بے قدرہ

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 18

عنایہ چلو جلدی سے یہ کھا لو پھر میں تمہیں دودھ کا گلاس بھی دیتی ہوں وہ بھی پینا ہے تم بے – شگفتہ بیگم اس کے پاس آتیں دیسی گھی میں بنیں سوئیاں لے کر آتی بولیں جبکہ عنایہ نے ان کے ہاتھ میں موجود سوئیاں دیکھ عجیب و غریب منہ بنائے تھے – مجھے نہیں کھانا کچھ بھی – ابھی ایک گھنٹے پہلے ہی اپ نے مجھے فروٹس کھیلائے ہیں اور اب آپ یہ لے آئی ہیں – مجھے نہیں کھانا کچھ بھی خاص کر یہ دیسی گھی میں بنی چیزیں – دیکھ کر ہی دل بھاری ہونے لگتا ہے –
عنایہ کے منہ بنا کر کہنے پر شگفتہ بیگم نے اسے گھورا تھا – چپ چاپ کھاؤ یہ سب تمہارے لیے اچھا ہے اس حالت میں – اگر کچھ کھاو گی تو ہی جان بنے گی اور تب ہی بچہ صحت مند ہوگا اور دیلیوری کے وقت کوئی پریشانی نہیں ہو گی – شگفتہ بیگم اسے جھڑکتے ہوئے آخر میں سمجھانے لگیں مگر عنایہ نے ان کی نصیحت پر کان بھی نہیں دھرے تھے – ہاں مطلب مجھے کھا کھلا کر موٹا کر دیں – بس مجھے نہیں کھانا – وہ منہ پھلا کر کہتی صوفے سے اٹھ کر تیز قدموں سے چلتی امجد صاحب اور شگفتہ بیگم کے کمرے کی جانب بڑھ گئی – کمرے میں داخل ہوتے ہی اس نے سامنے بیڈ کی بیک سے ٹیک لگا کر لیٹے اپنے بابا کو دیکھا اور معصوم منہ بنا کر ان کی طرف دیکھتی وہ ان کے پاس بیڈ پر جا کر بیٹھ کر ان کے سینے پر سر رکھ چکی تھی –
جبکہ امجد صاحب نے بھی اس کی گرد باہیں پھیلائی تھیں – کیا ہوا ہے میری گڑیا کو اتنی اداس کیوں ہے کسی نے کچھ کہا ہے ؟؟ وہ اس کے ماتھے پر لب رکھتے پیار سے اس کے ناراضگی کی وجہ پوچھنے لگے – بس بابا اپ کی جو یہ بیوی ہے نا اس نے مجھے بہت تنگ کر رکھا ہے ہر وقت کچھ نہ کچھ کھلاتی رہتی ہیں – اب میں اور کتنا کھاؤں ایک گھنٹہ پہلے انہوں نے مجھے فروٹ سائیلٹ دیا ہے اور اب سوئیاں اٹھا لائی ہیں وہ بھی دیسی گھی میں بنیں – مجھے نہیں کھانی دیکھتے ہی دل متلی ہونا شروع ہو جاتا ہے لیکن یہ ہے کہ مانتی ہی نہیں ہر وقت کچھ نہ کچھ کھلاتی رہتی ہیں –
عنایہ نے جلدی سے ان کے سینے سے سر اٹھا کر انہیں دیکھتے اپنا دکھ بیان کیا تب تک شگفتہ بیگم بھی کمرے میں ا چکی تھیں – کیا مسلہ ہے بیگم کیوں اپ میری بیٹی کو تنگ کر رہی ہیں ؟؟ جب وہ کہہ رہی ہے اسے نہیں کھانا تو کیوں زبردستی کھلانے کی کوشش کر رہی ہیں ؟؟ امجد صاحب نے عنایہ کو خوش کرنے کے لیے شگفتہ بیگم سے روعب بھرے لہجے میں کہا – اس کی بھلائی کے لیے ہی دے رہی ہوں – کچھ کھائے گی تو ہی جان بنے گی دیکھیں ذرا اس کو کیسے سوکھی تیلی کی طرح ہے خود میں تو طاقت ہے نہیں اپنے اندر پل رہی جان کو کیا طاقت دے گی –
اسی لیے یہ سب کچھ اسے دے رہی ہوں تاکہ یہ کھا کر اس کی صحت اچھی ہو – شگفتہ بیگم عنایہ کو گوریوں سے نوازتی امجد صاحب سے بولی جب کہ ان کے گوریوں پر عنایہ مسکرا کر واپس امجد صاحب کے سینے پر سر رکھ گئی – ہاں یہ بات تو ہے عنایہ بیٹا یہ سب کچھ اپ کے لیے اچھا ہے اپ کو کھانا چاہیے تاکہ اپ میں طاقت ا سکے – اپنے ابا کے ایک دم سے پلٹنے پر عنایہ نے جلدی سے اٹھ کر بیٹھتے انہیں دیکھا تھا –
نہیں مجھے نہیں کھانا کتنا کھاؤں میں نہیں دل کر رہا تو کیسے کھاؤں الٹی ا جائے گی پھر مجھے – عنایہ نے چڑتے ہوئے کہا اچھا چلو ٹھیک ہے ابھی نہ کھاؤ تھوڑی دیر بعد کھا لینا پر بیٹا کھا لینا – شگفتہ بیگم اس کے پاس اتیں اس کے سر پر پیار کرتی بولیں – اوکے ٹھیک ہے پر پلیز ابھی مجھے نہ دیں میرا اسے دیکھ کر دل متلی ہو رہا ہے – وہ ان کے ہاتھ میں پکڑی سوئیوں کو دیکھ کر بولی جس پر بابا اور شگفتہ بیگم دونوں ہی مسکرا دیے تھے – سچ میں اتنا تو مجھے سکندر بھی نہیں کھیلاتے تھے جتنا اپ لوگ کھلا رہے ہیں ابھی ایک دن بھی پورا نہیں ہوا مجھے یہاں رہتے اور اماں نے کھلا کھلا کر میرا حال برا کر دیا ہے مجھے لگتا ہے چار دن بعد میں اپ کو یہ والی عنایہ بالکل بھی نظر نہیں اؤں گی بلکہ ایک موٹی عنایہ اپ کو نظر ائے گی –
وہ منہ بسور کر ابا سے بولی جس پر امجد صاحب کا جاندار قہقہہ کمرے میں گونجا تھا – کوئی نہیں اگر موٹی بھی ہو جاؤ گی تو مجھے یقین ہے کہ میری بیٹی موٹی ہو کر بھی پیاری لگے گی – وہ پیار سے اس کا چہرہ ہاتھوں میں تھامے بولے تھے جس پر عنایہ بھی مسکرائی تھی جبکہ ان دونوں کا پیار دیکھتے شگفتہ بیگم نے ان دونوں کی نظروں ہی نظروں نظر اتاری تھی –
::::::::::::::: :::::::::::::::::: :::::::::::::::::::::::::::
بی جان کے پاس اج پھر زلیخہ انٹی کچھ لڑکیوں کی تصویریں لے کر پہنچی ہوئی تھیں جبکہ بی جان نے ان تصویروں میں سے کسی ایک تصویر کو بھی اٹھا کر نہیں دیکھا تھا – بھئی زلیخہ تم ایسا کرو اب اپنی یہ تصویریں اپنے پاس ہی رکھو مجھے نہیں دیکھنی – بی جان کے کہنے پر زلیخہ نے حیرت سے انہیں دیکھا مگر کیوں اماں جی سب سے اچھی لڑکیاں لائی ہوں اتنی پیاری سوگھڑ اور تعلیم یافتہ ہیں –
زلیخا نے جلدی سے اپنے لائے ہوئے رشتوں کی تعریف کرتے جیسے انہیں قائل کرنا چاہا – نہیں نہیں اس سب کی اب ضرورت نہیں ویسے بھی میرے سکندر کے لیے جو لڑکی بنی تھی وہ اسے مل چکی ہے – اور وہ بے حد خوبصورت سوگھڑ اور اچھے اخلاق والی ہے – انشاءاللہ جلدی ہی میں اس کا ولیمہ کرنے والی ہوں – بی جان کے جواب پر زلیخہ انتی نے حیرت سے پھٹی انکھوں سے انہیں دیکھا – سکندر بیٹے کی شادی ہو گئی ہے کیا ؟؟ مطلب لگتا ہے سکندر بیٹے نے اپنی پسند سے خود ہی شادی کر لی ہے –
زلیخا انٹی کے پوچھنے پر بی جان نے مسکراتے ہوئے نہ میں سر ہلایا نہیں نہیں لڑکی اس کی پسند کی تھی لیکن شادی میں میں بھی شامل تھی – ابھی کچھ دن پہلے ہی ہوئی ہے – بی جان نے جلدی سے سکندر کے کرتوتوں پر پردہ ڈالا تھا – اب وہ گھر کا معاملہ باہر والوں سے تو نہیں کہہ سکتیں تھیں – اچھا اچھا ماشاءاللہ ماشاءاللہ کہاں ہیں اپ کی بہو مجھے بھی دکھائیں نا -بھئی زلیخہ ابھی تو تم میری بہو نہیں دیکھ سکتی کیونکہ وہ اپنے مائکے گئی ہوئی ہے پر ہاں ایک دو ہفتوں تک جب ولیمہ ہوگا تب دیکھ لینا میری بہو کو –
دادی کے کہنے پر زلیخہ فورا دانت دکھاتی ہاں میں سر ہلا گئی – ٹھیک ہے اماں جی میں ضرور اؤں گی ولیمے پر چلیں ابھی مجھے اجازت دیں زلیخہ خوشی سے انہیں کہتی اپنا بیگ اٹھا کر جانے لگی مگر بی جان نے اسے روک لیا – ارے نہیں نہیں رکو تم ایسے کیسے جا رہی ہو – میں نے باورچی سے کہا ہوا ہے وہ کھانا بنا رہا ہے کھانا کھا کر جانا – بی جان کے کہتے ہی زلیخہ فورا بیٹھ گئی اب یہ تو ہر کوئی جانتا ہے کہ رشتہ کروانے والیاں کھانے کی دیوانی ہوتی ہیں –
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
یار بس کر دینا بی جان مان جائیں اور کتنا اپ نے مجھ سے ناراض رہنا ہے – سکندر اس وقت بی جان کے کمرے میں موجود ان کے پاس بیڈ پر بیٹھا انہیں منانے کی کوشش کر رہا تھا مگر بی جان تو اس کی جانب منہ بھی نہیں کر رہی تھیں – میں نے کہا نا مجھے تم سے بات نہیں کرنی مجھے سچ میں تم نے اس لڑکی کے سامنے بے حد شرمندہ کیا ہے – جانتے ہو مجھے اپنی تربیت پر کتنی شرمندگی ہوئی کہ نہ جانے کہاں کوتاہی رہ گئی تھی میری تربیت میں جو تم نے ایسا کیا اس لڑکی کے ساتھ –
غصے سے کہتے بی جان کی انکھوں میں انسو اگئے تھے – جبکہ سکندر ان کے انسو دیکھ تڑپ کر ان کے ہاتھ تھام چکا تھا – آئی پرومس دادی میں ہر چیز ٹھیک کر دوں گا میں عنایہ کو بھی منا لوں گا لیکن اپ پلیز میرے سے ناراض مت ہو میں پہلے ہی عنایہ کی ناراضگی جھیل رہا ہوں ایسے میں اپ بھی اگر یوں مجھ سے ناراض رہیں گی تو میں کیا کروں گا – مجھے اس وقت اپ کی ضرورت ہے میں چاہتا ہوں اپ میری مدد کرو عنایہ کو منانے میں کیونکہ میں واقع اپنے کیے پر شرمندہ ہوں –
سکندر ان کا ہاتھ تھامے بول رہا تھا جب کہ بی جان اس کی طرف دیکھ رہی تھیں – بتائیں نا کر دیا اپ نے مجھے معاف ؟؟ ان کے اپنی طرف دیکھنے پر سکندر نے انکھوں میں آس لیے ان سے پوچھا تھا جس پر بی جان مسکرا دی تھیں – ہاں میں نے کر دیا تمہیں معاف لیکن مجھ سے کسی بھی اور کام کی امید مت رکھنا کہ میں تمہاری خاطر عنایہ سے بات کروں گی تمہیں معاف کرنے کی کیونکہ ایسا میں بالکل نہیں کرنے والی لیکن ہاں ایک کام میں کر سکتی ہوں – بی جان کے پہلے انکار پر سکندر کا منہ اترا تھا مگر اخر میں ان کے ایک کام کرنے کا سن اس کے چہرے پر امید جاگی تھی –
کیا کر سکتی ہیں ؟؟ اس نے جلدی سے پوچھا داد اور کومل کے ولیمے کے ساتھ تمہارا اور عنایہ کا ولیمہ کرنے کا سوچا ہے میں نے – بی جان کی بات پر سکندر کی خوشی کا تو کوئی ٹھکانہ ہی نہ رہا – واو بی جان یو آر دا بیسٹ بی جان ان دس ورلڈ – سکندر خوشی سے ان کے گلے لگتا بولا تھا جس پر وہ مسکرا پڑئیں – بس اپ نے ایک اور کام کرنا ہے عنایہ کو ولیمے کے لیے راضی کرنا ہے کیونکہ میں جانتا ہوں وہ ولیمے کے لیے راضی نہیں ہوگی – سکندر کے کہنے پر بی جان نے اوکے کا اشارہ کیا تھا جس پر وہ ایک بار پھر خوشی سے اگے بڑھتا بی جان کے گال چوم گیا جس پر وہ کھلکھلا کر ہنسی تھیں – اچھا بس ٹھیک ہے اب میری عنایہ سے بات کرواؤ کل کی گئی ہوئی ہے میں نے بات نہیں کی اس سے کل کی –
بی جان کے کہنے پر اس نے جلدی سے پاکٹ سے فون نکالتے عنایہ کا نمبر ملا کر انہیں دیا تھا جو تھوڑی دیر بعد اٹھا لیا گیا تھا – فون پک ہونے پر اسے حیرت ہوئی تھی کیونکہ رات اس نے بہت کالز کی تھی مگر عنایہ نے کال نہیں اٹھائی تھی مگر اب فون کرنے پر اس کے کال اٹھا لینے پر سکندر کو حیرت ہوئی تھی –
لیکن پھر یہ سوچ کر ہنس دیا کہ ضرور امجد صاحب یاں شگفتہ بیگم میں سے کوئی اس کے پاس ہوگا اور بالکل ایسا ہی تھا وہ واقعی اس وقت شگفتہ بیگم اور امجد صاحب کے ساتھ بیٹھی تھی اس لیے ان کے سامنے دکھاوے کے لیے اس نے فون اٹھا لیا تھا مگر دوسری جانب سے دادی کی اواز سن اس کے چہرے پر مسکراہٹ ائی تھی اور وہ خوشی خوشی ان سے باتیں کرنے لگی –
:::::::::::::::::::::::::::: ::::: ::::::::::::::::::::::::
امی بس بھی کر دیں اور اپ نے کتنی شاپنگ کرنی ہے – میں اپ سے کب سے کہہ رہی ہوں کہ مت لیں بچوں والے کپڑے ابھی بہت ٹائم ہے – عنایہ کو اج شگفتہ بیگم اپنے ساتھ شاپنگ پر لے ائی تھیں مگر وہاں مال میں جاتے ہی انہوں نے اپنے لیے عنایہ کے لیے اور امجد صاحب کے لیے تو چند ہی کپڑے خریدے تھے لیکن بچوں کے بہت پیارے اور بے حد کیوٹ کپڑے بے تحاشہ خرید چکی تھیں جس پر عنایہ انہیں بار بار ٹوک رہی تھی – او ہو عنایہ بری بات بیٹا ایسے ٹوکتے نہیں ہیں میں خوشی سے لے رہی ہوں –
چاہے ابھی وقت نہیں ایا مگر انشاءاللہ بہت جلد ائے گا یہ دیکھو یہ کتنا پیارا ہے نا – میں سارے وہ کپڑے لے رہی ہوں جو لڑکا اور لڑکی دونوں میں سے کوئی بھی پہن سکتا ہے – شگفتہ بیگم چہرے پر دنیا جہان کی خوشی سموئے اسے کپڑے دکھاتی بولیں – جبکہ ان کی خوشی دیکھ عنایہ اندر ہی اندر شرمندہ ہو رہی تھی یہ سوچ کر کہ جب یہ بچہ دنیا میں ائے گا تو وہ اس بچے کو دیکھ بھی نہیں پائیں گی کیونکہ اس نے تو سکندر سے ڈیل کی ہوئی تھی کہ بچے کی پیدائش کے بعد اس کا اس بچے سے کوئی تعلق نہ ہوگا –
ہاں مگر کبھی کبھی یوں ہوتا تھا کہ جب وہ اس ڈیل کے بارے میں سوچتی تو ایک دم سے اس کے پورے جسم کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے تھے یہ سوچ کر کہ وہ اپنے وجود کا حصہ سکندر کو دے دے گی مگر پھر یہ سوچ کر خود کو نارمل کر لیتی کہ ویسے بھی مجھے کون سا کوئی لگاؤ یا کسی قسم کی کوئی محبت ہوگی اس انے والے وجود سے – مگر یہ تو انے والے وقت ن ہی بتانا تھا کہ اسے اس وجود سے محبت ہوگی یا نہیں کیونکہ ماں تو پھر ماں ہی ہوتی ہے اور ماں جیسی محبت تو کوئی نہیں کر سکتا – اچھا میرے خیال سے ابھی کے لیے اتنے ڈریسز بہت ہیں باقی ہم پھر کبھی لیں گے اور اج گھر جا کر میں تمہیں تمہارے بچپن کے کپڑے دکھاؤں گی –
اگر تو بیٹی ہوئی تو وہ سب کپڑے تم اپنی بیٹی کو پہنانا اور جانتی ہو تمہاری چوڑیاں ، کلپ ، اور جوتے بھی میں نے ابھی تک سنبھال کر رکھے ہیں – شگفتہ بیگم خوشی اور جوش سے اسے بتا رہی تھیں جبکہ عنایہ یہ سوچ کر پریشان ہو رہی تھی کہ جب انہیں سکندر کے ساتھ ہوئی اس کی ڈیل کا پتا لگے گا تو ان پر کیا بیتے گی –
:::::: ::::: ::::: ::::: ::::: :::::::::::::::::::::::::
گھر آتے ہی انہیں سامنے لاونچ میں صوفوں کے پاس ایک جھولا نظر آیا جسے دیکھ کر امی اور عنایہ دونوں کو حیرت ہوئی تھی جبکہ امجد صاحب وہیں صوفے پر بیٹھے تھے – یہ کس کا ہے امجد صاحب ؟؟ شگفتہ بیگم سارے شوپنگ بیگ وہیں ٹیبل پر رکھتیں بولیں – کس کا ہے کا کیا مطلب ہمارے گھر موجود ہے تو مطلب ہمارا ہی ہے – میں آج جب کام سے آ رہا تھا تو ایک دکان پر مجھے یہ نظر آیا اور مجھے بے حد پیارا لگا تو میں اپنے آنے والے نواسہ نواسی کے لیے لے آیا –
اخر جب عنایہ یہاں ہمارے پاس رہنے آیا کرے گی تو ہمارے گھر بھی تو ہونا چاہیے نہ اس کا جھولا اس کے کھلونے تا کہ جب وہ گھر آئے رہنے تو یہاں بھی انہیں سب کچھ مل سکے – امجد صاحب کے چہرے اور لہجے میں بلکل شگفتہ بیگم کی طرح ہی خوشی تھی جبکہ عنایہ کو اپنا وہاں کھڑا ہونا مشکل ہو گیا تھا – بہت پیارا ہے ماشاللہ اللہ نصیب میں کرے – دیکھو عنایہ پیارا ہے نہ ؟؟
اسے نہ ہم تمہارے کمرے کے ساتھ والے کمرے کو اچھے سے بچوں والے روم کی طرح ڈیکوریٹ کروا کر اس میں رکھیں گے – تم کیا کہتی ہو ؟؟ شگفتہ بیگم نے اپنے ساتھ کھڑی عنایہ کو دیکھ کر اپنا سارا پلان بتایا تھا جبکہ عنایہ کی بس ہو گئی تھی – بس کر دیں پلیز بس کر دیں – مجھے ابھی کوئی بات نہیں کرنی اس بارے میں – میرے لیے سب کچھ پہلے ہی بہت مشکل ہے اور مشکل مت بنائیں –
وہ انہیں بے بسی بھرے لہجے میں کہتے وہاں سے بھاگنے کے انداز میں اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی تھی جبکہ شگفتہ بیگم اور امجد صاحب نے حیرت اور پریشانی سے اس کی پشت دیکھی تھی – اسے کیا ہوا ؟؟ ایسے کیوں ری ایکٹ کر رہی ہے ؟؟ امجد صاحب نے پریشانی سے کہا – وہ ہو جاتا ہے اس حالت میں عورت چڑچڑی ہو جاتی ہے – شگفتہ بیگم نے پر سوچ انداز میں سیڑھیوں کی جانب دیکھتے امجد صاحب کو دلاسہ دیا تھا مگر خود ان کے اندر کچھ کھٹک رہا تھا –
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial