بے قدرہ

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 13

سمجھتی کیا ہے وہ کہ میں مرا جا رہا ہوں اس کے بغیر – مجھے بھی کوئی فرق نہیں پرتا اس کے روٹھنے یا دور جانے سے – اٹریکشن تھی وہ بس اور کچھ نہیں تھی – آفس چئیر پر بیٹھا سکندر سامنے بیٹھے داد سے کہہ رہا تھا جو اپنی ہسی بمشکل روکے بیٹھا تھا – سائیں ایک بات کہوں !! داد نے سکندر کے چپ ہوتے کہا – ہاں کہو کیا کہنا ہے ؟؟ سکندر نے اسے بولنے کی اجازت دیتے کہا – آپ نے خود کو اب تک دھوکے میں رکھا ہوا ہے اور یہ بات میں سو پرسنٹ نہیں بلکہ ہزار پرسنٹ یقین سے کہہ رہا ہوں –
داد کی بات پر سکندر نے سوالیہ انداز میں اپنی دائیں آئیبرو اچکائی تھی – کہنا کیا چاہتے ہو ؟؟ میں سمجھا نہیں تمہاری بات کا مطلب – سکندر کے پوچھنے پر داد اپنی چئیر سے تھوڑا آگے ہوتے بیٹھا تھا – آپ کہتے ہو کہ آپ کو عنایہ جی سے محبت نہیں بلکہ اٹریکشن تھی – تو سائیں پھر آپ کو اتنی بے چینی کیوں ہو رہی ہے عنایہ جی کے سب پتا چلنے کے بعد آپ سے نفرت کرنے پر ؟؟ مجھے تو کوئی بےچینی نہیں ہو رہی – داد کے سوال پر سکندر فوراً بولا جس پر داد نہ میں سر ہلاتا ہلکا سا ہسا تھا –
نہیں سائیں یہ بے چینی ہی ہے جو آپ کا کسی کام میں دل نہیں لگ رہا – آپ کی ہر بات پر عنایہ جی کا زکر ہوتا ہے – اور یہ جو ابھی آپ نے بولا ہے نہ آپ کو فرق نہیں پرتا وغیرہ وغیرہ یہ آپ مجھے پچھلے ایک ہفتے سے جب سے عنایہ جی کو سچائی کا علم ہوا ہے بول رہے ہیں وہ بھی دن میں چار چار مرتبہ – اور جو آپ عنایہ بی بی کی تصویریں دیکھتے ہیں فون میں وہ سب بھی یہ بات واضح کرتا ہے کہ جسے آپ اٹریکشن سمجھ رہے ہو نہ وہ محبت ہے – مگر آپ مانو تو نہ –
داد نے تو اس کے سامنے پورا خلاصہ رکھ دیا تھا جبکہ سکندر تو خود داد کی باتوں سے حیران ہوا تھا کہ کیا واقع وہ یہ سب کر رہا تھا – بس بس زیادہ باتیں نہ کرو کچھ بھی سوچتے رہتے ہو اٹھو اور جاو اپنا کام کرو – دیکھو جا کر ورکرز صحیح سے کام کر رہے ہیں یا نہیں – جب داد کی باتوں کو سوچتے سوچتے اس کا دماغ گھوما تو وہ داد پر چڑھائی کرتا بولا جس پر داد مسکراتے ہوئے کندھے اچکاتا آفس روم سے باہر نکل گیا – جبکہ سکندر پھر سے داد کی باتوں کے بارے میں سوچنے لگا تھا – ہاں یہ صحیح تھا کہ جب سے عنایہ نے اس سے دوری بنائی تھی اس کا دل اداس رہتا تھا –
ہر روز رات عنایہ سے باتوں کی ایسی عادت پڑی تھی کہ اب اس ایک ہفتے سے وہ رات کو فون کو دیکھتا رہتا تھا – کیا واقع مجھے عنایہ سے محبت تھی جسے میں اٹریکشن سمجھتا رہا – اس نے خود سے ہی سوال کیا تھا – مگر دل کا دیے جانے والا جواب اسے قبول نہیں تھا اس لیے ساری سوچوں سے ریہائی پانے کا سوچتے وہ اپنا لیپ ٹاپ کھولتا کام میں خود کو بزی کر گیا تھا –
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
سکندر کی نہایت ضروری میٹنگ تھی جو اس نے اور داد نے ابھی اٹینڈ کرنی تھی اور اسی لیے وہ جلدی سے میٹنگ روم کی طرف بڑھ رہے تھے کیونکہ دوسری ٹیم جس کے ساتھ میٹنگ تھی وہ میٹنگ روم میں انتظار کر رہی تھی – ابھی وہ دونوں میٹنگ روم کے دروازے کے باہر پہنچے ہی تھے کہ سکندر کے فون پر عنایہ کی کال آنے لگی – سکندر نے حیرت سے فون پر اتی کال کو دیکھا تھا – کیونکہ اس دن کے بعد وہ آج اسے کال کر رہی تھی – جلدی سے اس نے کال پک کرتے کان سے لگائی تھی – تو عنایہ جی کی محبت پھر سے جاگ ہی گئی لگتا ہے –
سکندر نے فون پک کرتے تنزیہ کہا مگر اگلی جانب سے عنایہ کی بجائے کومل بولی تھی – سائیں یہ میں ہوں کومل – ہاں کومل خیر تھی جو تم نے عنایہ کے فون سے کال کی ؟؟اس نے جلدی سے کومل سے پوچھا جبکہ کومل کا نام سن داد کے کان بھی کھڑے ہوئے تھے – شاہ سائیں وہ عنایہ جی گھر چھوڈ کر چلی گئی ہیں – اگلی جانب سے کومل کی بات پر سکندر ایک پل کے لیے ساکت رہ گیا تھا – کہاں گئی ہے وہ ؟؟ تم نے روکا کیوں نہیں ؟؟ اور تب ہی کیوں نہیں مجھے کال کرکے بتایا ؟؟ سکندر غصے سے اس پر چیختا بولا – سائیں روکا تھا مگر وہ رکیں ہی نہیں – ابھی وہ نکلیں ہیں گھر سے اور میں نے فوراً اپ کو کال ملا کر بتا دیا – کومل نے جلدی سے اسے بتایا کہ کہیں وہ پھر سے اس پر نہ چیخنا شروع ہو جائے – اوکے میں دیکھتا ہوں –
سکندر نے جلدی سے کہتے کال کاٹی – کیا ہوا سائیں سب خیر ہے نہ ؟؟ داد نے اس کے پریشان ہونے پر پوچھا – کچھ بھی سہی نہیں ہے – وہ عنایہ گھر سے چلی گئی ہے اور مجھے جانا ہوگا ابھی – تم ایسا کرو میٹنگ اٹینڈ کر لو میری جگہ اور میں جا کر عنایہ کو ڈھونڈتا ہوں – سکندر کے بتانے پر داد کو بھی فکر ہوئی تھی – ٹھیک ہے سائیں آپ جائیں میں کر لوں گا میٹنگ ہینڈل – داد نے اسے کہا تھا – اوکے پھر میں چلتا ہوں – سکندر اس سے کہتا جلدی سے وہاں سے نکلا تھا –
:::::: :::::::: :::::::: ::::::::::: ::::::::::
اسے تقریباً ایک گھنٹا ہو گیا تھا عنایہ کو ڈھونڈتے – وہ اپنا فون بھی تو ساتھ نہیں لے کر گئی تھی – ابھی وہ گاڑی سڑک کے ایک سائیڈ پر کھڑا کرتا خود گاڑی سے باہر نکلا ہی تھا کہ تبھی اس کی نظر سڑک کے بیچوں بیچ شکستہ قدموں سے چلتی لڑکی پر گئی – وہ عنایہ ہی تھی اسے دیکھ کر سکندر کو سکھ کا سانس آیا تھا مگر اس کے پیچھے سے تیز رفتار میں آتے ٹرک کو دیکھ اس کا سانس رکا تھا – بنا ادھر ادھر دیکھے وہ تیز رفتار سے بھاگتا اس کے قریب پہنچتا ٹرک کے اس تک پہنچنے سے پہلے اسے سڑک سے ہٹاٹا فٹ پاتھ پر لے ایا تھا – اسے اپنے سامنے صحیح سلامت دیکھ اس کی جان میں جان آئی تھی اور وہ اسے کس کر گلے لگا چکا تھا –
اسے اس پل ادارک ہوا تھا کہ وہ لڑکی اس کے لیے کتنی اہمیت رکھتی تھی – اس کی جان خطرے میں دیکھ اسے یوں لگا تھا جیسے اس کی اپنی خود کی جان جا رہی ہوں – اسے احساس ہو گیا تھا کہ وہ جسے اٹریکشن سمجھ رہا تھا وہ تو دراصل محبت تھی – مگر اسے علم نہیں تھا – وہ اپنی انا میں اس محبت کو اگنور کرتا آیا تھا – دور ہٹیں مجھ سے ! میں نے کہا دور ہوں مجھ سے مجھے گھن آرہی ہے خود سے آپ کے چھونے پر – نفرت محسوس ہوتی ہے اپنے وجود سے – دور ہوں مجھ سے –
عنایہ کے بولنے اور اسے خود سے دور کرنے پر سکندر ہوش میں اتا اس سے دور ہوا تھا مگر اب اس کے چہرے پر غصے کی رمک تھی – یہ سوچ کر اسے عنایہ پر غصہ آرہا تھا کہ اگر وہ نہ پہنچ پاتا وقت پر تو وہ ہمیشہ کے لیے اسے کھو دیتا – کیا سمجھتی ہو تم خود کو ؟؟ ہاں بولو کیا سمجھتی ہو خود کو ؟؟ گھر چھوڈ کر کیوں آئی تم ؟؟ اگر میں نہ پہنچتا وقت پر تو یہاں سڑک پر تمہاری لاش پری ہوتی- سکندر غصے سے اس کے دونوں بازو اپنے ہاتھوں کی گرفت میں لیتے اسے جھنجھورتے ہوئے اس پر چیختا بولا جس کا عنایہ پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا – اچھا ہے نہ مر جاتی –
سکون تو ملتا میری روح کو مر کر کہ آپ کی قید اور اس ظالم دنیا سے دور تو چلی جاتی وہ – عنایہ کے الفاظ پر سکندر نے ہاتھوں کی مٹھیاں میچتے بمشکل اپنا غصہ کم کرنے کی کوشش کی تھی – تمہیں تو میں گھر جا کر بتاتا ہوں – چلو تم گھر زرا – وہ اسے گھسیٹتے ہوئے اپنی گاڑی کی جانب لے کر جاتا بولا جبکہ عنایہ چیختی چلاتی اپنا آپ اس سے چھوڈانے کی کوشش کر رہی تھی مگر سکندر نے بھی جیسے اپنے کان لپیٹ رکھے تھے –
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
کومل ! کومل ! گھر میں داخل ہوتے ہی وہ اسکا بازو ٹی وی لاونچ میں جاتے ہی چھوڈتا کومل کو اوازیں دینے لگا جو اس کی دوسری ہی آواز پر حاظر تھی اور عنایہ کو اپنے سامنے دیکھ اس نے شکر کیا تھا – پکرو اسے اور اب دیہان رکھنا یہ گھر سے باہر نہ جا پائے – اور تم بھی میری بات کان کھول کر سن لو کہ اگر تم نے دوبارہ اس گھر سے باہر قدم رکھنے کا سوچا بھی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا – پہلے کومل سے کہتے آخر میں وہ عنایہ سے مخاطب تھا جو اس کی بات پر تنزیہ ہسی ہسی تھی – آپ سے برا کوئی ہو بھی نہیں سکتا سکندر شاہ –
میں نے بتایا تھا نہ آپ کو سکندر شاہ کا – ناول کے ہیرو کا – یقین کریں آپ اس سے بھی بہت بدتر اور ظالم ہو – اس نے تو آبرو کو جسمانی زخم دیے تھے – مگر آپ نے ؟؟ اپ نے مجھے روح کے زخم دیے ہیں – میری روح زخمی کی آپ نے – اس نے تو تمام ظلم کرنے کے بعد جب محبت کی تو اپنے ہر ظلم کا مداوا کیا – جیسے نفرت بے شمار کی ویسے ہی محبت کرنے کی بھی حد کر دی – مگر آپ ؟؟ آپ نے تو …. میں بھی کروں گا نہ تم سے بے حد محبت – میں بھی تمہاری روح پر لگائے گئے ہر زخم کا مداوا کروں گا – پر پلیز عنایہ یوں دوبارہ چھوڈ کر جانے کا سوچنا بھی مت – تمہیں پتا ہے یہ پچھلے ڈیڑھ گھنٹے میں مجھے احساس ہوا ہے کہ تم میرے لیے کتنی اہم ہو – تمہاری جان خطرے میں دیکھ مجھے یوں لگا جیسے میری اپنی جان جا رہی ہو –
مجھے تب احساس ہوا کہ جسے میں اٹریکشن سمجھ رہا تھا وہ تو محبت تھی – عنایہ جو ابھی بول رہی تھی کہ سکندر نے اس کی بات بیچ میں اچکتے بڑی محبت اور لگاو بھرے لہجے میں کہا – بس کردیں سکندر شاہ بس کر دیں – اور کتنا کھیلیں گے میرے جزبوں سے ؟؟ اور کتنی بار مجھے زخم دینے کا ارادہ ہے آپ کا – خدا کے لیے مجھے بخش دیں – آپ کی یہ غلط فہمی ہے کہ اب میں آپ کی باتوں میں آوں گی – نہیں اب میں بیوقوف نہیں بنوں گی آپ کے ہاتھوں – سنا آپ نے ؟؟ نہیں آرہی میں آپ کی جھوٹی محبت بھری باتوں میں – وہ غصے سے اسے کہتی بھاگتی ہوئی سیڑھیاں چڑھتی اپنے کمرے میں بند ہو گئی تھی جبکہ سکندر بے بسی سے اسے جاتا دیکھتا رہ گیا تھا – ہاں وہ یہ سب ہی ڈیزو کرتا تھا – اس نے خود ہی اسے خود سے بدظن کیا تھا –
اسے اس وقت شیر ایا شیر آیا والی کہانی بڑی شدت سے یاد آئی تھی – سائیں پانی لاوں ؟؟ تب سے خاموش کھڑی کومل نے اس سے پوچھا تھا جس پر سکندر نے نہ میں سر ہلاتا وہیں صوفے پر بیٹھ گیا تھا کہ تبھی باہر سے گیٹ بیل کی اواز آئی تھی – یہ کون آگیا ؟؟ دیکھو شاید داد ہو – سکندر نے بیل کی آواز پر پہلے حیرت سے کہا اور پھر داد کا سوچتے اس نے کومل کو دروازہ کھولنے کا کہا تھا جس پر وہ ہاں میں سر ہلاتی گیٹ کھولنے کے لیے چلی گئی –
:::::::::::::: :::::::::::::: ::::::::::: :::::::::: :::::::::
سائیں یہ عنایہ جی کے والدین آئے ہیں – وہ جو صوفے پر سر جھکائے بیٹھا تھا کومل کی آواز پر اس نے سر اٹھا کر سامنے دیکھا جہاں اس کے ساتھ عنایہ کی امی اور والد دونوں کھڑے تھے – ان دونوں کو دیکھ سکندر کو حیرت ہوئی تھی – اوہ نو انہیں ابھی نہیں آنا چاہیے تھا – ابھی تو عنایہ اور اس کا رشتہ بہت نازک موڑ پر تھا – ایسے میں وہ اپنے ماں باپ کو دیکھ اور شیر ہو جاتی اور ان کے ساتھ چلی جاتی – انہیں دیکھ سکندر کے اندر سے آواز آئی تھی – آئیں نہ انکل آنٹی کھڑے کیوں ہیں آپ دونوں –
وہ جلدی سے صوفے سے کھڑا ہوتا ان کے قریب جاتا شگفتہ بیگم سے پیار لیتا اور امجد صاحب سے گلے ملتا بولا تھا جس پر وہ خوش ہوتے اسے دعائیں دیتے صوفوں پر بیٹھے تھے – جاو کومل کچھ کھانے پینے کے لیے لے کر آو – وہ ان کے قریب بیٹھتا کومل سے بولا تھا جو اس کے کہنے پر فوراً کچن میں گھسی تھی – اور سنائیں انکل آنٹی کیا حال ہے آپ دونوں کا اور کیسے آگئی آج آپ کو یاد – وہ بڑی خوش مزاجی سے ان سے حال احوال پوچھنے لگا – بس بیٹا تمہارے انکل بہت بیمار رہتے ہیں – اور عنایہ کو یاد بھی بہت کرتے تھے آج کل تو بڑی مشکل سے تمہارے گھر کا پتا نکلوایا ہم نے – تمہارے گاوں والے گھر جانے کا ارادہ تھا ہمارا اگر تم یہاں نہ ملتے – شگفتہ بیگم کی بات پر اس نے حیرت سے امجد صاحب کو دیکھا تھا – کیوں کیا ہوا انکل کو ؟؟
سکندر کے پوچھنے پر شگفتہ بیگم نے ٹھنڈی آہ بھری تھی – بس بیٹا اپنے دوست کی تمارداری کے لیے گئے تھے وہ بھی ان کی طرح اپنی بیٹیوں سے محبت نہیں کرتا تھا بلکہ ان سے نفرت کرتا تھا ایک بیٹی کی شادی محلے کے اپاہج سے کروا دی اور دوسری کی شادی بھی اپنی عمر کے آدمی سے کروا دی تھی اس نے جو اس پر بہت ظلم کرتا تھا – اتنا ظلم کہ آخر ایک دن وہ لڑکی مر ہی گئی – جبکہ پچھلے دنوں ہی ان کا وہ دوست بیمار ہو گیا مگر جن بیٹوں کا اسے زعم تھا جن کو اس نے سر آنکھوں پر بیٹھایا تھا انہوں نے اسے مرنے کے لیے چھوڈ دیا اور خود اپنی بیویوں کو لیے الگ ہو گئے – اور پھر اسے ان کی دوسری بیٹی نے ہی سمبھالا – وہ بیٹی جس کو کبھی اس شخص نے پیار سے مخاطب بھی نہیں کیا تھا – بس اس دوست کا حال احوال پوچھ کر جب سے آئے ہیں تب سے ایسے ہو گئے ہیں چپ چاپ سے –
بہت برا ہارٹ اٹیک ہوا تھا اس رات انہیں اور ابھی تک شرمندگی کی گہرائیوں میں ہیں عنایہ کے ساتھ ساری زندگی کیے جانے والے رویے سے – اور یہ بھی ڈر تھا کہ عنایہ تمہارے ساتھ خوش تو ہوگی نہ – بس یہی باتیں سوچ سوچ کر دن رات ان کی حالت بگرتی جا رہی ہے – ڈاکٹر نے ٹینشن لینے سے منع کیا ہے انہیں مگر یہ کہاں کسی کی سنتے ہیں – بس عنایہ سے ملنے کی ضد کیے جاتے تھے – تو ان کے ایک دوست کے ذریعے تمہارا پتا نکلوایا ہم نے بیٹا – عنایہ نظر نہیں آرہی کہاں ہے وہ ؟؟ اسے تو بلاو – سکندر تو حیرت سے شگفتہ بیگم کی باتیں سن رہا تھا – واقع امجد صاحب پہلے سے بہت کمزور ہوئے ہوئے تھے – بات ختم کرتے ہی شگفتہ بیگم نے بے چینی سے عنایہ کا پوچھا تھا جس پر سکندر نے انہیں دیکھا تھا – جی آپ لوگ بیٹھیں میں بلا کر لاتا ہوں اسے –
وہ ان سے کہتا جلدی سے عنایہ کے کمرے کی جانب بڑھ گیا تھا – اب اسے عنایہ کو بھی کسی نہ کسی طرح کنوینس کرنا تھا کہ وہ اپنے ماں باپ کے سامنے کسی قسم کا تماشہ نہ کرے بلکہ ایک ہیپی کپل کی ایکٹنگ کرے – جانتا تھا وہ کبھی بھی اس کی بات نہیں مانے گی کیونکہ اسے تو بہانا اور موقع چاہیے تھا اس گھر سے جانے کا – مگر سکندر جانتا تھا اسے کیسے راضی کرنا تھا –
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial