قسط 8 (پارٹ 2)
وہ اس وقت ٹی وی میں مووی دیکھنے میں مگن تھی جب اسکا موبائیل بجا تھا۔۔ اس نے کال کرنے والے کا نام پڑھا تو موڈ فوراً خراب ہوا تھا۔۔ مگر کال اگنور بھی نہیں کی جاسکتی تھی۔۔
’’ بولو ؟ ’’ اس نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا تھا۔۔
’’ میں تمہارا اسٹوڈیو میں انتظار کر رہا ہو۔۔ آدھے گھنٹے میں پہنچو ’’ آگے سے سخت لہجے میں ایک آرڈر پاس ہوا تھا۔۔
’’ او ہیلو ! ’’ اسے سمیع کا انداز اچھا نہیں لگا تھا۔
’’ یہ تم آرڈر کس کو دے رہے ہو اور کیوں ملو میں تم سے ؟ ’’
’’ کیونکہ میرے پاس اب بھی وہ تصاویر موجود ہیں۔۔ آدھے گھنٹے میں اگر تم نہ پہنچی۔۔ تو میں تمہارے پاپا کے آفس بھجوا دونگا وہ ’’ کال بند ہوگئ تھی اور اربش کے چہرے کا رنگ اڑا تھا۔۔ پھر فوراً اٹھی اور اپنے کمرےسے اپنا بیگ لے کر باہر بھاگی تھی۔۔
’’ ماما میں ایک دوست سے مل کرآتی ہوں ایک گھنٹے میں ’’ اونچی آواز میں کچن میں موجود عائشہ کو کہہ کر وہ باہر آئی تھی۔ اور گاڑی سٹارٹ کر کے نکل گئ تھی۔۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اب سمیع اس سے کیا چاہتا ہے ؟ وہ بہت تیز ڈرائیو کر کے اس کے اسٹوڈیو پہنچی تھی۔۔ جہاں وہ اپنے آفس میں اسکا انتظار کر رہا تھا۔۔
’’ ارے واہ ! تم تو بہت جلدی آگئ۔۔ لگتا ہے بہت بے چین ہوگئ ہو ’’ اسے دیکھ کر مسکراتےہوئے وہ بولا تھا جبکہ اربش اپنا بیگ اسکی میز پر رکھ کر آگے کو جھکے تھی۔۔
’’ کیوں بلایا ہے مجھے ؟ ’’ وہ شعلہ برساتی نظروں سے اسے دیکھ کر کہہ رہی تھیں۔۔ سمیع کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی تھی۔
’’ آرام سے بیٹھو۔۔ پھر بتاتا ہوں ’’ اس نے سامنے رکھی کرسی کی طرف اشارہ کیا تھا اور اربش ضبط کرتی ہوئی اس پر بیٹھ چکی تھی۔۔
’’ کیا مسئلہ ہےسمیع؟ کیوں بلایا ہے مجھے ؟ ’’ اسکے خاموش رہنے پر وہ مزید چڑ گئ تھی۔۔
‘’ مجھے ایک کروڑ روپے چاہیے ’’ سکون سے کی گئ سمیع کی ڈیمانڈ پر اسکا منہ کھل گیا تھا۔۔
’’ ایک کروڑ ؟ کس لئے ؟ ’’
’’ تمہارے راز کو راز رکھنے کے لئے ’’ جواب اسی انداز میں آیا تھا۔۔
’’ میں تمہیں اچھی خاصی رقم دے چکی ہوں۔۔ اب میرے پاس کچھ نہیں ہے دینے کے لئے ’’ اپناغصہ ضبط کرتے ہوئے اس نے صاف انکار کیا تھا۔۔
’’ تم نے مجھے وہ رقم الہام اور احتشام کی تصاویر ایڈٹ کرنے کے لئے دی تھی اور اب یہ رقم تم میرا منہ ہمیشہ کے لئے بند کروانے کے لئے دوگی۔۔ دونوں کاموں میں بہت فرق ہے میڈم ’’ وہ اب بھی پر سکون تھا۔۔ ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔۔
’’ تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہوگیا ؟ تم مجھے بلیک میل کر رہے ہو ؟ ’’ وہ اب آواز اونچی کر کے بولی تھی۔۔
’’ آواز نیچی کر کے بات کرو۔۔ یہ میرا آفس ہے تمہارا گھر نہیں اور میرا دماغ بلکل ٹھیک ہے البتہ تمہارا دماغ ضرور خراب ہے۔ تم نے مجھ سے اپنی بہن اور اپنے کزن کی تصاویر ایڈٹ کروائیں۔۔ میں نے ہماری پرانی دوستی کی خاطر تمہارا کام کیا مگر مجھے اندازہ بھی نہیں تھا کہ تم انہیں اس طرح استعمال کروگی ۔۔ تم نے اتنے لوگوں کو وہ تصاویر دکھائیں۔۔ اپنی بہن اور کزن کی عزت کا تماشہ بنادیا ۔۔ تمہیں اندازہ ہے کہ اگر کوئی سمجھ جاتا کہ یہ ایڈٹ ہیں تو مجھے کتنا بڑا خطرہ تھا ؟ مجھے تو سمجھ نہیں آتا کہ آخر تم نے یہ سب کیا کیوں۔۔؟؟ اتنی اچھی تو بہن تھی تمہاری۔ اسکے ساتھ اتنی بڑی زیادتی کی تم نے’’ اسکی دھمکی سے زیادہ اب الہام کی تعریف نے اسے تیش دلایا تھا۔۔
’’ کیونکہ مجھے اس سے نفرت تھی ۔۔ برباد کرنا چاہتی تھی میں اسکو اور میں نے ایسا کیا ۔۔ مجھے اس پر کوئی پچھتاوا نہیں ہے اور تمہیں ’’ اربش نے اب انگلی اسکی طرف اٹھائی تھی ’’ تمہیں بھی مجھے دھمکانے سے پہلے یہ سوچ لینا چاہئے کہ جب میں اپنی اس سوتیلی بہن اور احتشام جس سے کبھی مجھے محبت تھی، ان دونوں کو برباد کر سکتی ہوں۔۔ تو تمہیں بھی کر سکتی ہوں۔۔ اب اگر تم نے مجھے دھمکانے کی کوشش کی۔۔ تو میں پولیس کے پاس چلی جاؤنگی۔۔ یہ تصاویر تم پاپا کو دکھا بھی دو تو وہ مجھے پولیس سے بچا لینگے۔۔ مگر تم بچ بھی گئے تو تمہارا کیرئیر برباد ہوجائیگا۔۔ اس لئے اب ۔۔۔’’ اس نے اپنا بیگ کاندھے سے لگایا تھا۔۔
’’ مجھ سے رابطہ کرنے کی کوشش بھی مت کرنا ’’ وہ کہہ کر فوراً آفس نے نکلی تھی اور اسکے جانے کے بعد ایک مسکراہٹ نے سمیع کے ہونٹوں کو چھوا تھا۔۔ اس نے اپنا موبائیل اٹھا کر ایک میسیج ٹائپ کیا تھا۔۔
’’ کام ہوگیا ہے ’’ میسیج سینڈ ہوچکا تھا۔۔ اور اب وہ پر سکون تھا ۔۔
وہ تینوں اس وقت ڈنر کر رہے تھے جب ملازم نے آکر اطلاح دی تھی۔۔
’’ صاحب کوئی عرش صاحب آئے ہیں۔ آپ سے ملنا چاہتے ہیں ’’ ملازم کی بات پر عائشہ بیگم نے ایجاز صاحب کی جانب سوالیاں نظروں سے دیکھا تھا۔۔
’’ یہ عرش کون ہے ؟ ’’ اربش بھی پاپا کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔ یہ نام ان دونوں کے لئے نیا تھا۔۔
’’ پتہ نہیں ۔۔ انہیں ڈرائینگ روم میں بٹھاؤ میں آتا ہوں ’’ انہوں نے ملازم سے کہا تھا اور وہ سر ہلاتا ہوا چلا گیا تھا۔۔
’’ تم دونوں ذرا چائے کا انتظام کرو میں دیکھ لوں کون ہے ’’ وہ کہہ کر اٹھے تھے۔۔ ساتھ ہی عائشہ بیگم اور اربش بھی اٹھ گئے تھے۔۔ ایجاز صاحب ڈرائینگ روم کی طرف گئے تھے جبکہ عائشہ بیگم مہمانوں کی چائے کا انتظام کرنے کچن کی طرف اور اربش پاپا کی جاسوسی کرنے ڈرائینگ روم کے باہر جارکی تھی اور اب وہ اندر بیٹھے شخص کو دیکھ رہی تھی جو پاپا کو دیکھ کر کھڑا ہوا تھا۔۔ سفید شرٹ اور بلو جینز ، ماتھے پر بکھرے بال ، ہلکی بیئرڈ ، گہری براؤن آنکھیں ، نکھری ہوئی رنگت اور چوڑے کاندھوں کے ساتھ وہ ایک دلکش مردانہ وجاہت سے بھرپور انسان تھا۔۔ اب وہ پاپا سے ہاتھ ملا کر اپنی جگہ پر بیٹھا تھا۔۔ دونوں اب آمنے سامنے تھے۔۔
’’ میں نے تمہیں پہچانا نہیں عرش۔۔ کیا ہم ایک دوسرے کو جانتے ہیں ؟ ’’ ایجاز صاحب نے کہا تھا اور عرش اس سوال پر مسکرایا تھا۔۔
’‘ نہیں انکل آپ مجھے نہیں جانتے اور ہم پہلی بار مل رہے ہیں اور شاید آخری بار بھی ’’ اسکی بات پر ایجاز صاحب کو جہاں تعجب ہوا تھا۔۔ وہی باہر کھڑی اربش کو بھی عجیب لگا تھا۔۔
’’ کیا مطلب ؟ ’’ ایجاز صاحب نے پوچھا تھا۔۔
’’ مطلب یہ کہ انکل میں یہاں کسی اپنے کے لئے آیا ہوں۔۔ اسکی سچائی ثابت کرنے اور آپکو ایک پچھتاوا دینے ’’ اسکی بات پر اندر داخل ہوتی عائشہ بیگم بھی چونکی تھیں۔۔ ملازمہ اب چائے رکھ رہی تھی اور اسکی موجودگی تک سب خاموش رہے تھے۔ اسکے جانے کے بعد ایجاز صاحب اس سے مخاطب ہوئے تھے۔۔
’’ کس پچھتاوے کی بات کر رہے ہو ؟ ’’
’’ ایک زیادتی کا پچھتاوا ۔۔ اپنی بیٹی کو برباد کرنے کا پچھتاوا ۔۔ اسے مارنے کا پچھتاوا ۔۔ اور اس سے دور ہوجانے کا پچھتاوا ’’ اسکی بات پر ان دونوں کےتعصورات بگڑے تھے۔۔
’’ کیا کہنا چاہتے ہو تم ؟ ’’ ایجاز صاحب نے اب تھوڑے سخت لہجے میں کہا تھا۔۔
’’ میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے بہت افسوس ہے کہ آپ اپنی بیٹیوں کو پہچان نہیں سکے۔۔ حالانکہ آپ انکے باپ ہیں ’’ وہ اب بھی پرسکون لہجے میں صوفے سے ٹیک لگا کر کہہ رہا تھا۔۔
’’ سنو۔۔ تم جو کوئی بھی ہو ۔ اگر الہام کے طرفدار بن کر آئے ہو تو ہمیں تمہاری طرفداری کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔۔ بہتر ہوگا کہ تم یہاں سے چلے جاؤ ’’ اب کی بار عائشہ بیگم نے کہا تھا۔۔ باہر کھڑی اربش اب بھی کچھ سمجھنے سے قاصر تھی۔ اس نے ایک اور بار غور سےدیکھا تھا۔۔ وہ اس لڑکے کو پہلی مرتبہ دیکھ رہی تھی۔۔ پھر یہ کون تھا ؟
ایک ہلکی سی مسکراہٹ عرش کے چہرے پر آئی تھی۔۔
’’ پہلی بات تو یہ کہ میں یہاں الہام کی طرفداری کے لئے نہیں آیا۔۔ الہام کو کسی کی بھی طرفداری کی ضرورت نہیں ہے۔۔ اور دوسری بات ’’ وہ تھوڑا آگے کو جھکا تھا۔۔
’’ آپکو واقعی الہام سے منسلک کسی بھی بات میں انٹرسٹ نہیں ہے۔۔ مگر آپکو اپنی بیٹی کی باتوں میں ضرورت انٹرسٹ ہوگا ’’ باہر کھڑی اربش کے چہرے پر گھبراہٹ آئی تھی۔۔
’’ تمہیں جو کہنا ہے صاف صاف کہو لڑکے ۔۔ہماری بیٹیوں کے بارے میں باتیں کرنے کی ضرورت نہیں ہے ’’ ایجاز صاحب اب برہم ہوئے تھے۔۔
’’ مجھے آپکی بیٹیوں کے بارے میں بات نہیں کرنی انکل ۔۔ میرے پاس آپکے لئے کچھ ہے۔۔ مگر اس سے پہلے میں آپ سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔۔ اگر آپ کی اجازت ہو تو ’’ وہ بہت ہی نرم لہجے میں کہہ رہا تھا۔۔
’’ بولو ’’ ایجاز صاحب کا لہجہ اب بھی سخت تھا۔۔
’’ میں جانتا ہوں۔۔ آپ اپنی دونوں بیٹیوں کو برابر سمجھتے ہیں مگر کیا آپ دونوں کے درمیان انصاف بھی کرتے ہیں ؟ ’’ اس کے سوال پر باہر کھڑی اربش کا دل جیسے رک سا گیا تھا۔۔ اسے محسوس ہورہا تھا کہ کچھ غلط ہے۔۔ جیسے کچھ برا ہونے جارہا ہے۔۔
’’ میں اپنی دونوں بیٹیوں کے ساتھ انصاف ہی کرتا آیا ہوں اور یہ بات مجھے ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے ’’ انکا لہجہ اٹل تھا۔۔ جیسے اس میں شک کی کوئی گنجائش نہ ہو ۔ عرش کے چہرے پر معنی خیز مسکراہٹ آئی تھی۔۔
’’ مجھے اچھا لگا سن کر اور اسی لئے میں آپکو کچھ دینا اور سنانا چاہتا ہوں ’’ اس نے اب اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا تھا اور اس میں سے ایک یو۔ایس۔بی نکال کر سامنے میز پر رکھی تھی۔۔ جسے وہاں بیٹھا ہر شخص پہچان گیا تھا۔۔ یہ وہی یو۔ایس۔بی تھی۔۔
’’ یہ تمہارے پاس کہاں سے آئی ؟ ’’ عائیشہ بیگم نے حیرانگی سے پوچھا تھا۔۔ مگر وہ انکی طرف متوجہ نہیں تھا۔۔ اب وہ اپنے موبائل میں کچھ کر رہا تھا اور تھوڑی دیر بعد اس نے سامنے بیٹھے ایجاز صاحب کی جانب دیکھا تھا۔۔ جو اسے ہی دیکھ رہے تھے۔۔ آنکھوں میں غصہ تھا ۔۔ عرش نے اپنا موبائیل اب میز پر رکھا اور سکرین پر ایک جگہ انگلی لگائی تھی اور ایک ریکارڈنگ چلنا شروع ہوئی تھی۔۔ آواز اتنی اونچی تھی کہ باہر کھڑی اربش کے کانوں تک بھی آرہی تھی۔۔
مجھے ایک کروڑ روپے چاہیے ’’ کسی آدمی کی آواز تھی۔۔ جسے کوئی نہیں پہچان سکا تھا۔۔ سوائے اربش کے۔۔ ’’ایک کروڑ ؟ کس لئے ؟ ’’ یہ اربش کی آواز تھی۔۔ جسے یہاں موجود ہر شخص پہچانتا تھا۔۔ عائشہ اور ایجاز صاحب چونکے تھے۔۔ ریکارڈنگ جیسے جیسے آگے چل رہی تھی۔۔ ویسے ویسے ہی ان تینوں کے تعصورات بدل رہے تھے۔۔ ایجاز صاحب کے چہرے پر حیرانی ، غصہ ، دکھ اور ناجانے کیا کیا تھا۔۔۔ عائیشہ بیگم کے چہرے پر صرف اور صرف گھبراہٹ تھی۔۔ خوف تھا۔۔ جسے عرش نے نوٹ کیا تھا۔۔
’’ آواز نیچی کر کے بات کرو۔۔ یہ میرا آفس ہے تمہارا گھر نہیں۔۔ اور میرا دماغ بلکل ٹھیک ہے البتہ تمہارا دماغ ضرور خراب ہے۔۔ تم نے مجھ سے اپنی بہن اور اپنے کزن کی تصاویر ایڈٹ کروائیں۔۔ میں نے ہماری پرانی دوستی کی خاطر تمہارا کام کیا مگر مجھے اندازہ بھی نہیں تھا کہ تم انہیں اس طرح استعمال کروگی ۔۔ تم نے اتنے لوگوں کو وہ تصاویر دکھائی۔۔ اپنی بہن اور کزن کی عزت کا تماشہ بنا دیا۔۔۔ تمہیں اندازہ ہے کہ اگر کوئی سمجھ جاتا کہ یہ ایڈٹ ہیں۔۔ تو مجھے کتنا بڑا خطرہ تھا ؟ مجھے تو سمجھ نہیں آتا کہ آخر تم نے یہ سب کیا کیوں ؟ اتنی اچھی تو بہن تھی تمہاری۔۔ اسکے ساتھ اتنی بڑی زیادتی کی تم نے ’’ اسی آدمی کی آواز تھی۔۔
’’کیونکہ مجھے اس سے نفرت تھی ۔۔ برباد کرنا چاہتی تھی میں اسکو اور میں نے ایسا کیا ۔۔ مجھے اس پر کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔ اور تمہیں بھی مجھے دھمکانے سے پہلے یہ سوچ لینا چاہئے کہ جب میں اپنی اس سوتیلی بہن اور احتشام جس سے کبھی مجھے محبت تھی۔۔ ان دونوں کو برباد کر سکتی ہوں۔۔ تو تمہیں بھی کر سکتی ہوں۔۔ اب اگر تم نے مجھے دھمکانے کی کوشش کی تو میں پولیس کے پاس چلی جاؤنگی۔۔ یہ تصاویر تم پاپا کو دکھا بھی دو تو وہ مجھے پولیس سے بچا لینگے۔۔ مگر تم بچ بھی گئے تو تمہارا کیرئیر برباد ہوجائیگا۔۔ اس لئے اب ۔۔۔مجھ سے رابطہ کرنے کی کوشش مت کرنا ’’
ریکارڈنگ ختم ہوئی تھی۔۔
اور وہاں موجود ہر انسان پتھر بن چکا تھا۔۔ سوائے عرش کے ۔۔ اب وہ کھڑا ہوا تھا مگر کوئی بھی اسے نہیں دیکھ رہا تھا۔۔
’’ اس یو۔ایس۔بی میں اصل اور ایڈیٹڈ دونوں تصاویر موجود ہیں ’’ اس نے میز میں رکھی یو۔اس۔بی کی طرف اشارہ کیا تھا۔۔ اسے شاید سب نے سنا تھا مگر کوئی اسکی طرف متوجہ نہیں ہوا تھا۔۔
’’ جانتے ہیں ۔۔ اسلام میں کسی پر جھوٹا بہتان لگانے کی کیا سزا ہے ؟ ‘‘ اس نے کہا تھا ۔۔ اور وہاں کھڑا ہر شخص کچھ بھی کہنے سے قاصر تھا ۔۔
’’ اسی کوڑے ‘‘ اسکی بات پر باہر کھڑی اربش نے اپنے سینے پر گھبرا کر ہاتھ رکھا تھا ۔۔
’’ لیکن سوچنے والی بات تو یہ ہے کہ یہ کوڑے کسے لگائے جائیں ؟ اور کون لگائے گا یہ کوڑے ؟ اور سب سے بڑا مسئلہ تو یہ ہے کہ کون لگوائے گا یہ کوڑے ؟ یہاں جب کسی پر بہتان لگایا جاتا ہے ۔۔ تو بہتان لگائے والا کوئی غیر نہیں ہوتا ۔۔ وہ اپنا ہی ہوتا ہے ۔۔ اپنا بھائی ، اپنی بہن ، اپنی ماں ، اپنا شوہر اور اپنا باپ ‘‘ عرش کی بات پر ایجاز صاحب کا سر جھک گیا تھا ۔۔
’’ یہاں لڑکیاں زیادتی کا نشانہ بننے کے بعد تو پھر بھی انصاف کا مانگنے کھڑی ہوجاتی ہیں مگر وہ بہتان لگنے پر آواز نہیں اٹھا پاتیں ۔۔ جانتے ہیں کیوں ؟ ‘‘ وہ رکا تھا ۔۔ مگر کسی نے بھی اسے جواب نہیں دیا تھا ۔۔ کوئی شاید اس قابل رہا ہی نہیں تھا ۔۔
’’ کیونکہ زیادتی کرنے والا بھائی نہیں ہوتا ، بہن نہیں ہوتی ، وہ کوئی ماں نہیں ہوتی ، وہ کوئی باپ نہیں ہوتا ۔۔ وہ ایک باہر کا درندہ ہوتا ہے ۔۔ اس سے نفرت بھی ہوجاتی ہے ۔۔ اسے تڑپتا دیکھنا بھی چاہتی ہیں ۔۔ مگر بہتان لگانے والا باہر کا کوئی درندہ نہیں ہوتا ۔۔ وہ ایک بھائی ، بہن ، ماں اور باپ ہوتا ہے۔۔ ان چاہ کر بھی نفرت نہیں ہوپاتی ۔۔ اسے چاہ کر بھی تڑپتا دیکھا نہیں جاتا ۔۔ تو پھر کون لگوائے انہیں اسی کوڑے ؟ ‘‘ وہ دروازے کی جانب مڑا تھا ۔۔ جہاں اس سے اربش کو کھڑا دیکھ لیا تھا ۔۔
’’ کاش۔۔ کاش کہ زیادتی کرنے والوں کے ساتھ ساتھ بہتان لگانے والوں کو بھی سزائیں دی جاتی ۔۔ تو آج کسی کی ہمت نہ ہوتی ، جھوٹا بہتان لگانے کی ، عزتوں کا تماشہ بنانے کی ، اپنے ناپاک مقصد کے حصول کے لئے ۔۔ لوگوں کی زندگیاں تباہ کر دینے کی ‘‘ وہ رکا تھا ۔۔نظر اب دوبارہ ایجاز صاحب کی جانب گئ تھی ۔۔ جن کا سر اب بھی جھکا ہوا تھا۔
’’ وہ جاچکی ہے ۔۔ آپ سب کا بہتان اپنے دامن پر لگا کر وہ یہاں سے بہت دور جاچکی تھی ۔۔ پر افسوس کے بہتان جھوٹا تھا ۔۔ پر افسوس کہ یہاں موجود ہر شخص اسکا مجرم ۔۔ اور اس سزا کا حقدار ٹھہرا ہے ۔ اور اللہ حقداروں کو انکا حق دینےوالا ہے‘‘ وہ کہہ کر پلٹا تھا اور دروازے کے قریب جاکر دوبارہ رکا تھا۔۔ وہاں اربش کھڑی تھی جو اسے اب حیرت سے دیکھ رہی تھی۔۔
اسکی آنکھوں میں کوئی پچھتاوا نہیں تھا۔۔ صرف اور صرف خوف تھا۔۔ جانے یہ خوف اسے کس سے آرہا تھا ؟
عرش نے بس اسے ایک نظر دیکھا اور اس ایک نظر میں صرف اور صرف نفرت تھی۔۔
پھر وہ آگے بڑھ گیا تھا۔۔ جیسے کوئی طوفان خاموشی سے آتا ہے اور سب تباہ کر کے چلا جاتا ہے۔۔ وہ ایک طوفان ہی تو تھا ۔۔ اربش کو وہ وہی طوفان لگا تھا۔۔
’’ اربش ! ’’ پاپا کی آواز گونجی تھی اور اس نے آنکھیں بند کر دی تھیں ۔۔
اسکے پاس اپنے حق میں کہنے کے لئے کچھ نہیں بچا تھا۔۔ سب ختم ہوگیا تھا۔۔ اسکی سچائی سب کو معلوم ہوگئ تھی۔۔ اب تو بس اسے سزا سنائی جانی تھی۔۔ اور وہ سزا کے لئے خود کو تیار کر رہی تھی ۔۔۔
وہ الہام کے گھر سے نکل کر باہر آیا اور اپنی گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر آکر بیٹھا تھا۔۔
’’ کیا ہوا ؟ ’’ ساتھ بیٹھے معاذ نے پوچھا تھا۔۔
’’ طوفان آگیا ہے ’’ اس نے کرسی کی پشت سے سر ٹکا کر کہا تھا۔۔ معاذ نے دیکھا ۔۔ اسکے چہرے پر ایک سکون سا تھا۔۔ جیسے ایک بہت بڑی ذمہ داری سے آزاد ہوا ہو۔۔
’’ تم نے اپنا کام کردیا ؟ ‘‘ بند آنکھوں کے ساتھ عرش نے پوچھا تھا ۔۔
’’ ہاں ۔۔ اس شادی میں موجود ہر فرد کو اورینجنل پکچرز اور اربش کی ریکارڈنگ بھیج دی گئ ہے ۔۔ سب اسکی سچائی جان چکے ہیں ‘‘ معاذ نے اسے بتایا تھا ۔۔
’’ اور سب الہام کی پارسائی جان چکے ہیں ‘‘ عرش نے آنکھیں کھولتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ چلو یعنی۔۔ یہ سب یہاں ختم ہوا ’’ معاذ نے ہلکی سے مسکراہٹ کے ساتھ کہا تھا۔۔
’’ ہاں۔۔ یہ سب یہاں ختم ہوا ’’ اس نے بھی دہرایا تھا۔۔
’’ اور اب آگے کیا کرنا ہے ؟ ’’ معاذ نے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا تھا۔۔اور عرش کے چہرے پر اب ایک مسکراہٹ آئی تھی۔۔
’’ وہی۔۔ جو الہام کر رہی ہے ’’ اس نے اب گاڑی سٹارٹ کی تھی۔۔
’’ الہام کیا کر رہی ہے ؟ ’’ معاذ نے چونک کر پوچھا تھا اور عرش کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی تھی۔۔
جواب کوئی نہیں دیا تھا اس نے ۔۔ بس ایک مسکراہٹ کے ساتھ ۔۔ گاڑی آگے بڑھا دی تھی ۔۔۔ ایک نئے رستے پر۔۔۔ ایک نئ منزل کی جانب۔۔۔