بے قدرہ

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 14

وہ اچھے سے جانتا تھا کہ عنایہ نے اپنے کمرے کا دروازہ اندر سے لاک کر رکھا ہو گا اور یوں وہ شگفتہ بیگم لوگوں کے سامنے دروازہ کھٹکھٹا کر کسی قسم کی بیوقوفی نہیں کر سکتا تھا اسی لیے وہ اپنے کمرے میں جا کر عنایہ کے کمرے کی ڈوپلیکیٹ چابی لاتا دروازہ کھول کر اس کے کمرے میں داخل ہوا تھا – عنایہ اسے سامنے دیکھ پہلے تو حیران ہوئی مگر پھر حیرانگی کی جگہ غصے نے لے لی اور وہ بیڈ سے اٹھتی غصے سے اس کے قریب آئی تھی –
کیا مسلہ ہے اب اپ کے ساتھ جو میرے کمرے میں یوں آ گئے ہیں – خدا کے لیے کمرے میں تو سکون کے دو پل جینے دیں – عنایہ کے غصے سے کہنے پر سکندر نے اسے آنکھیں چھوٹی کیے دیکھا تھا اور پھر اگلے ہی لمحے اسے پکر کر دیوار کے ساتھ لگاتا اپنے ہونٹ اس کے کان کے قریب کر گیا تھا – ابھی تو میں تم سے کسی قسم کی بہس نہیں کرنے آیا اور نہ ہی میں تمہیں اپنی محبت کا یقین دلانے آیا ہوں – کیونکہ یہ کام میں بعد میں فرصت سے کروں گا مگر ابھی تمہیں نیچے لیجانے آیا ہوں – حلیہ درست کرو اپنا اور نیچے چلو کیونکہ تمہارے پیرنٹس ائے ہیں –
سکندر کی باتیں عنایہ کے سر پر سے گزری تھیں – کون آیا ہے ؟؟ اس نے حیرت سے پوچھا – تمہارے امی ابو آئے ہیں اس لیے نیچے چلو مگر ایک بات کان کھول کر سن لو خبردار جو تم نے انہیں کچھ بھی بتانے کی کوشش کی – ان کے سامنے تم ایک ہیپی کپل کی طرح ایکٹ کرو گی – سکندر کے حکم دینے پر عنایہ کے چہرے پر تنزیہ مسکراہٹ بکھری تھی – میں پاگل لگتی ہوں اپ کو جو میں بتاوں گی نہیں انہیں – اتنا اچھا موقع گنواوں گی اپ سے دور جانے کا آپ سے رہائی پانے کا – عنایہ کے تنزیہ کہنے پر سکندر نے اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیوں سے ماتھا مسلا تھا –
ٹھیک ہے شوق سے بتاو انہیں جا کر سب سچ مگر اس سے پہلے اپنے باپ کی حالت دیکھ لینا جسے ڈاکٹر نے ہارٹ اٹیک کے بعد سے ٹینشن لینے سے منع کر رکھا ہے – اور مجھے نہیں لگتا کہ تم اپنے باپ کو کھونا چاہو گی – وہ بھی تب جب تمہیں ان کا پیار نصیب ہوا ہو – سکندر نے اپنا داو کھیلا تھا جبکہ اس کی باتیں عنایہ کے سر پر سے گزر رہی تھیں – سائیڈ پر ہوں مجھے نیچے جانا ہے امی بابا کے پاس – وہ اسے خود سے دور کرتی بولتی اپنا حلیہ درست کرتی کمرے سے نکل گئی تھی جبکہ اس کے جانے کے بعد سکندر بھی کمرے سے نکلا تھا –
:::::::::::::::: ::::::::::::::: :::::::::::::::::::: ::::::::::::::
امی ! بابا ! وہ بھاگ کر سیڑھیاں اترتے ہوئے بولتی ان کے قریب جاتی امی کے گلے لگی تھی – کیسی ہو میری جان تم ٹھیک تو ہو نہ ؟؟ اسے خود سے دور کرتے امی نے فکرمندی سے پوچھا تھا – میں ٹھیک آپ سنائیں ؟؟ اس کے ٹھیک ہونے کا سن امی کو بھی سکون آیا تھا اور وہ اسے اپنی طبعت کا بتانے لگیں – مجھ سے نہیں ملو گی عنایہ ؟؟ اسے شگفتہ بیگم سے ہی باتوں میں مصروف دیکھ امجد صاحب آہستہ اور نادم آواز میں بولے تھے جبکہ ان کے یوں خود سے مخاطب ہونے پر عنایہ نے حیرت سے انہیں دیکھا تھا جو نم آنکھیں لیے اس کے خود کو دیکھنے پر اپنی باہیں پھیلا گئے تھے –
