ادھورے خواب

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 5

“اچھا میں بعد میں بات کرتا ہوں.! بات ختم کرتے کال ڈیسکنیٹ کر کے موبائل جیب میں رکھ کر واپس جانے کے لیے مڑا ہی تھا کہ کسی نے ہاتھ پکڑ کر اسے اندر کھینچا اس غیر متوقع عمل پر وہ بھی کنھچتا ہوا آتے جھنجھلا کر اپنا ہاتھ چھڑوا لیا مگر تب تک وہ اسے بیکایارڈ میں لے آئی تھی۔
یہ کیا طریقہ ہے اگر کوئی دیکھ لیتا تو.! وہ بری طرح زچ ہوا
”دیکھتا ہے تو دیکھ لے میں نہیں ڈرتی کسی سے۔ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر رو برو ہوئی۔
”آئزہ.!!
”کیا آئزہ.! ہاں کیا آئزہ.! آپ جانتے ہیں نہ مجھ سے آپ کا یوں نظر انداز کرنا برداشت نہیں، تو پھر کیوں کرتے ہیں آپ مجھے نظر انداز۔ اب کی اسکے لہجے میں نمی گھل گئی تھی جس کا مقابل پر کوئی اثر نہ ہوا۔
”پلیز یہ بچوں والی باتیں مت کیا کرو.! تم جانتی مجھے یہ سب چونچلے پسند نہیں۔ ایک روکھا پن چھلکا تھا جس پر آئزہ کے چہرے پر ایک زخمی مسکراہٹ ابھری۔
”آپ کے ساتھ نہ کروں تو پھر کس کے ساتھ کروں یہی بتا دیں.؟ ایک امید سے استفسار کیا۔
”اب ان سب باتوں کا کوئی فائدہ نہیں، میں نے تم سے پہلے ہی کہا تھا تم میری نہیں میری ماں کی پسند ہو.! اس لیے مجھ سے کوئی امید مت رکھنا۔ ارحم نے بنا کسی لحاظ کے اسکی ساری امیدوں پر پانی پھیرتے جانے کے لیے مڑا۔
”ارحم.!! آنکھوں میں نمکین پانی لیے آئزہ نے پکارا تو رک کر پلٹا۔
”میں باہر جا رہا ہوں.! تم میری چائے رہنے دو.!۔ چائے کے لیے منا کرتا جانے کے لیے قدم بڑھائے تھے کہ آئزہ نے بتایا۔
”آپ کو ابو جی.! بلا رہے ہیں۔ اپنے آنسوں صاف کرتے بتا کر وہ واپس اندر چلی گئی اور وہ بھی اسکے پیچھے اندر چلا گیا۔
💛💛💛💛💛💛💛💛💛💛
”ارحم کو گئے کافی دیر ہو گئی تھی سامنے بیٹھا شخص بھرپور ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے یک ٹکی باندھے اسے دیکھے جا رہا تھا جیسے یہ کوئی بہت ہی اہم کام ہو، جسکے بر عکس طوبیٰ نے آزر کی طرف دیکھنا تو در کنار اپنی نظریں بھی نہ اٹھائی ، لیکن آزر کی نظرو کی تپش خود پر اچھے سے محسوس کر رہی تھی۔
“اوہو.!! اللّٰہ جی.! کہا پھس گئی ہوں.! ارحم کو بھی ابھی کال آنی تھی اور یہ آئزہ چائے بنانے گئی ہے یا پائے جو بن کر نہیں دے رہے، ان سے بھی کوئی پوچھے کہ بھلا آج سے پہلے کوئی لڑکی نہیں دیکھی جو ایسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہے ہیں ۔خدا کو مدد کے لیے پکارتے اپنی ہتھیلیوں کو مسلتے زیرِ لب منمناتی ایک آس سے اس جانب دیکھا جہاں سے ارحم اٹھ کر گیا تھا کہ شاید کوئی آتا ہوا دکھائی دے جائے پر نظریں مایوس لوٹی تھی۔
”آزر خان جو کافی دیر سے یہ سب نوٹ کر رہا تھا اسے طوبیٰ کی بیچنی چھپی نہیں تھی۔
ازر کو تو بس موقع چاہئے تھا طوبیٰ کو دیکھنے کا بات کرنے کا جو اسے مل گیا تھا۔
کچھ دیر تک انتظار کرنے کے بعد جب کوئی آتا دکھائی نہ دیا تو اپنے اندرہمت جما کرتے نظریں اٹھا کر اپنے سامنے بیٹھے شخص کو دیکھا جو دنیا سے بے خبر محو دیدار میں مشغول تھا۔
آپ.!! مج.ھے..!! ایسے کیوں گھور رہے..! ہیں.! آپ کے گھر میں ماں بہن نہیں ہے کیا.! ہڑبڑاہٹ میں جو منہ میں آیا بنا سوچے سمجھے بول دیا جس پر دوسری جانب ایک تبسم پھیل گئی جیسے کسی بچے کی بات پر کوئی دانہ شخص ہنستا ہے۔
”نہیں ہیں.!
کوئی بھی تو نہیں نہ ماں.! نہ بہن.! کوئی نہیں اس بھری دنیا میں تنہا ہوں.! ہاں مگر ہمسفر کی تلاش تھی جو یہاں آنے کے بعد مکمل ہوگئی۔ اپنی جگہ اٹھ کر آہستہ سے قدم اسکی جانب بڑھاتے نظریں اسکے چہرے پر مرکوز کیے شروع میں ایک خالی پن تھا اسکے لہجے میں جو آخر میں ایک امید میں تبدیل ہوا،آزر کو اپنی طرف آتا دیکھ وہ سہم کر پیچھے ہوتے اپنا تھوک نگلا تھا اور اپنے ہونٹوں پر زبان پھری۔
آپ.!! ادھر کیوں آرہے ہیں گھبرا کر مدد طلب نظروں سے یہاں وہاں دیکھا۔ کیونکہ آج سے پہلے طوبیٰ کو نہ تو کسی نے اسطرح دیکھا نہ ایسی بات کی تھی۔ اُسکی بات کا بغیر کوئی جواب دیے اسکے پاس بیٹھا اور کھسک کر کون سے لگ گئی۔
”دیکھے.!!
”دیکھ ہی تو رہا ہوں تمھاری ویران آنکھوں میں اپنا عکس.!! پہلوں میں بیٹھے آزر نے بغور جائزہ لیتی نظروں سے دیکھا تو ڈر و خوف کے باعث طوبیٰ کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں دو موٹے موٹے موتی آنکھوں کی باڑ توڑتے ہوئے اس کی گالو پر پھسل گیے تھیں جسے آزر خان نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر اپنی ہتھیلی پر لے لیا۔
”یہ موتی بہت انمول ہیں انھیں یوں بے مول تو نہ کرو.! مٹھی بند کرتے ایسے بولا جیسے یہ سچ میں ہی کوئی انمول موتی ہو ۔
”جی…..؟؟ گھنیری پلکیں اٹھا کر دیکھتے ہوئے وہ سمجھی نہیں۔
”ہاں جی.! آزر خان نے اسکے الفاظ دہرائے طوبیٰ ابھی بھی آزر کو ہی دیکھ رہی تھی بڑی بڑی جھیل سی آنکھیں اور گھنی پلکیں آزر کا تو دل چاہا تھا ان میں ڈوب جانے کا۔
”اگر تم مجھے ایسے ہی دیکھتی رہی، تو دعوے سے کہتا ہوں تمھیں بھی مجھ سے محبت ہوجائے گی۔ طوبیٰ کی آنکھوں میں دیکھتے اسکا انداز معنی خیز ہواجس پر طوبیٰ نے فوراً سے اپنی آنکھیں پھیر لی۔
بنا اسکی کسی بات کا جواب دیے جلدی سے اٹھنے کی کوشش کی تھی اسے اٹھتے ہوئے دیکھ کر آزر نے ذرا فاصلے پر رکھی وہیل چیئر اسکے پاس لانے کے لیے اٹھا
”آپکو مجھ پر ترس کھانے کی ضرورت نہیں.!میں خود کرسکتی.!! وہیل چیئر کو دیکھ کر شدت سے اپنی بےبسی کا احساس ہوا خفت و سبکی سے کے باعث آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا اور آنکھوں سے آنسوؤں نے پھر سے اپنا کام شروع کیا تھا وہ وہی ڈھے گئی۔
طوبیٰ کی بات سن کر اور اسکی حالت دیکھ کر آزر تڑپ کر رہ گیا تبھی اسکی مدد کو آگے بڑھا جسے فوراً ہی ہاتھ کے اشارے سے وہی روکنے کا اشارہ کیا جس پر بےبسی سے محض اسے دیکھ کر رہ گیا۔
آپ کو اندر بولا رہے ہیں.! دونوں کے درمیان گہری خاموشی حائل تھی کہ نوری کی آواز ابھری جس پر دونوں کو اپنی جانب متوجہ کیا تو طوبیٰ نے دوسری طرف منہ کرکے اپنے آنسوں صاف کیے جبکہ آزر نے اثبات سر کو جنبش دیتے آنے کا اندیہ دیا۔
”نوری مجھے اندر جانا ذرا مجھے اندر چھوڑ دو.! آزر کی اور دیکھے بغیر نوری کو سرد سپاٹ لہجہ میں حکم دیا جس پر عمل کرتے ہوئے وہ طوبیٰ کو وہیل چیئر پر بیٹھنے مدد کرتی اسے اندر لے گئی اور وہ اس لڑکی کو بس دیکھتا رہ گیا۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial