قسط 6 (پارٹ 2)
وہ اسے لے کر ایک ہوٹل میں آیا تھا ۔۔ اس نے دو روم بک کروائے تھے۔۔ اور اسے اس کے روم میں چھوڑ کر خود وہ اب دوبارہ باہر آیا تھا۔۔۔ گاڑی میں بیٹھ کر اسنے گاڑی چلائی تھی۔۔ اور تیز رفتاری سے وہ آگے بڑھ گیا تھا ۔۔
کوئی اور گاڑی بھی تھی ۔۔ جو اسکی گاڑی کے پیچھے چلی تھی ۔۔۔ کوئی تھا ۔۔ جو اسکے آس پاس رہنا چاہتا تھا ۔۔ جس سے وہ انجان تھا۔۔
وہ نہیں جانتا تھا کہ وہ کہاں جارہا ہے ؟ وہ کچھ نہیں جانتا تھا ۔۔ دل اور دماغ دونوں جیسے سن ہوگئے تھے ۔۔ صرف چند لمحوں نے اسکی زندگی سے سب کچھ چھین لیا تھا ۔۔۔ آج وہ احتشام۔۔ جس کے پاس محبت کرنے والے رشتے تھے ۔۔ آج اس احتشام کے پاس کچھ نہیں بچا تھا ۔۔ اسکے رشتے ۔۔ اسکی عزت ۔۔ اسکا مقام ۔۔ ؟؟ سب ختم ہوگیا تھا۔۔
اس نے گاڑی ایک خالی سڑک پر روکی تھی ۔۔۔ وہ باہر نکلا تھا اور چلتا ہوا گاڑی کے سامنے آیا تھا اور ایک دم ہی گرنے کے انداز میں زمین پر بیٹھ گیا تھا ۔۔۔
ایک آنسو تھا۔۔ جو اسکی آنکھ سے آزاد ہوا تھا۔۔ جسے ناجانے کب سے اسنے روک کر رکھا تھا ۔۔ اور اب آہستہ آہستہ جانے کتنے ہی آنسو اسکی آنکھوں سے نکلے تھے ۔۔۔ اس نے آنکھیں بند کی تھیں۔۔ آس پاس کی ساری آوازیں اب بند ہوگئ تھیں۔۔ اور دماغ کی سکرین پر ایک فلم چل رہی تھی ۔۔۔
وہ لیپ ٹاپ کی تصاویر ۔۔ لوگوں کی نظریں اور سرگوشیاں ۔۔ وہ الہام کے چہرے پر پڑنے والا تھپڑ۔۔ انکے پاک رشتے پر لگائے گئے الزامات ۔۔ اسکی ماما کا تھپڑ ۔۔۔ الہام کا انکل کے پیروں پر گرنا ۔۔۔ اور پھر ۔۔؟ وہ نکاح ۔۔؟؟
یک دم اسنے آنکھیں کھولی تھیں ۔۔ ایک خوف نے اسے گھیرا تھا ۔۔ ان تمام مناظڑ میں سب سے بھیانک منظر کونسا تھا ؟؟ ہاں ۔۔ وہ ایک نکاح۔! وہی تھا۔۔ سب سے خوفناک منظر۔۔ وہی تھا۔۔ سب سے بڑا ظلم ۔۔!!
وہ ہوٹل کے اس کمرے میں اکیلی بیٹھی تھی ۔۔ اور آنکھوں سے آنسوؤں کا ایک قطرہ بھی نہیں گرا تھا ۔۔ایسا لگتا تھا کہ آنسو آنکھوں میں جم گئے ہوں ۔۔ ۔ چہرے پر کسی قسم کے کوئی تعصورات نہیں تھے۔۔ وہ ایک پتھر کی مورت بنی زمین پر بیڈ سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی ۔۔ نظریں سامنے دیوار پر جمی تھی ۔۔ دل اور دماغ سوچوں سے خالی تھا ۔۔ کوئی یاد۔۔ کوئی بات ۔۔ کوئی چہرہ بھی دماغ کی سکرین پر روشن نہیں ہوا تھا ۔۔ ہر طرف جیسے اندھیرا ہی اندھیرا تھا ۔۔اسے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا ۔۔۔ اسے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔۔۔ اسے احساس تک نہیں ہورہا تھا ۔۔ وقت کا ۔۔ وقت کے گزرنے کا۔۔۔
اس نے اپنی گاڑی ایک بنگلے کے آگے روکی تھی ۔۔ اور اب تیز تیز قدم اٹھاتا۔۔ وہ دروازے تک پہنچا تھا۔۔ گارڈ اسے پہچانتا تھا ۔۔ شاید اسی لئے اس نے اسکے لئے دروازہ کھول دیا تھا۔۔ اندر لان کے درمیان بنے راستے سے تیزی سے گزرتے ہوئے وہ ایک اور دروازے کے ذریعے گھر کے اندر داخل ہوا تھا۔۔ اور اب وہ لاونج کی سیڑھیاں تیزی سے چھڑتے ہوئے ایک کمرے کے آگے رکا تھا۔۔ اس نے لاک گما کر کمرے کا دروازہ کھولا تھا ۔۔ اور وہ اس کمرے کے اندر داخل ہوا تھا۔۔
وہ کمرہ خالی تھا ۔۔وہ تیزی سے ڈریسنگ ٹیبل کے آگے کھڑا ہوا تھا ۔۔ اس نے آئینے میں دیکھا ۔۔ اسکی آنکھیں ضبط سے لال تھیں ۔۔ اچانک آئینے میں سے اسکا عکس غائب ہوا تھا ۔۔۔ اس نے دیکھا ۔۔ سامنے آئینے میں الہام تھی ۔۔ وہ کسی کے قدموں میں گری تھی ۔۔ وہ رو رہی تھی ۔۔ منتیں کر رہی تھی ۔۔
منظر بدلا تھا ۔۔ اس نے دیکھا لیپ ٹاپ پر کچھ تصاویر چل رہی تھیں ۔۔ لوگ کچھ باتیں کر رہے تھے ۔۔
منظر پھر بدلا تھا ۔۔ اس نے دیکھا وہ سٹیج پر احتشام کے ساتھ بیٹھی تھی ۔۔ اس میں ہمت نہیں تھی ۔۔ یہ منظر دیکھنے کی ۔۔ اس نے منہ موڑ لیا تھا ۔۔ مگر وہ دیکھ سکتا تھا ۔۔ وہ سن سکتا تھا ۔۔ قاضی کے سوالات ۔۔ ان کے جوابات ۔۔
منظر بدلا تھا ۔۔ اس نے دیکھا ۔۔ الہام کے چہرے پرکسی نےتھپڑ مارا تھا ۔۔۔
اس کا ضبط اب ختم ہوا تھا ۔۔ اچانک وہ چیخا تھا ۔۔ اس نے ڈریسنگ ٹیبل کی ساری چیزیں ہاتھ مار کر گرا دیں تھیں۔۔ ماحول میں چیزیں ٹوٹنے کی آوازیں آرہی تھی ۔۔ اب وہ اس کمرے میں موجود ایک ایک چیز اٹھا کر پھینک رہا تھا ۔۔ وہ چیخ رہا تھا ۔۔ وہ کچھ کہہ رہا تھا ۔۔۔
’’ تہمت ‘‘ اس نے کہتے ساتھ میز پر رکھا گلدان اٹھا کر ڈریسنگ ٹیبل کے شیشے پر مارا تھا ۔۔ کانچ کی آواز نے پورے ماحول کو خوفناک بنا دیا تھا ۔۔ اور یہی آواز تھی ۔۔ جس نے باہر سیڑھیوں سے اوپر آتے معاذ کو اس کمرے کی جانب بھاگنے پر مجبور کیا تھا ۔۔۔ وہ تیزی سے بھاگ کر اس کمرے میں آیا تھا ۔۔ اور وہ رک گیا تھا ۔۔۔ اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔۔ عرش جنونی ہورہا تھا ۔۔ وہ کمرے کی ایک ایک چیز اٹھا کرپھینک رہا تھا ۔۔
’’ یہ تم کیا کر رہے ہو ؟؟ ’’ معاذ نے اسکے جاکر پکڑا تھا ۔۔ وہ اپنے ہوش میں نہیں تھا ۔۔
’’ تہمت ’’ وہ بس ایک لفظ دہرا رہا تھا ۔۔
’’ کیا ہوا ہے عرش ۔۔ سنبھالوں خود کو ’’ اس نے اسے بیڈ پر بٹھانا چاہا تھا ۔۔ مگر عرش نے بیڈ کے اوپر رکھا کمبل اور تکیے اٹھا کر سامنے دیوار پر مارے تھے ۔۔
’’ تہمت ہے یہ ۔۔ ایک معصوم پر تہمت ۔۔۔ گناہ ہے یہ ۔۔ تہمت ہے ’’ وہ مسلسل چیخ رہا تھا۔۔۔ معاذ کو اسکی ذہنی حالت پر شک ہورہا تھا ۔۔ جانے ایسا کونسا شاک لگا تھا اسے ۔۔ وہ اب اسے بازؤں سے پکڑ کر کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہا تھا ۔۔۔
’’ عرش ۔۔۔ رک جاؤ ۔۔ کیا کر رہے ہو تم ’’ اس نے کھینچتا ہوا وہ اس کمرے سے اپنے کمرے میں لے کر آیا تھا ۔۔
اس نےاسے صوفے پر بٹھایا تھا ۔۔ وہ اب بھی کہہ رہا تھا ۔۔ اپنے بال ہاتھوں میں جکڑے ۔۔
’’ تہمت ہے یہ ۔۔ ظلم ہے ۔۔ گناہ ہے ’’ وہ بڑبڑا رہا تھا ۔۔۔ اسکی آواز پر دھیمی ضرور تھی ۔۔ مگر اسکی حالت اب بھی نارمل نہیں تھی ۔۔
’’ یہ پیو ’’ پانی کا ٹھنڈا گلاس اسکی جانب بڑھاتے ہوئے معاذ نے کہا تھا ۔۔۔ اس نے سر اٹھا کر دیکھا ۔۔۔
’’ لو ۔۔ اور اپنے آپ کو ریلیکس کرو ۔۔ اس طرح کرنے سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا اور یہ تم جانتے ہو ’’ وہ اس سے کہہ رہا تھا ۔۔ وہ صاف صاف دیکھ سکتا تھا ۔۔ عرش کی آنکھوں کی سرخی ۔۔ معاذ اندر سے خوفزدہ تھا ۔۔ اسے اس حالت سے خوف آرہا تھا ۔۔جانے ایسا کیا ہوا تھا کہ عرش اتنا جنونی ہوگیا تھا ۔۔
عرش نے اس کے ہاتھ سے گلاس لیا ۔۔ اور تین گھونٹ لے کر اسے سائیڈ پر رکھ دیا تھا ۔۔ معاذ اب اسکے سامنے بیٹھا تھا۔۔
’’ اب بتاؤ ۔۔ کیا ہوا ہے ؟؟ ’’ اس نے پوچھا تھا ۔۔
’’ گناہ ۔۔۔ ظلم ہوا ہے ’’ عرش نے جواب دیا تھا ۔۔
’’ کس پر ؟؟ کیسا گناہ ؟ کیا کہہ رہے ہو تم ؟ ’’ اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے ؟ وہ کس گناہ کی بات کر رہا ہے ؟
’’ ایک معصوم لڑکی پر ۔۔۔ ایک باکردار لڑکی پر ۔۔ ایک مسلمان عورت پر ۔۔ ظلم ہوا ہے ۔۔ گناہ ہوا ہے یہ۔۔۔ ایک معصوم پر تہمت لگائی گئ ہے معاذ ۔۔۔ ایک باکردار لڑکی کا کردار اچھالا گیا ہے ۔۔ ایک پاک رشتے پر ناپاک کیچڑ پھینکا گیا ہے ۔۔۔ گناہ ہوا ہے معاذ ۔۔ کبیرہ گناہ ہوا ہے ۔ ظلم ہوا ہے یہ ۔۔۔ ظلم ہوا ہے ’’ وہ اپنےبال پکڑے کہہ رہا تھا ۔۔ اور معاذ اب بھی الجھا تھا ۔۔
’’ تم ۔۔ تم تو الہام کے بھائی کی شادی میں گئے تھے ۔۔ پھر کیا ہوا ؟ ’’ اچانک اسکے دماغ میں آیا تھا ۔۔۔ کہی وہ الہام کی بات تو نہیں کررہا۔۔
’’ ہاں ۔۔۔ اسکے بھائی کی شادی پر گیا تھا ’’ وہ ہنسا تھا ۔۔ یہ ایک نارمل ہنسی نہیں تھی ۔۔ اس ہنسی میں کچھ تھا ۔۔ جو خطرناک تھا ۔۔
’’ پھر ؟ ’’ اسکی خاموشی پر اس نے پوچھا تھا۔۔
’’ اسکے بھائی کی شادی پر گیا تھا ۔۔ اسکی شادی دیکھ کر آگیا ’’ وہ مسکرا کر کہہ رہا تھا ۔۔ اور معاذ کے سر پر بجلی گری تھی۔۔
’’ یہ کیا کہہ رہے ہو تم ’’ اسے یقین نہیں آرہا تھا۔۔ وہ یہ کیا کہہ رہا تھا ؟؟
عرش نے اسے کچھ کہا نہیں تھا ۔۔۔ اس نے اپنے کوٹ کے جیب سے ایک یو۔ایس۔بی نکال کر اسکے سامنے کی تھی ۔۔ معاذ نے کچھ بھی کہے بنا وہ یو۔ایس۔بی اسکے ہاتھ سے لی تھی ۔۔ اور اب وہ اٹھا تھا ۔۔ جبکہ عرش اب دوبارہ سر جھکائے بیٹھا تھا ۔۔۔ معاذ لیپ ٹاپ لے کر آیا تھا اور یو۔ایس۔بی اس پر لگائی تھی ۔۔ اور کچھ دیر بعد وہ تصاویر اس لیپ ٹاپ پر چلنا شروع ہوئی تھیں ۔۔ جیسے جیسے وہ ان تصاویر کو دیکھ رہا تھا ۔۔اسکی آنکھوں کی حیرت میں اضافہ ہوتا جارہا تھا ۔۔۔
’’ یہ کیا بکواس ہے ۔۔ میں مان ہی نہیں سکتا ۔۔ جھوٹ ہے یہ ’’ اس نے لیپ ٹاپ کی سکرین زور سے بند کرتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ مگر کسی اور نے نہیں مانا ۔۔۔ کسی نے نہیں مانا معاذ ’’ عرش نے سر اٹھا کر اسکی جانب دیکھا تھا ۔۔ معاذ دیکھ سکتا تھا ۔۔ اسکی آنکھوں میں ایک کرب تھا ۔۔ وہ محسوس کرسکتا تھا ۔۔ اس کرب کو ۔۔
’’ کسی نے بھی اسکی ایک نہیں سنی ۔۔ کسی نے اسکا یقین نہیں کیا ۔۔ یہ تہمت تھی ۔۔ یہ الزام تھا ۔۔ یہ کیچڑ تھا ۔۔۔ جو سب نے اس پر اچھالا ۔۔ اس کے اپنے ۔۔ پرائے ۔۔ سب نے ۔۔ کوئی کسی کے کردار ۔۔ اسکی عزت کی دھجیاں ایسے کیسے اڑا سکتا ہے ۔۔ وہ ایک باکردار لڑکی ہے ۔۔ وہ مسلمان لڑکی ہے ۔۔ اور ایک مسلمان اور باکردار لڑکی کے کردار پر کیچڑ اچھالنا۔۔۔ گناہ ہے یہ ۔۔ ظلم ہے یہ ’’ وہ کہہ رہا تھا ۔۔ اور اس کا ایک ایک لفظ صحیح تھا ۔۔
’’ میں اسے نہیں بچا سکا ۔۔ میں کچھ نہیں کرسکا ۔۔ میں نے کیوں کچھ نہیں کیا ؟؟ کیوں چپ رہا میں ؟ کیوں تماشا بنا رہا میں ؟؟ میں بھی ان میں شامل ہوگیا ۔۔ کیوں ؟؟ ’’ وہ اپنے آپ کو کوس رہا تھا ۔۔ وہ اپنے آپ کو الزام دے رہا تھا ۔۔ معاذ اسکے پاس آکر بیٹھا تھا ۔۔۔
’’ ایسا نہیں ہے عرش ۔۔۔ تم اس وقت کچھ کر نہیں سکتے تھے ۔۔ تم اگر کچھ کہتے ۔۔ کچھ کرتے ۔۔ تو لوگ اسے بھی غلط رنگ دیتے ۔۔ تمہارا خاموش رہنا ہی ٹھیک تھا ۔۔ اور میں جانتا ہوں ۔۔ وہ بھی یہی چاہتی ہوگی کہ تم خاموش رہو’’ اس نے کہا تھا ۔۔ اور اسکی بات پر عرش نے چونک کر سر اٹھایا تھا ۔۔۔
’’ وہ یہ نہیں چاہتی تھی ۔۔ میں نے محسوس کیا تھا ۔۔ اسکی نظروں کو ۔۔وہ یہ نہیں چاہتی تھی ۔۔۔ وہ مجھے دیکھ رہی تھی ۔۔ وہ مجھ سے جواب چاہتی تھی ۔۔ اسے ڈر تھا کہ میں باقی سب کی طرح تو نہیں سوچ رہا تھا ۔۔ اور میں نے اسے نہیں دیکھا معاذ ۔۔ مجھ میں ہمت نہیں تھی ۔۔ اپنی الہام کو فرش پر نہیں دیکھ سکتا تھا میں ۔۔ وہ تو عرش کے قابل ہے ’’ اس نے کہا تھا ۔۔ اور معاذ اسکی بات پر مسکرایا تھا ۔۔
’’ وہ عرش کے قابل ہے ۔۔ اور اسے فرش سے عرش پر آنا ہوگا ۔۔ ہیں نا عرش ‘’ اس نے کہاتھا ۔۔ ایک معنی خیز انداز میں ۔۔ عرش نے اسے دیکھا ۔۔ اور وہ سمجھ گیا تھا ۔۔۔ اس نے سر ہلایا تھا ۔۔
’’ ہاں ۔۔ اسے عرش پر ہی آنا ہے ۔۔ وہ عرش پر آئیگی ’’ اس نے کہا تھا ۔۔ایک مضبوط ارادے سے ۔۔
صبح کی کرنیں چاروں طرف پھیل رہیں تھیں ۔۔ ابھی سورج نہیں نکلا تھا ۔۔ یہ شاید فجر کے بعد کا وقت تھا ۔۔ ایسے میں اس سڑک پر اپنے کار کے فرنٹ سے ٹیک لگائے وہ ویسا ہی بیٹھا تھا ۔۔ اس کے نظریں آسمان پر تھیں ۔۔۔ اور اسکی نظریں پوری رات اس آسمان پر ہی رہیں تھیں ۔۔ پلکیں ایک بر بھی نہیں جھپکی تھیں ۔۔وہ ایک بت بنا بیٹھا تھا ۔۔ اسے تو شاید وقت کا بھی احساس نہیں ہوا تھا ۔۔ جانے وہ کب تک ایسا ہی بیٹھا رہتا ۔۔ پر اسے احساس ہوا تھا ۔۔ اسکے کاندھے پر کسی دباؤ کا ۔۔ اس نے محسوس کیا ۔۔ کوئی ہاتھ تھا جس نے اسکا کاندھا دبایا تھا ۔۔۔ وہ اس لمس کو نہیں پہچانتا تھا ۔۔ اور اس لمس کو جاننے کے لئے اس نے سر اٹھا کر اس ہستی کو دیکھا تھا ۔۔۔ وہ اسکی جانب جھکی ہوئی تھی ۔۔ اس کے دیکھنے پر وہ مسکرائی تھی ۔۔ مگر وہ نہیں مسکرایا تھا ۔۔ اسکی آنکھیں خالی تھیں۔۔۔
’’ چائے ’’ اس نے دوسرے ہاتھ میں پکڑا کپ اسکی جانب بڑھایا تھا ۔۔ مگر اس نے کپ تھاما نہیں تھا ۔۔ وہ بس اسے دیکھ رہاتھا ۔۔ اور شاید اب اسے پہنچان بھی چکا تھا۔۔ اس لئے آنکھوں میں حیرانگی آئی تھی ۔۔
’’ تم یہاں ؟ ’’ اس نے کہا تھا ۔۔ آواز دھیمی تھی مگر سامنے کھڑی شخصیت نے سن لیا تھا ۔۔ وہ مسکرا کر اب زمین میں اسکے برابر بیٹھی تھی ۔۔ کپ سائیڈ پر رکھا تھا ۔۔ اس صبح کی پھیلتی روشنی میں وہ دونوں سڑک پر کار سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے ۔۔
’’ نہیں ہوسکتی ؟ ’’ اس نے سوال کیا تھا ۔۔ ہونٹ پر ایک مخصوص مسکراہٹ تھی ۔۔
’’ تم کب سے یہاں ہو ؟ ’’ اس نے ایک اور سوال کیا تھا ۔۔
’’ جب سے تم ہو ’’ اس نے کہا تھا ۔۔ اور احتشام کے چہرے پر حیرانگی کے واضح تعصورات آئے تھے۔۔
’’ تم پوری رات یہاں کر رہی تھی پارسا ؟ ’’ اس نے پوچھا تھا ۔۔
’’ جو تم کر رہے تھے ’’ جواب آیا تھا ۔۔
’’ تمہیں یہاں نہیں ہونا چاہئے تھا ’’ اس نے ایک گہری سانس لے کر کہا تھا ۔۔
’’ تمہیں بھی یہاں نہیں ہونا چاہئے تھا احتشام ’’ اس نے اسے دیکھتے ہوئے کہا تھا ۔۔ جو اب آسمان کی جانب دیکھ رہا تھا۔
’’ مجھے کہاں ہونا چاہئے تھا ؟ ’’ وہ کہ رہا تھا ایسے جیسے خود سے کہہ رہا ہو ۔۔۔ ’’ مجھے نہیں معلوم پارسا ۔۔ مجھے کہاں ہونا چاہئے ؟ میں تو کہیں کا نہیں ہو ’’ اس نے اب پارسا کی جانب دیکھا تھا ۔۔ جو اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔۔
’’ تم بتاؤ ۔۔۔ مجھے کہاں ہونا چاہئے ؟؟ ’’ اس نے پوچھا تھا ۔۔ پارسا نے دیکھا ۔۔ وہ اس وقت ایک ایسا بھٹکہ ہوا انسان لگ رہا تھا ۔۔ جسے راستے نظر بھی نہیں آتے تھے ۔۔۔
’’ تمہیں اس کے پاس ہونا چاہئے احتشام ۔۔۔ اسے تمہاری ضرورت ہے ’’ اس نے آہستہ سے کہا تھا ۔۔
’’ میں اس سے سامنا نہیں کر سکتا پارسا ’’ اس نے سر جھکا کر کہا تھا ۔۔ آنسو کا ایک قطرہ اسکی آنکھ سے بہا تھا۔۔
’’ کیوں نہیں کر سکتے ؟؟ تم دونوں غلط نہیں ہو احتشام ۔۔ پھر ایک دوسرے کا سامنا کیوں نہیں کرسکتے ؟ ’’ اس نے پوچھا تھا ۔۔
’’ وہ میری بہن ہے پارسا ۔۔۔ تم جانتی ہو کہ اس قیامت نے میرے اور اسکے اس پاک رشتے کو کس موڑ پر لاکھڑا کیا ہے؟ میں اس سے کیسے نظر ملاؤ ؟ کیسے اسکا سامنا کروں میں ؟ کیسے اسے گلے لگاؤں ؟ میں کیسے اسے سنمبھالوں پارسا ’’ اس نے آسمان کی جانب دیکھا تھا ۔۔ اور پارسا اسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔ دل میں اسکے آنسو گر رہے تھے ۔۔ دل کو تکلیف ہورہی تھی۔۔ مگر وہ ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی ۔۔ وہ خاموشی سے اسے سن رہی تھی ۔۔
’’ اس سے محبت کرتا ہوں میں ’’ اس نے کہا تھا ۔۔ آنسو اسکے گالوں پر گر رہے تھے ۔۔
’’ اتنی ہی محبت جتنی دنیا کا ہر بھائی اپنی بہن سے کرتا ہے ۔۔ اسکے سامنے جاؤنگا تو اسکے سر پر ہاتھ رکھنے کا دل چاہے گا ۔۔ اس سے نظر ملاؤنگا ۔۔ تو نظر بھائی بن کر دیکھے گی اسے ۔۔ اسے سنبھالنا چاہونگا ۔۔ تو بہن کا سہارا بننا چاہونگا ۔۔ مگر اس دنیا نے اس قابل نہیں چھوڑا پارسا مجھے ۔۔ میں کیسے جاؤں اب اسکے سامنے ۔۔ میں کیسے رکھ سکونگا یہ ہاتھ اسکے سر پر ’’ اس نے اپنا سر اٹھا کر اسے دیکھتے ہوئے کہاتھا ۔۔
’’ میں تو اسے دیکھنے کے قابل بھی نہیں رہا ۔۔ میرا دل اس سے محبت کرتا ہے ۔۔ میں کیسے اب اس کے سامنے سر اٹھا سکونگا ۔۔ میری محبت کو تو سب نے داغ لگا دیا ۔۔۔ وہ میرے خون کا رشتہ نہیں ہے ۔۔ مگر وہ میری نسوں میں خون بن کر دوڑتی ہے ۔۔ میں کیسے اب اسکا سامنا کروں ۔۔ کیسے اپنی محبت اسے دوں ۔۔ میری محبت کے درمیان وہ کاغذ آگیا پارسا ۔۔ اس ایک کاغذ نے ہمارے رشتے کا احترام چھین لیا ۔۔ میں کیسے اب اسکے پاس جاؤں ۔۔ اپنی ہی نظروں سے گر گیا ہوں میں ’’ وہ کہہ رہا تھا ۔۔وہ رو رہا تھا ۔۔ کسی بچے کی طرح ۔۔۔ پارسا نے اسکے کاندھے پر ہاتھ رکھا تھا ۔۔
’’ محبت کرتے ہو تو نبھاؤ احتشام ۔۔۔ محبت سے نظر مت چراؤ ’’ اس نے کہا تھا ۔۔ اور احتشام نے اسکی جانب دیکھا تھا ۔۔ بھیگی نظروں سے ۔۔
’’ کیسے نبھاؤں ؟ اب کیسے ؟ ’’ وہ پوچھ رہا تھا ۔۔
’’ جانتے ہو دل میں کسی کی محبت کیسے آتی ہے ؟ ’’ اس نے پوچھا تھا ۔۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیا تھا ۔۔ مگر وہ اسے دیکھ رہا تھا ۔۔ سوالیاں نظروں سے ۔۔
’’ اللہ ۔۔ وہی تو ہے جو انسانوں کے دلوں میں محبت ڈالتا ہے۔۔۔ اور وہی تو ہے جو ان محبتوں کو رنگ دیتا ہے ۔۔ پاکیزہ رنگ ۔۔ ماں باپ کی صورت ، بہن بھائی کی صورت ، میاں بیوی کی صورت ، دوستوں کی صورت اور انسانیت کی صورت ۔۔ ’’ وہ کہہ رہی تھی ۔۔ اور احتشام بس اسے دیکھ رہا تھا ۔۔ اس کا ایک ایک لفظ غور سے سن رہا تھا ۔۔
’’ جس اللہ نے تمہارے دل میں کسی کی محبت ڈالی ہے ۔۔ اس محبت کی آزمائش کے وقت ۔۔ اسی سے رجوع کرو ۔۔ وہی راستہ دکھائے گا ۔۔ اس آزمائش سے نکلنے کا ۔۔ وہی تمہیں بتائے گا کہ محبت کی اس پاکیزگی کو ۔۔ پاکیزہ کیسے رکھنا ہے ؟ ’’ وہ مسکرائی تھی ۔۔ اور احتشام کو اسکے الفاظوں نے جیسے کچھ پل کے لئے کسی اور جہاں ہی پینچا دیا تھا ۔۔ وہ سن تھا ۔۔
’’ جاؤ ’’ اس نے ہاتھ اٹھا کر ایک جانب اشارہ کیا تھا ۔۔ احتشام نے دیکھا ۔۔۔ وہاں ایک مسجد تھی ۔۔
پارسا اب کھڑی ہوئی تھی۔۔ اور اپنا ہاتھ اسکی جانب بڑھایا تھا ۔۔ احتشام نے اسکے بڑھے ہوئے ہاتھ کو دیکھا ۔۔ اور پھر اگلے پل اسے تھام کر کھڑا ہوا تھا ۔۔
’’ جاکر اس سے رجوع کرو ۔۔ یقین مانو۔۔ وہاں سے واپس آؤگے تو سر اسکے علاوہ اور کسی کے آگے ۔۔ کبھی نہیں جھکے گا’’ اس نے مسکرا کر کہا تھا ۔۔اور احتشام نے سر ہلایا تھا ۔۔
’’ تم اسکے پاس جاؤ ۔۔۔ اس سے کہو۔۔ وہ بھی رجوع کرے ۔۔ وہ بھی تو مجھ جیسا ہی محسوس کر رہی ہوگی ’’ اس نے کہا تھا ۔۔ اور پارسا نے ایک گہری سانس لی تھی ۔۔
’’ میں جارہی ہوں ۔۔ ’’ اس نے کہا تھا ۔۔ اور احتشام نے اب اپنے قدم آگے بڑھائے تھے ۔۔ مسجد کی جانب جانے والی سڑک پر ۔۔
’’ احتشام ’’ وہ تھوڑا آگے ہی بڑھا تھا کہ اس کی آواز نے اسے روکا تھا ۔۔ وہ پلٹا تھا ۔۔ سوالیاں نظریں تھیں۔
’’ اس سے رجوع کرنے کے بعد ۔۔۔ دنیا کے ان اپنوں سے رجوع ضرور کرنا ’’ اس نے کہا تھا ۔۔ اور احتشام نے محسوس کیا ۔۔ کچھ تھا ۔۔ کچھ تھا اسکے الفاظوں میں ۔۔ کچھ تھا ۔۔ اسکی آنکھوں میں ۔۔ جو آج سے پہلے اس نے محسوس نہیں کیا تھا ۔۔ مگر جانے وہ کیا تھا ؟؟ وہ سمجھ نہیں پایا تھا ۔۔۔
اس نے سر ہلایا تھا ۔۔
پارسا پلٹی تھی ۔۔ اسے الہام کے پاس جانا تھا ۔۔ اسے احتشام کے رجوع کا انتظار کرنا تھا ۔۔
وہ پلٹا تھا ۔۔ اسے مسجد جانا تھا ۔۔ اللہ سے رجوع کرنے ۔۔۔
وہ اس کمرے میں اکیلی بیٹھی تھی ۔۔ ویسی تھی ۔۔ اسی بیڈ سے ٹیک لگائے ۔۔ آنکھیں اب بھی خشک تھیں ۔۔ پوری رات گزر چکی تھی ۔۔ مگر اسکے لئے تو جیسے وقت وہی ۔۔ اس رات میں ہی رک گیا تھا ۔۔۔
کمرے کے دروازے پر ناک ہوا تھا ۔۔ اور وہ جیسے ہوش میں آئی تھی۔۔ اس نے اٹھ کر دروازہ کھولا تھا ۔۔ سامنے ہی اسے ایک لڑکی مسکراتی ہوئی نظر آئی تھی ۔۔ اس نے انجان نظروں سے اسے دیکھا تھا ۔۔
’’ کیا میں اندر آسکتی ہوں الہام ؟؟ ’’ اس نے پوچھا تھا ۔۔ اور وہ خاموشی سے سامنے سے ہٹ چکی تھی ۔۔۔ اب وہ صوفے پر جاکر بیٹھ چکی تھی ۔۔۔
پارسا نے اسے دیکھا ۔۔ وہ اس وقت ویسی الہام نہیں لگ رہی تھی ۔۔ جیسا احتشام اسے بتاتا تھا ۔۔۔ وہ الہام تو کچھ اور ہی تھی ۔۔ مسکراتی ہوئی ۔۔ اور یہ الہام تو کچھ اور تھی ۔۔۔ اس کی تو آنکھیں بھی پتھر بن چکی تھیں ۔۔
’’ تم نے قرآن پڑھا ہے الہام ؟ ’’ اس نے اسکی جانب دیکھتے ہوئے سوال پوچھا تھا ۔۔ نظریں الہام پر تھیں ۔۔ اور الہام نے نظر اٹھا کر اسکی جانب دیکھا تھا ۔۔
’’ پڑھا ہے ؟ ’’ اس نے اپنا سوال دہرایا تھا ۔۔ اور الہام نے سر ہلا کر جواب دیا تھا ۔۔
’’ جانتی ہو وہ کیا کہتا ہے ؟ ’’ وہ اس اسکے بلکل سامنے کھڑی تھی ۔۔ اور الہام بس اسے دیکھ رہی تھی ۔۔
’’ وہ کہتا ہے کہ مرد اور عورت دوست نہیں ہوسکتے ۔۔ وہ کہتا ہے کہ منہ بولے رشتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔۔ منہ بولے رشتے اصل رشتے کی جگہ نہیں لے سکتے ۔۔۔ وہ نامحرم ہوتے ہیں ۔۔ وہ نامحرم ہی رہینگے ’’ پارسا نے کہا تھا ۔۔ اور جانے ان الفاظوں میں ایسا کیا تھا الہام کی روح کانپ گئ تھی۔۔ وہ بے اختیار کھڑی ہوئی تھی ۔۔ اسکی آنکھیں مکمل کھل گئیں تھیں ۔۔۔ وہ حیرت زدہ تھی ۔۔ یہ سامنے کھڑی لڑکی کیا کہہ رہی تھی ۔۔
’’ وہ اجازت نہیں دیتا ۔۔ منہ بولے رشتوں کو محرم سمجھنے کی ’’ اس نے مزید کہا تھا ۔۔ وہ اب خاموش تھی ۔۔ مگر ان دونوں کے بیچ کوئی خاموشی نہیں تھی ۔۔۔ الہام کے چہرے کے رنگ بدل رہے تھے ۔۔ آنکھوں میں اب کرب تھا ۔۔ پر اس کرب کی وجہ اب بدل چکی تھی ۔۔ اسے لگا جیسے کسی نے اچانک ہی اسکے سامنے آئینہ رکھ دیا ہو ۔۔
’’ تو ۔۔۔ ’’ الہام نے کہا تھا ۔۔ اسکی آواز بھیگی ہوئی تھی ۔۔ آنکھوں میں نمی آئی تھی ۔۔۔ وہ آنسوں جو پوری رات بہنے سے انکاری تھے ۔۔ وہ اب بہنے کو تیار تھے ۔ ’’ تو میں گنہگار ہوں ؟؟ ’’ اس نے سوال کیا تھا ۔۔ پارسا نے محسوس کیا ۔۔ وہ اس سے نہیں ۔۔ اپنے آپ سے سوال کر رہی تھی ۔۔۔
’’ میں نے کوئی حدود پار نہیں کی تھی ۔۔ میرے دل میں ان کے محبت تھی ۔۔ تب سے ۔۔ جب میں ایک چھوٹی سی بچی تھی ۔۔ میں انہیں محرم نہیں کہتی ۔۔ مگر میں انہیں بھائی ضرور کہتی تھی ۔۔ میری محبت کا رنگ وہی تھا ۔۔ جو اس دنیا کی ہر بہن کا ہوتا ہے ۔۔ مگر میں نے کبھی سوچا ہی نہیں ’’ اس کے چہرے کا رنگ بدلا تھا ۔۔ جیسے آگاہی ہوجانے پر بدل جاتا ہے ۔۔
’’ میں نے تو کبھی سوچا ہی نہیں تھا کہ وہ میرے محرم نہیں ہے ۔۔۔ میں نے تو کبھی سوچا ہی نہیں کہ ہمارے درمیان خون کا کوئی رشتہ نہیں ہے ۔۔ میں نے تو کبھی سوچا ہی نہیں کہ ۔۔۔ ’’ وہ رکی تھی ۔۔ اس نے پارسا کی جانب دیکھا تھا ۔۔ جو اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔۔ ’’ کہ خدا کیا سوچتا ہے ؟ اسکی نظر میں یہ رشتہ کیا ہے ؟ میں نے سوچا ہی نہیں کبھی کہ وہ کیا چاہتا ہے ؟ اس نے کس سے روکا ہے ؟ ’’ وہ صوفے پر گرنے کے انداز میں بیٹھی تھی ۔۔ اس نے اپنے بال ہاتھوں میں جکڑے تھے ۔۔
’’ میں نے کبھی سوچا ہی نہیں کہ کیا یہ رشتہ قابلِ قبول ہے ؟ کیا خدا اسے قبول کرتا ہے ؟ ’’ اس نے سر اٹھایا تھا ۔۔
’’ اسی کی سزا ملی ہے مجھے ۔۔ ہاں ۔۔ اسی کی سزا ملی ہے مجھے ’’ وہ اب رونے لگی تھی ۔۔ کمرے میں مکمل خاموشی تھی ۔۔ اور اگر اس کے علاوہ کچھ تھا ۔۔ تو بس اسکی ہچکیوں ۔۔ اسکی آہوں کی آوازیں تھیں ۔۔۔
’’ اور بے شک وہ نیتیں جاننے والا ہے ۔۔’’ پارسا کی آواز نے اسے چونکایا تھا ۔۔
’’ بے شک اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ۔۔‘‘ وہ مزید کہہ رہی تھی ۔۔ اور وہ حیرت زدہ نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔
’’ بے شک وہ ہماری شاہ رگ سے زیادہ قریب ہے ’’ وہ مسکرا کر کہہ رہی تھی ۔۔ الہام کے چہرے کے تعصورات بدلے تھے۔۔
’’ بے شک وہ دلوں کے حال جانتا ہے ’’ وہ کہہ کر الہام کے پاس گٹنوں کے بل بیٹھی تھی ۔۔۔ آنکھیں مسکرا رہی تھیں۔۔ نظریں الہام کے حیرت زدہ چہرے پر تھی ۔۔۔
’’ بے شک وہ انصاف کرنے والا ہے ’’ اس نے کہا تھا ۔۔ اور اپنا ہاتھ الہام کے ٹھنڈے پڑتے ہاتھوں پر رکھ کر اسے تھاما تھا ۔۔
’’ وہ اللہ سے رجوع کرنے گیا ہے ۔۔۔ وہ اللہ سے مشورہ لینے گیا ہے ’’ الہام نے اسے کہتے سنا تھا اور وہ جانتی تھی کہ وہ کس نے بارے میں بات کر رہی تھی ۔۔
’’ وہ اس سے مدد مانگنے گیا ہے ۔۔ وہ دل کا سکون لینے گیا ہے الہام ۔۔ اور جانتی ہو ۔۔ دل کا سکون حاصل کرنے میں کون کامیاب ہوتا ہے ؟ ’’ اس نے سوال کیا تھا ۔۔ الہام نے کچھ کہا نہیں تھا ۔۔مگر اسکا پورا وجود سراپا سوال تھا ۔۔
’’ خدا دل کا سکون صرف انہیں دیتا ہے جن کا ضمیر پر سکون ہو ۔۔ جن کے دلوں پر کسی گناہ ، کسی کے درد کا بوجھ نہ ہو۔۔ جن کی نیت خدا نے صاف پائی ہو ’’ اس نے کہا تھا ۔۔ اور الہام کے آنسو رک گئے تھے ۔۔ اسے لگا کہ آس پاس سب رک گیا تھا ۔۔
’’ جاؤ ۔۔ اس سے رجوع کرو ۔۔ اور اسکا جواب سنو ۔۔۔ دیکھو کہ وہ کیا تمہیں سکون دیتا ہے ؟ کیا دل مطمئن ہوتا ہے ؟’’ اس نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ اور اگر اس نے سکون دے دیا ۔۔ تو سمجھ جانا ۔۔ وہ تم سے راضی ہے ۔۔ اور جس کے عمل سے خدا راضی ہو ۔۔ اسے انسانوں کے راضی ہونے کی کیا پرواہ ؟ ’’ اس نے کہا تھا۔۔ اور الہام کو جیسے اب روشنی نظر آئی تھی ۔۔ وہ وہی پتھر بنی بیٹھی تھی ۔۔ جبکہ پارسا نے اپنے ساتھ لائے ہونے بیگ سے کچھ نکال کر اسکے سامنے رکھی میز پر رکھا تھا۔۔
’’ میں لنچ بنا کر لاتی ہوں ۔۔ اپنے ہاتھوں سے ’’ وہ مسکرا کر کہتی وہاں سے جاچکی تھی ۔۔ جبکہ الہام کی نگاہیں میز پر رکھی اس چیز پر ٹکی تھی ۔۔ اور پھر جانے کتنے ہی منٹ بعد اس نے اس چیز کی جانب ہاتھ بڑھایا تھا ۔۔ اور وہ کھڑی ہوئی تھی ۔۔اس نے دیکھا ۔۔
’’ وہ ایک جائےنماز تھی ’’
اب اس نے واش روم کا رخ کیا تھا ۔۔۔
’’ اسے وضو کرنا تھا ۔۔ اسے نماز پڑھنی تھی ۔۔ اسے خدا سے رجوع کرنا تھا ۔۔ ‘‘