قسط: 14
”آزر کی نظروں نے کمرے میں جا کر دروازا بند ہونے تک آزر کی نظروں نےاس کا تعاقب کیا وہ جانتا تھا کہ اتنی آسانی سے نہیں مانے گی مگر وہ بھی پیچھے ہٹنے والوں میں سے نہیں تھا۔
”اہم.! اہم.! ارحم کے گلا کھنکارنے پر وہ اسکی جانب متوجہ ہوتے ہوئے کھڑا ہوا۔
”صبح ہی ارحم کی آئزہ سے بات ہوئی اور کل ہونے والے انسیڈینس کا پتا چلا وہ تو فوری طور پر آنا چاہتا تھا لیکن قدسیہ بیگم بھی ساتھ ہی آگئی اور آتے ہی وہ سب کچھ دیکھ چکی تھی۔
”ارے۔۔؟ ہم تو یہ سن کر بھاگے چلے آئیں کے پتا نہیں کتنی کوئی حالت خراب ہے بیچاری کی،مگر ادھر تو کچھ اور ہی کھچڑی پک رہی ہے۔ قدسیہ بیگم نے آتے ہی لفظوں کے تیر چلانے شروع کئے جس پر ارحم انھیں دیکھ کر رہ گیا۔
تمھیں بھی پھانس لیا اس اپاہج نے۔ طوبیٰ کے لیے تحقیر سموئے وہ آزر سے مخاطب ہوئی۔
”آنٹی.! ارحم آپکا بیٹا ہے اسلیے آپکا لحاظ کرتا ہے، مگر مجھ سے ایسی کوئی توقع مت رکھیئے گا کہ آپ میری بیوی کو کچھ بھی کہیں گی اور میں خاموشی سے برداشت کروگا، اسلیے بہتر ہوگا کہ آئیندہ میرے سامنے طوبیٰ کو کچھ کہنے سے پہلے آپ اپنے الفاظ کا بہتر چناؤ کر لیں ورنہ۔۔۔!! آزر کو قدسیہ بیگم کا یو بات کرنا پسند نہیں آیا تھا اسی لیے آج صاف لفظوں میں اسکا اظہار کرنے کے ساتھ تنبیہ کرتے وہ وہاں رکا نہیں تھا۔
کسی کو یوں طوبیٰ کے لیے سٹینڈ لیتے دیکھ آریان صاحب اپنے فیصلے پر مطمئن ہوئے تھے جو آج تک وہ اپنی بیٹی کے لیے نہیں کر سکیں آج آزر نے کر دیکھایا تھا۔










اپنے کمرے میں بند تھی اس کو سمجھ نہیں آرہا تھا کے وہ کیسے ریئکٹ کرے خوش ہونا چاہتی تھی لیکن دل میں کوئی خوشی محسوس ہی نہیں ہو رہی تھی
صبح سے نہ کچھ کھایا نہ پیا بس آزر کی کہیں باتیں گھوم رہی تھی آریان اور سائرہ نے بعد میں بہت سمجھایا جس پر وہ وقتی طور پر راضی تو ہوگئی مگر پھر بھی ذہن میں بہت سی اُلجھنیں تھی جنھیں سوچتے ہوئے وہ اپنی ڈائری پر اپنے دل کا حال اتار رہی۔
پتا ہے میں زیادہ بات کیوں نہیں کرتی ؟ کیونکہ جب میں بات کرتی ہوں تو یا تو بات بگڑ جاتی ہے ، یا میری کوئی بھی بات کسی کو بھی سمجھ ہی نہیں آتی ، یا پھر میری بات نظر انداز ہو جاتی ہے ۔تو پھر ایسی باتوں سے کیا فائدہ جس سے ہر صورت نقصان ہی اٹھانا پڑے ۔
اسی لیے میں خود سے باتیں کرتی ہوں۔چاند سے۔ستاروں سے۔بادلوں سے باتیں کرتی ہوں۔تنہائیوں سے باتیں کرتی ہوں۔اپنے رب سے باتیں کرتی ہوں،اور یہ سب میری باتیں سنتے ہیں،سمجھتے ہیں،حوصلہ دیتے ہیں،تسلی دیتے ہیں۔اور ان سے میں کبھی مایوس نہیں ہوتا!!!!
”آپی آپ ابھی تک ایسے ہی بیٹھی ہیں، صبح سے آپ کے شوہر نے ہمھیں گھوما کر رکھ دیا ہیں۔ دروازے کھول کر کمرے میں آتی چہکتے ہوئے لائبہ بولی جس کی آواز پر اسنے اپنی ڈائری بند کر کے سائیڈ میں کرتے ان کی طرف متوجہ ہوئی۔
”شوہر نہیں ہیں وہ ابھی.! سختی سے ٹوکا۔
اوو.! ہوو.! وہ تو ہیں ناں.! شوہر بھی بن جائیں گے شام تک۔ شوحی سے کہتے ہوئے ہاتھ میں پکڑا بڑا ڈبہ لیے پاس آئی آئزہ بھی ساتھ تھی۔
”یہ دیکھیں آپکے نکاح کا جوڑا آزر بھائی نے پسند کیا ہے۔ لائبہ نے ڈبہ کھولا وائٹ کلر کی نیٹ کی فیری فروک جس پر وائٹ ہی کلر میں بہت ہی نفیس کام ہوا جس کا ہم رنگ ڈوپٹہ بہت خوبصورت تھا جس پر طوبیٰ نے ایک بھرپور نظر بھی نہ ڈالی
”یہ تو اتنا ہیوی ہے۔ عجیب سی گھبراہٹ ہوئی تھی جو ناقابل بیان تھی۔
”میں یہ پہنوں گی.؟
”جی آپی اور یہ ڈوپٹہ بھی ساتھ ہی ہے۔ لائبہ نے ایک اور ریڈ کلر کا ڈوپٹہ دیکھاتے ہوئے بتایا جس پر گولڈن کلر کے گوٹے سے لکھا تھا ازر کی دلہن۔ جس پر طوبیٰ کے دل دھڑکن بے ترتیب ہوئی۔
اور آپی یہ آپکی جیولری.! آخر میں جوڑے کی میچنگ نازک سا ڈائمنڈ سیٹ دیکھایا۔
آپی آپ یہ سب پہن کر کتنی پیاری لگیں گی۔ آئزہ خوشی سے کہتے ہوئے پاس آئی تو طوبیٰ یہ سب سوچ کر ہی گھبرائی۔
”ابھی تو ازر بھائی نے بیوٹیشن کو بھی بھیجوانا ہے۔ لائبہ نے اطلاع دی جس پر حیرت زدہ سی اسے دیکھتی گئی۔
”مجھے کسی بیوٹیشن ضرورت نہیں، اپنے بھائی کو بتا دو.! وہ زچ ہوئی تھی۔
تو آپ خود کہہ دیں.؟ ہم تو نہیں منا کرسکتے۔آئزہ نے شریر انداز میں چھیڑا جس پر اسنے گھوری سے نوازا۔











”پورے لان کو بھی دلہن کی طرح سجا کر سٹیج کی جگہ
جھولے کو سرخ و سفید گلاب کے پھولوں سے سجایا گیا تھا۔
”لائبہ اور آئزہ نے پنک کلر کی شفون کی لونگ فراکس پہنی رکھی تھیں، لائٹ میک اپ کے ساتھ بالو کو کرل کر کے آگے کیے دونو ہی بہت پیاری لگ رہی تھی۔
آپی آپ تیار ہو۔۔۔۔۔!!
وہ کہتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی تو باقی کے الفاظ منہ ہی رہ گئے اور محوت سے دیکھتے رہ گئی۔
وائٹ فیری فروک میں میں لائٹ میک اپ اور بالو میں لوز بن بنا کر دو لٹیں چہرے پر چھوڑ رکھی تھی۔
”آپی آج تو کسی پر بجلیاں گریں گی بجلیاں۔۔۔۔۔!! شوخی سے کہتے ہوئی آئزہ نے پیچھے سے آکر اسکی گردن کے گرد بازوں حائل جھول گئی۔
”آپی آپ بہت پیاری لگ رہی ہیں سچ میں۔لائبہ نے بھی ستائشی نظروں سے سراہا جس پر وہ ایک پل کے لیے جھنپ گئی جبکہ آئینہ کے سامنے ہونے کے باوجود اسنے خود پر ایک نظر تک نہیں ڈالی تھی اتنے میں بیوٹیشن نے اپنے چیزیں سمیٹتے ہوئے اجازت چاہی۔
”آپی آپ نے یہ ڈوپٹہ نہیں لیا۔ آئزہ نے دھیان دلاتے سرخ جالی دار ڈوپٹہ طوبیٰ کے سر پر دیا جسنے اسکے روپ کو مزید چار چاند لگائے۔
”آریان صاحب اور سائرہ کمرے میں آئیں۔
”ما شاءاللہ آج تو ہماری بیٹی بہت پیاری لگ رہی ہے۔ اللّٰہ پاک میری بیٹی کی ساری مشکلوں کو آسانیوں بدل کر اس ڈھیروں خوشیاں دے۔آریان صاحب نے طوبیٰ کے سر پر ہاتھ رکھ کر دعا دی جس اسنے خاموشی سے سر جھکا لیا تھا۔
”ہماری بیٹی ابھی بھی ہم سے ناراض ہے۔ اریان صاحب نے پیار سے دریافت کیا تو آنکھوں سے دو موتی ٹوٹ کر گال پر پھسلے گیے۔ اور آنسوؤں سے لبریز جھکی پلکیں اٹھائی۔
”نہیں ابو جی.! آپکی بیٹی کبھی آپ سے ناراض نہیں ہوسکتی بس دل میں ایک خلش ہے کہ جو بات مجھے آپ سے پتہ چلنی چاہئیں تھی وہ کسی غیر سے معلوم ہوئی۔۔ اپنے اندر چھپا دکھ زبان پر لائی۔
”بیٹا.! آج تمھاری زندگی کا بہت اہم دن تم ایک نئے رشتے میں بندھنے جا رہی ہو.! میں چاہتا اسے نئے رشتے میں بندھنے سے قبل تو اپنے دل میں جتنے بھی وسوسے، بد گمانیاں انھیں نکال کر اپنا دل صاف کرلو.! تمھیں اپنے ابو پر بھروسہ ہے نا کیا وہ کبھی اپنی بیٹی کےلئے کوئی غلط فیصلہ نہیں کرسکتے ہیں.؟۔ نرمی سے سمجھتے ہوئے سوال کیا تو طوبیٰ نے نفی میں سر ہلایا۔ جس پر مسکراتے ہوئے انھوں نے اپنی بیٹی کا سر چوما۔
”اب میں بھی اپنی بیٹی کچھ کہہ سکتی ہوں یا پھر آپ ہی ساری باتیں کریں گے۔ سائرہ نے مصنوعی خفگی سے کہا۔
باتوں کا ٹائم ختم مولوی صاحب آگئیں ہیں۔ وہاج نے کمرے میں آتے ہوئے اطلاع دی جس کے پیچھے ہی ارحم مولوی صاحب کے ہمراہ کمرے میں داخل ہوا ارحم کی نظریں تو طوبیٰ پر ہی ٹھہر گئیں
”ویسے آنکل یہ ناانصافی ہے رشتہ پہلے میں لے کر آیا تھا اور نکاح پہلے آزر کا۔ مصنوعی شکوا کیا
تم کہتے ہو تو تمھارا بھی آج نکاح کر دیتے لیکن پھر رخصت بھی دونوں کو ساتھ ہی کروں گا۔ آریان صاحب نے بھی اسکی انداز میں جواب دیا تو گڑبڑا کر رہ گیا جبکہ باقی سب کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیر گئیں۔
مولوی صاحب نے نکاح پڑھوانا شروع کیا تھا
”طوبیٰ بنت آریان چودھری، آپ کو ایک کروڑ روپے حق مہر سکہ رائج الوقت آزر خان ولد اصغر خان کے نکاح میں دیا جاتا ہے ، کیا آپکو قبول ہے.؟“ قاضی صاحب نے دریافت کیا۔
طوبیٰ کے زہن میں آزر کی باتیں گھومنے لگ گئی تھی۔
”کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے.؟“ قاضی صاحب نے ایک بار پھر پوچھا۔
”دل سے قبول ہے آزر کی کہی ہوئی بات یاد آئی۔
کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے.؟“
جی۔۔۔!!! قبول ہے.!“تیسری بار پوچھنے پر اپنے اندر چلتے خلفشار کو قابو کرتے دھیمے لہجے میں بولی ۔ جس پر سب کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیر گئی سوائے ایک کے۔
کانپتے ہاتھو سے نکاح نامے پر سائن کرتے ہوئے اسکی آنکھیں نم ہو گئی دل کی دھڑکن بڑھ گئی تھی۔
جس کے بعد سب نے مبارکباد دی۔












“آزر خان بھی آج کسی سے کم نہیں لگ رہا تھا۔
سفید لٹھے کے قمیض شلوار سوٹ اور بیلک واسکٹ میں کندھوں پر شال لیے وہ ایک وجیہہ باوقار شخصیت کسی ریاست کا شہزادہ لگ رہا تھا۔ جو ہر لڑکی کا آئیڈیل تھا۔
سارے رشتے دارو کو طوبیٰ کی قسمت پر رشک ہو رہا تھا۔
”ازر خان ولد اصغر خان، آپ کو طوبیٰ بنت آریان چودھری، حق مہر ایک کروڑ روپے سکہ رائج الوقت آپ کے نکاح میں دیا جاتا ہے کیا آپ کو قبول ہے.؟“
”جی قبول ہے.!
کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے.؟“
”جی قبول ہے.!
”کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟“
تیسری بار قبول ہے کہتے ہوئے اسکی روح تک سرشار ہوگئی
ازر کے چہرے پر الگ ہی چمک تھی اپنی محبت کو پا لینے کی خوشی اسکے روم روم چھلک رہی تھی۔
”اس کا تو بس نہیں چل رہا تھا کے وہ سارے شہر کو اپنی خوشی میں شامل کرے۔
جس کے بعد سب نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے۔










”آپی آپ تیار ہیں.؟ آئزہ پوچھتی ہوئی کمرے میں آئی ساتھ ہی لائبہ بھی تھی۔
“اور کتنا تیار ہونا ہے۔.؟ جھنجھلائے انداز جواب دینے کے بجائے الٹا سوال۔
”اچھا تو پھر چلیں، باہر سب آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ آگے بڑھ کر وہ اسکے پیچھے آئی۔
”کیا مطلب ہے کہا جانا ہے.؟۔ اسنے گھبراتے ہوئے اپنی بریک پر ہاتھ رکھا۔
”آزر بھائی آپ کا انتظار کر رہے ہیں.؟.
”لیکن میں کیسے باہر جا سکتی ہوں لوگ کیا سوچیں گے.؟
کیا مطلب کیا لوگ کیا سوچیں گے۔
میں باہر نہیں آسکتی لائبہ پلیز۔۔!! تم سب کی بات مان کر نکاح کر لیا ناں اب مجھے فورس نہیں کرو.! میرا تماشا مت بناؤ جانتی ہونا لوگوں ویسے کیا باتیں کرتے آج تو سب کو موقع مل جائے گا۔۔ آنکھوں سے دو آنسوں ٹوٹ کر گال پر پھسلے گیے تھے۔
”ہم ہیں ناں آپ کے ساتھ آپ کیوں گھبرا رہی ہے کچھ نہیں ہوگا۔ اسکے گھٹنوں کے پاس بیٹھتے لائبہ نے سمجھانا چاہا۔
”نہیں ہے مجھ میں ہمت سب کا سامنا کرنے کی لوگ کیا کہیں گے اپاہج دلہن.! دکھ سے کہتے آنسوؤں تواتر سے بہنے لگے۔
”آپی آپ ایسا کیوں سوچ رہی ہیں۔ آئزہ تڑپ کر سامنے ائی۔
”تو یہی سچ ہے آئزہ.! میں ایک اپاہج ہوں جس پر ترس کھاتے ہوئے آزر نے اپنا نام دے دیا لوگ کیا جانتے نہیں.؟ مجھ سے لوگوں کی باتیں برداشت نہیں۔۔۔۔“
اہم.!! اہم.! وہ جو یہ کہنے آیا تھا کہ اگر طوبیٰ باہر آنے میں کمفرٹیبل نہیں تو اسے فورس نہ کرے۔ مگر یہاں آکر وہ اپنا ارادہ بدل گیا کسی کی آواز پر تینوں نے اسکی جانب متوجہ ہوئیں۔
“کیا ہو رہا ہے یہاں.؟ ازر کہتا ہوا آگے آیا تو طوبیٰ اپنا چہرہ دوسری جانب کر لیا جبکہ لائبہ و آئزہ نے بھی نظریں جھکا کر اپنی آنکھوں میں آئی نمی صاف کرنے لگی۔
میں نے پوچھا کیا ہو رہا ہے.؟ اسنے اپنی بات دہرائی۔
” کک… کچھ نہیں.! زبردستی کی مسکراہٹ سجاتے لائبہ نے جواب دیا۔
”کوئی مجھے بتائے گا یہاں کیا ہو رہا ہے۔ مصنوعی سختی دیکھائی۔
”آپی باہر نہیں آنا چاہتی.؟
کیوں وجہ جان سکتا ہوں۔۔۔۔؟؟؟
”ازر نے سب سن لیا تھا لیکن جان بوجھ کر پوچھ رہا تھا.
” کیونکہ میں اس لائق نہیں کے مجھے سب کے سامنے لے جایا جائے۔۔ اب کی بار طوبیٰ نے جواب دیا جس پر اسکے لبوں پر مبہم سی مسکراہٹ ابھری جسے وہ چھپا گیا البتہ اسے طوبیٰ کے الفاظ پسند نہیں آئیں تھے۔
”کیوں نہیں ہو تم اس لائق.؟ نے نظریں اسکے چہرے پر مرکوز کیے ازر نے دو قدم آگے بڑھائے۔
ازر کو اپنی طرف بڑھتا ہوا دیکھ کر طوبیٰ باقی الفاظ اس کے حلق میں ہی اٹک گئیں۔
”بولو ناں.؟ کیوں نہیں ہو تم اس لائق کیا کمی ہے تم میں.؟۔ روبرو ہوتے اسکے لہجے سختی اتر آئی جس پر وہ اپنا تھوک نگلتی اسکی آنکھیں ڈبڈبائی۔ تو طوبیٰ نے اپنا چہرا جھکا لیا تھا لائبہ اور آئزہ بھی چپ چاپ سب دیکھ رہی تھی
“تمہیں اس وہیل چیئر پر باہر جانے میں شرم آرہی ہیں جبکہ اصل میں شرم تمھیں مجھ سے آنی چاہئے۔ سختی سے پوچھتے ہوئے آخر میں اسنے معنیٰ خیز انداز اپنایا جس پر اسکی جھکی پلکیں اٹھی جن میں سرخ ڈورے آچکے تھے۔ جبکہ پاس کھڑی لائبہ و آئزہ نے خفت سے منہ دوسری سمت کر گئی۔
اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے آزر ایک جھٹکے سے طوبیٰ کو اپنے سامنے نے کھڑا کیا جس پر اسکے بےجان قدم لڑکھڑائے
اسے قبل کے وہ گرتی اپنی کمر پر ایک آہنی گرفت محسوس ہوئی جو اسے سہارا دینے کے لیے تھی۔
لائبہ آئزہ تیزی سے آگے بڑھی،جنھیں ازر نے آنکھوں کے اشارے سے واہی روک دیا تھا۔
دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھ رہے تھے طوبیٰ آزر کے سہارے پر کھڑی۔
آزر نے اپنی گرفت ذرا سی ڈھیلی تو گرنے ہی لگی تھی کے ازر نے اسے برائڈل سٹائل میں اٹھا لیا تھا گرنے کے ڈر سے پہلے ہی اپنی آنکھیں بند کر گئی۔ اسے ازر سے ایسی کیسی بھی حرکت کی امید نہیں تھی۔
”اب تو کوئی مسئلہ نہیں ہے باہر آنے میں؟۔ آزر نے شوخی دریافت کیا۔
”آپ مجھے نیچے اتارے۔ ٹوٹے ہوئے لہجے میں التجا کی۔
”اور اگر نہ اتارو تو.؟ اسی شوخی سوال کرتے وہ اسے لیے باہر نکلا۔ جس پر وہ کوئی جواب دینے کے بجائے خاموش ہوگئی۔
”لان میں آتے ہی سپاٹ لائٹ نے آزر خان اور طوبیٰ کا احاطہ کیا باقی ساری لائٹس بند ہوگئی۔
طوبیٰ کو آزر کی گود میں دیکھتے ہی سارے کزان نے خوب بوٹنگ کی اور شور مچایا جبکہ کچھ کی آنکھوں میں یہ منظر چھبا تھا۔
ازر سپاٹ لائٹ میں چلتا ہوا جھولے تک آیا اور آہستہ سے طوبیٰ کو جھولے پر بیٹھایا۔
”اب تم اپنی آنکھیں کھول سکتی ہو.! سرخ ڈوپٹے کا گھونگھٹ اسکے چہرے پر کرتے سرگوشی نما کہا جس پر وہ اپنی آنکھیں اور سختی سے میچ گئی وہ پورے حق کے ساتھ اسکے پہلوں بیٹھا۔
”ریلکس میں تمھارے ساتھ ہوں میرے ہوتے ہوئے تمھیں گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے استحقاق سے گویا ہوا تو طوبیٰ نے گردن موڑ کر گھونگھٹ کی اوٹ سے زخمی نظروں دیکھا جو سامنے دیکھ رہا تھا۔








”تقریب ختم ہوگئی آدھے سے ذیادہ مہمان جا چکیں تھیں۔
طوبیٰ اپنے کمرے میں آگئی تھی۔
”کافی لمبا دن گزارنے کے بعد اب وہ کچھ پل سکون کے گزانے کے غرض سے طوبیٰ نے اپنے دونوں ڈوپٹے اتار کر ایک طرف رکھتی خود بیڈ پر آگئی تھی۔
”بیڈ کراؤن کے ساتھ سر ٹیکائے آنکھیں بند کرلی پتا نہیں لڑکیاں کیسے اتنے ہیوی ڈریس پہن لیتی ہیں۔ سوچتے ہوئے اپنے کانو سے ٹوپس بھی اتارے
”بہت غلط بات ہے ابھی تو میں نے صحیح سے دیکھا بھی نہیں اور تم نے سب اتار بھی دیا۔ دروازے سے ٹیک لگائے گھمبیر لہجے شکوہ کیا جس پر وہ چونک کر سیدھی ہوئی۔
”آپ گئیں نہیں ابھی تک.؟
انہم۔۔! تمھیں دیکھے بغیر چلا جاتا تو ساری رات نیند نہیں آتی۔نفی میں سر ہلاتے وہ آگے آیا طوبیٰ کی دھڑکنیں تیز ہوئی۔ وہ اسی طرح چلتے ہوئے اسکے سامنے آکر بیٹھا۔
طوبیٰ کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا ڈوپٹہ بھی اس سے دور تھا اسے کچھ سمجھ نہیں آیا کہ کیا کرے اسی اثنا میں اسنے اپنے جوڑے سے پن نکالی بال کسی آبشار کی مانند اسکے سینے پر آگئیں فراک کا گلا گہرا تھا جو یہ بال کور نا کر سکے۔
طوبیٰ کی جھجھک کو بھانپتے آزر نے اپنی شال اسے اڑائی
ازر کو اپنے اتنے پاس دیکھ کر اسکی دھڑکن منتشر ہونے لگی تھی ازر کو طوبیٰ کی حالت دیکھ کر محضوض ہوا۔
”اپنی مرض کر تو لی آپ نے اب یہاں کیا کرنے آئے ہیں؟“ اسکی نظروں سے گھبراتے جاننا چاہا۔
”اپنی کی ہی کب، ابھی تو تھماری بات کا مان رکھا ہے،اگر میں اپنی منواتا تو تم یہاں نہیں ہمارے کمرے میں ہوتی، اسکی آنکھوں میں بہت سے جزابات تھیں جن کی تاب لانا اسکے بس کی بات نہیں تھی تبھی نظریں جھکا لی۔
اگر تم ایسے ہی نظریں جھکا کر بیٹھی رہوگی تو مجھ سے کوئ گستاخی ہو جائے پھر مجھ سے نہ شکایت کرنا۔ انداز معنی خیز تھا۔
”تو پھر میں کیا کرو.؟ یہاں سے جا بھی نہیں سکتی۔ انداز چھبتا ہوا تھا۔
تم اتنی روڈ کیوں بے ہیو کرتی ہو.؟ وہ پوچھ بیٹھا۔
”میں ایسی ہی ہوں.! سابقہ انداز میں جواب دیا۔
تمہیں میرے لیے کچھ فیل نہیں ہوتا.؟ آس لیے سوال کیا۔
”اب یہ سوال بے معنی ہے جب پوچھنا تھا تب تو ضد پر اڑے تھے. صاف انکار کرنے کے بجائے گول مول جواب دیا۔
”تمھیں تو دل رکھنا بھی نہیں آتا.؟
ابھی بھی ذیادہ دیر نہیں ہوئی آپ چاہیں تو واپس لوٹ سکتے میں کوئی۔۔۔۔۔۔!!“
”شششششش.! پاگل لڑکی تم جانتی بھی ہو کیا کہہ رہی ہو۔ اسکی بات مکمل ہونے سے قبل آزر اسکے ہونٹوں پر انگلی رکھی جس پر زبان کے ساتھ اسنے اپنی سانس بھی روک لی جبکہ نظریں اسکی انگلی پر تھی جس آزر نے اپنا پیچھے کیا تاکہ وہ اپنی سانس بحال کر سکے۔
بہت سوچ سمجھ کر۔۔۔۔“
ہاتھ آگے کرو.؟ وہ کچھ کہنے لگی تھی کہ فرمائش کی۔
”کیوں۔۔؟“متعجب ہوئی۔
کرو تو سہی.؟ ازر نے کہتے ہوئے اپنی جیب سے ایک مخملی ڈبی نکالی۔