عنایہ کو یوں لگا جیسے ساری دنیا کی خوشیاں اس کے سامنے باہیں پھیلائے کھڑی ہوں – وہ امی کے پاس سے اٹھتی جلدی سے آگے بڑھتی ابا کی باہوں میں سماتی ان کے گلے لگتی پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی – جب سے پیدا ہوئی تھی اس دن سے اب تک وہ اس لمس ، اس محبت سے محروم تھی اور آج باپ کی محبت پاتے ہی اس کے آنسوں نہیں رک رہے تھے – میری بیٹی ، میری گڑیا ، میری جان مجھے معاف کردو اتنے سال میرے برے رویوں کے لیے – اپنے بدبخت باپ کو معاف کر دو میری چندہ – امجد صاحب اس کا منہ چومتے اسے پھر سے گلے لگاتے روتے ہوئے بولے تھے –
سکندر وہیں سیڑھیوں پر کھڑا یہ ایموشنل سین دیکھ رہا تھا – ایسے نہ کہیں بابا اپ مت مانگیں معافی – اپ تو بابا ہو نہ اور بابا روتے ہوئے اور معافی مانگتے اچھے نہیں لگتے – عنایہ ان کے سینے سے ہٹتی ان کے انسوں صاف کرتے ان کے ماتھے کا بوسہ لیتے ہوئے بولی – بس کردیں امجد آپ کی طبعت خراب ہو جائے گی – جانتے ہیں نہ ڈاکٹر نے آپ کو ٹینشن لینے اور ہر وہ کام کرنے سے منع کیا ہے جس سے آپ کی ہارٹ بیٹ متاثر ہو – شگفتہ بیگم کے الفاظ پر عنایہ نے پہلے انہیں اور پھر بابا کو حیران کن نگاہوں سے دیکھا تھا – کیا ہوا ہے بابا کو ؟؟ اس نے پریشانی سے امجد صاحب کو صوفے پر بیٹھاتے امی سے پوچھا جس پر انہوں نے اسے ساری بات بتائی تھی –
بابا آپ پلیز اپنا خیال رکھا کریں – وہ امجد صاحب کے کندھے پر سر رکھتی بولی جس پر امجد صاحب نے مسکرا کر اس کے سر کا بوسہ لیا تھا – سکندر کہاں گیا ؟؟ تمہیں بلانے گیا تھا خود ہی غائب ہو گیا – شگفتہ بیگم نے ادھر اُدھر دیکھتے عنایہ سے پوچھا جس نے ان کے پوچھنے پر سیڑھیوں کی جانب دیکھا جہاں پہلے وہ کھڑا تھا مگر اب نہیں تھا – شاید کمرے میں ہوں گے – عنایہ کے جواب دینے پر امی نے ہاں میں سر ہلایا تبھی کومل لوازمات سے بھری ٹرالی لیے وہاں ائی تھی – امی یہ کومل ہے – ویسے تو سکندر نے اسے یہاں کام کے لیے رکھا ہے مگر میری یہ بیسٹ فرینڈ ہے – اپ کو یاد ہوگا شادی پر سکندر کے ساتھ ایک لڑکا تھا –
یہ اس کی منگیتر ہے اگلے ماہ اس کی شادی ہے – کومل کے وہاں اتے ہی عنایہ نے اس کے پاس جاتے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے خوش دلی سے اس کا تعارف کروایا جس پر کومل آگے بڑھتی شگفتہ بیگم اور امجد صاحب سے پیار لیتی ان کو چیزیں سرو کرنے لگی – عنایہ تم خوش تو ہو نہ ؟؟ سکندر کا رویہ تمہارے ساتھ ٹھیک ہے نہ ؟؟ باتوں کے
دوران اچانک بابا کے پوچھنے پر اس کا دل تو کیا کہ سب بتا دے مگر بابا کو پریشان کرکے ان کی طبعیت خراب نہیں کر سکتی تھی –
جی بابا میں بہت خوش ہوں – سکندر بہت اچھے ہیں وہ میری بہت کئیر کرتے ہیں اور آپ کو پتا ہے انہوں نے مجھے آگے اڈمیشن بھی لے کر دیا ہے – وہ چہرے پر جھوٹی مسکراہٹ سجائے ان سے بولی جس پر بابا نے شکر کیا تھا – تھوڑی ہی دیر میں سکندر بھی آگیا تھا اور وہ کافی دیر تک باتوں میں مصروف رہے – سکندر بیٹا اگر برا نہ لگے تو عنایہ کو ہم کچھ دن اپنے ساتھ لے جائیں ؟؟ شگفتہ بیگم کے پوچھنے پر سکندر کا منہ کی طرف چائے کا کپ لے کر جاتا ہاتھ رکا تھا – اس سے پہلے کہ عنایہ جلدی سے ہامی بھرتی اس نے اس سے بھی زیادہ جلدی انکار کیا تھا –
ایم سوری آنٹی ابھی تو نہیں پر میں بہت جلد لے کر آوں گا عنایہ کو – دراصل مجھے اور اس گھر کو عنایہ کی عادت ہو گئی ہے اور اب عنایہ کے بغیر دل نہیں لگتا تو میں خود جلد لے کر آوں گا اسے – سکندر کے منع کرنے پر عنایہ نے مٹھیاں میچے اسے گھورا تھا – ٹھیک ہے بیٹا جیسے تمہاری مرضی – ویسے بھی اس سے بڑھ کر کیا خوشی کی بات ہو گی کہ ہماری بیٹی اپنے گھر میں خوش اور آباد رہے – عنایہ جو اختلاف کرنے ہی والی تھی سکندر کی بات پر مگر بابا کے الفاظ پر چپ ہوتی محظ مسکرا دی تھی –
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
شگفتہ بیگم اور امجد صاحب کو گیٹ سے روانہ کرتے وہ اندر آئے تو اچانک سکندر نے عنایہ کا ہاتھ پکڑتے اسے روکا تھا – شکریہ عنایہ اپنے والدین کے سامنے سچ نہ بولنے کے لیے- وہ جو سکندر کے ہاتھ پکرنے پر غصے سے اسے دیکھ رہی تھی کہ اس کے الفاظ پر اور اس کا پارہ ہائی ہوا تھا – کسی خوش فہمی میں مت رہنا سکندر شاہ – میں نے صرف اپنے بابا کی وجہ سے جھوٹ بولا – کیونکہ میں ان کو پریشان نہیں کر سکتی تھی – لیکن اب آپ اپنی فکر کریں کیونکہ پہلے تو میرے پاس کوئی ٹھیکانہ نہیں تھا جہاں میں جا سکتی یہاں سے نکل کر مگر اب میرے بابا کا گھر ہے –
تو بہت جلد میں یہاں سے چلی جاوں گی – سکندر کو غصے سے کہتے اس کا وجود کانپنے لگ گیا تھا – تمہارے خوابوں میں تم جا سکتی ہو میری دنیا سے دور – میں نے تو تمہیں تب نہیں جانے دیا جب مجھے تم سے محبت نہیں تھی – اب تو محبت بھی ہے تم سے تو میری جان میرے جیتے جی تو کبھی تم مجھ سے دور نہیں جا سکتی – ہاں اگر تمہیں اتنا شوق ہے نہ تو دعا کرو میں مر جاوں پھر ہی یہ ممکن ہے – سکندر کے کہنے پر عنایہ نے اسے دیکھا تھا – دل میں اس کے مرنے کی بات ہر ہلچل تو مچی تھی مگر اس نے ڈپٹ پر دل کو بیٹھا دیا تھا – پہلے ہی سب کچھ اس دل کی کرنی تھی – امین ! آمین ! آمین ! عنایہ کے بار بار آمین کہنے پر سکندر کے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی – وہ واقع اسے خود سے بے حد دور کر چکا تھا –
ہس ہس کر کرتے ہیں میرے پیار کی توہین !!
میں کہتا ہوں مر جاوں ، وہ کہتے ہیں آمین !!
سکندر کے شعر پڑھنے پر عنایہ نے محظ اسے نفرت سے دیکھا تھا اور وہاں سے پلٹتی سیڑھیوں کی جانب بڑھ گئی – ابھی وہ سیڑھیوں کے پاس پہنچی ہی تھی کہ اس کا سر بڑی طرح چکرایا تھا اور آنکھوں کے سامنے مکمل اندھیرے نے گھر کیا تھا – اپنے چکراتے سر کو سمبھالتے اس نے آگے قدم رکھنا چاہا مگر ناکام ہوتی وہیں زمین پر بےہوش ہوتے گری تھی – سکندر جو اسے ہی دیکھ رہا تھا اس کے بےہوش ہونے پر بھاگ کر اس کے قریب پہنچا تھا – عنایہ ! عنایہ ! کیا ہوا تمہیں ؟؟ آنکھیں کھولو –
وہ اس کے پاس نیچے بیٹھتا اس کا کا چہرہ تھپتھپاتا پریشانی سے بولا – کومل بھی اس کی آواز سن بھاگ کر کچن سے آئی تھی – کیا ہوا عنایہ جی کو ؟؟ وہ بھی ان کی قریب پہنچتی پریشانی سے بولی – پتا نہیں اچانک بےہوش ہو گئی – تم ایسا کرو داد کو کال کرو اور اسے کہو ڈاکٹر کو لے کر ائے – میں اسے کمرے میں لے کر جاتا ہوں – سکندر اس سے کہتا عنایہ کو اٹھا کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا –
::::::::::::::::::::::: :::::::::::::::::::::::::: ::::::::::::::::::
کمرے میں جاتے ہی اس نے عنایہ کے منہ پر پانی کے چھنٹے مارے تھے مگر اسے ہوش نہیں آیا تھا – تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد داد لیڈی ڈاکٹر لے کر اچکا تھا – جو اب عنایہ کا چیک اپ کر رہی تھی – کیا ہوا ہے اسے ڈاکٹر ؟؟ ڈاکٹر چیک اپ کر کے ہٹی تھی کہ سکندر نے جلدی سے آگے ہوتے پریشانی سے پوچھا – ارے ارے پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے مسٹر سکندر – انفیکٹ خوشی کی بات ہے – ڈاکٹر کی بات پر سکندر کا دماغ گھوما تھا – کیا بکواس ہے یہ میری بیوی بے ہوش پڑی ہے اور اپ کہہ رہی ہیں یہ خوشی کی بات ہے – سکندر کے غصے پر ڈاکٹر کو ہسی آئی تھی – جی بلکل ان کا بے ہوش ہونا ہی تو خوشی کی دستک ہے – مبارک ہو آپ باپ کے رتبے پر فائیز ہونے والے ہیں –
ڈاکٹر کے الفاظ پر سکندر تو ایک دم سٹیچو ہو گیا تھا – کیا کہا ؟؟ مطلب میں …. میں باپ … – اس کے منہ سے الفاظ نکلنے سے انکاری تھے – جی بلکل آپ باپ بننے والے ہیں – ڈاکٹر نے اس کی بات مکمل کرتے کہا – اوہ تھینک یو سو مچ ڈاکٹر تھینک یو سو مچ – وہ خوشی سے پھولے نہی سما رہا تھا – اوکے تو میں چلتی ہوں – اگلے پانچ منٹ تک انہیں ہوش آ جائے گا – ڈاکٹر سکندر سے کہتی کمرے سے باہر چلی گئی تھی جبکہ سکندر عنایہ کے پاس بیڈ پر بیٹھتا اس کا ہاتھ تھام کر اس پر بوسا دینے لگا – داد اور کومل بھی ڈاکٹر کے جانے کے بعد کمرے میں ائے تھے – کیا ہوا سائیں کیا بتایا ڈاکٹر نے ؟؟ داد نے سکندر سے پوچھا جس پر وہ کھڑا ہوتا اس کے قریب آتا اسے کس کر گلے لگا چکا تھا –
داد ! داد ! میں بہت خوش ہوں – بہت ہی زیادہ خوش ہوں میں – سکندر اسکے خوشی میں گلے لگتا بولا جبکہ داد کو اس کی خوشی کی کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی – کیا ہوا ہے سائیں مجھے بھی بتائیں نہ – داد نے اس کے پیچھے ہٹتے پوچھا جبکہ کومل کو بھی جاننے کی جلدی تھی – تم چاچو بننے والے ہو اور میں باپ بننے والا ہوں – سکندر کی بات پر داد کی تو حیرت سے آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی تھیں جبکہ کومل کی بھی یہی حالت تھی – یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ ؟؟ کہہ دیں یہ جھوٹ ہے – عنایہ جسے ابھی ہوش آیا تھا سکندر کے الفاظ سن اس کے سر پر تو جیسے پورے گھر کی چھت ہی گر گئی تھی – وہ ایک دم اٹھ کر بیٹھتی بے یقینی سے بولی تھی جبکہ اس کے بولنے پر سب اس کی جانب متوجہ ہوئے تھے –
نہیں میری جان یہ بلکل سچ ہے تم اور میں ماں باپ کے رتبے پر فائیز ہونے والے ہیں – تمہاری اور میری زندگی میں ہماری اولاد آنے والی ہے – سکندر اس کے قریب بیٹھتے خوشی سے بولا تھا مگر عنایہ تو بے یقینی سے اسے دیکھ رہی تھی – نہیں نہیں یہ نہیں ہو سکتا – میں ماں نہیں …. بچہ نہیں … – وہ بے ربط بولی تھی – سکندر اس کے بے ربط بولنے پر اسے حیرت سے دیکھ رہا تھا – کیا کہہ رہی ہو ؟؟ سکندر نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے اسے ہلاتے ہوئے کہا – نہیں میں ماں نہیں بن سکتی – مجھے یہ بچہ نہیں چاہیے – نہیں چاہیے – وہ ایک دم غصے سے بولتی بیڈ سے اٹھ کھڑی ہوئی تھی – یہ کیا بکواس کر رہی ہو تم ؟؟ بند کرو بکواس – وہ عنایہ کے الفاظ پر غصے سے بولا تھا – داد اور کومل انہیں اکیلا چھوڈ کر جا چکے تھے –
مجھے نہیں چاہیے یہ بچہ کیوں کہ یہ آپ کا خون ہے اور مجھے جب آپ سے کوئی رشتہ نہیں رکھنا تو کیوں پالوں اپنی کوکھ میں اپ کی اولاد – عنایہ کے الفاظ پر سکندر کا میٹر گھوما تھا اور اس کا ہاتھ اٹھا تھا اور عنایہ کے چہرے پر نشان چھوڈ گیا تھا – خبردار جو تم نے یہ بکواس کی دوبارہ – سکندر کے تھپر پر وہ بے یقینی سے گال پر ہاتھ رکھے کھڑی تھی جبکہ اس کے غصے سے کہنے پر اس کے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی –
کروں گی میں بار بار کروں گی یہ بات – اور صرف کہوں گی نہیں بلکہ اس بچے کو ختم کروں گی نہ صرف بچے کو بلکہ خود بھی ختم کر لوں گی – جب میں نہیں رہوں گی تو یہ بچہ بھی نہیں رہے گا – وہ پاگلوں کی طرح کہتی کمرے سے باہر نکل گئی تھی جبکہ سکندر کو اس کے ارادے صحیح نہیں لگے تھے اس لیے فوراً اس کے پیچھے بھاگا تھا –
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial