قسط 7 (پارٹ 2)
شام کی شروعات ہوچکی تھی۔۔ سورج کی کرنیں اب آہستہ آہستہ ختم ہورہی تھیں۔۔ اندھیرا چار سو پھیلنا شروع ہوگیا تھا۔۔
ساحل سمندر پر سورج کی کرنوں نے سارا ماحول دلکش بنا دیا تھا۔۔ ڈوبتا سورج اور اسکے رنگ سے پورا سمندر نہایا ہوا تھا۔۔ ایسے میں سامنے ہی ایک پتھر پر وہ بیٹھی ڈوبتے سورج کو دیکھ رہی تھی۔۔ اسکی سوچیں خالی تھیں۔۔ کوئی منظر، کوئی بھی بات، کوئی بھی آواز اسے نہیں آرہی تھی۔۔ اسکی آنکھوں میں ایک انتظار تھا بس۔۔ اور شاید ایک ڈر بھی۔۔ ناجانے وہ ملاقات کر سکے گی یا نہیں ؟ اسکا یہاں آنا ضایع تو نہیں جائےگا ؟ یہ آخری رات تھی اسکی۔۔ اور وہ ایک آخری ملاقات کرنا چاہتی تھی۔۔ جانے ہمیشہ کی طرح اسے الہام ہوگا یا نہیں ۔۔؟؟
وہ اس وقت کالے رنگ کی شرٹ اور سفید رنگ کے ٹراؤزر میں تھی۔۔ بال کھلے چھوڑے ہوئے اور دوپٹہ گردن کے گرد لپیٹے ہوئے عجیب سوگوار سی لگ رہی تھی۔۔ اس نے دور سے اسے دیکھا تھا اور اب وہ اسکی طرف بڑھ رہا تھا۔۔ جانے دل کو کیسے یہ یقین ملا تھا کہ وہ یہاں ہوگی ؟؟ وہ اسکی تلاش میں آیا تھا اور اسکی تلاش مکمل ہوئی تھی۔۔
’’ جانتی ہو یہ ڈوب جاتا ہے تو کیا ہوتا ہے ؟ ’’ عرش نے اسکے پاس پہنچ کر کہا تھا۔۔ وہ الہام یہ آواز پہچان چکی تھی۔۔ مگر پلٹی نہیں تھی۔۔ شاید اسے بھی یقین تھا کہ وہ آئیگا۔۔
’’ اندھیرا ’’ اسکے جواب پر وہ مسکرایا تھا۔۔ شکر کہ وہ نارمل تھی۔۔
’’ ہاں۔۔ اندھیرا ہوجاتا ہے اور اس اندھیرے میں انسان کئ بار ڈر بھی جاتا ہے ۔۔ تم ڈرتی ہو ؟ ’’ وہ اسکے ساتھ ہی بیٹھ کر کہہ رہا تھا۔۔
’’ آپکو لگتا ہے میں ڈرتی ہونگی ؟ ’’ ہلکا سا مسکرا کر اس نے عرش کی طرف دیکھا تھا۔۔
’’ نہیں ۔۔ تم کبھی نہیں ڈر سکتی۔۔ مگر تم کھو سکتی ہوں الہام۔۔ میں جانتا ہوں’’ اس نے سامنے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔۔ سورج ڈوب چکا تھا اور آہستہ آہستہ اندھیرا پھیلنا شروع ہوا تھا۔۔
’’ میں کھو بھی گئ تو کیا ہوگا عرش ؟ مجھے ڈھونڈنے والا اب کوئی نہیں ہے ’’ وہ ایک اداس مسکراہٹ کے ساتھ کہہ رہی تھی۔۔
’’ یعنی تم کھو چکی ہو ’’ اس نے جیسے فیصلہ سنایا تھا۔۔
‘’ آپ مجھے۔۔ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں ’’ انکار نہیں ہوا تھا۔۔ وہ واقعی کھوچکی تھی ۔۔
’’ ہاں ۔۔ اتنا تو شاید خود کو بھی نہیں جانتا میں ’’ اب دونوں کی نظریں سامنے تھیں۔۔ ساحل سمندر پر لہروں کا شور تھا مگر انہیں محسوس نہیں ہورہا تھا۔۔ انکے آس پاس تو بس خاموشی تھی ۔۔
’’ الہام ’’ اس نے کچھ دیر بنعد کی خاموشی کے بعد اسے پکارا تھا۔۔
’’ ہوں ’’ وہ اسکی طرف متوجہ ہوئی تھی۔۔
’’ مجھے اسکا نام بتاؤ ’’ الہام نے ناسمجھی سے اسے دیکھا تھا۔۔
’’ کس کا ؟ ’’
’’ تم جانتی ہوں۔۔ مجھے اسکا نام بتاؤ الہام ۔۔ میں تمہارا رازِدل ہوں۔۔ تمہیں مجھ سے سب کہہ دینا چاہئے۔۔ تمہیں نہیں لگتا کہ دل سے کچھ چھپانا اسکے ساتھ زیادتی ہے ؟ ’’ وہ اسکی بات سمجھ چکی تھی۔۔ وہ اسی لئے تو آئی تھی یہاں۔۔ ایک آخری ملاقات کرنے۔۔ ایک آخری بات کرنے ۔۔
’’ خدا سے بہتر رازِدل کوئی ہوسکتا ہے کیا ؟ ’’ اس نے کہا تھا ۔۔
’’ بلکل نہیں ۔۔۔ خدا بہترین سے بھی برتر ہے ۔۔ اس سے بہتر دلوں کاحال کوئی نہیں جان سکتا ۔۔ اور جب تک وہ نہ چاہے کوئی جان بھی نہیں سکتا ‘‘ عرش کے جواب پر وہ مسکرائی تھی ۔۔ شاید خدا چاہتا تھا کہ وہ جان لے ۔۔۔
’’ ماما میری پیدائش کے وقت ہی انتقال کر گئ تھیں۔۔ پھر مجھے سنبھالنے والا کوئی نہیں تھا تو پاپا نے اپنی ایک کزن سے شادی کرلی ۔۔ جس کی ایک بیٹی بھی تھی اربش ۔۔’’
’’ اربش تمہاری سگی بہن نہیں ہے ؟ ’’ عرش نے اسکی بات کاٹی تھی۔۔ ایک تلخ مسکراہٹ اسکے چہرے پر آئی تھی۔۔
’’ ہاں ۔۔ وہ میری سوتیلی بہن ہے اور میری بربادی کی ذمہ دار ’’ اس کی بات پر عرش کو حیرانگی ضرور ہوئی تھی مگر باقی کی کہانی وہ سمجھ چکا تھا۔۔ اب مزید وہ اس بارے میں بات کر کے اسے تکلیف نہیں دینا چاہتا تھا۔۔
’’ جانتی ہوں۔۔ آپ چاہے ان اندھیروں میں کھو جائیں یا کوئی آپ کو اس میں دھکیل دے۔۔ دونوں صورتوں میں ایک ہی انجام ہوتا ہے ’’ وہ اسکا چہرہ دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا۔۔ اور وہ سامنے دیکھ رہی تھی۔۔ اندھیرا پھیل چکا تھا۔۔
’’ کیا ؟ ’’
’’ روشنی ’’ اس نے مسکرا کر کہا تھا اور الہام نے چونک کر اسے دیکھا تھا۔۔
’’ روشنی؟ ’’
’’ ہاں روشنی ۔۔ آپ اندھیروں میں جتنا بھی کھو جائیں، آپ اندھیروں سے دوستی ہی کیوں نہ کرلیں ، آپ اندھیروں میں گم ہی کیوں نہ ہوجائیں، آپ کچھ بھی کر لیں۔۔ یہ خدا کی قدرت ہے الہام۔۔ سورج دوبارہ طلوع ضرور ہوتا ہے ۔۔ اندھیرا مستقل نہیں ہوتا ۔۔ آپ خدا کے اس نظام سے انکار نہیں کر سکتے۔۔ آپکی زندگی کی رات کا انجام صرف اور صرف روشنی ہے ۔۔ صرف روشنی ’’ وہ اسکی آنکھوں میں جھانک کر کہہ رہا تھا۔۔ اسکی آنکھوں میں ایک چمک تھی۔۔ جسے وہ الہام کی آنکھوں میں اپنے الفاظ کے ذریعے ڈال رہا تھا اور وہ کامیاب ہوا تھا۔۔ اسکی آنکھوں کے تاثر بدلے تھے۔۔
’’ بے شک خدا کی قدرت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ’’ اس نے مسکرا کر کہا تھا اور یہ پہلی بار تھا کہ جب وہ خود کو کمپوز کرنے کے لئےنہیں بلکہ دل سے مسکرائی تھی۔۔ اسکا رازِدل ہی اسے دل سے مسکرانے پر مجبور کر سکتا تھا۔۔
’’ آپ جانتے ہیں آج میں یہاں کیوں آئی تھی ؟ ’’ وہ اب اسے حقیقت بتانا چاہتی تھی۔۔
’’ ہاں جانتا ہوں ۔۔ ایک آخری ملاقات کرنے ’’ اس نے گہری سانس لے کر کہا تھا اور الہام ایک بار پھر حیران ہوگئ تھی۔۔
’’ آپکو کیسے پتہ ؟ ’’ اسکی بات پر اس نے اسکی آنکھوں کو دیکھا تھا۔۔ وہ دونوں اس وقت ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔۔
’’ کیوں کہ یہ جو تمہاری آنکھیں ہیں نہ الہام ۔۔ میں انہیں نہیں دیکھ رہا۔۔ میں ان میں موجود تمہارا دل دیکھ رہا ہوں۔۔ تم شاید جانتی نہیں ہو کہ تمہارا دل اور اسکی ساری باتیں تمہاری ان آنکھوں میں موجود ہیں ۔۔ مگر کوئی بھی اس دل کو پڑھ نہیں سکتا۔۔ سوائے میرے ’’ وہ کہہ رہا تھا۔۔ ساحل سمندر پر لہروں کا شور اور اس میں ملی ہوئی عرش کی آواز ۔۔ وہ ایک پل کے لئے سب بھول گئ تھی۔۔
’’ پوچھو گی نہیں کہ میں کیسے پڑھ سکتا ہوں ؟ ’’ وہ جو اسکی بات پر کہیں کھو سی گئ تھی۔۔ اب ہوش میں آئی تھی۔۔
’’ کیسے ؟ ’’ وہ اس پر نظریں جمائے پوچھ رہی تھی۔۔ وہ مسکرایا تھا۔۔
’’ کیونکہ میں ہی تو ہوں تمہارا رازِدل۔۔ تو پھر میں میرے علاوہ کوئی اور کیسے پڑھ سکتا ہے اسے؟ ’’ وہ مسکرا کر کہہ رہا تھا۔۔ اور ایک مسکراہٹ الہام کے چہرے پر بھی آئی تھی۔۔
’’ میں آپکو مس کرونگی ’’ وہ کہہ کر کھڑی ہوئی تھی شاید اسکے جانے کا وقت ہوچکا تھا۔۔
’’ میں نہیں کرونگا ’’ عرش نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ کیوں ؟ ’’ وہ جیسے مایوس ہوئی تھی۔۔
’’ کیونکہ یاد انہیں کیا جاتا ہے جنہیں بھولا جائے ۔۔ میں تمہیں بھول نہیں سکتا الہام ’’ ناجانے اسکے لہجے میں کونسے جذبات کا عکس تھا کہ الہام کا دل ایک پل کے لئے دھڑکہ تھا۔۔ مگر یہ وقت نہیں تھا۔۔ دل پر غور کرنے کا ۔۔ وہ نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔ اسکے لئے یہاں کھڑا ہونا مشکل ہورہا تھا ۔۔
’’ میں چلتی ہوں۔۔ کل میری فلائیٹ ہے پیکنگ بھی کرنی ہے ’’ وہ کہہ کر آگے بڑھی تھی ۔۔ دونوں کے بیچ دو قدم کا فاصلہ تھا۔۔ جو اب بڑھنے لگا تھا ۔۔
’’ یہ ملاقات آخری ضرور ہوسکتی ہے الہام۔۔ مگر یہ تعلق ختم نہیں ہوسکتا ۔۔ چاہے کچھ بھی ہوجائے تم دنیا کے کسی بھی کونے تک چلی جاؤ ۔۔ یہ فاصلہ صرف زمین کا ہوگا ۔۔ دلوں کا نہیں۔۔ میں وہ عرش ہو جس پر الہام ہوتا ہے۔۔ الہام کے دل کا ۔۔ تم وہ الہام ہو جو عرش سے بھیجی گئ ہوں ۔۔ الہام اور عرش کا تعلق ختم نہیں ہوسکتا الہام ۔۔زندگی نے ساتھ دیا تو الہام اور عرش کا ملنا بھی لازم ہے ۔۔ عرش والے کی طرف سے الہام ضرور ہوگا ۔۔ انتظار کرنا ’’ وہ کہہ رہا تھا۔۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے سامنے تھے۔۔ ایک دوسرے کی آنکھوں میں۔۔ ایک دوسرے کا عکس دیکھ رہے تھے۔۔ وہ ایک دوسرے کے دل میں اتر رہے تھے ۔۔ یا وہ اتر چکے تھے ۔۔؟؟
مگر یہ اب کیوں ہوا تھا ؟ یہ اب کیوں محسوس ہورہا تھا ؟ اب جب کچھ باقی نہیں بچا ۔۔ اب جب ساری باتیں بے معنی ہوچکی تھی ۔۔ الہام کا دل عجیب ہی رو پر چلنے کی تیاری کر رہا تھا۔۔ اسے روکنا تھا۔۔ اپنے دل کو ۔۔
’’ اللہ حافظ ’’ اس نے کہا تھا۔۔
’’ اللہ حافظ ’’ اس نے جواب دیا تھا۔۔ وہ اب اس سے دور جارہی تھی۔۔ وہ اسے جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔۔ دونوں کا دل آج دونوں کو ایک حقیقت بتا رہا تھا۔۔ دونوں اپنے دل کو روک رہے تھے ۔۔ دونوں کا وقت آچکا تھا ۔۔۔دل کو خاموش کروانے کا ۔۔ دل نے بھاگنے کا ۔۔۔ دل کو دل سے چھپانے تھا ۔۔۔
ائیرپورٹ پر لوگوں کی بھیڑ لگی تھی۔۔ اتنے لوگ تو یہاں سے جانہیں رہے تھے جتنے انکو چھوڑنے کے لئے آرہے تھے۔۔ ایسے میں وہ تینوں بھی ائیرپورٹ کے اندر داخل ہوئے تھے ۔۔ انہیں سارے انتظامات کرنے میں اچھا خاصا وقت لگ چکا تھا۔۔ اس لئے وہ لیٹ ہوچکے تھے۔۔ اب جلدی جلدی وہ ائیر پورٹ میں داخل ہوئے تھے۔۔ تمام مراحل بہت آسانی سے طے ہوچکے تھے ۔۔۔ ائیرپورٹ سے جہاز تک بیٹھنے کے راستے میں وہ بار بار پیچھے پلٹ کر دیکھ رہی تھی۔۔ جانے اسے کیوں لگ رہا تھا کہ وہ آیا تھا ؟؟ مگر وہ نہیں آیا تھا۔۔ اسے آنا بھی نہیں چایئے تھا ۔۔
وہ اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھ چکے تھے اور اب جہاز اڑان بھرنے کو تیار تھا۔۔ اس نے آنکھیں بند کی تھیں۔۔
ساری مناظر ایک پل کے لئے نظروں کے سامنے سے گزرے تھے۔۔
اریج سے دوستی۔۔
احتشام اور اربش کی شادی سے انکار۔۔
عرش سے پہلی ملاقات ۔۔
اریج کی شادی کی تیاری ۔۔۔
اربش کی باتیں۔۔
لیپ ٹاپ پر چلتی تصاویر۔۔
لوگوں کی باتیں ۔۔
ماما کا تھپڑ ۔۔۔
پاپا کا منہ پھیرنا۔۔
نکاح نامے پر دستخط ۔۔۔
اسکا ہال سے جانا ۔۔۔
اس سے آخری ملاقات ۔۔۔
اس نے آنکھیں کھولی تھیں۔۔ یہ آخری بار تھا ۔۔ آج کے بعد کوئی یاد نہیں آنی تھی ۔۔۔ جہاز اڑان لے چکا تھا ۔۔۔ اور الہام اس ملک سے دور جارہی تھی ۔۔۔ سب کچھ چھوڑ کر ۔۔ اب کچھ نہیں بچا تھا ۔۔۔سب پیچھے رہ گیا تھا ۔۔ بہت پیچھے ۔۔!!
اسکی فلائیٹ کا وقت گزر چکا تھا۔۔ جہاز اس زمین سے بلندی پر جاچکا تھا۔۔ اور وہ اب دور ہوگئ تھی۔۔ عرش ائیرپورٹ کے باہر اپنی گاڑی میں ہی معاذ کے ساتھ موجود تھا۔۔
’’ ہم ایک گھنٹے سے یہاں موجود ہیں۔۔ اور اسکی فلائیٹ بھی جاچکی ہے۔۔ نا تم اس سے ملے ہو اور نا تم نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ وہ کہاں گئ ہے ؟ آخر ہم یہاں پھر آئے کیوں تھے ؟ ’’ معاذ جو ایک گھنٹے سے اس خاموشی کو برداشت کر رہا تھا۔۔ اس کے لئے اب مزید رکنا مشکل تھا۔۔
’’ تم نہیں سمجھو گے۔۔ وہ اندھیروں میں کھو گئ ہے۔۔ اور میں اسے کھونے کے علاوہ اب کچھ نہیں کر سکتا ’’ عرش نے گاڑی سٹارٹ کرتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ تم کر سکتے تھے۔۔ تم اسے روک سکتے تھے۔۔ اسے بتا سکتے تھے کہ اسکے اندھیروں میں روشنی تم لاسکتے ہوں۔۔ اسے بتا سکتے تھے۔۔ کہ تم اسکے ساتھ ہو۔۔ مگر تم نے ایسا کچھ کیوں نہیں کیا ؟ ’’ وہ اسے سمجھ نہیں پارہا تھا۔۔
’’ کیونکہ وہ اکیلی نہیں ہے۔۔۔ اسکے ساتھ احتشام بھائی ہیں۔۔ اسکا خیال رکھنے کے لئے۔۔ اور جہاں تک بات ہے میری۔۔ تو فلحال میں نے کسی اور کا دماغ روشن کرنا ہے ’’ وہ ایک عزم کے ساتھ کہہ رہا تھا۔۔
’’ جانتا ہوں۔۔ مگر اس سب سے کیا ہوگا ؟ وہ تو یہاں سے جاچکی ہے اور اب واپس شاید کبھی نہ آئے ’’ معاذ نے اسے یاد دلایا تھا۔۔
’’ میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ یہاں سب اسکا انتظار کرتے رہیں۔۔ اسکے آنے کی دعائیں مانگیں۔۔ اور وہ واپس کبھی نہ آئے۔۔ اس سے کم سزا نہیں ہونی چاہئے کسی کے لئے بھی ’’ وہ سنجیدہ تھا اور اسکے لہجے نے معاذ کو اندازہ کو چونکا دیا تھا۔۔ وہ جو سوچ چکا ہے۔۔ وہ کر کے ہی دم لے گا۔۔ معاذ یہ جانتا تھا ۔۔
’’ تمہیں میں نے ایک کام دیا تھا شاید ’’ عرش نے تھوڑی دیر بعد کہا تھا۔۔
’’ ہاں ۔ صبح تک میں ساری معلومات حاصل کر لونگا ’’
’’ گریٹ۔۔ کل پھر کیفے ٹیریا میں پہلی بار میں تمہارا انتظار کرونگا ’’ اور یہ مہربانی بھی اس لڑکی کی وجہ سے تھی۔۔ معاذ نے مسکرا کر سر ہلایا تھا۔۔ اسے اس کے گھر چھوڑ کر اب عرش اپنے گھر جارہا تھا ۔۔
اگلے روز فری ٹائم میں وہ دونوں یونیورسٹی کی کیفے ٹیریا میں آمنے سامنے بیٹھے تھے۔۔ ویٹر کافی اور سینڈوچ رکھ کر جاچکا تھا۔۔ جب عرش نے اس سے کہا تھا۔۔
’’ تمہارے سینڈوچ آچکے ہیں۔۔ اب جلدی سے بولنا شروع کرو ’’ ساتھ ہی اس نے کافی کا کپ اٹھایا تھا اور معاذ نے ایک سینڈوچ ۔۔
’’ جتنی معلومات مجھے ملی ہے ۔۔ مجھے تو یقین ہی نہیں ہورہا کہ یہ اربش الہام کی بہن ہے۔۔ سیریسلی۔۔ دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے ’’ اس نے اپنی حیرت کا اظہار پہلے کرنا ضروری سمجھا تھا۔۔
’’ وہ اسکی بہن ہے بھی نہیں۔۔ سوتیلی بہن ہے ۔۔ اسکی ماما کی بیٹی ’’ عرش نے اسکی حیرانگی ختم کرنی چاہی مگر وہ تو مزید بڑھ گئ تھی۔۔
’’ کیا ؟ اسکا مطلب وہ واقعی اسکی بہن نہیں ہے اور اسکی ماما ؟ ’’
’’ تم معلومات دینے آئے ہو یا لینے ’’ اس نے سنجیدگی سے کہا تھا۔۔
’’ افو یار ۔۔ تم مجھے جواب دوگے تو میں تمہیں سب آسانی سے بتا دونگا نہ ’’ وہ اب چڑ گیا تھا۔۔ ایک تو اسکے لئے پورا دن خوار ہوکر اس نے اربش کی معلومات جمع کی۔۔ اور اسکے نخرے ہی ختم نہیں ہورہے تھے۔۔
’’ سوتیلی ہیں وہ بھی ۔۔ اسکے فادر کی سیکینڈ وائف ۔۔ اب بولو ’’
’’ اچھا۔۔ ایکچولی اربش کا تعلیمی ریکارڈ کچھ خاص نہیں رہا۔۔ عام سے گریڈ میں میٹرک ۔ انٹر اور گریجوئیشن کرنے کے بعد وہ گھر بیٹھ گئ تھی ۔۔ اسے کسی بھی چیز میں انٹرسٹ نہیں ہے سوائے سونے ، کھانے اور شاپنگ کرنے کے ۔۔ اپنی یونیورسٹی لائف میں بہت سے لڑکوں سے دوستی اور ان سے قیمتی تحائف لئے ہیں اس نے ۔۔ مگر تعلیم ختم کرنے کے بعد آدھے سے زیادہ دوستوں سے رابطہ ختم کر دیا تھا ۔۔ سوائے چند ایک کے ۔۔ احتشام سے ہمیشہ فرینک ہونے کی کوشش کرتی رہی ہے اور ناکام بھی رہی ہے ۔۔ دوستوں کو ہمیشہ وہ یہی بتاتی رہی تھی کہ وہ احتشام سے شادی کرے گی ۔۔ اور الہام کے انکار اور احتشام کے اریج کو پسند کرنے پر اسکی اس خواہش پر بھی پانی پڑ گیا تھا ۔۔ جہاں تک بات اسکے اور الہام کے تعلقات کی ہے۔۔ تو بچپن سے ہی ان دونوں کی آپس میں بن نہیں سکی تھی۔۔ الہام کیونکہ اربش سے زیادہ خوبصورت ، عقل مند اور ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے اخلاق کی بھی تھی۔۔ اس لئے سب اسکے زیادہ قریب تھے اور اس سے پیار کرتے تھے۔۔ جن میں سب سے اوپر ہے احتشام ۔۔ جسے اس نے بچپن سے ایک بہن کی طرح ٹریٹ کیا تھا ۔۔ اسکی پھوپھو اسے بیٹی مانتی تھیں ۔۔ اور پھر اسکے پاپا۔۔ جن کی وہ واقعی بیٹی تھی۔۔ مگر اربش اور اپنی دوسری وائف کی وجہ سے وہ کبھی کبھی اس کے ساتھ زیادتی کر لیا کرتے تھے۔۔ مگر اسکے باوجود سب سے زیادہ توتعات بھی اسی سے تھیں۔۔ انکا خواب تھا کہ انکی بیٹی ڈاکٹر بنے اور اسی خواب کو پورا کرنے کے لئے الہام نے دن رات محنت کی اور اب تک کر رہی تھی۔۔ مگر وقت نے اربش کا ساتھ دیا اور وہ ان سب کی زندگیوں سے دور ہوگئ۔۔ ادھورے خوابوں کے ساتھ ۔۔۔’’
اتنی لمبی بات ختم کرنے کے بعد اب اس نے ایک گہری سانس لی تھی اور کافی کا گھونٹ بھرا تھا۔۔ سینڈوچ تو وہ بولنے کے ساتھ ساتھ کھا چکا تھا اور عرش نے خاموشی نے اسکی ساری بات سنی تھی۔۔
’’ معلوم کرو کہ وہ کونسے دوست ہیں جن سے اسکا اب تک رابطہ ہے ؟ ’’ اس کی بات معاذ کو کچھ اچھی نہیں لگی تھی۔۔
’’ میں کوئی انوسٹیگیٹر نہیں ہوں۔۔ جو تم مجھے اس طرح کے کام دے رہے ہو ‘‘
’’ تم انوسٹیگیٹر نہیں ہو مگر جاسوس تو ہو ۔۔ اور بچپن سے اب تک تم میرے پاپا کے لئے یہی کام کر رہے ہو۔۔ اسلئے اب تم میرے لئے بھی یہ کام کروگے ’’ وہ اطمینان سے کہتا ہوا اپنی کافی پی رہا تھا۔۔
’’ تمہارے پاپا مجھے اسکے اچھے خاصے پیسے بھی دیتے ہیں۔۔ اور مفت تعلیم بھی ’’ اس نے یاد دلایا تھا۔۔۔
’’ اور میں تمہیں مفت کے سینڈوچز اور ڈنرز کرواتا ہوں’’ اس نے بھی یاد دلانا ہی تھا۔۔
’’ دیکھو۔۔ میں پروفیشنل نہیں ہوں ۔۔ تمہارے جاسوسی آسان ہے کیونکہ میں تمہارے ساتھ ہوتا ہوں ’’
’’ تو اسکے بھی ساتھ ہوجاؤ۔۔ کس نے منع کیا ہے ؟ ’’ اس نے ایک آسان حل نکالا تھا۔۔
’’ امپاسیبل ۔۔۔ جو کچھ اس نے کیا ہے۔۔ میں اسکے ساتھ کیا۔۔ اس سے بات کرنا بھی پسند نہ کروں ’’ اسے واقعی وہ بری لگنے لگی تھی۔۔
’’ تو پھر کوئی بھی حل نکالو۔۔ مگر مجھے کل صبح تک ساری معلوم کر کے بتاؤ کہ اسکا کس کس سے کانٹیکٹ ہے ’’ وہ کہہ کر اب کھڑا ہوگیا تھا۔۔ شاید اسکی کلاس کا ٹائم تھا۔۔
’’ اوک ’’ اس نے ایک گہری سانس لی تھی۔۔ اسے یہ کام کرنا ہی تھا ۔۔ وہ بھی ایک دن میں ۔۔۔ پھر اسے چوری کرنی پڑتی یا پھر کوئی غیر قانونی کام ۔۔ کرنا تو اس نے تھاہی ۔۔