قسط: 2
”اریان.! میں نے طوبیٰ سے بات کی ہے مگر وہی مرغی کی ایک ٹانگ مجھے شادی نہیں کرنی مجھے ان جھمیلوں سے دور رکھیں، کون اپنائے گا اس وہیل چیئر کے ساتھ وغیرہ.! وغیرہ.! کہی نہ کہی وہ اپنی جگہ صحیح بھی ہے اریان.! مجھے لگتا ہے ہمیں اسکے ساتھ زبردستی نہیں کرنی چاہیے۔ لوشن اپنے دونوں ہاتھوں پر مسلتے ہوئے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے بتانے کے ساتھ اپنا موقف بھی پیش کیا تو اریان صاحب جو کتاب پڑھنے میں مصروف تھے سائرہ کی بات سن کر کتاب بند کر کے سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر ایسے دیکھا جیسے کہنا چاہ رہے ہو تو پھر آگے کیا کرنا ہے جس کا مفہوم سمجھتے ہوئے انھوں نے اپنی بات جاری رکھی تھی۔
اور اسکا کہنا ہے کہ وہ اپنی بہنوں کی خوشیوں کی راہ میں حائل بھی نہیں ہونا چاہتی، تو،اگر لڑکا اور اسکے گھر والے اچھے ہیں، ہمیں پسند ہیں، تو آپ ان لوگو کو بلوا لیں، لائبہ سے وہ خود بات کر لے گی۔ سائرہ نے کمفرٹ لیتے ہوئے بات مکمل کی تو اریان صاحب پر سوچ انداز میں دیکھ کر رہ گئے۔
”تم یہ کہنا چاہتی ہو کہ ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی ہم اسے اور اسکی خوشیوں کو پسِ پشت ڈال کر اپنی زندگی میں مگن ہو جائیں۔ سائرہ بیگم کی بات انھیں مطمئن نہ کر سکی تھی۔
”میں نے ایسا کب کہا کے اسے نظر انداز کریں اریان.!وہ بھی ہماری بیٹی ہے، ہمیں اسکی خوشی بھی اتنی ہی عزیز جتنی باقی دونوں کی، ہم نے کبھی بھی طوبیٰ اور باقی دونوں میں فرق نہیں کیا، اگر طوبیٰ میں کچھ کمی ہے بھی تو اللّٰہ کی طرف سے ہے اس میں ہم تو کچھ نہیں کر سکتے، لیکن یہ بھی تو دیکھے کہ اگر ہم اس پر دباؤ ڈالتے ہیں، اور وہ ہماری خوشی کے لیے مان بھی جاتی ہے تو آپ ایسا لڑکا کہاں سے لائے گیں؟ جو ہماری بیٹی کو دل سے قبول کرے اور اسے وہ خوشیاں دے جس کی وہ حق دار ہے۔ اریان صاحب کے ہاتھ پر ہاتھ رکھے سائرہ بیگم سنجیدہ مگر تاسف آمیز انداز میں کہتے ہوئے اپنے خدشات کا اظہار کیا تو وہ خاموش ہو گئے۔
“طوبیٰ.! لائبہ سے بات کر کے اسکی مرضی بھی جان لےگی، مجھے یقین ہے لائبہ کو بھی ہمارے فیصلے پر کوئ اعتراض نہیں ہوگا تو پھر آپ بسم اللّٰہ کریں جو ہوگا بہتر ہی ہوگا اریان صاحب کو خاموش پا کر اسی انداز میں بات مکمل کی تو اریان صاحب آنکھیں بند کر کے گھہرا سانس لیا۔
💛💛💛💛💛💛💛💛💛
”وہاج کانچ کا دروازا دھکیلتے ہوئے اوفس میں داخل ہوا جہاں سامنے آزر خان.! سنگل چیئر پر بیٹھا خود کو نارمل کرنے سعی میں آنکھیں بند کئے ایک گھہرا سانس خارج کرتے چہرے پر مسکراہٹ سجائی تھی۔
”وہاج کو دیکھ کر آزر اپنی چیئر سے اٹھا اور آگے بڑھ کر گرم جوشی سے وہاج سے بلگیر ہوا باپ کو کھونے کے بعد ایک یہی تو تھا جسے وہ اپنا کہہ سکتا تھا۔
”کیسے ہو! کافی ٹائم بعد آنے کی زحمت کی جناب نے۔ بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہلکے پھلکے انداز میں اپنے اندر چلتے خلفشار کو چھپانے کی ناکام کوشش کی۔
میری چھوڑو.! تم سناؤ.! تمھیں کیا ہوا ہے تمھاری شکل پر کیوں بارہ بجے ہوئے ہیں؟ وہ جو اسکا چہرہ دیکھ کر ہی اسکی دل کی بات جان لیتا تھا آج بھی سمجھ گیا تھا۔
کچھ نہیں بس.! اوفس کی ٹینشن.! اپنی سنگل کرسی پر بیٹھتے سرسری انداز میں بات ٹالنے کی کوشش کی۔
”کیا.! آج پھر بھا…!! نتاشا آئی تھی۔ بغور جائزہ لیتی نظروں سے دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا۔ جس پر آزر ایک سرد آہ بھرتا اسے دیکھ کر رہ گیا۔
”ہمم..!!
تو پھر.؟؟
“پھر کیا میری تو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ میں کس طرح سمجھاؤں اس لڑکی کو یار.! میرے پاس اب اُسے دینے کے لیے کچھ نہیں ہے نہ محبت نہ نفرت.! کچھ بھی تو نہیں..!! سرد سپاٹ لہجہ ہر طرح کے جزبات سے عاری تھا۔
”تم اسے معاف کیوں نہیں کر دیتے.؟ انداز سوالیہ تھا۔
”بات محض معافی کی نہیں، معاف تو بہت پہلے کا کر چکا ہوں، پر اب میں نتاشا کو اپنی زندگی میں شامل نہیں کر سکتا یہ ممکن نہیں۔ اسی انداز میں مزید گویا ہوا
”بس کر یار.! ہوگئی اس سے غلطی جو اسنے تجھے چھوڑ کر کیسی اور کو ترجیع دی اس کو اس کی سزا مل گئی ہے۔ معاملہ فہمی سے کام لیتے ہوئے اسکے اندر کی بات جاننی چاہی۔
”تمہاری بات صحیح ہے پر اب میں اسے اپنی زندگی میں شامل نہیں کرو گا٫ کبھی نہیں.! انداز دو ٹوک تھا جس پر وہاج اپنے دوست کو دیکھ کر رہ گیا جو پہلے کبھی اتنا سخت دل نہ تھا۔
”خیر میری چھوڑ اپنی سناؤ کیا ہو رہا ہے؟ بات بدلتے ہوئے استفسار کیا۔
”کچھ خاص نہیں.! وہی روٹین لائف اوفس گھر اور ہاں.! ماما نے میرے لیے لڑکی پسند کی ہے، کل بات پکی کرنے جانا ہے اور تم بھی ساتھ چل رہے ہو.! یہی بتانے تو آیا تھا وہ بھی زیادہ بحث کر کے آزر موڈ مزید خراب نہیں کرنا چاہتا تھا اسلئے مزید کچھ نہیں کہا۔
”یہ تو آنٹی نے بہت اچھا کیا بہت بہت مبارک پر میں نہیں آسکتا خوش دلی سے مبارک دیتے ہوئے آنے سے معزرت کرنی چاہی۔
”میں تم سے پوچھ نہیں رہا.! بتا رہا ہوں.! لاسٹ مؤمنٹ پر کوئی بہانہ نہیں چلے گا آئی سمجھ ۔ سنجیدگی سے کہتے ہوئے ٹیبل پر آگے ہوا
لیکن.!!
”لیکن.! ویکن.! کچھ نہیں سننے والا تم آرہے ہو یہ فائنل ہوگیا، اب میں چلتا ہوں ۔ بے نیازی سے حکم جاری کرتا وہ اٹھ کھڑا ہوا اور آزر چاہ کر بھی کچھ نہ کہہ سکا۔
💛💛💛💛💛💛💛💛💛💛💛
”طوبیٰ نے لائبہ سے بات کی، پہلے تو لائبہ نے منا کیا کہ ابھی مجھے شادی نہیں کرنی، آپ بڑی ہیں، اسی طرح کے کچھ اور اعتراضات اٹھائے جنھیں اس نے بڑی مہارت سے ٹالتے ہوئے اسطرح سمجھایا کہ اسے ماننا پڑا۔
اور آج لڑکے والے آرہے تھیں گھر میں ہر طرف چہل پہل تھی اور آج پھر طوبیٰ کے کمرے سے باہر نکلنے پابندی لگادی گئی تھی۔
مامی نے سختی سے طوبیٰ سے کہا تھا کہ کسی صورت کمرے سے باہر نہ آئے تمھاری نظر لگ سکتی کیونکہ تمھیں تو کوئی اپنائے گا نہیں، تو تمھاری حسرت اور حسد سے بھری نظریں دوسری بچیوں کی خوشیوں کو برباد کر سکتی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تمھیں دیکھ کر لڑکے والے اس رشتے سے ہی انکار کر دیں، اسلئے وہ کمرے سے کسی صورت باہر نہ نکلے آریان اور سائرہ نے بہت سمجھایا پر مامی کو پہلے کبھی کسی بات کا اثر ہوا تھا جو آج ہوتا۔
💛💛💛💛💛💛💛💛💛💛
”مہمان آنے والے ہیں، تم ابھی تک تیار نہیں ہوئی؟ لائبہ کو منہ پھلائے بیٹھا دیکھ کر تشویش ہوئی۔ جس پر لائبہ نے خائف نظروں سے اپنی ماں کو دیکھا۔
”امی جی.! اگر آپی ان کے سامنے نہیں جاسکتی تو میں بھی نہیں جاؤنگی، آپ لڑکے والوں کو منا کر دیں۔ صوفے پر بیٹھی لائبہ نے اٹھ کر ان کے سامنے ائی۔
” کیا ہو گیا کیسی باتیں کر رہی ہوں لائبہ.! وہ لوگ مجھے دیکھنے نہیں، تمہں دیکھنے۔۔۔۔۔۔۔۔!!
”آہ.!! ہائے..!!! میں نااا کہتی تھی اس اپاہج کی نظر ہے.! کیسے بےشرمی سے کہہ رہی مجھے تو نہیں دیکھنے آرہے۔( قدسیہ بیگم) مامی جو ابھی لاؤنچ میں آئی تھی طوبیٰ کی بات سنتے ہی انھیں موقع مل گیا طنز کے تیر چلانے کا۔جس پر سائرہ بیگم افسوس سے نہ میں سر ہلاتی لائبہ اور پھر طوبیٰ کو دیکھ کر رہ گئی تھی طوبیٰ تو مامی کی بات سن کر ششدر رہ گئی۔
”میں تو اس لیے منا کر رہی تھی کے کیسے یہ بچاری اپنی وہیل چیئر لے کر پرائے لوگوں کے سامنے آئیگی، لیکن یہ اپاہج تو اپنی ہی شادی کے خواب دیکھ رہی ہے۔ کچھ اس انداز سے بولتی ہوئی صوفے پر آکر بیٹھی تھی جیسے ان سے زیادہ کوئی ہمدرد نہ ہو لفظوں کے تیر طوبیٰ کے دل میں پیوست ہوئے جس پر وہ ضبط سے مٹھیاں بھنچے اپنے آنسو پی گئی تھی۔
نہیں آپا.! اسکا وہ مطلب نہیں تھا آپ غلط۔۔۔۔۔۔!!
“اری.! سائرہ.! تو نہیں سمجھتی اس اپاہج کو جتنا میں جانتی ہوں، بیٹی ہوگی تیری، مگر میں نے بھی دنیا دیکھی ہے یہ بال دھوپ میں سفید نہیں کیے اسکی رگ رگ سے واقف ہوں.! کب کیا سوچتی سب معلوم ہے مجھے، یہ بالش بھر کی اپاہج چھوکری اپنی معصوم صورت سے تم سب کو بیوقوف بنا سکتی پر مجھے نہیں۔ سائرہ بیگم نے اپنی بیٹی کی ہمایت میں منہ کھولا ہی تھا کہ قدسیہ بیگم نے طنز کے تیر برسانے شروع کر دیے۔اسے قبل وہ اپنی مزید کچھ کہتی لائبہ جو یہ سب بہت مشکل سے برداشت کر رہی تھی پیر پٹختی ہوئی زخمی نظر اپنی ماں پر ڈالتی اپنے کمرے کی اور بڑھ گئی اور طوبیٰ کے آنسو تھے جو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے اسے بھی اپنے کمرے میں جانا ہی بہتر لگا۔
”امی جی.! باہر مہمان آگئیں ہیں.! آئزہ نے آکر اطلاع دی تو سائرہ جو اپنی بیٹیوں کی نظر میں قصوروار نہ ہوتے ہوئے بھی مجرم بن کر رہ گئی تھی اثبات میں سر ہلا گئی۔
تم انھیں ڈرائینگ روم میں بیٹھاؤ میں آتی ہوں چلے بھابھی آئزہ کو ہدایت دیتے قدسیہ بیگم کو نہ چاہتے ہوئے بھی ساتھ آنے کی دعوت دی تھی۔
اپنی ایک بیٹی کی خاطر دوسری بیٹی کو نظر انداز تو نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن آج پھر اسے دونوں میں سے ایک کو ہی چننا تھا۔
سائرہ قدسیہ بیگم کی معیت میں باہر آگئی اور لائبہ بے دلی سے تیار ہونے لگی تھی۔
”طوبیٰ اپنے کمرے میں آئی تو مامی کی کہی باتیں یاد کر کے سانس بند ہونے لگا اسکا سر درد سے پھٹنے لگا اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے کوئی اس کے سر پر ہتھوڑے برسا رہا ہو، کچھ دیر اگر وہ اور کمرے میں رہتی تو شاید دم گھٹنے سے مر جاتی، باہر نکلنے پر پہلے پابندی تھی اس لیے وہ لان میں آگئی ابھی بھی آنسوں ا اس کا چہرہ بھگو رہے تھے۔