اے راز دل

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط 11

الہام اسے اتنی دیر سے ڈونڈھ رہی تھی مگر وہ اسے مل ہی نہیں رہا تھا۔۔ اس نے ریسیپشن پر آکر اسے کال کی تھی جوکہ اس نے فوراً اٹھا لی تھی۔۔
’’ کہا ہو ؟ کب سے ڈونڈھ رہی ہوں تمہیں ؟ ’’ الہام نے فوراً کہا تھا۔۔
’’ زہے نصیب ۔۔ بڑے بڑے لوگ ہمیں ڈونڈھ رہے ہیں ’’ الہام کے کان کے پاس کسی نے سرگوشی کی تھی۔۔ وہ فوراً پلٹی تھی۔۔ وہ اسے مسکراکر دیکھ رہا تھا ۔۔
’’ کہا تھے تم ؟’’ اس نے دوبارہ پوچھا تھا۔۔
’’ ایک پیشینٹ ڈیل کر رہا تھا۔۔ تم بتاؤ آج صبح صبح میری یاد کیوں آرہی ہے ؟’’ اس نے تھوڑا جھک کر شرارتاً کہا تھا۔۔
’’ کام جو ہے تم سے آفکورس۔۔ اور کیوں آئیگی یاد ’’ الہام نے بھی اسی کے انداز میں جھک کر کہا تھا۔۔
’’ ہاں بھئی مطلب پرست دنیا ہے۔۔ کام کے علاوہ کہاں یاد کرتی ہے ’’ اس نے خالص زنانہ انداز میں کہا تھا۔۔
’’ بلکل۔۔ اور اب یہ بتاؤ کہ ساری ارینجمنٹز ہوگئ ہیں ؟ ’’
’’ ہاں ہوگئ ہے۔۔ اب پلیز یہ مت کہنا کہ تم کچھ چینج کرنا چاہتی ہو۔۔ پہلے ہی بہت خوار کروایاہے تم نے ’’ اس نے ہاتھ اٹھا کر اسے وارن کرنے والے انداز میں کہا تھا۔۔ وہ روز روز کوئی نہ کوئی نئ فرمائش لے کر آجاتی تھی۔۔ اور اسے اسکی فرمائش پوری کرنی پڑتی تھی۔۔
’’ دیکھو یہ لاسٹ ہوگا پلیز ’’ الہام نے معصوم چہرہ بناتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ امپاسیبل ! میں نہیں کرونگا کچھ بھی اب ’’ حامد اسے صاف انکار کر کے آگے بڑھ گیا تھا اور الہام اسکے پیچھے دوڑی تھی۔۔
’’ دیکھو یہ لاسٹ ہے اور بہت ضروری بھی ہے۔۔ پلیز حامد ’’ وہ اسکے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی کہہ رہی تھی۔۔
’’ بدلے میں مجھے کیا ملے گا ؟ ’’ اس نے رک کر پوچھا تھا۔۔
’’ جو تم کہو’’ الہام نے فوراً جواب دیا تھا ۔۔ اور اسکے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ آئی تھی۔۔ معنی خیز مسکراہٹ ۔۔
’’ پکا ؟ ’’ اس نے پھر پوچھا تھا۔۔
’’ ہنڈریٹ پرسنٹ ’’ الہام نے ہاتھ اٹھا کر کہا تھا۔۔
’’ اوک۔۔ بتاؤ کیا کرنا ہے ؟ ’’ وہ دوبارہ چلنے لگا تھا۔۔ رخ لفٹ کی جانب تھا۔۔
’’ گانا گانا ہے ’’ الہام کی بات پر اسکے قدم رک گئے تھے۔۔
’’ کیا ؟ ’’ وہ شاکڈ ہوا تھا۔۔
’’ ہاں ۔۔ تمہیں گانا گانا ہے۔۔ جب احتشام بھائی پارسا کو پروپوز کر لیں گیں۔۔ اس کے بعد پہلے تم سنگنگ کروگے۔۔ پھر ہم کیک کٹ کرینگے ’’ الہام نے اپنا پورا پلین اسے بتایا تھا اور وہ منہ کھولے اسے سن رہا تھا۔۔
’’ مجھے سنگنگ نہیں آتی ’’ اس نے صاف انکار کیا تھا۔۔
’’ ہاہا ۔۔ تمہیں لگتا ہے صرف تم ہی میرے بارے میں جانتے ہو ؟ میں نہیں ؟ ’’ وہ اسکے سامنے آئی تھی۔۔
’’ اچھی طرح جانتی ہوں کہ تم کتنا اچھا گاتے ہو۔۔ اس لئے گٹار میں لے چکی ہوں۔۔ تم نے سانگ سنگ کرنا ہے۔۔ بات ختم ’’ وہ اسے حکم دے کر واپس مڑ گئ تھی اور وہ حیرانی سے اسے جاتے دیکھ رہا تھا۔۔
’’ اچھا سنو ! ’’ اس کی پکار پر وہ مڑی تھی۔۔
’’ میں سنگ کرونگا مگر میری بات بھی ماننی ہوگی ’’ اس نے اسے یاد دلایا تھا۔۔
’’ بلکل بولو ؟ ’’ اس نے پوچھا تھا۔۔
’’ میرا ایک دوست ہے۔۔ میں اسے ساتھ لانا چاہتا ہوں ’’
’’ ضرور لے آؤ۔۔ مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہو ؟ تم لاسکتے ہو ’’ الہام نےمسکرا کر کہا تھا۔۔
