قسط: 12
تم یہ یہ جو دو کباب رہ گئے ہیں انہیں تل کر لے آو میں چائے لے جاتی ہوں – پھر شاہ جی اور داد بھائی نے جانا بھی ہے انہیں دیر ہو رہی ہے – عنایہ چائے کی ٹرے اٹھا کر کومل سے کہتی کچن سے باہر نکل گئی تھی – سکندر اور داد دونوں ہی کچھ دیر کے لیے آئے تھے کچھ فائیلز لینے اور عنایہ نے انہیں چائے پینے تک روک لیا تھا –
وہ چائے کے ٹرے تھامے اپنے اور سکندر کے مشترکہ کمرے کے باہر کھڑی پاوں کی مدد سے دروازہ کھولنے لگی تھی کہ اندر سے آنے والی باتوں کی اواز پر وہیں رک کر داد اور سکندر کی باتیں سننے لگی – اندر داد سکندر سے کوئی سوال پوچھ رہا تھا اور اسے سننا تھا کہ اخر سکندر کیا جواب دیتا ہے – لیکن اگر اسے علم ہوتا کہ سکندر کیا جواب دے گا تو وہ کبھی بھی وہاں کھڑی ہو کر ان کی باتیں نہ سنتی –
:::::: :::: ::::::: ::::: :::::::: ::::::: ::::::::
شاہ جی اب تو آپ کے عنایہ جی کے درمیان سب ٹھیک ہے – اپ نے انہیں بیوی کے طور پر قبول بھی کر لیا ہے ان سے محبت کرنے لگے ہیں آپ تو پھر کب آپ انہیں حویلی لے کر جائیں گے – بی جان خوش ہوں گی ان سے مل کر – خاص کر آپ کی شادی کا سن کر تو وہ بہت خوش ہو جائیں گی – داد کے کہنے پر سکندر جو کھڑکی کے پاس کھڑا باہر لان کا نظارہ دیکھ رہا تھا وہاں سے ہٹتا اس کے قریب آکر صوفے پر بیٹھا تھا – تمہیں کس نے کہہ دیا کہ میں اسے حویلی لے کر جاوں گا ؟؟ اور یہ کس نے کہہ دیا کہ مجھے اس سے محبت ہے ؟؟
سکندر کے الٹا عجیب سے سوال پوچھنے پر داد نے اسے نا سمجھی سے دیکھا تھا – کیا مطلب سائیں کہ کس نے کہا – ظاہر سی بات ہے خود دیکھا ہے میں نے آپ کی عنایہ بی بی کے لیے کئیر اور ان سے نزدیکیاں – سب کچھ تو یہ ہی ظاہر کرتا ہے کہ اپ کو ان سے محبت ہو گئی ہے – داد کے کہنے پر سکندر نے قہقہ لگایا تھا – اف داد مجھے لگتا تھا تم مجھے سمجھتے ہو مگر نہیں تم بھی مجھے پوری طرح نہیں سمجھتے – وہ سب دیکھاوا ہے داد سب کچھ دیکھاوا ہے – اس کی کئیر کرنا اس کے نخرے اٹھانا سب کچھ دیکھاوا ہے – مجھے اس سے محبت نہیں ہے بس اٹریکشن ہے اس سے –
اس سے زیادہ کچھ نہیں – اس کی خوبصورتی پر میرا دل اٹریکٹ ہوا تو میں نے سوچا ویسے بھی وہ میری بیوی ہے تو چلو دل کو بہلا لیتے ہیں کچھ دن – شادی کا میرا موڈ نہیں ہوتا جب تک تب تک اس سے اپنی ضرورتیں پوری کر لیتا ہوں – اب اس پر اتنے خرچے کیے ہیں میں نے تو اس سے وصولی بھی تو کرنی تھی نہ – اور میں نے بی جان سے کہہ دیا ہے کہ وہ دیکھ سکتی ہیں میرے لیے کوئی بھی رشتہ میں شادی کے لیے تیار ہوں – تو عنایہ کو حویلی لے کر جانے کا سوال ہی نہیں ہے – وہ یہیں رہے گی اور میرے دل کو بہلانے کا زریعہ بنی رہے گی – اس کی خوبصورتی سے جب تک دل نہیں بھر جاتا تب تک – اور تمہیں پتا ہے اس میں مزہ بھی ہے – جانتے ہو کیسے ؟؟
ایسے کہ وہ لڑکی جس نے مجھ سے شادی سے انکار کیا تھا ، جو مجھے اہمیت نہیں دیتی تھی ، باقی لڑکیوں کی طرح مجھ پر مرتی نہیں تھی – وہ لڑکی اب میرے عشق میں گرفتار ہے – اس کی انکھوں میں جہاں پہلے نفرت تھی اب جب میں اپنے لیے محبت دیکھتا ہوں نہ تو مجھے ہسی آتی ہے اس پر اور خود پر غرور ہوتا ہے – داد تو انکھیں پھارے سکندر کی باتیں سن رہا تھا – اسے یقین نہیں ارہا تھا کہ سامنے بیٹھا شخص جو ایک عورت کو کھلونے کے طور پر استعمال کر رہا تھا وہ اس کا سائیں تھا – جس نے عورت کو نظر اٹھا کر دیکھا بھی نہیں تھا کبھی- شاید سکندر سہی کہہ رہا تھا وہ کبھی اسے اچھے سے جان ہی نہیں پایا تھا – مگر سائیں یہ سب غلط ہے –
جب عنایہ جی کو پتا لگے گا تو ٹوٹ جائیں گی – وہ تو پہلے ہی دکھوں کی ماری تھیں – وہ آپ کی طرف سے ملنے والے اس دھوکے پر ٹوٹ جائیں گی – داد کی بات پر اس سے پہلے کہ سکندر کوئی جواب دیتا باہر سے کچھ ٹوٹنے کی آواز پر داد اور سکندر دونوں کا دیہان دروازے کی جانب گیا تھا اور وہ دونوں جلدی سے اٹھ کر دروازے کی جانب بھاگے تھے – مگر دروازہ کھولتے ہی سامنے عنایہ کو دیکھ ان دونوں کا رنگ اڑا تھا جس کے پاوں کے پاس چائے کے کپوں کی ٹرے الٹی پڑی تھی اور کچھ گرم چائے اس کے پاوں پر بھی گری تھی مگر اسے اس درد کی پرواہ ہی کہاں تھی بلکہ یہ درد تو اسے محسوس ہی نی ہوئی تھی دل میں اٹھنے والے درد کے سامنے –
وہ بے یقینی بھری نگاہوں سے سکندر کو دیکھ رہی تھی جبکہ آنکھوں سے آنسوں لگاتار بہہ رہے تھے – اس کی حالت سے انہیں پتا لگ گیا تھا کہ وہ سب سن چکی تھی –
:::::::: :::::::::::::: ::::::::::::::::::::::::::::::::
عنایہ میری بات سنوں !! سکندر نے تحمل سے کہتے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھنا چاہا مگر عنایہ نے ایک جھٹکے سے اس کا ہاتھ خود سے دور کیا تھا – دور رہیں مجھ سے – خبردار جو آپ نے مجھے ہاتھ بھی لگایا – سکندر کے ہاتھ کو جھٹکنے کے ساتھ وہ دو قدم پیچھے لیتی چیختے ہوئے بولی تھی – داد کو اس کی حالت پر ترس ا رہا تھا – جبکہ کومل جو کچھ ٹوٹنے کی آواز سن بھاگ کر اوپر ائی تھی حیرت سے سامنے چلتا تماشہ دیکھ رہی تھی -کیوں نہیں لگاوں تمہیں ہاتھ ؟؟ ہر طرح سے چھو سکتا ہوں تمہیں اور تم روک بھی نہیں سکتی –
عنایہ کی ٹون پر سکندر بھی اپنے روپ میں واپس آتا بولا جس پر عنایہ نے بھی دو قدم واپس آگے لیتے رونے کے سب لال ہوئی اپنی آنکھوں کو سکندر کی آنکھوں میں ڈالا تھا – بھول ہے آپ کی سکندر شاہ کہ اب میں آپ کو خود کو چھونے دوں گی – بھول ہے آپ کی کہ میں اب اور خود کا تماشہ بننے دوں گی – بھول ہے آپ کی کی میں اب آپ کے لیے ایک کھیلونا بنوں گی – بس بہت ہو گیا لیکن اب میں آپ کو میرے جزبوں اور میرے جسم سے کھلینے کا حق نہیں دوں گی – وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ایک ایک لفظ چباتے ہوئے بلند آواز میں بولتی سکندر کو وہ عنایہ بلکل نہیں لگی تھی جو ڈرپوک تھی – اس وقت اسے عنایہ کی آنکھوں میں محبت کہیں نظر نہیں آرہی تھی بلکہ اب اس محبت کی جگہ شدید نفرت نظر آرہی تھی –
میں پاگل یہ سمجھتی رہی کہ آپ بھی مجھ سے محبت کرنے لگے ہیں اور خود دیوانوں کی طرح میں نے آپ کو چاہا مگر مجھے کیا علم تھا کہ میں تو آپ کے لیے ایک کھلونا تھی جس کے قریب آپ بس اپنی ضرورت اور دل جوئی کے لیے آتے تھے مگر اب اور نہیں بہت ہوگیا – اور یہ مت سمجھیے گا کہ میں ہر بار کی طرح روں گی – نہیں بلکل نہیں میں بلکل بھی نہیں روں گی بلکہ مضبوط بن کر دیکھاوں گی آپ کو اور اس گھر سے بھی دور چلی جاوں گی جہاں آپ کی پرچھائی بھی نظر نہ آئے مجھے اب آپ کے ساتھ کوئی رشتہ رکھنا ہی نہیں ہے مجھے طلاق چاہیے – عنایہ کی آخری بات پر سکندر کا نے اس کی بازو کو اپنے سخت ہاتھ کی فولادی گرفت میں لیا تھا – بھول ہے تمہاری کہ میں تمہیں طلاق دوں گا اور یہ سوچ بھی نکال دو دماغ سے کہ تم یہاں سے کہیں جا سکتی ہو – دیکھتا ہوں میں کہ تم یہاں سے نکلتی بھی کیسے ہو –
غصے سے کہتےعنایہ کی بازو کو وہ ایک جھٹکے میں چھوڈتا وہاں سے جانے لگا مگر عنایہ کے الفاظ پر اس کے قدم رکے تھے – لوں گی طلاق آپ سے نہیں رہنا مجھے اب آپ کے ساتھ اس رشتے میں اور جاوں گی یہاں سے آپ کی دنیا سے دور جا کر دیکھاوں گی پھر چاہے مجھے موت کو گلے لگا کر ہی کیوں نہ جانا پڑے – وہ بھی غصے سے اسے چیلنج کرکے کہتی وہاں سے بھاگ کر جاتی اپنے پرانے کمرے میں بند ہو گئی تھی – اس کے جاتے ہی سکندر بھی وہاں سے چلا گیا تھا اور سکندر کے جاتے ہی داد بھی اس کے پیچھے گیا تھا مگر کومل کو عنایہ کا خیال کرنے کا کہہ کر جانا نہیں بھولا تھا –
::::::::: :::::::: ::::::::: :::::::::::: ::::::::::: ::::::::::
سکندر گھر آیا تو بی جان کو ہال میں رکھے صوفوں پر بیٹھے پایا جو ہاتھوں میں چند فوٹوز لیے انہیں دیکھ رہیں تھیں – انہیں بلند آواز سلام کرتے وہ سیڑھیاں چڑھنے لگا – اس کا موڈ بہت خراب تھا اور اس کا کسی سے بھی بات کرنے کا موڈ نہیں تھا – اس لیے وہ سیدھا اپنے کمرے میں جانا چاہتا تھا مگر ابھی اس نے سیڑھیوں پر قدم رکھے ہی تھے کہ بی جان کی آواز پر اس نے انہیں پلٹ کر دیکھا تھا – سکندر ادھر آو اور یہ دیکھو زرا – زلیخہ نے چند لڑکیوں کی تصویریں دیں تھیں کہ ان میں سے پسند کر لیں تو بیٹا تم ان میں سے پسند کر لو – بی جان کی بات پر اس کا رہے سہے موڈ کا بھی ستیاناس ہوا تھا – پلیز بی جان میرا ابھی بلکل بھی موڈ نہیں ہے کچھ کرنے کا –
آپ رکھ دیں ان فوٹوز کو میں بعد میں دیکھ لوں گا – بعد میں تو بھی دیکھنا ہے نہ تو ابھی دیکھ لو تاکہ میں جلدی سے زلیخہ سے اس لڑکی کے بارے میں بات کر سکوں – سکندر بی جان کو جواب دے کر جانے ہی والا تھا مگر بی جان نے پھر اسے فوٹو دیکھانے کی ضد کی تھی جس پر وہ سپاٹ چہرہ لیے واپس سیڑھیاں اترتا ان کے قریب ہی صوفے پر جا کر بیٹھ گیا تھا – یہ دیکھو اور بتاو کون سی والی اچھی لگی تمہیں ؟؟ اس کے بیٹھتے ہی بی جان نے ساری تصویریں اس کے ہاتھ میں تھماتے کہا جس پر اس نے عجیب سا منہ بناتے تصویریں دیکھنا شروع کی تھیں مگر یہ کیا اسے تو ان سب تصویروں میں عنایہ کا چہرہ نظر آرہا تھا –
بار بار سب تصویروں کو اوپر نیچے کرتے اس نے پھر سے دیکھنا چاہا مگر پھر اسے تصویروں میں عنایہ کا ہستا مسکراتا چہرہ نظر آرہا تھا – اب کہ اس نے آنکھوں کو زور سے بند کرتے کھولا تھا اور پھر تصویروں پر ایک نظر ڈالی تو اسے اصل لڑکیوں کی شکلیں نظر آئی تھیں جن کی وہ تصویریں تھیں – تو پاگل ہوگیا ہے سکندر – لگتا ہے آج کے تماشے کا کچھ زیادہ ہی اثر لے لیا ہے تم نے – اسی لیے ہر جگہ تمہیں عنایہ نظر آرہی ہے – وہ تصویریں سائیڈ پر رکھتا خود سے ہلکے سے بڑبڑایا تھا – کوئی پسند ائی ؟؟ بی جان کے پوچھنے پر اس نے انہیں دیکھا تھا –
نہیں کوئی بھی پسند نہیں آئی کیوں کہ کوئ بھی پیاری نہیں ہے اور پلیز بی جان ابھی سے مت شروع ہو جائیں لڑکیاں دیکھنے – میں نے صرف آپ کے لیے تیار ہوا ہوں شادی کرنے کے لیے تو پلیز ابھی مجھے مینٹلی تیار ہونے دیں اور اس زلیخہ سے کہیں ابھی اپنے رشتے اپنے پاس رکھے – وہ بی جان سے کہتا اٹھ کھڑے ہوتے سیڑھیاں چڑھتا اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا – بی جان سے تو اس نے یوں ہی بول دیا تھا کہ کوئی لڑکی نہیں پیاری درحقیقت اس نے دیکھا ہی نہیں تھا انہیں – اس کو ابھی صرف عنایہ ہی نظر آرہی تھی اس لیے ابھی اس کا کچھ بھی دیکھنے کا موڈ نہیں تھا –
بی جان تو حیرت سے اسے سیڑھیاں چڑھتا دیکھ رہیں تھیں اور پھر انہوں نے وہ ساری تصویریں اٹھائی تھیں – اچھی بھلی تو ہیں سب پھر پتا نہیں شاہو کو کیوں نہیں پسند آئی کوئی – وہ خود سے ہی حیرت سے بڑبرائیں مگر انہیں کیا پتا تھا کہ شاہو صاحب نے تو دیکھا ہی نہیں تھا ان تصویروں میں موجود لڑکیوں کی شکل کو –
::::::::::::::: :::::::::::::::: ::::::::::::::::::::
عنایہ جی دروازہ کھولیں پلیز – کومل جو کب سے سکندر اور داد کے جانے کے بعد سے عنایہ کے کمرے کا بند دروازہ کھٹکھٹا رہی تھی پھر سے اندر موجود عنایہ سے دروازہ کھولنے کی گزارش کرنے لگی – کومل پلیز مجھے تنگ مت کرو اور چلی جاو یہاں سے – کتنی دفع کہوں میں کہ مجھے اکیلا چھوڈ دو – میرا کسی سے کوئی بات کرنے کا موڈ نہیں ہے – اندر سے عنایہ نے اسے جانے کا کہا تھا –
اس کے بولنے سے پتا چل رہا تھا کہ وہ رو رہی تھی مگر کومل کر بھی کیا سکتی تھی اس لیے ایک خاموش نگاہ دروازے پر ڈالٹی وہاں سے چلی گئی تھی – رو تو وہ بھی رہی تھی – اسے بھی سکندر پر شدید غصہ آرہا تھا مگر وہ تو اس غصے کو سکندر پر اتار بھی نہیں سکتی تھی بس عنایہ کے لیے رو ہی سکتی تھی –