بے قدرہ

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 11

میرا وہاں کیا کام شاہ جی آپ اکیلے چلے جائیں ناں – عنایہ کے پھر سے اسی جواب پر سکندر نے اسے گھور کر دیکھا تھا جس پر وہ نظریں جھکا گئی تھی – دراصل سکندر کو کسی بزنس پارٹی میں جانا تھا مگر وہاں پاٹنر کا ہونا بھی ضروری تھا – یہ پارٹی بہت اہم تھی کیوں کہ اس میں اس کی ایک ڈیل کے مطلق بات ہونی تھی ایک بڑے بزنس مین سے اسی لیے وہ عنایہ کو ساتھ چلنے کا بول رہا تھا مگر عنایہ انکار ہی کر رہی تھی – پلیز شاہ گھور کر نہ دیکھیں مجھے –
سکندر کے گھورنے پر عنایہ معصوم منہ بناتی بولی – گھوروں نہ تو اور کیا کروں – کہا نہ تمہارا جانا ضروری ہے وہاں مگر تم سن ہی نہی رہی بلکہ منع کری جا رہی ہو – ٹھیک ہے نہیں جانا تمہیں تو نہ جاو – میں کسی اور لڑکی کو اپنے ساتھ کپل پاٹنر بنا کر لے جاوں گا – سکندر کہہ کر اٹھ کر جانے لگا مگر عنایہ نے جلدی سے اس کا بازو تھاما تھا – کیوں کسی اور عورت کو کیوں لے کر جائیں گے – میں چلوں گی نہ اپ کے ساتھ – پر خبردار جو کسی اور عورت کے بارے میں سوچا –
وہ اس کے قریب ہوتی اس کے سینے پر سر رکھتی روعب اور لاڈ بھرے لہجے میں بولی تھی – اس کے ماننے پر سکندر کے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی وہ جانتا تھا یہ ترکیب کام کرنے والی تھی اور واقع وہ جیلس ہوتی فوراً مان گئی تھی –
:::::::::: :::::::::: :::::::::: ::::::::: ::::::::
کیا ضرورت تھی اتنا تیار کروانے کی شاہ جی ؟؟ اس پالر والی نے تو پتا نہی کیا کیا منہ پر مل دیا ہے میرے – اتنا ڈارک میک اپ کیا ہے اس نے میرا- وہ پالر سے نکلتی اپنی فراک کو سنبھالتی گاڑی میں بیٹھ کر ڈوپٹہ کندھوں سے درست کرتی مسلسل بول رہی تھی – مگر سکندر تو اسے سن ہی نہیں رہا تھا – وہ تو اس کے حسن میں مکمل کھویا ہوا تھا جو پالر والی نے اور نکھار دیا تھا – اس سے پہلے کہ عنایہ کچھ اور بولتی سکندر نے آگے بڑھتے اس کے ہونٹوں کو قید کیا تھا –
عنایہ ایک دم بت بن گئی تھی جبکہ سکندر تو بھرپور طریقے سے خود کو سراب کر کے پیچھا ہٹا تھا – کیا کرتے ہیں آپ کوئی شرم و حیا ہی نہی آپ کو – ساری لپ سٹک خراب کردی ہو گی میری – وہ گاڈی کے سامنے والے شیشے کا رخ اپنی جانب کرتے سکندر پر غصہ کرتے بولی – مقصد تو شرم کو کم کرنا تھا مگر لپ سٹک کو جوں کا توں دیکھ اسے سکون ہوا تھا – کچھ نہیں ہوا تمہاری لپ سٹک کو اور واقع مجھے نہیں تمہیں پالر سے تیار کروانا چاہیے تھا – اب دیکھو تمہارا حسین سراپا میری نیت خراب کر رہا ہے تم پر – اگر پارٹی میں جانا ضروری نہ ہوتا نہ تو یقین جانو اس وقت ہم میرے کمرے میں ہوتے اور میں تمہارے اس حسن کو اچھے سے سرا رہا ہوتا –
سکندر گاڈی سٹارٹ کرتے اس سے بولا جبکہ اس کی باتوں پر عنایہ کے گال شرم سے لال ہوئے تھے – بس بے ہودہ باتیں کروا لیں آپ سے – وہ حیا آلود لہجے میں کہتی گاڑی کے شیشے سے باہر دیکھنے لگی تھی – میری طرف دیکھو اور مجھ سے باتیں کرو – تمہاری نظروں کا مرکز مجھے ہی ہونا چاہیے – کیونکہ مجھ سے زیادہ امپورٹینس تمہارے نزدیک کسی اور شے کی نہیں ہونی چاہیے – سکندر کے کہنے پر وہ ہلکہ سا مسکراتی اس کی طرف دیکھنے لگی – بس کریں اتنے پوزیسو نہ بنیں – رہتے نہیں آپ کہیں کے سکندر بھا – وہ اس پر ٹونٹ کرتی پھر سے منہ کا رخ باہر کی جانب کر گئی – وٹ یہ کون ہے سکندر بھا ؟؟ سکندر کے نا سمجھی سے پوچھنے پر اس نے سکندر کی جانب پھر سے دیکھا تھا – آپ کو سکندر بھا کا نہیں پتا – اوہ مائے گوڈ – ناول کا ہیرو ہے وہ – اور میرا کش بھی تھا – شوہر ہو ، بھائی ہو ، مامو ہو یا باپ ہو تو سکندر بھا جیسا –
عنایہ کے دکھ اور حیرت بھرے لہجے میں کہنے پر سکندر نے اسے عجیب نظروں سے دیکھا تھا – بھلا اب اسے کیا پتا کہ یہ سکندر بھا کون ہے اور اسے تو یہ بھی نہیں پتا تھا کہ یہ ناول کیا بلا ہوتی ہے – مگر آخر میں اس کے لہجے میں سکندر بھا کے زکر پر در آنے والی چاشنی نے تو سکندر کے اندر آگ لگا دی تھی – بس بہت ہوگیا تمہارے سکندر بھا کا بھا نامہ – بند کرو اسے اور خبردار جو آج کے بعد کسی غیر مرد کا میرے سامنے زکر بھی کیا – ورنہ مجھے جلاد بننے سے کوئی نہیں روک پائے گا – سکندر کے شدت اور جنون بھرے لہجے پر عنایہ پھر اس پر تنزیہ ہسی تھی – کیوں آپ جلاد کیوں بن جائیں گے ؟؟ آپ کیا سکندر شاہ ہو ؟؟ عنایہ کی پھر عجیب بات پر سکندر نے اسے دیکھا تھا – کیا مطلب سکندر شاہ ہوں ؟؟افکورس میں سکندر شاہ ہی ہوں –
سکندر نہ سمجھی سے اسے دیکھتا بولا وہ ساتھ ساتھ ڈرائیو بھی کر رہا تھا – ارے نہی آپ نہیں – آپ ہو سکندر شاہ پر میں آبرو کے شوہر کی بات کر رہی ہوں – سکندر شاہ جس کا پہلے نام زاویار شاہ تھا – وہ بھی ناول کا ہیرو ہے اور آبرو اس کی ہیروئین – ہائےےے قسم سے میرے فیورٹ ناولز میں سے ہے وہ ناول بھی – بڑا ظالم تھا سکندر اس میں – آبرو پر بڑے ظلم کرتا ہے – پر پھر ٹھیک ہو جاتا ہے اینڈ پر جب اسے آبرو سے محبت ہوتی ہے – عنایہ کی باتیں سکندر کا دماغ گھما رہیں تھیں – بس کر دو عنایہ اب تمہاری آواز نہ آئے – یہ ناول کی دنیا اپنے تک محدود رکھو –
اور ہاں یہ ناول میں ہی ہوتا ہے کہ کوئی کسی سے شدید نفرت کے بعد اس کی محبت میں گرفتار ہو جائے – سکندر کی بات پر عنایہ نے کچھ بولنا چاہا مگر اس کی گھوری پر چپ کر گئی – وہ اس سے کہنا چاہتی تھی کہ وہ بھی تو اس سے نفرت کرنے کے بعد ہی اس کی محبت میں گرفتار ہوا ہے – مگر سکندر اسے بولنے ہی نہیں دے رہا تھا – اس لیے چپ ہوکر بیٹھ گئی ویسے بھی اگر سکندر کو غصہ آجاتا تو اس کی خیر نہیں ہونی تھی –
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
سکندر اور وہ ہال میں داخل ہوئے تو تمام لوگوں کی نظریں ان پر ہی ٹک گئی تھیں – عنایہ کا بازو اپنے بازو میں ڈالے وہ بڑی ان سے چلتا میزبان تک پہنچا تھا – واہ سکندر صاحب مجھے تو لگا شاید آپ آو ہی نہ پارٹی میں – وہ آدمی جس کی طرف سے پارٹی آرگنائز کی گئی تھی خوش اصلوبی سے سکندر کے گلے ملتا بولا – جس پر سکندر محض مسکرایا ہی تھا –
یہ محترمہ کون ہیں ؟؟ وہ آدمی اس سے مل کر پیچھے ہٹتا عنایہ کی جانب اشرہ کرتے پوچھنے لگا جو کنفیوز سی کھڑی ہاتھوں کی انگلیوں کو آپس میں الجھا رہی تھی – یہ بیوی ہے میری – عنایہ سکندر شاہ – سکندر نے اس کے کندھے پر بازو پھیلائے اس کا تعارف کروایا تھا جس پر عنایہ نے مسکرا کر اسے دیکھا تھا جبکہ وہ آدمی حیرت اور خوشی سے سکندر کو دیکھ رہا تھا – مت کر یار تم نے شادی کب کی اور مجھے بلایا بھی نہیں – ویسے اسلام علیکم بھابھی جی – وہ سکندر کے بازو پر مکہ مارتے ناراضگی سے کہتے عنایہ کو سلام کرنے لگا جس پر عنایہ نے مسکرا کر جواب دیا تھا –
اس کے سکندر سے بات کرنے کے طریقے سے ہی عنایہ کو پتا چل گیا تھا کہ ضرور اس شخص سے سکندر کی اچھی بول چال تھی اسی لیے وہ سکندر سے اتنا فری تھا – بس اچانک ہی ہوگئی شادی خیر تو سنا بھابھی اور بچے کیسے ہیں نظر نہیں آرہے – سکندر کے پوچھنے پر اس شخص نے پیچھے کی جانب اشارہ کیا تھا جہاں شاید اس کی بیوی اور بچے کھڑے تھے –
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
وہ سامنے کھڑے سکندر کو دیکھ رہی تھی جو کچھ بزنس مینز کے ساتھ کھڑا بزنس کی باتیں کر رہا تھا – اسے وہ وہاں رکھے صوفوں میں سے ایک پر بیٹھا چکا تھا اور اب وہ وہاں بیٹھی شدید بور ہو رہی تھی – اوہ تو تم ہو سکندر کی وائف ؟؟ ایک لڑکی اس کے قریب آتی بولی جس کی ڈریسنگ دیکھ عنایہ کو خود شرم آ گئی تھی جس نے ٹائیٹ بلیو میکسی پہن رکھی تھی اور اس میکسی کی بیک اور بازو سرے سے تھے ہی نہیں – جی میں ہی ہوں –
کیوں آپ کیوں پوچھ رہی ہیں ؟؟ عنایہ نے بھی فل ایٹیٹیوڈ سے جواب دیا – اس لیے پوچھ رہی ہوں کیوں کہ مجھے جاننا تھا کہ آخر سکندر شاہ نے کس لڑکی کو چنا ہے بیوی کے طور پر – خیر تمہیں دیکھ کر مجھے خاصی مایوسی ہوئی – تم صرف خوبصورت ہی ہو مگر مجھے نہیں لگ رہا تم اس کے ساتھ اس سوسائٹی میں موو کر سکتی ہو – اس کے ساتھ تو کوئی میرے جیسی لڑکی سوٹ کرتی تھی – اس لڑکی کی باتوں پر عنایہ کو غصہ اور ہسی دونوں آرہی تھی –
چچ بہت افسوس ہوا کہ آپ کو منہ کی پڑی اور اپ کے سارے خواب ٹوٹ گئے کیوں کہ اب میں جیسی بھی ہوں چاہے شاہ کے ساتھ سوٹ کرتی ہوں یاں نہیں کرتی مگر ان کی بیوی تو میں ہی ہوں – اور اپ جتنی مرضی فیشن ایبل ہو جائیں آپ کی جانب تو وہ دیکھنا بھی پسند نہیں کریں گے – جبکہ میں ان کے قریب بہت اہمیت رکھتی ہوں – نہیں یقین تو ٹریلر دیکھاوں آپ کو ؟؟ رکیں اور دیکھیں – اس لڑکی کو کراڑا سا جواب دیتے اپنی دو انگلیوں سے پہلے اپنی آنکھوں کی طرف اشارہ کرتے اور پھر اس کی انکھوں کی جانب اشارہ کرتے وہ سکندر کی جانب بڑھ گئی تھی –
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
شاہ جی !! اس نے سکندر کے پاس جاتے تھوڑے فاصلے پر کھڑے ہوتے اسے پکارا تھا – اس کی اواز پر سکندر اپنے بزنس پاٹنرز کو ایکسکیوز کرتا اس کے پاس آیا تھا – ہاں جی کیا ہوا ہے ؟؟ سکندر اس کے پاس اتے بولا – کچھ نہیں ہوا بس مجھے گھر جانا ہے – وہ اس کا بازو پکڑتے چور نگاہوں سے اس لڑکی کو دیکھتی بولی جو انہیں ہی دیکھ رہی تھی – کیوں گھر کیوں جانا ہے ؟؟ کسی نے کچھ کہا ہے کیا ؟؟ نہیں مجھے کسی نے کچھ نہیں کہا بس میں بور ہو رہی ہوں اور میری طبعیت بھی سہی نہیں ہے تو بس مجھے گھر جانا ہے – سکندر کے پوچھنے وہ جلدی سے بولی –
اوکے چلو ٹھیک ہے میں زرا مل لوں فراز سے اور اسے بتا دوں ہمارے جانے کا – میزبان ہے نہ تو بتانا ضروری ہے – سکندر اس کی گال پر تھپکی دیتے مسکرا کر پیار سے کہتے وہاں سے فراز کی جانب چل دیا جبکہ اس کے جاتے ہی عنایہ نے جتائی نظروں سے اس لڑکی کو دیکھا تھا جس کا منہ دیکھنے والا تھا – عنایہ کے اپنی جانب جتائی نظروں سے دیکھنے پر وہ پیر پٹخٹی وہاں سے چلی گئی جبکہ عنایہ سکندر کا انتظار کرنے لگی – چلو چلیں – سکندر نے اس کے قریب آتے کہا جس پر عنایہ سر ہلاتی اس کے ساتھ چل پڑی – گھر تو جا رہے ہیں مگر میری بات دیہان سے سن لو – گھر جا کر یہ طبعیت کا بہانا مت بنانا کیوں کہ گھر جا کر میرا بور ہونے کا ارادہ نہیں ہے –
گاڑی میں بیٹھتے سیٹ بیلٹ باندھتے وہ عنایہ سے بولا – کیا مطلب میں سمجھی نہیں آپ کی بات – سکندر کی باتیں کی اسے سمجھ نہیں آئی تھیں اس لیے اس سے پوچھنے لگی – مطلب کہ گھر جا کر میرا سونے کا ارادہ بلکل نہیں ہے بلکہ تمہاری خوبصورتی سراہنے کا ہے – گاڑی سٹارٹ کرتے اس نے عنایہ کو آنکھ مارتے اپنی بات کا مطلب بتایا تھا جس پر عنایہ کے گال لال ہوئے تھے – اپ بھی نہ بہت بے شرم ہیں – وہ شرما کر کھڑکی سے باہر دیکھتی بولی جس پر سکندر کا قہقہ گونجا تھا –
تو بیوی کے سامنے کون شریف بنتا ہے ہر کوئی بے شرم ہی ہو جاتا ہے – سکندر کی بات پر وہ شرماہٹ بھری ہسی ہس دی تھی – داد اور کومل کی شادی میں کتنے دن رہ گئے ہیں ؟؟ بات بدلنے کو اس نے سکندر سے پوچھا – ایک ماہ رہ گیا ہے – میں بھی تم سے کہنے والا تھا تم شاپنگ کر لینا اگر کرنی ہوئی تو – نہیں مجھے نہیں کرنی شاپنگ بہت کپڑے جوتے پڑے ہیں میرے پاس – سکندر کے کہنے پر وہ جلدی سے بولی جس پر سکندر نے بھی ہاں میں سر ہلایا تھا –
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial