قسط: 1
وہ رات اس کی زندگی کی سب سے کالی اور لمبی رات تھی – اس رات اسنے اپنا سب کچھ گنوا دیا – اس کے اپنوں نے اس کا یقین نہیں کیا بلکہ اس شخص کا بھروسہ کیا – ان سب کی بے یقینی نے اس کی زات کو اس کے کردار کو دو کوڑی کا کر دیا –
بابا کا تو تھیک تھا کیوں کہ انہوں نے کبھی پیار سے بات تک نہ کی تھی پر آج امی نے بھی اس کا یقین نہیں کیا – اس کا دل چیخ چیخ کر رونے کو کر رہا تھا پر وہ روتی کس لئے اس وجہ سے کہ اس کے اپنوں نے ہی اس کا اعتبار نہیں کیا – نہیں وہ نہیں روئے گی اج کے بعد وہ نہی روئے گی خاص کر ان اپنوں کو یاد کرکے جنہوں نے اس کا یقیقن نہیں کیا تھا – اس نے خود سے وعدہ کرتے آنسوں بےدری سے صاف کیے تھے اور پھر سے سڑک پر چلنا شروع کر دیا کہ تبھی کسی نے اس کو بازو سے پکر کر اپنی جانب کھینچا تھا –
…………………………………………..
امی
امی کہاں ہیں آپ ؟
وہ کب سے اپنی امی کو آوازیں دے رہی تھی – آج اس کی خوشی سنبھالے نہیں سنبھل رہی تھی اور وہ اپنی خوشی میں ہر بار ایسے ہی امی کو آوازیں دیتی تھی اس بار بھی اپنی امی کو ہی آوازیں رے رہی تھی کیوں کہ ایک وہ ھی تو تھیں اس کی دوست اور ہمدرد – ہاں اس کی امی ہی اس کا سب کچھ تھیں ابو نے تو آج تک اس سے صحیح سے بات تک نہ کی تھی – کیوں کہ ان کو بیٹا چاہیے تھا اور ان کی بیٹے کی خواہش ادھوری رہ گئ تھی کیوں کہ عنایہ کے بعد ان کے گھر اولاد ہی نہ ہوئ تھی – یہی وجہ تھی کہ عنایہ کے ساتھ ابو کا رویہ بہت سخت تھا – اسی وجہ سے عنایہ ان سے ڑرتی تھی
ابھی وہ پھر سے انہیں پکارتی کہ شگفتہ بیگم ( عنایہ کی امی ) کچن سے باہر آئیں –
کیا بات ہے عنایہ کیوں اتنا شور کر رہی ہو . شگفتہ بیگم نے آتے ہی عنایہ سے پوچھا تھا – امی امی آج میں بہت خوش ہوں – اس سے پہلے کہ شگفتہ بیگم کچھ اور بولتیں عنایہ نے انہیں گول گول گھمانہ شروع کر دیا تھا –
شگفتہ بیگم نے بڑے غور سے اس کے خوشی سے چمکتے چہرے کو ریکھا تھا – سنہری آنکھیں دراز پلکیں چھوتی سی ناک گلابی ہونت سفید رنگت میں گھلی سرخی اور چہرے پر معصومیت ہاں وہ بے تہاشہ حسن کی مالک تھی بے شک وہ پہلی ہی نظر میں کسی کا بھی دل دھرکا سکتی تھی –
شگفتہ بیگم نے دل ہی دل میں اس کی نظر اتاری تھی اور ہمیشہ اسے ایسے ہی خوش رہنے کی دعا دی تھی پر کبھی کبھی ہر دعا قبول نہیں ہوتیں -او ہو امی کہاں کھو گئیں –
شگفتہ بیگم عنایہ کی آواز پر خیالوں سے نکلی تھیں
کچھ نہیں تم بتاو کیوں اتنی خوش ہو ؟؟ شگفتہ بیگم نے عنایہ سے پوچھا -امی آج میرا رزلٹ تھا اینڈ گیس وٹ میں نے فرسٹ پوزیشن لی ہے وہ خوشی سے انہیں بتانے لگی –
واہ بھئی مبارک ہو میری جان – شگفتہ بیگم اس کی بلائیں لیتیں بولیں تھیں –
اچھا چلو شاباش تم منہ ہاتھ دھو آو میں تمہارے لئے کھانا لگاتی ہوں شگفتہ بیگم پیار سے اس کا چہرا تھپتھپا کر بولیں –
اوکے امی بس ابھی آئی عنایہ جلدی سے کہتی اوپر اپنے کمرے کی طرف بھری تھی کیوں کہ بھوک تو اسے واقع بہت لگی تھی جبکہ پیچھے شگفتہ بیگم اس کی جلد بازی دیکھ نفی میں سر ہلا کر رہ گئیں تھیں –
………………………………
گاڈی بڑی سی عمارت کے سامنے رکی تھی – ڈرائیور نے جلدی سے گاڈی کا پچھلا دروازہ کھولا تھا اور وہ مغرور شہزادہ بڑی آن سے باہر نکلا تھا –
بلیک تھری پیس پہنے جس کے کورٹ کے بٹن کھلے ہوئے تھے جبکہ سفید شرٹ پر ٹائی کا نام و نشان بھی نہ تھا –
کیونکہ اس مغرور شہزادے کے مطابق اس کے گیریبان تک پہنچنے کی ہمت کسی میں نہیں تھی اس کی ٹائی میں بھی نہیں –
آفس میں داخل ہوتے ہی تمام ورکر نے اسے سلام کیا تھا جبکہ وہ محض سر کے اشارے سے سلام کا جواب دیتا آگے بھر گیا تھا –
اس کے جاتے ہی تمام ورکرز کا رکا سانس بحال ہوا تھا – بےشک وہ مغرور ہونے کے ساتھ غصے کا بھی تیز تھا – جو زرا سی غلطی پر نوکری سے نکال دینے سے پرہیض نہیں کرتا تھا – وہ بہت کم عرصہ میں ملک کے مشہور بزنس مین میں سے ہو چکا تھا – بے شک خدا نے اسے ہر چیز سے نوازہ تھا سوائے ایک کے اور وہ چیز تھی دل – ہاں اس حسین شہزادے کے پاس دل نہیں تھا – اس کے نزدیک کسی کے بھی جزبات کی کوئی قدر نہ تھی وہ سب کو جوتے کی نوک پر رکھتا تھا – بہت سی لڑکیاں اس کی ایک نظر کی منتظر تھیں پر اس نے آج تک کسی لڑکی میں دلچسپی نہ لی تھی –
ہاں اس کی اٹھائس سالہ زندگی میں کسی لڑکی کا کوئی قصہ نہ تھا – اس کے نزدیک صرف ایک ہستی کے لئے پیار محبت عزت و احترام اور تمام جزبات تھے – اور وہ ہستی سکندر شاہ کی دادی تھی جی بلکل سکندر شاہ اگر کسی کے سامنے جھکتا یا کسی سے محبت کرتا تھا تو وہ اس کی دادی تھی جہاں آرا بیگم –
سکندر شاہ کے والدین کار ایکسیڈینٹ میں اپنی زندگی کی بازی ہار گئے تھے گاڈی کے اچانک بریک فیل ہو جانے کی وجہ سے یہ حادثہ پیش آیا تھا جب کہ گاڈی پہاڑی سے نیچے گر گئی تھی – مسٹر اینڈ مسز احمد ( سکندر شاہ کے والدین ) کسی دعوت سے واپس آرہے تھے جبکہ سکندر کی طبعیت تھیک نہ ہونے کی وجہ سے دادی نے اسے اپنے پاس ہی رکھ لیا تھا – جبکہ گاڈی کا حادثہ قدرتی طور پر پیش آیا تھا –
مسٹر اینڈ مسز احمد کی لاش جب شاہ ہویلی لائی گئی تو شاہ حویلی پر جیسے قیامت ٹوٹ پری تھی اس وقت سکندر شاہ کی عمر صرف تیرہ سال تھی – تب سے دادی کی کل کائنات سکندر شاہ اور سکندر شاہ کی کل کائنات دادی ہی تھیں –
………………………
امی بابا ایسا کیسے کر سکتے ہیں وہ اپنی حسین آنکھوں میں آنسوں لئے اپنی ماں کے سامنے کھری سوال کر رہی تھی –
میری جان تم اپنے بابا کو جانتی تو ہو وہ کب کسی کی سنتے ہیں کل رات سے سمجھا سمجھا کر تھک گئی ہوں پر تمہارے بابا کا فیصلہ نہیں بدلا میری جان اب تم بتاو میں کیا کروں ؟؟ شگفتہ بیگم عنایہ کو ساتھ لگاتے نم انکھوں سے بولیں تھیں – جبکہ عنایہ اپنے بابا کا کیے جانے والا فیصلہ سن آنسو بہا رہی تھی –
ابھی کل وہ کتنی خوش تھی پر رات بابا نے اس کی ساری خوشی کو سوگ میں بدل دیا تھا – ان کے مطابق وہ عنایہ کا رشتہ اپنے دوست کے بیٹے سے طے کر آے تھے اور بیٹا بھی وہ جو جو پہلے سے شادی شدہ تھا اس کی بیوی مر چکی تھی اوپر سے تھا بھی محلے کا اوارہ – امی تو بابا کو سمجھا سمجھا کے تھک گئی تھیں کہ ابھی عنایہ صرف اٹھارہ سال کی ہے پر بابا اپنے فیصلے سے پیچھے نہیں ہٹے – اب امی اور عنایہ دونو جانتیں تھیں کہ ہو گا وہی جو امجد صاحب ( عنایہ کے بابا ) چاہیں گے لہذہ دونوں ماں بیٹی رونے کے علاوہ کر بھی کیا سکتیں تھیں –
…………………………………
یہ منظر ہے شاہ حویلی کا
دو سو مرلے پر پھیلی یہ حویلی اپنی مثال آپ تھی –
حویلی کے لون کی خوبصورتی اس کی شان اور بڑھاتی تھی – حویلی کے داخلی دروازے پر دائیں بائیں دو دہارتے شیروں کے سٹیچو تھے – اگر یہ کہا جائے کہ یہ حویلی گاوں کی خوبصورتی تھی تو غلط نہ ہو گا شاہ حویلی اندر سے جتنی خوبصورت تھی باہر سے بھی اتنی ہی دلکش تھی جو بھی حویلی کو دیکھتا اس پر سے اپنی نظر نہیں ہٹا پاتا تھا –
اب اگر حویلی کے اندر جائیں تو اندر بلکل سناٹا تھا ہال میں داخل ہوتے ہی بائیں دیوار پر لگی مور کی شکل کی گھڑی( جس کو دیکھتے ہی کوئی بھی انسان اس کھڑی کے مہنگے اور قیمتی ہونے کی گواہی دے سکتا ہے ) رات کے پونے دس کے ہندسے دکھا رہی تھی – تمام ملازم آٹھ بجے ہی اپنے کام ختم کرتے اپنے کواٹر میں جا چکے تھے – اس حویلی میں ٹوٹل پندرہ کمرے ہونے کے باوجود استعمال میں صرف دو کمرے تھے ایک بی جان ( سکندر کی دادی ) کا جو نیچے والے پورشن میں تھا – جبکہ دوسرا سکندر شاہ کا جو اوپر والے پورشن میں تھا –
بی جان تو نماز پڑھ کر کب کی سو چکیں تھیں – لیکن اگر سکندر شاہ کے کمرے کے اندر جھانکیں تو کرم داد ( سکندر کا خاص ملازم) اس کے سامنے سر جھکائے کھڑا تھا – جبکہ سکندر شاہ ہمیشہ کی طرح چہرے پر سنجیدگی لئیے ماتھے پر بل ڈالے کرم داد کو جواب طلب نگاہوں
سے دیکھ رہا تھا – جواب دو کرم داد میں نے تم سے کچھ پوچھا ہے –
اچانک کمرے میں اس کی خوبصورت بھاری مگر غصے سے بھری آواز بلند ہوئی –
میں وہ سائیں !! وہ میں !! کرم داد نے بولنے کی کوشش کی مگر اس کے غصے سے لال ہوتے چہرے کو دیکھ پھر سے ناکام ہوا تھا – کیا تب سے میں وہ میں لگا رکھی ہے –
تمہیں میں نے تین دن دئیے تھے اس لڑکی کا سارا بائیو ڈیٹا نکلوانے کو -اور تم تین دن بعد بھی میرے سامنے خالی ہاتھ کھڑے ہو کہاں ہیں ساری ڈیٹیل ؟؟شاہ کی غصے سے بھری آواز ایک بار کھر کمرے میں گونجی تھی –
سائیں وہ جو آپ نے گاوں کے کام دئیے تھے ان کاموں کو دیکھتے ہوئے ہی تین دن گزر گئے –
مگر سائیں کل شام تک اس لڑکی کی ساری انفورمیشن آپ کے پاس ھوں گی – آخر کرم داد نے ہمت کرتے کہہ ہی دیا تھا –
تھیک ہی کل شام مطلب کل شام اگر کل بھی تم خالی ہاتھ آئے تو تمہاریمیرے ہاتھوں خیر نہیں – اب تم جا سکتے ہو –
سکندر شاہ نے پہلی بات اس کی طرف سرخ آنکھوں سے دیکھتے غصے سے کہی تھی – جبکہ آخری بات داوازے کی طرف اشارہ کرتے کہی تھی – جو حکم سائیں کرم داد فرمابرداری سے کہتے سر کو خم دیتے کمرے سے نکلا تھا -جبکہ شاہ کی آنکھوں کے سامنے تین دن پہلے کا واقع گزرا تھا – اس واقع کو یاد کرتے شاہ کی آنکھوں میں پھر سے سرخی اتر آئی تھی اور ہاتھوں کی متھی سختی سے بند کرتے اس نے اپنا غصہ ضبط کرنے کی کوشش کی تھی لیکن تھوری ہی دیر بعد کمرے کی چیزیں اس کے غصے کا نشانہ بنیں تھیں –
You have to pay for this .
تم ساری زندگی یاد رکھو گی کہ سکندر شاہ نام کس بلا کا ہے – کمرے کی چیزوں پر غصہ نکال کر اب وہ بیڈ پر بیٹھا اس لڑکی سے مخاطب تھا – اور کمرے میں بکھری چیزیں اپنی بے قدری پر ماتم کناں تھیں
……………………………..
تین دن پہلے :
عنایہ جو سگفتہ بیگم کے ساتھ شوپنگ کرنے مال میں آئی تھی بھوک کا احساس ہونے پر ان سے اجازت لیتی مال میں ہی بنے فوڈ ائیریا کی طرف آئی تھی – اس سے پہلے کہ وہ اندر داخل ہوتی اندر سے اتے انسان سے بڑی طرح ٹکرائی تھی – دونوں اپنے دیہان میں ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کو دیکھ نہ سکے تھے – سکندر شاہ جو یہاں ایک میٹنگ کے سلسلے میں آیا تھا – اب واپس جا رہا تھا فون پر میسج
ٹائپ کرتے اپنے سیکٹری کو ہدایات دے رہا تھا – جبکہ کرم داد اس کے پیچھے چل رہا تھا -کہ اچانک فوڈ کونر سے باہر نکلتے کسی نازک وجود سے ٹکرایا تھا -جس کے بدلے اس کا فون زمین کو سلامی دے گیا تھا –
What the hell of this .
اس نے غصے سے سامنے والے پر چیختے کہا تھا جبکہ سامنے والا ابھ تک یہی سمجنے کی کوشش میں تھا کہ وہ کسی انسان سے ٹکرائی ہے یا کسی چٹان سے –
I am sorry sir .
مینے دیہان نہیں دیا -عنایہ اپنی غلطی نہ ہونے کے باوجود معافی مانگ کر آگے جانے لگی -اس سے پہلے کہ وہ آگے بڑتی
سکندر شاہ نے اس کا ہاتھ پکر کر اسے روکا تھا – کہاں ؟
میرا فون کون اٹھائے گا ؟؟ سکندر شاہ نے اس کو روک کر کہا تھا -جبکہ اس کے ہاتھ پکرنے پر عنایہ کےجسم میں کرنٹ دور گیا تھا – اسے کب کسی نا محرم نے چھوا تھا – تو بس ایک دم عنایہ کا ہاتھ اٹھا تھا اور سکندر شاہ کے منہ پر اپنا نشان چھوڈ گیا تھا – اور ادھر سکندر شاہ کی عنایہ کے ہاتھ پر گرفت چھوٹی تھی اور آنکھیں غصے سے لال ہوئی تھیں –
اس اچانک اٹھنے والے ہاتھ سے عنایہ کا خود ہاتھ منہ گیا تھا – اس کا مقصد ایسا بلکل نہ تھا اس نے تو آج تک کسی مکھی کو بھی نہیں مارا تھا کہاں کسی انسان کو تھپر مارنا – سکندر شاہ کی غصے سے ہوتی لال انکھیں دیکھ عنایہ دڑ کر دو قدم
پیچھے لیتی واپس بھاگ گئی تھی – جبکہ سکندر شاہ نے ارد گرد دیکھا تھا – وہاں موجود سب لوگوں کی نظریں سکندر شاہ پر ہی تھیں –
کرم داد !!
سکندر شاہ اچانک دہاڑہ تھا – جی سائیں !! کرم داد خود اس سچویشن میں پریشان کھڑا تھا – سکندر شاہ کی آواز پر جلدی سے بولا تھا – مجھے اس لڑکی کی ساری ڈیٹیل تین دن کے اندر چاہیے – سنا تم نے ؟؟ وہ پھر غصے سے دھاڑا تھا –
جو حکم سائیں !! کرم داد سر کو خم دیتے فورا بولا -جب کہ شاہ کی نظریں ابھی بھی اسی رستے پر تھیں –
تم پچھتاو گی – تم وہ پہلی ہستی ہو جس نے سکندر شاہ پر ہاتھ اٹھایا ہے اور تم اس کی قیمت چکاو گی وہ اس سے تصور میں مخاطب ہوا تھا – جبکہ شگفتہ بیگم تک پہنچتے عنایہ خود کو نورمل کر چکی تھی –
(حال)
ان تین دنوں میں عنایہ تو وہ واقع بھول چکی تھی .پر سکندر شاہ نہیں وہ اس تھپڑ کو اپنی آنا جا مسلہ بنا بیٹھا تھا – اور عنایہ کو خبر بھی نہ تھی کہ اگے اس کی زندگی کو عزاب بنانے کی کوئی مکمل تیاری کر بیتھا ہے –
……………………………………………..
عنایہ !!
وہ جو کل سے رشتے کی بات پر کمرے میں بند آنسو بہا رہی تھی امی کے پکارنے پر اپنی سوجھی اور لال آنکھوں سے ان کی طرف دیکھا تھا عنایہ کی حالت دیکھ شگفتہ بیگم
کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے تھے لیکن یہاں وہ خود مجبور تھیں -ان کے شوہر کے سامنے چلتی کب تھی ان کی –
عنایہ تمہارے بابا نے تمہاری شادی کی تاریخ ایک ماہ بعد کی رکھ دی ہے شگفتہ بیگم نے نظریں چراتے اس سے کہا تھا –
امی !
عنایہ کی آواز میں بے یقینی تھی جیسے ان سے کہنا چاہتی ہو کہ آپ اس بار بھی کچھ نہ کر سکیں – جبکہ عنایہ کی آواز میں رقم بے یقینی پر شگفتہ بیگم کو اپنی بے بسی پر پھر سے
رونا آیا تھا – امی آپ کچھ کریں نہ پلیز مجھے اس جمال سے شادی نہیں کرنی اچانک وہ شگفتہ بیگم کے ہاتھ تھام کر
بولی تھی – عنایہ میری جان اگر میرے بس میں ہوتا تو میں ضرور کچھ کرتی پر میں خود بے بس ہوں کون سی ماں اپنی اولاد کو جانتے بوجھتے کھائی میں دھکیلتی ہے – ہاں پر اگر مجھے کوئی راستہ ملا نہ تو – میں تمہیں اس دلدل سے نکالنے سے گریز نہیں کروں گی – شگفتہ بیگم نے عنایہ کو گلے لگا کر تسلی دیتے کہا تھا –
……………………………….
سائیں اس فائیل میں اس لڑکی کی ساری ڈیٹیل ہیں – کرم داد کے کہنے پر اس نےاسےبولنے کا اشارہ کرتے خود آفس چئیر سے ٹیک لگائی تھی – سائیں نام عنایہ امجد خان ہے عمر اٹھارہ سال دو دن پہلے بارہویں جماعت کا رزلٹ آیا ہے اور اس نے اپنے کالج میں ٹاپ کیا ہے – باپ کا اپنا کپڑرے کا کاروبار ہے
مگر باپ کو اس سے کوئی لگاو نہیں کیوں کے اس کے باپ کو بیٹے کی چاہت تھی – کل ہی اس کے باپ نے اپنے دوست کے بیٹے سے اس کی شادی طے کی ہے جو پہلے سے شادی شدہ ہے اسکی بیوی کی موت ہو چکی ہے اور دو بچے ہیں اسکے –
کرم داد نے کسی ماہر ریپوٹر کی طرح اسے ساری معلومات دی تھیں اور فائیل ٹیبل پر رکھی تھی – سکندر شاہ نے اپنے سامنے ٹیبل پر رکھی فائیل کو اٹھا کر کھولا تھا – ہمم تو مس عنایہ امجد خان تیار ہو جاو مجھ پر ہاتھ اٹھانے کا بدلہ
چکانے کے لئے – کتھئی آنکھوں میں چمک لئیے وہ فائیل میں موجود اس کی تصویر سےمخاطب ہوا تھا –
کرم داد !!
جی سائیں !!
کرم داد مجھے یہ لڑکی دو دن کے اندر میرے فارم ہاوس میں چاہیے – اب چاہے باہر سے اسے اٹھاو یا پھر اس کے گھر سے ہی کیوں نہ تمہیں اسے اٹھانا پڑے l don’t care مجھے
بس یہ لڑکی دو دن کے اندر میرے فارم ہاوس میں چاہیے –
Is that clear .
جو حکم سائیں !!
اب تم جا سکتے ہو – اس کے کہتے ہی کرم داد بوتل کے جن کی طرح غائب ہوا تھا –
……………………….
عنایہ میں زرا بازار جا رہی ہوں دروازہ بند کر لینا یاد سے – شگفتہ بیگم عنایہ کو آواز لگاتیں باہر نکل گئیں تھیں – جبکہ عنایہ ابھی تک ویسے کی ویسے سوگ کی مورت بنے بیٹھی
تھی – ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ چند نکاب پوش گھر میں گھسے تھے اور اب ان کا رخ عنایہ کے کمرے کی جانب تھا – کو کون ہو تم لوگ ؟ اپنے کمرے میں چند نکاب پوش کو داخل ہوتا دیکھ عنایہ نے ڈرتے ہوئے کہا – جواب دینے کی بجائے ایک آدمی کو اپنی طرف بڑھتا دیکھ عنایہ نے بھاگنے کی کوشش کی تھی لیکن اس سے پہلے کہ وہ بھاگ پاتی اگے بڑنےوالے نکاب پوش نے جلدی سے اسے پکر کر اس کی ناک پر رومال رکھا تھا اور وہ اگلے ہی پل ہوش و ہواس سے بیگانہ یوئی تھی – ایک نکاب پوش نے اسے اٹھا کر باہر کی راہ لی
تھی جبکہ دوپہر کا وقت ہونے کے باعث پورا علاقہ سنسان پڑہ تھا – اور ان کو عنایہ کو لے کر جاتے کسی زی روح نے نہیں دیکھا تھا – جبکہ نکاب پوش بڑی آسانی سے اسے اس
کے گھر سے ہی کڈنیپ کرکے لے جا چکے تھے –
……………………………..
اسے جب ہوش آیا تو وہ اپنے دکھتے سر کو تھامتی اٹھ کے بیٹھی تھی – کہ اچانک اپنے ساتھ ہوا واقع یاد کرتے اس نے جلدی سے ارد گرد دیکھا تھا – یہ اس کا کمرہ تو نہیں تھا یہ تو کوئی اور کمرہ تھا جو اس کے کمرے سے بڑا اور خوبصوت تھا – کیا وہ کڈنیپ ہو گئی ہے ؟ یہ سوچ آتے ہی اس کے رونگٹے کھرے ہو گئے تھے – اور پورا وجود خوف سے کاپنے لگا تھا – وہ جلدی سے اپنا ڈوپٹہ اپنے گرد اچھے سے پھیلاتی دروازے کی جانب بھاگی تھی – مگر دروازہ تو باہر سے بند تھا
کوئی ہے ؟ کھولو دروازہ – پلیز دروازہ کھولو -مجھے کیوں بند کیا ہے یہاں ؟ پلیز کھولو مجھے گھر جانا ہے وہ روتے ہوئے دروازہ پیٹتے زور زور سے بول رہی تھی – مگر اس کی فریاد سننے والا یہاں کوئی نہیں تھا – کتنی دیر دروازہ پیٹنے کے بعد آخر تھک ہار کر وہ کمرے میں موجود بیڈ سے ٹیک لگائے زمین پر بیٹھ کر گھٹنوں میں سر دئیےرونے لگی تھی – ابھی اس
حالت میں بیٹھے اسے کچھ دیر ہی ہوئی تھی کہ کلک کی آواز پر اس نے گھٹنوں سے سر اٹھا کر سامنے دیکھا تھا – جبکہ اندر داخل ہونے والی ہستی کو دیکھ اس نے پہلے تو اسے پہچاننے کی کوشش کی کہ کچھ دن پہلے کا واقع یاد آتے
اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا تھا –
آپ؟؟
آ….آپ تو مال میں ؟ حیرت کی زیادتی سے وہ اپنا فقرہ بھی مکمل نہ کر پائی تھی اس کی آنکھوں کی حیرت اور اس کے سبب مکمل نہ ہو پانے والے فقرے نے سکندر کے چہرے پر جاندار مسکراہٹ بکھیری تھی – اوہ تو مس عنایہ امجد خان
آپ کو یاد ہے ؟ اسنے چبھتے ہوئے لہجے میںطپوچھا تھا -دیکھیں پپ……پلیز میں نے وہ تتھ….تھپر جان بب…وو….جھ کر نہیں مارا تھا – یہ سوچ آتےہی کہ سامنے موجود شخص نے
اس سے تھپڑ کا بدلہ لینے کے لیے اغواہ کیا ہے اس نے ڈرتے ڈرتے اپنی صفائی پیش کی –
شٹ اپ !!
جسٹ شٹ اپ !!
عنایہ کے بولتے ہی سکندر شاہ کے چہرے کے تاثرات بدلے اور اس نے غراتے ہوئے عنایہ کے جبڑے کو اپنی فولادی گرفت میں لیتے ہوئے کہا – درد کے مارے سامنے کھری اس نازک جان کی آنکھوں سے گرم سیال بہنے لگا – پپ…..پلیز مجھے چھوڈیں مجھے درد ہو رہا ہے – اسنے روتے ہوئے سامنے کھرے اس ظالم کے آگے ہاتھ جوڑتے کہا –
اوہ ! واقع ؟
کیا تم چاہتی ہو کہ میں تمہیں چھوڈ دوں ؟ کیا تم واپس اپنے گھر جانا چاہتی ہو ؟ سکندر شاہ نے اس کے جبڑے کو چھوڈتے
اس سے عجیب لہجے میں پوچھا – اور” اندھے کو کیا چاہیے دو آنکھیں ” عنایہ نے اس کی بات پر فوراً ہاں میں سر ہلایا
اور آنکھوں میں امید لیے اس کی جانب دیکھا – ہمم تو تمہیں اپنے گھر جانا ہے ؟؟صحیح بولا نہ میں نے ؟ جی – عنایہ نے پھر سے فوراً ہاں میں سر ہلایا اور اس بار تو زبان سے بھی اعتراف کیا گیا – تھیک ہے لیکن میری ایک شرط ہے تم میری شرط مان لو میں تمہیں تمہارے گھر واپس بھیج دوں گا – بولو منظور ؟ اس نے اپنی داہنی آئبرو اُٹھائے اس سے جواب
طلب کیا – مجھے منظور ہے – آپ جو کہیں گے میں وہ کرنے کو تیار ہوں پر پلیز مجھے میرے گھر واپس جانے دیں – عنایہ نے فوراً سے بنا اس کی شرط سنے ہامی بھری تھی – اس وقت اسے صرف یہ ڈر تھا کہ اگر بابا کو اس کے لا پتا ہونے کا علم ہو گیا تو وہ اس کا کیا حشر کریں گے – اور امی !! امی پتا نہیں کب کی گھر واپس آ چکی ہوں گی اور اس کے غائب ہونے پر کتنی پریشان ہوں گی – اس لیے اس نے بنا کوئی دوسری بات کیے ہامی بھری تھی – اس کے مانتے ہی سکندر شاہ کے ہونٹوں پر تنزیہ مسکراہٹ نے احاطہ کیا –
کرم داد !!
اس نے بنا عنایہ پر سے نظریں ہٹائے کرم داد کو آواز دی – اور کرم داد اگلے ہی لمہے دروازے کھول نمودار ہوا تھا – عنایہ نے غور کیا کرم داد کے ہاتھوں میں پیپر تھا – اس نے سکندر شاہ کو سوالیہ نظروں سے دیکھا – یہ ہے میری شرط – سکندر نے خود کو سوالیہ نظروں سے تکتی اس پری پیکر کے سامنے کرم داد کے ہاتھ سے پکرے اس کاغز کی طرف اشارہ کرتے کہا – اس پیپر میں کیا ہے – اس کی آنکھوں میں موجود سوال آخر الفاظ کی صورت اختیار کر ہی گیا – پیلے رنگ کی فراک جس پر رنگ برنگے پھول بنے ہوئے تھے اور پیلے رنگ کی کیپری پہنے ساتھ فراک کے پرنٹ سے ملتا ڈوپٹہ اپنے گرد اور سر پر اچھے سے اوڑھےرونے کے سبب لال ہوتی اپنی سنہری آنکھوں
میں سوال لیے وہ اس وقت حسن کا مجسمہ لگ رہی تھی اور سونے پہ سوہاگہ کے مترادف اس کے خوبصورت چہرے کو چومتی بالوں کی کچھ آوارہ لٹیں اس کے حسن کو چار چاند
لگا رہی تھیں – ہاں وہ حسین گڈیا کسی کو
بھی اپنا دیوانا کر سکتی تھی – مگر اس کے مقابل بھی سکندر شاہ تھا جو خود خوبصورتی کی اپنے آپ میں مثال تھا – بے شک وہ دونوں ہی ایک دوسرے کی ٹکر کے تھے مگر دونوں کو ہی ایک دوسرے کی خوبصورتی سے کوئی مطلب نہ تھا – اس میں کچھ بھی نہیں یہ بلکل خالی ہے . بس تمہیں اس پر سائین کرنے ہیں – سکندر نے وہ کاغز عنایہ کے سامنے کرتے کہا جو بلکل خالی تھا جبکہ عنایہ نے اپنے سامنے گرے پینٹ کوڑٹ میں ملبوس اس خوبرو نوجوان کوگھورا تھا – کیا وہ پاگل تھا جو خالی کاغز پر اس کے سائین مانگ
رہا تھا – یہ لو ان پر سائن کر دو سکندر نے کاغز اس کے سامنے کرتے کہا – ساتھ ہی کرم داد سے بول پنسل لیتے اس کے سامنے کی دیکھو لڑکی جیسا کہ مینےتمہیں پہلے ہی کہا تھا گھر جانا ہے تو میری شرط ماننی ہو گی اور یہی میری شرط ہے کہ تمہیں اس پیپر پر سائن کرنے ہوں گے -مگر اس پر تو کچھ نہیں لکھا نہ عنایہ نے معصومیت سے کہا – ہاں تو اس سے تمہیں کیا ؟؟ لگتا ہے تمہارا گھر جانے کا من نہیں – سکندر نے اسے رعب سے کہتے ڈرانا چاہا – اور وہ ڈر بھی گئی تھی – نہیں نہیں مجھے جانا ہے لائیں میں کر دیتی ہوں سائین –
عنایہ نے جلدی سے اس کے ہاتھ سے پیپر پکر کر کہا اور جلدی سے اس پر سائین کر دیے – گڈ گرل اس کے سائین کرتے ہی سکندر کے چہرے پر مسکرہٹ آئی اور اس نے وہ پیپرز داد کے ہاتھ میں پکراتے اسے کچھ اشارہ کیا جسے کرم داد نے سمجھتے سر ہلایا تھا – اوکے مس عنایہ تمہیں میرے آدمی
گھر چھوڈ آئیں گے ابھی – عنایہ سے کہتے سکندر کمرے سے باہر نکل گیا مگر دروازے کے پاس پہنچ پلٹ کر وہ عنایہ کو دیکھنا نہیں بھولا تھا –
………… ……………. ………………
سکندر شاہ نے اپنا کہا پورا کرتے عنایہ کے سائن کرتے ہی اسے واپس گھر بھیج دیا تھا جبکہ عنایہ اس بات سے بے خبر کہ سکندر نے اس کے ساتھ کیا گیم کھیلی ہے شکر کرتی گھر آئی تھی گھر آکر عنایہ کو حیرت ہوئی تھی کیونکہ اسے گھر سے غائب ہوئے صرف تین گھنٹے ہوئے تھے جبکہ عنایہ کو لگا تھا کہ رات ہو چکی ہے یہ تو شکر تھا کہ امی ابھی گھر واپس نہیں ائی تھیں اور بابا بھی رات گئے گھر اتے تھے – گھر آ کر عنایہ نے خود کو کمرے میں بند کر لیا تھا رشتے کا دکھ تو
کہیں دور جا سویا تھا اب تو صرف اسے اس اجنبی کے ڈر نے گھیر لیا تھا – کمرے میں بند روتے روتے کب اس کی آنکھ لگی
اسے کوئی خبر نہ ہوئی –
………. ………. …………. …………
آج آخر وہ دن آ ہی گیا جس دن عنایہ کی بارات تھی اس کی اور امی کی لاکھ کوششوں کے باوجود بابا اپنے فیصلے سے پیچھے نہیں ہٹے تھے اور اپنی بات منوانے کی خاطر بابا نے عنایہ کو دھمکی بھی دے ڈالی تھی کہ اگر اس نے شادی سے انکار کیا تو وہ شگفتہ بیگم کو طلاق دے دیں گے ان کی بات پر شگفتہ بیگم سکتے میں ہی چلی گئی تھیں اور عنایہ نے
بےبسی سے بابا کو دیکھا تھا اور اپنی ماں کو دیکھ وہ شادی کے لیے مان گئی تھی – وہ کمرے میں دلہن کے لباس میں تیار
غم کی مورت بنے بیٹھی تھی دلہن بن کر اس پر بہت روپ آیا تھا وہ جو سادگی میں ہی غضب ڈھاتی تھی تیار ہو کر کسی سلطنت کی شہزادی لگ رہی تھی – مگر اس شہزادی کی قسمت ان شہزادیوں سے بہت مختلف تھی اپنی قسمت پر آنسوں بہاتی وہ اپنے اللّہ سے شکوہ کناں تھی – تبھی اچانک امی کمرے میں داخل ہوئیں – عنایہ !!
وہ اسے پکارتیں بہت جلدی میں لگ رہی تھیں اس نے امی کی طرف اپنی آنسوں سے لبریز آنکھوں سے دیکھا اور اچانک ان کے گلے لگ ہچکیوں سے روتی ان کو بھی رولا گئی تھی –
امی نے اسے خود سے پیار سے دور کرتے اس کے انسوں صاف کیا اور اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں بھرا – میری جان میری بات دیہان سے سنو – تم ابھی یہاں سے بھا….. !!
ابھی شگفتہ بیگم بات پوری کرتیں کہ باہر سے بارات کے آنے کا شور اٹھا تھا –
آواز پر دونوں ماں بیٹی نے دل پر ہاتھ رکھا – اتنی جلدی بارات آگئی ابھی تو وقت تھا نہ بارات آنے میں امی نے نے خوفزدہ ہوتے ہوئے – کہا نا جانے کیوں عنایہ کا دل نا خوش انداز میں دھرکا تھا -عنایہ میری بات سنو تم جلدی سے بھا.. !! یہاں کیا کر رہی ہو تم ؟؟ بارات آگئی ہے باہر آو جلدی اس سے پہلے امی اپنی بات پھر سے مکمل کرتیں ابو نے کمرے میں داخل ہوتے کہا – امی نے اُداس اور نم آنکھوں سے عنایہ کو دیکھا اور ابو کے پیچھے ہی کمرے سے باہر نکل گئیں – اب تو ان کی آخری امید بھی ٹوٹ گئی تھی اپنی بیٹی کو بچانے کی – اب تو شاید ان کی بیٹی کی قسمت میں ہی یہ شادی
لکھی تھی –
………. ……………….. …………
وہ اپنے کمرے سے تیار ہو کر نکلتا ساتھ اپنے ہاتھ پر گھڑی باندھ رہا تھا – آج اس کےچہرے پر عجیب ہی چمک تھی – داد
اس نے ہاہر نکلتے ہی کرم داد کو آواز دی تھی -اگلے ہی پل داد اس کے سامنے حاظر تھا – داد جو تمہیں کام سونپا تھا وہ مکمل ہے نہ ؟ اس نے داد کے سامنے آتے ہی سوال کیا – جی سائیں مکمل ہے – داد نے فوراً جواب دیتے کہا – اور وہ مغرور
شہزادہ اس کو جواب سنتے ہی سرشاری بھری مسکاہٹ لیے آگے بڑھا تھا کہ اچانک دادی کی آواز پر پلٹا تھا –
شاہو بیٹا کہیں جا رہے ہو – سکندر کو دادی پیار سے شاہو کہتی تھیں اور اکثر ایسا ہوتا تھا کہ سکندر افس سے جلدی آ جاتا تھا مگر وہ پھر کہیں اور نہیں جاتا تھا یاں تو اپنے کمرے
میں آرام کرتا یاں پھر دادی کے ساتھ وقت
گزارتا تھا – مگر آج وہ گھر آ کر پھر سے تیار ہو کر کہیں جا رہا تھا دادی کی حیرتببنتی تھی – اس لیے انہوں نے اس سے سوال کیا – بی جان کی آواز سنتے اس کے ہونٹوں پر زندگی سے بھرپور مسکرہٹ آئی اور وہ واپس پلٹتا ان کے پاس آیا اور ان کے دونوں ہاتھ چوم اثبات میں سر ہلا ان سے مخاطب ہوا – جی بی جان بہت ضروری کام سے جا رہا ہوں بس کیسی کا ادھار لوٹانا ہے وہ پہلی بات ان سے محبت سے کہتے آخری بات کو دانت پیستے ہوئے بولا اور بنا ان کی سنے کرم داد کو چلنے کا اشارہ کرتے باہر کی جانب بڑھ گیا -سکندر کے گاڈی کی پیسنجر پر بیٹھتے ہی کرم داد نے ڈرائونگ سیٹ
سنبھالی – گاڈی چلتے ابھی کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ سکندر کی آواز گاڈی میں گونجی – داد خبر پکی ہے نا کہ آج ہی اس
لڑکی کی بارات ہے اور ٹائمنگ بھی کنفرم ہے نا کہ ہمارے پہنچنے تک بارات آگئی ہو گی – سکندر کی بات سنتے ہی داد نے اسے تسلی بخش جواب دیا تھا -جی سائیں پکی انفارمیشن ہے اور ہمارے پہنچنے تک بارات آگئی ہو گی –
میرے خبری نے بتایا ہے کہ بارات نکل چکی ہے – اس کا جواب سنتے ہی سکندر نے ہاں میں گردن اس طرح ہلائی جیسے کہنا چاہتا ہو کہ مجھے اسی جواب کی تواقع تھی -کچھ ہی دیر بعد داد نے اسے پکارا تھا – سائیں اگر اجازت ہو تو کیا میں ایک سوال پوچھوں – اس کے اس طرح پوچھنے پر سکندر نے اسے گھورا تھا کتنی بار کہوں داد کہ مجھ سے کچھ پوچھنے
کے لیے اجازت مت لیا کرو – سکندر کے غصے سے کہنے پر کرم داد کے چہرے پر مسکراہت آئی – وہ اور سکندر بچپن سے ساتھ تھے – یوں کہہ لیں کے دوست تھے مگر داد کے والدین
مالی لحاظ سے بہت غریب تھے وہ شاہ حویلی میں ہی ملازم تھے – سکندر اپنے والدین کی وفات کے بعد اپنے تمام دوستوں سے ملنا چھوڈ چکا تھا یہ داد ہی تھا جو اس کے ساتھ زبردستی کھیلنے آ جاتا تھا اور سکندر کے منا کرنے پر دادی کو وکیل بنا کر لے آتا اور ناچار سکندر کو کھیلنا ہی پرتا تھا پھر
جیسے جیسے دن گزرے سکندر بھی داد کے ساتھ اپنی خوشی سے کھیلنے لگا تب سےسکندر کا داد کے علاوہ کوئی دوست نہ
تھا – داد شروع سے ہی سکندر کو سائیں کہتا تھا جس پر سکندر نے کئی بار منا بھی کیا تھا مگر داد کا کہنا تھا کہ وہ سکندر کو اس کے نام سے نہیں بلا سکتا کیوں کے اس کے
اوپر سکندر کے بہت احسان ہیں – داد کی مکمل تعلیم کا خرچہ سکندر نے ہی اٹھایا تھا اور شروع سے ہی وہ سکندر کا خاص رہا تھا غصے میں سکندر اپنا غصہ بھی اس پر نکال لیتا تھا مگر جب اس کا غصہ ٹھنڈا ہوتا وہ اس سے معافی بھی مانگ لیتا سکندر کی ڈکشنری میں مافی لفظ صرف دو
لوگوں کے لیے تھا ایک بی جان دوسرا داد کیوں کے داد اسے بھائیوں کی طرح عزیز تھا وہ اس سے مافی مانگ بھی لیتا تھا اور اسے معاف کر بھی دیتا تھا – اب بھی داد کے اجازت
مانگنے پر وہ اس پر غصہ ہو چکا تھا – مافی سائیں پر ایک بات بہت دن سے زہن میں ہے وہ ہی پوچھنی تھی –
پوچھو !!
داد کے کہنے پر سکندر نے اسے بولنے کا اشارہ کیا – سائیں وہ آپ آخر کرنا کیا چاپتے ہیں اگر آپ کو اس لڑکی کو پاس ہی رکھنا تھا تو اسے اس دن جانے کیوں دیا – داد کی بات پر سکندر کا قہقہ گاڈی میں گونجا – تمہیں کس نے کہہ دیا کہ
میں اسے واپس لانے جا رہا ہوں ارے میں تو بس اس سے اپنی انسلٹ کا بدلہ لینے جا رہا ہوں – اس نے مجھے تھپر مارا مجھے یعنی سکندر شاہ کو اور وہ بھی پبلک پلیس پر تو بس
آج اس کے باراتیوں کے سامنے اسےبے عزت کروں گا – سکندر نے اپنا پلان داد کو بتاتے کہا – داد اسے کہنا چاہتا تھا کہ یہ غلط ہے مگر خاموش رہا – کیوں کہ وہ سکندر کے غصے سے واقف تھا – وہ غصے اور دشمنی میں سب بھول جاتا تھا –
اب تو وہ بس اس لڑکی کے لیے دعا ہی کر سکتا تھا –
فیس بک پیج: MANYA KHAN