قسط 6 (پارٹ 1)
شادی والے گھر کے کام ہیں کہ ختم ہی نہیں ہوتے۔۔۔ الہام بھی صبح سے پھوپھو کے ساتھ کاموں میں مصروف رہی تھی۔۔ اور اب اریج کو پارلر بھی لے کر جانا تھا۔۔ مگر وہ کاموں کی وجہ سے لیٹ ہوگئ تھی۔۔۔ اور اریج اپنی کزن کے ساتھ ہی پارلر چلی گئ جس پر اسے افسوس ہوا۔۔ اسے احساس تھا کہ وہ اریج کو ٹائم نہیں دے پارہی تھی۔۔۔ مگر شادی کے بعد وہ اسکی ساری ناراضگی ختم کر دینے والی تھی۔۔
وہ سب تیار ہوکر ہال میں پہنچ چکے تھے۔۔ اریج کو اسکی کزن نے ڈائرکٹ ہال ہی لانا تھا۔۔ بارات کے آنے میں بس کچھ ہی وقت باقی تھا۔۔ وہ سب بارات کے استقبال کی تیاریوں میں مصروف تھے۔۔
الہام نے آج وہی ڈریس پہنا تھا جو اسے احتشام نے دلوایا تھا۔۔ اس ڈریس میں بال کھولے اور نفاست سے کئے گئے میک اپ کے ساتھ وہ بہت حسین لگ رہی تھی۔۔۔ ہر نگاہ بس اسی پر اٹھ رہی تھی۔۔ اور ساتھ کھڑا احتشام دلہے کی شیروانی پہنے کسی دیس کا شہزادہ لگ رہا تھا۔۔ پھوپھو تو ناجانے کتنی بار اسکی نظر بھی اتار چکی تھیں۔۔ وہ لوگ اب بارات لے جانے کی تیاری میں تھے ۔۔۔
بارات آنے والی تھی مگر اب تک اریج اور اسکی کزن کی کچھ خبر نہیں تھی ۔۔ وہ لوگ اب پریشان ہورہے تھے۔۔ اتنی کالز کرنے کے بعد بھی ان دونوں کا کچھ پتہ نہیں تھا ۔۔ نا ہی کوئی کال اٹھا رہا تھا۔۔ اور نا ہی کوئی وہاں موجود تھا۔۔ کیونکہ پارلر سے کال کر کے معلوم کیا تو انہوں نے کہا وہ ایک گھنٹہ پہلے ہی جاچکی ہیں۔۔ مگر اب تک وہ ہال نہیں پہنچی تھیں۔۔ اور دوسری طرف بارات بھی اپنے گھر سے نکل گئ تھی۔۔۔ اریج کی ماما اور پاپا کو عجیب عجیب وہم آرہے تھے۔۔ مہمان الگ باتیں بنانے میں مصروف تھے۔۔۔ اور پھر اسی طرح وقت گزرتا جارہا تھا۔۔ اور ان دونوں کا کچھ پتہ نہیں تھا۔۔ اب باراتیوں کی آمد بھی ہوچکی تھی۔۔ احتشام سر پر سہرا سجائے۔۔ ہال میں داخل ہوا تھا۔۔ اسکے دائیں ہاتھ کی طرف رابعہ اور بائیں ہاتھ کی طرف الہام موجود تھی۔۔ پیچھے اربش۔۔ اسکی ماما اور پاپا کے ساتھ ساتھ خاندان کے باقی لوگ بھی موجود تھے۔۔ اور آج تو ڈاکٹر پارسا بھی اسی بارات میں شامل تھیں۔۔
اپنی محبت کی بارات میں شامل ہونا کتنا مشکل ہوتا ہے۔۔ یہ ان سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا تھا۔۔ مگر ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائے۔۔ وہ احتشام کی بارات کا حصہ تھی۔۔ اور اسکی خوشیوں کے لئےدعاگو تھی۔۔ وہ خوشیاں جوکہ ختم بھی ہوچکی تھی۔۔ مگر ابھی تک اسکا احساس کسی کو نہیں ہوا تھا۔۔
احتشام اب اپنی جگہ پر بیٹھ چکا تھا۔۔ قاضی صاحب بھی آچکے تھے۔۔ اور اب سب نے دلہن کو بلانے کے لئے کہنا شروع کر دیا تھا۔۔ اریج کی ماما کے ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے۔۔ انہیں سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ اتنے لوگوں میں کسے اپنا مسئلہ بتائیں؟ ناجانے آج قسمت نے کونسی ذلت انکے نصیب میں لکھی تھی۔۔ دل ڈر رہا تھا ۔۔
’’ آنٹی اریج کہا ہے ؟ ’’ الہام نے انکے پاس آکر کہا تھا۔۔
’’ وہ اریج ۔۔ ’’ وہ اتنی کنفیوز تھیں کہ سمجھ ہی نہیں پارہی تھی کہ انہیں کیا کہنا چاہئے۔۔
’’ کہاں ہے اریج ؟ ’’ اب اربش بھی انکے پاس آچکی تھی۔۔
’’ وہ الہام بیٹا۔۔ دراصل اریج ۔۔’’ ناجانے وہ کیا کہنا چاہ رہی تھیں۔۔ کہ اچانک وہ رک گئ تھیں۔۔ انکی نگاہیں کسی کو دیکھ کر حیران ہوئی تھیں۔۔ الہام اور اربش نے دیکھا کہ وہ سامنے بھاگتی ہوئی آتی اس لڑکی کو دیکھ رہی تھی۔۔ جوکہ اریج کی کزن تھی۔۔ اس کے چہرے پر گھبراہٹ صاف نظر آرہی تھی۔۔
’’ آنٹی ’’ وہ اب انکے پاس پہنچی تھی۔۔ بھاگنے کی وجہ سے اسکی سانس پھول رہی تھی۔۔ اور آس پاس موجود تمام لوگ اب انکی طرف متوجہ ہوچکے تھے۔۔
’’ اریج کہاں ہے ؟ ’’ اربش نے پوچھا تھا۔۔ ہر طرف ایک خاموشی تھی۔۔ رابعہ بھی اب انکے پاس آچکی تھی جبکہ احتشام اپنی جگہ سے کھڑا ہوچکا تھا۔۔وہ اب اسی طرف متوجہ تھا۔۔
’’ وہ چلی گئ ’’ اس لڑکی نے کہا تھا۔۔ اور ایک بجلی تھی۔۔ جوکہ وہاں موجود ہر شخص پر گری تھی۔۔
’’ کیا بکواس کر رہی ہو تم ؟ کہاں گئ وہ ؟ ’’ الہام نے اسکا بازو جھنجھوڑا تھا۔۔ اریج کی ماما ایک سکتے میں بس انہیں دیکھ رہی تھیں۔۔ اریج کے پاپا کا سر جھک گیا تھا۔۔۔یہ کیسے ہوسکتا تھا ؟؟ انکی بیٹی کہا جاسکتی تھی ؟؟ اور کیوں ؟؟
اربش کی آنکھوں میں ایک چمک آئی تھی۔۔ یہی تو وہ چاہتی تھی ۔۔۔
’’ وہ ملک چھوڑ کر چلی گئ ہے۔۔ یہ خط اور یہ یو۔ایس۔بی مجھے اسکی گاڑی سے ملی ہے ’’ اس نے ایک خط اریج کی ماما کی طرف بڑھایا تھا اور وہ یو۔ایس۔بی ؟ اربش اسے پہچان گئ تھی۔۔ الہام نے اس خط کو تھامنا چاہا تھا مگر اس سے پہلے ہی اریج کے پاپا نے تیزی سے آکر اسے لے لیا تھا۔۔ اور اب وہ خط پڑھ رہے تھے۔۔
آس پاس کے لوگ اب لڑکی کے شادی والے دن گھر سے بھاگ جانے کی باتوں میں مصروف تھے۔۔ احتشام اپنی جگہ کھڑا حیرانی سے سب دیکھ رہا تھا۔۔۔ ڈاکٹر پارسا احتشام کے پاس آئی تھیں۔۔ مگر کچھ کہنے کی ہمت نہیں تھی۔۔ الہام اپنی جگہ سن سی کھڑی انکل کو دیکھ رہی تھی۔۔ جنہوں نے خط پڑھ کر اب اسکی طرف بڑھایا تھا۔۔۔ اور انکی آنکھیں ؟ ناجانے انکل کی آنکھوں میں ایسا کیا تھا کہ خط تھامتے الہام کا ہاتھ کانپ کیا تھا۔۔۔ یہی وہ لمحہ تھا۔۔۔ جب کسی نے اس کے کانپتے ہاتھوں کو دیکھا تھا۔۔۔ اور اسکا خوف محسوس کیا تھا۔۔۔ یہی وہ لمحہ تھا۔۔۔ جب عرش وہاں آیا تھا۔۔ اور وہ دیکھ رہا تھا۔۔ الہام کا کانپتا ہوا ہاتھ ۔۔ اور اس ہاتھ میں پکڑا خط۔۔
اس نے خط پڑھا تھا۔۔ اور پھر نظر اٹھا کر احتشام کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ دونوں کی نظریں ملی تھیں۔۔ الہام کی آنکھوں کا خوف ۔۔اسکی آنکھوں کی بے یقینی ۔۔ اسکی آنکھوں میں موجود کرب نے اسے اپنی جگہ سے ہلنے پر مجبور کیا تھا۔۔ وہ اسکی جانب بڑھا تھا ۔۔۔ پارسا وہی کھڑی رہ گئ تھی ۔۔
’’ کیا لکھا ہے خط میں ؟ ’’ رابعہ پھوپھو نے الہام کا بازوں پکڑ کر پوچھا تھا۔۔ مگر وہ تو بس اپنی طرف آتے احتشام کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ وہ اسکے پاس آیا تھا۔۔ اسکے ہاتھ سے خط لیا اور اسے پڑھنا شروع کیا تھا۔۔
’’ بتاؤ الہام۔۔ کیا لکھا ہے اس میں ؟ ’’ یہ آواز الہام کی ماما کی تھی۔۔
’’ احتشام۔۔ تم بتاؤ کیا لکھا ہے اس میں ؟ ’’ عائشہ بیگم نے کہا تھا۔۔
مگر وہ دونوں خاموش تھے۔۔ اربش نے آگے بڑھ کر وہ خط لیا تھا اور اب وہ اونچی آواز میں اسے پڑھ رہی تھی۔۔ جبکہ احتشام اپنی جگہ سن کھڑا تھا ۔ جبکہ وہ الہام کو دیکھ رہا تھا ۔۔ جبکہ الہام اسے دیکھ رہی تھی۔۔ جبکہ پارسا اور عرش ان دونوں کو دیکھ رہے تھے ۔۔۔
’’ ماما ! پاپا ! میں جانتی ہوں جب آپکو یہ معلوم ہوگا کہ میں اپنی شادی والے دن آپکو چھوڑ کر ملک سے باہر چلی گئ ہوں۔۔ تو آپکو مجھ پر بہت غصہ آئے گا۔۔۔ اور آنا بھی چایئے۔۔ میں آپکی عزت کے ساتھ کھیل گئ ہوں۔۔ مگر ماما میں مجبور ہوں۔۔ اور میں جانتی ہوں جب آپ سب کو میری مجبوری اور اتنے بڑے فیصلے کے پیچھے کی وجہ کا معلوم ہوگا۔۔ تو آپ مجھے معاف کر دیں گے۔۔ میرا یہ خط آپکو ذلت کی کھائی میں گرنے سے بچا دے گا۔۔ کیونکہ میں یہ بات سب کو بتا کر جارہی ہوں کہ آج اس شادی سے میرے جانے کی وجہ میں نہیں۔۔ بلکہ میری وہ دوست ہے ۔۔ جس پر میں نے اعتبار کیا تھا۔۔ اور اس نے مجھے دھوکہ دیا ۔۔۔ ہاں ماما ۔۔ آپکی بیٹی کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔۔ الہام اور احتشام نے مل کر۔۔ آپکی بیٹی کے ساتھ جو کھیل کھیلا ہے۔۔ اگر آپ سب اسے جان جائیں۔۔ تو آپ سب کو میرا یہ فیصلہ بلکل ٹھیک لگے گا ۔۔ماما ! پاپا ! آپکا دیا ہوا شادی کا تحفہ۔۔ اس شادی کے خاتمے کےلئے استعمال کر رہی ہوں۔۔ مجھے معاف کر دیجئے گا۔۔ اور یہ یو۔ایس۔بی سب کے سامنے اوپن کیجئے گا۔۔ تاکہ کوئی بھی آپکی عزت کو داغ نہ لگا سکے۔۔ تاکہ کوئی بھی آپکی تربیت پر انگلی نہ اٹھا سکے ۔۔’’
آپکی بیٹی اریج !
خط ختم ہوا تھا۔۔ اور اب سب کی نظریں الہام اور احتشام کے گرد تھیں۔۔ اربش نے ان یو۔ایس۔بی اس لڑکی کے ہاتھوں سے لی تھی۔۔ اور اب وہ ہال کے اندر موجود ایک کمرے کی طرف گئ تھی۔۔ ہال میں موجود ہر شخص خاموش تھا۔۔ اور ہر شخص ایک ہی بات سوچ رہا تھا۔۔ آخر اس یو۔ایس۔بی میں ایسا کیا تھا ؟؟
تھوڑی دیر بعد اربش اندر سے آئی تھی۔۔ اب اسکے ہاتھ میں ایک لیپ ٹاپ تھا ۔۔ جو کہ اس نے سامنے رکھی شیشےکی میز پر اس طرح رکھا تھا کہ اسکی سکرن ہال میں موجود تمام لوگوں کو نظر آرہی تھی۔۔۔ الہام اور احتشام کے علاوہ وہاں موجود ہر ایک کی نظریں اب اس سکرین پر تھیں۔۔ جہاں اب اربش ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ سجائے۔۔۔ فائیل اوپن کر کے انٹر کا بٹن پریس کررہی تھی۔۔ اور فائیل کھل گئ تھی۔۔ کچھ تصاویر تھیں جوکہ ایک ایک سلائیڈ میں چل رہی تھیں۔۔ الہام کی آنکھیں حیرت سے کھل گئ تھیں۔۔۔ احتشام کی حالت بھی کچھ ایسی ہی تھی۔۔ عرش اور ڈاکٹر پارسا اپنی اپنی جگہ سن ہوگئے تھے۔۔ اور مہمانوں کے درمیان اب چہہ مگوئیاں شروع ہوئی تھیں۔۔۔ یہ ان سب کی آنکھیں کیا دیکھ رہی تھیں ؟ یہ کیسا دھوکہ تھا ؟ یہ کیسی کہانی تھی۔۔ جو وہ تصاویر بیان کر رہی تھیں ؟؟
’’ ایک ریسٹورانٹ میں ہاتھ میں ہاتھ ڈالے بیٹھے احتشام اور الہام ۔۔!
’’ سمندر کنارے احتشام کے کاندھے پر سر رکھے بیٹھی الہام ۔۔۔!
’’ لاونچ کی سیڑھیوں پر بیٹھی الہام اور اس کے اوپر دیوار پر ہاتھ رکھتے جھکا ہوا احتشام ۔۔۔!
’’ الہام کے روم کے بیڈ ہر نہایت نامناسب انداز میں بیٹھے احتشام اور الہام ۔۔!
’’ شاپنگ سینٹر میں الہام کا ہاتھ تھامے آگے بڑھتا احتشام ۔۔۔!
اور آگے آنے والی تصاویر بے شرمی اور بے حیائی کے سارے ریکارڈ توڑ گئ تھیں۔۔ احتشام کا خون کھولا تھا۔۔ وہ تیزی سے آگے بڑھا ۔۔ اور لیپ ٹاپ اٹھا کر پوری قوت سے زمین پر پھینکا تھا۔۔ یو۔ایس۔بی نکل کر کسی کے قدموں کے پاس جاگری تھی۔۔۔
’’ کیا بکواس ہے یہ ؟ یہ سب جھوٹ ہے۔۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔۔ میری بہن ہے یہ۔۔ سنا سب نے۔۔ بہن ہے وہ میری ’’ وہ جنونی انداز میں چیخ کر بولا تھا۔۔ اسکے دماغ میں ٹیس اٹھ رہی تھی۔۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے ابھی دماغ پھٹ جائے گا۔۔
’’ پاپا ’’ الہام بھاگتی ہوئی پاپا کے پاس گئ تھی۔۔
’’ پاپا آپ میرا یقین کریں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔۔ یہ سب جھوٹ ہے پاپا۔۔۔ پلیز میرا یقین کریں ’’ وہ پاپا کا بازوں تھامے روتے ہوئے کہہ رہی تھی۔۔ مگر پاپا سن کھڑے تھے۔۔ جیسے انہیں اسکی کوئی آواز نہیں آرہی تھی۔۔ انہیں تو بس آس پاس کے لوگوں کی آواز آرہی تھی۔۔
’’ کتنی بے شرم لڑکی ہے یہ ۔۔۔
’’ بھائی بہن کے نام پر کیا کارنامے کرتی رہی ہے ۔۔۔
’’ توبہ توبہ ۔۔ بہن بھائی کے رشتے کا مزاق بنا کر رکھ دیا ۔۔۔
’’ ایسی اولاد سے تو اچھا ہے بندہ بے اولاد ہی رہے ۔۔۔
’’ میری بیٹی ہوتی تو دکھے مار کر گھر سے نکال دیتی میں ۔۔۔
’’ اور میں تو قتل کر دیتا اسے ۔۔
ہر طرف سے بس یہی آوازیں انکے کانوں تک آہی تھیں۔۔ اور الہام کی آواز کہیں دب گئ تھی۔۔ الہام شاید خود بھی کہیں دب چکی تھی ۔۔۔
’’ پاپا۔۔ میرا یقین کریں۔۔ پلیز ’’ الہام کہہ رہی تھی اور اسی پل عائشہ آگے بڑھی تھی۔۔ اسکا بازو پکڑ کر اسے اپنی طرف گمایا تھا۔۔ اور ایک تھپڑ تھا ۔۔ جو اسکے چہرے پر پڑا تھا ۔۔۔
الہام نے دیکھا تھا اور اسکی آنکھیں حیرت سے کھل گئ تھیں۔۔ مگر یہ حیرت نہ تو ماما کو دیکھ کر ہوئی تھی۔۔ نہ ہی انکے تھپڑ پر ۔۔۔ بلکہ یہ حیرت تو ماما کے پیچھے کھڑے اس انسان کو دیکھ کر ہوئی تھی۔۔۔ جس نے اسے عرش پر پہنچایا تھا۔۔ اور آج ۔۔ وہ اسے۔۔ اسی عرش سے زمین پر منہ کے بل گرتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔۔۔ اسے لگا ۔۔ آج اسکے پاس عزت نامی کوئی چیز نہیں رہی تھی۔۔ اسے لگا۔۔ وہ جیسے اپنے دل کے سامنے بے عزت ہوئی تھی۔۔ اسے لگا ۔۔ وہ جیسے اپنے دل کی نظروں سے گر گئی تھی ۔۔
’’ شرم آنی چاہئے تمہیں یہ سب کرتے ہوئے ۔۔۔ بھائی بھائی کے کھیل کہ پیچھے تم یہ کھیل کھیلتی رہی تھی۔۔ ایک بار بھی نہیں سوچا اپنے پاپا کی عزت کےبارے میں۔۔ ارے اگر اتنا ہی پسند تھا یہ۔۔ تو مجھے کہتی۔۔ میں خود تمہیں اس سے بیادیتئ۔۔ اس قسم کا گھٹیا کھیل کھیلنے کی کیا ضرورت تھی ؟ ’’ ماما اس پر برس پڑی تھیں اور اس نے پاپا کی طرف دیکھا تھا۔۔ جو سر جھکائے کھڑے تھے۔۔
’’ پاپا۔۔ میں نے کچھ نہیں کیا ’’ اس نے دوبارہ پاپا سے کہا تھا۔۔ اسے لگا ۔۔ اسکی آواز اب اسے خود بھی سنائی نہیں دے رہی تھی ۔۔۔
’’ خبردار جو تم نے مجھے اپنا پاپا کہا ۔۔۔ مر گیا تمہارا پاپا ۔۔۔ شرم آتی ہے مجھے تمہیں اپنی بیٹی کہتے ہوئے۔۔ مر گئ آج میری بیٹی ’’ پاپا نے اسے پیچھے دھکیلا تھا وہ حیرت سے انہیں دیکھ رہی تھی۔۔ یہ اسکے پاپا نہیں تھے ۔۔ پاپا تو کبھی اس سے اس طرح بات نہیں کرتے تھے۔۔ وہ تو جانتے تھے اسے۔۔۔ پھر آج وہ کیوں اسے جان نہیں پارہے تھے ؟ احتشام سے اب مزید برداشت نہیں ہورہا تھا۔۔
’’ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں انکل۔۔۔ یہ سب جھوٹ ہے ۔۔ الہام اور میرے بیچ ایسا کچھ نہیں ہے۔۔ یہ بہن ہے میری۔۔ میں کیسے اس کے ساتھ ایسا کر سکتا ہوں؟ ’’ احتشام اب انہیں یقین دلانا چاہا تھا۔۔ مگر جیسے کچھ اثر نہیں ہورہا تھا۔۔ جیسے کوئی کچھ سننے کو تیار نہیں تھا ۔۔
’’ ماما پلیز۔۔ سب لوگ باتیں کر رہے ہیں۔۔ اب جلدی سے بات ختم کریں بہت بدنامی ہورہی ہے ’’ اب کی بار اربش بولی تھی۔۔
’’ بدنامی تو ہوگی ۔۔ جب بہن بھائی کی آڑ میں اس طرح کے فعل انجام دیئے جائینگے۔۔۔ تو بدنامی تو ہونی تھی اور ہم تو بدنام ہوچکے ہیں اب ’’ وہ اب اپنا سر پکڑ کر روتے ہوئے بولی تھیں۔۔
’’ آنٹی پلیز میں آپکی عزت کرتا ہوں اور اچھا یہی ہوگا کہ آپ مجھے بھی کرنے دیں۔۔۔ کیونکہ الہام کے کردار پر کوئی چھینٹ بھی برداشت نہیں کرونگا میں ’’ احتشام نے غصے سے کہا تھا۔۔ اس سے اپنے اور الہام کے بارے میں اس طرح کی باتیں برداشت نہیں ہورہی تھیں۔۔
’’ اگر اتنا ہی خیال تھا اسکی عزت کا تو کیوں رچایا یہ کھیل ؟ دنیا کے سامنے بہن اور اکیلے میں محبوبہ ۔۔۔۔ ’’
’’ آنٹی پلیز ۔۔ زبان سنبھال کر بات کریں میں ۔۔۔۔ ’’ وہ اونچی آواز میں بولا تھا۔۔ اور ناجانے آگے کیا کہنے والا تھا کہ کسی نے اسکے چہرے پر تھپڑ مارا تھا۔۔ وہ حیران ہوا تھا۔۔ یہ اسکی ماما تھی۔۔
’’ ماما آپ۔۔۔ ؟ ’’
’’ تم اس حد تک گر جاؤگے۔۔۔ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔۔ میرا مان۔۔ میرا بھروسہ۔۔۔ میرا فخر۔۔۔ سب ختم کر دیا تم نے احتشام ۔۔۔ کچھ نہیں چھوڑا تم نے میرے پاس۔۔۔ مجھے بے اولاد کر دیا تم نے ،۔۔۔ میں تمہیں کبھی معاف نہیں کرونگی۔۔ کبھی نہیں ۔۔ ’’ وہ کہہ کر ایجاز صاحب کی طرف پلٹی تھیں۔۔
’’ تم نے مجھے اور میرے بھائی کو کسی قابل نہیں چھوڑا ۔۔۔ آج اس پوری دنیا کے سامنے میرا بھائی سر جھکائے کھڑا ہے۔۔ صرف تم دونوں کی وجہ سے ۔۔۔’’ انکی آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے اور احتشام اپنی جگہ جم سا گیا تھا۔۔ وہ اسکی ماں تھیں۔۔ اور وہ ہی اس پر اعتبار نہیں کر رہی تھیں۔۔ کسی اور سے وہ کیا کہتا اب ؟ وہ کچھ کہنے کے قابل ہی نہیں رہا تھا۔۔ سامنے کھڑی الہام کی بھی ایسی ہی حالت تھی ۔۔ آج تو جیسے کوئی بھی انکے ساتھ نہیں تھا۔۔ پوری دنیا ان پر کیچڑ اچھالنے کو تیار تھی۔۔ اور آج وہ اس کیچڑ میں نہا رہے تھے ۔۔
’’ رابعہ۔۔ اگر تمہیں اپنی بھائی کی عزت کا اتنا ہی خیال ہے تو اب تم اپنے بیٹے کی غلطی کا کفارہ ادا کرو اور انہیں مزید شرمندگی سے بچاؤ ’’ عائشہ نے اب جیسے کوئی فیصلہ لیتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ میں نے اور الہام نے کچھ نہیں کیا اور میری ماں کوئی کفارہ ادا نہیں کرینگی ’’ احتشام نے اٹل لہجے میں کہا تھا۔۔
’’ اگر تم نے مجھے روکا۔۔ تو میں تمہاری ماں ہی نہیں رہونگی ’’ رابعہ نے اسے کہا تھا۔۔ اور احتشام خاموش ہوگیا تھا۔۔ اسکی ماما آج اسکی کوئی بات سننےکو تیار نہیں تھی۔۔۔
’’ بولو عائشہ۔۔ میں بھائی کی عزت کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوں ’’ وہ اب عائشہ کی طرف متوجہ ہوئی تھیں۔۔
’’ ان دونوں نے جو کچھ بھی کیا۔۔ اب انہیں اسکی سزا بھی ملے گی ۔۔ اور ناجائز کاموں کی سزا ہمیشہ جائز ہوتی ہے۔۔ اس لئے آج اور ابھی ان دونوں کا نکاح ہوگا ’’
یہ الفاظ نہیں تھے۔۔ کمان سے نکلےہوئے تیر تھے۔۔ جو وہاں موجود چار لوگوں کے دلوں کو چیر کر نکلے تھے۔۔
الہام نے تڑپ کر اپنے سامنے کھڑےاس شخص کو دیکھا تھا جو ناجانے کہاں گم تھا ؟ وہ اسکی طرف نہیں دیکھ رہا تھا۔۔ وہ تو احتشام کی طرف دیکھ رہا تھا ۔۔ وہ اسکی طرف کیوں نہیں دیکھ رہا تھا ؟؟ کیا وہ بھی اس سے بدگمان ہوگیا تھا ؟؟ اور وہ اسے کیوں دیکھ رہی تھی ؟؟ آخر اس نے نکاح کا سن کر سب سے پہلے اس شخص کو ہی کیوں دیکھا تھا ؟؟ وہ اس کے چہرے پر کیا دیکھنا چاہتی تھی ؟؟ وہ خود کیا چاہتی تھی اس شخص سے ؟ اسے کسی سوال کا جواب نہیں پتہ تھا وہ تو شاید سوال بھی نہیں جانتی تھی۔۔ اسے تو خود بھی اندازہ نہیں تھا کہ وہ خاموشی سے اس ایک شخص کو ناجانے کب سے دیکھ رہی ہے اور وہ شخص ؟ وہ اسے دیکھنے سے پرہیز کر رہا تھا ۔۔ ایسا کیوں تھا ؟؟ وہ آج اسے کیوں نہیں دیکھ رہا تھا ۔۔ آج جب اسکے دیکھنے کی سب سے زیادہ ضرورت تھی ۔۔
پارسا نے تڑپ کر احتشام کی جانب دیکھا تھا ۔۔ جو حیرانگی کی آخری حد پر کھڑا ۔۔ سامنے کھڑی اپنی ماں کی جانب دیکھ رہا تھا۔۔ اسے تکلیف پہنچی تھی ۔۔ محبت محبوب کی رسوائی برداشت نہیں کر پاتی ۔۔ اور آج اسکی محبت اسکے سامنے رسوا ہورہی تھی ۔۔ اور یہ زخم پارسا کی روح پر لگ رہے تھے ۔۔۔
شادی والے گھر کے کام ہیں کہ ختم ہی نہیں ہوتے۔۔۔ الہام بھی صبح سے پھوپھو کے ساتھ کاموں میں مصروف رہی تھی۔۔ اور اب اریج کو پارلر بھی لے کر جانا تھا۔۔ مگر وہ کاموں کی وجہ سے لیٹ ہوگئ تھی۔۔۔ اور اریج اپنی کزن کے ساتھ ہی پارلر چلی گئ جس پر اسے افسوس ہوا۔۔ اسے احساس تھا کہ وہ اریج کو ٹائم نہیں دے پارہی تھی۔۔۔ مگر شادی کے بعد وہ اسکی ساری ناراضگی ختم کر دینے والی تھی۔۔
وہ سب تیار ہوکر ہال میں پہنچ چکے تھے۔۔ اریج کو اسکی کزن نے ڈائرکٹ ہال ہی لانا تھا۔۔ بارات کے آنے میں بس کچھ ہی وقت باقی تھا۔۔ وہ سب بارات کے استقبال کی تیاریوں میں مصروف تھے۔۔
الہام نے آج وہی ڈریس پہنا تھا جو اسے احتشام نے دلوایا تھا۔۔ اس ڈریس میں بال کھولے اور نفاست سے کئے گئے میک اپ کے ساتھ وہ بہت حسین لگ رہی تھی۔۔۔ ہر نگاہ بس اسی پر اٹھ رہی تھی۔۔ اور ساتھ کھڑا احتشام دلہے کی شیروانی پہنے کسی دیس کا شہزادہ لگ رہا تھا۔۔ پھوپھو تو ناجانے کتنی بار اسکی نظر بھی اتار چکی تھیں۔۔ وہ لوگ اب بارات لے جانے کی تیاری میں تھے ۔۔۔
بارات آنے والی تھی مگر اب تک اریج اور اسکی کزن کی کچھ خبر نہیں تھی ۔۔ وہ لوگ اب پریشان ہورہے تھے۔۔ اتنی کالز کرنے کے بعد بھی ان دونوں کا کچھ پتہ نہیں تھا ۔۔ نا ہی کوئی کال اٹھا رہا تھا۔۔ اور نا ہی کوئی وہاں موجود تھا۔۔ کیونکہ پارلر سے کال کر کے معلوم کیا تو انہوں نے کہا وہ ایک گھنٹہ پہلے ہی جاچکی ہیں۔۔ مگر اب تک وہ ہال نہیں پہنچی تھیں۔۔ اور دوسری طرف بارات بھی اپنے گھر سے نکل گئ تھی۔۔۔ اریج کی ماما اور پاپا کو عجیب عجیب وہم آرہے تھے۔۔ مہمان الگ باتیں بنانے میں مصروف تھے۔۔۔ اور پھر اسی طرح وقت گزرتا جارہا تھا۔۔ اور ان دونوں کا کچھ پتہ نہیں تھا۔۔ اب باراتیوں کی آمد بھی ہوچکی تھی۔۔ احتشام سر پر سہرا سجائے۔۔ ہال میں داخل ہوا تھا۔۔ اسکے دائیں ہاتھ کی طرف رابعہ اور بائیں ہاتھ کی طرف الہام موجود تھی۔۔ پیچھے اربش۔۔ اسکی ماما اور پاپا کے ساتھ ساتھ خاندان کے باقی لوگ بھی موجود تھے۔۔ اور آج تو ڈاکٹر پارسا بھی اسی بارات میں شامل تھیں۔۔
اپنی محبت کی بارات میں شامل ہونا کتنا مشکل ہوتا ہے۔۔ یہ ان سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا تھا۔۔ مگر ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائے۔۔ وہ احتشام کی بارات کا حصہ تھی۔۔ اور اسکی خوشیوں کے لئےدعاگو تھی۔۔ وہ خوشیاں جوکہ ختم بھی ہوچکی تھی۔۔ مگر ابھی تک اسکا احساس کسی کو نہیں ہوا تھا۔۔
احتشام اب اپنی جگہ پر بیٹھ چکا تھا۔۔ قاضی صاحب بھی آچکے تھے۔۔ اور اب سب نے دلہن کو بلانے کے لئے کہنا شروع کر دیا تھا۔۔ اریج کی ماما کے ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے۔۔ انہیں سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ اتنے لوگوں میں کسے اپنا مسئلہ بتائیں؟ ناجانے آج قسمت نے کونسی ذلت انکے نصیب میں لکھی تھی۔۔ دل ڈر رہا تھا ۔۔
’’ آنٹی اریج کہا ہے ؟ ’’ الہام نے انکے پاس آکر کہا تھا۔۔
’’ وہ اریج ۔۔ ’’ وہ اتنی کنفیوز تھیں کہ سمجھ ہی نہیں پارہی تھی کہ انہیں کیا کہنا چاہئے۔۔
’’ کہاں ہے اریج ؟ ’’ اب اربش بھی انکے پاس آچکی تھی۔۔
’’ وہ الہام بیٹا۔۔ دراصل اریج ۔۔’’ ناجانے وہ کیا کہنا چاہ رہی تھیں۔۔ کہ اچانک وہ رک گئ تھیں۔۔ انکی نگاہیں کسی کو دیکھ کر حیران ہوئی تھیں۔۔ الہام اور اربش نے دیکھا کہ وہ سامنے بھاگتی ہوئی آتی اس لڑکی کو دیکھ رہی تھی۔۔ جوکہ اریج کی کزن تھی۔۔ اس کے چہرے پر گھبراہٹ صاف نظر آرہی تھی۔۔
’’ آنٹی ’’ وہ اب انکے پاس پہنچی تھی۔۔ بھاگنے کی وجہ سے اسکی سانس پھول رہی تھی۔۔ اور آس پاس موجود تمام لوگ اب انکی طرف متوجہ ہوچکے تھے۔۔
’’ اریج کہاں ہے ؟ ’’ اربش نے پوچھا تھا۔۔ ہر طرف ایک خاموشی تھی۔۔ رابعہ بھی اب انکے پاس آچکی تھی جبکہ احتشام اپنی جگہ سے کھڑا ہوچکا تھا۔۔وہ اب اسی طرف متوجہ تھا۔۔
’’ وہ چلی گئ ’’ اس لڑکی نے کہا تھا۔۔ اور ایک بجلی تھی۔۔ جوکہ وہاں موجود ہر شخص پر گری تھی۔۔
’’ کیا بکواس کر رہی ہو تم ؟ کہاں گئ وہ ؟ ’’ الہام نے اسکا بازو جھنجھوڑا تھا۔۔ اریج کی ماما ایک سکتے میں بس انہیں دیکھ رہی تھیں۔۔ اریج کے پاپا کا سر جھک گیا تھا۔۔۔یہ کیسے ہوسکتا تھا ؟؟ انکی بیٹی کہا جاسکتی تھی ؟؟ اور کیوں ؟؟
اربش کی آنکھوں میں ایک چمک آئی تھی۔۔ یہی تو وہ چاہتی تھی ۔۔۔
’’ وہ ملک چھوڑ کر چلی گئ ہے۔۔ یہ خط اور یہ یو۔ایس۔بی مجھے اسکی گاڑی سے ملی ہے ’’ اس نے ایک خط اریج کی ماما کی طرف بڑھایا تھا اور وہ یو۔ایس۔بی ؟ اربش اسے پہچان گئ تھی۔۔ الہام نے اس خط کو تھامنا چاہا تھا مگر اس سے پہلے ہی اریج کے پاپا نے تیزی سے آکر اسے لے لیا تھا۔۔ اور اب وہ خط پڑھ رہے تھے۔۔
آس پاس کے لوگ اب لڑکی کے شادی والے دن گھر سے بھاگ جانے کی باتوں میں مصروف تھے۔۔ احتشام اپنی جگہ کھڑا حیرانی سے سب دیکھ رہا تھا۔۔۔ ڈاکٹر پارسا احتشام کے پاس آئی تھیں۔۔ مگر کچھ کہنے کی ہمت نہیں تھی۔۔ الہام اپنی جگہ سن سی کھڑی انکل کو دیکھ رہی تھی۔۔ جنہوں نے خط پڑھ کر اب اسکی طرف بڑھایا تھا۔۔۔ اور انکی آنکھیں ؟ ناجانے انکل کی آنکھوں میں ایسا کیا تھا کہ خط تھامتے الہام کا ہاتھ کانپ کیا تھا۔۔۔ یہی وہ لمحہ تھا۔۔۔ جب کسی نے اس کے کانپتے ہاتھوں کو دیکھا تھا۔۔۔ اور اسکا خوف محسوس کیا تھا۔۔۔ یہی وہ لمحہ تھا۔۔۔ جب عرش وہاں آیا تھا۔۔ اور وہ دیکھ رہا تھا۔۔ الہام کا کانپتا ہوا ہاتھ ۔۔ اور اس ہاتھ میں پکڑا خط۔۔
اس نے خط پڑھا تھا۔۔ اور پھر نظر اٹھا کر احتشام کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ دونوں کی نظریں ملی تھیں۔۔ الہام کی آنکھوں کا خوف ۔۔اسکی آنکھوں کی بے یقینی ۔۔ اسکی آنکھوں میں موجود کرب نے اسے اپنی جگہ سے ہلنے پر مجبور کیا تھا۔۔ وہ اسکی جانب بڑھا تھا ۔۔۔ پارسا وہی کھڑی رہ گئ تھی ۔۔
’’ کیا لکھا ہے خط میں ؟ ’’ رابعہ پھوپھو نے الہام کا بازوں پکڑ کر پوچھا تھا۔۔ مگر وہ تو بس اپنی طرف آتے احتشام کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ وہ اسکے پاس آیا تھا۔۔ اسکے ہاتھ سے خط لیا اور اسے پڑھنا شروع کیا تھا۔۔
’’ بتاؤ الہام۔۔ کیا لکھا ہے اس میں ؟ ’’ یہ آواز الہام کی ماما کی تھی۔۔
’’ احتشام۔۔ تم بتاؤ کیا لکھا ہے اس میں ؟ ’’ عائشہ بیگم نے کہا تھا۔۔
مگر وہ دونوں خاموش تھے۔۔ اربش نے آگے بڑھ کر وہ خط لیا تھا اور اب وہ اونچی آواز میں اسے پڑھ رہی تھی۔۔ جبکہ احتشام اپنی جگہ سن کھڑا تھا ۔ جبکہ وہ الہام کو دیکھ رہا تھا ۔۔ جبکہ الہام اسے دیکھ رہی تھی۔۔ جبکہ پارسا اور عرش ان دونوں کو دیکھ رہے تھے ۔۔۔
’’ ماما ! پاپا ! میں جانتی ہوں جب آپکو یہ معلوم ہوگا کہ میں اپنی شادی والے دن آپکو چھوڑ کر ملک سے باہر چلی گئ ہوں۔۔ تو آپکو مجھ پر بہت غصہ آئے گا۔۔۔ اور آنا بھی چایئے۔۔ میں آپکی عزت کے ساتھ کھیل گئ ہوں۔۔ مگر ماما میں مجبور ہوں۔۔ اور میں جانتی ہوں جب آپ سب کو میری مجبوری اور اتنے بڑے فیصلے کے پیچھے کی وجہ کا معلوم ہوگا۔۔ تو آپ مجھے معاف کر دیں گے۔۔ میرا یہ خط آپکو ذلت کی کھائی میں گرنے سے بچا دے گا۔۔ کیونکہ میں یہ بات سب کو بتا کر جارہی ہوں کہ آج اس شادی سے میرے جانے کی وجہ میں نہیں۔۔ بلکہ میری وہ دوست ہے ۔۔ جس پر میں نے اعتبار کیا تھا۔۔ اور اس نے مجھے دھوکہ دیا ۔۔۔ ہاں ماما ۔۔ آپکی بیٹی کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔۔ الہام اور احتشام نے مل کر۔۔ آپکی بیٹی کے ساتھ جو کھیل کھیلا ہے۔۔ اگر آپ سب اسے جان جائیں۔۔ تو آپ سب کو میرا یہ فیصلہ بلکل ٹھیک لگے گا ۔۔ماما ! پاپا ! آپکا دیا ہوا شادی کا تحفہ۔۔ اس شادی کے خاتمے کےلئے استعمال کر رہی ہوں۔۔ مجھے معاف کر دیجئے گا۔۔ اور یہ یو۔ایس۔بی سب کے سامنے اوپن کیجئے گا۔۔ تاکہ کوئی بھی آپکی عزت کو داغ نہ لگا سکے۔۔ تاکہ کوئی بھی آپکی تربیت پر انگلی نہ اٹھا سکے ۔۔’’
آپکی بیٹی اریج !
خط ختم ہوا تھا۔۔ اور اب سب کی نظریں الہام اور احتشام کے گرد تھیں۔۔ اربش نے ان یو۔ایس۔بی اس لڑکی کے ہاتھوں سے لی تھی۔۔ اور اب وہ ہال کے اندر موجود ایک کمرے کی طرف گئ تھی۔۔ ہال میں موجود ہر شخص خاموش تھا۔۔ اور ہر شخص ایک ہی بات سوچ رہا تھا۔۔ آخر اس یو۔ایس۔بی میں ایسا کیا تھا ؟؟
تھوڑی دیر بعد اربش اندر سے آئی تھی۔۔ اب اسکے ہاتھ میں ایک لیپ ٹاپ تھا ۔۔ جو کہ اس نے سامنے رکھی شیشےکی میز پر اس طرح رکھا تھا کہ اسکی سکرن ہال میں موجود تمام لوگوں کو نظر آرہی تھی۔۔۔ الہام اور احتشام کے علاوہ وہاں موجود ہر ایک کی نظریں اب اس سکرین پر تھیں۔۔ جہاں اب اربش ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ سجائے۔۔۔ فائیل اوپن کر کے انٹر کا بٹن پریس کررہی تھی۔۔ اور فائیل کھل گئ تھی۔۔ کچھ تصاویر تھیں جوکہ ایک ایک سلائیڈ میں چل رہی تھیں۔۔ الہام کی آنکھیں حیرت سے کھل گئ تھیں۔۔۔ احتشام کی حالت بھی کچھ ایسی ہی تھی۔۔ عرش اور ڈاکٹر پارسا اپنی اپنی جگہ سن ہوگئے تھے۔۔ اور مہمانوں کے درمیان اب چہہ مگوئیاں شروع ہوئی تھیں۔۔۔ یہ ان سب کی آنکھیں کیا دیکھ رہی تھیں ؟ یہ کیسا دھوکہ تھا ؟ یہ کیسی کہانی تھی۔۔ جو وہ تصاویر بیان کر رہی تھیں ؟؟
’’ ایک ریسٹورانٹ میں ہاتھ میں ہاتھ ڈالے بیٹھے احتشام اور الہام ۔۔!
’’ سمندر کنارے احتشام کے کاندھے پر سر رکھے بیٹھی الہام ۔۔۔!
’’ لاونچ کی سیڑھیوں پر بیٹھی الہام اور اس کے اوپر دیوار پر ہاتھ رکھتے جھکا ہوا احتشام ۔۔۔!
’’ الہام کے روم کے بیڈ ہر نہایت نامناسب انداز میں بیٹھے احتشام اور الہام ۔۔!
’’ شاپنگ سینٹر میں الہام کا ہاتھ تھامے آگے بڑھتا احتشام ۔۔۔!
اور آگے آنے والی تصاویر بے شرمی اور بے حیائی کے سارے ریکارڈ توڑ گئ تھیں۔۔ احتشام کا خون کھولا تھا۔۔ وہ تیزی سے آگے بڑھا ۔۔ اور لیپ ٹاپ اٹھا کر پوری قوت سے زمین پر پھینکا تھا۔۔ یو۔ایس۔بی نکل کر کسی کے قدموں کے پاس جاگری تھی۔۔۔
’’ کیا بکواس ہے یہ ؟ یہ سب جھوٹ ہے۔۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔۔ میری بہن ہے یہ۔۔ سنا سب نے۔۔ بہن ہے وہ میری ’’ وہ جنونی انداز میں چیخ کر بولا تھا۔۔ اسکے دماغ میں ٹیس اٹھ رہی تھی۔۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے ابھی دماغ پھٹ جائے گا۔۔
’’ پاپا ’’ الہام بھاگتی ہوئی پاپا کے پاس گئ تھی۔۔
’’ پاپا آپ میرا یقین کریں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔۔ یہ سب جھوٹ ہے پاپا۔۔۔ پلیز میرا یقین کریں ’’ وہ پاپا کا بازوں تھامے روتے ہوئے کہہ رہی تھی۔۔ مگر پاپا سن کھڑے تھے۔۔ جیسے انہیں اسکی کوئی آواز نہیں آرہی تھی۔۔ انہیں تو بس آس پاس کے لوگوں کی آواز آرہی تھی۔۔
’’ کتنی بے شرم لڑکی ہے یہ ۔۔۔
’’ بھائی بہن کے نام پر کیا کارنامے کرتی رہی ہے ۔۔۔
’’ توبہ توبہ ۔۔ بہن بھائی کے رشتے کا مزاق بنا کر رکھ دیا ۔۔۔
’’ ایسی اولاد سے تو اچھا ہے بندہ بے اولاد ہی رہے ۔۔۔
’’ میری بیٹی ہوتی تو دکھے مار کر گھر سے نکال دیتی میں ۔۔۔
’’ اور میں تو قتل کر دیتا اسے ۔۔
ہر طرف سے بس یہی آوازیں انکے کانوں تک آہی تھیں۔۔ اور الہام کی آواز کہیں دب گئ تھی۔۔ الہام شاید خود بھی کہیں دب چکی تھی ۔۔۔
’’ پاپا۔۔ میرا یقین کریں۔۔ پلیز ’’ الہام کہہ رہی تھی اور اسی پل عائشہ آگے بڑھی تھی۔۔ اسکا بازو پکڑ کر اسے اپنی طرف گمایا تھا۔۔ اور ایک تھپڑ تھا ۔۔ جو اسکے چہرے پر پڑا تھا ۔۔۔
الہام نے دیکھا تھا اور اسکی آنکھیں حیرت سے کھل گئ تھیں۔۔ مگر یہ حیرت نہ تو ماما کو دیکھ کر ہوئی تھی۔۔ نہ ہی انکے تھپڑ پر ۔۔۔ بلکہ یہ حیرت تو ماما کے پیچھے کھڑے اس انسان کو دیکھ کر ہوئی تھی۔۔۔ جس نے اسے عرش پر پہنچایا تھا۔۔ اور آج ۔۔ وہ اسے۔۔ اسی عرش سے زمین پر منہ کے بل گرتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔۔۔ اسے لگا ۔۔ آج اسکے پاس عزت نامی کوئی چیز نہیں رہی تھی۔۔ اسے لگا۔۔ وہ جیسے اپنے دل کے سامنے بے عزت ہوئی تھی۔۔ اسے لگا ۔۔ وہ جیسے اپنے دل کی نظروں سے گر گئی تھی ۔۔
’’ شرم آنی چاہئے تمہیں یہ سب کرتے ہوئے ۔۔۔ بھائی بھائی کے کھیل کہ پیچھے تم یہ کھیل کھیلتی رہی تھی۔۔ ایک بار بھی نہیں سوچا اپنے پاپا کی عزت کےبارے میں۔۔ ارے اگر اتنا ہی پسند تھا یہ۔۔ تو مجھے کہتی۔۔ میں خود تمہیں اس سے بیادیتئ۔۔ اس قسم کا گھٹیا کھیل کھیلنے کی کیا ضرورت تھی ؟ ’’ ماما اس پر برس پڑی تھیں اور اس نے پاپا کی طرف دیکھا تھا۔۔ جو سر جھکائے کھڑے تھے۔۔
’’ پاپا۔۔ میں نے کچھ نہیں کیا ’’ اس نے دوبارہ پاپا سے کہا تھا۔۔ اسے لگا ۔۔ اسکی آواز اب اسے خود بھی سنائی نہیں دے رہی تھی ۔۔۔
’’ خبردار جو تم نے مجھے اپنا پاپا کہا ۔۔۔ مر گیا تمہارا پاپا ۔۔۔ شرم آتی ہے مجھے تمہیں اپنی بیٹی کہتے ہوئے۔۔ مر گئ آج میری بیٹی ’’ پاپا نے اسے پیچھے دھکیلا تھا وہ حیرت سے انہیں دیکھ رہی تھی۔۔ یہ اسکے پاپا نہیں تھے ۔۔ پاپا تو کبھی اس سے اس طرح بات نہیں کرتے تھے۔۔ وہ تو جانتے تھے اسے۔۔۔ پھر آج وہ کیوں اسے جان نہیں پارہے تھے ؟ احتشام سے اب مزید برداشت نہیں ہورہا تھا۔۔
’’ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں انکل۔۔۔ یہ سب جھوٹ ہے ۔۔ الہام اور میرے بیچ ایسا کچھ نہیں ہے۔۔ یہ بہن ہے میری۔۔ میں کیسے اس کے ساتھ ایسا کر سکتا ہوں؟ ’’ احتشام اب انہیں یقین دلانا چاہا تھا۔۔ مگر جیسے کچھ اثر نہیں ہورہا تھا۔۔ جیسے کوئی کچھ سننے کو تیار نہیں تھا ۔۔
’’ ماما پلیز۔۔ سب لوگ باتیں کر رہے ہیں۔۔ اب جلدی سے بات ختم کریں بہت بدنامی ہورہی ہے ’’ اب کی بار اربش بولی تھی۔۔
’’ بدنامی تو ہوگی ۔۔ جب بہن بھائی کی آڑ میں اس طرح کے فعل انجام دیئے جائینگے۔۔۔ تو بدنامی تو ہونی تھی اور ہم تو بدنام ہوچکے ہیں اب ’’ وہ اب اپنا سر پکڑ کر روتے ہوئے بولی تھیں۔۔
’’ آنٹی پلیز میں آپکی عزت کرتا ہوں اور اچھا یہی ہوگا کہ آپ مجھے بھی کرنے دیں۔۔۔ کیونکہ الہام کے کردار پر کوئی چھینٹ بھی برداشت نہیں کرونگا میں ’’ احتشام نے غصے سے کہا تھا۔۔ اس سے اپنے اور الہام کے بارے میں اس طرح کی باتیں برداشت نہیں ہورہی تھیں۔۔
’’ اگر اتنا ہی خیال تھا اسکی عزت کا تو کیوں رچایا یہ کھیل ؟ دنیا کے سامنے بہن اور اکیلے میں محبوبہ ۔۔۔۔ ’’
’’ آنٹی پلیز ۔۔ زبان سنبھال کر بات کریں میں ۔۔۔۔ ’’ وہ اونچی آواز میں بولا تھا۔۔ اور ناجانے آگے کیا کہنے والا تھا کہ کسی نے اسکے چہرے پر تھپڑ مارا تھا۔۔ وہ حیران ہوا تھا۔۔ یہ اسکی ماما تھی۔۔
’’ ماما آپ۔۔۔ ؟ ’’
’’ تم اس حد تک گر جاؤگے۔۔۔ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔۔ میرا مان۔۔ میرا بھروسہ۔۔۔ میرا فخر۔۔۔ سب ختم کر دیا تم نے احتشام ۔۔۔ کچھ نہیں چھوڑا تم نے میرے پاس۔۔۔ مجھے بے اولاد کر دیا تم نے ،۔۔۔ میں تمہیں کبھی معاف نہیں کرونگی۔۔ کبھی نہیں ۔۔ ’’ وہ کہہ کر ایجاز صاحب کی طرف پلٹی تھیں۔۔
’’ تم نے مجھے اور میرے بھائی کو کسی قابل نہیں چھوڑا ۔۔۔ آج اس پوری دنیا کے سامنے میرا بھائی سر جھکائے کھڑا ہے۔۔ صرف تم دونوں کی وجہ سے ۔۔۔’’ انکی آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے اور احتشام اپنی جگہ جم سا گیا تھا۔۔ وہ اسکی ماں تھیں۔۔ اور وہ ہی اس پر اعتبار نہیں کر رہی تھیں۔۔ کسی اور سے وہ کیا کہتا اب ؟ وہ کچھ کہنے کے قابل ہی نہیں رہا تھا۔۔ سامنے کھڑی الہام کی بھی ایسی ہی حالت تھی ۔۔ آج تو جیسے کوئی بھی انکے ساتھ نہیں تھا۔۔ پوری دنیا ان پر کیچڑ اچھالنے کو تیار تھی۔۔ اور آج وہ اس کیچڑ میں نہا رہے تھے ۔۔
’’ رابعہ۔۔ اگر تمہیں اپنی بھائی کی عزت کا اتنا ہی خیال ہے تو اب تم اپنے بیٹے کی غلطی کا کفارہ ادا کرو اور انہیں مزید شرمندگی سے بچاؤ ’’ عائشہ نے اب جیسے کوئی فیصلہ لیتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ میں نے اور الہام نے کچھ نہیں کیا اور میری ماں کوئی کفارہ ادا نہیں کرینگی ’’ احتشام نے اٹل لہجے میں کہا تھا۔۔
’’ اگر تم نے مجھے روکا۔۔ تو میں تمہاری ماں ہی نہیں رہونگی ’’ رابعہ نے اسے کہا تھا۔۔ اور احتشام خاموش ہوگیا تھا۔۔ اسکی ماما آج اسکی کوئی بات سننےکو تیار نہیں تھی۔۔۔
’’ بولو عائشہ۔۔ میں بھائی کی عزت کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوں ’’ وہ اب عائشہ کی طرف متوجہ ہوئی تھیں۔۔
’’ ان دونوں نے جو کچھ بھی کیا۔۔ اب انہیں اسکی سزا بھی ملے گی ۔۔ اور ناجائز کاموں کی سزا ہمیشہ جائز ہوتی ہے۔۔ اس لئے آج اور ابھی ان دونوں کا نکاح ہوگا ’’
یہ الفاظ نہیں تھے۔۔ کمان سے نکلےہوئے تیر تھے۔۔ جو وہاں موجود چار لوگوں کے دلوں کو چیر کر نکلے تھے۔۔
الہام نے تڑپ کر اپنے سامنے کھڑےاس شخص کو دیکھا تھا جو ناجانے کہاں گم تھا ؟ وہ اسکی طرف نہیں دیکھ رہا تھا۔۔ وہ تو احتشام کی طرف دیکھ رہا تھا ۔۔ وہ اسکی طرف کیوں نہیں دیکھ رہا تھا ؟؟ کیا وہ بھی اس سے بدگمان ہوگیا تھا ؟؟ اور وہ اسے کیوں دیکھ رہی تھی ؟؟ آخر اس نے نکاح کا سن کر سب سے پہلے اس شخص کو ہی کیوں دیکھا تھا ؟؟ وہ اس کے چہرے پر کیا دیکھنا چاہتی تھی ؟؟ وہ خود کیا چاہتی تھی اس شخص سے ؟ اسے کسی سوال کا جواب نہیں پتہ تھا وہ تو شاید سوال بھی نہیں جانتی تھی۔۔ اسے تو خود بھی اندازہ نہیں تھا کہ وہ خاموشی سے اس ایک شخص کو ناجانے کب سے دیکھ رہی ہے اور وہ شخص ؟ وہ اسے دیکھنے سے پرہیز کر رہا تھا ۔۔ ایسا کیوں تھا ؟؟ وہ آج اسے کیوں نہیں دیکھ رہا تھا ۔۔ آج جب اسکے دیکھنے کی سب سے زیادہ ضرورت تھی ۔۔
پارسا نے تڑپ کر احتشام کی جانب دیکھا تھا ۔۔ جو حیرانگی کی آخری حد پر کھڑا ۔۔ سامنے کھڑی اپنی ماں کی جانب دیکھ رہا تھا۔۔ اسے تکلیف پہنچی تھی ۔۔ محبت محبوب کی رسوائی برداشت نہیں کر پاتی ۔۔ اور آج اسکی محبت اسکے سامنے رسوا ہورہی تھی ۔۔ اور یہ زخم پارسا کی روح پر لگ رہے تھے ۔۔۔
’’ یہ آپ کیسی باتیں کر رہی ہیں ؟ میں کوئی نکاح نہیں کرونگا ’’ احتشام نے صاف انکار کیا تھا۔۔ مگر شاید آج اسکے کسی اقرار یا انکار سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑھنے والا تھا۔۔
’’ مجھے منظور ہے ’’ رابعہ پھوپھو کی آواز نے اسے انکی طرف متوجہ کیا تھا۔۔
’’ پھوپھو یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں ؟ آپ جانتئ ہیں مجھے میں ایسی نہیں ہوں۔۔ آپکی تو بیٹی ہونا میں پھوپھو ؟؟ احتشام بھائی سے نکاح ۔۔۔ میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتی ۔۔ پلیز پھوپھو ۔۔ ایسا مت کریں میرے ساتھ۔۔ پلیز ۔۔۔ ’’ وہ اب باقاعدہ انکے پیروں پر گری تھی۔۔ آنسو روانی سے اسکی آنکھوں سے نکل رہے تھے۔۔ کوئی تھا ۔۔ کوئی تھا جو اسکے آنسوؤ سے تڑپ رہا تھا ۔۔۔ کسی کو اسکا اس طرح سے کسی کے قدموں میں جھکنا اچھا نہیں لگا تھا۔۔ وہ اسے روکنا چاہتا تھا ۔۔ وہ اسے سنبھالنا چاہتا تھا ۔۔ مگر قدم آگے بڑھ نہیں رہے تھے ۔۔۔ قدم جیسے زمین میں دھنس گئے تھے ۔۔ وہ ہل نہیں پارہا تھا ۔۔۔وہ رک گیا تھا ۔۔!!
احتشام نے اسے کاندھوں سے پکڑ کر اوپر اٹھایا تھا۔۔
’’ یہ تم کیا کر رہی ہو ؟؟ میں تمہارے ساتھ ہوں۔۔ ہمارے ساتھ کوئی زبردستی نہیں کر سکتا ۔۔ سن لیں آپ سب ’’ احتشام نے عائشہ آنٹی کی طرف دیکھ کر کہا تھا۔۔ کچھ ہی فاصلے پر موجود ڈاکٹر پارسا نے دیکھا تھا ۔۔ یہ وہ شخص نہیں تھا۔۔ جسے وہ جانتی تھی۔۔ یہ کوئی اور تھا ۔۔ یہ احتشام نہیں تھا۔۔۔وہ تو کبھی کسی سے اونچی آواز میں بات نہیں کرتا تھا ۔۔ اسے تو کبھی غصہ نہیں آتا تھا ۔۔۔ اس نے آج تک اسے صرف مسکراتے ہوئے دیکھا تھا ۔۔۔ اسکی آنکھوں میں روشنی دیکھی تھی ۔۔۔ مگر آج ؟؟ آج یہ کیا ہوا تھا اسے ۔۔۔ وہ اسکی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی ۔۔۔ وہاں ایک تپش تھی ۔۔۔ وہاں اب بھی روشنی تھی ۔۔ مگر زندگی کی نہیں ۔۔ بھڑکتے ہوئے شعلوں کی۔۔ ایسے شعلے جن کی تپش وہ خود تک محسوس کر رہی تھی۔۔۔
’’ اگر تم نے آج اور ابھی نکاح نہیں کیا ۔۔ تو میں۔۔ آج اور اسی وقت ۔۔ ان سب کے سامنے تم سے اپنا ہر تعلق ختم کر دونگی ۔۔ میری میت کو کاندھا دینا تو دور ۔۔۔ اسے دیکھنے کی بھی اجازت نہیں ہوگی تمہیں ’’ رابعہ پھوپھو نے کہا تھا اور الہام نے انہیں چونک کر دیکھا تھا ۔۔۔ یہ وہ کیا کہہ رہی تھیں ؟ وہ ایسا کیسے کہہ سکتی تھیں ؟؟
’’ یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں ماما ؟؟ ’’ احتشام کی آواز میں اب کوئی مضبوطی نہیں تھی۔۔ اسکی آواز کانپ رہی تھی ۔۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اسکی ماں اسکے ساتھ ایسا کرے گی ۔۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔۔ کہ اسکی ماں بھی اسی دنیا کا حصہ بن جائے گی ۔۔۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اسکی ماں۔۔ اسکے کردار سے منہ موڑ لے گی ۔۔۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اسکی ماں ۔۔۔؟؟ اسکی ماں اسکے پاک رشتے کا مزاق بنانے میں سب کےساتھ شریک ہوگی ۔۔۔ مگر جو اسنے سوچا بھی نہیں تھا۔۔ وہ ہوچکا تھا ۔۔۔ اور اب سب ختم ہوچکا تھا ۔۔ اب کچھ نہیں رہا تھا ۔۔
’’ قاضی صاحب ۔۔’’ رابعہ نے سٹیج کے پاس کھڑے قاضی صاحب کو متوجہ کیا تھا۔۔
’’ نکاح شروع کریں ’’
’’ پاپا ’’ الہام نے ایک امید۔۔ ایک آخری امید۔۔ سے پاپا کو بلایا تھا۔۔ جنہوں سے اسے دیکھا تھا۔۔ اور قاضی صاحب کو اجازت دی تھی۔۔
انکے پاس کہنے کو کچھ نہیں بچا تھا۔۔ وہ دونوں ہار گئے تھے ۔۔ اور یہ دنیا جیت گئ تھی ۔۔۔
قاضی نے نکاح پڑھنا شروع کیا تھا۔۔ اور کوئی تھا ۔۔ کوئی تھا جو رخ پھیر گیا تھا ۔۔۔ الہام نے دیکھا تھا ۔۔۔ وہ شخص منہ موڑے کھڑا ہوگیا تھا ۔۔ اسے لگا کہ جیسے اس نے ہمیشہ کے لئے اس سے پیٹ پھیر دی ہو ۔۔۔ اسے لگا۔۔ کہ اسکے دل نے اس سے منہ موڑ لیا ہو ۔۔ اس نے نظریں جھکا لی تھیں ۔۔اور اسکی گردن اقرار میں ہلی تھی۔۔۔
کسی کی آنکھیں ضبط سے لال ہورہی تھیں ۔۔۔ کوئی منہ پھیرے بھی۔۔ اسکا اقرار دیکھ سکتا تھا ۔۔۔ قاضی نے دو بار مزید ایک سوال کیا تھا ۔۔۔اسے لگا۔۔ کوئی صور تھا ۔۔ جو وہ پھونک رہا تھا ۔۔ اور اس صور کی آواز ۔۔ صرف وہ چار لوگ ہی سن سکتے تھے۔۔
اب احتشام سے سوال ہورہا تھا ۔۔ ڈاکٹر پارسا نے آنکھیں بند کی تھیں۔۔۔ یہ صور جسم سے روح نکال رہا تھا ۔۔ تکلیف کی شدت بڑھتی جارہی تھی۔۔ سوال دوبارہ ہوا تھا ۔۔ درد مزید بڑھا تھا ۔۔۔سوال دوبارہ ہوا تھا ۔۔۔اور سامنے کھڑے شخص کا بھیگا چہرہ کوئی دیکھ نہیں سکا تھا۔۔ وہ شخص تیزی سے باہر کی جانب بڑھا تھا ۔۔۔کسی کی نظریں اسکی پشت پر تھیں ۔۔وہ محسوس کر رہا تھا ۔۔ وہ ہال سے باہر نکلا تھا ۔۔ ڈاکٹر پارسا نے آنکھیں کھولی تھیں۔۔صور پھونکا جاچکا تھا ۔۔۔ قیامت آگئ تھی۔۔۔ سب تباہ ہوگیا تھا ۔۔ سب ختم ہوگیا تھا ۔۔۔ سب پرائے ہوگئے تھے ۔۔ کوئی بھی نہیں بچا تھا ۔۔۔ آج چار لوگ مر گئے تھے ۔۔
’’ مبارک ہو ’’ کسی کی آواز اسے ہوش میں لائی تھی۔۔ یہ کوئی سرگوشی تھی۔۔ جو اسکے کان کے پاس ہوئی تھی۔۔
اسنے سر اٹھا کر دیکھا تھا۔۔ وہ اربش تھی ۔۔ اور اسکی آنکھوں میں چمک تھی ۔۔ اسکی مسکراہٹ معنی خیز تھی ۔۔ وہ اسکی طرف جھکی تھی۔۔
’’ تم نے سچ کہا تھا ۔۔ میں تم سے سب چھین لونگی ۔۔ اور لو۔۔ میں نے تمہاری خواہش پوری کردی ’’ وہ اوپر ہوئی تھی۔۔ اس پر ایک مسکراہٹ اچھال کر۔۔ اب وہ اس سے دور جارہی تھی ۔۔ لیکن الہام چونکی نہیں تھی ۔۔ وہ حیران نہیں تھی ۔۔
مرے ہوئے انسان کو کوئی چیز حیران نہیں کرسکتی ۔۔۔
احتشام کھڑا ہوا تھا۔۔ وہ بھی اسکے ساتھ کھڑی ہوئی تھی۔۔ احتشام نے اسکا ہاتھ پکڑا تھا۔۔ اور اب وہ سب سے مخاطب ہوا تھا۔۔
’’ آپ نے کہا کہ آپ مجھ سے تعلق ختم کردینگی ۔۔ ’’ احتشام نے رابعہ پھوپھو کی طرف دیکھ کر کہا تھا۔۔ وہاں موجود ہر شخص خاموش تھا۔۔ سب کے چہروں پر انکے لئے نفرت تھی ۔۔ حقارت تھی ۔۔ وہ بھی چہرے پر سختی لئے اسے دیکھ رہی تھیں۔۔ وہ ۔۔ جو اسکی ماں تھیں۔۔
’’ آپ نے کہا کہ آپ مجھ سے تعلق ختم کر دینگی ۔۔ اس لئے میں نے یہ نکاح کیا ۔۔۔ اب آپ مجھ سے تعلق نہیں ختم کر سکتی ماما ۔۔‘‘ وہ رکا تھا ’’ مگر آج۔۔ میں ان سب لوگوں کے سامنے۔۔ آپ سب سے تعلق ختم کرتا ہوں ۔۔’’ اس نے کہا تھا۔۔ اور وہاں موجود ہر انسان حیران ہوا تھا ۔۔ کوئی اسے ڈھیٹ سمجھ رہا تھا ۔۔ کوئی بے شرم ۔۔ کوئی دکھاوا۔۔ اور اسکے اپنے ۔۔؟؟ وہ اسے بدلحاظ سمجھ رہے تھے ۔۔۔ رابعہ اسکی ماں تھیں۔۔
مگر محبت میں جب بد گمانی آتی ہے۔۔ تو پھر محبت کہیں دور گم ہوجاتی ہے۔۔ اس وقت انکے بیٹے کے لئے بھی انکی محبت گم ہوگئ تھی۔۔
’’ آپ نے کہا کہ الہام آپ کے لئے مر گئ ہے ۔۔ ’’ اب وہ ایجاز صاحب کی طرف متوجہ ہوا تھا۔۔ جو اسے خاموشی سے سن رہے تھے ’’
آج سے الہام۔۔ آپ سب کے لئے مر گئ ہے ’’ اس نے کہا تھا اور پھر وہ الہام کا ہاتھ تھامے آگے بڑھا تھا ۔۔ وہ ایک روبوٹ کی طرح اسکے ساتھ چلتی جارہی تھی۔۔ اسے کچھ خبر نہیں تھی کہ کون اسے دیکھ رہا ہے اور کون نہیں ۔۔؟؟
مرا ہوا انسان کچھ محسوس نہیں کرتا ۔۔۔
وہ آگے بڑھ رہا تھا۔۔ اسکے قدم جتنی تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے۔۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے اپنے راستے میں آنے والی ہر چیز کو وہ آج روند دے گا ۔۔ کسی میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اسکے راستے میں آسکتا ۔۔وہ آگے بڑھتا جارہا تھا ۔۔ سب اسے جاتے دیکھ رہے تھے۔۔ آج وہ دونوں ان کی زندگیوں سے جارہے تھے ۔۔یا شاید۔۔ وہ جاچکے تھے۔