اے راز دل

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط 3 (پارٹ 1 )

وہ اس وقت ٹی وی پر مووی دیکھ رہی تھی۔۔۔ جب ماما اسکے پاس آکر بیٹھی تھیں۔۔
’’ بہت دن ہوگئے ہیں ۔۔۔ رابعہ نے دوبارہ نہ کوئی رابطہ کیا ہے اور نہ ہی وہ خود آئی ہے ’’ وہ پریشان تھیں۔۔
’’ پھوپھو تو احتشام کی روٹین کی وجہ سے ویسے بھی کم ہی آتی ہیں ’’ ریموٹ سے ٹی وی کا والیم کم کرتے ہوئے اس نے کہا تھا۔۔
’’ ہاں مگر اس نے دوبارہ اس بارے میں کوئی بات بھی تو نہیں کی ’’ انہیں یہ خاموشی شک میں ڈال رہی تھی۔۔
’’ آپ خود کال کر کے پوچھ لیں پھر ’’ اس نے مشورہ دیا تھا۔۔
’’ اب میں کال کر کے پوچھتی ہوئی اچھی تھوڑی لگونگی ’’ عجیب لگ رہا تھا ۔۔۔
’’ افو ماما کچھ نہیں ہوتا ویسے بھی پھوپھو ہی تو ہیں۔۔ آپ پوچھ لیں نہ ’’ اس نے اب باقاعدہ موبائیل اٹھا کر انکی طرف بڑھایا تھا ۔۔
’’ میں اس سے خود نہیں پوچھوں گی بس خیر خیریت پتہ کر لیتی ہو۔۔۔ں کچھ تو اندازہ ہو ہی جائے گا ’’ انہوں نے کہہ کر اب رابعہ پھوپھو کو کال ملائی تھی۔۔
’’ اسلام و علیکم عائشہ کیسی ہو ؟ ’’ رابعہ پھوپھو کی آواز موبائیل میں گونجی تھی۔۔
’’ ٹھیک ہوں میں۔۔ تم بتاؤ کہا گم ہو آج کل ؟ ’’ انہوں نے دوستانہ انداز میں کہا تھا۔۔
’’ بس تمہیں پتا تو ہے احتشام کی وجہ سے چکر ہی نہیں لگ پاتا تمہاری طرف ’’ انہوں نے ہمیشہ کی طرح ایک ہی بات کی تھی۔۔
’’ یہ تو ہے۔۔ ہسپتال اور پھر الہام کی ذمہ داری بھی تو نباہ رہا ہے وہ ’’ جانے الہام کا ذکر کیوں ہوا تھا ؟
’’ اور بھائی کیسے ہیں؟ ’’
’’ بلکل ٹھیک ہیں۔۔ وہ بھی اپنے آفس میں ہی مصروف رہتے ہیں۔۔۔ تم آجاو نہ آج اربش بھی بہت یاد کر رہی ہے تمہیں ’’ ان کی بات پر رابعہ سمجھ چکی تھیں کہ اصل بات کیا ہے۔۔
’’ ہاں میں ضرور آؤنگی بس ایک دو دن میں ’’
’’ چلو میں انتظار کرونگی۔۔ اپنا خیال رکھنا ’’ رسمی مسکراہٹ کے ساتھ کہا تھا۔۔
’’ تم بھی۔۔ اللہ حافظ ’’ کال بند ہو چکی تو اب اربش دوبارہ انکی طرف متوجہ ہوئی تھی۔۔
’’ کیا کہہ رہی ہیں ؟ ’’
’’ ایک دو دن میں آنے کا کہا ہے ’’ انہوں نے عام سے انداز میں کہا تھا۔۔
’’ پھر تو ضرور آگے بات بھی کرینگی ’’ وہ خوش ہوئی تھی۔۔
’’ اللہ کرے کر لے ’’ وہ کہہ کر اٹھی تھی اور اربش اب دوبارہ مووی کی طرف متوجہ ہوگئ تھی۔۔

اگلی صبح اسکی آنکھ بہت دیر سے کھلی تھی اور وہ حیران تھی کہ آج اسکی آنکھ کیوں نہیں کھلی۔۔ ویسے تو روز احتشام کی گاڑی کا ہارن اسکی نیند خراب کر دیتا تھا۔۔۔ مگر آج اسے ہارن کی آواز نہیں آئی تھی ۔۔۔ وہ باہر کچن کی طرف آئی جہاں ماما ملازمہ کو کھانے کا مینو بتا رہی تھیں۔۔
’’ ماما یہ آج احتشام نہیں آیا تھا کیا ؟ ’’ اس نے اپنے بالوں کی پونی بناتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ نہیں۔۔ الہام کہہ رہی تھی کہ اب سے وہ اپنی گاڑی میں جایا کرے گی ’’ ماما کے جواب پھر اسکے ہونٹوں پر ایک بھرپور مسکراہٹ آئی تھی۔۔ چلو دوری کی شروعات تو ہوئی ۔۔۔
’’ گریٹ ! چلیں اسی خوشی میں اچھا سا ناشتہ کروا دیں ’’ وہ اب ڈائیننگ ٹیبل کی ایک کرسی میں بیٹھ چکی تھی۔۔
’’ کبھی خود بھی کوئی کام کر لیا کرو اربش۔۔ سارا دن تم فارغ رہتی ہو ’’ ماما نے اسکے آگے ناشتہ رکھتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ آپکو پتہ تو ہے مجھ سے نہیں ہوتے یہ کام وام ویسے بھی یہ ملازم ہیں تو کام کی کیا ضرورت ؟ ’’ اس نے کاندھے اچکا کر کہا تھا اور ماما نے افسوس سے سر ہلایا تھا۔۔
’’ کل کو تہیں جب سسرال میں مسئلہ ہوگا تو خود ہی کہو گی کہ کاش کچھ سیکھ لیتی میں ’’ انہیں افسوس ہوا تھا۔۔
’’ آپ پریشان نہ ہوں۔۔ احتشام کے گھر نہ تو اتنے بندے ہیں اور نا ہی پھوپھو نے مجھ سے کام کروانا ہے ’’ اس نے بے فکری سے کہا تھا۔۔ جیسے اسے پورا یقین ہو کہ وہ اسی گھر جائیگی۔۔۔
’’ ہاں تمہارا اس گھر کے علاوہ کہیں گزارا ہونا بھی نہیں ہے ’’ ماما نے طنز کیا تھا۔۔
’’ میں نے اس گھر کے علاوہ کہیں جانا بھی نہیں ہے ’’ اس نے مسکرا کر کہا تھا اور اب وہ اپنے ناشتے کی طرف متوجہ ہوچکی تھی۔۔

اس نے یونیورسٹی کے آگے گاڑی روکی تھی اور اب وہ باہر نکلی جب کوئی اس کے پاس آیا تھا۔
’’ خیریت ہے آج اکیلی آئیں ہے آپ ؟ ’’ اس نے پلٹ کر دیکھا تھا۔۔ وہی شخص تھا۔۔ اسے لگا جیسے وہ اسی کے انتظار میں وہاں موجود تھا۔۔
’’ جی اب سے اکیلی ہی آؤنگی ’’ اس نے مسکرا کر کہا تھا۔۔ اب وہ دونوں ساتھ اندر جارہے تھے۔۔
’’ کیوں ؟ ’’ اس نے پوچھا تھا۔
’’ بھائی ہسپتال میں بزی ہوتے ہیں۔۔ تو میں نے انہیں آنے سے منع کردیا ’’ اس نے سر جھکا کر کہا تھا۔۔ اسکی نظر ان دونوں کے ساتھ چلتے قدموں پر تھی۔۔ لاشعوری میں ہی سہی میں وہ ان ساتھ چلتے قدموں کے ہمیشہ ساتھ چلنے کی آرزو کر بیٹھی تھی۔۔
’’ اکیلے آنا بھی تو سیف نہیں ہے ’’ وہ فکر مند تھا۔۔ اسے اچھا لگا تھا۔۔ اسکا فکر مند ہوگا ۔۔
’’ میں ایک اچھی ڈرائیور ہوں ’’ اس نے مسکرا کر کہا تھا۔۔
’’ پر باقی تو نہیں ہے نا ؟ ’’ اس نے فوراً مان لیا تھا۔۔
’’ پر میں تو ہوں نا ؟ کیا میرا اچھا ہونا زیادہ اہم نہیں ہے ؟ ’’ اس نے سوال کیا تھا۔۔ نظریں اب اس کے چہرے پر تھیں ۔۔ اور سامنے کھڑے اس شخص نے اسے دیکھا تھا ۔۔ مسکرائی نگاہوں سے۔۔
’’ آپ کا ہونا اس سے بھی زیادہ اہم ہے ’’ اس نے ذومعنی انداز میں کہا تھا۔۔ اور الہام گڑبڑا گئ تھی ۔۔ اس جواب پر۔۔
’’ آپ کا نام کیا ہے ؟ ’’ بات بدلی تھی ۔۔ اور اسےخیال بھی اب آیا تھا۔۔
’’ بہت جلدی خیال آیا پوچھنے کا ’’ اس نے مسکرا کر کہا تھا۔۔
’’ آپنے بھی تو نہیں پوچھا ’’ جواب بھی فوراً آیا تھا ۔۔
’’ میں تو پہلے سے جانتا ہوں تو پوچھتا کیوں ؟ ’’ سامنے کلاس کو دیکھتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ آپ کیسے جانتے ہیں ؟ ’’
’’ آپ شاید کلاس کی اٹینڈنس میں صرف اپنا نام سنتی ہیں مگر میں اپنے ساتھ آپکا بھی سنتا ہوں ’’ اس نے جواب پر الہام ہنسی تھی ْ۔۔ اپنی بےوقوفی پر۔۔
’’ مگر آپکا نام کیا ہے ؟؟ ’’ اس نے کلاس کی اندر جاتے ہوئے پوچھا تھا۔۔
’’ یہ میں ایسے تو نہیں بتا سکتا ’’ اس نے رک کر کہا تھا۔۔
’’ تو پھر کیسے بتائینگے ؟ ’’ وہ بھی رکی تھی۔
’’ جب آپ اس یونیورسٹی کے بعد بھی مجھے یاد کرینگی۔۔ تب بتاؤنگا ’’ اسکا اشارہ کس طرف تھا؟ وہ اچھی طرح جانتی تھی۔۔
’’ اوک ’’ وہ اب آگے کلاس کے اندر بڑھ چکا تھا اور وہ مسکرا کر اسکے پیچھے ہوگئ تھی۔۔
اریج کے پاس آکر بیٹھتے ہی اس نے اپنے نوٹس نکالے تھے مگر اریج کی نظریں وہ پورا وقت خود پر محسوس کر رہی تھی۔۔
’’ اب بتاو ۔۔ تم صبح سے مجھے گھور کیوں رہی ہو؟ آج زیادہ خوبصورت لگ رہی ہوں کیا ؟ ’’ فری ٹائم میں کینٹین میں بیٹھے اس نے پوچھا تھا۔۔
’’ وہ آج تم اکیلی آئی تھی ؟ ’’ اس نے ہچکچاتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ ہاں ’’ وہ اسکی ہچکچاہٹ کا مطلب سمجھنا چاہ رہی تھی۔۔
’’ تو جاؤ گی بھی اکیلی ؟ ’’ اس نے بے وقوفوں والا سوال کیا تھا۔۔
’’ ظاہر ہے آ اکیلی رہی ہوں تو جاؤنگی بھی اکیلی ہی نا ’’ اسے اریج کچھ عجیب لگی تھی۔۔
’’ کیوں ؟ ’’ اس نے ایک اور سوال کیا تھا۔۔
’’ کیونکہ بھائی ہسپتال چھوڑ کر مجھے لینے آتے تھے تو مجھے اچھا نہیں لگتا تھا۔۔ اس لئے میں نے کہا کہ میں خود آجاؤنگی ’’ اسے اب بھی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ پریشان کیوں ہورہی ہے؟
’’ اوہ اچھا ’’ اس نے کھوئے ہوئے انداز میں کہا تھا۔۔
’’ اب بتاو بھی کیا ہوا ہے ؟ ’’ الہام نے چڑ کر پوچھا تھا ۔۔
’’ کچھ نہیں۔۔ میں نے سوچا کہیں دوبارہ ناراضگی تو نہیں ہوگئ ’’ اس نے فوراً سے کہا تھا اور صاف ظاہر تھا کہ یہ ایک بہانہ تھا ۔۔
’’ بلکل نہیں ۔۔۔ میرے اور احتشام بھائی کے بیچ ناراضگی ہو ہی نہیں سکتی ’’ اس نے پر یقین انداز میں کہا تھا۔۔
’’ ہونی بھی نہیں چاہئے ’’ وہ بھی مسکرائی تھی۔۔
’’ ویسے تمہارے کتنے بھائی ہیں ؟ ’’ الہام نے سینڈوچ اٹھاتے ہوئے پوچھا تھا۔
’’ ایک ہی ہیں۔۔ وہ بھی آوٹ آف کنٹری ہیں ’’ اس نے بھی اب سینڈوچ پر حملہ کیا تھا۔۔
’’ فکر مت کروں میں ایک ہی کھاونگی ’’ اس نے سینڈوچ اٹھانے کے انداز پر چوٹ کی تھی۔۔
’’ تمہارا کیا بھروسہ کل بھی میرا سینڈوچ کھا گئ تھی تم ’’ اس نے اب جلدی کھانا شروع کیا تھا۔۔
’’ وہ خوشی میں مجھے بھوک زیادہ لگتی ہے نہ ’’ وہ ہنسی تھی۔۔
’’ اور باقی بھوکے رہ جاتے ہیں ’’ اس نے بھی ٹکاسہ جواب دیا تھا اور الہام اب ہنسے اور کھانے میں بزی ہوگئ تھی۔۔
وہ یونیورسٹی سے گھر پہنچی ہی تھی کہ اسکا موبائیل بجا تھا۔۔ اس نے دیکھا ۔۔ احتشام کی کال تھی۔۔
’’ مجھے پتہ تھا سکون تو مل نہیں سکتا آپکو میرے بنا ’’ کال ریسیو کرتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ جب پتہ ہے تو بندہ ایک مسیج ہی کر لیتا ہے نا ’’ اس نے بھی انکار نہیں کیا تھا۔۔ وہ واقعی بے سکون تھا۔۔ یہ پہلا دن تھا کہ وہ اکیلی گئ تھی ۔۔ یہ پہلا دن تھا کہ وہ صبح اس سے ملا نہیں تھا ۔۔
’’ اگر آپ ڈاکٹر بن کر بزی ہیں۔۔ تو میں بھی ڈاکٹر بننے کے لئے بزی ہوں ’’ انداز فخریہ تھا۔۔
’’ ڈاکٹر بنتے وقت یہ حال ہے تو ناجانے ڈاکٹر بننے کے بعد کیا کروگی ’’ وہ جیسے فیوچر سوچ کر افسوس کر رہا تھا۔۔
’’ گھاس بھی نہیں ڈالونگی پھر ’’ شرارتی انداز تھا ۔۔
’’ کوئی بات نہیں ۔۔ چارہ ڈال دینا میں اسی سے گزارا کر لونگا ’’ اس نے حل نکال لیا تھا ۔۔
’’ اچھا یہ بتائیں ملنے کب آرہے ہیں ؟ ’’ اس نے اپنے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ آج تو بہت دیر ہوجائے گی۔۔ کل آونگا ماما کے ساتھ ’’
’’ چلیں میں انتظار کرونگی ’’
’’ اوک مجھے مسیج کردیا کرو خیریت کا ’’ اس نے اسے پھر سے کہا تھا۔۔
‘’ اچھا کر دونگی۔۔ بائے ’’ کال کٹ کی تھی ۔۔ اب وہ سونے کے موڈ میں تھی ۔۔ آج کا دن تھکا گیا تھا اسے۔۔
اگلی صبح اس نے یونیورسٹی پہنچتے ساتھ ہی احتشام کو مسیج کردیا تھا۔۔ جس کے جواب میں اس نے ایک اموجی بھیجا تھا۔۔ وہ مسکرا کر کلاس میں آئی تھی مگر آج اسکے ساتھ والی چئیر خالی تھی۔۔ آج کسی نے راستہ نہیں روکا تھا ۔۔ تو وہ آج نہیں آیا تھا۔۔ پتہ نہیں کیوں پر وہ تھوڑی پریشان ہوگئ تھی ؟ وہ کبھی بھی آف نہیں کرتا تھا مگر آج اس نے کیا تھا۔۔ یقیناً کوئی وجہ ہوگی ناجانے کیا وجہ تھی ؟ کیوں نہیں آیا تھا ؟ کہیں طبیعت نہ خراب ہو اسکی ؟ پورا ٹائم اس کے ذہن میں بس یہی بات چل رہی تھی۔۔ وہ پوری توجہ کے ساتھ لیکچر بھی نوٹ نہیں کر سکی تھی۔۔
’’ تم ٹھیک تو ہو ؟’’ اریج جو کافی دیر سے اسے نوٹ کر رہی تھی اس نے پوچھا تھا۔۔
’’ ہاں ٹھیک ہوں ’’ عام سے انداز میں جواب دیا تھا۔۔
’’ کافی دیر سے نوٹ کر رہی ہوں کچھ پریشان لگ رہی ہو تم ؟ ’’
’’ نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں ہے۔۔ ٹھیک ہوں میں ’’ اس نے سر جھٹک کر کہا تھا۔۔ اب وہ اسے کیا بتاتی کہ وہ کس کے لئے پریشان ہے ؟
’’ چلو تم کہتی ہو تو مان لیتے ہیں ’’ اس نے اب زیادہ پوچھنا ضروری نہیں سمجھا تھا۔۔ شاید کوئی پرسنل بات ہو ۔۔
یونیورسٹی کا دن تو جیسے تیسے اس نے گزار ہی لیا تھا۔۔ اب وہ گھر آکر جلد ازجلد اس نے بات کرنا چاہتی تھی مگر کھانے کے فوراً بعد ہی وہ سوگئ تھی اور اٹھی تب جب کسی سے اسکی ناک بند کی تھی۔۔ سانس کی رکاوٹ کی وجہ سے اسنے فوراً آ نکھ کھولی تھی۔۔
’’کیا بد تمیزی ہے ’’ اس نے اٹھتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’گھر میں مہمان آئے ہیں اور آپ سو رہی ہیں۔۔ اس سے بڑی بھی کوئی بدتمیزی ہوگی کیا ؟ ’’ احتشام کی آواز تھی۔۔ اس نے سامنے دیکھا وہ سامنے ہی کھڑا تھا۔۔ مسکراہٹ لئے ۔۔
’’ آپ کب آئے ؟ ’’ وہ فوراً بولی تھی۔۔
’’ جب تم گدھے گھوڑے بیچ کر سورہی تھی ’’ اس نے کھڑکی کے آگے سے پردے ہٹائے تھے۔۔ کمرے میں روشنی پھیلی تھی۔۔
’’ اور آپ آگئے نیند خراب کرنے ہمیشہ کی طرح ’’ وہ اٹھ کر اب ڈریسنگ کے سامنے گئ تھی۔۔
’’ تمہیں جگانے کا مزا ہی الگ ہے۔۔ اب جلدی سے نیچے آو ماما ویٹ کر رہی ہیں ’’ وہ اب کمرے کے دروازے کی طرف بڑھا تھا ۔۔
’’ آنٹی بھی آئی ہیں ؟ ’’ اس نے پلٹ کر پوچھا تھا۔۔
’’ ہاں اب چلو ’’ اس نے اسکا ہاتھ پکڑا تھا اور اب وہ اسے نیچے لے کر جارہا تھا۔۔ جہاں ماما ، پاپا ، اوبش اور رابعہ پھوپھو موجود تھیں۔۔
’’ کیسی ہیں آنٹی آپ؟ ’’ اس نے رابعہ پھوپھو کے پاس کر کہا تھا۔۔ اربش کا موڈ اس دونوں کو ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے دیکھ کر خراب ہوگیا تھا۔۔
’’ بلکل ٹھیک،۔۔ میری بیٹی کیسی ہے ؟ ’’ انہوں نے اسکا ماتھا چوم کر کہا تھا۔۔
’’ کیسی لگتی ہوں آپکو میں ؟ ’’ اس نے شرارت سے پوچھا تھا۔۔
’’ بہت پیاری ’’
’’ بس ویسی ہی ہوں ’’ اس کی بات پر سب کے چہروں پر مسکراہٹ آئی تھی۔۔ احتشام اس کے بلکل سامنے بیٹھ چکا تھا۔۔
’’ کوئی پیاری ویاری نہیں ہے یہ۔۔ اس سے زیادہ پیاری لڑکیاں دیکھی ہیں میں ہے ’’ وہ اسے چھیڑ رہا تھا۔۔
’’ جی لڑکیاں دیکھنے ہی تو جاتے ہیں یہ ہسپتال ’’ اس نے طنز کیا تھا ۔۔ جبکہ احتشام ہنسا تھا۔۔
’’ ارے کیوں نہیں ہے؟ میری بیٹی تو پوری دنیا میں سب سے پیاری ہے ’’ پھوپھو نے اسے اپنے ساتھ لگا کر کہا تھا۔۔
’’ احتشام چائے لو نا ’’ ماما نے چائے اسکی طرف بڑھائی تھی۔۔ جسے اس نے تھام لیا تھا ۔۔
’’ جی نہیں۔۔ اس سے پیاری بھی لڑکیاں موجود ہیں اس دنیا میں’’ احتشام نے تو ماننا ہی نہیں تھا۔۔
’’ بس۔۔ ایک تو دنیا مجھ سے جلتی بہت ہے ’’ الہام نے ایک ناز سے کہا تھا۔۔
’’ ہاہا۔۔ اچھا جوگ تھا ’’ اس نے اسکا مزاق اڑایا تھا۔۔
’’ پھوپھو دیکھ رہی ہیں آپ ؟ ’’ اب پھوپھو کی مدد ضروری تھی۔۔
’’ احتشام مت تنگ کرو اسے ’’ پھوپھو نے اب اسے ڈانٹا تھا۔۔
’’ میری کیا مجال کہ میں انہیں کچھ کہہ سکوں ’’ اس نے ہاتھ اوپر کر کے کہا تھا اور ان دونوں کی نوک جھوک پر سب مسکرائے تھے جبکہ اربش وہاں سے اٹھ کر چلی گئ تھی۔۔۔ اس سے یہ سب برداشت نہیں ہورہا تھا ۔۔ احتشام نے کبھی اس سے تو اس طرح بات نہیں کی تھی ْ۔۔
’’ چلو اٹھو ’’ چائے پینے کے فوراً بعد اس نے کھڑے ہوکر الہام سے کہا تھا۔۔
’’ کہا ؟ ’’
’’ اب یہاں بڑوں میں بیٹھ کر کیا کرنا ہے تم نے ؟ ویسے بھی تمہارے پریکٹیکل شروح ہونے والے ہیں ۔۔آؤ تمہیں ہسپتال کا ایک راؤنڈ لگوا لیتا ہوں ’’ اس کی بات پر سب مسکرائے تھے اور وہ چڑ گئ تھی۔۔
’’ دیکھا آپنے پھوپھو۔۔ باہر لے کر جابھی رہے ہیں۔۔ تو کہاں ؟ ہسپتال ! واہ ! ڈاکٹرز گومنے بھی اب ہسپتال جاتے ہیں کیا ؟ ’’ اس نے فوراً پھوپھو سے شکایت کی تھی۔۔
’’ ہاں تو بندے کو وہی جانا چایئے جہاں سے تھوڑی نالج ملے۔۔ چلو اٹھو ’’ اس نےبات تو بہت اچھی کی تھی۔۔
’’ افوہ احتشام بھائی حد ہوگئ ہے۔۔ باہر بندہ مائنڈ فریش کرنے جاتا ہے۔۔ اللہ جانے آپکی بیوی کا کیا حال ہوگا ؟ اسے بھی ہسپتال لے کر جائیں گے کیا ؟ ’’ وہ اب کھڑی ہوکر بولی تھی۔۔
’’ تم فکر نہ کرو وہ آئے گی بھی ہسپتال سے اور جائے گی بھی ہسپتال ’’ اس کی بات پر سب حیران ہوئے تھے۔۔
’’ کیا مطلب ؟ ہسپتال سے کیوں آئے گی؟ ’’ عائشہ بیگم نے پوچھا تھا۔۔
’’ کیونکہ وہ بھی میری طرح ڈاکٹر ہی ہوگی آنٹی ’’ اس نے ماما کی طرف دیکھ کر کہا تھا۔۔ وہ انکا کام آسان کر رہا تھا۔۔
’ ڈاکٹر ؟ ’’ عائشہ پریشان ہوگئ تھی۔۔
’’ لگتا ہے صاحبزادے کسی کو پسند کر کے بیٹھے ہیں ’’ اس بار ایجاز انکل نے کہا تھا ۔۔
’’ یہی سمجھ لیں۔۔ آپ دیکھئے گا ہم ایک ڈاکٹر فیملی بنائیں گے ۔۔ کیوں الہام ’’ اس نے مسکرا کر کہا تھا۔۔
’’ ضرور اور اب آپ مجھے اس ہسپتال لے کر چلیں جہاں سے وہ آئینگی ’’ اس نے بھی خوشی سے کہا تھا۔۔ وہ جانتی تھی ایسا کوئی ہسپتال نہیں ہے مگر یہ سب کچھ اس بات کو ختم کرنے کے لئے ضروری تھا ۔۔
’’ اچھا چلو۔۔ انکل، آنٹی ہم کھانا باہر ہی کھا کر آئینگے ’’ وہ انہیں بتا کر آگے نکل گئے تھے اور رابعہ نے گہری سانس خارج کی تھی۔۔ احتشام اس کے لئے آسانی کر گیا تھا۔۔۔ اب انہیں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں رہی تھی۔۔
’’ تمہیں اس نے بتایا کہ کسے پسند کیا ہے اس نے ؟ ’’ عائشہ نے انکے جانے کے بعد پوچھا تھا۔۔
’’ ہاں کہہ رہا ہے کہ بہت جلد ملوا لے گا۔۔۔ بس اتنا معلوم ہے کہ ڈاکٹر ہی ہے وہ بھی ’’ انہوں نے نظریں چرا کر کہا تھا۔۔ عائشہ کا موڈ آف ہوچکا تھا۔۔
’’ میں کھانے کا انتظام دیکھ کر آتی ہوں ’’ وہ کہہ کر جاچکی تھیں اور رابعہ اب تھوڑی پرسکون ہوئی تھی۔۔
اربش اپنے کمرے میں بیٹھی تھی۔۔ اسے احتشام اور الہام کی بے تکلفی برداشت نہیں ہوری تھی۔۔ دونوں جس طرح ہاتھ پکڑ کر نیچے آئے تھے۔۔ وہ لمحہ بار بار اسکی آنکھوں کے سامنے آرہا تھا۔۔ ابھی وہ انہیں سوچوں میں گم تھی کہ اسے باہر ایک گاڑی کی آواز آئی تھی۔۔ کھڑکی کے پاس جاکر دیکھا تو احتشام کی گاڑی اسے گھر سے نکلتی ہوئی نظر آئی تھی۔
’’ یہ کہاں جارہے ہیں ؟ ’’ وہ اب سوال کے جواب کے لئے ماما کے پاس پہنچی تھی جو کہ کچن میں تھیں۔۔
’’ ماما یہ احتشام کہا گیا ہے ؟’’
’’ احتشام اور الہام ہسپتال گئے ہیں ’’ ماما جو ملازمہ کو کھانے کا مینو بتا رہی تھیں۔۔ پلٹ کر کہا تھا۔۔
’’ ہسپتال ؟ خیریت تو ہے ؟ ’’ وہ تھوڑی پریشان ہوئی تھی۔۔
’’ ہاں سب ٹھیک ہے ۔۔ الہام کو ہسپتال کا چکر لگوانے گیا ہے۔۔ کھانا بھی کھا کر آئینگے ’’ ماما کا انداز عام تھا۔۔
’’ اور یہ جو ہم کھانا بنا رہے ہیں اسکا کیا ؟ ’’ اسے اب غصہ آیا تھا۔۔ وہ دونوں ہسپتال کے بہانے اب کھانا کھا کر گھوم کر آئینگے۔۔
’’ ہم ہیں ۔۔ تمہاری پھوپھو ہے۔۔ کھا لینگے ہم ’’ ماما کی بات پر وہ تھوڑا ماما کے قریب آئی تھی۔۔
’’ پھوپھو نے کوئی بات کی کیا ؟ ’’ اس نے پوچھا تھا۔۔
’’ نہیں مگر احتشام نے کی ہے ’’ ماما نے مرجھائے چہرے کے ساتھ جواب دیا تھا اور وہ حیران ہوگئ تھی۔۔
’’ سچ؟ احتشام نے خود بات کی ہے ؟ ’’ حیرانگی تھی۔۔
’’ ہاں مگر وہ نہیں جو تم سمجھ رہی ہو ’’ ماما نے اسکی غلط فہمی دور کی تھی۔۔
’’ کیا مطلب؟ کیا بات کی اس نے ؟ ’’
’’ یہی کہ وہ کسی ڈاکٹر کو پسند کرتا ہے اور اسے بہت جلد رابعہ سے ملوائے گا ’’ ماما نے ایک دھماکہ کیا تھا۔۔
’’ ڈاکٹر ؟ ’’ اسکی آنکھوں کے سامنے پھر سے دو ہاتھ آئے تھے۔۔ الہام بھی تو ڈاکٹر ہی بننے والی تھی ۔۔۔ تو کیا وہ الہام ؟
’’ ہاں کہہ رہا تھا کہ ہم ایک ڈاکٹر فیملی بنائیں گے ’’ ماما اسے کہہ کر اب دوبارہ ملازمہ کی طرف پلٹ گئ تھیں اور وہ ایک شاک کے عالم میں وہاں کھڑی رہ گئ تھی۔۔ تو اسکا شک درست نکلا تھا۔۔ ان دونوں کے درمیان ایسا ہی تعلق تھا جیسا وہ سمجھتی تھی۔۔ اور اگر نہیں بھی تھا تو اس رشتے کے انکار کی وجہ الہام تھی ۔۔ اسکی مرضی کے خلاف کیسے کرسکتا تھا وہ کچھ۔۔؟؟ آخر وہ الہام تھی ۔۔ احتشام کے سب سے قریب رہنےوالی ہنستی۔۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial