قسط 12
وہ اس وقت اپنے ہسپتال میں تھی۔۔ لنچ کا وقت تھا اور اب وہ لنچ کرنے کے لئے جانے کا ہی سوچ رہی تھی۔۔ جب میز پر رکھا اسکا ٹیلیفون بجا تھا ۔۔
’’ یس ’’ اس نے کہا تھا۔۔
’’ ڈاکٹر الہام آپ سے کوئی ملنے آیا ہے ؟ ’’ انٹر کام پر موجود لڑکی نے کہا تھا۔۔
’’ میں لنچ پر جارہی ہوں۔۔ ان سے کہیں کہ تھوڑی دیر بعد آجائیں ’’ اس نے بیگ میں اپنا سامان رکھتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ لنچ ساتھ کر سکتے ہیں ؟ ’’ الہام چونکی تھی۔۔
’’ نام کیا ہے انکا ؟ ’’ کاونٹر پر موجود لڑکی نے اب سامنے کھڑے شخص سے نام پوچھا تھا۔۔
’’ عرش ’’ اس نے الہام سے کہا تھا۔۔ اور خوشی کی ایک لہر الہام کے وجود میں دوڑی تھی۔۔
’’ میں آرہی ہوں ’’ اس نے کہہ کر ریسیور واپس رکھا تھا اور اپنا سامان بیگ میں رکھ کر تقریباً بھاگتی ہوئی باہر نکلی تھی۔۔
وہ اسے سامنے ہی نظرآگیا تھا ۔۔ اسکا منتظر ۔۔ اسے دیکھ کر مسکرایا تھا ۔۔ وہ بھی مسکرائی تھی۔۔ اور اس کے سامنے آکر رکی تھی۔۔
’’ چلیں ’’ اس نے کہا تھا اور الہام نے سر ہلایا تھا ۔۔
وہ دونوں الہام کی گاڑی میں تھے۔۔ مگر ڈرائیو اس وقت عرش کر رہا تھا۔۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ کہاں جارہے ہیں ؟ مگر وہ یہ جانتی تھی کہ وہ اسکے ساتھ کہیں بھی جاسکتی تھی ۔۔
تھوڑی دیر بعد اس نے گاڑی ایک جگہ روکی تھی اور الہام نے باہر دیکھا تھا ۔۔
وہ مسکرائی تھی ۔۔ وہ اسے یہی لاسکتا تھا ۔۔ جہاں وہ ان سات سالوں میں کبھی نہیں آئی تھی ۔۔ اور آج وہ اسے لے کر آیا تھا۔۔
وہ دونوں گاڑی سے اترے تھے۔۔ عرش آگے تھا اور الہام اسکے ساتھ ساتھ چل رہی تھی ۔۔۔ زمین پر ہری بھری گھانس ، آس پاس موجود درخت جن سے پتے جھڑ رہے تھے جوکہ خزاں کے موسم کی پہچان تھی ، اور تھوڑا آگے ساحل تھا ، جس کی ٹھنڈی ہواؤں نے سردی میں اضافہ کیا تھا۔۔ اور اسکے آس پاس لوگوں کے بیٹھنے کے لئے تھوڑی سی دوری کے ساتھ بینچ تھے، گھانس پر اترے کبوتروں نے اس ماحول کو مزید خوبصوت بنایا تھا ۔۔ وہ ایک بینچ کے قریب آکر رکا تھا اور اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا تھا ۔۔ وہ خاموشی سے بیٹھ گئ تھی۔۔ اور وہ اسکے ساتھ ، تھوڑے سے فاصلے پر بیٹھا تھا۔۔ دونوں کی نظریں سامنے سمندر پر ٹھہری تھیں ۔۔ کچھ دیر کے لئےدوںوں خاموش تھے ۔۔ دونوں کو اس وقت پرانا وقت یاد آیا تھا ۔۔
’’ جانتی ہو ۔۔ اس دن کہ بعد سے میں روز سمندر پر جاتا تھا ’’ عرش نے سامنے نظریں جماتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ اور میں اس دن کے بعد کبھی سمندر کے قریب بھی نہیں آئی ’’ الہام کی نظریں بھی سامنے تھی ۔۔ عرش نے اسکی بات پر اسے دیکھا تھا ’’ کیوں ؟ ’’
’’ کیونکہ مجھے پیچھے نہیں دیکھنا تھا ۔۔ دل ڈرتا تھا کہ ہمت نہ ہار جاؤں ’’ الہام نے مسکرا کر کہا تھا ۔۔ مسکرانے کی عادت آج بھی نہیں گئ تھی۔۔
’’ یعنی تم دل سے بھاگتی رہی ہو ’’ عرش نے جیسے اسے بتایا تھا۔۔
’’ شاید ’’ اس نے اقرار کیا تھا۔۔
’’ پر میں نہیں بھاگا ۔۔ میں سات سال پہلے بھی دل کے سامنے کھڑا تھا۔۔ میں آج بھی کھڑا ہوں ۔۔ مجھے اس بات کو ماننے میں کوئی مشکل نہیں ہوتی کہ میرے دل میں کیا ہے ؟ اور وہ کیا چاہتا ہے ؟ ’’ الہام نے اسکی طرف دیکھا تھا ۔۔ وہ آج بھی ویسا ہی تھا ۔۔ لگتا ہی نہیں تھا کہ وہ اتنے عرصے بعد مل رہے ہیں۔۔
’’ آپ بہت مضبوط ہیں ’’ اس نے اسے دیکھتے کہا تھا۔۔
’’ اور تم بہت بہادر ’’ مسکرا کر کہا تھا۔۔
’’ نہیں۔۔ میں بہادر نہیں ہوں ۔۔ اگر بہادر ہوتی تو دل سے بھاگتی نہیں ’’ الہام نے اسکی بات سے انکار کیا تھا۔۔
’’ ایسا نہیں ہے ۔۔ تم بہادر ہوں۔۔ اس لئے اتنا سب ہونے کے بعد بھی تم ٹوٹی نہیں ہو ۔۔ تم بہادر ہو۔۔ اس لئے اتنا کچھ ہونے کے بعد بھی تم نے خود کو ناکام نہیں ہونے دیا ۔ تم بہادر ہو۔۔ اس لئے گِرنے کے بعد تم فوراً کھڑی ہوگئ ۔۔ اور تم بہادر ہو۔۔ اس لئے تم آج بھی وہی الہام ہو جسے میں جانتا تھا۔۔اور جسے میں جاننا چاہتا تھا ’’ وہ اسکی آنکھوں میں دیکھ کر کہہ رہا تھا ۔۔
’’ آپ بھی ویسے ہی ہیں ’’ وہ مسکرائی تھی۔۔
’’ ہاں میں ویسا ہی ہوں ۔۔ اب بھی الہام کے لئے الہام آتے ہیں مجھے ’’ وہ بھی مسکرایا تھا اور الہام چونکی تھی۔۔
’’ آپکو معلوم تھا میں یہاں ہوں ؟ ’’
’’ نہیں ۔۔ مجھے کچھ نہیں معلوم تھا اور نہ ہی میں نے کوشش کی ۔۔ میں آزمانا چاہتا تھا خود کو۔۔ کہ وہ دعوہ جو میں تم سے کرتا تھا۔۔ وہ سچ تھا کہ نہیں ۔۔ اس لئے میں نے انتظار کیا ۔۔ الہام کا ۔۔ اور دیکھو جب ملک چھوڑنے کی باری آئی تو میرے دل نے کہا ۔۔ تمہیں پیرس جانا چاہئے۔۔ یہ الہام ہی تو تھا ’’ وہ کہہ رہا تھا اور الہام اسے دیکھے جارہی تھی ۔۔ وقت جیسے سب سات سال پیچھے چلا گیا تھا ۔۔ اسی سمندر کنارے۔۔ جہاں وہ آخری بار ملے تھے ۔۔
’’ آپ نے ملک کیوں چھوڑا ؟ ’’ اس نے نظریں ہٹاتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ پاپا شادی کرنا چاہتے تھے میری ۔۔ تو میں بھاگ آیا ’’ عرش نے بھی نظریں سامنے کی تھیں۔۔
’’ کیوں ؟ ’’ سوال پوچھا تھا۔۔
’’ کیونکہ میں شادی نہیں کرنا چاہتا ’’
’’ کیوں ؟ ’’ ایک اور سوال تھا۔۔
’’ کیونکہ مجھے کسی کا انتظار تھا ’’ اس نے کہا تھا ۔۔ اور الہام کا دل جانے کیوں زور سے دھڑکہ تھا مگراسکی نظریں سمندر پر اٹک گئ تھی۔۔
’’ کس کا ؟ ’’ ایک اور سوال تھا۔۔ دھڑکتے دل کے ساتھ۔۔
’’ اسی کا جو میرا سکون لے گئ تھی ۔۔ اسی کا جس سے مجھے شادی کرنی ہے ’’ وہ بھی سامنے دیکھے کہہ رہ تھا ۔۔ الہام کی حالت عجیب ہورہی تھی ۔۔ جانے دل میں کیوں ایک خوشگمانی پیدا ہوئی تھی۔۔
’’ تو کیا وہ مل گئ ؟ ’’ ایک اور سوال تھا۔۔
’’ نہیں۔۔ وہ مجھے اب تک نہیں ملی ’’ اس بار عرش نے اسکی طرف دیکھا تھا اور وہ سامنے دیکھ رہی تھی ۔۔
اسکے دل میں کچھ ٹوٹا تھا ۔۔ دل کو چبھن ہورہی تھی ۔۔ سات سال پہلے کا سمندر آنکھوں سے دور ہوا تھا ۔۔ عرش نے دیکھا اسکی آنکھوں میں نمی آئی تھی۔۔ اور وہ اسے چھپانے کے لئے فوراً کھڑی ہوئی تھی۔۔
’’ چلیں ۔۔ مجھے ایک پیشینٹ دیکھنا ہے ’’ الہام نے بیگ اٹھاتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ مگر لنچ ؟’’ وہ بھی کھڑا ہوا تھا۔۔
’’ مجھے بھوک نہیں ہے ’’ وہ کہہ کر گاڑی کی طرف آئی تھی۔۔ اور عرش اسکے پیچھے آیا تھا ۔۔ باقی کا راستہ خاموشی سے گزرا تھا۔۔
’’ مجھے تمہیں کچھ بتانا ہے ۔۔ کیا ہم کل ڈنر پر چل سکتے ہیں ؟ ’’ ہسپتال کے آگے گاڑی روکتے ہوئے عرش نے کہا تھا۔۔
’’ ضرور ۔۔ کال کر کے ایڈریس بتا دونگی’’ وہ کہہ کر باہر نکلی تھی اور عرش نے گاڑی وہاں چھوڑ کر اب ٹیکسی لی تھی ۔
وہ آج بہت پریشان پریشان سی تھی پارسا اسے دوپہر سے نوٹ کر رہی تھی مگر مصروفیات کی وجہ سے اس سے کچھ پوچھنے کا موقع نہیں مل سکا تھا ۔۔رات کھانے سے پہلے وہ اس کے کمرے میں آئی تھی۔۔ جہاں وہ کھڑکی کے سامنے کھڑی تھی۔۔
’’ کیسی ہو؟ ’’ وہ اسکے ساتھ جاکر کھڑی ہوئی تھی۔۔
’’ ٹھیک ہوں ’’ اس نے مسکر ا کر کہا تھا ۔۔ زبردستی کی مسکراہٹ۔۔
’’ کیا بات ہے ؟ کچھ پریشان ہو؟ ’’ پارسا نے اس سے پوچھا تھا۔۔
’’ کیا میرا چہرہ اس کھلی کتاب کی طرح ہے۔۔ جسے دیکھ کر کوئی بھی جان سکتا ہے کہ اندر کتنا درد ہے ؟ ’’ الہام نے پوچھا تھا۔۔۔
’’ نہیں ۔۔ تم بہت گہری ہو الہام ۔۔۔ اور تمہیں دیکھ کر ہر کوئی نہیں جان سکتا کہ تم کیا سہہ رہی ہو ۔۔ سوائے ان کے جو تم سے محبت کرتے ہیں ’’ پارسا کی بات پر وہ چونکی تھی۔۔
’’ محبت ۔۔ تو کیا محبت کرنے والے ہی اندر کا حال جانتے ہیں ؟ ’’ ایک اور سوال پوچھا تھا۔۔
’’ ہاں۔۔ اسی لئے تو میں جان گئ کہ تم آج بہت پریشان ہو ’’ پارسا نے مسکرا کر کہا تھا۔۔
’’ ہاں ۔۔ میں ہوں ۔۔ مجھے محبت نے پریشان کیا ہے پارسا بھابھی ۔۔ ہمیشہ محبتوں نے ہی دل توڑا ہے ۔۔ اب ڈر لگنے لگا ہے ان سے ۔۔ جو محبت کرتے ہیں ۔۔ اور جن سے محبت ہوتی ہے ’’ الہام اسے اصل بات نہیں بتائے گی۔۔ یہ تو جانتی تھی ۔۔ مگر وہ یہ بھی جانتی تھی کہ بات جانے بنا بھی وہ الہام کو سمجھا سکتی تھی ۔۔
’’ محبت سے ڈرنا نہیں چاہیئے الہام ۔۔ محبت سے ڈر کر ہم محبت کو کھو دیتے ہیں ۔۔ اور افسوس تو اس بات کا ہے کہ محبت کھو دینے کے بعد بھی ہم اس محبت سے جان نہیں چھڑوا سکتے ۔۔ میں نہیں جانتئ کہ تم کیوں پریشان ہو مگر میں تمہیں بتانا چاہتی ہوں ۔۔ کہ میں احتشام سے نو سالوں سے محبت کرتی آئی ہوں ۔۔ جب وہ اریج سے شادی کر رہا تھا ۔۔ تم نہیں سمجھ سکتی کے میں کس اذیت میں تھی ۔۔ مگر اس وقت بھی میں اس محبت سے ڈری نہیں تھی ۔۔ میں اسکی شادی میں گئ تھی اسکی دوست بن کر ۔۔ محبت تو دوستی بھی ہے نہ ؟ اور جانتی ہو ۔۔ ان سات سالوں میں۔ میں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ احتشام کو حاصل کرو ۔۔ یا میں نے کبھی احتشام سے کوئی امید نہیں لگائی تھی ۔۔ میں تو بس اپنی محبت نبھا رہی تھی ۔۔ ہاں ۔۔ محبت بھی تو ایک رشتہ ہے ۔۔ اور رشتے نبھانا تو فرض ہوتا ہے نا ؟ تو میں نے بھی نبھایا ۔۔ اور دیکھو خدا نے مجھے اسکا صلہ بھی دیا ۔۔ اور میں جانتی ہوں کہ تم بھی یہ رشتہ نبھاؤ گی ۔۔ اور خدا تمہیں بھی صلہ دے گا ۔۔ خدا پر یقین ہے نا ؟ ’’ اس نے پوچھا تھا اور الہام نے مسکر اکر سر ہلایا تھا ۔۔ اس بار مسکراہٹ اصلی تھی ۔۔
’’ چلو آؤ۔۔ کھاناکھاتے ہیں۔۔ وہ صاحب بھی انتظار کر رہے ہیں ’’ وہ اسے ساتھ لے کر گئ تھی ۔۔
دوسری طرف عرش اپنے فلیٹ میں حامد کے ساتھ کھانے کی ٹیبل پر موجود تھا۔۔
’’ احتشام بھائی کہہ رہے تھے کہ انکے ہسپتال میں ایک ڈاکٹر دو مہینے بعد واپس اپنے ملک جارہا ہے۔۔ اگر تم انتظار کر لو تو تمہیں اسکی جگہ جاب مل جائیگی ’’ حامد نے اس سے کہا تھا۔۔
’’ اوک ۔۔ مجھے کوئی جلدی نہیں ہے ’’ وہ فوراً مان گیا تھا۔۔ اسے اب جلدی تھی بھی نہیں ۔۔
’’ چلو یہ تو اچھی بات ہے ’’
’’ ویسے تم احتشام بھائی کو کب سے جانتے ہو؟ ’’ عرش نے پوچھا تھا۔۔ ایک یہی سوال تھا جو کہ وہ سوچ رہا تھا۔۔
’’ چھ سالوں سے ’’ حامد کے جواب نے اسے حیران کیا تھا۔۔
’’ چھ سالوں سے ؟ کیسے ؟ ’’ اس نے پھر پوچھا تھا۔۔
’’ ایکچولی میں اور وہ چڑیل یعنی کہ الہام ، ہم ایک ہی یونیورسٹی میں پڑھتے تھے ۔۔ اور جانتے ہو مجھے ایک سال لگا اس سے دوستی کرنے میں ۔۔ پھر جب دوستی ہوگئ۔۔ تو احتشام بھائی سے بھی ملاقات ہوجاتی تھی ۔۔ اور اس طرح ہم اب تک دوست ہیں ’’ اس نے مختصر الفاظوں میں اسے بتایا تھا ۔۔
’’ اچھا ۔۔ اور تمہیں اس سے دوستی کرنے میں ایک سال کیوں لگا ’’ وہ اصل میں الہام اور اسکی دوستی کی گہرائی جاننا چاہتا تھا۔۔
’’ کیونکہ وہ کوئی عام لڑکی نہیں ہے ۔۔ وہ الہام ہے۔۔ اور الہام کسی سے بھی آسانی سے بات کرتی ہے نا دوستی ۔۔ اسکا اعتبار جیتنا اتنا ہی مشکل ہے۔۔ جتنا قراقرم کا پہاڑ سر کرنا ۔۔ وہ ایک ایسی لڑکی ہے جو بہت کم رشتے بناتی ہے۔۔ اور اگر بنا لے تو موت تک نبھاتی ہے۔۔ وہ ایسی لڑکی ہے جس کے دل میں کیا ہے ؟ یہ جاننا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے ۔۔ وہ مسکراتی ہیں اور اسکی مسکراہٹ اسکی طاقت ہے ۔۔ وہ بہادر ہے ۔۔ اسے کسی سے ڈر نہیں لگتا ۔۔ اسکی کوئی کمزوری نہیں ہے ۔۔ اور نہ ہی وہ کمزور ہے ۔۔ تو ایسی لڑکی سے دوستی کرنے میں مجھے ایک سال تو لگنا ہی تھا ۔۔ اور اگر نا ہوتی میں تو میں کئ سال لگا دیتا ’’ عرش نے اسکی ساری باتوں سے ایگری کیا تھا ۔۔ مگر ان تمام باتوں کے درمیان وہ حامد کے تعصورات بھی دیکھ رہا تھا۔۔ اور اسے یہ جاننے میں وقت نہیں لگا تھا کہ صرف دوستی نہیں تھی ۔۔ یہ محبت تھی ۔۔ اور الہام ؟ ۔۔ کیا وہ بھی ۔۔؟؟ عرش یہ سوچتے ہی ڈر گیا تھا ۔۔
وہ اپنے پیشینٹ کے روم سے باہر نکلی تھی۔۔ جب وہ اسے سامنے سے آتا دکھائی دیا تھا۔۔
’’ کیا حالات ہیں ؟ ’’ اس نے پاس آتے ہی حامد سے پوچھا تھا۔۔
’’ تمہارے سامنے ہیں۔۔ بہت اچھے ’’ حامد نے ہاتھ پھیلا کر کہا تھا۔۔
’’ ہاں وہ تو ہیں ’’ وہ چلنے لگی تھی۔۔ اسے دوسرے پیشینٹ کے پاس جانا تھا۔۔
’’ اچھا سنو ۔۔ میں نے تمہاری بات مان کر سانگ سنگ کیا تھا نا ۔۔؟ ’’ حامد نے اسکے ساتھ چلتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ ہاں۔۔ اور بہت اچھا گایا تھا۔۔ مجھے تو یقین نہیں آرہا تھا کہ کوئی جن بھی اتنا اچھا گا سکتا ہے ’’ الہام نے اسے چھیڑا تھا۔۔۔
’’ اور مجھے بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ کوئی چڑیل بھی میری تعریف کر سکتی ہے ’’ اس نے بھی جواب دینا ہی تھا۔۔
’’ مجبوری ہے۔۔ دل بھی تو رکھنا ہوتا ہے ’’ اس نے افسوس بھرے لہجے میں کہا تھا۔۔۔
’’ بلکل اور ایسے ہی دل رکھنے کے لئے تم میرے ساتھ چلوگی ’’
’’ کہا ؟ ’’ روم کے پاس پہنچ کر رک کر کہا تھا۔۔
’’ تمہارے لئے ایک سرپرائز ہے ۔۔ پرسوں ہسپتال کے بعد تم نے میرے ساتھ جانا ہے ’’ اس نے کہا تھا۔۔۔
‘’ پرسوں نہیں ۔۔ کل پارسا بھابھی کے گھر والے آرہے ہیں اور پرسوں شادی کی ڈیٹ فکس کرنی ہے ’’ وجہ بتائی تھی
’’ اچھا پھر منڈے کو؟ ’’ اس نے پوچھا تھا ۔۔
’’ ڈن ’’ وہ کہہ کر روم کے اندر گئ تھی اور حامد مسکرایا تھا۔۔ پھر اپنا موبائیل نکال کر ایک نمبر ڈائیل کیا تھا۔۔۔
’’ منڈے کی بکنگ کروا لو اور ساری تیاریاں منڈے کی شام تک ہوجانی چاہئے۔۔ مجھے اس دن کوئی بھی کمی نہیں چاہیئے ’’ اس نےکہا تھا۔۔ اور پھر جواب سن کر اس نے کال بند کی تھی۔۔
’’ یہ کس چیز کی بکنگ ہورہی ہے ؟ ’’ پارسا کی آواز پر وہ چونک کر پلٹا تھا۔۔
’’ آپ کب آئیں ؟ ’’
’’ جب تم الہام کے لئے سرپرائیز پلین کر رہے تھے ۔۔ چلو اب بتاؤ کیا کرنے جارہے ہو تم ؟ ’’ پارسا اسے مشکوک انداز میں دیکھتے پوچھ رہی تھی۔۔۔
’’ ارے کچھ نہیں۔۔ میں نے کیا کرنا ہے ؟ ’’ وہ فوراً آگے چلنے لگا تھا اور پارسا اسکے پیچھے ۔۔
’’ حامد بتاؤ نا ۔۔ دیکھوں میں جانتی ہوں تم اسے پسند کرتے ہوں ۔۔ مجھ سے کچھ بھی چھپانے کی ضرورت نہیں ہے ’’ پارسا بھی اسکا پیچھا چھوڑنے کو تیار نہیں تھی۔۔
’’ اچھا بھئی ٹھیک ہے ۔۔ میں اسے پروپوز کرنے والا ہوں ۔۔ اب خوش ؟ ’’ حامد نے اس سے پوچھا تھا اور وہ حیران ہوئی تھی۔۔
’’ سچ ؟ ’’
’’ مچ ’’ وہ مسکرا کر کہتا آگے بڑھ گیا تھا۔۔۔ اور پارسا کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا۔۔۔ اس نے اوپر دیکھتے ہوئے دعا کی تھی۔۔
’’یااللہ اب الہام کی آزمائش ختم کر دے ۔۔ اسکی زندگی میں محبت بھر دے ۔۔ آمین ! ’’ اسی دعا کے ساتھ وہ آگے بڑھی تھی ۔۔ یہ جانے بغیر کہ اسکی دعا قبول تو ہوئی تھی۔۔۔مگر کسی اور انداز میں ۔۔۔
وہ اس وقت سمندر کے پاس موجود ایک ریسٹورینٹ میں بیٹھی تھی ۔۔ رات کی تاریکی میں سمندر کی لہریں واضح تو نظر نہیں آتی ۔۔ مگر محسوس ہوتی ہیں ۔۔۔ ہوا کی صورت ۔۔۔ الہام کی نظریں سمندر کے اس پانی پر تھیں۔۔ جس کی گہرائی کا اندازہ کبھی کوئی نہیں لگا سکا تھا۔۔۔ اور نہ ہی وہ لگانا چاہتی تھی ۔۔
وہ جان چکی تھی۔۔ گہرائیاں ہمیشہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھی رہتی ہیں ۔۔ اس لئے اندازہ لگانا بے کار ہے ۔۔ تھوڑی دیر گزری تھی جب عرش اسکے سامنے رکھی کرسی کھینچ کر بیٹھا تھا۔۔۔ اس نے عرش کی طرف دیکھا اور مسکرائی تھی ۔۔ وہ بھی مسکرایا تھا۔۔۔
’’ ویسے تم جانتی ہو۔۔ ہم دونوں کبھی بھی اکیلے نہیں ہوتے ۔۔ کوئی تیسری شے بھی ہمارے ساتھ ہوتی ہے ’’ اس کی بات پر الہام نے اسے سوالیاں نظروں سے دیکھا تھا۔۔۔
’’ یہ سمندر ،یہ پانی۔۔ یہ ہم دونوں کے ہمراز رہے ہیں ہمیشہ ۔۔۔ مجھے لگتا ہے کہ جب ہم نہیں رہینگے۔۔ تو شاید یہ دنیا ہمیں بھول جائیگی۔۔ مگر یہ سمندر ہم دونوں کو یاد رکھے گا ’’ اس نے لہروں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ ہاں اور ہماری یادوں کو یہ اپنی گہرائی میں چھپا لے گا ’’ الہام نے مسکرا کر کہا تھا۔۔
’’ آرڈر یقیناً تم دے چکی ہوگی ’’ عرش نے پوچھا تھا۔۔
’’ یس ۔۔ آپ بتائیں کیا بات کرنی تھی آپ نے ؟ ’’
’’ پہلے میں سننا چاہتا ہوں ’’ عرش نے اسکی طرف غور سے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ کیا ؟ ’’ وہ سمجھی نہیں تھی۔۔۔
’’ سات سال کا حال ’’ عرش نے آگے جھک کر کہا تھا۔۔ اور الہام نے گہری سانس لے کر نظریں سمندر کی جانب موڑ لی تھیں۔۔۔ اس نے آج تک کسی سے بھی ان سات سالوں کے بارے میں کوئی بات نہیں کی تھی۔۔ یہاں تک کہ احتشام اور پارسا سے بھی نہیں ۔۔ مگر وہ اس شخص کے آگے خاموش نہیں رہ سکتی تھی ۔۔ اس سے ہر بات کرنا جیسے اسے اچھا لگتا تھا ۔۔ یا شاید وہ اسی انتظار میں تھی کہ وہ اس سے ہر بات کہہ دے ۔۔وہ تھوڑی دیر خاموش رہی اور عرش اسکےبولنے کا منتظر ۔۔ اور تھوڑی دیر بعد اس نے کہنا شروع کیا تھا ۔۔
’’ احتشام بھائی کو یہاں ایک ہسپتال میں جاب مل گئ تھی۔۔ اور ساتھ ہی رہنے کے لئے فلیٹ بھی ۔۔ اور اس دن ہم سب کچھ اسی ملک میں چھوڑ آئے تھے۔۔ اس ملک کی کوئی نشانی بھی اپنے ساتھ نہیں لائے تھے ۔۔ یہاں تک کہ وہ رشتہ۔۔ جو اس ملک کے لوگوں نے زبردستی بنایا تھا۔۔۔ وہ بھی وہی چھوڑ آئے تھے ۔۔ یہاں آکر کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا ۔۔ زندگی جیسے ختم ہوگئ تھی ۔۔۔ کچھ محسوس تک نہیں ہوتا تھا ۔۔۔ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں بچا تھا ۔۔ نا رشتے ، نا مان ، نا عزت اور نا زندگی ۔۔پارسا بھابھی ہی میری دوست بن کر مجھے نارمل کرنے کی کوشش کرتی تھی ۔۔ وہ احتشام بھائی کی محبت میں ہمارے ساتھ آئیں تھیں۔۔۔ یہ میں جانتی تھی ۔۔ احتشام بھائی نہیں ۔۔۔ وہ اسے دوستی سمجھتے تھے ۔۔ احتشام بھائی نے میرا ایڈمیشن میڈیکل یونیورسٹی میں کروا دیا تھا۔۔ وہ چاہتے تھے کہ میں پڑھو ۔۔ انہوں نے کہا کہ انکا خواب ہے مجھے ڈاکٹر بنتے دیکھنا ۔۔ اور مجھے یہ احساس ہوا کہ ابھی بھی اس دنیا میں کوئی ہے۔۔۔ جس کے خواب مجھ سے جڑے تھے۔۔ جس کی امیدیں مجھ سے جڑی تھیں۔۔ اور جو میرا اپنا تھا ۔۔ مجھے احساس ہوا کہ ہم دوںوں اکیلے نہیں تھے۔۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ہیں اور ہمیں ایک دوسرے کی خواہشوں کو پورا کرنا ہے ۔۔ بس اسی بات نے مجھے نئ ہمت دی اور میں نے اپنی زندگی کا ایک ہی مقصد بنا لیا تھا ۔۔ ڈاکٹر بننا ۔۔‘‘ وہ رکی تھی ۔۔ عرش کی نظریں اسی پر ٹکی تھیں ۔۔ اور اسکی سمندر پر۔۔
’’ اور پھر یونیورسٹی میں مجھے حامد ملا ۔۔ وہ ایک بہت اچھا لڑکا تھا۔۔ جانتا تھا کہ میں ہمیشہ خاموش رہتی ہوں اور کسی سے بھی دوستی کرنا پسند نہیں کرتی ۔۔ مگر اس کے باوجود اس نے میرا پیچا نہیں چھوڑا ۔۔ میرے ساتھ کسی اور کو وہ بیٹھنے نہیں دیتا تھا ۔۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے وہ میری حفاظت کرتا تھا ۔۔ خود ہی بولتا رہتا تھا۔۔ اور میں اسے سن سن کر پک جاتی تھی۔۔ مگر اسے جواب نہیں دیتی تھی ۔۔مجھے لگا وہ کچھ دن میں تھک جائے گا۔۔ مگر نہیں ۔۔ وہ تو مسلسل ایسا ہی رہا تھا ۔۔ جہاں میں نظر آجاتی۔۔ وہی آکر مجھے ناجانے کون کون سے جوکس سنانا شروع کردیتا تھا۔۔۔ اور میں ناچاہتےہوئے بھی ہنس جاتی تھی ۔۔ اور تب مجھے لگتا تھا کہ میں اس طرح کتنے عرصے بعد ہنسی ہوں ۔۔ اور اسی احساس نے مجھے اسکے قریب کیا اور ہم اچھے دوست بن گئے ۔۔ اس نے میرا بہت ساتھ دیا تھا اور آج تک دے رہا ہے ۔۔ میں خود کا بہت خوش نصیب سمجھتی ہوں کہ اللہ نے اگر مجھ سے میرا یک رشتہ دور کیا تھا۔۔۔ تو مجھے دوسرا دیا بھی تھا ۔۔ پھر مجھے لگا کہ بہت ٹائم ہوچکا ہے۔۔ اب مجھے احتشام بھائی اور پارسا بھابھی کے معاملے کو بھی درست کرنا ہوگا ۔۔ آخر وہ دونوں کب تک ایسے رہینگے ؟ اس لئے میں نے احتشام بھائی سے کہا کہ وہ کہہ دیں۔۔ جو ان کے دل میں ہے ۔۔ اور جب وہ کہنے کا وقت آیا۔۔ تو آپ بھی آگئے ’’ اس نے آخری بات کہتے ہوئے اسے مسکرا کر دیکھا تھا ۔۔ جو اسے ہی سن رہا تھا ۔۔ جو اسے ہی دیکھ رہا تھا ۔۔ جو مسکرا رہا تھا۔۔۔
’’ تم نے مجھےمایوس نہیں کیا ’’ عرش نے کہا تھا۔۔۔
’’ مطلب ؟ ’’ الہام نے پوچھا تھا ۔۔ ویٹر کھانا سرو کرنے آیا تھا اور وہ دونوں خاموش ہوگئے تھے۔۔
’’ مطلب یہ کہ اتنے سال مجھے یہ یقین رہا کہ تم سنبھل گئ ہوگی ۔۔۔ تم بہادری سے حالات کا سامنا کر رہی ہوگی ۔۔ تم کامیاب ہوگی ۔۔ اور تم جہاں بھی ہوگی ۔۔ بلکل ٹھیک ہوگی ۔۔ اور میرا یقین ٹھیک تھا ۔۔ تم بہادر ہو ’’ اس نے کہا تھا اور الہام اسکی بات پر مسکرائی تھی۔۔
’’ انسان خود بہادر نہیں ہوتا ۔۔۔ وقت اسے بہادر بنا دیتا ہے ’’ اب وہ دونوں کھانے کی طرف متوجہ ہوگئے تھے ۔۔ کھانا کھانے کے بعد عرش نے اسے ساتھ واک پر چلنے کو کہا تھا ۔۔
اب دونوں پیرس کی اس خوبصورت سڑک پر جہاں آئیفیل ٹاور اپنی تمام پر روشنی کے ساتھ چمک رہا تھا۔۔ اور آس پاس کے پورے ماحول کو روشن کر رکھا تھا ۔۔ جہاں سٹریٹ لائٹس کی روشنی بھی اسکی جگمگاہٹ کے آگے ماند پڑھ گئ تھی۔۔ اور درختوں نے سائے بنائے ہوئے تھے، پر واک کر رہے تھے
’’ اب آپ بتائیں ۔۔ ان سات سالوں کا حال ’’ الہام نے اس سے پوچھاتھا ۔۔ اور وہ تو سوچ کر ہی آیا تھا کہ آج اسے سب بتا دیگا۔۔ وہ کچھ بھی چھپانا نہیں چاہتا تھا ۔۔
’’ تمہارے جانے کے بعد میری زندگی میں ان سات سالوں میں صرف تین مقصد آئے تھے ’’ اس نے کہا تھا۔۔
’’ وہ کیا ؟ ’’ الہام نے اسکی جانب دیکھ کر پوچھا تھا۔۔
’’ سب سے پہلا ۔۔ تمہاری انوسینس پروف کرنا ’’ عرش کی بات پر وہ حیران ہوئی تھی۔۔
’’ کیا مطلب ؟ ’’
’’ مطلب یہ کہ تمہارے جانے کے صرف چند دنوں بعد۔۔ میں نےہر اس شخص کو شرمندو کیا تھا۔۔ جو تمہارے دکھوں کا زمہ دار تھا ۔۔ سچائی سب کو معلوم ہوچکی ہے الہام۔۔ وہ بھی ثبوت کے ساتھ ۔۔ ’’ اس نے ایک دھماکہ کیا تھا۔۔ اور الہام کے قدم ٹھہر گئے تھے۔۔ وہ آنکھیں کھولے اسے دیکھ رہی تھی ۔۔ اور عرش اب اسے اپنی اور معاذ کی جاسوسی سے لے کر اس کے گھر جاکر اسکے پاپا کو سب بتانے تک کی پوری کہانی سنا رہا تھا۔۔۔ اور وہ اسے دیکھے جارہی تھی ۔۔ اسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا ۔۔ وہ شخص اسکے لئے اتنا سب کچھ کر سکتا ہے ؟ وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی ۔۔۔ عرش نے خاموش ہوکر اسکی طرف دیکھا تھا۔۔ اور اسکے آنسو دیکھ کر وہ پریشان ہوگیا تھا۔۔۔
’’ ارے رو کیوں رہی ہو تم ۔۔؟ تمہیں تو خوش ہونا چاہئے ’’ عرش نے اسکے چہرے پر آئے آنسوؤں کو اپنی انگلیوں سے صاف کیا تھا ۔۔
’’ آپ نے یہ سب کیوں کیا ؟ ’’ وہ بھیگی آنکھوں سے اس سے پوچھ رہی تھی ۔۔ اور عرش کو اسکے اس انداز پر بے حد پیار آیا تھا۔۔
’’ کیونکہ میں تمہارا رازِدل ہوں ۔۔ بھول گئ ؟ ’’ اسکے چہرے پر تھوڑا جھک کر اس نے کہا تھا۔۔
’’ یاد ہے ’’الہام نے مسکرا کر سر ہلایا تھا۔۔
’’مگر ان سب کا ایک برا اثر بھی پڑا تھا الہام ’’ عرش نے سنجیدگی سے کہا تھا۔۔
’’ کیسا اثر ؟ ’’ الہام بھی پریشان ہوئی تھی۔۔
’’ میں نے دوبارہ یہ جاننے کی کوشش نہیں کی تھی کہ میرے جانے کے بعد تمہارے گھر میں کیا ہوا ؟ میں تو اپنے اگلے مقصد کی طرف چل پڑا تھا۔۔۔ اور وہ تھا۔۔ ایک ڈاکٹر بننا ۔۔ کیونکہ میں جانتا تھا۔۔ تم جہاں بھی ہوگی اسی مقصد کے ساتھ ہوگی ۔۔ اس لئے میں بھی اپنی زندگی کے اس دوسرے مقصد کے حصول کے لئے محنت کرنے لگا۔۔ جب تین مہینے بعد اربش مجھ سے ملنے آئی تھی ۔۔ میری یونیورسٹی کے باہر ۔۔۔ ’’ اس کی بات پر الہام چونکی تھی۔۔۔
’’ مگر کیوں ؟؟ ’’ اس نے پوچھا تھا اور عرش نے اسکی طرف دیکھا تھا ۔۔ اب وہ اسے اس دن کا واقع بتا رہا تھا ۔۔
سات سال پہلے :
’’اربش ۔۔!’’ پاپا کی آواز آئی تھی۔۔ وہ اسے چیخ چیخ کر پکار رہے تھے۔۔ مگر اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ انکے سامنے آ سکتی۔۔۔ وہ اپنی ہی جگہ جم سی گئ تھی۔۔ زمین نے جیسے اسکے قدم پکڑ لئے تھے اور وہ ہلنے کے قابل بھی نہیں رہی تھی ۔۔۔ پاپا اسے پکارتے باہر آئے تھے۔۔ ماما بھی انکے پیچھے آئی تھیں۔۔ اور پھر انکی نظر دروازے کے ساتھ لگی اربش پر پڑی تھی ۔۔۔ وہ تیزی سے اسکی طرف آرہے تھے۔۔ اسکا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا ۔۔ پاپا اسکے پاس آئے تھے اور پھر ایک زور دار تھپڑ اسکے منہ پر لگا تھا۔۔ وہ زمین بوس ہوگئ تھی ۔۔ ماما نے فوراً اسے بازوں سے پکڑ کر اٹھایا تھا ۔۔
’’ ایجاز پلیز ۔۔ اسے معاف کردیں بچی ہے یہ ’’ ماما نے پاپا سے کہا تھا۔۔
’’ معاف کردوں ؟؟ تم نے کیا تھا میری بیٹی کو معاف ؟؟ تم جانتی تھی کہ یہ سب تمہارے بیٹی کا کیا دھرا ہے۔۔ پھر بھی تم نے میری بیٹی کے ساتھ وہ ظلم کیا ’’ وہ ان پر برسے تھے۔۔ اربش تو اپنی جگہ سہم سی گئ تھی۔۔ زندگی میں پہلی بار اس نے پاپا کو اتنے غصے میں دیکھا تھا ۔۔
’’ یہ آپکی بھی بیٹی ہے ۔۔ میں جانتی ہوں کہ اس نے غلطی کی ہے۔۔ مگر الہام بھی کوئی اتنی سیدھی نہیں تھی۔۔ آخر احتشام اسکا سگا بھائی نہیں تھا۔۔ اور نا محرم ، نامحرم ہی ہوتا ہے۔۔ ’’ ماما نے بھی اسی انداز میں پاپا کو جواب دیا تھا ْ۔۔
’’ خبردار جو تم نے میری بیٹی کے بارے میں کوئی بھی غلط بات کی ’’ انہوں نے انگلی اٹھا کر انہیں خبردار کیا تھا۔۔
’’ اور یہ میری بیٹی نہیں ہے۔۔ یہ تمہاری بیٹی ہے ۔۔ تمہاری طرح چالاک ۔۔ ساری زندگی میں نے اپنی بیٹی کے ساتھ زیادتی کی صرف اس لئے کہ اسے یہ نا محسوس ہو کہ میں اسکا سگاباپ نہیں ہوں ۔۔ ساری زندگی الہام کے ساتھ کی گئ تمہاری ناانصافیوں کو میں نے نظر انداز کیا ۔۔ اور اسکا یہ صلہ دیا تم ہے مجھے؟ ’’ انہیں آج احساس ہورہا تھا کہ وہ پوری زندگی کتنی غلطیاں کرتے رہے ہیں۔۔ مگر احساس ہمیشہ وقت گزر جانے کے بعد ہی ہوتا ہے۔۔
’’ ایجاز پلیز ، معاف کر دیں ہمیں ۔۔ ’’ ماما نے انکے آگے ہاتھ جوڑے تھے۔۔
’’ کیا معاف کردوں تمہیں؟ ۔۔۔ اپنی بیٹی کی بربادی ۔۔؟ یا اسکی کردار کشی ۔۔؟ تم دونوں نے مجھ سے میری بیٹی چھینی ہے عائشہ ۔۔ اور اسکی سزا تمہیں مل کر رہے گی ’’ وہ ایک قدم آگے بڑھے تھے۔۔
’’ میں تمہیں طلاق نہیں دونگا ۔۔ مگر تمہیں اب ساتھ بھی نہیں رکھونگا ۔۔ نکلو یہاں سے۔۔ ’’ اور سزا مل چکی تھی ۔۔ انہوں نے ان دونوں کو بازوں سے پکڑ کر گھر سے باہر نکالا تھا۔۔ وہ انکی منتیں کرتی رہیں تھیں ۔۔ وہ دونوں معافی مانگتی رہیں تھی ۔۔ مگر انہوں نے ایک بھی نہیں سنی تھی ۔۔ گھر کے دروازے سے انہیں دھکیلا تھا۔۔ اور وہ کسی کے قدموں کے پاس جاکر گری تھی۔۔ جب سر اٹھا کر دیکھا۔۔ تو سامنے رابعہ پھوپھو آنکھوں میں آنسو لئے کھڑی تھیں ۔۔
’’ کیوں کیا ایسا ْ۔۔؟ کیا بگاڑا تھا میرے بیٹے نے تمہارا ’’ وہ کہہ رہی تھیں۔۔ آنسو شدت سے بہہ رہے تھے ۔۔ عائشہ اور اربش کھڑی ہوئی تھی۔۔ اور انکے آگے ہاتھ جوڑے تھے۔۔۔
’’ ہمیں معاف کر دیں پھوپھو ’’ اربش نے کہا تھا اور رابعہ کے تعصورات میں سختی آئی تھی۔۔
’’ گارڈ ’’ انہوں نے آواز دی تھی۔۔ اور چوکیدار بھاگتا ہوا آیا تھا ’’ جی بیگم صاحبہ ’’
’’ انہیں باہر کرو یہاں سے۔۔ اور آئیندہ کبھی یہ یہاں نظر نا آئیں ’’ وہ کہہ کر اندر آئی تھیں۔۔ جہاں ایجاز صاحب صوفے پر سر پکڑے بیٹھے تھے ۔۔
’’ میں ابھی احتشام کے وکیل کے پاس گئ تھی ۔۔ بہت دل چاہ رہا تھا اسکی خیریت پتہ کرنے کا ۔۔ سوچا وکیل کو کچھ معلوم ہوگا ’’ وہ انکے برابر صوفے پر بیٹھ کر کہہ رہی تھیں۔۔۔
’’ لیکن اسے بھی کچھ نہیں معلوم کہ وہ کہاں ہے ۔۔ ؟ مگر اس نے مجھے یہ دیا ’’ انہوں نے ایک لفافہ انکی طرف بڑھایا تھا۔۔ ایجاز صاحب نے سر اٹھا کر انہیں دیکھا تھا۔۔
’’ یہ کیا ہے ۔۔؟؟ ’’ لفافہ ہاتھ میں لیتے ہوئے پوچھا تھا۔۔
’’ انکے رشتے کی سچائی کا ثبوت ’’ رابعہ بیگم کہہ کر اب زاروقطار رونا شروع ہوئی تھیں۔۔ جبکہ ایجاز صاحب نے لفافہ کھول کر اسکے اندر موجود پیپر باہر نکالا تھا اور وہ دہل گئے تھے۔۔
وہ الہام اور احتشام کا طلاق نامہ تھا۔۔ وہ بھی نکاح کے صرف ایک دن بعد کی تاریخ کا ۔۔ اس کے ساتھ ایک خط بھی تھا ۔۔۔ جو کہ احتشام کا تھا ۔۔ انہوں نے خط پڑھنا شروع کیا تھا ۔۔۔
’’ میں جارہا ہوں ماما ۔۔ یہاں سے بہت دور ۔۔ ایک ایسے جہان میں ۔۔ جہاں کوئی میرے کردار پر لگے اس کیچڑ کو دیکھ نہیں سکے گا ۔۔ جہاں کوئی الہام کے کردار پو انگلی نہیں اٹھا سکے گا ۔۔ جہاں ہمیں چیخ چیخ کو سب کو یہ نہیں بتانا پڑے گا کہ ہم مرد اور عورت ہونے کے ساتھ ساتھ دو انسان بھی ہیں ۔۔ ہمیں انسان کی نظروں سے دیکھو۔۔ مرد اور عورت سمجھ کر نہیں ۔۔۔ ہماری نیتیں دیکھو ۔۔ ہمارے جنس نہیں ۔۔ آج آپ کو ایک بات بتاؤ ماما ۔۔ وہ دس سال کی تھی ۔۔ جب ایک دن میں اس سے ملنے آیا تھا۔۔ اور میں نے دیکھا کہ وہ رو رہی تھی ۔۔ اپنی ایک ڈول کو گلے سے لگا کر ۔۔ میں اسکے پاس گیا ۔۔ اس سے پوچھا وہ کیوں رو رہی ہے۔۔ تو اس نے کہا کہ اربش نے میری ڈول کا بازو توڑ دیا ہے ۔۔ اس نے میرا سب سے پیارا ڈریس بھی چھین لیا مجھ سے ۔۔ میری چاکلیٹس بھی کھا لی ۔۔۔ میں نے کہا کہ وہ انکل سے جاکر اسکی کمپلین کرے ۔۔ تو جانتی ہیں اس نے کیا کہا مجھ سے ؟؟ اس نے کہا کہ وہ اب اس نے پاپا ہیں ۔۔ وہ میری بات نہیں سنتے اب ۔۔ میرے بات کوئی نہیں سنتا ۔۔ مجھ سے کوئی پیار نہیں کرتا ۔۔ اور پھر اس نے رونا شروع کیا تھا ۔۔ اس کی ہچکیاں میرے دماغ ہر ہتھوڑا بن کر لگ رہی تھیں ۔۔۔ پھر میں نے اسے گلے لگایا تھا ۔۔ اس نے سر پر ہاتھ رکھا ۔۔ اور جانتی ہیں ۔۔ میں نے اس سے کیا کہا ؟؟ ‘‘ ایجاذ صاحب کی سانس رک گئ تھی ۔۔ ان کے آنسو پتھر بن گئے تھے۔۔ پھر بھی انہوں نے آگے پڑھنا شروع کیا تھا ۔۔۔
’’ میں نے کہا ۔۔ تم اکیلی نہیں ہو ۔۔ تمہارا بھائی ہے تمہارے ساتھ ۔۔ وہ فوراً مجھ سے الگ ہوئی تھی ۔۔ مجھے دیکھا اور کہا ۔۔ میرا کوئی بھائی نہیں ہے ۔۔ اور میں نے اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے مسکرا کر اس سے کہا ۔۔ تمہارا بھائی ہے الہام ۔۔ میں ہوں تمہارا بھائی ۔۔ تمہارا محافظ ۔۔ اورتمہارا اپنا ۔۔ میری بات سنتے ہی وہ خوش ہوگئ تھی ۔۔ کہنے لگی ۔۔ آپ میرے بھائی ہیں ؟؟ ۔۔ اسکی آنکھوں میں ایک چمک تھی ۔۔ میں نے سر ہلایا تھا ۔۔ اور وہ فوراً ہی کھڑی ہوئی تھی ۔۔ تو پھر آپ مجھے ایک نیو ڈال ، چاکلیٹس اور بلکل ویسا کی ڈریس دلوائینگے ؟ کتنی معصوم خواہشیں تھیں اسکی ۔۔ دل میں ایک درد اٹھا تھا ۔۔ ایک امیر خاندان کی لڑکی ۔۔ اتنی چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لئے روتی رہتی تھی ۔۔ میں نے سر ہلایا تھا اور وہ اچھل گئ تھی ۔۔ آپ جانتی ہیں اس وقت میں نے میٹرک کلئیر کیا تھا اور آپ نے مجھے ایک گھڑی گفٹ کی تھی ۔۔ اور میں نے وہ گما دی تھی۔۔۔ میں نے وہ گمائی نہیں تھی ماما ۔۔۔ میں نے وہ گھڑی بیچ کر الہام کے لئے وہ چیزیں لی تھیں جسکی اسے ضرورت تھی ۔۔۔ میں ایک بھائی تھا ۔۔ اور میں اپنے پیسوں سے اپنی بہن کی ذمہ داری اٹھانا چاہتا تھا ۔۔ اس لئے میں نے آپ سے پیسے نہیں لئے تھے ۔۔۔ اور اس کے بعد ہمیشہ وہ مجھ سے نئ نئ فرمائشیں کرتی تھی۔۔ اور میں اسکی ہر خواہش پوری کرتا تھا ۔۔ وہ میری زندگی کی روشنی تھی ۔۔۔ وہ میری بہن تھی ۔۔ مجھے اپنی اکلوتی بہن سے بے حد محبت تھی ۔۔ میں نے کبھی محسوس ہی نہیں کیا کہ وہ اتنی بڑی ہوگئ کہ میری نامحرم کی نظر سے دیکھے جانی لگی ۔۔ میری لئے تو وہ وہی دس سال کی لڑکی تھی ۔۔۔ جسے روتے دیکھ کر میں سب بھول گیا تھا ۔۔۔ جس کی خاطر میں اریج سے شادی کرنا چاہتا تھا ۔۔۔ ہاں ۔۔ یہ سچ ہے ۔۔ مجھے اریج سے محبت نہیں تھی۔۔۔ مجھے وہ اچھی لگی تھی ۔۔ مگر صرف الہام کی وجہ سے ۔۔ وہ اسکی بہت اچھی دوست تھی ۔۔ اور مجھے لگا کہ وہ الہام کو ایک اور رشتہ دے سکتی تھی ۔۔ میں اریج سے شادی صرف الہام کی وجہ سے کر رہا تھا ۔۔ تاکہ الہام خوش رہے ۔۔ مگر مجھے یہ نہیں معلوم تھا ۔۔ کہ میرا یہ فیصلہ الہام کو برباد کردے گا ۔۔ میرا فیصلہ ۔۔ میری بہن سے بھری محفل میں عزت کی چادر چھین لے گا ۔۔ اور سب سے بڑی قیامت تو یہ تھی کہ میرا یہ فیصلہ الہام اور میرے رشتے کو نکاح تک لے جائیگا ۔۔۔ نکاح ۔۔ ایک محبت بھرا پاک رشتہ ۔۔ دو دلوں کو جوڑ دینے والا ۔۔ دو لوگوں کو باندھ دینے والا ۔۔ نکاح جیسے رشتے کو مزاق کیسے بنایا جاسکتا ہے ؟ میں آپ سے پوچھتا ہوں امی جان ۔۔ کسی سے انتقام لینے کے لئے ۔۔ اسے نکاح میں باندھ دینا ۔۔ کسی سے محبت حاصل کرنے کے لئے اس سے زبردستی نکاح کرنا ۔۔۔ کسی کو حاصل کرنے کے لئے نکاح کو استعمال کرنا اور اپنے ناپاک مقاصد کے حصول کے لئے کسی کو نکاح کرنے پر مجبور کر دینا ۔۔ صرف اس لئے کہ نکاح محبت پیدا کر دیتا ہے ۔۔ اس لئے کہ خدا نے اس رشتے میں محبت کی ملاوٹ اور کشش رکھی ہے ۔۔ ہمارا جب دل چاہے گا کسی کا بھی کسی سے نکاح کروا دینگے ۔۔۔ کسی سے بھی زبردستی نکاح کرلینگے۔۔ صرف اس لئے کہ نکاح محبت پیدا کر دیتا ہے اور پھر سب ٹھیک ہوجاتا ہے ۔۔۔ کیا یہ نکاح کا مزاق نہیں ہے ؟؟ خدا کے بنائے اس رشتے کو استعمال کرنا ۔۔ کیا یہ مزاق نہیں ہے ؟ جانتی ہیں جب خدا سے مشورہ مانگا تھا تو اس نے میرے دل میں یہی خیال ڈالا تھا ۔۔ نکاح نے یہ تو ثابت کردیا کہ میں اور الہام نامحرم ہیں ۔۔اور رہینگے۔۔ مگر نکاح ہمیشہ استعمال نہیں ہوسکتا ۔۔ لوگوں کے انتقام کا نشانہ نکاح ہمیشہ نہیں بنے گا ۔۔ محبت پیدا کرنے کا آلہ نہیں ہے نکاح ۔۔ ایک پاک رشتہ ہے ۔۔ خدا کی رضا سے جڑتا ہے یہ ۔۔ اربش جیسے لوگوں کی رضا سے نہیں ۔۔ اس لئے ۔۔ اب یہ طلاق یہ ثابت کرے گی ۔۔ کہ نکاح کوئی مزاق نہیں ہے کہ کروا دو اور کہو کہ محبت ہوجائیگی ۔۔ اب یہ طلاق یہ ثابت کرے گی کہ رشتہ خون کے ہی نہیں ہوتے ۔۔ رشتہ احساسات کے ہوتے ہیں ۔۔ نیتوں کے ہوتے ہیں ۔۔ اب یہ طلاق یہ ثابت کرے گی کہ احتشام اور الہام کا رشتہ پاک تھا ۔۔ پاک ہے ۔۔ اس رشتے میں محبت نکاح سے نہیں ہوتی ۔۔ یہاں محبت اپنائیت سے ہوتی ہے ۔۔ وہ اپنائیت جو کہ سگے باپ سے بھی کبھی نہ ملی ۔۔۔ اللہ حافظ ‘‘ خط ختم ہواتھا ۔۔ اور ایجاز صاحب پتھر بن گئے تھے ۔۔ انہیں لگا ۔۔ آج قیامت ہی تو تھی ۔۔ جہاں سارے اعمال سامنے آگئے تھے۔۔ جہاں خونی رشتوں کی جھوٹی اپنائیت کا پول کھل گیا تھا ۔۔ جہاں ایک آئینہ تھا ۔۔ اور اس میں اصل چہرہ ۔۔
’’ وہ چلے گئے بھائی ۔۔۔ وہ ہمیشہ کے لئے سب کچھ چھوڑ کر چلے گئے ۔۔ میرا بیٹا مجھ سے دور ہوگیا ۔۔وہ واپس نہیں آئیگا ۔۔ میرے دونوں بچے چلے گئے ۔۔ ہم نے خود انہیں دور کر دیا ۔۔ ہم نے انہیں مار دیا بھائی ۔۔ ہم قاتل ہیں ’’ وہ پھوٹ پھوٹ کر ایجاز صاحب کے کاندھے پر سر رکھے رورہی تھی۔۔ اور ایجاز صاحب سکتے میں تھے ۔۔
وہ ماما کو سنبھالتی اپنےماموں کے گھر آئی تھی ۔۔ جہاں اس نے ماموں کو سب کچھ بتادیا تھا۔۔ ماما بلکل سکتے میں تھیں۔۔ نہ وہ کچھ کہہ رہی تھی نا ہی کچھ کھا رہی تھی ۔۔ بس آنسو تھے کے آنکھوں کا ساتھ نہیں چھوڑتے تھے ۔۔ وہ ماما کی حالت کی ذمہ دار تھی ۔۔ اسکی وجہ سے اسکی ماما کا گھر تباہ ہوگیا تھا ۔۔ وہ بے گھر ہوگئے تھے ۔۔ اور یہ سوچ سوچ کر وہ خود کو کوستی تھی ۔۔ اب وہ اپنے ماموں اور مامی کے رحم و کرم پر تھے۔۔ جن کا رویہ بھی انکے ساتھ کچھ خاص اچھا نہیں تھا۔۔ مگر اب برداشت کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔۔ وہ روز ماما سے معافی مانگتی تھی۔۔ ان کے گلے لگ کر روتی تھی مگر ماما اسے کچھ نہیں کہتی تھیں ۔۔ وہ تو جیسے بات کرنا ہی بھول گئ تھیں ۔۔۔ اور پھرایک رات وہ ہمیشہ کے لئے اس سے ناراض ہوکر اس سے دور چلی گئ تھیں ۔۔ اس نے اپنی ماما کو کھو دیا تھا ۔۔۔ اس دنیا میں اب وہ تنہا رہ گئ تھی ۔۔ اسکے پاس کچھ نہیں تھا ۔۔ وہ ہاتھ جو اسکے لئے وعا کرتے تھے اب وہ بھی نہیں رہے تھے ۔۔ زندگی اچانک ہی بدتر ہوگئ تھی ۔۔ وہ ماموں کے گھر نوکرانیوں کی طرح کام کرتی تھی اور کچھ کہہ بھی نہیں سکتی تھی ۔۔ رات اپنی ماما کے بیٹ پر لیٹ کر وہ روتی رہتی تھی ۔۔ اسے اب اپنی ہر غلطی کا احساس ہورہا تھا ۔۔ اس نے قدر نہیں کی تھی ۔۔ اپنے پاپا کی محبت کی ۔۔ اپنی ماں کی ۔۔ اور اپنی بہن کی ۔۔ اس نے کسی کی بھی قدر نہیں کی تھی۔۔ اور آج قسمت نے اس سے سب کچھ چھین لیا تھا ۔۔ اس کے پاس کچھ نہیں بچا تھا ۔، کچھ بھی نہیں ۔۔۔
وہ اپنی یونیورسٹی کے باہر گاڑی میں بیٹھے اسکے حالات سن رہا تھا۔۔ وہ رو رو کر اسےساری بات بتا رہی تھی ۔۔ اور وہ خاموش تھا ۔۔ آخر میں اس نے اپنے آنسو صاف کئے تھے۔۔ اور ایک لفافہ اسکی طرف بڑھایا تھا ۔۔
’’ یہ کیا ہے ؟ ’’ عرش نے پوچھا تھا۔۔
’’ یہ الہام کو دے دینا ۔۔ اسے کہنا کہ اسکی بہن کی آخری خواہش ہے کہ وہ مجھے معاف کر دے ’’
’’ میں نہیں جانتا کہ الہام کہاں ہے ۔۔ میں اسے یہ نہیں دے سکتا ’’ عرش نے اسے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔۔ ناجانے کیوں مگر عرش کو اس سے کوئی ہمدردی نہیں تھی ۔۔ وہ جو کچھ فیس کر رہی تھی۔۔ وہ اسکی حقدار تھی۔۔
’’ جانتی ہوں ۔۔ مگر مجھے یقین ہے کہ ایک دن وہ تمہیں ضرور ملے گی ۔۔ تم اسے یہ تب دے دینا ’’ اس نے لفافہ اسکی طرف ہی بڑھا رکھا تھا ۔ عرش نے لفافہ اسکے ہاتھ سے لے کر سامنے رکھا تھا۔۔
’’ تم بھی مجھے معاف کر دینا ’’ اربش نےاس سے معافی مانگی تھی۔۔
’’ جس دن الہام کر دے گی۔۔ شاید اس دن ’’ عرش نے سامنے دیکھتے کہا تھا ۔۔
’’ اوک میں چلتی ہوں ’’ وہ اب گاڑی کا دروازہ کھولنے لگی تھی۔۔ جب اس نے پوچھا تھا۔۔
’’ تم نے یہ کیوں کہا کہ یہ تمہاری آخری خواہش ہے ؟ ’’ عرش کی بات پر وہ رکی تھی۔۔
’’ کیونکہ میں یہاں سے جارہی ہوں۔۔ مامی میری شادی کررہی ہیں ۔۔ مجھ سے ہمیشہ کے لئے جان چھڑانے کے لئے۔۔ وہ میری شادی کر رہی ہیں۔۔ لڑکا ملک سے باہر رہتا ہے ۔۔ اور میں یہاں واپس کبھی نہیں آؤنگی کیونکہ میرا اب یہاں کوئی نہیں ہے ’’ وہ کہہ کر گاڑی سے اتر گئ تھی۔۔ اور عرش نے اسے دور جاتے دیکھا تھا ۔۔