قسط 10 (پارٹ 1)
اگلی صبح ہمیشہ کی طرح الہام پارسا کے اٹھنے سے پہلے ہی ہسپتال چلی گئ تھی۔۔ یہ اسکی روٹین تھی وہ روز فجر کے بعد ہی ناشتہ کر کے پارسا کے اٹھنے سے پہلے ہسپتال پہنچ جاتی تھی۔۔ وجہ اسکی کچی نیند تھی۔۔ وہ اتنی گہری نیند سوہی نہیں پاتی تھی کہ صبح دیر ہوجائے۔۔ اتنے سالوں سے اسے ایسی ہی کچی نیند نصیب ہورہی تھی ۔۔ اور اس کچی نیند کی وجہ وہ تینوں ہی جانتے تھے۔۔
اس وقت بھی وہ ہسپتال جاچکی تھی۔۔ پارسا بھی اب جانے کے لئے بلکل تیار تھی۔۔ وہ روز ٹیکسی سے جاتی تھی کیونکہ گاڑی الہام لے جاتی تھی۔۔ جوکہ ان دونوں کی مشترکہ تھی۔۔ واپسی پر دونوں ساتھ ہی آتے تھے۔۔ احتشام کیونکہ ایک الگ ہسپتال میں ہوتا تھا۔۔ اسلئے اسکا وے بھی انکے ہسپتال سے الگ ہوتا تھا۔۔ ابھی بھی وہ تیار ہوکر باہر نکلی تھی۔۔ ارادہ ٹیکسی لینے کا ہی تھا مگر احتشام کو اپنے پیچھے آتے دیکھ کر وہ چونکی تھی۔۔
’’ آپ آج جلدی جارہے ہیں ؟ ’’ وہ اس کےساتھ چلنے لگا تھا۔۔
’’ ہاں۔۔ سوچا تمہیں ڈراپ کردوں ’’ لفٹ کا بٹن پریس کرتے ہوئے اس نے کہا تھا۔۔
’’ اسکی ضرورت نہیں ہے۔۔ میں خود چلی جاؤنگی ’’ وہ کل رات سے اسے حیران کر رہا تھا۔۔ وہ سمجھ نہیں پارہی تھی کہ احتشام کو اچانک کیا ہوا ہے ؟ آج سے پہلے تو اس نے کبھی بھی اسے ڈراپ کرنے کا نہیں کہا تھا۔۔
’’ ضرورت تو اب بہت ہے ’’ وہ دھیمی آواز میں بولا تھا۔۔ لہجہ عجیب تھا ۔۔
’’ کیا مطلب ؟ ’’ اس نے پوچھا تھا۔۔ اسی وقت لیفٹ کا دروازہ کھلا تھا۔۔ اور وہ دونوں اب پارکنگ ایریا کی طرف آئے تھے۔۔ احتشام نے اسکی بات کا جواب نہیں دیا تھا۔۔ وہ بھی خاموش ہوگئ تھی۔۔ وہ جب اسے ہسپتال لے کر آیا تو اسی وقت حامد کی گاڑی بھی وہاں آئی تھی۔۔ جسے دونوں نے دیکھ لیا تھا۔۔
’’ ارے حامد بھی آگیا ہسپتال ؟ مگر ابھی تو چھٹیاں باقی تھیں ’’ پارسا نے گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا تھا۔۔ احتشام نے دیکھا۔۔ وہ حامد کی طرف بڑھی تھی۔۔ جو اسے دیکھ کر ہاتھ میں کی چین گماتا اسی کی طرف آرہا تھا۔۔ احتشام بھی گاڑی سے باہر نکل کر اس طرف آیا تھا۔
’’ کیا بات ہے آج صبح صبح ہی چاند نکل آیا ؟ بہت جلدی تھی کیا ؟ ’’ حامد نے اسکی طرف جھکتے ہوئے شرارتاً کہا تھا۔۔ اسکی یہ شرارت احتشام کو اچھی نہیں لگی تھی۔۔
’’ ہاں۔۔ کالے بادل بھی صبح صبح نازل ہوگئے۔۔ پھر چاند بھی آسکتا ہے ’’ پارسا نے اسی کے انداز میں جواب دیا تھا۔۔
’’ ہاہا۔۔۔ چاند اور کالے بادلوں کا تعلق تو بہت پرانا ہے ڈئیر ۔۔۔ ارے احتشام بھائی کیسے ہیں آپ ؟ ’’ احتشام پر نظر پڑتے ہی اس نے اسکی طرف ہاتھ بڑھایا تھا۔۔
’’ بلکل ٹھیک ہوں۔۔ تم بتاؤ جلدی آگئے واپس ؟ ’’ اسکا ہاتھ تھامتے ہوئے پوچھا تھا۔۔
’’ ہاں۔۔ کیا کروں بس اب دل کے بغیر بھی تو گزارا نہیں ہے ’’ اس نے پارسا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تھا۔۔ جیسے کوئی اشارہ دیا ہو ۔۔
’’ اور وہ تو یہی تھا ’’ پارسا نے آگے جھک کر ایک آنکھ دبا کر کہا تھا۔۔ جواب میں وہ ہنسا تھا ’’ بے شک ’’
احتشام کا موڈ اچانک ہی آف ہوگیا تھا۔۔ سو وہ بنا کچھ کہے وہی سے پلٹ گیا تھا۔۔ جبکہ پارسا اور حامد اب ہسپتال کے اندر جارہے تھے ۔۔ پتہ نہیں اسے یہ حامد اچانک برا کیوں لگنے لگا تھا ؟ احتشام خود بھی سمجھنے سے قاصر تھا ۔۔
وہ اپنے مریض کے روم سے نکلنے کے بعد اب الہام کو ڈھونڈھ رہا تھا۔۔ مگر اسے وہ آفس میں نہیں ملی تھی۔۔ تبھی پاس سے گزرتی ایک نرس سے پوچھا تھا ’’ ڈاکٹر الہام کہا ہیں ؟ ’’
’’ وہ ایمرجنسی وارڈ میں ہیں۔۔۔ ابھی ابھی ایک ایکسیڈینٹ کیس آیا ہے۔۔ وہاں پولیس بھی موجود ہے ’’ نرس کی ساری بات سنتے ہی وہ لفٹ کی طرف تیزی سے بڑھا تھا۔۔ وہ جانتا تھا۔۔ الہام کو اسکی ضرورت نہیں ہوگی۔۔ مگر وہ بنا ضرورت بھی اسکے ساتھ ہونے کا عادی تھا۔۔
اسے سامنے ہی الہام نظر آئی تھی۔۔ پاس ہی دو پولیس آفیسر کھڑے تھے اور وہ شاید مریض کے گھر والوں سے بات کر رہی تھی۔۔ حامد تیزی سے اسکی طرف بڑھا تھا۔۔
’’ دیکھیں انکا خون کافی بہہ چکا ہے اور کانچ کے کچھ ٹکڑے باڈی کے اندر تک جاچکے ہیں ہمیں فوراً آپریٹ کرنا ہوگا۔۔ پر پلیز آپ لوگ جلدی سے بلڈ کا انتظام کر لیں ’’ اسکے پاس پہنچتے ہی اس نے الہام کی آواز سنی تھی۔۔
’’ آپ آپریشن سٹارٹ کریں۔۔ میں بس دس منٹ میں بلٹ اریج کر کے آتا ہوں ’’ وہ شاید اس مریض کا بھائی یا دوست تھا۔۔ جس نے جواب دیا تھا۔۔
’’ اوک۔۔ بی فاسٹ ’’ وہ اب نرس کی طرف مڑی تھی۔۔
’’ پیشینٹ کو آپریشن تھیٹر لے کر جائیں اور سب اریج کریں۔۔ ہم ابھی آپریشن کریں گے ’’ اس کی بات سنتے ہی نرس اندر کی طرف بھاگی تھی۔۔ ہر طرف ہل چل تھی۔۔
’’ میں بھی ساتھ آتا ہوں ’’ حامد کی آواز پر الہام نے اسے دیکھا تھا۔۔
’’ نہیں۔۔ اسکی ضرورت نہیں ہے۔۔ میں ہینڈل کر لونگ۔۔ ی تم باقی پیشینٹز کو دیکھو ’’ ہاتھ پر گلوز پہنتے ہوئے اس نے کہا تھا۔۔
’’ ہوسکتا ہو تمہیں میری ضرورت پڑے ’’ وہ اس کے ساتھ چلنے لگا تھا۔۔ وہ مسکرائی تھی۔۔
’’ تم جانتے ہو مجھے ڈر نہیں لگتا حامد ، تھینک یو ’’ اسے کہہ کر وہ آپریشن تھیٹر کے اندر چلی گئ تھی۔۔ اور وہ بھی مسکراتا ہوا آگے بڑھ گیا تھا۔۔ وہ جانتا تھا۔۔ اسے ڈر نہیں لگتا۔۔ اسے کسی بھی چیز سے ڈر نہیں لگتا تھا ۔۔ شاید ؟
وہ دو دن سے ہسپتال میں تھا۔۔ ایسا نہیں تھا کہ یہاں اسکی بہت ضرورت تھی یا پھر کوئی ایمرجنسی ۔۔ وہ اپنی مرضی سے دن رات یہاں گزار رہا تھا۔۔ وہ گھر نہیں جانا چاہتا تھا۔۔ اسے پاپا پر غصہ تھا۔۔ اور اسے اس مسئلے سے نکلنے کا حل بھی سوچنا تھا۔۔ آج وہ دو دن کے بعد گھر لوٹا تھا۔۔ پاپا گھر پر موجود نہیں تھے۔۔ اس نے سکھ کا سانس لے کر ملازمہ کو کھانا لگانے کا کہا تھا۔۔ باہر کا کھانا اسے زیادہ اچھا نہیں لگتا تھا۔۔ اور دو دن سے وہ باہر کھانا کھا رہا تھا۔۔ اب اسے بھوک لگ رہی تھی۔۔ وہ فریش ہوکر آیا تھا۔۔ ملازمہ جب تک کھانا لگا چکی تھی۔۔ اس نے فرصت سے کھانا کھایا اور پھر ایک کپ چائے کا کہہ کر وہ رانیہ کے کمرے کی طرف آیا تھا۔۔
’’ یاد آگئ تمہیں گھر کی ؟ ’’ اسے سامنے دیکھ کر اس نے طنز میں کہا تھا۔۔
’’ ہاں مجبوری تھی۔۔ آنا ہی پڑا ’’ وہ کہہ کر صوفے پر بیٹھ چکا تھا۔۔
’’ آخر کیا مسئلہ ہے اب ؟ ’’ اسے اس پر شدید غصہ آرہا تھا۔۔
’’ آپ اچھی طرح جانتی ہیں میرا مسئلہ۔۔ پھر پاپا کو سمجھاتی کیوں نہیں ہیں ؟ ’’
’’ تمہیں کیا لگتا ہے؟ میں نے سمجھانے کی کوشش نہیں کی ہوگی ؟ ’’ وہ اسکا مسئلہ جانتی تھی۔۔ اس لئے پرسکون ہوکر جواب دیا تھا ۔۔
’’ تو پھر کیا کہا انہوں نے ؟ ’’
’’ وہ اس بار کسی کی نہیں سنے گے۔۔ اور بقول پاپا کے تم انکے بیٹے ہو اور انہیں پورا حق ہے تمہارے لئے فیصلہ کرنے کا۔۔ اس لئے وہ زبردستی بھی کر سکتے ہیں ’’ اس نے اسے پاپا کے ارادے بتانا ضروری سمجھا تھا۔۔
’’ وہ میرے ساتھ زبردستی نہیں کر سکتے۔۔ میں نہیں کرنا چاہتا شادی ’’ اسے اب مزید غصہ آیا تھا۔۔ ابھی رانیہ نے اسکی بات کا جواب دینے کے لئے لب کھولے ہی تھے کہ مظہر صاحب کمرے میں داخل ہوئے تھے۔۔
’’ شادی تو تمہیں کرنی پڑے گی اب ۔۔بہت سن لی میں نے تمہاری ۔۔ اب تم میری سنو گے ’’ عرش پاپا کو دیکھ کر فوراً کھڑا ہوا تھا۔۔ دونوں اب آمنے سامنے تھے۔۔
’’ میں شادی نہیں کرنا چاہتا اور آپ زبردستی نہیں کر سکتے پاپا ’’ وہ دھیمے مگر سخت لہجے میں بولا تھا۔۔
’’ میں ساجد سے بات کر چکا ہوں۔۔ اسے کوئی اعتراض نہیں ہے۔۔ اس لئے اس سنڈے کو ہم تم دونوں کی منگنی کر رہے ہیں۔۔ اگر تم چاہو تو لڑکی سے ملاقات کر لو۔۔ ورنہ منگنی والے دن ملاقات ہو ہی جانی ہے ’’ وہ فیصلہ سنا کر اسے ہکابکا چھوڑ کر وہاں سے جاچکے تھے۔۔
’’ یہ کیا کہہ کر گئے ہیں ؟ ’’ اس نے رانیہ سے کہا تھا۔۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ اس کے پاپا بھی اس کے ساتھ ایسا کر سکتے ہیں ؟
’’ میں نے کہا تھا عرش۔۔ اس بار انہیں ہم نہیں مناسکتے ’’ رانیہ نے ہار مان لی تھی۔۔ وہ جانتی تھی کہ پاپا جب ضد پر آجائیں تو انہیں منانا کسی کے بس میں نہیں ہوتا ۔۔
’’ میں بھی انہیں کا بیٹا ہوں پھر ’’ وہ اسے کہہ کر وہاں سے جاچکا تھا اور رانیہ اسکی بات کا مطلب سمجھ چکی تھی۔۔ اب ناجانے کیا کرے گا وہ ؟ مگر جو بھی کرے کا اچھا نہیں ہوگا ۔۔۔ اس نے فوراً عامر کو کال کر کے ساری صورتحال بتا دی تھی ۔۔ شاید عامر ہی ان سب کا کوئی حل نکال سکے ؟ اسے ایک امید تھی ۔۔
وہ اپنے کمرے میں اب مسلسل چکر لگا رہا تھا۔۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے ۔۔ شادی تو وہ کسی بھی صورت میں نہیں کرسکتا تھا ۔۔ آخر کیسے کر لیتا وہ شادی ؟
اسے ایک یقین سا تھا کہ اسکا انتظار رائیگا نہیں جائیگا ۔۔
اسے ایک یقین سا تھا کہ اسکا الہام اسے اسکی منزل تک لے جائیگا ۔۔۔
اسے ایک یقین سا تھا کہ وقت اسے مایوس نہیں کرے گا۔۔۔
وہ مایوس نہیں ہونا چاہتا تھا ۔۔ وہ اپنے دل کو مارنا نہیں چاہتا تھا ۔۔۔مگر اس صورتحال سے بچنا بھی بہت ضروری تھا۔۔ یہ وہ بھی جانتا تھا کہ پاپا کو منانا اب ناممکن ہے۔۔ اس نے سات سال تک پاپا کو روک کر رکھا تھا ۔۔اب وہ نہیں رک سکتے تھے ۔۔ اور وہ ؟
اس نے اپنی کھڑکی سے باہر آسمان کی طرف دیکھا تھا ۔۔ وہ ان سات سالوں کے انتظار کو رائیگا جانے دے سکتا تھا کیا ؟ اس نے دل سے پوچھا تھا ۔۔ جواب فوراً آیا تھا ۔۔ نہیں !
موبائل کی آواز نے اسے سوچوں کی دنیا سے باہر لایا تھا۔
’’ سلام عامر بھائی۔۔ کیسے ہیں آپ ؟ ’’نظریں آسمان پر جمی تھیں۔۔
’’ ٹھیک ہو ۔۔ تم کیسے ہو ؟ ’’ انکا لہجہ بتا رہا تھا کہ وہ حالات سے واقف تھے۔۔
’’ آپ جانتے ہیں کہ میں کیسا ہوں ؟ اور یقیناً رانیہ نے آپکو سب بتا دیا ہوگا اور اب آپ مجھے یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ میں پاپا کی بات مان لوں۔۔ اور اپنی زندگی کا سب سے اہم فیصلہ ان کی مرضی اور اپنی خوشی کے خلاف کرلوں ’’ اس نے انہیں بولنے کا موقع بھی نہیں دینا تھا۔
’’ ہاں ۔۔ رانیہ نے مجھے سب بتا دیا ہے اور میں نے اسی لئے تمہیں کال کی ہے کہ میں تمہیں سمجھا سکوں ۔۔ مگر’’ وہ خاموش ہوئے تھے اور عرش الجھا تھا۔۔
’’ مگر ؟ ’’
’’ مگر میں تمہیں یہ نہیں سمجھانا چاہتا کہ تم انکی مرضی سے شادی کرلو بلکہ میں تمہیں یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ تم اپنی خوشی کے لئے فرار ہوجاؤ ’’ انکی بات نے اسے چونکا دیا تھا
’’ فرار ہوجاؤں ؟ ’’ اس نے آسمان کو دیکھتے ہوئے کہا تھا ۔۔۔۔ اسے لگا۔۔ کوئی جواب آیا تھا ۔۔ آسمان سے ۔۔
وہ اور احتشام لاونچ میں بیٹھے مووی دیکھ رہے تھے اور پارسا کچن میں کھانا بنا رہی تھی۔۔ ان دونوں کی فرمائش پر آج وہ کھانا بنارہی تھی اور مجال ہے کہ دونوں میں سے کوئی بھی اسکی مدد کے لئے کچن گیا ہو ۔۔
’’ احتشام بھائی ۔۔ میں آپ سے کچھ بات کرنا چاہتی تھی ’’ مووی کے درمیان میں ہی اس نے احتشام سے کہا تھا۔۔
’’ ہاں بولو ؟ ’’ ایل۔ای۔ڈی پر نظریں رکھتے ہوئے اس نے کہا تھا۔۔
’’ڈاکٹر پارسا اتنے سالوں سے ہمارے ساتھ ہیں اور وہ بھی صرف ہمارے لئے۔۔ کتنی اچھی ہیں نہ وہ ؟’’ اس نے پوچھا تھا۔۔
’’ ہاں صحیح کہہ رہی ہو وہ واقعی بہت اچھی ہے’’ اس نے دل سے کہا تھا۔
’’ اگر وہ نہ ہوتیں تو شاید آج یہ سب ایسا نہ ہوتا ۔۔ شاید آج ہم اتنے پرسکون نہ ہوتے ۔۔ مجھے لگتا ہے کہ ہمیں بھی انکے لئے کچھ سوچنا چاہئے ۔ یہ تو خودغرضی ہے کہ صرف اس لئے ہم نے انہیں اپنے ساتھ باندھ رکھا ہے کہ ہم اکیلے نہیں رہ سکتے۔۔ کیونکہ ہم نامحرم ہیں ۔۔ ؟ ’’ الہام نے سنجیدگی سے کہا تھا اور اسکی بات نے احتشام کو اسکی طرف دیکھتے پر مجبور کیا تھا۔۔
’’ کیا مطلب ؟ ’’
’’ مطلب یہ کہ ڈاکٹر پارسا کے والدین انکی شادی کرنا چاہتے ہیں۔۔ مگر وہ انکار کر رہی ہیں۔۔ صرف ہماری وجہ سے ۔۔ آپکو نہیں لگتا کہ یہ ان فئیر ہے ؟ ’’ الہام کی بات پر وہ حیران ہوا تھا۔۔
’’ پارسا کی شادی ؟ کس کے ساتھ ؟ ’’
’’ یہ تو انہیں ہی معلوم ہوگا مگر میں چاہتی ہوں کہ ہم انہیں شادی کرنے کے لئے منائیں۔۔ آخر ساری زندگی تو وہ ایسے نہیں رہ سکتی ہیں نہ ؟ ’’ اس نے کہا تھا اور احتشام اسکی بات سمجھ رہا تھا۔۔۔
’’ میں کرونگا اس سےبات ’’ اس نے دھیمی لہجے میں کہا تھا۔۔
’’ میں نے کب کہا کہ آپ ان سے بات کریں ؟ ’’ الہام کی بات پر اس سے ناسمجھی سے اسے دیکھا تھا۔۔
’’ منڈے کو ان کی سالگرہ ہے اور میں چاہتی ہوں کہ آپ انہیں زندگی کا سب سے اہم تحفہ دیں’’
’’کیسا تحفہ ؟ ’’ وہ اب بھی نہیں سمجھ رہا تھا۔۔
’’ شادی کا تحفہ ۔۔ میں چاہتی ہوں کہ آپ ان سے شادی کر لیں ’’ الہام نے اسکے سر پر ایک بم پھوڑا تھا اور وہ فوراً کھڑا ہوا تھا۔۔
’’ یہ تم کیا کہہ رہی ہو ؟ ’’ الہام جانتی تھی کہ انکا یہی ردعمل ہوگا۔۔ وہ بھی انکے سامنے کھڑی ہوگئ تھی۔۔
’’ کچھ غلط نہیں کہہ رہی میں۔۔۔ آخر ہم کب تک ایسے زندگی گزارتے رہیں گے ؟ اور انہیں بھی اس طرح اپنے ساتھ رکھیں گے ۔۔ یہ تو آپکو سوچنا چائیے تھا مگر یہ میں سوچ رہی ہوں ۔۔ آپکو کیا لگتا ہے وہ اتنے سالوں سے صرف دوستی کی خاطر یہاں موجود ہیں ؟ اور آپ ؟ آپنے صرف دوستی کی خاطر انہیں یہاں رکھا ہوا ہے ؟ ’’ اس کے سوالوں کا احتشام کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔۔ وہ تو بس حیران تھا کہ الہام کیسے یہ سب جان سکتی ہے ؟ اور کب سے ؟ یہ سب تو وہ کچھ سے بھی چھپانا چاہتا تھا ۔۔
’’ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔۔ آپ دونوں ایک دوسرے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔۔ اور آپ دونوں ہی ایک دوسرے کے ساتھی بن سکتے ہیں۔۔ میں مزید آپ دونوں کو اس طرح ایک دوسرے سے چھپتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتی ہو ’’ وہ رکی تھی ۔۔۔ اچانک ہی ۔۔اس کے کانوں میں کسی کے الفاظ گونجے تھے۔۔ الہام نے ان الفاظوں کو زبان سے ادا کیا تھا۔۔
’’ دل سے بھاگا نہیں جاتا ۔۔ دل کا سامنا کیا جاتا ہے ۔۔ ایک دل ہی تو ہوتا ہے جس کے سامنے انسان کو ڈٹ کر کھڑا ہونا چاہئے اور اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہنا چاہئے: ’’ ہاں جو تو چاہتا ہے وہی میں چاہتا ہوں اور جو میں چاہتا ہوں تو مجھ سے وہی کروا اب ’’ اس نے کہا تھا ۔۔ایک پرانی یاد تازہ ہوئی تھی ۔۔ ایک چہرہ آنکھوں کے سامنے آیا تھا ۔۔ انکھوں میں نمی گہری ہونے لگی تھی۔۔ اور وہ گھبرا کر اپنے کمرے کی طرف بھاگی تھی۔۔ اور احتشام اسے دیکھتا رہ گیا تھا ۔۔۔ دل کو آج وہ بھی جان گیا تھا ۔۔۔ دل سے اب وہ بھی بھاگ نہیں سکتا تھا ۔۔
وہ اس وقت ہسپتال میں اپنے آفس میں بیٹھا تھا۔۔ سامنے ہی معاذ بیٹھا اسے گھور رہا تھا۔۔
’’ تم مجھے اس طرح کیوں دیکھ رہے ہو ؟ ’’ اس کے مسلسل گھورنے سے وہ چڑ گیا تھا۔۔
’’ یقین کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ تم نے ہی مجھ سے یہ بات کی ہے ؟ ’’ اسے واقعی یقین نہیں آرہا تھا۔۔
’’ میں نے ایسی کوئی انوکھی بات نہیں کی ہے۔ تم خود ہی بتاؤ اس کے علاوہ اور کیا حل ہے ؟ ’’ وہ آگے کو جھک کر بولا تھا ۔۔
’’ مگر بھاگنا بھی تو ٹھیک نہیں ہے عرش ۔۔ جانتے ہو انکل تمہیں کبھی معاف نہیں کرینگے ’’ اس نے اسکی توجہ ایک اور مسئلے کی طرف کرنا چاہی تھی۔۔
’’یہی میں نے عامر بھائی سے بھی کہا تھا۔۔۔ پر انہوں نے کہا کہ وہ سنبھال لیں گے ’’ اس نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ تمہیں لگتا ہے کہ وہ واقعی سنبھال لیں گے ؟ تمہارا ساتھ دینے کی وجہ سے انکل کا ان کے ساتھ بھی رویہ سخت ہے ’’
’’ جانتا ہوں مگر میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اگر وہ اتنے سکون سے مجھے یہ کہہ رہے ہیں تو یقیناً انہوں نے کچھ سوچ رکھا ہوگا’’ اس کے گرد چکر لگاتے ہوئے وہ کہہ رہا تھا۔۔
’’ اور یہ جو تمہاری بے چینی ہے اسکا کیا ؟ تم بھاگنے والوں میں سے نہیں ہو۔۔ مگر آج تم بھاگنے کا سوچ رہے ہو۔۔ تو پھر سکون کیسے آئیگا تمہیں ؟ ’’ اسے چکر لگاتے دیکھتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ میں واقعی بھاگنے والوں میں سے نہیں ہوں معاذ ۔۔ مگر کل جب عامر بھائی نے مجھے فرار ہونے کا کہا۔۔ تو ایسا پہلی بار ہوا کہ دل نے انکار نہیں کیا ۔۔وہ فوراً مان گیا ۔۔ میں کیسے یہ بات مان گیا مجھے نہیں معلوم۔ ۔ یہ بھی سچ ہے کہ میں بے چین ہوں۔۔ کیونکہ میں پہلی بار حالات سے بھاگ رہا ۔۔ میں پہلی بار مجبوریوں کے آگے جھک رہا ہوں۔۔ مگر اس کے باوجود دل ناجانے کیوں مطمئن ہے ۔۔ اس لئے میں بھی مطمئن ہوں ‘‘ اس کی باتوں میں سچائی تھی اور معاذ سمجھ چکا تھا کہ اب اسے کوئی روک نہیں سکتا تھا۔۔ اس لئے وہ بھی مان گیا تھا۔۔
’’ مجھے افسوس ہے کہ میں تمہارے ساتھ نہیں جاسکتا کیونکہ مجھے یہاں انکل کو بھی سنبھالنا ہے۔۔ مگر ایک بات پکی ہے۔۔ میں زیادہ دن تمہیں نہیں بخشنے والا ۔۔ جلدی آجاؤنگا تمہارے پاس ’’ اس نے بھی کھڑے ہوکر اسکے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ جانتا ہوں۔۔ میرے اتنے اچھے نصیب کہاں ؟ مگر میں اکیلا نہیں ہونگا عامر بھائی کا ایک جاننے والا وہاں ہے۔۔ میں اسی کے ساتھ رہونگا ’’ عرش کی بات پر وہ مسکرایا تھا۔۔
’’ ویسے عامر بھائی نے بھی پوری تیاری کی ہوئی ہے ’’ اس نے ہنس کر کہا تھا۔۔ عرش بھی مسکرایا تھا۔۔
’’ ویسے جا کہاں رہے ہو تم ؟ ’’ معاذ کو یہ پوچھنے کا خیال اب آیا تھا۔۔۔ عرش نے پلٹ کر اپنے ٹیبل پر رکھی ایک میگزین کو دیکھا تھا۔۔
جس کے سرورق پر آئیفل ٹاور کی تصویر بنی تھی ۔۔ معاذ سمجھ چکا تھا ۔۔ وہ پیرس جارہا تھا ۔۔