قسط 8 (پارٹ 1)
چوری کرنے والا آئیڈیا کچھ اچھا نہیں لگا تھا۔۔ اب بندہ چور بن جائے۔؟؟ وہ بھی اتنے سے کام کے لئے۔۔؟ یہ کچھ ٹھیک نہیں تھا۔۔ اب وہ اتنا بھی نہیں گِر سکتا تھا ۔۔۔
ہاں۔۔ غیر قانونی کام پھر بھی کر سکتے ہیں۔۔ اب روز ہی کوئی نا کوئی غیر قانونی کام ہوجاتا ہے نہ ۔۔؟؟ جیسے ٹریفک سگنل توڑنا ۔۔ اسلئے غیر قانونی کام کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔۔
اس وقت وہ ایک موبائیل نیٹ ورک کے آفس میں موجود تھا۔۔ اور ملاقات یہاں کے منیجر سے کرنی تھی۔۔ جو کہ کسی میٹنگ میں بزی تھے ۔۔
’’ آپ اندر جاسکتے ہیں۔۔ ’’ تھوڑی دیر بعد ایک ورکر نے آکر اسے کہا تھا۔۔ اور وہ سر ہلا کر آفس کی اندر گیا تھا۔۔ اندر ایک لڑکا موجود تھا جسے مینیجر ہونا تو نہیں چاہئے تھا۔۔ مگر اپنے باپ کہ سفارش پر ہوگیا تھا۔۔ اس نے گہری سانس لے کر کہا تھا۔
’’ کیسے ہو فاخر ؟ ’’ وہ جو لیپ ٹاپ پر کچھ کام کر رہا تھا۔۔ اسکے سوال پر نظر اٹھا کر اسے دیکھا ۔۔ اور پھر ایک خوشگوار حیرت سے کھڑا ہوا تھا۔۔
’’ ارے معاذ تم ۔۔ کیسے ہوں؟ اتنے عرصے بعد یاد آئی ’’ ہاتھ ملا کر اب دونوں ایک دوسرے کے سامنے بیٹھ چکے تھے۔۔
’’ بس آج اچانک خواب میں تمہیں دیکھا تو سوچا تم سے مل ہی آؤ ’’ اس نے مسکرا کر کہا تھا۔۔ اسکی بات پر فاخر بھی مسکرایا تھا۔۔
’’ اور تم نے یقیناً خواب میں مجھے کوئی کام کرواتے ہوئے دیکھا ہوگا ’’ وہ بھی اسی کا دوست تھا۔۔
’’ تم آج بھی مجھے سمجھتے ہوں ’’ اس نے ہنستے ہوئے سر ہلا کر اقرار کیا تھا۔۔
’’ پہلے یہ بتاؤ کیا لوگے ؟ کافی یا چائے ؟ ’’ فاخز نے انٹرکام کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ کچھ بھی منگوا لو۔۔ مگر تم جانتے ہو میں خالی کافی یا چائے نہیں لونگا ’’
’’ آفکورس۔۔ تمہاری بھوکی طبیعت سب جانتے ہیں ’’ فاخر نے اس پر چوٹ کی تھی۔۔ مگر وہ مسکرایا تھا۔۔ گویا اسکی تعریف ہورہی ہو جیسے۔۔
اس کے لئے کافی اور سنیکس منگوانے کے بعد اب وہ اسکی طرف متوجہ ہوا تھا۔۔
’’ بتاؤ پھر۔۔ کیسے آنا ہوا ؟ ’’
’’ ایک پرسنل کام ہے اور مجھے امید ہے تم میری مدد ضرور کروگے ’’ وہ پہلے یقین چاہتا تھا۔۔
’’ ضرور ۔۔ آخر پرانی دوستی ہے ’’ معاذ نے ایک پرچی نکال کر اسکے سامنے رکھی تھی۔۔ جسے اس نے اٹھا کر دیکھا تو اس میں ایک نمبر تھا۔۔
’’ یہ کس کا نمبر ہے ؟ ’’
’’ مجھے اس نمبر کا پورا ڈیٹا اور پوری ہسٹری چاہئے اور میں چاہتا ہوں کہ تم سوال بھی نہ کرو ’’ اسی وقت آفس کا ورکر کافی لے کر آیا تھا۔۔ اسکے جانے تک فاخر خاموش رہا تھا اور اسکے جاتے کی اس نے کہا تھا۔۔
’’ تم مجھ سے ایک نمبر کا ڈیٹا نکلوانا چاہتے ہو۔۔اور اب جب میں تمہارا یہ کام کرونگا تو مجھے حق ہے یہ جاننے کا کہ میں کس کا ڈیٹا لیک کر رہا ہوں۔؟؟ آخر یہ ایک غیر قانونی کام ہے۔ ’’ اس نے کرسی پر اطمینان سے ٹیک لگاتے ہوئے کہا تھا۔۔ اسکی بات پر معاذ نے ایک گہری سانس لی اور پھر آگے کو جھکا تھا۔۔
’’ تمہارا حق یہ جاننا نہیں کہ نمبر کس کا ہے ؟ تمہارا حق اس کام کی ایک اچھی وصولی ہے۔۔ جو میں ساتھ لے کر آیا ہوں۔۔ اس لئے اب اگر میری یہ کافی اور یہ بسکٹس ختم ہونے تک میرا کام کردو۔۔ تو میں تمہیں پورا انعام دونگا ۔۔ پر اگر وقت آگے ہوگیا تو آدھا ’’ وہ بات ختم کر کے اب سیدھا ہوا تھا اور ایک بسکٹ اٹھا کر منہ میں ڈالا تھا اور فاخر فوراً سے آگے ہوکر اپنے لیپ ٹاپ کی طرف متوجہ ہوا تھا۔۔
’’ تم بہت سمجھدار ہوگئے ہو ویسے ’’ لیپ ٹاپ پر انگلیاں چلاتے ہوئے فاخر نے کہا تھا۔۔
’’ اور چالاک بھی ’’ معاذ نے اپنی خوبی میں اضافہ کرنا ضروری سمجھا تھا اور پھر کافی دیر خاموشی رہی تھی۔۔ فاخر کے ہاتھ لیپ ٹاپ نہیں چھوڑ رہے تھے اور معاذ کے ہاتھ کافی اور بسکٹ ۔۔۔ اور پھر آخری بسکٹ اسکے منہ تک جانے کے بعد فاخر نے ایک گہری سانس لے کر پرینٹر کی طرف دیکھا تھا جہاں سے کچھ صفحات نکل کر آرہے تھے ۔۔ انہیں وہاں سے اٹھا کر اس نے معاذ کےسامنے رکھا تھا۔۔ جسے دیکھ کر معاذ مسکرایا تھا۔۔
’’ تم بہت اچھا کام کرتے ہو فاخر ’’ کاغذات پر سرسری نظر مار کر اسنے فاخر سے کہا تھا۔۔ جو اس تعریف پر مسکرایا تھا۔
’’ میں سوچ رہا ہوں۔۔ تمہارا انعام بڑھا دوں ’’ اس نے سوچنے والے انداز میں کہا تھا۔۔
’’ یعنی کہ کام بڑھا دوں ؟ ’’ فاخر نے اسی کے انداز میں کہا تھا۔۔
’’ آفکورس۔۔ تم بلکل نہیں چاہوگے کہ میں دوبارہ اس قسم کے غیر قانونی کام کے لئے تمہارے پاس آؤں ’’ وہ اب معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ بولا تھا۔۔ فاخر نے ایک گہری سانس لی تھی۔۔
’’ اب اور کیا چاہتے ہو ؟ ’’
’’ بس اتنا ’’ معاذ نے وہ کاغذات اسکے سامنے کئے تھے۔
’’ کہ یہ تمام نمبر کس کے نام ہیں اور انکا ایڈرس ؟ ’’ اس نے نمبرز کی لسٹ پر انگلی پھیرتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ تم آخر کیا کرنا چاہتے ہو معاذ ۔۔ میں سمجھا تھا کہ تم عرش کی جاسوسی کر رہے ہو۔۔ مگر میں حیران ہوں کہ تم ایک لڑکی کی جاسوسی کر رہے ہو ۔۔ سچ بتاؤ آخر تمہارا اسکے ساتھ کیا تعلق ہے ؟ ’’ اسکی بات پر معاذ حیران ہوا تھا۔۔
’’ تمہیں کیسے پتہ کہ یہ ایک لڑکی ہے ؟ ’’
’’ سمپل ہے۔۔ جب میں ایک نمبر کا ڈیٹا نکال سکتا ہوں تو کیا میں اس نمبر کے اونر کا نام نہیں نکال سکتا ؟ ’’
’’ اچھا ٹھیک ہے۔۔ پر میرا اس لڑکی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔۔ بس یہ سمجھو کہ یہ سب جاننا ہمارے لئے بہت اہم ہے ’’ اسکی بات پر فاخر نے لسٹ لیپ ٹاپ کے ساتھ رکھی اور اب دوبارہ وہ اسکی طرف متوجہ ہوچکا تھا۔۔
’’ یعنی کہ عرش اور تمہارے لئے اہم ہے ’’ اس نے ہاتھ چلاتے ساتھ کہا تھا۔۔ معاذ نے اس بات کا کوئی جواب نہیں دیا تھا۔۔ اسے بس اس کام پورا کروانا تھا ۔
تقریباً آدھے گھنٹے کا کام تھا اور اب معاذ کے ہاتھوں میں کافی پیپرز آچکے تھے۔ جنہیں لے کر وہ کھڑا ہوا تھا۔۔
’’ تھینک یو یار۔۔ اب میں چلتا ہوں ’’ وہ کہہ کر پلٹا ہی تھا کہ فاخر کی آواز نے اسے روکا تھا۔۔
’’ اور میرا انعام ؟ ’’ اسکی بات پر وہ مسکرایا تھا۔۔
’’ مجھ جیسا دوست کسی انعام سے کم ہے کیا ؟ بائے باس ’’ ہاتھ سر تک لے جاکر اسے سلام کیا اور وہاں سے باہر نکل گیا۔۔ اور پیچھے۔۔ بیچارہ فاخر اسے بد دعائیں ہی دیتا رہ گیا تھا ۔
اگلے روز وہ دونوں کیفے ٹیریا پر بیٹھے تھے۔۔ معاذ سینڈوچز کے ساتھ انصاف کرنے میں مصروف تھا۔۔ جب کہ عرش ان کاغذات کو پڑھ رہا تھا۔۔ تھوڑی دیر بعد وہ آگے کو جھکا اور درمیان میں رکھی میز پر کاغذات رکھ کر ایک پین جیب سے نکالا اور ایک نمبر کے گرد دائرہ بنا کر کہنے لگا۔۔
’’ یہ نمبر دیکھ رہے ہو ’’ اس کی بات پر معاذ فوراً آگے کو جھک کر نمبر دیکھنے لگا تھا۔۔
’’ یہ نمبر کسی سمیع نامی لڑکے کا ہے جوکہ اربش کے گھر کےایریا سے بلکل ہی اپازٹ ایریا میں رہتا ہے۔ یعنی ان دونوں کا گھر کافی دور ہے پھر یہ ایک دوسرے کو جانتے کیسے ہیں ؟ ’’ عرش نے سوال کیا تھا۔۔
’’ یونیورسٹی میں ساتھ تھے اور یہ سمیع بھی اربش کے انہیں دوستوں میں سے ایک تھا۔۔ جن سے اس نے یونیورسٹی ختم ہونے کے بعد کافی عرصے تک رابطہ نہیں کیا تھا ’’ معاذ نے اسے مزید معلومات دی تھی۔۔
’’ کافی عرصے تک رابطہ نہیں کیا تھا۔۔ مگر پھر اچانک رابطہ کیوں کیا ؟ وہ بھی اریج اور احتشام کی بات پکی ہونے سے ایک ہفتہ پہلے؟ ’’ اس نے اس کال کے گرد دائرہ لگایا تھا جو کہ پہلی بار کی گئ تھی۔۔
’’ اور اسکے بعد بھی صرف تین بار اربش نے اس نمبر سے بات کی ہے۔۔ وہ بھی صرف دو سے تین منٹ ’’ معاذ نے باقی کی کالز پر نشان لگا کر کہا تھا۔۔
’’ اور آخری کال احتشام اور اریج کی مہندی والے دن کی ہے ’’ عرش نے آخری کال پر دائرہ لگایا تھا۔۔
’’ اسکا مطلب ہے کہ اس سمیع کا کوئی نہ کوئی ہاتھ ضرور ہے اس معاملے میں ۔۔ میں آج شام ہی معلوم کرلونگا کہ یہ کرتا کیا ہے ؟ ویسے بھی اب یہ مشکل نہیں ہے ۔۔ ایڈرس تو ہے ہی ہمارے پاس ’’ معاذنے کافی کا کپ اٹھاتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ بلکل اور مجھے یقین ہے اس سمیع کے ذریعے ہی ہم سچائی تک پہنچ سکتے ہیں ’’ وہ بھی اب مطمئن ہوا تھا۔۔
’’ اگر ہم سچائی تک پہنچ بھی جائے تو کیا ہوگا عرش ؟ الہام تو واپس نہیں آئیگی ’’
’’ مگر اسکی قدر۔۔ اسکی اہمیت اور اسکا احترام واپس آجائیگا ’’ معاذ نے اسکے جواب پر اسے غور سے دیکھا تھا۔۔
’’ تم اس سے محبت کرتے ہو عرش ’’ کوئی سوال نہیں تھا۔۔ وہ تو جیسے اطلاع دے رہا تھا۔۔ اسکی بات پر عرش نے چونک کر اسے دیکھا تھا اور پھر فوراً اٹھ گیا تھا۔۔
’’ شام تک اس بندے کی ڈیٹیل معلوم کر لینا۔۔ رات ڈنر پر ملتے ہیں۔۔ ابھی کلاس کا ٹائم ہے تم بھی جاؤ ’’ وہ کہہ کر فوراً وہاں سے جاچکا تھا۔۔ گویا اس ذکر سے فرار ہونا تھا ۔۔ معاذ جانتا تھا وہ کبھی اقرار نہیں کریگا اور ہمیشہ بھاگتا رہے تھا۔۔ خدا کرے کہ وہ بھاگتا بھاگتا اپنی منزل پر پہنچ جائے ۔ اس نے دل سے دعا کی تھی ۔
جس نے شاید اپنےوقت پر قبول ہونا تھا ۔
وہ ایک بنگلے کے سامنے کھڑا تھا۔۔ یہ وہی ایڈرس تھا جوکہ فاخر نے نکال کر دیا تھا۔۔ اس نے دیکھا اس بنگلے کے دروازے پر ہی ایک چوکیدار بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا۔۔ وہ اب اس چوکیدار کی طرف بڑھا تھا۔۔
’’ سلام انکل ’’ اس نے اسکے قریب پہنچ کر سلام کیا تھا۔۔ جسے سن کر وہ فوراً کھڑا ہوا تھا۔۔
’’ وعلیکم سلام ، آپ کون ؟ ’’ وہ اب اسے غور سے دیکھ رہا تھا۔۔
’’ میں سمیع کے کالج کا دوست ہوں۔۔ آج ہی اسلام آباد سے آیا ہوں۔۔ وہ گھر پر ہے کیا ؟’’ اس نے بہت کانفیڈ نٹ کے ساتھ جھوٹ کہا تھا۔۔
’’ نہیں۔۔ سمیع صاحب تو اس وقت اپنے اسٹوڈیوں ہوتے ہیں۔۔ آپ وہیں جاکر مل لیں ’’ چوکیدار نے اسے مشورے سے نوازا تھا۔۔
’’ ارے واہ ! اس نے اسٹوڈیوں بھی کھول لیا ! کیا بات ہے بھئ ۔۔ آپ مجھے اسکے سٹوڈیوں کا ایڈریس دے دیں۔۔ میں ابھی جاکر ملتا ہوں ’’ اسے جیسے بہت خوشی ہوئی تھی۔۔
’’ جی میں ابھی دیتا ہوں ’’ چوکیدار نے فوراً اپنا پرس نکالا تھا اور اس میں سے ایک کارڈ نکال کر معاذ کے سامنے کیا تھا۔
’’ یہ لیں سمیع صاحب کا کارڈ ’’ اس نے کارڈ اپنے ہاتھوں میں تھام کر اسے دیکھا تھا اور ایک گہری سانس لی تھی۔۔
’’ تھینک یو انکل۔۔ میں چلتا ہوں ’’ وہ کہہ کر مڑا تھا اور ایک فاتحانہ مسکراہٹ اسکے ہونٹوں پر آئی تھی۔۔
ریسٹورانٹ میں ہر طرف لزیز کھانوں کی خوشبوں پھیلی ہوئی تھی۔۔ ایسے میں اس ریسٹورانٹ کی ایک میز پر وہ دونوں آمنےسامنے بیٹھے تھے۔۔ ویٹر کھانا سرو کر کے جاچکا تھا اور وہ دونوں اب کھانے میں مصروف تھے۔۔ ساتھ ساتھ ایک دوسرے سے باتیں بھی ہورہی تھیں۔۔
’’ اب آگے کیا کرنا ہے ؟ ’’ اس نے چائینیز رائس کا چمچ لیتے ہوئے عرش سے پوچھا تھا۔۔
’’ بلیک میل ’’ اس نے مسکرا کر جواب دیا تھا۔۔
’’ سمیع کو ؟ ’’ اس کے سوال پر عرش نے نفی میں سر ہلایا تھا۔۔
’’ اربش کو ’’ معاذ فوراً سیدھا ہوا تھا۔۔ ’’ وہ کیسے ؟ ’’ سوال پوچھا تھا۔۔
عرش کے ہونٹوں پر ایک معنی خیز مسکراہٹ آئی تھی ۔
’’ وہ ایسے ۔۔۔۔ ’’ وہ آگے بھی کہہ رہا تھا۔۔ آس پاس لوگ کھانے میں مصروف تھے۔۔ تھوڑی دیر بات ایک جاندار مسکراہٹ معاذ اور عرش کے چہرے پر تھی ۔
وہ دونوں اس وقت ایک اسٹوڈیو میں موجود سمیع کا انتظار کر رہے تھے۔۔ جو کہ کسی فوٹو شوٹ میں مصروف تھا۔۔ تھوڑی دیر بعد وہ آفس میں آیا تھا اور دونوں کے سامنے رکھی کرسی پر بیٹھ گیا۔۔
’’ سوری۔۔ آپ دونوں کو انتظار کرنا پڑھا ۔۔ کہیئے کیا کر سکتا ہوں میں آپ کے لئے ’’ وہ ایک فروفیشنل انداز میں کہہ رہا تھا۔ سامنے بیٹھے عرش اور معاذ بھی مسکرا رہے تھے۔۔
’’ بلیک میل ’’ عرش نے کہا تھا اور وہ تھوڑا چونکا تھا۔۔
’’ سوری ۔۔ میں سمجھا نہیں ’’ نا سمجھنے والے انداز میں پوچھا تھا۔۔
’’ میں سمجھا دیتا ہوں ’’ معاذ آگے کو جھکا تھا اور اب اسکی آنکھوں میں دیکھ کر کہہ رہا تھا۔۔
’’ آپ نے اربش کے کہنے پر جو تصاویر ایڈٹ کی تھیں۔۔ ہمیں اسکے بارے میں سب معلوم ہے اور اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہم پولیس تک نہ جائیں۔۔ تو وہی کریں جو ہم کہہ رہے ہیں ’’ اسکی بات پر وہ ہڑبڑا گیا تھا۔۔ ماتھے پر پسینہ آنے لگا تھا۔۔
’’ یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ لوگ ؟ میں کسی اربش کو نہیں جانتا اور نہ ہی میں اس طرح کے کام کرتا ہوں ’’ صاف انکار تھا۔ اسکے جواب پر معاذ قدرے مایوس ہوکر پیچھے ہوا تھا۔۔
’’ میں نے کہا تھا تمہیں کہ پولیس لے جاتے ہیں ساتھ۔۔ مگر تمہیں ہی اس سے ہمدردی ہورہی تھی ’’ عرش نے معاذ کو کہتے ہوئے موبائل نکالا تھا۔۔ یقیناً وہ پولیس کو کال کرنے لگا تھا کہ سمیع فوراً آگے ہوا تھا۔۔
’’ نہیں پلیز آپ کال نہ کریں۔۔ میں مانونگا آپکی بات۔۔ بس پولیس کو مت بلانا ’’ معاذ اور عرش ایک ساتھ مسکرائے تھے ۔