اے راز دل

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط 5 (پارٹ 2)

وہ یونیورسٹی سے باہر نکلا تھا۔۔ جب اسے وہ سامنے اپنی گاڑی کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑی نظر آئی تھی۔۔ اسے دیکھتے ہی اس نے اسے اشارہ کیا تھا۔۔ ایک مسکراہٹ نے اسکے لبوں کو چھوا تھا۔۔ کتنے دنوں بعد۔۔ جانے کتنے دنوں بعد وہ اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔ آنکھوں کو عجیب سا سکون ملا تھا۔۔ وہ اس کے قریب پہنچا تھا مگر کچھ بھی کہنے کی کوشش نہیں کی تھی۔۔ دل بس چاہ رہا تھا کہ وہ اسے خاموشی سے دیکھتا رہے۔۔ اور وہ اسکے سامنے کھڑی رہے۔۔ الہام نے اسے گم سم دیکھ کر اس کے چہرے کے سامنے ہاتھ چٹکی بجائی تھی۔۔ وہ چونکا تھا۔۔
’’ کہاں گم ہیں آپ ؟ کچھ پوچھ رہی ہوں میں ’’ وہ مسکرا کر کہہ رہی تھی۔۔ آج اسکی مسکراہٹ کتنی حسین تھی۔۔ بے اختیار دل نے اس مسکراہٹ کے ہمیشہ قائم رہنے کی دعا کی تھی۔۔
’’ کیا پوچھا ہے ؟ ’’ اس نے تو سنا ہی نہیں تھا کچھ۔۔دیکھنے سے فرصت ہی کہاں ملی کہ کچھ سنتا۔۔
’’ چلیں۔۔ کہیں بیٹھ کر بات کرتے ہیں ’’ الہام نے اس کے لئے فرنٹ ڈور کھولا تھا۔۔ وہ بنا کچھ کہے اندر بیٹھ گیا تھا۔۔ اس نے بھی ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی تھی۔۔ تھوڑی دیر بعد وہ ایک رسٹورینٹ میں موجود تھے۔۔
’’ اب بتائیں۔۔ کہاں گم ہیں آپ ؟ میری کسی بات کا جواب ہی نہیں دیا ؟ ’’ الہام نے پوچھا تھا۔۔ انکے سامنے رکھی کافی کے کپ سے دھوا نکل رہا تھا۔۔ جس سے معلوم ہورہا تھا کہ کافی ابھی گرم ہے۔۔
’’ بس آپکو اتنے دن بعد دیکھ کر گم سم سا ہوگیا ’’ اس نے سچ کہنا ہی ٹھیک سمجھا تھا۔۔ وہ اس لڑکی سے کبھی جھوٹ نہیں کہہ سکتا تھا۔۔ وہ کہنا بھی نہیں چاہتا تھا ۔۔
’’ اچھا نہیں لگا مجھے دیکھ کر ؟ ’’ اس نے مسکرا کر کہا تھا۔۔ جواب تو وہ جانتی تھی۔۔ اسکی آنکھیں بتا رہی تھیں کہ اسے کتنا اچھا لگا تھا۔۔
’’ آپ جانتی ہیں پھر پوچھ کیوں رہی ہیں ؟ ’’ وہ بھی اسے جانتا تھا۔۔
’’ میں پوچھ رہی ہوں تو آپ بتا دیں۔۔ میرے جاننے یا نا جاننے سے کیاہوتا ہے ؟ ’’ اس نے کہا تھا۔۔
’’ بہت کچھ ہوتا ہے۔۔ پتہ ہے مجھے کونسی بات اچھی نہیں لگتی انسان کی ؟ ’’ اس نے کافی سے نکلتے دھوئے پر نگاہیں مرکوز کرتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ کونسی ؟ ’’ سوالیاں انداز تھا۔۔
’’ انسان جانتا ہے کہ اسکے دل میں کیا ہے۔۔ اسکا دل اسے سب بتاتا ہے۔۔۔ بار بار احساس دلاتا ہے کہ وہ اصل میں کیا چاہتا ہے؟ مگر پھر بھی انسان اس احساس سے آنکھیں چراتا ہے۔۔ اسے اگنور کرتا ہے۔۔ اس سے بچنا چاہتا ہے۔۔ مجھے انسان کی یہ عادت بلکل اچھی نہیں لگتی ’’ وہ کہہ رہا تھا اور الہام اسے سن کر مسکرائی تھی۔۔
’’ مگر کبھی کبھی یہ نظریں چرانا۔۔ دل کو چپ کروانا۔۔ اسے اگنور کرنا ۔۔ اور اس سے بچنے کی کوششیں کرنے کے علادہ انسان کے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہوتا۔۔ کبھی کبھی یہ مجبوری ہوتی ہے ’’ اس نے کہا تھا اور عرش کی نگاہیں اب اسکی طرف اٹھی تھیں۔۔
’’ مجبوری تو ایک انسان کے دوسرے انسان سے دور ہونے۔۔۔ اسے اگنور کرنے۔۔ اور اس سے بھاگنے کو کہتے ہیں۔۔دل سے دور ہونا ۔۔ دل کو اگنور کرنا۔۔ اور دل سے نظر چرانے کی کوئی مجبوری بھی کوئی مجبوری ہوتی ہے کیا ؟ ’’ وہ ٹھہرا تھا۔۔
’’ ایک دل ہی تو ہوتا ہے۔۔ جس کے سامنے انسان کو ڈٹ کر کھڑا ہونا چایئے۔۔ اور اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہنا چاہئے۔۔ ’’ ہاں جو تو چاہتا ہے وہی میں چاہتا ہوں اور جو میں چاہتا ہوں ۔۔ تو مجھ سے وہی کروا اب ’’ وہ ایسے کہہ رہا تھا۔۔ جیسے اسکا دل کہہ رہا ہو اور وہ واقعی اپنے دل سے مخاطب ہو۔۔ الہام نے بس اسے دیکھا تھا اور اسکی بات پر اس نے سر ہلایا تھا۔۔
’’ کبھی کبھی بہت گہری باتیں کرتے ہیں آپ ’’ اس نے کہا تھا۔۔ وہ مسکرایا تھا۔۔
’’ آپ کے سامنے ہی کرتا ہوں بس ’’ اس نے اقرار کیا تھا۔۔ وہ واقعی صرف اسی کے سامنے اس طرح کھل کر بات کرتا تھا۔۔
’’ وہ کیوں ؟ ’’ سوال پوچھا تھا۔۔
’’ کیونکہ دل سے ، دل کی ہر بات کر دینی چاہئے۔۔ اور آپ تو میرے دل کا راز ہیں تو یعنی ۔۔ آپ میرا دل ہیں ’’ اس نے ایک بھرپور نگاہ اس پر ڈال کر کہا تھا۔۔ اور الہام نے نظریں جھکائیں تھیں۔۔ کچھ تھا۔۔ کچھ تھا کہ وہ اسکی آنکھوں میں زیادہ دیر دیکھ نہیں سکی تھی۔۔ جانے ایسا کیا تھا ؟؟ جس نے نظر چرانے پر مجبور کردیا تھا ۔۔۔
’’ یہ لیجئے’’ الہام نے اپنے پرس نے ایک کارڈ نکال کر اسکے سامنے کیا تھا۔۔
’’ بہت مبارک ہو آپکو ’’ اس نے کارڈ لیتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ آکر دیجئےگا مبارک باد ’’ اس نے کافی کا ایک گھونٹ بھرتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ ضرور ’’ اس نے کہا تھا اور اب وہ دونوں ان دنوں یونیورسٹی میں ہونے والے اسائینمنٹز کے بارے میں ڈسکس کر رہے تھے ۔۔
آج اسکی مہندی تھی۔۔ مگر وہ خوش نہیں تھی۔۔ دل میں جب بدگمانی آجائے۔۔ تو انسان کو خوشیاں محسوس نہیں ہوتیں۔۔ اور پھر شک تو ہر رشتے اور اس سے جڑی ہر خوشی کو نوچ کر کھا جاتا ہے۔۔ اسکا شک بھی ایسا ہی کچھ کر رہا تھا۔ْ۔
دل میں کوئی خوشی نہیں تھی۔۔ مگر ابھی وہ کچھ کر نہیں سکتی تھی۔۔ وہ کسی سے کچھ کہہ نہیں سکتی تھی۔۔ اس کا شک ابھی تک یقین کی دہلیز تک نہیں پہنچا تھا۔۔
اور شک اگر یقین کی دہلیز تک نہ پہنچے تو اس کی واپسی ممکن ہوتی ہے۔۔ اسکا مداوا ممکن ہوتا ہے۔۔
الہام اسکی دوست تھی۔۔ اسے دکھ تھا کہ اس نے یہ سب اس سے چپایا تھا۔۔ وہ اگر اسے بتا دیتی تو وہ ہر گز اسے غلط نہیں سمجھتی۔۔۔ مگر اس نے تو اسے احساس بھی ہونے نہیں دیا تھا۔۔ وہ آج بھی منتظر تھی کہ الہام اسے سچ بتائے۔۔ مگر وہ تو اپنی خوشی میں اتنی گم تھی کہ اسے تو اس سے بات تک کرنے کی فرصت نہیں تھی۔۔ احتشام کے گھر کی ساری ذمہ داری اس نے اٹھا رکھی تھی۔۔۔ اور وہ تو جیسے بھول ہی گئ تھی کہ اسکی دوست کو بھی اسکی ضرورت ہوسکتی ہے۔۔ اریج کا دل بدگمان ہورہا تھا۔۔ اور اسے اب اس سے نجات حاصل کرنی تھی۔۔ اسے اپنے بھائی کی کمی بھی شدت سے محسوس ہورہی تھی۔۔ وہ اپنے ذاکر بھائی سے ہر بات شیئر کر لیا کرتی تھی۔۔ مگر اب وہ انہیں پریشان نہیں کر سکتی تھی۔۔ بھابھی کی ڈیلیوری کی وجہ سے وہ اسکی شادی میں نہیں آسکے تھے۔۔ وہ اپنی پریشانی انہیں بتا کر مزید پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔ مگر وہ کیا کرے ؟ اسے خود بھی کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔۔ دل تو بس یہی کہہ رہا تھا کہ کچھ غلط ہورہا ہے۔۔ کچھ ایسا جو نہیں ہونا چاہئے۔۔ مگر وہ کیا تھا ؟؟ یہ اریج نہیں سمجھ پارہی تھی۔۔ شاید ایک ہی انسان ہے۔۔ جو اسے یہ سمجھا سکتا تھا۔۔ مگر ابھی تو اسے اس انسان سے بھی بات کرنے کا موقع نہیں مل رہا تھا۔۔ مہندی کی تیاریاں مکمل تھیں اور وہ لوگ تھوڑی دیر میں یہی تو آ نے والے تھے۔۔ اس نے اٹھ کر خود کو شیشے میں دیکھا تھا۔۔
پیلے اور ہرے جوڑے میں پھولوں کا زیور اور ہلکے سے میک اپ میں وہ خوبصورت لگ رہی تھی۔۔ مگر اس کے چہرے پر پھیلے پریشانی کے تعصورات۔۔ اسکی خوبصورتی کو جیسے ماند کر رہے تھے۔۔ اس نے آئینے پر سے نگاہ ہٹائی تھی کہ کمرے کا دروازک کھول کر ماما اور پاپا اندر آئے تھے۔۔
’’ ماشائ اللہ بہت پیاری لگ رہی ہے میری بیٹی ’’ پاپا نے اسکے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا تھا وہ مسکرائی تھی ایک پھیکی مسکراہٹ
’’ کل تم چلی جاؤگی یہاں سے تو ہم تو اکیلے ہی ہوجائینگے ’’ ماما نے اسکا ماتھا چومتے ہوئے کہا تھا
’’ ایسی باتیں مت کریں ماما ’’ اسکی آنکھوں میں آنسو آئے تھے۔۔
’’ ارے تم بھی نا۔۔ میری بیٹی کو رلا دیا تم نے ’’ پاپا نے اسے اپنے ساتھ لگا کر کہا تھا۔۔
’’ اچھا یہ لو ہم دونوں کی طرف سے۔۔ تمہارا شادی کا تحفہ ‘’ پاپا نے ایک لفافہ اسکی طرف بڑھایا تھا۔۔
’’ یہ کیا ہے ؟ ’’ اس نے ماما کی طرف دیکھ کر کہا تھا۔۔
’’ خود دیکھ لو’’ ماما نے مسکرا کر کہا تھا۔۔ اس نے لفافہ کھولا اس میں دس لاکھ کا چیک اور پاسپورٹ تھا۔۔ جس میں ایک ملک کا ویزا لگا ہوا تھا۔۔ اس نے حیران ہو کر ماما اور پاپا کو دیکھا تھا۔۔
’’ یہ کس لئے ہے ؟ مجھے یہ رقم نہیں چایئے پاپا ’’ اسے اچھا نہیں لگا تھا۔۔
’’ تمہیں نہیں چاہئے مگر ہماری خواہش ہے۔۔ اتنی جلدی شادی ہونے کی وجہ سے ہم جو کچھ کرنا چاہتے تھے تمہارے لئے۔۔ وہ نہیں کر سکے مگر یہ تم رکھ لو۔۔ اب تم جیسے چاہو اسے استعمال کرو ’’ ماما نے اسکا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ مگر مجھے کچھ نہیں چاہئے۔۔ آپ دونوں کی دعائیں ہی بہت ہیں میرے لئے ’’
’’ مگر ہمارے لئے دعاؤں کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے۔۔ پھر کیا پتہ تمہیں اسکی ضرورت پڑھ جائے ’’ ماما نے کہا تھا۔۔
’’ ہاں اور اب اس بارے میں کوئی بات نہیں ہوگی۔۔ لڑکیوں اندر آجاؤ ’’ پاپا نے کہا تھا اور دروازہ کھول کر اسکی کزنز اندر آئیں تھی۔۔
’’ اسے لے آؤ نیچے۔۔ وہ لوگ آچکے ہیں ’’ ماما نے کہا تھا اور وہ دونوں اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر چلے گئے تھے ۔۔ اس نے وہ لفافہ اپنے تکیے کے نیچے رکھا تھا اور اب وہ ان لڑکیوں کے ہمراہ نیچے جارہی تھی۔۔ جہاں سٹیج پر بیٹھا احتشام اور اسکے ساتھ بیٹھی الہام اسکی آمد کے منتظر تھے ۔۔۔
رسم شروع ہو چکی تھی۔۔ اور بڑوں کے بعد اب الہام وہ پہلی لڑکی تھی جو کہ رسم کر رہی تھی۔۔ ان دونوں کے سامنے رکھی میز۔۔ جس میں مٹھائی کی پلیٹ اور ایک مہندی کی پلیٹ موجود تھی۔۔ الہام اس میز کے پاس پیر کے بل بیٹھی تھی۔۔
’’ اچھا جی تو پھر آپکو مہندی لگانی ہے ’’ اس نے احتشام سے کہا تھا۔۔انداز شرارتی تھا۔۔
’’ بلکل نہیں۔۔ مجھے نہیں۔۔ میرے ہاتھ میں رکھے اس پتے پر لگانی ہے ’’ احتشام نے ہاتھ اوپر کر کے کہا تھا۔۔ ساتھ بیٹھی اریج خاموشی سے انکی باتیں سن رہی تھی اور پاس کھڑی اربش مسکرا رہی تھی۔۔ باقی سب بھی اب انہیں کی طرف متوجہ تھے۔۔
’’ ارے ہاتھ ہو یا چہرہ ایک ہی بات ہے ’’ الہام نے کہتے ساتھ مہندی سے بھرا ہاتھ اس کے گالوں میں لگایا تھا اور احتشام اس کے لئے تیار نہیں تھا۔۔ وہ فوراً سے پیچھے ہوا۔۔ مگر دیر ہوچکی تھی۔۔ اسکے گالوں پر مہندی لگ گئی تھی۔۔ مگر اس نے بھی کہاں آرام سے اسے چھوڑ دینا تھا ؟؟ اگلے ہی پل اسنے مہندی کی پلیٹ میں ہاتھ ڈالا تھا۔۔ الہام اسکا اگلا اقدام سمجھ گئ تھی۔۔ اس نے فوراً اٹھ کر وہاں سے بھاگنا چاہا تھا مگر اس کے بھاگنے سے پہلےہی احتشام نے اسکا بازوں پکڑ کر اسے روکا تھا۔۔۔ اور اپنا دوسرا ہاتھ اسکے چہرے پر ملا تھا اور جب ہاتھ ہٹایا ۔۔ تو الہام کا پورا چہرہ مہندی سے بھر چکا تھا۔۔آ س پاس سب ان دونوں کی حرکت پر ہنس رہے تھے۔۔ اور اربش کی نظر اریج کی طرف گئ تھی۔۔ جوکہ احتشام کے اس ہاتھ کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ جس کے حصار میں اب تک الہام کا بازوں تھا۔۔ ایک مسکراہٹ نے اربش کے ہونٹوں کو چھوا تھا۔۔ وہ اریج کے ساتھ جاکر بیٹھی تھی۔۔۔ جبکہ الہام اور احتشام چہرے پر مہندی کا رنگ آنے سے پہلے اسے دھونے کے لئے اندر کی جانب بھاگے تھے ۔۔ اور جاتے جاتے بھی ناجانے کونسی باتیں تھیں۔۔ جن پر وہ دونوں بے پناہ ہنس رہے تھے۔۔ اربش نے خاموشی سے اریج کو دیکھا تھا۔۔
اور پھر اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ پر رکھا تھا۔۔۔ اریج جیسے ہوش میں آئی تھی۔۔ اس نے اربش کی طرف دیکھا تھا۔۔ وہ معنی خیز انداز میں مسکرائی تھی۔۔۔ اور پھر اٹھ کر مہمانوں کی طرف چلی گئ تھی۔۔ اب مہمان احتشام کے بغیر ہی رسم ادا کر رہے تھے۔۔ اور اریج نے اپنے ہاتھ میں اس چیز کو بہت مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا۔۔۔ جو تھوڑی دیر پہلے اربش اس کے ہاتھ میں رکھ گئ تھی۔۔۔اسکا دل دھڑک رہا تھا۔۔۔ ناجانے۔۔ اس چھوٹی سی چیز میں کونسا طوفان چھپا تھا۔۔۔
مہمانوں نے تو آج رات یہی رہنا تھا۔۔ کل اسکی بارات تھی۔۔ اور لڑکیاں اسے کسی صورت اکیلا چھوڑنے کو تیار نہیں تھیں۔۔ مگر اسے وقت چاہئے تھا۔۔ اس لئے اس نے ماما سے ریکوسٹ کر کے کسی کو بھی اس کے پاس رکنے سے روک دیا تھا۔۔۔ اس وقت رات کے ۳ بج رہے تھے۔۔ باہر ایسا لگ رہا تھا کہ کسی کا سونے کا ارادہ نہیں تھا۔۔ اسکی کزنز نے تو پوری رات جاگنا تھا اور اسے ؟؟
اسے بھی پوری رات جاگنا تھا۔۔ فرق بس یہ تھا کہ وہ خوشی میں جاگ رہی تھیں ۔۔ اور اریج خوشی کے ختم ہونے کے خوف میں ۔۔۔ وہ بے چین تھی۔۔ شام کے منظر اب بھی اسکی نگاہوں میں گھوم رہے تھے۔۔ آج سے پہلے اسے ایسا محسوس نہیں ہوا تھا۔۔۔جیسے جان ہتھیلی میں بند ہو ۔۔ ہتھیلی کھلے گی تو جان نکل جائے گی۔۔مگر آج اسے محسوس ہورہا تھا ۔۔
آج سے پہلے وہ جانتی نہیں تھی کہ الہام اسکی سگی بہن نہیں ہے۔۔ مگر جب سے اس نے یہ جانا تھا۔۔۔ وہ بے سکون تھی۔۔ جس طرح احتشام نے اسکا بازو تھاما تھا۔۔۔ اسے اچھا نہیں لگا تھا۔۔ کتنے بے تکلف تھے وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ۔۔۔ اور احتشام ؟ اس نے تو اس سے بات تک کرنے کی توفیق نہیں کی تھی۔۔ وہ کتنا وقت ایک ساتھ بیٹھے تھے۔۔ مگر ایک بار بھی اس نے اسے مخاطب نہیں کیا تھا۔۔۔ وہ اسکی بیوی بننےجارہی تھی۔۔۔ مگر اسے دیکھ کر تو لگ رہا تھا کہ جیسے یہ اسکے لئے کوئی عام سے بات ہو ؟؟
جیسے اسے کوئی فرق ہی نہیں پڑھتا ہو اسکے ہونے نا ہونے سے ؟ ؟ یا پھر۔۔ اسکی بیوی ہونے سے ؟ سوچیں ناجانے اسے کہاں سے کہاں لے جارہی تھیں۔۔۔ اور وہ جتنا سوچتی جارہی تھی۔۔ اتنی ہی تکلیف اسکے دل میں اٹھ رہی تھی۔۔ وہ بیڈ پر گم سم سی بیٹھی چھت کو تک رہی تھی۔۔ کہ اچانک ایک خیال آیا تھا۔۔ اور وہ ایک جھٹکے سے اٹھی تھی۔۔ سائیڈ ٹیبل کے دراز سے اسنے ایک چیز نکالی تھی۔۔ یہ وہی چیز تھی۔۔۔ جو اسے اربش نے تھمائی تھی۔۔۔ اور اسکی مسکراہٹ ؟؟ اسنے دیکھا تھا کہ اربش کی مسکراہٹ اس وقت کتنی معنی خیز تھی۔۔۔ یقیناً یہ وہی ثبوت تھا ۔۔۔ جسکا اسے انتظار تھا ۔۔
اس نے اپنا لیپ ٹاپ اٹھایا تھا۔۔ اور اب وہ اس چھوٹی سی یو۔ایس۔بی کو لیپ ٹاپ کے سائیڈ پر لگا رہی تھی۔۔ اسکے ہاتھ کانپ رہے تھے۔۔۔ جیسے وہ کوئی بم ڈسپوز کرنے لگی ہو۔۔ اس نے فولڈر اوپن کیا تھا اور پھر کانپتی انگلی کے ساتھ اس نے انٹر کا بٹن پریس کیا تھا۔۔ سکرین پر کچھ آیا تھا ۔۔
اس کی آنکھیں حیرت سے کھلی تھیں ۔۔ آنکھیں سکرین پر ٹکی تھیں۔۔ اور ناجانے غصہ تھا یا ضبط جو اسکی آنکھوں کو لال کر رہا تھا۔۔ جانے ایسا کیا تھا کہ اسکی آنکھیں دنیا جہان کے خوف اور حیرت سے بھر گئ تھیں۔۔
وہ جیسے ایک مجسمہ بن گئ تھی۔۔۔ صرف ایک انگلی ہی تھی جو بار بار ایک بٹن کو پریس کررہی تھی۔۔ باقی کا پورا جسم مفلوج تھا جیسے ۔۔۔ دل کی دھڑکن بھی جیسے رکی ہوئی تھی ۔۔
اسکا وہم سچ بن کر اسکے سامنے تھا۔۔۔ سب ختم ہوگیا تھا۔۔ وہ ْخوشیاں جو باہر موجود لوگ منا رہے تھے۔۔ اندر وہ خوشیاں اسکی آنکھوں کے سامنے دم توڑ رہی تھیں۔۔۔ اسکی آنکھوں سے کچھ قطرے نکل رہے تھے۔۔۔ اور اسے احساس نہیں تھا کہ وہ قطرے اسکے چہرے کو بگو رہے ہیں۔۔۔
یہ کیسا دھوکہ تھا ؟؟ یہ کیسا فریب تھا ؟؟ رشتوں کا یہ کونسا مزاق ہوا تھا اسکے ساتھ ؟؟
اسے لگا اسکا دل بند ہونے کو ہے۔۔۔ اسے لگا اسکا دماغ سن ہوجیسے۔۔ جسم کا کوئی بھی حصہ جیسے کسی کام کا نہ رہا ہو۔۔ سب ناکارہ ہوگئے تھے۔۔ اور شاید وہ خود بھی ناکارہ ہوگئ تھی۔۔ شاید ہر جذبہ ۔۔ ہر رشتہ ۔۔ ہر احساس ۔۔ اور یہ دل ۔۔ شاید یہ دل بھی ناکارہ ہوگیا تھا ۔۔۔
اسے نہیں معلوم تھا کہ کتنا وقت گزرا تھا۔۔۔ لیپ ٹاپ کی سکرین اب تک روشن تھی۔۔ اور اسکی نظر اسی پر اٹکی تھی۔۔ اچانک جیسے ضبط ٹوٹا تھا۔۔ اسکا ہاتھ اپنے پاس رکھے تکیے کی طرف گیا تھا۔۔ اور اسنے پوری قوت کے ساتھ اسے اٹھا کر دروازے کی طرف پھینکا تھا۔۔ ساتھ ایک چیخ تھی۔۔۔ جو اسکے لبوں سے نکلی تھی۔۔ دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھامے اب وہ آواز کے ساتھ رورہی تھی۔۔۔ مگر اسکی آواز ۔۔۔ میوزک کی اس تیز آواز کے آگے ہار گئ تھی۔۔۔ اور باہر کسی کو بھی خبر نہ تھی۔۔ کہ اندر کیا قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔۔ باہر کی دنیا انجان تھی ۔۔ اس قیامت سےجو ٹوٹ پڑی تھی۔۔ جو ٹوٹنے والی تھی۔۔۔
وقت رکتا نہیں ہے۔۔۔ وہ گزرتا ہے۔۔ یہ وقت بھی گزر رہا تھا۔۔۔ اور رات کے اندھیروں کو صبح کی روشنی نے مار دیا تھا۔۔ باہر اب شور کم تھا اور اندر ؟ اندر ایک سکوت تھا۔۔ جیسے یہاں کوئی ہے ہی نہیں ۔۔۔ وہ خاموشی سے چھت کو تک رہی تھی۔۔ ایک رات۔۔ ایک رات میں سب ختم ہوگیا تھا۔۔ اور رات بھی تو ختم ہوگئ تھی ۔۔ اس نے کھڑکی کی طرف دیکھا تھا۔۔ صبح کی روشنی اسکے کمرے کے اندر آرہی تھی۔۔ باہر ہر طرف روشنی ہی روشنی تھی۔۔ وہ خاموشی سے اٹھی تھی۔۔ اور کھڑکی کے سامنے آتے پردے کو اسے سرکایا تھا۔۔۔ روشنی اب پورے کمرے میں پھیل گئ تھی۔۔۔ مگر اسکی آنکھوں میں اندھیرا تھا۔۔۔ جو شاید اب ختم نہیں ہوسکتا تھا۔۔۔ وہ پلٹی تھی کہ اسکی نظر اپنے بیڈ پر رکھے ایک لفافے پر پڑی تھی۔۔ بس پل بھر کی بات تھی۔۔ صرف ایک پل کی ۔۔ اور فیصلہ ہوچکا تھا۔۔
کچھ فیصلے انسان اسی طرح اچانک کیا کرتا ہے۔۔ وہ اب اس لفافے کی طرف بڑھی تھی۔۔۔ وہ فیصلہ کرچکی تھی ۔۔ایک ایسا فیصلہ۔۔۔ جو اس قیامت کو رخ موڑنے والا تھا ۔۔ ایک ایسا فیصلہ ۔۔ جو کئ زندگیاں برباد کرنے والا تھا ۔۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial