ادھورے خواب

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 7

”چودھری ہاوس میں منگنی کی تیاریاں عروج پر تھی
سائرہ لائبہ و آئزہ کے تو شاپنگ مال کے چکر ہی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے تھے پھر بھی کوئی نہ کوئی چیز رہ جاتی تھی۔
”آپی آپ نے بتایا نہیں آپ منگنی میں کیا پہنے رہی ہیں.؟ لائبہ نے اپنی شاپنگ دیکھاتے ہوئے پوچھا۔
”میں کچھ بھی پہن لونگی میرا کیا ہے۔ سادہ جواب دیا
”کچھ بھی کیوں پہنے گی.؟ آپکی بہن کی منگنی آپکو تو سب سے الگ سب سے منفرد نظر آنا ہے کیا پتا اسی بہانے کوئی بھی مل جائے۔ چائے کی ٹرے ٹیبل پر رکھتے آئزہ نے شوخ انداز میں پیشنگوئی کرتے ایک آنکھ دباتےئلائبہ نے آئزہ کے ہاتھ پر ہاتھ ہاتھ مارا جبکہ طوبیٰ نے پثر مردگی سے مسکرانے پر اتفاق کیا۔
💛💛💛💛💛💛💛💛💛
”ایک جانب وہ دنیا سے بے زاری اختیار کرتے خود پر خوشیوں کے سارے راستے بند کر کے خود کو تنہا کرنے کی تگ و دو میں سرگرداں تھی تو دوسری جانب کوئی اسکی محبت میں گرفتار اسکے ساتھ زندگی بسر کرنے کے خواب بننے لگا تھا۔
” کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ آزر خان.! کو کسی سے محبت ہوسکتی ہے ، وہ بھی کسی کا طلبگار ہوگا، وہ طلب وہ محبت اس قدر شدید ہوگی کہ تم بن ایک لمحہ گزرانا بھی دشوار لگے گا، ایسا تو نہ تھا آزر خان.! یہ تم نے کیا طلسم کیا کہ آزر خان کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ وہ بالکونی میں کھڑا آسمان میں چاند کو دیکھتے خود کلامی کر رہا تھا۔
”کیا.! واقعی مجھے محبت ہو گئی ہے.؟ ازر خان کو محبت ریئلی.؟۔ آذر بے یقینی سے اپنے آپ سے سوال کیا جس پر ایک افسردہ مگر دلکش چہرہ اسکے سامنے لہرایا۔
”آزر خان اگر اس دل نے پہلی بار کسی کی خواہش کی ہے تو تمھارا فرض بنتا اسکی خواہش کو پورا کرو۔ وہ خود کلامی کرتے اپنے دل کی حمایت کرنے لگا
”یہ بھی تو ممکن وہ میری محبت قبول نہ کرے۔ دماغ نے خدشہ ظاہر کیا۔
”نہیں.! نہیں.! جس پر دل فوراً نفی کی۔
”وہ میری ہے اور میں اسے اپنا بنا کر رہو گا یہ وعدہ ہے میرا.! پری پیکر لڑکی کا چہرہ آنکھوں میں سمائے ایک یقین سے عزم کیا۔
💛💛💛💛💛💛💛💛
“چودھری ہاوس میں منگنی کی تیاریاں مکمل ہوگئی تھی ہر طرف گہما گہمی تھی۔
”پورا لان برقی قمقموں اور گلاب کے پھولوں سجائے گیا سٹیج کو بھی سرخ و سفید رنگ کے امتزاج سے خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔
”طوبیٰ لائبہ آئزہ نے ایک جیسی مختلف رنگوں میں گھیردار نفیس کام سے مزین کی مکسیاں زیب تن کی تھیں۔
”لائبہ مہرون آئزہ نے ہلکا گلابی اور طوبیٰ نے گھہرے گلابی رنگ پہنا جس میں تینوں آسمان میں سے اتری پریاں لگ رہی لائبہ و آئزہ کے پر زور اصرار پر میکسی تو پہن لی مگر کسی بھی طرح کا میک اپ سے صاف انکار کر دیا جبکہ لائبہ اور آئزہ لائٹ میک اپ کے ساتھ بالوں کو کرل کرکے کھلا چھوڑ رکھا اور بڑے ائیر رنگ کے ساتھ ٹیکا لگائے بہت ہی خوبصورت لگ رہی۔
”آپی آپ تو بنا کسی میک اپ کے بھی بہت پیاری لگ رہی ہیں۔ زبردستی بالوں میں فرنچ نوٹ بنا کر باقی بالوں میں کیچر لگا کر شیشے میں دیکھ تعریف کی جس پر طوبیٰ کے چہرے پر ایک مسکان سی آگئی گھہرے گلابی رنگ میں اسکا دودھیا رنگ اور بھی نکھر گیا کسی بھی قسم کے میک اپ جولری کے بغیر سادگی میں بہت حسیں لگ رہی تھی کمی تھی تو بس ایک اور وہ ان سب پر بھاری۔
”تم دونوں بھی کوئی کم نہیں لگ رہی بس اللّٰہ پاک تم دونوں کا نصیب اتنا ہی خوبصورت کرے کبھی کوئی دکھ نہ آئے تم دونوں کی زندگی میں۔ طوبیٰ نے تعریف کے ساتھ دعا بھی دی۔
”ہاں.! ہاں.! ساری تعریفیں ساری دعائیں بس ان چڑیلوں کی کرنا تم ہم تو بس یہاں کرسیاں لگانے آئیں ہیں۔ سفید چکن کے کڑتے کے ساتھ کتھائی رنگ کی شال اوڑھے بالوں کو جل سے سٹ کیے دروازے سے ٹیک لگائے دونوں بازو سینے پر باندھے کھڑے ارحم شکوہِ کن انداز میں طنز کیا۔
”یہ آپ نے چڑیلوں کس کو کہا.؟ اپنا دوپٹہ سر پر سٹ کرتے لائبہ تصحیح چاہی۔
”اوو.! سوری غلطی سے زبان سلپ ہو گئی، چڑیل کی جگہ چڑیلوں نکل گیا، کیوں صحیح کہہ رہا ہوں نا.؟ اسکا اشارہ آئزہ کی جانب تھا جس پر اسنے گھوری سے نوازا۔
”جی.! بالکل صحیح فرمایا مگر ایک بات بتانا بھول گئے کہ اگر میں چڑیل ہوں.! تو پھر آپ کون ہیں.؟۔ وہ بھی کہا پیچھے رہنے والوں میں سے تھی۔
”میں تو کیسی ریاست کا شہزادہ ہوں.!جسے اس چڑیل نے قید کر لیا۔ ارحم کا انداز بہت کچھ جتلا رہا تھا جو آئزہ بھی سمجھ گئی تھی۔
”بس کر دو.! یہ نوک جھوک اب تم دونو بڑے ہوگئے ہو جلد ہی شادی ہونے والی ہے تم دونوں کی۔طوبیٰ نے معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے فوراً مداخلت کی۔
”ہم کبھی بڑے نہیں ہوسکتے، یا پھر یہ سمجھو کہ ہم بڑے ہونا ہی نہیں چاہتے۔ دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے یک زبان بولے جبکہ دونوں کی ہی آنکھوں میں ایک کرب نمایاں تھا جس سے دونوں ہی انجان تھے جس بے خبر لائبہ نے سراہا
”واہ.! واہ..! کیا بات ہے کیا ٹائمنگ ہے.! تالی بجائی اسے قبل کے طوبیٰ کچھ کہتی سائرہ اور آریان کمرے میں داخل ہوئے جن کے ہمراہ قدسیہ بیگم بھی تھی، جو اپنے تائی پوری کوشش کر چکی تھی کہ آج کے فنکشن سے بھی طوبیٰ کو دور رکھا جائے مگر آریان و ارحم کی مداخلت پر انھیں اپنی بات سے پیچھے ہٹنا پڑا
تینوں کمرے آئیں تو بچوں کی نوک جھوک دیکھ کر دل سے دعا دی جبکہ قدسیہ بیگم نے طوبیٰ کو دیکھ کر منہ کے زاویے بدلے
”ما شاء اللّٰہ آج تو ہمارے گھر پریاں اتری آئی ہیں، بس اللّٰہ پاک میری بیٹیوں کو بری نظر سے بچائے۔ آریان اور سائرہ نے اپنی بیٹیوں کی تعریف کے ساتھ دعا بھی دی۔
“میں تو کسی کو نظر ہی نہیں آرہا۔ ایک بار پھر خود کو نظر انداز کیے جانے پر ارحم نے ناراضی دیکھائی۔
”تم تو شہزادے لگ رہے ہو برخوردار.! جسے لفظوں سے کہنے ضرورت نہیں۔ آریان صاحب محبت و مان سے کہا جس پر ایک دلکش سمائل آئزہ کے چہرے پر پھیل گئی حیا کی لالی چہرے پر بکھر گئی۔
”اور میں اس شہزادے کی شہزادی..؟ گرن آکڑا کر اُسکے کو دیکھتے زیرِ لب بڑاڑتے ہوئے اسے اپنی قسمت پر رشک ہوا تھا۔
💛💛💛💛💛💛💛💛
“طوبیٰ کی وہیل چیئر کو دھکیلتے ہوئے آئزہ لان کے داخلی راستے سے داخل ہوئی اسکی وہیل چیئر کو دھکیلتے ہوئے سٹیج کی جانب لے جانے لگی تو قدسیہ بیگم نے اسے کونے والی ٹیبل پر لے جانے کا کہا۔
”وہاں کہاں لے جا رہی ہو.! وہ سٹیج دلہن دولہا اور خاص مہمانوں کیلیے ہے اس اپاہج کی نمائش کیلئے نہیں۔ قدسیہ بیگم نے سفاکی کہتے ہوئے طوبیٰ کے دل کو چھلنی کر دیا جس پر ضبط کرتے وہ اپنے آنسوں پی گئی۔ جس پر آئزہ نے بحث کرنی چاہی پر طوبیٰ نے اسے روک دیا اور آئزہ سے کہہ کر وہ کونے والی ٹیبل پر آگئی۔
“آپی آپ ٹھیک ہیں.؟ آئزہ نے اسکے سامنے کرسی پر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
“ہممم.! وہ بس اتنا ہی کہہ پائی تھی۔
”آپی.! آپ مامی کی باتوں کو دل پر نہ لیا کریں انھیں تو عادت ہے۔ پانی کا گلاس آگے کیا۔
” ہمم میں ٹھیک ہوں.! آئزہ تم جاؤ دیکھو امی جی یا لائبہ کو تمھاری ضرورت ہوگی۔ پانی کے چند گھونٹ اپنے حلق میں اتارتے ہوئے وہ خود سنبھالنے کی کوشش کی تھی۔
”مہمان آگئیں ہیں.! سائرہ باجی بلا رہی ہیں.؟ کسی نے آکر بتایا۔
تم چلو میں آتی ہوں.! آئزہ فوراً سے اٹھی۔
آپی یہ ویٹر یہی ہے، کسی بھی چیز کی ضرورت ہوتو اسے کہہ دینے میں ابھی آتی ہوں.! طوبیٰ کو کسی بچی کی طرح ہدایت دیتے وہ ہڑبڑی میں چلی گئی جس کے جانے کے بعد مہمانوں کے ہجوم میں طوبیٰ کو اپنا آپ عجیب سا محسوس ہونے لگا لوگوں کی ترس کھاتی نظریں تلخ جملے اسے کسی خنجر کی طرح زخمی کرنے لگے تھے۔
💛💛💛💛💛💛
وہاج اور اسکی فیملی کا پرتپاک استقبال کیا گیا جس کے بعد
وہاج اور اسکی فیملی کو سٹیج پر بیٹھایا گیا جس میں آزر خان بھی شامل تھا جس کی بے تاب نظریں کسی کی متلاشی تھی جو وہاج سے چھپی نہ تھی۔
”تم کسی کو ڈھونڈ رہے ہو.؟ کسی خاص نے آنا ہے آزر..؟ میں دیکھ رہا ہوں، مجھے تم کچھ الجھے الجھے لگ رہے ہو. سب خیر ہے نا۔ اسکی بےتابی کو دیکھتے وہاج نے ایک ساتھ کئی سوال اُٹھائے۔
“کسی کو نہیں.! تم بیٹھو میں آتا ہوں.! اسے ٹالتے ہوئے وہ اٹھا
”آزر.! کچھ بتاؤ تو سہی.! سب خیر ہے نا۔ اسے تشویش ہوئی۔
”ہاں.! ہاں.! سب خیر ہے تم اپنی منگنی انجوائے کرو.! اور دعا کروں، مجھے بھی میری منزل مل جائے۔ معنیٰ خیز انداز میں کہتے وہ وہاج کو ساکت کھڑا چھوڑ کر سٹیج سے اترا اور سامنے ہی اسے اپنی منزل مل گئی جس دیکھتے ہی ایک سکون دل میں اتر گیا۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial