ادھورے خواب

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 9

”جس طرح تمھیں اپنی چیزیں کسی کے ساتھ شیئر کرنا نہیں پسند، بالکل اسطرح میں بھی اپنوں کو لیکر بہت پوزیسسو ہوں طوبیٰ.! خاص کر وہ جن کو اس دل میں ایک خاص مقام حاصل ہے کیونکہ میری زندگی میں صرف اپنوں کی کمی ہے, اس لیے جو میرا ہے وہ صرف میرا ہے اور کوئی اسے تکلیف پہنچائے یہ مجھے ہرگز پسند نہیں۔ آگے بڑھتے ہوئے اسنے اپنی شال اتاری جس پر طوبیٰ نے ناسمجھی و پریشانی سے اسے دیکھا۔
اور وہ خاص مقام میرے دل نے صرف تمھیں دیا جس کا ماننا ہے کہ تم صرف میری ہو.! صرف میری.! اپنی شال طوبیٰ کندھوں کے گرد اڑا کر سیٹ کرتے ہوئے آزر کی پر ہدت نگاہیں طوبیٰ کے چہرے کا احاطہ کئے ہوئے تھی جو انجانے خوف سے اپنی منتشر ہوتی دھڑکن کو اعتدال میں لانے کی تگ و دو میں اپنی جھکی پلکیں اٹھائی تو نظریں گہری کالی آنکھیں سرمئی آنکھوں سے ملی جن میں جذبات کا سمندر اسے پانے تڑپ، ناجانے کیا کچھ نہ تھا ایک طرف آزر کی آنکھوں میں اتنی محبت تھی
وہی دوسری جانب طوبیٰ کی آنکھیں کسی بھی طرح کے جزبات سے عاری جہاں صرف ویرانیاں محرومیاں اور مایوسیوں کے ڈیرے تھے۔
آزر کی کہی بات اسکے دل میں کسی خنجر کی مانند پیوست ہوئی اور یہ درد اس تکلیف کے سامنے بے معنی تھی جو اس وقت وہ محسوس کر رہی جب کرب حد سے بڑھ گیا تو آنسوں ٹوٹ کر گال پر پھسلے جسے اسنے نے بے داردی سے ہاتھ کی پشت سے رگڑ کر صاف کیا طوبیٰ کو اپنا سانس روکتا ہوا محسوس ہو رہا تھا گلے میں گولا سا بن گیا جس پر آنکھیں موند گئی۔
”مجھ پر ترس کھانے کی ضرورت نہیں آپکو.!! ذرا دور رہ کر بات کریں میں اپاہج ضرور ہوں مگر۔۔۔۔۔۔!“اسکے ہاتھ جھٹکتے وہ بےبسی کی انتہا پر پہنچ گئی آزر تو بس طوبیٰ کی بات سن کر دنگ رہ گیا جو اسکی محبت کو کوئی اور نام دے گئی تھی۔
تم غلط سمجھ رہی ہو میرا وہ مطلب۔۔۔۔؟
”میں کچھ غلط نہیں سمجھ رہی نہ ہی آپکو کچھ سمجھانے کی ضرورت ہے آپ کو نظر نہیں آرہا میں اپاہج ہو یا پھر آپ بھی اوروں کی طرح میرا مذاق اوڑھا رہے ہیں۔ اسکی بات مکمل ہونے سے قبل بھرائی آواز حلق میں اٹکنے لگی تھی۔
”طوبیٰ.! تم مجھے غلط سمجھ رہی ہو.! اسکے آنسوں دیکھ آزر تڑپ گیا۔
”نہیں سمجھنا مجھے.! آپ اپنا ٹائم ضائع کر رہے ہیں میرے پاس کچھ نہیں ہے کسی کو دینے کیلئے جو خود اندر سے مر گیا ہو وہ کسی کو کیا دے سکتا ہے۔ کرب سے آنکھیں بند کیے
طوبیٰ کی ضبط کی ساری طنابیں ٹوٹ گئی تبھی وہ بولتی چلی گئی۔
میں کہہ رہی ہو چلے جائیں یہاں سے، چھوڑ دیں مجھے میرے حال پر آئندہ آپ مجھے میرے آس پاس نظر نہ آئیں.! آخر میں انگلی اٹھائی۔
”بس۔۔۔۔!!” بہت بول چکی تم اور بہت سن لیا میں نے اب میں کہوں گا اور تم سنو گی.!
تمہاری ساری باتیں مان سکتا لیکن یہ جو خود سے دور جانے کا کہہ رہی ہو نا یہ یہ بات دربارہ نہ سنوں سمجھی.! تم میری ہو میری رہو گی.! اور میں تمہیں اپنا بنا کر رہو گا، چاہے تم چاہو یا نہ چاہو.! دونوں کندھوں سے پکڑ اسکی آنکھوں میں آنکھیں گاڑھے گھمبیر لہجے باور کرواتے وہ پل بھر کو رکا۔
ایک اور بات اپنے اس چھوٹے سے دماغ میں اچھی طرح بیٹھا لو.! ازر خان بلا وجہ کسی پر ترس کھانے والو میں سے نہیں.!اسلیے اپنے ذہن سے یہ بات نکال دو کے میں تم پر کس قسم کا رحم کھا کر تمھیں اپنی من مانی کرنے دونگا یا پھر کوئی رعایت دونگا، یہ تمھاری بھول ہے تم میری ہو اور یہ بات میں بہت جلد ثابت کر کے دیکھاؤ گا۔ آزر ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا تھا۔جس پر وہ کچھ پل کے ساکت ہوگئی
“اور یہ میں نے اپنا نمبر تمھارے موبائل میں سیو کر دیا کال کرو گا اور خبردار جو تم نے میرا نمبر بلاک کرنے کا سوچا بھی۔ اسکے فون میں اپنا نمبر سیو کرتے ہوئے وارن کیا مزید کچھ بھی کہے بغیر دیکھتے ہی دیکھتے اسکی آنکھوں کے سامنے سے اوجھل ہو گیا جس پر محض اس دیکھ کر رہ گئی تھی۔
کوئی تھا جو یہ سب دیکھ رہا تھا۔
💛💛💛💛💛💛💛💛
”منگنی کو آج ایک ہفتہ ہو گیا سب شادی کی تیاریوں میں مصروف تھیں۔
معمول کے مطابق شادی کی تیاریوں میں ہاتھ بٹانے کے بہانے آج بھی قدسیہ بیگم ارحم کے ساتھ آئی تھی جس کے باعث طوبیٰ اپنے کمرے میں بند تھی۔
”کمرے میں بند وہ اب تک کی آزر کی باتوں کے سحر سے نکل نہ سکی البتہ اس نے یہ بات کسی شیئر نہ کی، کرتی بھی تو کیا وہ تو اسے اپنی طرف سے صاف انکار کر چکی تھی لیکن آزر نے کافی مرتبہ کالز کی لیکن طوبیٰ نے ایک کال ریسیو نہیں کی تھی مگر اسے بار اسنے نمبر بھی بلاک نہیں کیا۔
”نوری کے زریعے اسے وہاج و فیملی کی آمد کی خبر ملی جس پر کوئی خاص ردعمل ظاہر نہیں کیونکہ شادی کی تیاریوں میں آنا جانا تو لگا ہی رہتا اسلیے وہ اس بات کو بھی عام ہی سمجھی۔
”اج بھی صبح سے آزر کئی کالز اور میسجز کر چکا تھا جنھیں وہ نظر انداز کیے سٹڈی ٹیبل کے پاس بیٹھی اپنی ڈائری لکھنے میں مشغول تھی۔
ایک وقت کے بعد آپ کے اندر سے آپ کے سب شوق سب حسرتیں اور سب چاہتیں مر جاتی ہیں اور تب آپ کو یہ حسرت ستاتی ہے کہ آپ کو بھی کسی کی حسرت ہو 😘
میں نہیں جانتی میں اپنی گزری زندگی میں کیسی تھی
لیکن مجھے کبھی میری چاہتوں نے تکلیف نہیں پہنچائی
لیکن اب نیوٹرل ہو کر جینا ایسے لگتا ہے جیسے انویزبل ہوں
سب کو تو دکھائی دے رہی ہوتی ہوں مگر اپنے آپ کو دیکھنے کی نظر کھو بیٹھی ہوں
مجھے میری بینائی کا دکھ ہے اور یہ دکھ ان سب حسرتوں سے کئی زیادہ ہے
جو میں نے کبھی پالی تھیں یا سچ کہوں تو مجھے یاد بھی نہیں ہے…
پورے انمہک سے لکھنے میں مگن تھی کہ دھڑام دروازا کھلنے کی آواز سے چونک کر اس جانب متوجہ ہوئی
“مامی آپ یہاں.! اسکا چلتا ہوا ہاتھ ساکت ہوا۔
”اب یہ نہ کہنا کہ کوئی کام تھا تو مجھ سے کہہ دیتی میں آجاتی.! مضحکہ خیز انداز میں تیزی تھی جس کے باعث دل برداشتہ ہوئی۔
“میں نے سوچا تجھے تو باہر آنے کی توفیق ہوگی نہیں تو کیوں نہ میں خود ہی آکر تجھ سے بات کر لوں.؟ ویسے بھی سب کے سامنے تو مجھے ہی ظالم ثابت کرنا ہے تو کیوں نہ تجھ سے یہی بات کر لیجائے۔ مزید اسی انداز میں کہتے ہوئے وہ اسکے قریب آئی وہ تو محض مامی کے لبوں لہجے پر ششدر رہ گئی تھی۔
”کیونکہ باہر تو نے حمایتی بیٹھا رکھیں ہیں، جن میں سرے فہرست تو میرا ہی بیٹا جسے تو نے ناجانے کیا گھول کر پلایا ہے کہ اسے تیرے سامنے کوئی اور دیکھائی ہی نہیں دیتا، صرف و صرف تیری وجہ سے میرے بیٹے نے مجھے گھر چھوڑنے کی دھمکی دی تاکہ تو منگنی میں آسکے صرف اور صرف تیری وجہ سے، مر کیوں نہیں جاتی تو.! نحوت سے کہتے ہوئے منہ دبوچ لیا آنکھوں نفرت شراراے پھوٹ رہے جو اسے جلا کر بھسم کرنے کا ارادہ رکھتے تھے جن تاب لانا طوبیٰ کے بس میں نہ تھا تبھی تواتر سے خاموش آنسوں اسکے گال بھیگونا شروع کئے
”صرف تیری وجہ سے آج میرا بیٹا میرے سامنے کھڑا ہوا،
کہتا ہے کہ اگر تو اپاہج منگنی میں نہیں آئیگی تو وہ گھر چھوڑ دیگا او منحوس اپاہج تجھے شرم نہیں آتی وہ تیری بہن کا شوہر ہے، کیوں اپنی بہن کا گھر خراب کرنے پر تلی ناہنجار کہی کی۔زہر خوند لہجے کوسنے دیتے زور سے اسکا منہ جھٹکا تو اسکے بہتے آنسوں میں روانی آئی اور اسنے کچھ کہنے کی گستاخی کی۔
”مامی آپ جانتی ہیں ایسا کچھ نہیں ہے میں نے ہمیشہ ارحم کو اپنا بھائی سمجھا ہے۔ اسنے بہتی آنکھوں سے اپنی صفائی پیش کرنی چاہی جس پر کراہیت سے سر جھٹک گئی۔
“ہاں.! ہاں.! جیسے میں جانتی نہیں تجھے اب میرا منہ نہ کھلوا.! میں تو بس یہ کہنے آئی ہوں کہ تو خود ارحم اور گھر والوں کو بول کہ تو اس شادی میں شامل نہیں ہو گی، ورنہ تو جانتی ہے مجھے میں کیا کر سکتی ہوں.!۔ کاٹ دار لہجے سے کہتے انکے انداز میں دھمکی تھی ان کا تو بس نہیں چل رہا تھا کہ اسکا گلا دبا کر جان نکال لیں جس پر کسی خدشے کے تحت اسکا دل ڈوب کر ابھرا۔
”لیکن میں.؟ اسنے نے کچھ کہنے چاہا جس پر غصے میں قدسیہ بیگم نے آگے بڑھ کر ایک بار پھر منہ دبوچ لیا۔
”مامی.! میں.! اپنی بہنوں کی شادی میں شامل کیوں نہیں ہو سکتی آخر ۔۔۔۔؟؟ سسکتے ہوئے سوال اٹھا گئی۔
”تیری یہ منحوس شکل مجھے پسند نہیں.! جب جب تو میرے سامنے آتی ہے میرا دل کرتا ہے تیرا منہ نوچ لوں تیرے منہ سے معصومیت کا نقاب اتار پھینکوں مگر میں اپنے ہاتھوں کو گندا نہیں کرنا چاہتی.!! اس لیے جو میں کہہ رہی ہوں شرافت سے کر لے نہیں تو اچھی طرح جانتی ہے میں جو کہتی ہوں وہ کر کہ دیکھاتی ہوں.! ایک ایک لفظ سے طوبیٰ کے لیے نفرت تھی۔
مامی پلیز اتنا ظلم نا کریں.؟ طوبیٰ نے التجا کی
”چل تو بھی کیا یاد کرے گی کے کیا بڑے دل کی مالک ہے تیری مامی.! دی تجھے اجازت ایک تقریب میں شامل ہوجا لیکن صرف ایک تقریب.!۔قدسیہ بیگم نے کچھ سوچتے ہوئے احسان کرنے کے ساتھ تنبیہ کی تو اثبات سر ہلاتے اپنے آنسوں صاف کیے۔ قدسیہ بیگم اپنی بات کہہ کر جس طرح آئی تھی اسی طرح تم فن کرتی چلی گئی۔
جن کے جاتی ہی اسے اپنی بےبسی و لاچاری پر جی بھر کر رونا آیا جس پر گھہرے گھہرے سانس لیتے اسکا دل کرب سے پھٹنے لگا جس کی شدت برداشت کرنا اسکے لیے آسان نہیں تھا جس کے باعث بے ساختہ اسکی چیخیں نکلنے لگی جنھیں دبانے کے لیے وہ اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر اپنی چیخوں کا گل گھونٹ گئی۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial