قسط: 17
وہ جیسے ہی نیچے ایا داد ابھی بھی وہیں کھڑا اس کا انتظار کر رہا تھا – ہو گئی بات اپ کی عنایہ جی سے سائیں ؟؟ سکندر کے اتے ہی اس نے پوچھا ہاں ہو گئی تم بتاؤ کسی نے دیکھا تو نہیں ؟؟ سکندر کے پوچھنے پر داد کو ہنسی تو بہت ائی یہ سوچ کر کہ کیسے اس کا سائیں جس کے روعب سے سارا افس ڈرتا تھا وہ خود اپنی دادی کے ڈر سے کیسے بھیگی بلی بنا ہوا تھا – نہیں سائیں کسی نے نہیں دیکھا – داد کے جواب پر سکندر کو تھوڑا سکون ملا تھا –
ویسے سائیں اپ اج کہاں سو رہے ہیں ؟؟ داد نے اچانک اس سے پوچھا – کہاں سوؤں گا ظاہر سی بات ہے تمہارے ساتھ سوں گا – سکندر کے جواب پر داد کی حالت پتلی ہوئی تھی کیونکہ وہ اچھے سے جانتا تھا کہ سکندر کے ساتھ سونا کتنا مشکل ہے – کبھی تو وہ یہ سوچ کر ہنس دیتا تھا کہ پتہ نہیں بی بی کیسے سو جاتی ہوں گی ارام سے سکندر سائیں کے ساتھ – میرے ساتھ کیوں سائیں ؟؟ اور بھی تو حویلی میں اتنے سارے کمرے ہیں اب ان میں سے کسی میں بھی سو جائیں – داد نے جلدی سے کہا – کیوں تمہیں کوئی مسئلہ ہے میرے تمہارے ساتھ سونے پر ؟؟ سکندر کے روعب سے کہنے پر داد نے فورا نہ میں سر ہلایا – نہیں نہیں بھلا مجھے کیا مسئلہ ہو سکتا ہے –
داد کے کہنے پر سکندر نے اسے چلنے کا اشارہ کیا – کمرے میں پہنچتے ہی داد بیڈ کی ایک سائیڈ پر ہو کر لیٹ گیا جب کہ سکندر دوسری سائیڈ پر – داد تو دل ہی دل میں دعا کر رہا تھا کہ اج سکندر اپنے ہاتھ پاؤں نہ ہی چلائے سوتے ہوئے – ابھی اس نے انکھیں بند کی ہی تھیں کہ سکندر نے پیچھے سے اس پر اپنی ایک ٹانگ اور ایک ہاتھ رکھتے اسے قابو کیا تھا – یہ کیا کر رہے ہیں سائیں اپ ؟؟ میں ہوں داد عنایہ بی بی نہیں ہوں – داد نے گردن پیچھے کرتے کہا – جبکہ سکندر کی انکھیں شرارت سے چمک رہی تھیں –
تو کیا ہوا اگر تم داد ہو تو میں بھی جانتا ہوں تم داد ہو مگر تمہیں کیا بتاؤں داد اتنی محبت تو مجھے عنایہ سے نہیں جتنی مجھے تم سے ہے – سکندر نے اسے تنگ کرنے کے لیے کہا – اچھا نہ پر یہ چیپک کیوں رہے ہیں ساتھ ؟؟ داد کو الجھن ہو رہی تھی اس لیے وہ چڑتے ہوئے بولا – کیوں نہ چیپکوں ؟؟ جس سے محبت ہوتی ہے اس کے پاس پاس رہا جاتا ہے – اور تمہیں پتہ ہے داد میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ کاش تم لڑکی ہوتے تو میں نے تم سے شادی کر لینی تھی – میری چھمک چھلو – سکندر نے شرارت سے کہتے اخر میں اسے اور تنگ کرنے کے لیے اس کی ناک پکڑ کر کھینچتے اسے چھمک چھلوں کا خطاب دیا تھا – جبکہ داد کو تو اج سکندر کے ارادے ٹھیک نہیں لگ رہے تھے –
سائیں اپ جائیں اپنے کمرے میں صبح میں اپ کے حصے کی بی جان سے ڈانٹ سن لوں گا پر اپ اپنے کمرے میں جائیں – میں عنایہ بی بی نہیں ہوں جو مجھے ایسی نظروں سے دیکھ رہیں ہیں – داد تو بیچارا رونے والا ہو گیا تھا جبکہ اس کی حالت سکندر کو مزہ دے رہی تھی – او ہو جانے من شرما کیوں رہے ہو میری جانب دیکھو نا منہ کیوں پھیر رہے ہو – سکندر اس کے منہ کو پکڑتا باقاعدہ اپنی طرف کر رہا تھا جبکہ داد فورا اس کی گرفت سے نکلتا بیڈ سے نیچے اترا تھا – نہیں میں نہیں رہ رہا یہاں پہ – اپ سو جاؤ یہاں میں کسی اور کمرے میں سو جاتا ہوں – میں نہیں اپ کے ساتھ سو رہا بھائی – مجھے تو میری عزت ہی خطرے میں لگ رہی ہے خبردار جو میری طرف اپ نے دیکھا بھی تو – میں اپنی کومل کی امانت ہوں اور میں اپنی عزت پر انچ نہیں انے دوں گا –
داد بھی سکندر کی شرارت سمجھ چکا تھا اس لیے وہ بھی اب باقاعدہ سینے پر دونوں ہاتھ لپیٹتے ناٹک کرتے بولا – داد کے دور جاتے ہی سکندر بھی بیڈ سے اتر کر داد کے قریب جانے لگا – شرما کیوں رہے ہو جانِ من – داد کے پاس جاتے اس کا ایک ہاتھ پکڑ کر اپنی جانب کھینچ کر اس کی کمر کے گرد بازو حل کرتے سکندر نے ٹھرکی پن کی حد کرتے کہا – جب کہ داد کا چہرہ ہسی ضبط کرنے کے چکر می سرخ ہو چکا تھا – کوئی دیکھ لے گا – داد نے لڑکیوں کی طرح ناٹک کرتے ادھر ادھر دیکھتے کہا –
کوئی نہیں دیکھے گا – سکندر نے اسے کہا – میں اپنی کومل کو کیا جواب دوں گا ؟؟ داد اس کے کندھے پر سر رکھتا آہیں بھرتا بولا – پتہ ہی نہیں چلے گا اسے کچھ – اب تو سکندر کی بھی ہنسی ضبط کرنے کے چکر میں رنگت لال پڑ چکی تھی – اور اخر ان دونوں کے ضبط کا پیمانہ لبریز ہوا تھا اور پورا کمرہ ان کے قہقہوں سے گونج اٹھا تھا – پاگلوں کی طرح ہنستے وہ دونوں بیڈ پر گرے تھے اور پیٹ پر ہاتھ رکھتے ہنستے ہی چلے گئے – ان دونوں کے یہی کام تھے رشتہ تو ان کا ایک نوکر اور مالک کا تھا مگر ان کی دوستی بے مثال تھی اور ایسے ہی الٹی سیدھی حرکتیں کرتے وہ اس بات کی نشانی دیتے تھے –
::::::::::::::::::::: :::::::: ::::::: ::::::::::::::
سکندر کے کہے کے مطابق عنایہ اب اپنے اپ کو کوئی بھی نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کرتی تھی – کمرے میں انٹری والی بات تو اس نے نہیں مانی تھی مگر دادی سے اتنا ضرور کہہ دیا تھا کہ سکندر اس کے اس پاس رہ سکتا ہے سوائے کمرے کے – جس پر سکندر نے اسے گھور کر دیکھا تھا کہ کیسے وہ ڈیل میں رد و بدل کر رہی تھی – ابھی بھی وہ اپنے ہاتھوں سے عنایہ کے لیے فروٹ سائلٹ بنا کر لایا تھا اور اس کے ہاتھ میں تھماتے وہ کچن سے فریش جوس لینے چلا گیا –
وہ یوں ہی اس کی کیئر کرتا تھا اس کی ایک ایک کھانے کی چیز کا خیال رکھتا تھا – وہ جوس لے کر واپس ایا تو عنایہ کے ساتھ صوفے پر بی جان کو بیٹھے پایا – ہاں تو سکندر مجھے تم سے بات کرنی تھی – بی جان نے اسے دیکھتے ہوئے کہا – جی بی جان حکم کریں ! سکندر کی عنایہ کے لیے کیئر دیکھ بی جان بھی اس کے لیے تھوڑی نرمی لے ائی تھیں لیکن مکمل طور پر انہوں نے اسے معاف نہیں کیا تھا – اج شام کو تم عنایہ کو اس کے ماں باپ کے گھر لے کر جاؤ گے – ساتھ میں مٹھائیاں اور تحفے لیتے جانا اخر انہیں خوشخبری بھی تو سنانی ہے –
اور ایک اور بات دھیان سے سن لو خبردار جو تم نے فورا اسے واپس لے کر انے کا سوچا تو – یہ وہاں تین چار دن رہ کر ائے گی اخر اس کے باپ کا گھر ہے اور چار پانچ ماہ سے اپنے ماں باپ سے دور ہے تو تین چار دن اسے ان کے پاس چھوڑ انا – بی جان کی بات پر سکندر نے حیرت سے عنایا کو دیکھا جو فروٹ سائلٹ کھاتے ہوئے ایسے بنی ہوئی تھی جیسے اس کے علاوہ یہاں کوئی ہو ہی نہ -یقینا یہ بات اس نے ہی دادی سے کہی تھی – مگر بی جان تین چار دن کیوں ؟؟ میں ملوا کر واپس لے اؤں گا نا – سکندر کے کہنے پر بی جان نے اسے گھورا تھا – کہا نہ وہ وہاں رہے گی –
سنائی نہیں دیا تمہیں ؟؟ بی جان کے غصے سے کہنے پر سکندر نے فورا ہا میں سر ہلایا – ٹھیک ہے تو پھر میں بھی وہاں ہی رہوں گا جتنے دن یہ وہاں رہے گی -سکندر کی بات پر بی جان نے پاؤں میں پہنی چپل اتاری تھی – بتاؤں تجھے تو وہاں رہے گا کہ نہیں – خبردار جو تو نے وہاں رہنے کا سوچا بھی تو – بچی کو وہاں چھوڑ کر تو خود واپس ائے گا – مگر دادی اس کے ڈائیٹ پلان میں کوتاہی ہو جائے گی – سکندر نے بی جان کی بات پر جلدی سے بہانہ گھڑتے کہا – تو مجھے زیادہ نہ سکھا – جس کے پاس چھوٹے نے جا رہا ہے نا وہ ماں باپ ہیں اس کے –
انہیں زیادہ پتہ ہے اپنی بیٹی کا خیال کیسے رکھنا ہے اور اس کی ماں کو تجھ سے زیادہ اس کی فکر ہوگی وہ خود خیال رکھ لے گی اس کا – سنا تم نے ؟؟ بی جان کے روعب سے پوچھنے پر سکندر نے نہ چاہتے ہوئے بھی ہاں میں گردن ہلا دی تھی – اب وہ کیا ہی کر سکتا تھا جب اس کی دادی نے حکم دے دیا تھا –
:::::::::::::::::::::: :::::::::::::::::::::::::: :::::::::::::::
و بس تھوڑی دیر میں ہی نکلنے والے تھے کومل سے کہہ کر دادی نے عنایہ کا تین چار دن کے لیے سامان پیک کروا دیا تھا اور ابھی کومل وہ سامان لیے لاؤنج میں صوفے پر بیٹھی عنایہ کے پاس ائی اور سامان والا بیگ اس کے پاس رکھ کر واپس جانے لگی تو عنایہ نے اسے اواز دے کر روکا تھا – میری بات سنو کومل ! عنایہ کے روکنے پر وہ رک گئی تھی – میں تین چار دن سے دیکھ رہی ہوں تم مجھ سے بات نہیں کرتی – کیا مجھے وجہ بتاؤ گی ؟؟ عنایہ نے سر جھکائے کھڑی کومل سے پوچھا –
میں یہاں کام کرنے اتی ہوں عنایہ بی بی تو اپنا کام کرتی ہوں – مجھے کام کی تنخواہ ملتی ہے بات کرنے کی نہیں – اگر اپ کو کوئی اور کام ہو تو مجھے بتائیے گا – کومل کی بات پر عنایہ نے اسے دیکھا تم نے ابھی مجھے کیا کہا ؟؟؟ عنایہ بی بی ؟؟ میں نے تمہیں منع کیا ہے نہ مجھے بی بی کہنے سے – عنایہ کے کہنے پر کومل نے اس کی جانب شکایتی نظروں سے دیکھا – کیونکہ اپ میری مالکن ہیں اور مالکوں سے تمیز سے پیش ایا جاتا ہے – کومل کے جواب پر عنایہ نے اس کے قریب جاتے اس کا بازو تھاما تھا – مگر ہم تو دوست ہیں نا ؟؟ عنایہ کے کہنے پر کومل ہلکے سے ہنسی تھی – نہیں عنایہ بی بی اپ نے مجھے کبھی دوست سمجھا ہی نہیں اگر دوست سمجھتیں تو خود کشی کرتے ہوئے دھیان رکھتی کہ اپ کو تکلیف پہنچنے سے اپ کی دوست کو بھی تکلیف ہوگی –
مجھے پتہ ہے کہ وہ وقت مجھ پر کس طرح سے قیامت کی طرح گزرا ہے – میں ، سکندر سائیں ، داد ہم تینوں کی جان بنی ہوئی تھی اپ کی حالت پر – لیکن اپ کو تو پرواہ ہی نہیں تھی میں جانتی ہوں سکندر سائیں نے غلط کیا اپ کے ساتھ لیکن اس سب میں میرا کیا قصور تھا انہیں تکلیف دینے کے چکر میں اپ مجھے بھی تکلیف دے رہی تھیں – بات کرتے ہوئے کومل کی انکھوں میں انسو اگئے تھے – جبکہ عنایہ کو بھی شرمندگی نے گھیرا تھا – واقعی اس نے خودکشی کے وقت نہیں سوچا کہ اس سے محبت کرنے والے بھی تو ہیں جنہیں اس کی اس حرکت پر تکلیف ہوگی – نہ کومل کے بارے میں سوچا نہ امی اور ابو کے بارے میں – سوری کومل میں مانتی ہوں میں نے غلط کیا لیکن اج کے بعد میں ایسا کبھی نہیں کروں گی پلیز مجھے معاف کر دو –
عنایہ کے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگنے پر کومل نے جلدی سے اس کے ہاتھ تھامے تھے – ایسے نہ کہیں عنایہ جی – کومل نے جلدی سے اسے منع کیا – تو تم نے مجھے معاف کر دیا ؟؟ عنایہ نے اس کی طرف دیکھ کے کہا – جی میں نے معاف کر دیا کومل کے ہنس کر کہنے پر عنایہ کو سکون ملا تھا – چلو اج تو میں جا رہی ہوں تین چار دن بعد واپس اؤں گی پھر ملاقات ہوگی تم سے – عنایہ کی بات پر کومل ہسی تھی – نہیں میں بھی جا رہی ہوں اج تو چار دن بعد ہماری ملاقات نہیں ہوگی کیونکہ میں واپس نہیں ارہی – کومل کے کہنے پر عنایہ کو حیرت ہوئی تھی –
کیوں تم واپس کیوں نہیں ا رہی ؟؟ اس نے پریشانی سے پوچھا میری شادی میں کچھ ہی دن رہ گئے ہیں نا اس لیے اب میں گھر رہوں گی – اماں کہتی ہیں جو لڑکی شادی سے پہلے گھر سے نکلنا بند کر دے اس لڑکی پر شادی کے دن بہت روپ اتا ہے – کومل کے جواب پر عنایہ کے چہرے پر مسکراہٹ بکھری تھی – چلو بہت بہت مبارک ہو تمہیں تمہاری شادی کی – اس نے اس کے گال پر ہاتھ رکھتے محبت سے کہا – پتہ ہے ہماری شادی کا سارا انتظام سکندر سائیں کروا رہے ہیں بارات ولیمہ مہندی سب کچھ وہ خود ہی کروا رہے ہیں – سکندر کے ذکر پر عنایہ کے چہرے پر ائی مسکراہٹ ختم ہوئی تھی – چلو تم خوش رہو اور اللہ تمہیں ڈھیر ساری خوشیوں سے نوازے –
عنایہ کی دعا دینے پر کومل نے امین کہا تھا – تبھی ملازم باہر سے سکندر کا پیغام لے کر ا چکا تھا اور کومل عنایہ کا بیگ اٹھاتی اس کے ساتھ باہر کی جانب چل پڑی کیونکہ اب عنایہ کو اپنے گھر جانا تھا –
:::::::::::::::::: ::::::::::::::::::::::::::: ::::::::::::::::::
پورے راستے سکندر نے عنایہ سے بات کرنے کی بہت کوشش کی لیکن عنایہ بھی منہ پر نو لفٹ کا بورڈ لگائے بیٹھی رہی – اللہ اللہ کرتے ہیں سفر ختم ہوا تھا – وہ اج پانچ ماہ بعد اپنے گھر کے سامنے پھر سے کھڑی تھی وہ گھر جس میں اس کا بچپن گزرا تھا ، جہاں اس نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تھا ، جہاں ہمیشہ اس کی ماں اس کا انتظار کرتی تھی – لیکن اج ماں کے ساتھ اس کا باپ بھی اس کا انتظار کر رہا تھا یہ احساس ہی اس کے اندر عجیب سی خوشی پیدا کر رہا تھا –
بنا سکندر کے ساتھ انے کا انتظار کیے وہ گاڑی سے نکلتی بھاگنے کے انداز میں اندر کی جانب بڑھی تھی – جبکہ اس کے بھاگنے پر سکندر کا سانس سوکھا تھا – عنایہ ارام سے جاؤ گر جاؤ گی – اس نے پیچھے سے ہی اسے اواز دیتے کہا جس پر عنایہ نے بھی فورا بھاگنا بند کر دیا مگر چلنے کی رفتار اس کی تیز ہی تھی – سکندر گاڑی کی ڈگی سے مٹھائی کا ٹوکرا اور ساتھ موجود گفٹ اٹھاتا خود بھی اندر کی جانب بڑھ گیا – اندر جاتے ہی اسے سامنے شگفتہ بیگم اور امجد صاحب نظر ائے جو عنایہ سے مل رہے تھے –
وہاں پڑے ٹیبل پر سارا سامان رکھتا وہ سیدھا ہوا تو اسے دیکھتے امجد صاحب اس کی جانب ائے اور اس سے بغل گیر ہوئے تھے – کیسے ہو برخودار ؟؟ انہوں نے خوش دلی سے سکندر سے پوچھا – جس کا جواب سکندر نے بھی خوش دلی سے دیا تھ – اسے اج امجد صاحب پہلے سے کافی بہتر لگے تھے شاید اس دن عنایہ سے ملنے کے بعد ان کی حالت میں کافی بہتری ائی تھی – شگفتہ بیگم سے بھی ملتے وہ وہیں صوفے پر بیٹھ گیا تھا – ارے بیٹا یہ مٹھائی اور تحفوں کی کیا ضرورت تھی – سکندر کے وہاں رکھے مٹھائی اور تحفے کو دیکھ شگفتہ بیگم نے کہا – ضرورت تو تھی انٹی اب خوشی کی خبر بنا مٹھائی اور تحفوں کے دیتا میں اچھا تھوڑی لگتا –
سکندر کے کہنے پر شگفتہ بیگم اور امجد صاحب نے حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھتے پھر سکندر کی جانب دیکھا تھا – کون سی خوشی کی خبر بیٹا ؟؟ امجد صاحب نے مسکراتے ہوئے پوچھا – یہی کہ بہت جلد اپ نانا بننے والے ہیں – سکندر کے جواب پر شگفتہ بیگم اور امجد صاحب کی خوشی کا تو کوئی ٹھکانہ ہی نہ رہا تھا شگفتہ بیگم تو فورا اٹھتی عنایہ کے پاس ائیں جو شرمائی سی وہاں بیٹھی تھی – وہ اس کی بلائیں لیتں اس کے ماتھے پر پیار کرنے لگیں – امجد صاحب بھی فورا اٹھتے عنایہ کے قریب گئے اور جیب سے ہزار ہزار کے چند نوٹ نکال کر فورا سے اس کا صدقہ نکالا تھا اور پھر سکندر کے پاس اتے اس کے گلے ملتے اسے بھی مبارکباد دی تھی –
شگفتہ بیگم بھی سکندر کو پیار کرتیں واپس عنایہ کے پاس بیٹھتیں اسے ہدایات دینے لگیں – جس پر عنایہ نے معصوم شکل بنا کر اپنی ماں کو دیکھا تھا – سکندر بیٹا اب تو کچھ دن عنایہ کو یہاں چھوڑ جاو – شگفتہ بیگم نے بڑی آس سے کہا – جی جی انٹی عنایہ کو ہی یہاں چھوڑنے ایا تھا – دراصل دادی کا حکم تھا کہ عنایہ کو تین چار دن کے لیے اپ لوگوں کے پاس چھوڑ اؤ تاکہ وہ اپ لوگوں کے ساتھ کچھ دن رہ سکے – سکندر کے جواب پر امجد صاحب اور شگفتہ بیگم دونوں کو بہت خوشی ہوئی تھی –
تین چار گھنٹے وہاں ان کے ساتھ گزارتے کھانا کھانے کے بعد سکندر واپس حویلی کے لیے روانہ ہو چکا تھا – اس کا دل تو نہیں تھا واپس انے کا لیکن دادی کا ڈر بھی تھا – انے سے پہلے وہ عنایہ کو ہدایات کرنا نہیں بولا تھا جبکہ شگفتہ بیگم نے اسے یقین دلایا تھا کہ وہ عنایہ کا اچھے سے خیال رکھ لیں گی –