونج رہی تھی۔
“بس بھی کر دو.؟ اتنی بھی کوئی ہنسنے والی بات نہیں ہے۔ ارحم کی ہنسی اس بالکل اچھی نہیں لگی۔
”اچھا اپنا چہرہ تو دیکھو کیسے ڈر کے مارے لال بھمبھور ہو گیا ہے جسے کوئی جن دیکھ لیا ہو۔ اسکی ہنسی کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔
“تم کسی جن سے کم ہو کیا.؟ وہ سنجیدہ تھی۔
“ہاں یہ تو ہے.! آج وہ واقعی بہت خوش تھا
اچھا اب صرف ہنسنا ہے یا پھر میری بات بھی سنی جس کے لیۓ میں نے تمھیں بلایا۔ اسنے پوچھا۔
“اچھا بولو.؟ کرسی کھنچ کر بیٹھتے وہ سیریس ہوا۔
“ارحم کل مامی آئی تھی، وہ مجھے ایک کام کہہ کر گئی ہیں۔ انگلیاں موڑتے تمہید باندھی
”اچھا.! ایسا کون سا کام جس کیلیے انھیں تمھاری سفارش کی ضرورت پڑ گئی.؟۔ اسے حیرت ہی ہوئی۔
وہ چاہتی ہے میں تمھیں سے کہوں.؟ کیونکہ انھیں لگتا ہے کہ تم میری بات نہیں ٹالو گیں، اور سچ کہوں تو کہیں ناں کہیں میری بھی دلی خواہش ہے کہ تمھاری اور آئزہ کی شادی ہو.! طوبیٰ کی سنجیدہ مگر ٹھہرے ہوئے انداز میں کہی بات پر وہ بھڑک اٹھا۔
کیا۔۔۔۔؟؟“ ارحم ایک دم اپنی جگہ سے اٹھا۔
ہاں! اور آئزہ کو بھی کوئی اعتراض نہیں.؟
مگر مُجھے ہے میں یہ شادی نہیں کروں گا.؟۔
”مگر کوئی وجہ بھی تو ہو.! انکار کی آئزہ خوبصورت ہے پڑھی لکھی ہے ہر لحاظ سے تمھارے ساتھ سوٹ کرتی ہے آخر کمی کیا ہے، اس میں جو تم اسطرح ریئکٹ کر رہے ہو.! وہ اب تک اسکے یوں آگ بگولہ ہونے پر حیرت میں تھی۔
“طوبیٰ.! تم جانتی بھی ہو کیا کہہ رہی ہو.؟ حد درجے سنجیدہ تاثرات لیے استفسار کیا۔
“بیشک میں نے تم سے کبھی کچھ کہا نہیں، لیکن مجھے لگا تھا کے تم میرے دل کی بات جانتی ہوگی، جس طرح میں تمھارے دل کی ہر بات جانتا ہوں سابقہ انداز میں کہتے وہ اسکے سامنے پنجوں کے بل بیٹھتے اسکے رو برو ہوا اسکی بات سن کر وہ ناسمجھی سے اسکی اور دیکھے گئی۔
“تم کیسے مجھے کسی اور کیلئے چھوڑ سکتی ہو؟ کیسے؟؟۔ ارحم بے یقینی سے ایک ایک لفظ چبا کر دو بدو ہوا
“کیسی باتیں کر رہے ہو.؟ تم کون سی بات ہے تمھارے دل میں جو میں نہیں جانتی.؟ طوبیٰ اب تک اسکی بات کا مفہوم سمجھ نہیں پائی تھی یا پھر وہ جان بوجھ کر ایسا کر رہی تھی کہنا مشکل تھا۔
” کیا تم واقعی نہیں جانتی میں کیا کہہ رہا ہوں.؟ تمھیں میری آنکھوں میں کبھی اپنے لیے محبت نظر نہیں آئی.؟ مگر آئزہ کی آنکھوں میں میرے لیے محبت نظر آگئی.؟اتنی تو تم بچی نہیں ہو.؟۔ غصے و درد کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ ارحم کی آنکھیں آنسوں سے بھر گئی۔
”کیا مطلب تمھاری ان باتوں کا تم کہنا کیا چاہتے ہو.؟ جان کر انجان بننی۔
”تم ابھی بھی نہیں سمجھی آئی لوو یوں.! ڈیم ایٹ.! میں تم سے محبت کرتا ہوں.! تم سے.! تم ہو میری محبت.! جسے تم جان کر بھی انجان بننے کی ایکٹنگ کر رہی ہو، کیا میں جانتا نہیں ہُوں تمھیں۔ ارحم نے طوبیٰ کے دونوں کندھوں کو زور سے دبوچتے اپنا دل کھول کر رکھ دیا ارحم کی بات سن کر ایک زخمی مسکراہٹ طوبیٰ کے ہونٹوں کو چھو کر گزری۔
”لگتا ہے تم اپنے حواسوں میں نہیں تبھی یہ سب کہہ رہے ہو.! طوبیٰ کی آنکھوں سے بےبسی و لاچاری کے آنسوں گال پر پھسلے گئیں اس نے کب سوچا تھا اس کاواحد دوست اس سے ایسا کچھ کہہ سکتا ہے۔
”تم ایسا سوچ بھی کیسے سکتے ہو ارحم.! میں نے ہمیشہ تمھیں اپنا چھوٹا بھائی سمجھا،میں اور تم ایسا کبھی نہیں ہوسکتا ارحم،تمھیں نظر نہیں آرہا میں اپاہج ہوں.؟ مامی کو پتا لگا تو وہ تو میری جان نکل دینگی۔
اور آئزہ جانتے ہو کتنی محبت کرتی ہے وہ تم سے، تم کیسے اتنے خود غرض ہو سکتے ہو.؟ اگر اسے یہ سب پتہ لگا وہ تو مر ہی جائیگی نہیں۔۔۔!! نہیں۔۔۔۔!!“ تم ایسا نہیں کر سکتے
ارحم.! کیا گزرے گی مامی پر جب اُنھیں پتا چلے گا کے تم ایک اپاہج کو ان کی بہوں بنانا چاہتے ہو..!نہیں ارحم نہیں میں یہ سب ہونے نہیں دے سکتی۔ ہذیانی انداز میں کہتے ارحم کا ہاتھ اپنے کندھے سے اٹھا کر اپنے سر پر رکھ دیا۔
” ارحم تمھیں میری قسم ہے تم یہ بات دوبارہ نہیں کروگے اور اپنے جزبات کو اپنے دل میں ہی رکھو گے، دوبارہ کبھی یہ بات تمھاری زبان پر نہیں آنی چاہیے، تم محبت کرتے ہو ناں مجھ سے تو پھر ٹھیک ہے یہی تمھاری محبت کا امتحان ہے شادی کر لو آئزہ سے۔ کسی بھی طرح کے جزبات سے عاری ایک ہی سانس میں وہ کہتی چلی گئی جسے وہ منجمند ہوتے حواس کے ساتھ سنتا چلا گیا۔
ارحم تو بس ساکت نظروں سے اسے بے رحم کو دیکھ کر رہ گیا جس ایک لمحہ توقف کیے بنا سوچے سمجھے عمر قید کی سزا سنا دی تھا جس پر مقابل نے کوئی سوال اٹھائے بغیر سر تسلیم خم کر دیا کتنا درد تھا ارحم کی آنکھوں میں جیسے کہنا چاہتا ہو میری محبت احساسات میرے جزبات کا کیا۔
”ان دونوں کے سوا وہاں کوئی اور بھی تھا جو یہ سب دیکھ اور سن رہا تھا ارحم اس بات سے انجان وہاں سے اٹھ کر بنا کچھ کہے تیزی سے نکل گیا تھا۔
“کیوں.؟ کیا تھا تم نے میرے ساتھ ایسا کیوں.؟ کیسے دیکھوں گا میں تمھیں کسی اور کے ساتھ، تمھارے جتنا بڑا دل نہیں ہے میرا۔ سیٹ کی پشت سے سر ٹکائے خاموش آنسوں اسکی بریڈ میں جزب ہوتے چلے جا رہے تھے وہ رو رہا تھا تڑپ رہا تھا لیکن کوئی نہیں تھا جو اسے سمجھ سکتا وہ اپنی ہی آنکھوں کے سامنے اپنی محبت کو کسی اور کا ہوتا دیکھنے پر مجبور تھا
“نہیں تم کسی اور کی نہیں ہو سکتی تمھیں.! میری بات سننی پڑے گی۔ اسنے سوچ لیا تھا اسے کیا کرنا ہے۔
💛💛💛💛💛💛💛💛
”کافی دیر تک خود سے الجھنے کے بعد اب اسکے آنسوں بھی خشک ہو گئیں اور وہ بیڈ پر پشت سے ٹیک لگائے بالکونی سے آتی چاند کی روشنی کو خاموش نظروں سے دیکھ رہی تھی کہ اسے دروازہ کھلنے کی آواز آئی مگر اس بار وہ بنا چونکہ یونہی بیٹھی رہی۔
”آئزہ لائٹ اون کیے بغیر ہی جو کہنے آئی ہو کہہ دو اور اگر کھانا لیکر آئی ہو تو واپس لے جاؤں مجھے بھوک نہیں۔ سپاٹ انداز میں بنا دیکھے ہی بولے چلے گئی جسے وہ خاموشی سے سن رہا تھا۔
”اہم۔۔! اہم۔۔! دل لیکر آیا ہوں تو کیا وہ بھی واپس لے جاؤں؟۔ گھمبیر مردانہ آواز پر بوکھلاتے خود ہی پاس رکھے ریموٹ سے لائٹ اون کر دی جس پر پورا کمرا روشن ہوا جس میں دونوں کی آنکھیں چندھیا گئیں۔
دروازے سے ٹیک لگائے دونوں بازو سینے پر باندھے پورے انمہک سے اسے دیکھ رہا تھا جو لائٹ اون ہوتے آہستہ سے چلتے آگے بڑھا جسکی نظریں طوبیٰ سے ہٹ کر کمرے میں لگی پینٹنگ پر گئی۔
آپ۔.؟ بے یقینی سے اپنی آنکھیں مسلتے پاس رکھا اپنا دوپٹہ سینے پر پھیلا کر اوڑھا۔
”میں آپ سے پوچھ رہی ہوں.؟ آپ یہاں کیا کر رہے ہیں.؟ اسنے بات پر زور دیا طوبیٰ کی آواز نے اس کی طرف متوجہ کیا۔
“اگر تم میری کال نہیں اٹھاؤ گی میرے میسج کا کوئی رپلائی نہیں دونگی، پھر مجھے تو کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑے گا۔
آہستہ سے چلتے ہوئے وہ اسکی جانب آیا جس پر وہ گھبرا گئی۔
آپ… یہاں کیوں آئیں ہیں.؟ آزر کو دیکھ انجانے خوف سے اسکا دل لرزنے لگا۔
ابھی تو بتایا کہ تم میری کالز اٹینڈ نہیں کر رہی تھی۔ سابقہ جواب دیا۔
“میں شور مچا دونگی آزر آپ چلے جائیں یہاں سے.! گھہرے گھہرے سانس لیتے اسنے اپنے ڈر پر قابو پانے کی کوشش کی۔
“مچا دو ویسے کیا کہوں گی کے میں یہاں کیسے آیا.؟ بیڈ کی پائنتی پر بیٹھتے وہ بظاہر سنجیدگی سے پوچھنے لگا تو اپنی اپنا سانس روکتا ہوا محسوس ہو رہا تھا جس پر سہم کر سمٹی۔
“پلیز۔۔۔!! ازر آپ یہاں سے چلے جائیں اگر کسی نے آپ کو یہاں دیکھ لیا تو سب کیا سوچیں گیں؟۔ اسکی آنکھوں میں نمی اتر آئی۔
”میں نے ایسا تو کچھ نہیں کیا جو تم میرے یہ انمول موتی ضائع کر رہی ہو.! ہاتھ بڑھا کر اسنے اسکے آنسوں صاف کرنے چاہے جسے وہ برق رفتاری سے جھٹک گئی۔
”آپ دور رہ کر بات کریں.؟ سختی سے ٹوکا
یہ تم میرا ہاتھ کیوں جھٹکتی ہو.! یوں اسکا ہاتھ جھٹکنا اسے پسند نہیں آیا۔
”یہ فون کس لیے رکھا اگر کال ریسیو ہی نہیں کرنی ہوتی۔سائیڈ ٹیبل پر رکھے موبائل کی جانب متوجہ ہوا۔
”میں اجنبیوں کی کال ریسیو کرنا تو ایک طرف انکی کال آنا بھی گوارہ نہیں کرتی مگر۔۔۔۔۔
میں ابھی بھی اجنبی ہو تمہارے لیۓ۔۔؟؟ اسکی بات مکمل ہونے سے قبل مداخلت کی۔ جس پر وہ نظریں پھیر گئی۔
”اگر تم واقعی ایسا سمجھتی ہو توبہت جلد میں تمھاری یہ غلط فہمی دور کر دونگا۔ اسے خاموش پا کر گویا ہوا انداز گھمبیر تھا۔
” آپ جا رہے ہیں یا پھر میں باہر سے کیسی کو بلاؤں. اسکی بات کو خاطر میں لائے بغیر وہ اسے ایک بار پھر باہر کی راہ دیکھائی۔
”بلا لو مجھے فرق نہیں پڑتا البتہ میرا کام آسان ہو جائے گا۔ بے نیازی سے کہتے شرارت اً مسکرایا تو اسکی بات کا مفہوم سمجھتے ایک بار پھر اسکی آنکھوں میں آنسوں اُمنڈ آئیں۔
“اچھا.! اچھا.! میں جا رہا ہوں پھر رونا مت شروع کرنا مجھ سے تمھارے آنسوں نہیں دیکھے جاتے۔طوبیٰ کی آنسوؤں سے لبریز آنکھوں کو دیکھ بے ساختہ اسکا ہاتھ آگے بڑھا مگر پھر کچھ سوچتے ہوئے وہی ٹھہر گیا۔
ایسے نہیں پورے حق سے میں تمھاری آنکھوں سے یہ آنسوں چن کر ان میں اپنی محبت کے رنگ بھروں گا یہ وعدہ ہے میرا خود سے، اسلیے یوں کھانا چھوڑنے یا خود کمرے میں بند کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال وہ اپنی بات کہہ کر اٹھا اور جانے کے لیے قدم بڑھائے
”روکیں.؟ طوبیٰ کی آواز پر اسکے قدم رکیں اور وہ پلٹا طوبیٰ نے سائیڈ ٹیبل پر ہاتھ رکھ کر کھڑی جس پر اس کے قدم لڑکھڑائے جس پر آزر نے آگے بڑھ کر سنبھالنا چاہا جس پر خود کو سنبھال کر ہاتھ کے اشارے سے اسے دور رہنے کا کہتے وہ پاس رکھی وہیل چیئر پر بیٹھی اور بٹن پریس کرتے وہ کبرڈ کی جانب آئی جسے وہ خاموشی سے دیکھ رہا تھا۔
اپنی کبرڈ کا سلائیڈ ڈور ایک طرف دھکیل کر وہاں سلیقے سے طے شدہ شال اور رومال رکھا اٹھ کر اسکی جانب پلٹی جس اب بھی آزر کی محسوس کلون کی خوشبو رچی ہوئی تھی جو بغور اسے دیکھنے میں مشغول تھا۔
جانے سے قبل اپنی یہ شال بھی لیتے جائے مجھے کسی کا احسان نہیں چاہئیں۔ شال اسکی جانب بڑھائی۔
”کیوں.! میری شال تمھیں کیا کہہ رہی ہے۔ اسکے گھٹنوں کے پاس پنجوں کے بل بیٹھا۔
مجھے نہیں ضرورت آپ کی شال کی.! یوں اسکے سامنے بیٹھنے پر طوبیٰ کی دھڑکن منتشر ہوئی جس پر قابو پانے کی کوشش میں وہ نظریں ملانے سے گریزاں تھی۔
ہمم..! شال لیتے نظریں اسکے چہرے پر مرکوز تھی۔
ایک اور بات کہنی ہے آزر.؟
میں سن رہا ہوں.!
آپ جس راستے پر چل رہے ہیں آپ کو اس راستے پر کچھ حاصل نہیں ہوگا میرے پاس آپ کیلئے کچھ نہیں ہے میں آپ کا دل نہیں توڑنا چاہتی، اسلئے آپ کو کہہ رہی ہوں آپ اپنے بڑھتے ہوئے قدم یہی روک لیں میں نہیں چاہتی کے میری وجہ سے آپ کو دکھ پہنچے۔ نظریں جھکائے وہ اسے خود سے دور رہنا کہہ رہی تھی۔
“شیش.! مجھے تم سے اور کچھ نہیں، بس تم چاہیے ہو اور جہاں تک بات ہے واپس لوٹنے کی ہے وہ اب ناممکن ہاں اگر تم مجھے دکھ نہیں پہنچانا چاہتی تو رونا نہیں کیوں کہ تمھارے یہ آنسوں ہے، جو مجھے تکلیف دیتے ہیں۔ محبت پاش نظروں سے دیکھتے ہوئے اسکے لفظ لفظ میں سے محبت چھلک رہی تھی۔
”میں آپ سے محبت نہیں کرتی آپ سمجھتے کیوں نہیں.؟
“میں تو کرتا ہوں ناں میری محبت کافی ہے ہم دونو کیلئے.!
“آپ سمجھ نہیں رہے ہیں.!!
”تم کسی اور کو پسند کرتی ہو.؟
”نہیں.!
تو پھر.؟
”میرے سارے جزبات احساسات مر گئیں ہیں میرا اس زندگی سے دل اکتا گیا ہے سچ کہوں تو اب جینے نہیں چاہتی مر جانا۔۔۔۔!!
طوبیٰ۔۔۔۔۔!!“ خبردار جو ائندہ یہ الفاظ تمھارے منہ سے نکلے
میں ابھی آنکل سے کہتا ہوں مولوی کو بلائے اور ابھی ہمارا نکاح ہو گا۔ طوبیٰ کو یوں مایوسیوں میں گھرا دیکھ اسکا دل کٹ کر رہ گیا
”ہاہاہا طنزیہ ہسی ہستے ہوئے کہا آپ تو ایسے کہہ رہے ہیں جیسے میں تو اسی انتظار میں ہوں آپ مولوی کو بلائے گے اور میں فوراً سے کہہ دونگی
”قبول ہے.! قبول ہے.! قبول ہے.! اور آپ مجھے ساتھ لیجائے گیں۔ وہ روانی میں کہتی چلی گئی
مجھے بھی دل و جان سے
قبول ہے۔۔۔!! قبول ہے..! قبول ہے.!!
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial