ادھورے خواب

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 4

”لان میں بیٹھی وہ اپنا درد کم کرنے کی سعی میں مصروف تھی کہ کسی کے آنے کا احساس ہوا جس پر فوراً سے اپنے آنسوں صاف کرتے اپنا حلیہ درست کرتے اپنے چہرے پر مسکراہٹ سجا کر ایک گھہرا سانس لیتے خود کو نارمل کیا تھا وہ کسی کے سامنے کبھی اپنے اندر چھپا درد ظاہر نہیں کرتی تھی۔
”تم یہاں بیٹھی ہو.! ممی تو بتا رہی تھی تمھاری طبیعت خراب ہے۔ وہ یوں طوبیٰ کو تنہا بیٹھا دیکھ متعجب ہوا جس کے ہمراہ باقی سب بھی تھیں جن میں آزر خان سب سے پیچھے ہونے باوجود نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی ساری توجہ اس مرکوز کیے ہوئے تھا۔
”ہاں.! بس ویسے ہی سر میں تھوڑا درد تھا۔ بہانا بنایا جس پر لائبہ و آئزہ آگے بڑھ کر اسکے پاس آئی اور لائبہ نے اسکے پہلو میں بیٹھتے ہوئے سرگوشی نما سوال کیا۔
آپی آپ ٹھیک ہیں.!
”ہمم..! بہت ڈھیٹ ہو بے فکر رہو.! اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر سامنے دیکھتے آہستہ بولی۔
”ہاں.! جیسے میں تو کچھ جانتا نہیں، لیکن دیکھوں تم وہاں نہیں آسکی تو میں سب کو یہاں تمھارے پاس لے آیا۔ دونوں کی باتوں سے انجان جتاتی نظروں سے دیکھتے ہوئے چلتے ہوئے اسکے پاس آکر اپنے ساتھ آئیں وہاج اور آزر کی جانب اشارہ کیا
”ان سے ملو یہ ہیں وہاج ملک.! ہماری لائبہ کے فیوچر ہزبینڈ کیوں صحیح کہا نا وہاج صاحب.! طوبیٰ سے وہاج کا تعارف کرواتے ہوئے آخر آخر میں شریر انداز اپناتے ہوئے تصحیح چاہی جس پر اسنے مسکراتے اثبات میں سر ہلایا۔
اور یہ ہیں ہماری سالی…..!
”سالی، نہیں.! بہن کہنا زیادہ مناسب ہوگا ارحم.! سالی بہنوئی کا رشتہ میری سمجھ میں نہیں آتا نہ ہی اسلام میں اسے کوئی اہمیت حاصل ہے تو بہتر ہے بہن بھائی کا رشتہ بنایا جائے جس میں عزت و احترام ہو۔ ارحم کی بات کاٹتے ہوئے رسان سے گویا ہوا تو اپنے پہلے ہی جملے سے لائبہ کو متاثر کر گیا تھا لائبہ ہی نہیں باقی سب کو بھی پسند آئی تھی وہاج کی کہی بات سوائے ارحم۔
”میرا مقصد آپ کو ناراض کرنا نہ ہی آپکا دل برا کرنا تھا ارحم.! اگر میری کوئی بات پسند نہ آئی ہو تو معذرت خواہ ہوں.! اسی انداز میں مزید کہتے ہوئے معذرت چاہی۔
”ارے نہیں یار.! کیوں شرمندہ کر رہے ہو، بلکہ اچھا لگا جان کہ تم ایسا سوچتے ہو۔ اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے ماحول چھائی سنجیدگی زائل کی تو وہ بھی مسکرا دیا۔
لائبہ طوبیٰ کے پشت پر کھڑی جبکہ آئزہ اسکے پہلو میں بیٹھی ارحم جھولے کے دائے طرف کھڑا تھا سامنے رکھی کرسیوں وہاج و آزر پر بیٹھیں تھیں۔
” تم یہاں اکیلی کیوں بیٹھی ہو.! کوئی میڈسن وغیرہ لی، یا پھر ایسے ہی جھولے جھول رہی ہو۔ ایک بار پھر وہ طوبیٰ کی جانب متوجہ ہوا۔مگر آزر خان کو ارحم کا یوں طوبیٰ سے بے تکلف جانے کیوں برا لگا تھا۔
”لی ہے، تم میری فکر نہیں کرو.! طوبیٰ نے لاپروائی برتی
”آپ لوگ بیٹھ کر باتیں کریں میں جاتی ہوں۔ طوبیٰ کو اپنے سامنے بیٹھے آزر کی نظروں سے الجھن ہونے لگی تھی۔
”لگتا ہے آپکو ہمارا یہاں آنا اچھا نہیں لگا..؟؟۔ کرسی سے ٹیک لگائے وہاج استفسار کیا
”بھائی.! ایسی کوئی بات نہیں میں ضرور بیٹھتی لیکن میرے سر میں درد ہے۔سابقہ بہانا دھرایا۔
”اگر سر درد زیادہ ہے تو پھر آرام کریں مگر ہمارے ساتھ ہی بیٹھتی تو ہمیں خوشی ہوتی۔ پر سکون انداز میں کہتے ہوئے نظریں طوبیٰ کے پیچھے خاموش کھڑی لائبہ پر گئی جیسے کچھ کہنا چاہتا جو طوبیٰ نے بھی محسوس کی تھی۔
”کتنا تمھارے سر میں درد ہے میں اچھے سے جانتا ہوں زیادہ نخرے نہ دکھاؤ چپ چاپ بیٹھی رہوں آئزہ کو اٹھا کر خود اسکے پہلو میں بیٹھتے پورے استحقاق سے کہتے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا جسے وہ نا محسوس انداز میں چھوڑا گئی تھی سامنے بیٹھے آزر خان جو بظاھر اپنے فون میں بزی تھا ارحم کی اس حرکت پر سلگ کر رہ گیا۔
”لائبہ.! وہاج بھائی کو ہمارا لان دیکھاو.!
طوبیٰ وہاج کی بیچن نظروں کا مفہوم بھانپ گئی تھی۔
”جی آپی..؟
سوالیہ نظروں سے اپنی بہن کو دیکھا۔
واقعی بہن ہو تو آپ جیسی جو بغیر کہے دل کی بات سمجھ لے ویسے میں آپ کو طوبیٰ کہہ کر بلاؤ یا آپی کیونکہ رشتے میں بڑی ہو لیکن عمر تو چھوٹی ہی ہو طوبیٰ۔
جو آپکو اچھا لگے آپ کہہ لیں رشتے تو دل کے ہوتے ہیں،دل میں عزت و احترام ہو تو فرق نہیں پڑتا آپ کیا کہتے ہیں۔ طوبیٰ کہیں یا آپی بات ایک ہی ہے۔ یہ پہلا مکمل جملا تھا جو طوبیٰ نے پورے اعتماد سے بولا جس پر وہاج کے لب بے ساختہ مسکرائے۔
جس طرح ارحم میرا بھائی ہے اسی طرح آپ بھی میرے بھائی ہے بات صرف دل کے مانے کی ہوتی ہے۔ اس انداز میں کہتے ہوئے وہ آزر خان کے دل کے تار چھیڑ گئی تھی۔
”طوبیٰ کی بات سن کر ازر خان کو تو جیسے اندر تک سکون اترتا ہوا محسوس ہوا وہ جو کب سے ارحم کی بے تکلفی کو غلط سمجھ رہا تھا اب مطمئن ہو گیا۔
بالکل بھی نہیں میں تمھارا بھائی نہیں ہوں میں صرف کزن و بیسٹ فرینڈ ہو.! ارحم کو ناجانے کیوں طوبیٰ بری لگی تھی جسی کی اسنے فورا تصحیح کی۔
”بھائی اگر فرینڈ بھی ہو تو یہ تو اور بھی اچھی بات ہے،
تم فکر نہیں کر ہم بھی بہت جلد فرینڈ بن جائے گے۔ طوبیٰ کو دیکھتے ہوئے وہاج اسکی بات کا کچھ اور مطلب اخذ کیا۔
”اچھا.! اچھا.! باتیں تو ہوتی رہیں گی،ان دونوں کو بھی تو بات کرنے کا موقع جنھوں نے زندگی ساتھ گزارنی ہے۔ بات ختم کرتے لائبہ کو آنکھوں سے اشارہ کیا۔
”چلو.! لائبہ جاؤ وہاج کو کو ہمارا لان دیکھاو.! تاکید کی تو لائبہ آگے بڑھی تو وہاج بھی اسکی ہماراہی میں چل دیا۔
”ایک کپ چائے ملے گی.؟ اتنی دیر میں پہلی بار آئزہ کو مخاطب کیا تو وہ اثبات میں سر ہلاتی اندر کی اور بڑھ گئی۔
جس کے بعد وہ تین ہی رہے گئے تھیں ارحم آزر سے ہلکی پھلکی باتیں کرنے لگا جس کا جواب دیتے ہوئے آزر کی نظریں بار بار بھٹکتے ہوئے طوبیٰ کے سرد سپاٹ چہرے پر جا رہی تھی جو یہاں ہوتے ہوئے بھی یہاں نہیں تھی۔
وہ بظاہر ہنسنے والی خوش اخلاق لڑکی
وہ سب کو ہنسنے پر مجبور کرنے والی
اس کو کل رات میں نے دیکھا تھا
پہلے تو مجھے وہ تاریکی کا حصہ لگی
سلیقے سے بندھے بال الجھے ہوئے
جیسے جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر رکھا ہو انکو
وہ آسمان تلے گھٹنوں کے بل بیٹھی
آسمان کو شکوہ کناں نگاہوں سے تکتی
جانے منہ ہی منہ کیا بڑبڑا رہی تھی
میں آنکھوں میں حیرانی سموئے جب
اس تک پہنچا تو وہ سختی سے لب باہم
پیوست کیے جیسے اپنی سسکیاں روکنے
کی کوشش میں وہ ہلکان ہو رہی ہو
غور سے دیکھا تو وہ آنکھیں بند کیے
بے آواز رو رہی تھی۔ اتنا درد تھا
اس کے روشن چہرے پر کہ میں تو
کئی ثانیے اپنی جگہ پر کھڑا رہ گیا تھا
دل چاہا کہ ہاتھ بڑھا کر آنسو پونچھ
کر اس کے غم چن لوں مگر وہ
شاید خوددار لڑکی تھی جو اپنے غم
بھی کسی کے ساتھ نہیں بانٹنا چاہتی
ورنہ اس کے چاہنے والےکیا کم تھے
میں دم سادھے، ساکت سا کھڑا اسکو
دیکھ رہا تھا مگر وہ ہچکیوں میں روتی
جانے کون سے غم کے غم میں وہ
اتنے اشک بہا رہی تھی کہ حد نہیں
سرخ و سفید چہرہ زرد ہوتا ہلدی کو
مات دے رہا تھا اور نیلے لب کپکپا
رہے تھے جیسے سوکھا پتہ لرزتا ہے
وہ جانے کتنی دیر یونہی روتی رہی
میں بوجھل دل سے واپس آ گیا
میں تجسس میں تھا کہ صبح جب
ہم سے سامنا ہوگا تو وہ ٹوٹی پھوٹی
لڑکی سب کچھ اگل دے گی اور میں
اس کے سب غموں کو سمیٹ لوں گا
مگر صبح ایک عجیب سا واقعہ ہوا، میرا
جب اس سے سامنا ہوا تو وہ مسکرائی
گلابی رنگ میں اس کا کھلتا ہوا چہرہ
آنکھیں ایسے چمک رہی تھیں جیسے
ہر خواب کو تعبیر ملی ہو اس کے
وہ اپنی باتوں سے سب کو یوں پل پل
ہنسا رہی تھی گویا وہ کل رات روئی
ہی نہ ہو، ہار کر وہ ٹوٹی ہی نہ ہو
میں دنگ سا اس کو دیکھتا رہ گیا
جانے کہاں سے وہ ہمت لائی تھی
کہ رات کو ٹوٹ بکھر کر روتی رہتی
اور صبح پھر سے وہی ہشاش بشاش
غموں سے آزاد نظر آیا کرتی تھی
اکثر کوئی اس جیسا بننے کی ذرا سی
بھی خواہش کرتا تو وہ سختی سے ٹوکتی
اکثر سمجھتے کہ خود غرض ہے مگر مجھے
معلوم تھا کہ وہ خوش نہیں تھی بلکہ
وہ خوش رہنے کی اداکاری کرتی تھی
تبھی تو اگر کوئی اس جیسا بننے کی تمنا
کرتا تو وہ فوراً “اللہ نہ کرے” کہتی
وہ بظاہر ہنسنے والی لڑکی یار وہ راتوں کو
ٹوٹ بکھر کر پھر بھی مسکرایا کرتی تھی
💛💛💛💛💛💛💛💛💛💛💛💛💛💛
”جی بھائی صاحب.! ہمیں تو آپ بس اب شادی کی تاریخ دیں اور اس جمعے کو ایک چھوٹی سی منگنی کی تقریب رکھ لیتے ہیں اور مہینے کے آخر میں شادی۔ فرحانہ بیگم تو ہتھیلی پر سرسوں جمانے کی کوشش میں تھی۔
”فرحانہ بہن.!! اتنی جلدی سب کیسے ہوگا تھوڑا تو ٹائم دیں، آخر کو ہم لڑکی والے ہیں بہت سی تیاریاں کرنی ہوتی ہیں سائرہ بیگم متفکر ہوئی۔
”ہمیں کچھ نہیں چاہیے اللّٰہ کا دیا سب کچھ ہے بس ایک بیٹی کی کمی وہ دے دیں، جہیز جیسی فرسودہ رسومات کے میں تو سخت خلاف ہوں یہ بھی کوئی بات ہوئی کے لڑکے والے خود لڑکی والوں سے ڈیمانڈ کریں کے ہمیں لعنت دو اور لعنت میں یہ بھی شامل ہو، یہ ہونا تو بہت ضروری ہے، نہ نہ بہن.! ہمیں نہیں چاہیے ایسی لعنتیں، ہمیں تو بس ہماری بیٹی چاہئے، تیاریوں کا کیا ہے ہم سب مل کر لیں گیں۔رسان سے کہتے ہوئے فرحانہ بیگم نے آریان اور سائرہ کے سارے خدشات دور کر دیت جس پر سائرہ بیگم نے آریان صاحب کو دیکھا۔
”جی.! جی.! بالکل تیاریاں ہم سب مل کر لیں گیں۔ قدسیہ بیگم نے بھی فوری فرحانہ بیگم کی سائیڈ لی۔
”بھائی صاحب.! میں تو کہتی ہوں.! آئزہ کی زمیداری بھی ساتھ ادا کر دیں مجھ بھی ارحم اور آئزہ کی شادی کی تاریخ دے دیں۔ قدسیہ بیگم نے موقع غنیمت جانا تھا۔
”اگر آپ سب کی یہی مرضی ہے تو پھر مجھے بھلا کیا اعتراض جیسے آپ سب کی خوشی۔ آریان صاحب نے اپنی رضامندی کا اظہار کیا تو سب کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیر گئی۔
💛💛💛💛💛💛💛💛💛💛💛
”ہری ہری گھاس پر چلتے ہوئے دونوں کے درمیان پر تکلف خاموشی حائل تھی لائبہ اپنی انگلیوں کو مروڑتے ہوئے وہ اپنی بے چینی چھپا رہی تھی جبکہ وہاج اسکی بیچینی کو دیکھ کر ہلکا مسکرا کر نفی میں سر ہلا گیا۔
”آپ نے بتایا نہیں.؟ وہاج نے چلتے رک کر بات شروع کی۔
”کیا.؟ سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
”یہی کہ آپکو اس رشتے پر کوئی اعتراض تو نہیں.؟ لان میں لگیں پھولوں میں سے ایک کو ہاتھ چھوتے ہوئے لائبہ کی جانب دیکھا۔
آپ نے کب پوچھا.؟
”اوو سوری.! پہلے تو پوچھا ہی نہیں٬ چلے اب تو پوچھ رہا ہوں.؟۔ اب کی بار وہ پوری طرح اسکی طرف مڑ گیا نظریں لائبہ کے چہرے کا احاطہ کیے ہوئے تھی جو مظطرب سی اپنی انگلیاں مروڑتے یہاں وہاں دیکھ رہی تھی۔
”کچھ پوچھ رہا ہوں لائبہ.! آپ کو مجھے سے شادی کرنے پر کوئی اعتراض تو نہیں.؟۔نظریں اسکے چہرے پر گاڑھے قدم آگے بڑھائے تو وہ اسکی دل کی دھڑکن بے ترتیب ہوئی۔
”لائبہ جواب دو.؟ مزید پیشرفت کرتے وہاج نے اپنی بات پر زور دیا تو نچلے لب کو دانتوں سے کچلتے ہوئے اثبات سر ہلاتے اسکے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ ابھری اور بنا کچھ کہے اندر کی تیزی سے بھاگ گئی جس پر چند قدم چلتے ہوئے ایک دلکش سمائل نے وہاج کے چہرے پر پھیل گئی۔
💛💛💛💛💛💛💛💛💛💛💛
”ارحم آزر سے باتیں کرنے میں مصروف رہا تھا کہ اسکا موبائل گنگنایا جس پر وہ اکسکیوز کرتا ہوا چلا گیا جس کہ بعد وہاں صرف دو نفوس رہ گئے تھیں۔
طوبیٰ اٹھ کر وہاں سے جانا چاہتی تھی مگر وہیل چیئر دور ہونے کے باعث وہ یہ بھی نہیں کر پا رہی تھی اس پر مقابل کی نظریں اس کوفت میں مبتلا کر رہی تھی جسے سامنے بیٹھا شخص بھی بخوبی واقف تھا مگر وہ بھی انجانی کشش اسے اپنی اور کھینچ رہی تھی، جسے ناآشنا طوبیٰ کا دل ایک اجنبی کی نظروں سے گھبراہٹ کا شکار ہو رہی تھی۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial