اے راز دل

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط 2 (پارٹ 3)

وہ گھر آکر فوراً اپنے کمرے کی طرف جانا چاہتی تھی۔۔۔ مگر ماما نے اسے آواز دے کر روک دیا تھا۔۔ اربش بھی ماما کے ساتھ ہی موجود تھی۔۔۔
’’ کہا تھی تم پورا دن ؟ ’’ ماما کا لہجہ سخت تھا۔۔
’’ دوست کے ساتھ تھی ’’ اس نے دھیمی آوازمیں کہا تھا۔۔
’’ ایسی کون سی دوست بن گئ تمہاری جو پورا دن اسکے ساتھ گزار آئی ہو اور گھر والوں کو بتانا بھی ضروری نہیں سمجھا ’’ اب اربش نے کہا تھا۔۔ انداز میں ایک روب تھا ۔۔۔
’’ میری یونیورسٹی فیلو ہے۔۔ ہمیں ایک ٹاپک سمجھنا تھا تو ٹائم کا پتہ نہیں لگا ’’ اس نے اب بھی ماما کو دیکھ کر ہی جواب دیا تھا۔۔ اربش کو وہ مسلسل اگنور کر رہی تھی ۔۔۔
’’ تو کال کیوں نہیں اٹھا رہی تھی ؟ انفارم تو کرنا چایئے تھا نا ؟ ’’ ماما نے ایک اور سوال کیا تھا ۔۔
’’ سوری میرا موبائیل سائیلنٹ پر تھا ’’ وہ کہہ کر آگے بڑھنا چاہتئ تھی پر ماما نے ایک اور بار اسے روک دیا تھا۔۔
’’ احتشام تمہیں صبح سے ڈھونڈ رہا ہےاسے انفارم کردو ’’ انکا انداز اب بھی سخت تھا ۔۔
’’ آپ انہیں بتا دیں کہ میں آچکی ہوں۔ میرا کریڈٹ ختم ہے ’’ وہ کہہ کر اوپر جاچکی تھی اور اربش اسکے انداز سے بہت کچھ سمجھ چکی تھی۔۔۔
’’ اسے کیا ہوا ہے ؟’’ ماما نے اربش سے پوچھا تھا۔
’’ شاید احتشام سے لڑائی ہوئی ہے ’’ اربش نے مسکرا کر جواب دیا تھا۔۔
’’ تمہیں کیسے پتہ ؟ ’’ وہ اب اسے مشکوک نگاہوں سے دیکھ رہیں تھیں ۔۔
’’ آپ جانتی ہیں اسکا کریڈٹ کبھی ختم نہیں ہوتا مگر آج اگر ہوا ہے۔۔ تو احتشام سے ناراضگی کی وجہ سے ’’ اسکی مسکراہٹ گہری تھی ۔۔
’’ لیکن وہ تو اس کے لئے اتنا پریشان ہورہا تھا ’’ ماما ان دونوں کی ناراضگی ماننے کو تیار نہیں تھی۔۔
’’ وہ اس کے گھر نہ آنے کی وجہ سے پریشان تھا۔۔ بس ’’ اس نے کہہ کر اب اپنا موبائیل اٹھایا اور اپنے کمرے کی طرف چلی گئ۔۔۔
وہ پورا دن اسےکالز کرتا رہا تھا۔۔۔ مگر اس نے اسکی کالز ریسیو نہیں کی تھیں۔۔ صبح سے اسے ہر اس جگہ ڈھونڈ چکا تھا جہاں اسے ہونا چاہئے تھا۔۔ مگر وہ کہیں نہیں تھی۔۔۔ وہ اس کے لئے بہت پریشان تھا۔۔ مگر اسکا کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا ۔۔۔ اسے خود پر غصہ بھی تھا کہ اس نے اس سے اس طرح کی بات کر کیسے لی ؟ وہ تو جانتا تھا کہ اربش شروع سے ہی الہام کے خلاف رہی ہے۔۔ پھر بھی وہ اس کی باتوں میں آگیا تھا ۔۔ کیوں ؟؟
اس وقت بھی وہ اپنے کمرے میں بیٹھا اسی بارے میں سوچ رہا تھا۔۔ جب اسکا موبائیل بجا تھا۔۔ اسے لگا شاید الہام کی کال ہو مگر پھر اس نے دیکھا سکرین پر اربش کا نام جگمگا رہا تھا۔۔۔ وہ اس سے بات تو نہیں کرنا چاہتا تھا پر الہام کے بارے میں پوچھنے کے لئے کال ریسیو کر لی تھی۔۔۔
’’ میں نے آپکو ڈسٹرب تو نہیں کیا ؟َ’’ اربش کی کھنکتی آواز تھی۔۔
’’ نہیں کہو تم کیسے کال کی؟ ’’ اس نے بیزاری سے پوچھا تھا۔۔
’’ وہ آپکو بتانا تھا کہ الہام آگئ ہے گھر’’ اس کی بات پر وہ جھٹکے سے سیدھا ہوکر بیٹھا تھا۔۔
’’ کب آئی ؟ ’’
’’ ابھی تھوڑی دیر پہلے ’’
’’ شکر ہے’’ اس کے دل کو سکون ملا تھا۔۔ وہ ٹھیک تھی ۔۔
’’ پوچھینگے نہیں کہا تھی وہ پورا دن ؟ ’’ اربش نے کہا تھا۔
’’ کہا تھی وہ ’’ وہ یہ خود الہام سے پوچھنا چاہتا تھا۔مگر پھر بھی اس سے پوچھ بیٹھا تھا ۔۔۔
’’ اپنے کسی دوست کے ساتھ تھی پورا دن ’’ اس نے جس انداز میں کہا تھا۔۔ احتشام کا خون جلانے کے لئے یہ انداز ہی کافی تھا۔۔۔ اس نے فوراً کال کٹ کر دی تھی اور دوسری طرف اربش ہیلو ہیلو کرتی رہ گئ تھی۔۔
اسے اربش پربے تحاشا غصہ آرہا تھا۔۔ وہ اس طرح کی بات الہام کے بارے میں کیسے کر رہی تھی؟ اب اسے الہام کی باتیں سمجھ آرہی تھی۔۔۔ وہ ٹھیک کہتی تھی کہ اربش اسے اس سے چھین لے گی مگر وہ اب اربش کی باتوں میں آنے والا نہیں تھا۔۔۔ اس نے فیصلہ کر لیا تھا ۔۔۔
ماما اسکے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر آئی تھیں اوراس کے چہرے کی پریشانی بھی دیکھ چکی تھیں۔۔
’’ کیا بات ہے تم پریشان لگ رہے ہو ؟ ’’ وہ اس کے پاس بیٹھتے ہوئے بولی تھیں۔۔
’’ نہیں بس تھک گیا ہوں تھوڑا ۔۔۔ آپ بتائیں آج میرے کمرے کا راستہ کیسے یاد آگیا ؟ ’’ اس نے ماما کو چھیڑا تھا۔۔
’’ کیونکہ آج تم اس کمرے میں جلدی آگئے ہو۔۔ ورنہ تو آدھی آدھی رات تک آنا ہوتا ہے تمہارا’’
’’ جی آج دن میں ہی آپریشنز سے فری ہوگیا تھا اس لئے ’’ اس نے کہا تھا اور ماما اسے غور سے دیکھ رہی تھیں۔۔۔ وہ جانتا تھا کہ ماما کیا بات کرنے آئیں ہیں۔۔
’’ کچھ کہنا ہے آپ نے ؟ ’’ اس نے خود ہی انہیں موقع دیا تھا۔۔
’’ ہاں تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے ’’ انہوں نے اب بات کرنا ہی مناسب سمجھا تھا۔۔
’جی کہیں میں سن رہا ہوں ’’ وہ اب پوری طرح ان کی طرف متوجہ ہوا تھا۔۔
’’ میں تمہاری شادی کرنا چاہتی ہوں ’’ ماما کی بات پر ناجانے کیوں ایک بھر پور مسکراہٹ اس کے لبوں پر آئی تھی۔۔
’’ یہ مجھے رات جلدی گھر لانے کا طریقہ ڈونڈھا ہے نہ آپنے ؟ ’‘’ اس نے انہیں پھر چھیڑا تھا۔۔
’’ ہاں اور میں اس پر عمل بھی کرونگی ’’ انہوں نے بھی ہار نہیں ماننی تھی۔۔
’’ ضرور کس نے روکا ہے آپکو ’’ وہ بھی جھوم اٹھا تھا۔۔
’’ یعنی کہ تمہیں کوئی اعتراض نہیں ہے ’’ وہ خوش ہوئی تھیں۔۔
’’ لو جی شادی سے کس کافر کو اعتراض ہوتا ہے ’’ اس نے دل پر ہاتھ رکھ کر کہا تھا۔۔ ماما نے اسے بازو پر چٹکی کاٹی تھی ’’ آوچ’’ اسے درد ہوا تھا ۔۔۔
’’ چلو پھر میں کل ہی عائشہ سے بات کرتی ہوں ’’ انہوں نے جیسے فیصلہ کیا تھا۔۔۔
’’ عائشہ آنٹی سے کیوں بات کرنی ہے آپ نے ؟ ’’ انجان بنا تھا ۔۔
’’ کیونکہ میں اربش سے تمہاری شادی کرنا چاہتی ہوں’’ ماما نے کہا تھا اور وہ یہی تو سننا چاہتا تھا۔۔
’’ نمہیں ماما میں اربش سے شادی نہیں کر سکتا’’ اس نے اب انکار کیا تھا۔۔
’’ کیوں ؟ ’’ وہ حیران ہوئی تھیں اسکے انکار پر۔۔
’’ کیونکہ میں کسی اور کو پسند کرتا ہوں ’’ اسے یہی راستہ دکھا تھا۔۔ ماما نے اسے حیران ہوکر دیکھا تھا۔۔
’’ الہام ؟ ’’ جانے کیسے ؟ مگر ماما کی زبان سے یہ نام نکل چکا تھا ۔۔ اور احتشام کو جھٹکہ لگا تھا ۔۔
’’ یہ آپ کیاکہہ رہی ہیں ؟؟ آپ اچھی طرح جانتی ہیں کہ وہ بہن ہے میری ’’ اسے برا لگا تھا۔۔۔
’’ تو پھر کون ہے وہ؟ تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں ؟ ’’
’’ آپ نے پوچھا ہی نہیں کبھی ’’ اس نے کہا تھا۔۔
’’ مگر میں تو عائشہ سے بات کر چکی ہوں احتشام۔۔ اب اسے انکار کیسے کروں ’’ وہ اب پریشان ہوگئ تھیں۔۔ انہیں جلدبازی نہیں کرنی چاہیئے تھی ۔۔
’’ انکار مت کریں۔۔ آپ بس انہیں یہ بتا دیں کہ میں کسی اور سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔۔ وہ خود ہی سمجھ جائینگی ’’ اس نے جیسے مسئلہ ہی حل کردیا تھا۔۔
’’ اور وہ کوئی اور ہے کون ؟ ’’ اب ماما نے اسے چھوڑنا نہیں تھا۔۔
’’ یہ میں آپکو بہت جلد بتاونگا۔۔ بلکہ ملواؤنگا ’’ اس نے بھی انہیں مطمئن کیا تھا۔۔ جبکہ وہ خود بھی نہیں جانتا تھا ۔۔
’’ بڑے چھپے رستم نکلے تم ’’ ماما نے اسے پھر سے چٹکی کاٹی تھی۔۔
’’ اف ماما ! آپکی اسی چٹکی کی وجہ سے چھپنا پڑتا ہے ’’ اسنے ان سے دور ہوتے ہوئے کہا تھا۔۔ شکر ہے ایک مسئلہ تو حل ہوا۔۔۔ وہ سوچ رہا تھا۔۔۔ اب بس الہام کو منانا تھا ۔۔
عجیب رات تھی۔۔۔ اسے نیند نہیں آرہی تھی۔۔۔ وہ شخص بھی عجیب ہی تھا۔۔۔ ایک اجنبی تھا مگر محسوس ایسا ہورہا تھا۔۔۔ جیسے وہ اسے برسوں سے جانتی ہوں۔۔۔ کتنا عجیب انسان تھا۔۔ اسے اپنا رازِدل بنا چکا تھا اور اب اسکا رازدل بننے چلا تھا۔۔۔ وہ اسکی ہی باتوں کو ساری رات سوچتی رہی تھی۔۔۔ اور اب اسے خیال آیا تھا کہ اس نے تو اسکا نام بھی نہیں پوچھا ؟ ویسے یہ بھی عجیب تھا کہ وہ جو ایک دوسرے کا نام بھی نہیں جانتے تھے۔۔۔ وہ ایک دوسرے کا رازدل بن چکے تھے۔۔ اس پوری رات میں اس نے صرف اسی شخص کے بارے میں سوچا تھا۔۔۔

وہ صبح صبح حسب معمول اسکے گھر کے سامنے موجود تھا ۔۔ آج بھی وہ ہارن پر سے ہاتھ ہٹانے کو تیار نہیں تھا۔۔۔ اور الہام آج بھی اٹھنے کو تیار نہیں تھی۔۔۔ وہ سوتو نہیں رہی تھی ۔۔۔ مگر اس وقت جان بوجھ کر اس آواز کو اگنور کرتی لیٹی ہوئی تھی ۔۔ اسے لیٹ جانا تو قبول تھا مگر اب احتشام ساتھ جانا قبول نہیں تھا ۔۔۔ اربش جس کی آنکھ مسلسل اس آواز کی وجہ سے کھل گئ تھی۔۔ اب حیران کھڑی اس گاڑی کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ اسے تو لگا کہ آج احتشام اسے لینے نہیں آئے گا۔۔ ’’ دیکھتی ہوں زرا ’’ وہ اب احتشام کے پاس پہنچی تھی۔۔ جس نے اسے دیکھ کر بھی ہارن سے ہاتھ نہیں ہٹایا اور باہر بھی نہیں نکلا۔۔
’’ آپ الہام کو لینے آئے ہیں ؟ ’’ اس نے بے تکا سوال پوچھا تھا۔۔
’’ روز اس کےلئے ہی آتا ہوں ’’ اس نے ہارن سے ہاتھ اب بھی نہیں ہٹایا تھا۔۔
’’ جی اور جگا ہم سب کو لیتے ہیں آپ ؟ ‘’ اس نے مسکرا کر کہا تھا۔۔
’’ اچھا ہے نا انسان کو صبح اٹھنے کی عادت ہونی چاہئے’’
اور اسی وقت الہام باہر آئی تھی ۔۔ ماما نے اسے زبردستی بھیجا تھا ورنہ اسکا بلکل ارادہ نہیں تھا آنے کا۔۔ اور اب سامنے احتشام اور اربش کو باتیں کرتے دیکھ کر اسکا مزید موڈ آف ہوگیا تھا۔۔ احتشام اسے دیکھتے ہی باہر نکلا تھا اور اب اس کے لئے فرنٹ ڈور کھول کر کھڑا ہوا تھا۔۔۔ وہ خاموشی سے اندر بیٹھ چکی تھی۔۔۔ اربش بھی دونوں کو دیکھ رہی تھی۔۔ دونوں کے درمیان کی خاموشی اسے یہ احساس دلا چکی تھی کہ دونوں میں ناراضگی اب بھی ہے۔۔۔ گاڑی جاچکی تھی اور اربش مطمئن ہوکر اندر آئی تھی۔۔
’’ تم کیوں روز اٹھ جاتی ہو ؟ ’’ ماما اسے اندر آتے دیکھ کر بولی تھیں۔۔
’’ احتشام کے ہارن سے تو مردہ بھی اٹھ جائے۔۔ میں تو پھر انسان ہوں ’’ وہ کہہ کر کمرے کی طرف بڑھی تھی۔۔
’’ مجال ہے کہ کبھی کوئی سیدھا جواب دے یہ لڑکی ’’ ماما بھی سوچتی رہ گئ تھیں۔۔
گاڑی چل رہی تھی اور دونوں کے درمیان خاموشی تھی۔۔ کافی دیر تک اس نے انتظار کیا کہ شاید وہ کچھ کہہ دے ؟ مگر وہ خاموش تھی۔۔ اس نے احتشام سے آج کوئی بات نہیں کی تھی ۔۔۔ اس نے اسکی جانب دیکھا بھی نہیں تھا ۔۔
’’ کل کہا تھی تم ؟ ’’ اس نے بات کا آغاز کیا تھا۔۔
’’ فرینڈ کے ساتھ تھی ’’ وہ کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے ہی بولی تھی۔۔
’’ مگر تمہاری تو کوئی بھی اتنی کلوز فرینڈ نہیں ہے۔۔ جس کے ساتھ تم پورا دن گزاروں ’’
’’ اب ہے ’’ مختصر جواب تھا۔
’’ میری کالز کیوں نہیں ریسیو کی ’’ ایک اور سوال پوچھا تھا۔۔
’’ بزی تھی ’’ اس کے جواب پر وہ مسکرایا تھا۔
’’ اتنی کہ اپنے بھائی کے لئے بھی ٹائم نہیں نکال سکی ’’
’’ جی ‘’ وہ زیادہ بولنے پر راضی نہیں تھی۔
’’ ناراض ہو ؟ ’’ اس نے پوچھا تھا۔
’’ نہیں ’’ جواب بھی مختصر تھا۔
’’ پھر مجھے دیکھ کیوں نہیں رہی ’’ عجیب وجہ تھی۔
’’ روز دیکھتی ہو اب یاد ہوچکی ہے صورت ’’ ایک اور جواب تھا۔
’’ کیسی ہے ؟ ’’ اس نے پوچھا تھا۔
’’ کیا ؟ ’’ اس نے منہ موڑے ہی کہا تھا۔
’’ میری صورت ’’ وہ مسکرایا تھا۔
’’ پتہ نہیں ’’
’’ تو دیکھ کر بتا دو ’’ اس کی بات کا کوئی جواب نہیں آیا تھا۔۔ تھوڑی دیر کے لئے پھر خاموشی ہوئی تھی ۔۔
’’ اتنی بری ہے کہ تم دیکھنے کو بھی تیار نہیں ہو ’’ اس نے اب جزباتی انداز اپنایا تھا۔
’’ ایسی کوئی بات نہیں ’’ اثر ہورہا تھا۔
’’ اگر نہیں ہے تو دیکھ کیوں نہیں رہی ’’ وہ اب افسردگی سے بولا تھا۔۔ اس نے پلٹ کی اسے دیکھا تھا۔۔ اور وہ مسکرایا تھا۔
’’ کیسی ہے ؟ ’’’ اس نے دوبارہ پوچھا تھا۔
’’ ٹھیک ہے ’’ اب وہ سامنے دیکھ رہی تھی ۔۔یونیورسٹی آگئ تھی۔
’’ پھر کوئی اچھی لڑکی مل جائے گی نا ؟ ’’ اس نے کہا تھا۔۔ اور وہ چونکی تھی۔
’’ کیا مطلب ؟ ’’
’’ مطلب یہ کہ تمہارے پاس ایک مہینہ ہے۔۔ کوئی اچھی سی بھابھی ڈھونڈ لو میں نے ماما کو ملوانا ہے اس سے ’’ اس نے مسکرا کر کہا تھا۔۔ اور الہام کے منہ کھل گیا تھا ۔۔
’’ آپ سچ کہہ رہے ہیں ؟ آپ نے آنٹی کو انکار کردیا ؟ ’’ وہ اب پوری اسکی طرف مڑی تھی۔۔ اس نے گاڑی روک دی تھی۔
’’ ہاں اور یہ بھی کہا ہے کہ میں اپنی پسند سے بھی انہیں ملواؤنگا ’’ اس نے اسے دیکھا تھا۔۔ کتنا آسان تھا اس لڑکی کو منانا ؟
’’ تھینک ہو سو مچ احتشام بھائی۔۔ مجھے پتہ تھا آپ میری بات ضرور مانیں گے ’’ اس نے اب اسکا ہاتھ پکڑ کر کہا تھا۔۔ وہ بے حد خوش تھی ۔۔۔
’’ صرف تھینکس نہیں۔۔۔ تمہیں بھی اب مجھ سے ایک وعدہ کرناہوگا ’’ اس نے بھی اسکا ہاتھ تھاما تھا۔
’’ کیا ؟ ’’
’’ یہی کہ آئندہ میں غصے میں کچھ بھی کہوں۔۔۔ تم ناراض ہوکر بھی میری کال ضرور اٹھاؤ گی۔۔ مجھے پریشان نہیں کروگی ’’ اس نے سنجیدگی سے کہا تھا۔۔ یہ وہ ہی جانتا تھا کہ وہ اسکے لئے کس قدر پریشان تھا ۔۔
’’ وعدہ ! اور آپ آئندہ غصے میں بھی ایسی بات نہیں کرینگے ’’ اسے بھی اب وعدہ چاہئے تھا۔۔
’’ وعدہ ! چلو اب جاؤ کلاس شروع ہونے والی ہے ’’ اس نے اس کے گال پر چٹکی کاٹی تھی ۔
’’ اف جارہی ہوں۔۔ چٹکی مت کاٹا کریں ’’ وہ کہہ کر نیچے اتری تھی اور وہ مسکرا کر گاڑی آگے بڑھا گیا تھا۔۔
وہ خوش تھی ۔۔ احتشام نے انکار کر دیا تھا۔۔ اب اربش سے اسے کوئی اور خطرہ نہیں تھا۔۔
وہ مسکراتی ہوئی کلاس کی طرف جارہی تھی۔۔ جب وہ اس کے سامنے آیا تھا۔۔ وہ اسے دیکھ کر رک گئ تھی۔۔
’’ اس سے پہلے کہ مجھے کوئی خوش فہمی ہو پلیز مجھے بتا دیں کہ اس مسکراہٹ کی وجہ کیا ہے؟ ’’ وہ اسکی طرف دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا۔۔ اور وہ اسے دیکھ کر اس سوچ میں گم ہوگئ تھی کہ اس انسان کو اسکی مسکراہٹ اور اداسی سب سے پہلے کیسے نظر آجاتی ہے ؟
’’ دل کے ہر راز سے واقف ہونے والا ہر احساس سے بھی واقف ہوتا ہے ۔۔ اس لئے میں بھی ہوں ۔۔ ’’ جو سوال اسکے دماغ میں چل رہا تھا۔۔ وہ اسکا جواب دے چکا تھا۔۔ اور وہ مزید حیران ہوئی تھی۔۔
’’ آپکو کیسے پتہ کہ میں یہ سوچ رہی ہوں ؟ ’’ اب اس نے پوچھ لینا ہی ٹھیک سمجھا تھا۔۔
’‘ آنکھیں دل کا آئینہ ہوتی ہیں جناب ’’ اس نے اسکی آنکھوں میں دیکھ کر کہا تھا۔۔ اسے لگا جیسے وہ اسکے اندر جھانک رہا ہے۔۔ نظریں بے اختیار پھیر لیں گئیں تھیں۔۔
’’ یہ لیں ’’ اس نے ایک کارڈ اس کے آگے کیا تھا۔۔
’’ یہ کیا ہے ؟ ’’ اس نے کارڈ لیتے ہوئے پوچھا تھا۔۔
’’ میرا کارڈ ہے۔۔ یہاں تو شاید نہ ہو مگر یہاں سے باہر نکلنے کے بعد اگر آپ خود کو کھو دیں۔۔ تو خود تک رسائی کے لئے مجھے یاد کیجئے گا۔۔۔ میں آپکو آپ سے ملواؤنگا ’’ وہ کہہ کر پلٹ چکا تھا۔۔ اور وہ اسے جاتا دیکھ رہی تھی۔۔ یہ وہ اسے کیا کہہ گیا تھا ؟؟؟ اسے اس سے ملوائے گا؟؟؟ کیسا عجیب انسان ہے اچانک اس کے سامنے آجاتا ہے اور اسے حیران چھوڑ کر چلا جاتا ہے ۔ کلاس میں اس کے ساتھ بیٹھتا ہے مگر اس سے انجان رہتا ہے۔۔ اسکی جانب دیکھتا نہیں ہے مگر اسکی آنکھیں پڑھ بھی لیتا ہے ۔۔ اور انجان رہ کر بھی وہ سب جانتا ہے ۔۔ایسا کیوں ہے ؟ یہ وہ نہیں جانتی تھی ۔۔
وہ کینٹین میں اریج کے ساتھ بیٹھی تھی۔۔ جب اریج نے اس سے پوچھا تھا۔۔
’’ کل تم کہاں گئ تھی ’’
’’ خود سے ملنے ’’ اس نے چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے کہا تھا۔ اور اسکی بات پر دل حیران ہوا تھا ؟؟ وہ خود سے کیسے ملی؟
’’ پھر ملی ؟ ’’ اس نے مزید پوچھا تھا۔
’’ ہاں ’’ اس نے مسکرا کر کہا تھا۔۔ کسی کی صورت دل نے روشن کی تھی۔۔
’’ کیسی لگی تم خود کو ؟ اس نے جھک کر آنکھوں میں شوخی لئے پوچھا تھا۔
’’ بہت خوبصورت ’’ بے اختیار منہ سے نکلا تھا۔۔ وہ خود بھی چونکی تھی۔۔ آج سے پہلے تو وہ خود کو اچھی نہیں لگی تھی ۔۔
’’ اہم۔۔۔ سچی ؟ ‘’ اریج نے شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ کہا تھا۔۔
’’ ہاں تو میں خوبصورت نہیں ہوں ’’ اب اس نے بات کو مزاق کا رنگ دیا تھا ۔۔
’’ وہ تو ہو ۔۔ مگر آج زیادہ لگ رہی ہو ’’ وہ اسے بہت غور سے دیکھ رہی تھی۔۔ کچھ تھا بدلہ ہوا تھا ۔۔
’’ تھینک یو ’’ اس نے بات نا بڑھانے میں ہی خیریت جانی تھی۔۔
’’ کل تمہارے بھائی بھی آئے تھے تمہیں لینے ’’ اریج کو یاد آیا تھا۔۔
’’ اچھا پھر تم ملی ؟ ’’
’’ ہاں تمہارا پیغام جو دینا تھا ’’ اس نے عام انداز میں کہا تھا۔۔ الہام نے سر ہلایا تھا۔۔
’’ ویسے الہام وہ بہت پریشان تھے تمہارے لئے ’’ اس نے اب سنجیدگی سے کہا تھا۔۔
’’ جانتی ہوں۔۔ یہی تو چاہتی تھی میں ’’ وہ مطمئن تھی۔۔
’’ انہیں پریشان کرنا چاہتی تھی ؟ ’’
’’ نہیں۔۔ انہیں احساس دلانا چاہتی تھی ’’
’’ احساس دلانے کے لئے اپنوں کو اس طرح پریشان کرنا تو اچھا نہیں ہوتا نہ ؟ ’’ اس نے اسے سمجھانے کی کوشش کی تھی۔۔
’’ کبھی کبھی ایسا ضروری ہوجاتا ہے اریج۔۔۔ جب کوئی آپ سے دور ہونے لگےتو اسے اپنی اہمیت کا احساس دلانے کے لئے خود کو اس سے مزید دور کرنا پڑتا ہے تاکہ وہ دوبارہ آپ سے دور ہونے کا نا سوچے ’’ اس نے مسکرا کر کہا تھا۔۔
’’ یہ بھی ٹھیک کہا تم نے ’’ اس نے کہا تھا۔۔ وہ اب اریج کو بہت غور سے دیکھ رہی تھی۔۔
’’ کیا ہوا تمہیں ؟ ’’ اریج نے مسلسل اسے خود کو دیکھتے ہوئے پوچھا تھا۔۔
’’ کچھ نہیں چلو کلاس سٹارٹ ہونے والی ہے ’’ اب وہ دونوں کلاس کی طرف جارہی تھیں ۔
حسب معمول آج بھی احتشام بھائی اسے لینے آئے تھے۔۔ وہ اریج کے ساتھ باہر نکلی تھی جب سامنے سے ہی احتشام نے ہاتھ ہلا کر اسے جلدی آنے کا اشارہ کیا تھا۔۔۔ وہ اریج سے مل کر انکی طرف آئی اور فوراً ہی ڈور کھول کر بیٹھ چکی تھی۔۔ احتشام بھی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ چکا تھا۔
’’ خیریت ہے؟ بہت جلدی ہے آج ’’ اس نے پوچھا تھا۔۔ وہ آج تیز گاڑی چلا رہا تھا۔۔
’’ ہاں ایک ارجنٹ پیشنٹ ڈیل کرنا ہے تمہیں چھوڑ کر ’’ اس نے سامنے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ آپ مجھے لینے مت آیا کریں میری گاڑی ہے تو گھر پر میں خود آجایا کرونگی ’’
’’ تم میری ذمہ داری ہو اور مجھے ہی تمہیں لینے آیا چاہئے ’’ اس نے مسکرا کر کہا تھا۔۔
’’ مگر آپ کو ہسپتال بھی جانا ہوتا ہے اور آپ اس طرح اپنے پیشنٹز کو چھوڑ کر آئیں گے تو مجھے اچھا نہیں لگے گا اور پھر اب تو کچھ دنوں میں آپ جانتے ہیں ہمارے بھی پریکٹیکلز سٹارٹ ہوجانے ہے پھر ہاؤس جاب ۔۔ تو میں بھی تو بہت لیٹ ہوجایا کرونگی نا۔۔۔ اس لئے بس کل سے آپ مجھے لینے نہیں آئینگے میں خود آجاونگی ’’ اس نے جیسے فیصلہ سنایا تھا۔۔
’’ اوک میڈم جیسا آپ کہیں۔۔۔ اب اترو میں نے جانا ہے ’’ وہ اسے گھر کے آگے اتار کر چلا گیا تھا ۔۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial