قسط 4 (پارٹ 2)
وہ اس وقت یونیورسٹی سے لوٹی تھی جب ماما اسکا کھانا لگا رہی تھیں۔۔۔
’’ جلدی آجاؤ کھانا ساتھ کھائیں گے۔۔ آج تمہارا انتظار کر رہی تھی میں ’’ ماما نے اسے دیکھ کر کہا تھا۔۔
’’ اوک میں بس ابھی آئی ’’ وہ فوراً اوپر اپنے روم میں آئی تھی اور جلدی سے فریش ہو کر نیچے آئی جہاں ماما میز کے قریب رکھی کرسی پر بیٹھیں اسکا انتظار کر رہی تھیں۔۔
’’ آپ جانتی ہیں مجھے دیر ہوجاتی ہے۔۔ آپ کھا لیا کریں کھانا ’’ اس نے ماما کی پلیٹ میں کھانا ڈالتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ بس آج دل چاہ رہا تھا کہ اپنی بیٹی کے ساتھ کھانا کھاؤ ’’ انہوں نے اب اسکی پلیٹ میں کھانا ڈالتے ہوئے کہا تھا ۔۔
’’ کیا بات ہے بڑا پیار آرہا ہے آج ’’ اس نے شرارت سے کہا تھا۔۔
’’ ہاں آج احساس ہورہا ہے کہ میری بیٹی بہت بڑی ہوگئ ہے۔۔ اسلئے پیار بھی بہت آرہا ہے ’’ انہوں نے اسے پیار سے دیکھتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ اور آج یہ احساس کیسے ہوا ؟ ’’ اس نے پوچھا تھا۔۔
’’ آج ذاکر کی کال آئی تھی ’’ انہوں نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے بات شروع کی تھی۔۔ ماما کی بات پر وہ تھوڑی دیر کے لئے چپ ہوگئ تھی۔۔ اسے سمجھ آگئ تھی کہ اب وہ کیا کہنے والی ہیں۔۔
’’ اچھا کیسے ہیں بھائی ؟ ’’ اس نے پوچھا تھا۔۔ ماما کی طرف دیکھنے کی ہمت نہیں ہورہی تھی۔۔
’’ بہت خوش تھا کہہ رہا تھا کہ آج ہی منگنی کر دیں اریج کی ’’ انہوں نے مسکرا کر کہا تھا۔۔ انداز اسے چھیڑنے والا تھا۔۔
’’ تو آپنے کیا سوچا ؟ ’’ اس نے مسکرا کر کہا تھا۔۔ اسکی ماما کی یہی تو خاصیت تھی کہ وہ ماں کم اور دوست بن کر زیادہ بات کرتی تھیں۔۔
’’ میں سوچ رہی ہوں کہ شام کو چائے تم بناؤگی یا میں ؟ ’’ ماما نے پلیٹ کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ آپ سچ کہہ رہی ہیں ؟ ’’ اس نے خوشگوار حیرت کے ساتھ پوچھا تھا۔۔
’’ بلکل سچ ’’ ماما نے مسکرا کر کہا تھا۔۔ وہ اٹھی تھی اور بازوں کے گھیرے میں انہیں لے لیا تھا۔۔
’’ او ماما۔۔ آپ بہت اچھی ہیں میں۔۔ ابھی الہام کو بتاتی ہوں ’’ اس نے اب موبائیل اٹھایا تھا۔۔
’’ انہیں کہنا کہ لڑکے کو ساتھ لے کر آئیں ’’ ماما کی بات پر موبوئیل پر چلتی اریج کی انگلیاں رک گئ تھیں۔۔
’’ کیوں ؟ ’’ وہ اب کنفیوز ہوئی تھی۔۔ اسکا سامنا کیسے کرے گی ؟
’’ تمہارے پاپا اور بھائی دونوں اس سے بات کرنا چاہتے ہیں ’’
’’ لیکن ماما۔۔ وہ تو اگلی بار بھی ہوسکتی ہے ۔۔ ابھی تو اچھا نہیں لگے گا اس طرح ’’ اسے واقعی اچھا نہیں لگ رہا تھا۔۔ وہ ابھی احتشام کا سامنا کرنے کے لئے تیار نہیں تھی۔۔
’’ تمہاری بات ٹھیک ہے۔۔ پر تمہارے پاپا بزنس ٹرپ پر ۱۵ دن کے لئے جارہے ہیں اس لئے وہ آج ہی مل سکتے ہیں ’’ ماما نے اسے وجہ بتا کر لاجواب کر دیا تھا۔۔۔
’’ اچھا ’’ اس نے اب موبائیل دوبارہ اٹھایا تھا اور ایک مسیج لکھ کر الہام کے نمبر پر بھیج دیا تھا۔۔۔ مگر اب وہ بہت پریشان نظر آرہی تھی کیسے کریگی احتشام کا سامنا ؟
’’ پریشان مت ہو ہمارے ہوتے ہوئے وہ تمہیں چھیڑ نہیں سکتا ’’ ماما نے اسکی پریشانی کو محسوس کرتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ آپ بھی نا۔۔ چلیں کھانا کھائیں ’’ اب وہ اپنی حالت چھپانے کے لئے کھانے کی طرف متوجہ ہوگئ تھی اور ماما اسے دیکھ کر مسکرا رہی تھیں۔۔۔
اریج کا مسیج ملتے ہی اس نے سب سے پہلے احتشام کو کال کر کے بتایا تھا اور اب وہ شام میں جانے کے لئے ملازمہ کو کپڑے استری کرنے کے لئے دے رہی تھی۔۔۔ جب اربش نے اس کے پاس آکر پوچھا تھا۔۔
’’ کہیں جانے کی تیاری ہورہی ہے؟ ’’ اسکے نئے کپڑے دیکھ کر کہا تھا۔۔
’’ ہاں ’’ مختصر جواب تھا۔۔
’’ کہا ؟ ’’ جاننا بھی ضروری تھا۔۔
’’ احتشام بھائی کے سسرال ’’ معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا تھا۔۔۔ اربش کے چہرے پر حیرت کے تعصورات آئے تھے۔۔
’’ سسرال ؟ یہ کب ہوا ؟ ’’ وہ واقعی حیران تھی۔۔ اتنی جلدی ؟؟
’’ یہ تو کب کا ہوچکا ہے۔۔ تمہیں نہیں پتہ انہوں نے لڑکی پسند کر لی ہے ’’
’’ ہاں مگر تمہیں بھی پسند آگئ وہ ؟ ’’ اس نے طنزیہ انداز میں کہا تھا۔۔
’’ کیوں نہیں پسند آئے گی ؟ میری بیسٹ فرینٹ ہے وہ ’’ الہام نے ایک فخر کے ساتھ کہا تھا اور اربش کے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی۔۔ تو یہ کام بھی اسی کا تھا ۔۔۔۔
’’ ویل ڈن۔۔ تو یہ چاہتی تھیں آپ ’’ اس کی بات کا مطلب الہام کی سمجھ میں آیا تو تھا۔۔ مگر اب وہ اس سے مزید بات کر کے اپنا موڈ خراب نہیں کرنا چاہتی تھی،۔۔۔
’’ جی بلکل’’ مختصر جواب دے کر وہ اب وہاں سے نکل کر سیدھا ماما کے کمرے میں آئی تھی۔۔ جہاں ماما بیڈ پر آرام کر رہی تھیں۔۔
’’ ماما آپکو ایک بات بتانی تھی ’’ اس نے بات کا آغاز کیا تھا۔۔
’’ ہاں بولو ’’ وہ اسکی طرف متوجہ ہوئی تھیں۔۔
’’ آج ہم احتشام بھائی کے سسرال جارہے ہیں ’’ اس کے کہنے کی دیر تھی اور عائشہ بیگم فوراً سیدھی ہوئی تھیں۔۔
’’ سسرال ؟ کیوں ؟ ’’
’’ رشتہ پکا کرنے اور شاید شادی کی ڈیٹ بھی لے لیں۔۔۔ پھوپھو کو بہت جلدی ہے ’’ اس نے تصیل بتائی تھی اور عائشہ بیگم کے چہرے پر تاریک سائے آئے تھے۔۔ جنہیں وہ دیکھ نہیں سکی تھی۔۔۔
’’ اچھا ٹھیک ہے۔۔ چلی جاؤ ’’ انہوں نے ہلکی آواز میں اجازت دی تھی۔۔
’’ تھینک یو ’’ وہ کہہ کر کمرے سے جاچکی تھی اور ماما اب غصے میں ابل رہی تھیں۔۔ احتشام کی شادی انکی بیٹی کے بجائے کسی اور کے ساتھ ہو رہی تھی۔۔۔ یہ بات بھلا کیسے انہیں خوش کر سکتی تھی ؟ دروازہ کھول کر اربش اندر آئی تھی۔
’’ آپ نے سنا کیا ہورہا ہے ؟ ’’ وہ غصے میں بولی تھی۔۔
’’ ہاں سن چکی ہوں ’’ عائشہ بیگم نے جیسے تھک کر ٹیک لگایا تھا۔۔
’’ اور آپ نے کچھ نہیں کہا ؟ ’’
’’ کیا کہہ سکتی ہوں میں ؟ ’’ انہوں نے اسے غصے سے لال ہوتے دیکھ کر کہا تھا۔۔
’’ آپ کی اسی خاموشی کی وجہ سے آج اسکی شادی کہیں اور ہورہی ہے ’’ اس نے سارا الزام ان پر ڈالا تھا۔۔
’’ تم اگر الہام سے بنا کر رکھتی۔۔ تو آج تمہاری شادی ہورہی ہوتی ’’ ماما نے اسے اسکی غلطی دکھائی تھی۔۔ کتنا سمجھایا تھا اسے انہوں نے ۔۔۔
’’ میں اسے اس قابل ہی نہیں سمجھتی ’’ اس کے لہجے میں نفرت کی آنچ وہ محسوس کر چکی تھیں مگر اسے کچھ سمجھانا بیکار تھا۔۔
’’ تو پھر اب جاکر شادی میں شرکت کی تیاری کرو ’’ انہوں نے کہہ کر آنکھیں بند کر لی تھیں۔۔
’’ تیاری تو میں کر چکی ہوں۔۔ آپ بس انتظار کریں۔۔۔ یہ شادی الہام کی بربادی بنا دونگی میں۔۔ ’’ وہ کہہ کر کمرے سے جاچکی تھی۔۔ اور عائشہ بیگم نے افسوس سے سر ہلایا تھا۔۔
وہ جانتئ تھیں اب کچھ نہیں ہوسکتا تھا ۔۔۔ مگر وہ یہ نہیں جانتی تھیں ۔۔ کہ اب وہ ہونے والا تھا ۔۔ جو کسی کے گمان میں بھی نہیں تھا ۔۔۔
وہ لوگ اس وقت اریج کے گھر کے لاونچ میں بیٹھے تھے۔۔ اریج کے پاپا احتشام سے باتیں کرنے میں مصروف تھے۔۔ ساتھ ہی لیپ ٹاپ رکھا تھا۔۔ جہاں ذاکر بھائی بھی آن لائن اس سے باتیں کر رہے تھے۔۔۔ وہیں دوسری طرف رابعہ اور اریج کی ماما آپس میں باتیں کر رہی تھیں اور اسی ٹائم چائے اور باقی سامان کے ساتھ اریج لاونچ میں داخل ہوئی تھی۔۔ بیک وقت سب کی نظریں اس کی طرف اٹھی تھیں۔۔ الہام بھی اس کے ساتھ چائے کا سامان رکھ رہی تھی اور رابعہ پھوپھو نے اریج کو اپنے پاس بٹھا دیا ۔۔ الہام اب احتشام کے صوفے کے بازوں میں جاکر بیٹھ گئ تھی۔۔۔
’’ دیکھ لیں۔۔ شرمائیں مت ’’ اس نے احتشام کے کان میں سرگوشی کی تھی۔۔
’’ پوری عمر پڑی ہے۔۔ آرام سے دیکھتا رہونگا ’’ اس نے کونسا شرم کرنی تھی۔۔
’’ اوہو۔۔ کیا بات ہے ’’ اس نےاحتشام کو کہنی ماری تھی۔۔
’’ ماشااللہ ۔۔ بہت پیاری بیٹی ہے آپکی ’’ رابعہ پھوپھو نے کہا تھا اور احتشام نے ایک نظر سامنے بیٹھی اس لڑکی کو دیکھا تھا۔ جو سر جھکائی بیٹھی تھی۔۔ خیر پیاری تو وہ لگ ہی رہی تھی ۔۔
’’ کہا تھا نا ۔۔ تم سے پیاری لڑکیاں بھی ہیں بہت ’’ اس نے الہام کو چھیڑا تھا۔۔
’’ پھوپھو نے پیاری کہا ہے ۔۔ مجھ سے زیادہ پیاری نہیں ’’ جواب بھی تو ایسا ہی آنا تھا۔۔
’’ آپکو کیسا لگا احتشام ؟ ’’ رابعہ پھوپھو کے سوال پر دونوں اس طرف متوجہ ہوئے تھے۔۔
’’ بہت اچھا ہے ۔۔ آپکا بیٹا بھی ’’ اریج کے پاپا نے کہا تھا۔۔
’’ دیکھا۔۔ تمہارا بھائی سب کو امپریس کر لیتا ہے ’’ ایک اور سرگوشی ہوئی تھی۔۔
’’ بھائی جو میرے ہیں۔۔ امپریس تو کرنا ہی تھا ’’ یہ کریڈٹ بھی الہام میڈم لے چکی تھیں۔۔
’’ خوش فہمی ہے ’’
’’ آپکی ’’ وہ مسکرائی تھی۔۔
’’ لیکن یہ تو بہت جلدی ہے ’’ اریج کی ماما کی آواز نے ان دونوں کو دوبارہ انکی طرف متوجہ کیا تھا۔۔
’’ مجھے تو یہ بھی دیر لگ رہی ہے۔۔ میں اب اور دیر نہیں کرسکتی ’’ رابعہ پھوپھو نے کہا تھا۔۔
’’ لیکن اتنی جلدی تیاریاں کیسے ہونگی ؟ ’’ اریج کے پاپا نے کہا تھا۔۔
’’ بھائی صاحب۔۔ آپ پریشان مت ہوں۔۔ اللہ کا دیا سب کچھ ہے ۔۔ ہمیں جہیز نہیں چاہئے اور شادی تو ویسے بھی ہال میں ہوگی اور رہی بات شاپنگ کی تو وہ دو ہفتوں میں آرام سے ہوجانی ہے ’’ انہوں نے تو جیسے سارا مسئلہ ہی حل کر دیا تھا۔۔۔
’’ اچھا آپ ہمیں کچھ سوچنے کا ٹائم دیں ’’ اریج کی ماما نے کہا تھا۔۔
’’ آنٹی پلیز۔۔ مان جائیں۔۔ میں ہونا ۔۔ میں کرونگی ان دونوں سے ساتھ شاپنگ اور آپ دیکھئے گا دو نہیں ایک ہفتے میں ہوجائے گی۔۔ دیکھیں پھوپھو سارا دن اکیلی ہوتی ہیں اور پھر اتنی مشکلوں سے تو انہیں کوئی لڑکی پسند آئی ہے۔۔ پلیز اب اور انتظار نہیں کر سکتے ہم ’’ الہام نے رابعہ کی ماما کے سامنے زمین پر بیٹھ کر ریکویسٹ کی تھی۔۔ انہوں نے سامنے بیٹھے اریج کے پاپا اور اسکے بھائی کو دیکھا تھا۔۔ جنہوں نے رضامندی کا اشارہ دیا تھا۔۔۔
’’ ٹھیک ہے۔۔ جیسا آپ کہیں ’’
’’ یاہوو’’ الہام نے خوشی سے نعرہ لگایا تھا اور سب مسکرا دیئے تھے۔۔
اور مسکراہٹوں کی عمر بہت چھوٹی ہوا کرتی ہے ۔۔
وہ دونوں اس وقت یونیورسٹی کی کینٹین میں بیٹھے تھے اور اسکی نظر بار بار سامنے رکھی کرسی اور میز پر بھٹک رہی تھی۔۔
’’ نہیں آئی وہ آج۔۔۔ اب کیوں بار بار وہاں دیکھ رہے ہو ؟ ’’ معاز کافی دیر سے اسے نوٹ کر رہا تھا۔۔ آخر بول ہی پڑا۔۔
’’ کون ؟ ’’ وہ فوراً ہی انجان بن گیا تھا۔۔ ہائے رے معصومیت ۔۔۔
’’ وہی۔۔ جس کی غیر موجودگی تمہیں اتنی بے چین کر رہی ہے ’’ وہ اسے بچپن سے جانتا تھا۔۔ وہ خود کو جتنا بھی پوز کر لے۔۔ مگر معاذ اسکے اندر کا حال جان لیتا تھا۔۔۔
’’ بکواس مت کرو۔۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے ’’ وہ ماننے کو تیار نہیں تھا۔۔
’’ چلو اگر نہیں بھی ہے تو بھی ایک مشورہ دونگا۔۔ مانوگے ؟ ’’ اس نے اب دوسرا طریقہ اپنایا تھا۔۔
’’ بولو ‘’
’’ کال کر کے پوچھ لو ۔۔ کہیں ایسا نا ہو کہ اسے کال کا انتظار ہو یا اسے تمہاری ضرورت ہو اور تمہیں دیر ہوجائے۔۔ اور ویسے بھی تمہیں دیر کرنا پسند نہیں ہے نا ؟ ’’ اس کا مشورہ ٹھیک تھا ۔۔۔ عرش جانتا تھا کہ وہ سمجھ چکا تھا اور اب وہ انکار نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔ اسکی بات صحیح بھی ہوسکتی تھی ۔۔۔
’’ اس نے دوبارہ کال کرنا تو دور۔۔ ایک مسیج بھی نہیں کیا ’’ اس کی آواز میں ناراضگی تھی۔۔ معاذ مسکرایا تھا۔۔
’’ ہو سکتا ہے وہ تمہاری کال کا انتظار کر رہی ہو ؟ ’’
’’ وہ کیوں کرے گی ؟ ’’ اسے یقین نہیں تھا۔۔
’’ تم کیوں کر رہے ہو ؟ ’’
’’ میری بات اور میرا معاملہ الگ ہے ’’ اس نے خود کو بری کیا تھا۔۔
’’ اسکی بات اور اسکا معاملہ بھی الگ ہوسکتا ہے ’’
’’ تم میرے دوست ہو یا اسکے ’’ اسے اب اسکی ناانصافی پر غصہ آرہا تھا۔۔
’’ دوست ہوں۔۔ اس لئے کہہ رہا ہوں۔۔ نا ہوتا تو تمہیں مزید بھڑکاتا ’’ جواب بھی ٹھیک تھا۔۔
’’ٹھیک ہے۔۔ کرلونگا کال ’’ وہ اسکی بات سمجھ چکا تھا۔۔ وہ ٹھیک ہی تو کہہ رہا تھا اگر اس نے نہیں کی تو وہ خود بھی تو کر سکتا تھا بات،،، ہوسکتا ہے وہ اسکی کال کا ویٹ کر رہی ہو ؟
یونیورسٹی سے نکلتے ہی اس نے اسی جگہ کا رخ کیا تھا۔۔ جہاں وہ پہلی بار ملےتھے۔۔۔
ساحل سمندر پر اس وقت بہت کم لوگ موجود تھے۔۔ وہ اس سے بات کرنا چاہتا تھا اور اسی جگہ کرنا چاہتا تھا۔۔ وہ تو موجود نہ تھی مگر اسکی آواز یہاں ہوسکتی تھی۔۔ اس نے موبائیل نکال کر کال ملائی تھی۔۔
اسکا موبائیل بجا تھا۔۔ وہ اس وقت شاپنگ سینٹر میں موجود تھی۔۔ اریج بھی اسی کے ساتھ تھی۔۔ شادی کے بہت سارے کام اور پھر شاپنگ بھی دوہفتوں میں مکمل کرنی تھی۔۔ اس لئے اس نے شادی ہوجانے تک یونیورسٹی سے آف لے لیا تھا۔۔ اور جہاں تک بات تھی پڑھائی کا ہرج ہونے کی۔۔ تو وہ جانتی تھی کہ ایک شخص ایسا ہے جو اسے سب سمجھا دے گا۔ اور اریج کا ہونے والا ہسبنڈ بھی ڈاکٹر تھا۔۔ اسے کیا ٹینشن ہونی تھی ؟ اس نے موبائیل نکال کر دیکھا تھا۔۔ اسکی کال تھی۔۔ وہ مسکرائی تھی۔۔ یہی تو چاہتی تھی وہ۔۔۔ کہ وہ اسے کال کرے۔۔ اس لئے تو اس نے دوبارہ رابطہ نہیں کیا تھا۔۔ اس نے دیکھا۔۔ ریج ایک جوڑا دیکھ رہی تھی۔۔
’’ تم دیکھو میں ذرا بات کر کے آتی ہوں ’’ اس نے اریج سے کہا تھا اور اریج نے سر ہلا کر اسے جانے کی اجازت دی تھی۔۔ اب وہ اس شاپ سے باہر آئی اور تھوڑا آگے جاکر کال ریسیو کی تھی۔۔
’’ ہیلو ’’ اس نے کہا تھا۔۔
’’ اسلام و علیکم ’’ اس نے سلام کیا تھا۔۔
’’ وعلیکم اسلام ، کیسے ہیں آپ ؟ ’’
’’ ٹھیک ہوں۔۔ آپ بتائیں ’’ اس کا لہجہ بتا رہا تھا کہ جیسے وہ کچھ پریشان ہو۔۔
’’ میں بھی ٹھیک ہوں۔۔ آپ کی آواز سے لگ رہا کہ آپ کچھ پریشان ہیں۔۔ سب ٹھیک ہے نا ؟ ‘‘ اس نے پوچھا تھا۔۔
’’ چلیں۔۔ آپکو یہ احساس تو ہوا کہ کوئی پریشان ہے ’’ اس نے طنز کیا تھا۔۔
’’ آپکی آواز ہی احساس دلانے کے لئے کافی ہے ’’ اس نے کہا تھا۔۔ وہ اسکا طنز سمجھی نہیں تھی۔۔
’’ یعنی کہ آپکو احساس دلانے کے لئے آواز سنانی ہوگی اپنی ’’ عرش کے لئے یہ جیسے بہت مشکل کام تھا۔۔
’’ اس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے ’’ وہ مسکرائی تھی۔۔ اسکا موڈ اچھا تھا اور اس کے اچھے موڈ نے عرش کے چہرے پر بھی مسکراہٹ بکھر گئ تھی۔۔
’’ تو پھر تو آپکو روز مجھے کال کر کے میری آواز سننی چایئے ’’ اس نے حل نکالا تھا۔۔
’’ وہ کیوں ؟ ’’
’’ تاکہ آپکو پتا لگ جائے کہ میں پریشان ہوں یا نہیں ’’
’’ پہلے یہ تو بتائیں کہ آپ پریشان کیوں ہیں ؟ ’’ اس نے اب اس سے وجہ پوچھی تھی۔۔
’’ آپ آج آئی نہیں۔۔ اس لئے ’’ اس نے کہا تھا اور اسکے جواب سے الہام کو ایک خوشگوار حیرانگی ہوئی تھی۔۔ کوئی اسکی کمی بھی محسوس کرتا ہے ؟؟
’’ میں تو دو ہفتوں تک نہیں آسکونگی ’’ اس نے بہت آرام سے کہا تھا۔۔۔ جانے کیوں اسے اچھا لگ رہا تھا ۔۔ عرش کو اپنے لئے پریشان دیکھ کر۔۔
’’ وہ کیوں ؟ سب ٹھیک ہے نا ؟ ’’ وہ واقعی پریشان ہوگیا تھا۔۔
’’ ارے پریشانی والی کوئی بات نہیں ہے۔۔ ایکچولی احتشام بھائی کی شادی ہے ۔۔ تو بس اسی کی تیاری میں مصروف ہوں بہت ’’ اس نے وجہ بتائی تھی۔۔
’’ اوہ اچھا۔۔۔ تو پھر اتنے دن تک ہم مل نہیں سکیں گے’’ اسے افسوس ہورہا تھا۔۔ وہ تو ایک دن میں پریشان ہوگیا تھا۔۔ اب دو ہفتوں میں کیا ہوگا؟
’’ مل تو سکتے ہیں۔۔ شادی میں بلاؤنگی آپکو۔۔ آپ آئینگے ؟ ’’ اس نے پوچھا تھا۔۔
’’ ایک شرط پر آونگا ’’
’’ وہ کیا ؟ ’’ اس نے پوچھا تھا۔۔
’’آپ خود آکر انوائیٹ کرینگی مجھے ’’ اس کی شرط سن کر وہ مسکرائی تھی۔۔ ملنے کا بہانہ نکال ہی لیا تھا ۔۔۔
’’ ضرور آؤنگی ’’ اس نے کہا تھا اور دوسری طرف اسکے چہرے پر بھی مسکراہٹ آئی تھی۔۔
’’ میں انتظار کرونگا ’’
’’ اللہ حافظ ’’ اس نے سامنے اریج کو اپنی طرف آتے دیکھ کر کہا تھا۔۔
’’ اللہ حافظ ’’ کال کٹ کی تھی اور اب نظر سامنے اس سمندر پر گئ تھی ۔۔۔ جہاں اب وہ خود کو اکیلا نہیں محسوس کر رہا تھا۔۔ اب کوئی اور بھی تھا۔۔ اس کے ساتھ۔۔ اب کوئی اور آواز بھی تھی اسکے آس پاس۔۔
انہوں نے آج کافی شاپنگ کی تھی اور اب وہ لنچ کرنے کے لئے بیٹھے تھے۔۔
’’ بہت تھک گئے آج تو ‘’ الہام نے شاپنگ بیگز ایک چئیر پر رکھتے ہوئے کہا تھا۔۔
’’ ہاں یہ تو ہے۔۔ جلدی سے کچھ آرڈر کرو بھوک لگ رہی اب ’’ اس کے کہنے پر الہام نے ویٹر کو اشارہ کیا تھا اور اب وہ اسے مینو بتا رہی تھی کہ کوئی چلتے ہوئے ان کے پاس آیا تھا۔۔
’’ شاپنگ ہورہی ہے ؟ ’’ اربش ساتھ ہی ایک کرسی پر بیٹھ کر بولی تھی۔۔
’’ ہاں’’ الہام نے مختصر جواب دیا تھا۔۔ اسے اس کا آنا پسند نہیں آیا تھا۔۔اور اریج نے ان دونوں کے درمیان کچھ سرد سا محسوس کیا تھا۔۔
’’ یہ اریج ہے ؟ یقیناً احتشام کی ہونے والی مسز ’’ اربش نے اب اریج کی طرف دیکھ کر الہام سے پوچھا تھا۔۔
’’ ہاں ’’ ایک اور مختصر جواب تھا۔۔
’’ ہیلو۔۔ میں اربش ہوں ۔۔ الہام کی بہن ’’ اس نے ہاتھ اریج کی طرف بڑھا کر کہا تھا۔۔
’’ ہیلو ’’ اریج نے اسکا ہاتھ تھام کر کہا تھا۔۔ اسے حیرت بھی ہورہی تھی ۔۔ الہام نے کبھی اپنی بہن کا تو ذکر نہیں کیا تھا۔۔اور پھر وہ انکے گھر بھی نہیں آئی تھی ۔۔۔
’’ میں نے اسے کہا بھی تھا کہ ساتھ شاپنگ پر جائینگے مگر یہ مجھے لے کر ہی نہیں آئی ’’ اس نے اب اریج سے الہام کی شکایت کی تھی ۔۔
’’ تم آج کل پاپا کے ساتھ بزی نہیں ہوتی ؟ مجھے تو لگا وہاں بہت کام ہوتا ہوگا تمہیں۔۔ ’’ اریج کے کچھ کہنے سے پہلےہی الہام نے کہا تھا۔۔ اریج نے محسوس کیا تھا۔۔۔ الہام کا بدلہ ہوا انداز۔۔
’’ارے اب میں ایسی بھی مصروف نہیں ہوں کہ احتشام کی دلہن کی شاپنگ نہ کر سکوں اور پھر مجھے اپنی بھی تو کرنی ہے نا ’’
’’ کوئی بات نہیں۔۔ کل آپ بھی ہمارے ساتھ آجانا ’’ اب کی بار اریج نے کہا تھا اور الہام نے اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا تھا۔۔ جسے وہ اگنور کرگئ تھی۔۔۔
’’ ضرور۔۔ اگر کسی کو برا نہ لگے تو ’’ اربش کا اشارہ کس طرف تھا۔۔ وہ سمجھ گئ تھی۔۔ مگر الہام نے اس کی بات اگنور کی تھی۔۔
’’ کسی کو بھی برا نہیں لگے گا۔۔ آخر ایک ہی تو فیملی ہیں آپ سب’’ اریج کی بات پر اربش کے ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ آئی تھی۔۔
’’ جی بلکل ایک ہی تو فیملی ہیں ہم ’’ اس نے کہا تھا اور ایک معنی خیز نگاہ الہام پر ڈالی تھی۔۔ جو اسے مسلسل اگنور کر رہی تھی۔۔
’’ چلیں ؟ ’’ الہام نے اریج سے کہا تھا۔۔
’’ ہاں۔۔ آپ بھی چلیں ساتھ ’’ اریج نے اب اخلاقیات نبھانے کے لئے اربش کو بھی کہا تھا۔۔ جس پر الہام کا موڈ اچھا خاصا خراب ہوا تھا۔۔
’’نہیں آپ دونوں جائیں۔۔ میں نے کچھ لینا ہے اور اب کل ملاقات ہوتی ہے آپ سے ’’ اربش کہہ کر آگے چلی گئ تھی۔۔ جبکہ الہام اس کی طرف مڑی تھا۔۔
’’ کیا ضرورت تھی اسے انوائیٹ کرنے کی ؟ ’’ اسے اریج پر بے تہاشہ غصہ آرہا تھا۔۔
’’ کیا ہوگیا الہام ؟ اتنی روڈ تو نہیں ہو تم ۔۔ آج کیا ہوگیا ؟ تمہاری بہن ہے وہ اور اپنے بھائی کی شادی کی شاپنگ میں شرکت اسکا بھی حق ہے ’’ اریج کو الہام کا رویہ اچھا نہیں لگا تھا۔۔ وہ کب سے ایسی ہوگئ تھی ؟
’’ وہ میری بہن ہے۔۔ تمہارا اس سے کوئی لنک نہیں اور شادی بھی صرف میرے بھائی کی ہے۔۔اسکے نہیں ’’ الہام کہہ کر آگے چلی تھی تھی اور اریج اس کی باتوں کا مطلب سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔ جوکہ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا۔۔۔