قسط: 15
”ہاتھ آگے کرو.! وہ کچھ کہنے لگی تھی کہ فرمائش کی۔
”کیوں۔۔؟“متعجب ہوئی۔
کرو تو سہی.؟ ازر نے کہتے ہوئے اپنے ایک ہاتھ سے مخملی لمبی سے ڈبی کھولی تو اسے میں بہت ہی خوبصورت بریسلٹ جگمگا رہا تھا جس کہ ساتھ ہی ایک چین کے ساتھ ایک نازک سا پینڈٹ جسے دیکھتے ہوئے آزر طوبیٰ کا اپنے ہاتھ میں لیا وہ خالی نظروں سے یہ کاروائی ہوتے دیکھ رہی تھی۔
آزر نے محبت سے کلائی میں وہ بریسلٹ پہناتے
طوبیٰ کی اور دیکھا جس کا چہرہ کسی بھی طرح کے جذبات سے عاری تھا۔ اب باری پنڈیٹ کی تھی۔
اب کی بار طوبیٰ نے اپنی آنکھیں بند کر لی مطلب وہ پہنا سکتا تھا۔ وہ قریب ہوا تو طوبیٰ کو ازر کی سانسیں اپنے چہرے پر محسوس ہوئی جس پر اپنی سانس روک گئی لوک بند کرتے اسکا لمس اپنی گرد پر محسوس کرتے دل میں ایک تلاطم برپا ہوا جسے اسنے مقابل پر واضح نہ ہونے دیا۔
”تم سانس لے سکتی ہو.! آزر کی آواز پر طوبیٰ نے اپنی آنکھیں کھولی اور اسے اپنے اتنے قریب پا کر اگلے ہی پل بند کر لی۔
” اسکی اس حرکت پر آزر کے دل نےبیٹ مس کی جبکہ کے چہرے پر مسکراہٹ نمودار جس پہ آزر دونوں ہاتھوں سے اسکے چہرے تھامتے ماتھے پر اپنے لب رکھے اور اپنی آنکھیں بند کر لی کچھ پل یو ہی گزر گیے تھے
”طوبیٰ کی آنکھوں سے تشکر کے دو آنسو ٹوٹ کر بہہ نکلے کتنی محبت کرتے ہیں آپ مجھ سے، کاش میں آپکی محبت کا جواب محبت سے دے سکتی۔ دل نے بے ساختہ خواہش کا اظہار کیا جس ڈپٹ کر چپ کروا دیا تھا۔
”آزر پیچھے ہوا تو اسنے فوراََ سے نظریں چرا کر اپنے آنسوں صاف کیے۔
اب میرا گفٹ.! نرمی سے استفسار کرتے ہتھیلی پھیلائی۔
طوبیٰ بے دردی سے کھنچ کر اپنی شال ہٹا دی
”لیں۔.! کر لیں اپنے سارے آرمان پورے یہی تو چاہتے تھے جس کے لیے اتنی جلدی مچائی نکاح کی۔ یک دم اسے ناجانے کیا ہوا تھا کہ وہ بولتی چلی گئی جملہ مکمل ہونے پر اپنے کہے لفظوں کا ادراک ہوا تو خود ہی شرمندہ ہوئی۔
”طوبیٰ کی بات سن کر آزر دھک سے رہ گیا اور یکایک اسکی آنکھوں میں غصّہ اتر آیا جس پر ضبط سے جبڑے بینچ کر
شال واپس اسی طرح دیتے وہ بنا کچھ کہے اٹھ گیا
اپنی غلطی کا احساس فوراً سے ہوا جانتی تھی وہ کچھ ذیادہ ہی بول گئی جس پر فوراََ سے آزر کا ہاتھ کلائی سے تھام کر جانے سے روک کر کھڑی ہونے لگی تھی۔
”آئی ایم سوری.! جانتی ہوں بہت زیادہ بول گئی پر کیا کروں میں ایسی ہی ہوں.! اسکی کلائی تھامے کھڑی ہونے لگی تھی کہ اسکے قدم ڈگمگائے جسے تیزی سے وہ سنبھال گیا گل گیر لہجے نظریں جھکائے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے آنکھوں سے آنسو نکلنا شروع ہو گئے تھیں۔
”تم رو کیوں رہی ہو.؟ میں نے تو کچھ کہا بھی نہیں.؟ واپس بیٹھاتے نرمی سے استفسار کیا اسکے آنسوں دیکھ سارا غصّہ جھاگ کی مانند بیٹھ گیا۔
”آپ نے کچھ کہا نہیں، مگر میں جانتی ہوں میں نے غلط بات کی مُجھے ایسی بات نہیں کرنی چاہئے تھی۔ نظریں جھکائے منمنائی۔ اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیتے انگوٹھوں سے آنسو صاف کرتے سینے سے لگا گیا طوبیٰ کو لگا جیسے وہ اسی سکون کی تلاش میں تھی۔
”میں تم سے ناراض نہیں میری جان.! ہاں مگر تمہارے الفاظ نے مجھ ہرٹ کیا تم مجھے ایسا انسان سمجھتی ہو..؟ سینے سے لگائے شکوہ کن انداز میں بولا۔
”ائی ایم سوری.! پلیز معاف کر دیں۔ اسی طرح ایک پھر معذرت خواہ ہوئی۔
”بس.! تمھیں اپنی غلطی احساس ہوگیا میرے لیے اتنا ہی کافی ہے ۔اسنے بھی بات کو طول دینے بجائے ختم کرنے پر اتفاق کرتے ہوئے اسکے بالوں میں انگلیاں چلانے لگا جس پر وہ پر سکون ہوتی آنکھیں موند گئی۔
چند لمحے سرکنے کے بعد اسے احساس ہوا جیسے طوبیٰ سو گئی ہے، آزر نے آہستہ سے اسے خود سے الگ کیا تو وہ واقعی سو چکی تھی
”پاگل لڑکی، طوبیٰ کو دیکھ منہ سے بے ساختہ نکلا تھا بہت احتیاط سے لیٹاتے ہوئے کمفرٹ دیا
“پتا نہیں کیا بننے گا میرا ماتھے سے بال پیچھے کرتے اسکے لبوں پر مبہم سی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔







ایک نئی صبح اپنے ساتھ نئے خواب نئی امیدیں لیکر آئی تھی۔پرندوں کی چہچہاہٹ نے طوبیٰ کی نیند میں خلل پیدا کیا تو منہ بصورتے اسنے کھڑی کی اور دیکھا اتنی پُرسکون نیند کم ہی میسر ہوتی تھی۔
وہ آنکھیں بند کیے دوبارہ سونے کی کوشش میں تھی کہ یکایک رات آزر کی باتیں یاد آئی اور ساتھ ہی رات اسکے سینے سے لگے معافی مانگنا بھی مگر اسے کے بعد ۔۔۔۔۔!!!
مطلب میں آزر کے سینے سے لگے ہی سو گئی تھی۔سوچتے ہی اسکی نیند بھک سے اڑ گئی۔
“کیا سوچیں گیں؟ ویسے تو بڑی بڑی باتیں کر رہی تھی اور۔۔۔۔““ بے ساختہ اپنی بے اختیاری پر غصّہ آیا تو اپنے سر پر ہاتھ مارنے کے لیے اٹھایا نظریں اپنی کلائی پر گئی جس میں آزر کا دیا گولڈ بریسلیٹ میں لگے ڈائمنڈز ستاروں کی مانند جگ مگ کر رہے جنھیں دیکھ کر یہ بتانا مشکل تھا کہ پہنے والی کلائی زیادہ خوبصورت ہے یا بریسلیٹ ستائش نظروں سے دیکھتے ہوئے طوبیٰ کا گلے میں پہنے پنڈیٹ پر گیا جسے چھوتے ہی آزر کا لمس اسکی روح پے میں سرایت کر گیا جس پر شرم و حیا سے اسکا چہرہ سرخ ہوگیا تھا۔اگلے ہی پل اسے اپنی کہی بات یاد آئی تو پھر سے شرمندگی نے آن گھیرا۔









وقت کا پہیہ اپنی رفتار چلتا ہوا آگے بڑھنے لگا اور وقت پر لگا کر آڑ گیا۔
آج لائبہ اور آئزہ کی مہندی تھی اور مامی سے کیے وعدے کی بدولت طوبیٰ نے دو دن سے خود کو کمرے میں بند کر رکھا تھا جس سے انجان آزر خان اپنے اوفس کے کاموں میں مصروف تھا لیکن طوبیٰ کو ڈیلی ہیمیسج کالز کرنا نہیں بھولتا جسے اپنی شرمندگی کے باعث اٹینڈ نہیں کر رہی تھی۔
سب رات کی تیاریوں میں مصروف تھیں۔
”ازر نے سوچ رکھا تھا آج مہندی میں وہ طوبیٰ سے بات کرے گا اور کالز میسجز اٹینڈ نہ کرنے کی وجہ پوچھیں گا۔










مہندی کی تقریب شہر کے ایک بڑے سے بینکوئٹ میں رکھی گئی جہاں سارے مہمان پہنچ گئیں تھیں جھل مل کرتی لڑکیاں یہاں سے وہاں ہو رہی کچھ لڑکیاں ڈھولک کی تھاپ پر خوشی کے گیت گا رہی
دونو دلہنیں سٹیج پر اپنے اپنے دلہے کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی اور بڑے باری باری آکر رسمے کر رہے تھیں۔
آزر خان پھولوں کا گلدستہ لیے داخل ہوا جس پر کتنی حسیناؤں کے دل آئے جن سے بے نیاز وہ اپنی شریک حیات کو تلاشتے ہوئے سٹیج تک آیا تھا۔
”بھائی آپ کسے ڈھونڈ رہے ہیں.؟ گلدستہ وصول کرتے ہوئے پوچھا۔
”تمھاری بہن نظر نہیں آرہی.؟ جاننا چاہا۔
آپ دیکھ غلط جگہ رہے ادھر دیکھے یہ رہی میری بہن سلام کرو آئزہ بھائی کو.؟شوخی سے کہتے ہوئے تنگ کیا جس پر وہاج نے بھی بتیسی دیکھائی جب کہ ارحم سنجیدگی سے سے بیٹھا رہا۔
”اسلام علیکم.!بھائی کہے کوئی کام مجھ سے؟“۔مصنوئی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جس پر وہ اسے گھور کر رہ گیا۔
آپ جس کی تلاش میں نظروں سے پور حال چھان رہے ہیں وہ یہاں نہیں ہے۔ لائبہ کی بات سن کر متعجب نظروں سے اسے دیکھا
کیا مطلب وہ سمجھا نہیں تھا۔
”اصل میں زیادہ لوگ دیکھ کر آپی کو انزائٹی شروع ہو جاتی اسی لیے انھوں نے آنا سے منا کر دیا لائبہ کی بات سن کر آزر کی حیرت تشویش میں بدلی۔
”وہ گھر میں اکیلی ہے.؟
”آپی کو عادت ہے آپ پریشان نہیں ہوں.! آزر کی پریشانی کو دیکھتے ہوئے آئزہ نے تسلی دی۔
”اوکے.! اتنا کہہ کر سٹیج سے نیچے آگیا تھا.
”ارے تم یہاں ہو میں کب سے ڈھونڈ رہی ہو تمھیں بیٹا۔. قدسیہ بیگم نے کہتی ہوئی پاس آئی۔
”جی خیریت آپ مجھے ڈھونڈ رہی تھی۔ اسے حیرت ہوئی۔
“وہ بیٹا یہ میری بھانجی ہے شزہ.! اسے ذرا گھر چھوڑ آؤ۔!ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے وجہ بتائی تو آزر کی نظر بے ساختہ اس طرف اٹھی جہاں ایک لڑکی کھڑی تھی جس نے بولڈ ڈریس زیب تن کئے چہرہ میک اپ سے سجا رکھا تھا۔
“ہاے.! سمائل پاس کی۔
“ہاے بٹ.! آنٹی مجھے بہت کام ہیں آپ کسی اور کو کہہ دیں۔آزر فوراً سے انکار کرتے اور وہاں سے نکلتا چلا گیا۔
پیچھے قدسیہ بیگم پیر پٹخ کر رہ گئی تھی۔









وہاں سے نکل کر آزر سیدھا چودھری ہاؤس پہنچا تھا گاڑی سے اترتے اس کی منزل طوبیٰ کا کمرا تھا جس کی اور وہ لمبے لمبے ڈاگ بھرتا چلا گیا۔
کمرے کے دروازے پر پہنچے کر وہ رکا نوب پر ہاتھ رکھ کر گھمایا تو دروازہ کھلتا چلا گیا۔آزر کا استقبال اندھیرے نے کیا تھا
مجھے پتا تھا یہ لڑکی اپنا پسندیدہ مشغلہ سر انجام دینے میں مشغول ہوگی۔ خود کلامی کرتے وہ کمرے میں داخل ہوتے آزر نے لائٹ اون کی تو خالی کمرا اسکا منہ چڑھا رہا تھا البتہ سامنے بالکونی کے دونوں پٹ کھلے تھے ساتھ ہی دونوں کھڑکیاں بھی کھلی تھی جہاں سے آتی ٹھنڈی ہوائیں کمرے میں خنکی بڑھا رہی تھی۔
ازر جیسے ہی کمرے سے نکلنے کا ارادہ کیا اس کی نظر طوبیٰ کی وہیل چیئر پر گئی تھی یہ یہاں ہے تو وہ بھی یہی ہونی چاہیے آزر سوچتے ہوئے کمرے کے وسط تک آیا تو
ازر کی نظر بیڈ کی دوسری سائیڈ پر گئی جہاں وہ کونے میں بیڈ سے ٹیک لگائے فرش پر بیٹھی تھی سر بیڈ پر تھا نظریں چھت پر جن سے نکلتے آنسوں بالوں میں جذب ہو رہے تھیں۔
”ازر نے سامنے دیکھا جہاں سے آتی سرد ہوا سے بے خبر اپنی دھن میں مگن تھی۔
“یہ کون سا طریقہ ہے اتنی ٹھنڈ میں تم کھڑکی کھول کر بیٹھی ہوئی ہو.؟ کھڑکی بند کر کے پردے آگے کیے۔
اسے لائٹ اون ہونے پر انداز ہوگیا تھا پھر بھی وہ انجان بنی رہی۔
”تم یہاں فرش پر کیو بیٹھی ہو.؟ اسکے پہلوں میں بیٹھتے ہوئے سوال کیا۔ بیٹھتے ہی اسے فرش کے ٹھنڈے ہونے کا احساس ہوا آزر نے اسکی اور دیکھا جو بنوز چھت کو گھورے جا رہی۔
”طوبیٰ.! اسنے دھیرے سے پکارا جس پر گرد موڑ کر چند سانیہ خالی نظروں سے اسے دیکھا پھر بنا کچھ کہے گردن کے گرد بازوں حائل کر گئی جیسے اسکا ضبط جواب دے گیا ہو جبکہ نمکین سیال خاموشی سے بہنے لگا غیر متوقع عمل پر وہ پہلے پہلے تو چونکہ پھر خاموشی سے اسکے گرد بازوں حائل کرتے اسے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے دیا اسکا لمس پاتے ہی وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔
”شششششششش.! چپ ایک دم چپ کیا ہوا مجھے بتاؤ کسی نے کچھ کہا ہے تم سے، یا میری کوئی بات بری لگی ہے۔ کافی دیر رونے کے بعد بھی جب اسکے رونے میں کمی نا آئی تو اسنے نرمی سے دریافت کیا۔
آزر.! ایسا کیوں ہے سب چل تو سکتے ہیں؟ پھر میں کیوں نہیں۔۔؟ یہ محتاجی، لاچاری بہت بری ہے آزر چھوٹی چھوٹی باتوں کیلئے کسی پر ڈیپنڈ کرنا اپنی چھوٹی سے چھوٹی حسرت کو مارنا پڑتا ہے، پھر بھی کوئی میرے جزبات نہیں سمجھتا، سب کو لگتا ہے کہ میری زندگی بہت آسان ہے مگر ایسا نہیں ہے، اس پر لوگوں کا عجیب و غریب نظرو سے دیکھنا سب مجھے ایسے کیوں دیکھتے ہیں، جیسے ترس کھا رہے ہو ازر یہ نظر مجھے اندر سے ختم کر رہی ہیں۔کرب سے کہتے ہچکیاں بندھ گئی۔
آزر مجھے بھی درد ہوتا میرے سینے میں بھی دل ہے پتھر نہیں ،میں خود کو کتنا بھی سخت ثابت کر لو لیکن مُجھے بھی تکلیف ہوتی ہے ، میرا بھی چلنے پھرنے کا اپنے کام اپنی مرضی سے کرنے کا گھر سے باہر نکل کر باہر کی دنیا دیکھنے کا دل کرتا ہے، اگر آج میں چل سکتی تو کوئی بھی مجھے اسطرح تنہا چھوڑ کر جاتا.؟“
”میں نے بس ایک بار کہا میں نہیں آؤگی تو سب مان گئیں کسی نے نہیں کہا طوبیٰ تم کیوں گھبراتی ہو ہم ہیں ناں، ہمھارے ہوتے تمھیں کسی کی پرواہ کرنے ضرورت نہیں لیکن کسی نے ایسا نہیں کہا جانتے ہیں کیوں.؟ کیونکہ میں ایک بوبھ ہوں جسے کوئی اٹھانا نہیں چاہتا کوئی بھی نہیں.؟ اسکے رونے میں شدت آئی تھی۔
”طوبیٰ تم کیوں اپنا دل چھوٹا کرتی ہو، میں ہوں ناں.! تم ایک مرتبہ کہتی تو صحیح میں لیکر چلتا۔ آزر سے اسکا دکھ دیکھا نہیں گیا تھا۔
بات جانے یا نہ جانے کی نہیں ہے آزر.! بات احساس کی ہے کسی کو میرا احساس نہیں نہ ہی کسی کو میری ضرورت ہے میرا وجود بوجھ بن گیا جسے ہر کوئی جان چھڑانا چاہتا ہے مگر میری بد قسمتی تو دیکھے موت بھی نہیں آتی مُجھے۔اپنے ہاتھوں سے اپنے آنسوں صاف کرنے لگی تھی۔
طوبیٰ پلیز.! چپ ہو جاؤ ایسا نہیں ہے، جیسے تم سوچ رہی ہو۔ اسے تکلیف میں دیکھ کر آزر کا دل پھٹنے لگا تھا۔
”اگر ایسا نہیں ہے تو پھر میرا ایک کام کریں گے، آپ بھی تو مجھ سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں ناں.؟ بتائیں کریں گے یا محض دعوا ہی ہے آپکی محبت.؟۔ سوالیہ نظروں سے دیکھا تھا۔
تم ایک بار کہہ کر تو دیکھو..؟
“آزر یہ دیکھیں.؟ طوبیٰ نے آزر کے دونوں ہاتھ اپنے چہرے پر مس کیے۔
یہ دیکھیں میرا جسم ٹھنڈا پڑنے لگا اتنی ٹھنڈ ہے، پھر بھی میری یہ سانسوں کی ڈور چل رہی کتنی ڈھیٹ ہوں میں
آزر.! پلیز آزر.! کسی طرح میری یہ چلتی ہوئی سانسیں روک دیں آزر.! میں آپ کا یہ احسان کبھی نہیں بھولوں گی.ہذیانی انداز میں منت کرتے ہوئے ہاتھ جوڑے تو آزر اسکی بات سن کر تڑپ گیا تھا۔
“بس کر دو.؟طوبیٰ کیوں تم میرا صبر آزما کر مجھے امتحان ڈال رہی ہو.! سختی سے اسے خود میں بھنچتے ملتجی انداز میں گویا ہوا۔
آزر.!!
”ششش.! اب تم کچھ نہیں بولو گی سمجھی بس چپ.! اسنے پھر کچھ کہنا چاہا جسے وہ فوراً خاموش کروا کر اپنے ساتھ لگائے بال سہلاتے ہوئے اسے مطمئن کرنے لگا تو اس کا یہ عمل کار گر ثابت ہوا
کچھ دیر یونہی اسکے سینے سے لگے اسکے بیچنی کو قرار ملا تو وہ پر سکون ہوتی نیند کی وادی میں اتر گئی۔
”جان۔۔؟؟“ اسکے بالوں کو سہلاتے آزر نے جھک کر دھیرے سے پکارا مگر وہ تو محبوب کی بانہوں میں سکون پا کر سو گئی تھی۔ جس آرام سے آزر نے سے بانہوں میں بھر کر بستر پر لیٹایا جس کی آنکھیں اب بھی نم تھی جنھیں آزر آہستہ سے صاف کر کے کمفرٹ دیا۔
بس کچھ دن اسکے بعد میں تمھارے سارے دکھ چن کر تمھارا دامن خوشیوں بھر دونگا یہ وعدہ ہے میرا تم سے ماتھے سے بال ہٹاتے وہاں لب رکھے تھے۔












”ایک نئی صبح اپنے ساتھ شادی کا ہنگامہ لائی تھی جس بے خبر آج وہ دیر تک سوتی رہی تھی صبح سے سائرہ بیگم کے علاو لائبہ و آئزہ بھی اسکے کمرے کا لگا چکی تھی مگر وہ سب سے بے نیاز سو رہی تھی۔
کافی وقت گزارنے کے بعد جب اسنے مندھی مندھی آنکھیں کھولی تو اسے اپنا سر بھاری محسوس ہوا آنکھیں مسلتے اٹھ کر بیٹھتے اسنے بیک سے ٹیک لگائی تو یکایک رات آزر اور پھر وہ ساری باتیں یاد آئی جو وہ غیر ارادی طور پر کر چکی تھی جس پر اسے خود پر جی بھر کر غصّہ آیا، پہلے تو کبھی اتنی بے اختیار نہیں ہوئی کہ کسی کو اپنے غم میں شریک کرو تو پھر اس بار میں کیوں آزر کے سامنے اتنی کمزور پڑ گئی کیوں، کیوں..!! میں وہ سب بول گئی جو مجھے نہیں کہنا چاہیے تھا۔ غصّہ سے اپنے بالوں میں انگلیاں پھنسائے وہ خود کو کوس رہی تھی کہ پاس رکھا اسکا موبائل گنگنایا جس پر وہ اسکی جانب متوجہ ہوئی جہاں آزر کا نام جگمگا رہا یونہی دیکھتے ہوئے فون بجتے بجتے بند ہوا تو وہاں دس مس کالز کا نوٹیفکیشن چمکا جس پر وہ متعجب ہوئی اور فون اٹھا کر کال بیک کرنے کا سوچا ہی رہی تھی کہ آئزہ کمرے داخل ہوئی جسے دیکھتے ہی طوبیٰ نے اپنا فون سائیڈ میں رکھا تھا۔
”آپی.؟ یہ بھی صحیح ہے رات دیر جاگے ہم اور صبح دیر تک آپ سوئے۔ مصنوعی طنز کیا۔
”ہاں تو تم بھی جلدی سو جاتی کس نے کہا دیر تک جاگو۔ خود کو نارمل ظاہر کیا۔
ہاں اب تو آپ یہی کہے۔۔۔۔؟؟؟
وہ کچھ کہنے لگی تھی کہ آئزہ کے ہاتھ میں موبائل بج اٹھا۔
آپی پہلے اپنے ہزبینڈ سے بات کر لیں صبح سے بےچین ہو رہے ہیں آپ سے بات کرنے کیلئے۔ آئزہ نے فون اسکی طرف بڑھایا تو طوبیٰ نے آئزہ کی اور حیران کن نظروں سے دیکھا۔
مجھ سے کیا بات کرنی ہے؟
”یہ تو آپ بات کریں گی تو پتا چلے گا، اب اتنا سوچ کیا رہی یہ لیں بات کریں’۔ اسنے فون اسکے ہاتھ میں پکڑایا تو ایک نظر فون پھر ایک نظر آئزہ کو دیکھنے لگی۔
آپ بات کریں میں آتی ہوں.! وہ کہہ کر باہر چلی جبکہ وہ فون کو تکتے کان سے لگاتے آنکھیں بند کر گئی۔
”کیسی ہو.! گھمبیر مردانہ آواز طوبیٰ کی روح تک سرایت کر گئی۔
ٹھیک۔۔۔۔“ یک لفظی جواب دیا۔
کب سے کال کر رہا ہو اٹھا کیوں نہیں رہی۔ اگلی بات پر چند سانیہ چپ رہنے کے بعد دانستہ جھوٹ سے کام لیا۔
میں نے دیکھا نہیں.؟ جس کے بعد دونوں کے درمیان گہری خاموشی حائل ہوگئی تھی۔
طوبیٰ تم تیار رہنا آج میں خود لینے آؤنگا ہم ساتھ چلیں گیں۔ اسنے پیشکش کی۔
”آپکو میرے لیے فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں، میں ابو جی کے ساتھ آجاؤ گی۔ جسے ناچاہتے ہوئے بھی وہ رکھائی سے مسترد کر گئی۔
لیکن۔۔۔“ وہ کچھ کہنے لگا تھا کہ وہ بنا سنے کال ڈیسکنیٹ کر گئی۔ وہ جتنا فاصلہ رکھنا چاہتی تھی آزر کو دیکھ کر اتنی ہی بے اختیار ہو جاتی تھی۔
”اگر تم آنکل کے ساتھ آنے میں کمفرٹیبل ہو تو کوئی بات نہیں میں تو بس تمھیں خوش دیکھنا چاہتا ہوں۔فون دیکھ کر کہتے اٹھ کر تیار ہونے چل دیا تھا۔










“تم تیار ہو گئی.؟ قدسیہ بیگم پوچھتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی تو شزہ آئینے کے سامنے کھڑی ساڑھی کا پلو سیٹ کرتی ملی بلیک شفون ساڑھی سلو لس اینڈ بیک لس بلاؤز کے ساتھ زیب تن کئے ڈارک میک اپ کے ساتھ بالو کو سٹریٹ کر کے کھلا چھوڑے خود کو دنیا کی خوبصورت ترین لڑکی سمجھ رہی تھی
“چشمِ بدود آج تو تم قیامت ڈھا رہی ہو.؟
”خالا.! آپکو لگتا ہے کہ اس اکڑو کو اپنی جانب راغب کر پاؤ گی..؟ گی کل تو اس نے نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا تھا۔سارے بال ایک طرف کرتی ایک ادا سے پوچھتے ہوئے کل ہوئی ملاقات یاد آنے پر فکر لاحق ہوئی۔
”کیوں نہیں.! کب تک وہ تمھیں نظر انداز کرے گا آخر ہے تو ایک مرد ہی ناں، جب اتنی خوبصورت لڑکی خود دعوت نظارہ دے رہی تو کوئی کب تک منہ پھر سکتا ہے۔ شاطرانہ انداز اپنایا
“وہی تو.؟ اتنے بڑے ٹائکون کا اکلوتا وارث اور آپ نے اس اپاہج کے حوالے کر دیا. گردن موڑ کر خود کو آئینے میں دیکھا۔
”ویسے اگر گھی سیدھی انگلی سے نہ بھی نکلا تو انگلی ٹیڑھی کرنا مجھے اچھے سے آتی ہے۔ شزہ نے اپنی شاطر دماغ چلاتے ہوئے کہا۔
آج تو آر یا پار ہوگا اتنی آسانی سے میں اس اپاہج کو سب سب ہضم کرنے نہیں دونگی۔ اسنے اپنے ارادے ظاہر کیے۔
ویسے آج اس اپاہج نے تو نہیں آنا.؟ کسی خدشے کے تخت پوچھا تھا
میں نے ویسے تو اسے کہا تھا کے اپنی شکل نا دیکھائے لیکن وہ اپاہج بس ایک تقریب میں شامل ہوں ہوگی اور مجھے لگتا ہے وہ آج کی ہی تقریب ہے۔ قدسیہ بیگم نے بتایا۔
”خالا.! آپ کچھ کریں ناں.! میں نہیں چاہتی آج میرے اور آزر کے بیچ وہ اپاہج آئے.؟“ نروٹھے پن سے بولی۔
”توں رک میں کچھ کرتی ہوں۔!کچھ سوچتے ہوئے اپنا موبائل نکال اور آریان صاحب کا نمبر ملایا۔جو دوسری بیل پر رسیو کر لیا تھا۔
”ہیلو بھائی صاحب.! کیسے ہیں.؟
”جی میں ٹھیک آپ کیسی ہیں۔ جواب دیتے ہوئے پوچھا
”وہ میں پوچھ رہی تھی آج طوبیٰ نے آنا ہے شادی میں .؟
جی قدسیہ بہن.!
بھائ صاحب.؟ وہ میں کہہ رہی تھی آج اس کا آنا صحیح نہیں ہو گا کیونکہ کے لائبہ اور آئزہ تو آج سٹیج پر ہو گی اور ارحم بھی اسکا خیال نہیں رکھ سکتا تو وہ بیچاری کیا کرے گی۔بڑی مہارت سے اپنا مدعا بیان کیا۔
”جی بہن.! آپ کو اسکی فکر کرنے کی ضرورت نہیں میں دیکھ لونگا۔ انھوں نے رسان سے جواب دیا جو قدسیہ بیگم کو تیش دلا گیا۔
”بھائی صاحب آپ میری بات نہیں سمجھ رہے ہیں،میں نے کہہ دیا آج اس اپاہج کو آپ لیکر نہیں آئینگے میں اپنے مہمانوں کے سامنے شرمندہ نہیں ہونا چاہتی۔ قدسیہ بیگم نے کہہ کر کال بند کردی تھی۔ جبکہ وہ دیکھ کر رہ گئے۔








“آزر صبح سے آریان صاحب کے ساتھ تیاریاں کروا رہا تھا ایک بیٹے کی طرح آریان صاحب کے ساتھ کھڑا تھا۔
انکل کوئی کمی ہے تو بتا دیں.؟ آزر نے حال کا جائزہ لیتی نظروں سے دیکھتے ہوئے استفسار کیا۔
”نہیں بیٹا سب بہت اچھا ہے اب تم بھی جا کر تیار ہو جاؤ.! تعریف کرتے ہوئے حکم دیا۔
جی انکل.! تابعداری دیکھائی۔
“آپ طوبیٰ کو لے آئیں میں لائبہ اور آئزہ کو پالر لے جاؤنگا اور لے آؤنگا۔جانے سے پہلے پلان ترتیب دیا۔
طوبی کو۔۔!! آریان صاحب اسکے نام لیتے گہری سوچ میں چلے گئے تھے۔








طوبیٰ نے فروزی رنگ کا سمپل سا سوٹ زیب تن کئے ساتھ گھہرے گلابی رنگ کا ڈوپٹہ لے رکھا تھا آئزہ نے طوبیٰ کے بال کرل کر کے آگے کیے تھے اور میک اپ کے نام ایک لپ گلوس لگائے وہ اس سادگی میں بہت حسیں لگ رہی۔
”آپی.! آج آپ بہت پیاری لگ رہی ہیں، آزر بھائی تو بس آپ کو دیکھتے رہ جائیں گیں۔ آخری لٹ کو کرل کرتے ستائشی نظروں سے دیکھتے ہوئے چھیڑا جس پر اسنے تیکھی نظروں سے دیکھا۔
اب تم جاؤ لائبہ کے ساتھ میں ابو جی کے ساتھ آجاؤ گی۔ تاکید کی۔
”اوکے. آپی.! ہم آپ کا انتظار کریں گیں، محبت پاش نظروں سے دیکھتے ہوئے وہ کمرے سے نکل گئی تھی۔
”آریان صاحب کا انتظار کرتے ہوئے کافی دیر ہو گئی تھی آریان صاحب نہیں آئے جس پر اسے مایوسی ہونے لگی تھی کہ اریان صاحب کی گاڑی کی آواز آئی جس پر اسکا دل ڈوب کر ابھرا۔
”لگتا ہے ابو جی آگئے ہیں، اندازہ لگاتے اسنے خود کو آئینے میں دیکھ کر خوش ہوئی وہیل چیئر کے ریموٹ پر ہاتھ رکھے وہ باہر آنے لگی تھی کہ آریان صاحب کمرے آگئے۔
”تم تیار ہو بیٹا.! آریان صاحب نے کچھ اس انداز سے پوچھا کہ طوبیٰ کا بے ساختہ سر نفی میں ہلا
”نہیں ابو جی.! میں نہیں جا رہی ہوں.! منا کرتے ہوئے طوبیٰ کی آنکھوں سے انسوں بہہ نکلے تھے جسے وہ روکنے کی کوشش کر رہی تھی اور ضبط سے آنکھیں سرخ ہو گئ تھی۔
نہیں بیٹا میں تمہیں لے کر ہی جاؤ گا مجھے کیسی کی پروا نہیں.! تم چلو میرے ساتھ میں دیکھ لونگا سب کو.!اصرار کیا۔
”نہیں ابو جی.! آج لائبہ اور آئزہ کا اہم دن ہے اور میں نہیں چاہتی کے میری وجہ سے ان دونو کا اہم دن خراب ہو آپ جائے۔ طوبیٰ نے اپنے آنسوں صاف کیے جو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔
تو پھر ٹھیک ہے،آج میں بھی یہی رکوں گا تمھارے ساتھ۔ اٹل انداز میں نتیجے پر پہنچے۔
”نہیں ابو جی آپ جائے ان دونوں کو آپکی ضرورت ہے میں ٹھیک ہوں.! اصرار کرتے ہوئے طوبیٰ نے انھیں باہر کی جانب دھکیلا ۔
میرا کیا ہے مجھے تو عادت ہے ہمیشہ سے ان سب باتوں کی مگر ان کو آپکی ضرورت آپ جائے میں خود کو سنبھال لونگی۔طوبیٰ نے کہتے ہوئے دروازا بند کر دیا تھا
”طوبیٰ.؟ بیٹا میں کہہ رہا ہوں نہ کچھ نہیں ہوگا تم چلو میرے ساتھ میں تمھیں اس طرح اکیلے چھوڑ کر نہیں جا سکتا۔ دورازہ بجاتے ہوئے وہ بے بسی سے بولے۔ جس پر دوسری جانب سے کوئی جواب نہ آیا جبکہ ان کا موبائل بار بار بج کر اپنی طرف متوجہ کر رہا۔ کچھ دیر تک یونہی دروازہ بجانے کے بعد تھک ہار کر آریان صاحب بوجھل قدمو سے واپس پلٹ گئیں تھے۔









”آریان صاحب کے جانے کے بعد طوبیٰ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا چیخ چیخ کر رونا شروع کر دیا تھا۔
اہہہہہہہہہہہہ طوبیٰ نے ڈریسنگ پر زور ہاتھ مار کر سب کچھ نیچے پھینکا جو نیچے گر کر ٹوٹ گیا۔اسے بھی اضطراب کم نہ ہوا تو بیڈ شیٹ کھینچ کر اتار پھینکی تھی۔
رو رو کر حالت خراب کر لی تھی روتے ہوئے حواس باختہ ہو گئی اسی بیچ وہیل چیئر سے اترنے کی تگ و دو میں اسکے ہاتھ لڑکھڑائے اسے قبل کے وہ خود کو سنبھالتی گر پڑی اور فرش پر گرنے پہلے بیڈ کے کونر سے سر لگا جس کے بعد نیچے ٹوٹی ہوئی کانچ پر گری تھی اور کانچ طوبیٰ کے سینے میں پیوست ہوئی درد سے کراہتے کب وہ ہوش و حواس بگانی ہوئی پتا ہی نہ چلا۔