’’ تھینکس ’’ وہ کہہ کر لفٹ کے اندر آگیا تھا۔۔ اور الہام واپس پلٹی تھی۔۔
’’ میں تو سمجھا تھا کہ میڈم بہت معصوم ہیں۔۔ مگر یہ تو بہت تیز نکلی۔۔ پوری جاسوسی کی ہے میری ’’ لفٹ کے اندر آکر وہ اسے سوچ کر مسکرا رہا تھا ۔۔
احتشام نے اپنے کاندھے پر پرفیوم سپرے کیا تھا اور ایک آخری نظر آئینے میں موجود اپنے عکس پر ڈالی تھی۔۔ بلیک پینٹ کوٹ، ہلکی بڑھی ہوئی داڑھی ، جیل سے سیٹ کئے ہوئے بال ، اور اپنے چوڑے کاندھوں کے ساتھ وہ بہت ہی ڈیشینگ لگ رہا تھا۔۔ اس نے اب اپنا موبائیل اٹھا کر اپنی پینٹ کی جیب میں ڈالا تھا۔۔ ساتھ ہی ڈریسنگ ٹیبل کا ایک دراز کھول کر اس نے ایک مخمل کی ڈبیاں نکالی تھی اور مسکراتے ہوئے اسے بھی اپنے کوٹ کی جیب میں رکھ کر باہر نکلا تھا ۔۔
پارسا نے ایک آخری نظر آئینے میں موجود اپنے عکس پر ڈالی تھی۔۔ بلیک کلر کی ٹاپ اور پلازو پہنے ہوئے ، گلے میں رسی کی مانند لپیٹا ہوا دوپٹہ ، بالوں میں بیچ کی مانگ نکال کر کھلا چھوڑا ہوا تھا ، ہلکے سے میک اپ اور ہلکی پنک شیڈ کی لپ سٹک ، جیولری کے نام پر ایک نازک سا بریسلیٹ پہنے ہوئے۔۔ وہ بلاشبہ بہت کیوٹ لگ رہی تھی۔۔ اس نے مسکرا کر آئینے میں خود کو دیکھا اور اپنا پرس اٹھا کر باہر نکلی تھی ۔۔
احتشام اسکا باہر گاڑی میں ویٹ کر رہا تھا مگر اسے الہام کہیں نظر نہیں آئی تھی۔۔ اس نے فرنٹ ڈور کی کھڑکی پر جھک کر پوچھا تھا۔
’’ الہام کہاں ہے ؟ وہ ساتھ نہیں جارہی کیا ؟ ’’
’’ نہیں۔۔ وہ پہنچ جائیگی تم بیٹھو ’’ اس نے اسے گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔۔ اور شاید یہ پہلی بار تھا۔۔ جب وہ اسے اتنے غور سے دیکھ رہا تھا ۔۔ اور اسے آج معلوم ہوا تھا کہ وہ بہت کیوٹ تھی۔۔ بلکل ایک بچے کی طرح ۔۔
وہ اس کے ساتھ بیٹھ چکی تھی جب اسنے گاڑی آگے بڑھائی تھی ۔۔
دوسری طرف حامد اور عرش بھی اسی سفر کی پر تھے۔۔ حامد کے کانوں میں ائیرفون لگا تھا۔۔ جس پر وہ کسی سے بات کر رہا تھا۔۔
’’ ارے ہم پہنچ رہے ہیں وہاں۔۔ تم پریشان مت ہو ہم ان دونوں سے پہلے پہنچ جائیگے ۔۔ تم کب تک آؤگی ؟ ’’ وہ گاڑی سگنل پر روک کر پوچھ رہا تھا ۔۔
’’ اچھا لیکن ٹائم پر آجانا۔۔ تم جانتی ہو ہم رک نہیں سکتے ۔۔ اوک بائے ’’ اس نے کال بند کردی تھی۔۔
’’ ایک تو مجال ہے کہ یہ چڑیل کبھی ٹائم پر پہنچ جائے ’’ اس نے ٹرن لیتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ کون چڑیل ؟ ’’ عرش نے مسکراتے ہوئے کہا تھا۔۔ وہ کافی دیر سے اسکی باتیں سن رہا تھا۔۔
’’ ہے ہمارے ہسپتال کی ایک بہادر ڈاکٹر ۔۔ اس لئے تو چڑیل کہتا ہوں ’’ حامد کی بات پر عرش نے حیران ہوتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ بہادر ہونے کی وجہ سے ؟ ’’
’’ ہاں۔۔ کیونکہ میڈم کسی چیز سے نہیں ڈرتیں۔۔ کتنا ہی برا ایکسیڈینٹ کیوں نہ ہوجائے۔۔ مریض کی حالت دیکھنے کے قابل نہ بھی ہو تب بھی یہ اسے دیکھ بھی لیتی ہیں اور آپریٹ بھی کر لیتی ہیں۔۔ اب اتنی بہادر چڑیلیں ہی ہوتی ہیں۔۔ ورنہ لڑکیاں کہاں ہوتی ؟ ’’ حامد نے کہتے ہوئے ایک ہوٹل کے سامنے گاڑی روکی تھی۔۔
’’ یہ بھی ٹھیک کہا ’’ عرش نے اسکی بات سے ایگری کیا تھا۔۔ مگر مکمل طور پر نہیں ۔۔ کیونکہ اس نے دیکھا تھا ۔۔ایک بہادر لڑکی کو ۔۔ بہت سال پہلے ۔۔
وہ دونوں ہوٹل کے اندر داخل ہوئے تھے۔۔ جب وہاں کا مینیجر انہیں دیکھ کر انکے پاس آیا تھا۔۔
’’ سر آپکا ہی ویٹ کر رہے تھے۔۔ سب کچھ ریڈی ہے۔۔ آپ پانچویں فلور پر چلے جائیں ’’ مینیجر کے کہنے پر وہ مسکرا کر لفٹ کی جانب بڑھے تھے۔۔
پانچویں فلور پر داخل ہوتے ہی عرش حیران رہ گیا تھا۔۔ وہاں کوئی بھی موجود نہیں تھا۔۔ دائیں جانب ایک ڈائیننگ ٹیبل تھی جسے موم بتیوں سے سجایا گیا تھا۔۔۔ اس کے علاوہ پھولوں کے تین گلدان، اس کی خوبصورتی میں اضافہ کر رہے تھے۔ ہلکی ہلکی روشنی نے ماحول میں عجیب خوبصورتی پیدا کر دی تھی۔۔ اور بائیں جانب کارنر پر ایک کرسی رکھی تھی۔۔ اسکے علاوہ چاروں طرف پھولوں کے بکے رکھے گئے تھے۔۔ چھت غباروں سے بھری ہوئی تھی۔۔ حامد نے آگے بڑھ کر ایک بٹن پریس کیا تھا۔۔ جس سے ایک روشنی ہوئی تھی جو کہ بلکل بیچ میں گول دائرہ بنا رہی تھی ۔۔
’’ کیا لگ رہا ہے ؟ ’’ حامد نے اس سے پوچھا تھا۔۔
’’ بہت خوبصورت ’’ عرش نے تعریف کی تھی۔۔ واقعی سب بہت خوبصورت تھا۔۔
’’ کچھ دیر بعد زیادہ خوبصورت ہوگا ’’ حامد نے کہہ کر بٹن آف کر دیئے تھے۔۔ جس سے ساری روشنی بجھ گئ تھی۔۔ صرف وہ دائرہ روشن تھا جہاں روشنی پڑھ رہی تھی۔۔ اسکے علاوہ دائیں جانب کا ڈائیننگ ٹیبل موم بتیوں کی وجہ سے روشن تھا۔۔ روشنی اس طرف نہیں پہنچ رہی تھی ۔۔ یہ ماحول نہایت ہی رومانٹک لگ رہا تھا ۔۔
’’ یہ سالگرہ کی تیاری ہے یا ویڈنگ کی ؟ ’’ عرش نے پوچھا تھا۔۔
’’ ہاہا ۔۔ دونوں سمجھو ’’ حامد نے گھڑی دیکھی تھی۔۔
’’ وہ دونوں آنے والے ہیں اور اب تک وہ چڑیل نہیں پہنچی ’’ حامد نے لائیٹس آن کرتے ہوئے کہا تھا۔۔
عرش ڈائیننگ ٹیبل کی طرف بڑھا تھا۔۔ جہاں ٹیبل پر چھوٹی چھوٹی پھولوں کی پتیاں بکھری ہوئی تھیں۔۔ اس نے ایک پتی اٹھائی تھی۔۔
یہی وہ وقت تھا جب وہ ہاتھ میں گٹار پکڑے اندر داخل ہوئی تھی۔۔ حامد فوراً اسکی طرف بڑھا تھا اور گٹار لے کر سامنے رکھی کرسی کے ساتھ رکھا تھا۔۔
’’ اتنی دیر لگا دی تم نے ۔۔ وہ بھی آگئے۔۔ اف ! ’’ حامد فوراً سویچ بورڈ کی طرف بڑھا تھا۔۔
عرش پلٹا تھا مگر اس سے پہلے کہ سامنے کھڑی لڑکی کا چہرہ دیکھ سکتا لائیٹس آف ہوگئ تھیں ۔۔ کوئی اندر آیا تھا شاید وہ دو لوگ تھے ۔۔ الہام دائیں طرف کھڑی تھی۔ جبکہ عرش چلتا ہوا بائیں طرف آیا تھا۔۔ دونوں دیکھ سکتے تھے کے سامنے کوئی موجود ہے۔۔ مگر اندھیرے کے باعث دونوں ہی چہرہ دیکھنے سے قاصر تھے ۔۔ وہ دو لوگ چل کر اب ان دونوں کے بیچ آئے تھے۔۔۔
’’ اتنا اندھیرا کیوں کیاہوا ہے ؟ میں تو جانتی ہوں کہ میری سالگرہ ہے ’’ یہ پارسا کی آواز تھی ۔ الہام کے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی۔۔ اسی وقت ایک لائٹ آن ہوئی تھی۔۔ جس نے اسی جگہ دائرہ بنایا تھا جہاں وہ دو لوگ وہاں موجود تھے ۔۔
باقی سب کہاں ہے ؟ ’’ پارسا نے احتشام سے پوچھا تھا۔۔ جس پر وہاں موجود دونوں لوگ مسکرائے تھے۔۔ سوائے اس ایک کے جو احتشام کو دیکھ کر حیران رہ گیا تھا ۔۔ یہ شخص ؟ ۔۔ وہ اس شخص کو کیسے بھول سکتا تھا ؟ یہ وہی تھا ۔۔ مگر یہ یہاں کیا کر رہا ہے ؟ اور یہ لڑکی ؟
عرش کے اوپر تو جیسے آسمان گرا تھا۔۔ وہ بس اسی شخص کو دیکھ رہا تھا۔۔ جو اب اس لڑکی کی طرف تھوڑا سا جھکا تھا۔۔
’’ باقیوں کو تھوڑی دیر کے لئے بھول کیوں نہیں جاتی تم ؟ ’’ احتشام کا انداز رومانی تھا اور پارسا اس انداز پر حیران ہوئی تھی۔۔
’’ اب ایسے مت دیکھو مجھے ۔۔ ورنہ مجھے خوش فہمی ہوجائے گی کہ تمہیں محبت ہوگئ ہے مجھ سے ’’ احتشام نے اسکی ان حیران آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا تھا۔۔ اور پارسا چونکی تھی ۔۔ یہ اسے کیا ہوگیا ہے ؟ یہ وہ کہہ کیا رہا ہے ؟
’’ یہ کیا کہہ رہے ہیں ؟ ’’ پارسا بس اتنا ہی کہہ پائی تھی۔۔ انداز نظر چرانے والا تھا ۔
’’ وہی جو بہت پہلے کہنا چاہئے تھا ’’ احتشام نے پارسا کا ایک ہاتھ تھاما تھا۔۔
’’ اگر تم سے کچھ مانگو تو دوگی ؟ ’’ اس نے پوچھا تھا۔۔ اور پارسا کو لگا شاید وہ خواب دیکھ رہی ہے۔۔
’’ میں جانتا ہوں کہ تم نے میرا بہت ساتھ دیا ہے ۔۔مجھے کبھی اکیلا نہیں ہونے دیا ۔۔ اگر تم نہ ہوتی ساتھ تو شاید آج سب کچھ اتنا اچھا نہ ہوتا ۔۔ آج شاید میں ایسا نہ ہوتا ۔۔اور میں جانتا ہوں کہ یہ سب تم نے صرف دوستی نبھانے کے لئے نہیں کیا ۔۔ میں جانتا ہوں میں تمہارے لئے خاص ہوں ۔۔۔ اور اب تم سے میں کچھ ایسا مانگنا چایتا ہوں۔۔ جو سب سے خاص ہے ۔۔ کیا دوگی مجھے ؟ ’’ اس نے اسکی آنکھوں میں جھانک کر کہا تھا۔۔ پارسا نے دیکھا تھا۔۔ آج اسکے دیکھنے کا انداز کچھ الگ تھا ۔۔ آج وہ خود کچھ الگ تھا ۔۔ آج وہ ویسا تھا۔۔ جیسا وہ اپنے خوابوں میں اسے دیکھا کرتی تھی ۔۔ وہ آج کتنا اچھا لگ رہا تھا ۔۔ اس نے دوبارہ سر ہلایا تھا۔۔ وہ کچھ بھی کہنے سے قاصر تھی۔۔
’’ مجھے تم سے تمہارا ساتھ چاہئے ۔۔ عمر بھر کے لئے ۔۔ موت تک کے لئے ۔۔ کیا دوگی مجھے ۔؟؟ کیا شادی کروگی مجھ سے ۔۔؟؟ ’’’ احتشام کے یہ الفاظ پارسا کی آنکھوں میں آنسو لے آئے تھے ۔۔ یہ وہی الفاظ تھے۔۔ جنہیں سننے کا وہ نو سالوں سے انتظار کر رہی تھی۔۔۔ یہ وہی الفاظ تھے۔۔ جنہیں سننے کی امید وہ سات سال پہلے کھو چکی تھی۔۔ اور یہ وہی الفاظ تھے۔۔ جنہوں نے آج اسے اسکے صبر کا پھل دیا تھا ۔۔
اور دوسری جانب یہ وہی الفاظ تھے۔۔ جنہوں نے عرش کو ایک اور جھٹکا دیا تھا ۔۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ اسکی نظر کا دھوکا ہے یا پھر سچ ہے ؟
الہام سانس روکے کھڑی تھی۔۔ پارسا کے جواب کا انتظار اسے بے چینی سے تھا ۔۔
’’ بولو پارسا ؟ ’’ احتشام نےاسے خیالوں کی دنیا باہر نکالا تھا۔۔
’’ ہاں ۔۔ کرونگی ’’ بھیگی آنکھوں کے ساتھ اس نے کہا تھا۔۔ اور بس وہی لمحہ تھا۔۔ جب الہام کی سانسیں بحال ہوئی تھیں۔۔ اور اس نے چیخنا شروع کیا تھا۔۔ ہاتھوں سے تالیاں بجاتے وہ اچھلتے ہوئے چیخ رہی تھی ۔۔ حامد نے ایک چھوٹی سی گن نکال کر چھت کی طرف شوٹ کیا تھا۔۔ گن سے نکلتی چھوٹی سوئیوں نے غباروں کو پھاڑنا شروع کیا تھا۔۔ اور ان میں سے نکلنے والے ربن ، پھولوں کی پتیاں ، اور ڈسکو نے پارسا اور احتشام کے اوپر برسنا شروع کیا تھا ۔۔ پارسا حیران تھی۔۔ اسے اب پتہ لگا تھا کہ کوئی اور بھی وہاں موجود ہے۔۔ الہام کی چیخ رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی ۔۔
اور یہی وہ وقت تھا۔۔ جب لائیٹس آن ہوئی تھیں اور عرش کی نظر اس لڑکی پر پڑی تھی۔۔ جو چیختی ہوئی اب پارسا کی طرف بھاگتی ہوئی آئی تھی اور اسے گلے لگایا تھا ۔۔
اور یہی وہ وقت تھا۔۔ جب عرش کے لئے ساری دنیا رک گئ تھی ۔۔ آس پاس سب کچھ غائب ہوگیا تھا ۔۔ اگر کوئی تھا تو تو بس وہ تھا۔۔ اگر کوئی تھا ۔۔ تو بس وہ تھی ۔۔ اسے اور کچھ نظر نہیں آرہا تھا ۔۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ اسکے سامنے تھی ۔۔ اتنے سالوں بعد وہ اس کے سامنے آہی گئ تھی ۔۔ الہام بے حد خوشی سے پارسا کو گلے لگا رہی تھی اور اب وہ احتشام کی طرف بڑھی تھی ۔۔ اور دونوں نے ہاتھ اٹھا کر ایک دوسرے کو تالی ماری تھی۔۔ دونوں خوش تھے۔۔ دونوں مسکرا رہے تھے ۔۔۔ حامد اب انکے پاس آیا تھا۔۔ احتشام سے گلے ملا تھا۔۔ اور یہی وہ وقت تھا جب الہام پلٹی تھی اور اسکی نظر اس پر پڑی تھی۔۔
دونوں کی نظریں ملی تھیں ۔۔ وہ ساکت ہوگئ تھی ۔۔ وہ بھی ساکت تھا ۔۔
عرش کی آنکھوں میں حیرانی تھی ۔۔ الہام کی آنکھوں میں بے یقینی تھی ۔۔
وہ پلک جھپکنا بھول گئ تھی ۔۔ وہ پلک جھپکنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔۔
اسکی آنکھوں میں ہلکی سی نمی آئی تھی ۔۔ اسکی آنکھیں نم تھی ۔۔
اسنے ایک قدم اسکی طرف بڑھایا تھا ۔۔ وہ بھی ایک قدم بڑھا تھا ۔۔
پہلی ملاقات یاد آئی تھی۔۔ جب وہ ساحل سمندر پر اسکے پاس آیا تھا ۔۔ پہلی ملاقات یاد آئی تھی۔۔ جب وہ اتنے گھنٹے ساحل پر اسے دیکھتا رہا تھا ۔۔
قدم آگے بڑھے تھے۔۔ دونوں ایک دوسرے کے سامنے تھے ۔۔ بولنے کے لئے لب کسی کے بھی نہیں کھلے تھے ۔۔
اس نے دیکھا تھا۔۔ وہ پہلے جیسی نہیں رہی تھی ۔۔ وہ پہلے سے زیادہ حسین اور بہادر ہوچکی تھی ۔۔
اس نے دیکھا تھا۔۔ وہ پہلے جیسا نہیں رہا تھا۔۔ پہلے سے زیادہ پرکشش اور مضبوط ہوچکا تھا ۔۔
’’ ارے میں تو ملوانا ہی بھول گیا ۔۔ یہ عرش ہے میرا نیا دوست ۔۔ دو دن پہلے ہی پاکستان سے آیا ہے ’’ حامد نے آکر ان دونوں کا سکتا توڑا تھا۔۔
’’ اور عرش یہ الہام ہے۔۔ وہی چڑیل جسکے بارے میں میں نے تمہیں بتایا تھا ۔۔ اور یہ احتشام بھائی ہیں۔۔ الہام کے بھائی اور یہ ڈاکٹر پارسا ہیں انکی فیوچر وائف ’’ حامد اسے سب کے بارے میں بتا رہا تھا۔۔ اور وہ بس الہام کو دیکھے جارہا تھا۔۔
’’ کیسے ہیں آپ ؟ ’’ الہام نے کہا تھا۔۔ یہ وہی آواز تھی ۔۔ کتنا انتظار کیا تھا۔۔ اس نے اس آواز کو دوبارہ سننے کا۔۔
’’ اب بہت اچھا ہوں ’’ اس نے کہا تھا۔۔ اور یہ وہی آواز تھی جو اتنے سالوں سے اسکے کانوں میں گونجتی رہی تھی۔۔
’’ اور آپ؟ ’’ اس نے پوچھا تھا ۔۔
’’ اب بہت خوش ہوں ’’ نم آنکھوں کے ساتھ اس نے کہا تھا ۔۔ وہ مسکرایا تھا ۔۔ وہ بھی مسکرائی تھی ۔۔
اب وہ احتشام کی جانب متوجہ ہوا تھا۔۔
’’ بہت بہت مبارک ہو آپ دونوں کو ’’ اس نے ہاتھ بڑھایا تھا۔۔ جسے احتشام نے تھام لیا تھا۔۔
’’ تھینک یو ’’ وہ مسکرائے تھے ۔۔
’’ چلیں اب ایک اور سرپرائز بھی ہے میرے پاس ؟ ’’ الہام نے احتشام کا بازو پکڑ کر اسے ڈائیننگ ٹیبل تک لے جاتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ وہ کیا ہے ؟ ’’ پارسا بھی ان کے ساتھ آئی تھی۔۔
دونوں کی کرسیاں ساتھ ہی رکھی ہوئی تھی۔۔ جس پر دوںوں بیٹھ گئے تھے۔۔ عرش وہی پاس کھڑا تھا اور الہام اسکے سامنے کی کھڑی تھی۔۔
’’ سب ابھی پتہ لگتا ہے ’’ الہام چل کر آگے آئی تھی عرش نے بھی قدم آگے بڑھائے تھے ۔۔
دل چاہ رہا تھا کہ اسکے ساتھ ساتھ چلتا رہے ۔۔ الہام دائیں جانب آکر رکی تھی اور عرش اسکے ٹھیک سامنے بائیں جانب رکا تھا۔۔ دونوں کی نظریں ملی تھیں۔۔ وہ مسکرایا تھا ۔۔ وہ بھی مسکرائی تھی۔۔ اور پھر اس نے لائیٹس آف کی تھیں۔۔ اندھیرا چھا گیا۔۔ صرف موم بتیوں کی ہلکی سی روشنی تھی۔۔ جس کے ذریعے ایک دوسرے کو دیکھا جاسکتا تھا ۔۔ اچانک درمیان پر ایک جگہ لائیٹ نے گول دائرہ بنایا تھا۔۔ جو الہام اور عرش کے درمیانی فاصلے پر تھا۔۔ اور وہاں حامد کرسی پر ہاتھ میں گٹار پکڑے بیٹھا تھا ۔۔
اس نے گٹار بجانا شروع کیا تھا ۔۔ الہام اسے دیکھ رہی تھی ۔۔ اور عرش الہام کو ۔۔
“” its amazing how you can speak right to my heart”
الہام نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا تھا ۔۔ وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا ۔۔ کچھ لمحوں کے لئے سب غائب ہوگئے تھے۔۔ صرف وہ دونوں آمنے سامنے موجود تھے اور یہ سانگ ۔۔۔
“without saying the word , you can light up the dark “
” try as I may I could never explain”
“what I hear when you don’t say a thing”
وہ دونوں مسکرا رہے تھے ۔۔کچھ کہنے کی ضرورت نہیں تھی۔۔ یہ الفاظ جیسے انکے جذبات ہی ظاہر کر رہے تھے۔۔ ایک دوسرے پر ۔۔
” the smile on your face lets me know that u need me “
“there is a truth in your eyes saying you will never leave me “
” the touch of your hand says you will catch me if wherever I fall “
” you say it best when you say nothing at all “
” all day long I can hear people talking out loud “
” but when you hold me near, you drawn out the crowd”
” try as they may they can never define “
” what’s being said between your heart and mine “
The smile on your face lets me know that u need me”
“there’s a truth in your eyes saying you will never leave me “
” the touch of your hand says you will catch me if wherever I fall “
” The smile on your face lets me know that u need me”
“there’s a truth in your eyes saying you will never leave me “
تمام آوازیں رک گئ تھیں ۔۔ وہ جو ایک دوسرے کو دیکھنے میں گم تھے۔۔ احتشام اور پارسا کی تالیوں کی آواز پر چونکے تھے ۔۔
’’ کیسا لگا ؟ ’’ حامد نے کھڑے ہوکر اس سے پوچھا تھا۔۔
’’ بہت خوبصورت ۔۔ تم بہت اچھا گاتے ہو ’’ اس نے دل سے تعریف کی تھی۔۔
’’ تھینک یو ’’ اس نے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا تھا۔۔ اور وہ مسکرائی تھی۔۔
’’ چلیں کیک کٹ کرتے ہیں ’’ الہام اب ٹیبل کی طرف بڑھی تھی۔۔۔ جہاں ایک خوبصورت سا دل کی شکل کا کیک رکھا تھا۔۔
پارسا نے کیک کاٹا تھا۔۔ تالیوں کی آوازیں گونج رہی تھیں۔۔ اس نے باری باری سب کو کیک کھلایا تھا ۔۔ عرش نے اپنا لایا ہوا تحفہ پارسا کی طرف بڑھایا تھا۔۔ جسے اس نے شکریہ کہہ کر لیا تھا ۔۔ حامد نے بھی اپنا تحفہ دیا تھا ۔۔ احتشام نے ایک مخمل کی ڈبیاں اسکی طرف بڑھائی تھی۔۔
’’ جلدی سے دیکھیں کیا ہے اس میں ؟ الہام نے کہا تھا اور پارسا نے وہ باکس کھولا تھا ۔۔ ایک نازک سا سلور کا لاکٹ تھا۔۔ جس پر ایک چھوٹا سا ڈائیمنٹ چمک رہا تھا ۔۔ پارسا نے حیران ہوکر اسے دیکھا تھا۔۔ وہ مسکرایا تھا ۔۔
’’ واؤ ! بہت خوبصورت ہے ۔۔’’ الہام نے تعریف کی تھی۔۔ پارسانے نظروں سے احتشام کو شکریہ کہا تھا۔۔
’’ اب تم بھی دے دو اپنا تحفہ چڑیل ’’ حامد نے اسے ٹوکا تھا۔۔
’’ دے رہی ہوں ۔۔۔ یہ لیں ’’ اس نے ایک باکس پارسا کی طرف بڑھایا تھا۔۔ جسے اس نے کھول کر دیکھا تھا ۔۔ باکس میں موجود کپل رنگز کو دیکھ کر احتشام اور پارسا دونوں چونکے تھے ۔۔
’’ کیسی ہیں ؟ ’’ اس نے پوچھا تھا ۔۔
’’ بہت پیاری ہیں ؟ ’’ پارسا نے مسکراتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ چلیں پھر پہنائیں ’’ الہام کی بات پر وہ دونوں چونکے تھے۔۔
’’ کیا مطلب ؟ ’’ احتشام نے کہا تھا۔۔
’’ مطلب یہ کہ آپ دونوں ایک دوسرے کو یہ پہنائیں ’’ الہام نے واضح الفاظ میں کہا تھا۔۔
’’ مگر اس طرح نہیں الہام ’’ احتشام نے کہا تھا۔۔
’’ مجھے معلوم تھا کہ آپ یہی کہیں گے۔۔ اس لئے میں پہلے ہی انتظام کر چکی ہوں۔۔ میری پارسا بھابھی کے والدین سے بات ہوچکی ہے۔۔ میں انہیں سب بتا چکی ہوں۔۔ اور وہ دو دن میں یہاں آنے والے ہیں۔۔ شادی کی ڈیٹ فکس کرنے۔۔ اس لئے اب آپ دونوں یہ پہنا سکتے ہیں ’’ الہام نے تو سب سے بڑا سرپرائیز دیا تھا۔۔
’’ سچ ؟ ’’ پارسا بے یقین تھی
’’ بلکل سچ ۔۔ اب پہنائیں نہ ؟ الہام نے کہا تھا اور پھر احتشام نے پارسا کو وہ رِنگ پہنائی تھی اور پارسا نے احتشام کو ۔۔
’’ بہت بہت مبارک ہو ’’ الہام نے پارسا کو گلے لگایا تھا اور حامد اور عرش احتشام سے مل رہے تھے ۔۔
اس کے بعد اسی خوشگوار ماحول میں کھانا کھایا گیا تھا کھانے دوران ہی حامد نے احتشام کا عرش سے تعارف کروایا تھا ۔۔
الہام اور عرش کے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی تھی مگر وہ ایک دوسرے کو سن رہے تھے ۔۔ وہ دونوں آج بہت خوش تھے۔۔
وہ بہت خوش تھا۔۔ اسے اب سمجھ آیا تھا کہ یہ ملک یہ جگہ اسے اتنا سکون کیوں دے رہی تھی ؟ اسے اب سمجھ آیا تھا کہ عامر بھائی کے پوچھنے پر اسے فوراً پیرس کا خیال کیوں آیا تھا ۔۔؟
الہام ۔۔ ہاں یہ الہام ہی تو تھا۔۔ جو اسے یہاں تک لایا تھا۔۔ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اسکی الہام بھی یہی ہے۔۔ وہ جسے دیکھنے کی ۔۔ جس سے ملنے کی۔۔ وہ ہر روز خدا سے دعا کرتا تھا۔۔ وہ اسے اسی ملک میں ملنی تھی ۔۔ اور وہ اسے مل گئ تھی ۔۔ اسے لگا کہ اسکا انتظار رائیگا نہیں گیا تھا ۔۔ انتظار ختم ہوا تھا۔۔ اور اب وہ مزید دیر نہیں کرنا چاہتا تھا ۔۔ یہ سات سال اس نے کیسے گزارے تھے؟ یہ صرف وہ ہی جانتا تھا۔۔ اب وہ مزید انتظار نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔ اس نے موبائیل نکال کر معاذ کو کال ملائی تھی ۔۔
’’ کیا بات ہے بڑے لوگوں نے آج خود کال کی ہے ۔۔۔ ضرور کوئی کام ہوگا ’’ معاذ کی طنزیہ آواز آئی تھی۔۔
’’ ہاں تم جیسے لوگوں کو کام کے وقت ہی یاد کیا جاتا ہے ’’ اس نے بھی اسے چھیڑا تھا۔۔
’’ کیا بات ہے آپکی باس ۔۔ مگر مجھ جیسے لوگ فری میں کوئی کام نہیں کرتے ’’ معاذ کہاں بدلنے والا تھا۔۔
’’ تمہارا ڈنر ادھار رہے گا مجھ پر ’’ وہ اسکی فیس جانتا تھا۔۔
’’ چلو ٹھیک ہے۔۔ اب بتاؤ کیا کام ہے ؟ ’’ وہ اس وقت ہسپتال میں تھا۔۔ اس لئے زیادہ دیر بات نہیں کر سکتا تھا۔۔
’’ مجھے ایک گھر خریدنا ہے ’’ عرش نے کہا تھا۔۔ اور معاذ حیران ہوا تھا۔۔
’’ گھر ؟ کس لئے ؟ ’’ اس نے پوچھا تھا۔۔
’’ گھر سمندر کے سامنے ہونا چاہئے ۔۔یعنی کے اس کے ٹیرس سے سمندر نظر آنا چاہیئے اور اسکی ہوائیں بھی وہاں تک آنی چاہئے ’’ اس نے اپنی آگے کی ڈیمانڈ بتائی تھی۔۔
’’ خیرت ہے عرش ۔۔؟ تمہیں یہ کس کے لئے چاہئے ؟’’ معاذ اسکی اس اچانک فرمائش کا مقصد سمجھ نہیں پارہا تھا۔۔
’’ الہام کے لئے ’’ اس نے کہا تھا۔۔ اور دوسری طرف معاذ کو زور دار جھٹکا لگا تھا۔۔
’’ واٹ ! الہام کے لئے ؟ وہ تمہیں مل گئ ’’ معاذ کی بات پر عرش کی مسکراہٹ گہری ہوئی تھی۔۔
’’ وہ مجھے ملی نہیں ہے ۔۔۔ بس ملاقات ہوئی ہے ۔۔ اور کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ وہ مجھے مل جائے۔۔ اس لئے مجھے گھر چاہئے معاذ ۔۔ جلدی سے اسکا انتظام کرو ’’ عرش کے لہجے سے ہی اسکی بے صبری ظاہر ہو رہی تھی۔۔
’’ کیا بات ہے یار ۔۔ فائینلی تمہارا انتظار ختم ہوا ۔۔ میں بہت بہت خوش ہوں اور تم بس مجھے دو دن دے دو میں گھر خرید لونگا ’’ وہ دل سے اسکے لئے بے حد خوش تھا۔۔ اتنے سال سے وہ عرش کو دیکھ کر یہی دعا کرتا تھا کہ اسے اسکی خوشی مل جائے اور اب جاکر اسکی دعا قبول ہوئی تھی ۔۔ وہ بے حد خوش تھا۔۔
’’ گڈ ۔۔ اور اس بار میں تمہیں بہت شاندار ٹریٹ دونگا ’’
’’ مجھے انتظار رہے گا۔۔ بس اب دیر مت کرنا فوراً سے اسے پروپوز کرلو ’’ معاذ نے مشورہ دیا تھا۔۔
’’ ضرور کرونگا مگر پہلے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ وہ میرے بارے میں کیا سوچتی ہے ۔؟ دعا کرنا میرے لئے ’’ بس ایک یہی ڈر تھا۔۔ جو عرش کے دل میں رہ گیا تھا۔۔ ویسے تو وہ الہام کی آنکھوں میں اپنے لئے محبت دیکھ چکا تھا۔۔ مگر وہ ڈرتا تھا کہ کہی وہ انکار نہ کردے ۔۔ ناجانے ان سات سالوں کو کیسے گزارا ہوگا اس نے ؟
’’ وہ انکار نہیں کرے گی۔۔ میرا دل کہتا ہے ’’ معاذ کی آواز اسکے کانوں تک آئی تھی۔۔
’’ آمین ’’ اس نے کہا تھا۔۔ اور کال بند کر دی تھی۔۔ اور اب اسے انتظار تھا ۔۔۔ دوسری ملاقات کا ۔۔

اس نے سوچا بھی نہیں تھا کہ زندگی اسے ایک دن اتنی خوشیاں ایک ساتھ دے سکتی ہے ۔۔ احتشام اور پارسا کی شادی کی خواہش جو وہ اتنےسالوں سے اپنے دل میں لے کر بیٹھی تھی ۔۔ اور آج اسکی یہ خواہش پوری ہوئی تھی۔۔ وہ ان دونوں کے لئے بہت خوش تھی۔۔ وہ ان دونوں کو خوش دیکھنا چاہتی تھی۔۔ وقت نے ان کے ساتھ جو کھیل کھیلا تھا۔۔ اس نے سب کچھ الجھا دیا تھا۔۔ اور اب وہ سب کچھ سلجھانا چاہتی تھی ۔۔ لیکن اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اس بار وقت بھی اسکا ساتھ دے گا ۔۔ ایک ایسی خواہش جو وہ آج تک خود سے بھی چھپا کر رکھتی تھی۔۔ اس طرح حقیقت بن کر اس کے سامنے آجائیگی۔۔ ؟ اس نے سوچا بھی نہیں تھا ۔۔
وہ اسکے سامنے تھا ۔۔ وہ اسے دیکھ رہا تھا ۔۔ وہ بھی حیران تھا ۔۔ اور وہ تو اس سے نظر ہی نہیں ہٹا رہا تھا ۔۔۔ ایک مسکراہٹ تھی۔۔ جو الہام کے ہونٹوں پر پھیل گئ تھی ۔۔ مگر پھر مسکراہٹ مدھم ہوئی تھی ۔۔
’’ سات سال ؟ ‘‘ اس نے آسمان کی جانب دیکھتے ہوئے کہا تھا ۔۔ وہ ٹیرس پر کھڑی تھی ۔۔
’’ سات سال میں جانے کیا کیا ہوا ہوگا ؟؟ ہوسکتا ہے کہ کوئی اسکی زندگی میں آگئ ہو ؟ ہو سکتا ہے کہ وہ اب اکیلا نہ ہو ۔۔ ‘‘ اسی سوچ کے ساتھ اسکا دل دھڑکہ تھا ۔۔
’’ وہ بہت آگے نکل گیا ہوگا اپنی زندگی میں ۔۔ ہوسکتا ہے کہ اس نے شادی کر لی ہو ‘‘ اور وہ اس سے آگے سوچ نہیں سکتی تھی ۔۔ اسے سوچ کر ہی خوف آرہا تھا ۔۔ اسے بس اب انتظار تھا ۔۔۔ دوسری ملاقات کا ۔۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial