بے قدرہ

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 2

اسے لا کر سٹیج پر بٹھا دیا گیا تھا جو گھر کے لان میں ہی بنایا گیا تھا – اس نے اپنے انسوؤں کو کیسے روکا ہوا تھا یہ اس سے یا اس کے خدا سے بہتر کوئی نہیں جانتا تھا مگر اتنی کوشش کے بعد بھی اس کی انکھیں نم تھیں – شگفتہ بیگم کا تو دل پھٹنے کو انے والا تھا – یا اللہ اب تو ہی میری اخری امید ہے – اے اللہ تو ہی میری بیٹی کی زندگی برباد ہونے سے بچا سکتا ہے –
شگفتہ بیگم نے اسمان کی طرف منہ کرتے دل ہی دل میں اپنے اللہ کو مخاطب کرتے کہا – مولوی صاحب ا گئے ہیں نکاح شروع کرتے ہیں – ابا کی اواز عنایہ اور شگفتہ بیگم کے کانوں میں پگھلے شیشے کی مانند لگی تھی – اماں تو دہل کر اس کے قریب جا اسے گلے لگا چکی تھی جبکہ اس نے روتے ہوئے اپنے ساتھ سٹیج پر مولوی کے ساتھ ا کر بیٹھتے اپنے دلہے کو دیکھا – جو سیاہ کالے رنگ کا حامل تھا اور بال بھی ایسے کہ جیسے چڑیا کا گھونسلا ہو – شکل پر بے تحاشہ کمینگی کے ساتھ لعنت پڑی ہوئی تھی –
کیا اس کے ابا کو اس پر ترس نہیں ایا تھا کس گناہ کی سزا دے رہے تھے وہ اسے – وہ اپنی ہی سوچوں میں تھی کہ مولوی کی اواز پر ہوش کی دنیا میں لوٹی – عنایہ امجد خان ولد امجد خان اپ کا نکاح……! رکیں!! مولوی کے رواں الفاظ کو کسی کی بھاری اواز نے روکا – رکیے مولوی صاحب اتنی بھی کیا جلدی ہے پہلے میری بات بھی تو سن لیں – سب لوگوں نے حیرت سے اس نوجوان کو دیکھا جو بولتا ہوا اسٹیج پر ایا تھا جب کہ عنایہ تو اسے یہاں دیکھ حیرت کی مورتی بنی ہوئی تھی اس کا یہاں کیا کام تھا مگر وہ جس انداز سے اس کی طرف دیکھ کر مسکرا رہا تھا اسے کچھ غلط ہونے کا احساس فورا ہوا اور دل ڈر کے سبب زور سے دھڑکنا شروع ہو گیا –
کون ہو تم لڑکے امجد صاحب نے با روعب لہجے میں اس سے پوچھا جو پرسنلٹی سے تو کوئی امیر رئیس زادہ لگ رہا تھا – جب کہ ساتھ موجود چار گارڈ اس بات کو واضح کر رہے تھے کہ وہ کافی امیر شخص تھا – میں ؟؟ اس نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھتے جیسے ان سے پوچھنا چاہا اور پھر خود ہی ہنس دیا – میں وہ شخص ہوں جس سے اپ کی بیٹی پہلے ہی نکاح کر چکی ہے – میرا نام ہے سکندر شاہ !! اپنا نام لیتے ہوئے اس کے لہجے میں غرور تھا جبکہ عنایہ اور باقی سب لوگ اس کے الفاظ سن دنگ رہ گئے تھے – کیا بکواس ہے یہ ؟؟ امجد صاحب نے غصے سے کہا –
ارے کون سی بکواس کیا ؟؟میں نے تو کوئی بکواس نہیں کی – اپ تو بلا وجہ غصے میں ا گئے سسر جی – اس نے جیسے ان کے غصے کو ہوا دیتے کہا – وہ اپنے بدلے کے چکر میں ہر لحاظ بھول رہا تھا – اور ہمیشہ اپنے بدلے کے چکر میں وہ ایسا ہی ہو جاتا تھا سب لحاظ بھول جانے والا – بابا یہ جھوٹ بول رہا ہے میں اس شخص کو نہیں جانتی میرا یقین کریں یہ جھوٹ بول رہا ہے – صدمے کی حالت سے باہر نکلتے ہی وہ تڑپ کر امجد صاحب کے پاس اتی روتے ہوئے انہیں یقین دلانے لگی – ارے میری جان تم جھوٹ کیوں بول رہی ہو بتاؤ نہ کہ تم نے مجھ سے نکاح کر رکھا ہے – سکندر کے کہنے پر وہ غصے سے اس کی طرف ائی اس کے کوٹ کو اپنے نازک ہاتھوں کی گرفت میں لے گئی –
بکواس بند کرو نہیں ہوں میں تمہارے نکاح میں – بتاؤ سچ سب کو – کیوں ایسا کر رہے ہو ؟! میں نے کیا بگاڑا ہے تمہارا ؟؟ غصے سے اس کا لہجہ کانپ رہا تھا – جھوٹ کب بولا میں نے ؟؟ چہرے پر معصومیت سجا کر کہتے وہ عنایہ کو زہر سے بدتر لگا تھا – جھوٹ ہے یہ سب جھوٹ ہے جو تم بول رہے ہو – کیا ثبوت ہے تمہارے پاس ؟؟ بتاؤ نہ کیا ثبوت ہے تمہارے پاس جو تمہاری بات کو سچ ثابت کرے ؟؟ غصے سے ہوئے سرخ چہرے سے اسے کہتی وہ اسے مسکرانے پر مجبور کر گئی – اس کا یوں بے بس ہونا سکندر کو سکون دے رہا تھا ثبوت بھی ہے میری جان ثبوت بھی لایا ہوں خود دیکھ لو –
کہنے کے ساتھ اس نے پاس کھڑے کرم داد سے کچھ پیپرز پکڑے جو اس کے پاس پیچھے کھڑا تھا – یہ لو دیکھ لو – وہ پیپر اس کے ہاتھ میں پکڑاتے ہوئے بولا & جب کہ وہ حیرت سے ان پیپرز کو دیکھ رہی تھی جو نکاح نامہ تھا اور اس پر اس کے سائن بھی تھے – یہ….. یہ پیپرز نقلی ہیں یہ میں نے سائن نہیں کیے – میں نے تو کوئی نکاح نامہ سائین نہیں کیا – وہ حیرت سے آہستہ اواز میں بڑبڑائی – دکھاؤ مجھے – امجد صاحب جو تب سے تماشہ دیکھ رہے تھے اگے بڑھتے اس کے ہاتھ سے پیپر چھینتے ہوئے بولے – پیپرز پڑھنے کے بعد ان کا ہاتھ اٹھا تھا اور عنایہ کے چہرے پر نشان چھوڑ گیا – تھپڑ اتنی شدت کا تھا کہ وہ لڑکھڑا کر نیچے گری تھی –
شگفتہ بیگم جو خود پریشانی سے سارا معاملہ دیکھ رہی تھی عنایہ کو تھپڑ لگنے پر اسے گرتا دیکھ تڑپ کر اگے بڑھیں تھیں اور اسے نیچے بیٹھ گلے سے لگایا – جو بہت بری طرح ہچکیوں سے رو رہی تھی – سکندر بڑے مزے سے یہ سارا سین دیکھ رہا تھا – یہ سب کیا تماشہ ہے امجد تم نے ہمیں یہاں بےعزت ہونے کے لیے بلایا تھا کیا ؟؟ ہمیں نہیں کرنی اپنے بیٹے کی شادی تمہاری بد کردار بیٹی سے رکھو اسے اپنے پاس – امجد صاحب کے دوست جو کب سے سارہ تماشہ خاموشی سے دیکھ رہے تھے غصے میں ا کر بولے اور اپنے بیٹے اور خاندان والوں سمیت عنایہ کو برا بھلا کہتے وہاں سے جا چکے تھے –
سکندر کو اپنا بدلہ پورا ہوتا نظر ایا تو اس نے چہرے پر سنجیدگی طاری کرتے وہاں سے جانے کا سوچا – دیکھیں امجد صاحب اپ کی بیٹی اپ کو اور مجھے ہم سب کو دھوکہ دے رہی تھی مجھے نہیں رکھنا اس سے اب کوئی اور رشتہ اپ کو مبارک ہو اپ کی بیٹی – اب اسے وہاں سے جانا تھا اسی لیے خود بہانہ بناتا وہاں سے جانے لگا کہ امجد صاحب کی اواز نے اسے روکا – رکو لڑکے کہاں جا رہے ہو اس لڑکی کو بھی ساتھ لے کر جاؤ ہم سے اب اس کا کوئی تعلق نہیں – وہ نفرت سے عنایہ کو دیکھتے بولے – نہیں بابا میں نے نہیں جاؤں گی اس کے ساتھ – میرا کوئی نکاح نہیں ہوا اس سے – وہ ان کے پاؤں پڑتے بولی شگفتہ بیگم تو خود رو رو کر ہلکان ہو رہی تھی بکواس بند کرو اپنی اس نکاح نامے پر تمہارے ہی سائن ہے کسی اور کے نہیں –
وہ غصے سے نکاح نامہ اس پر پھینکتے ہوئے بولے – نہیں بابا یہ سائن میرے ہیں پر میں نے نہیں کیے پلیز میرا یقین کریں – اسے سمجھ نہیں ارہا تھا کہ وہ کیسے یقین دلائے انہیں – لڑکے تم اسے یہاں سے لے جا سکتے ہو – وہ عنایہ کو جھڑکتے سکندر سے مخاطب ہوئے – اس سے پہلے کہ سکندر کچھ بولتا مولوی صاحب نے امجد صاحب کو مخاطب کیا جو تب سے وہاں موجود تھے – امجد بیٹا اگر بیٹی اس لڑکے کے ساتھ رخصت کرنی ہی ہے تو نکاح دوبارہ کرو تاکہ نکاح صحیح سے ولی کی اجازت کے ساتھ ہو – مولوی کے الفاظ تو جیسے عنایہ پر بجلی کی مانند گرے تھے –
نہیں بابا اپ مجھے مار دیں زندہ دفن کر دیں چاہے تو اگ لگا دیں پر مجھے اس شخص کے ساتھ نہیں بھیجے مجھے نہیں جانا اس کے ساتھ خدا کے لیے یہ ظلم نہ کریں – سکندر جو مولوی کی بات پر انکار کر کے وہاں سے جانے لگا تھا اعنایہ کے الفاظ سن رک گیا – وہ لڑکی سے ٹھکرا رہی تھی اس سے نکاح کی بجائے خود پر موت کو فوقیت دے رہی تھی – چاہے وہ اس میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا تھا بلکہ وہ تو یہاں ایا ہی اسے سب کے سامنے بے عزت کر کے اپنا بدلہ لینے تھا – وہ جس کے پیچھے لڑکیاں پاگل تھیں جس کی ایک نگاہ کے لیے لڑکیاں ترستی تھیں اسے وہ انکار کر رہی تھی -مطلب سکندر شاہ کی توہین کر رہی تھی – چاہے اس کا بدلہ پورا ہو چکا تھا لیکن اس کی یہ بات سکندر شاہ کی انا پر کاری ضرب کی طرح لگی تھی –
مجھے منظور ہے اپ کی بات اپ دوبارہ نکاح کروا کر اسے میرے ساتھ رخصت کر سکتے ہیں – سکندر کے کہنے پر کرم داد اور عنایہ دونوں نے بیک وقت اسے دیکھا – سائیں یہ اپ…… اس سے پہلے کہ داد کچھ کہتا سکندر کے ہاتھ کے اشارے نے اسے چپ کروا دیا – اٹھو عنایہ بیٹھو صوفے پر تاکہ نکاح کی رسم ادا کریں – شگفتہ بیگم کے الفاظ پر عنایہ نے حیرت سے انہیں دیکھا جو بنا کسی تاثر کے سنجیدہ چہرہ لیے اس کے سامنے کھڑی اس سے مخاطب تھیں – امی اپ بھی ؟؟ اس کے منہ سے حیرت کے مارے اواز بھی نہ نکلی محض ہونٹ ہیلے تھے – جبکہ شگفتہ بیگم بڑی مشکل سے اپنے انسوؤں پر بند باندھے کھڑی تھیں –
انہیں عنایہ پر یقین تھا لیکن وہ یہ بھی جانتی تھی اگر عنایہ سکندر کے ساتھ نہ جاتی تو امجد صاحب اسے واقعی قتل کر دیتے اور ایک ماں اپنی اولاد کی موت نہیں دیکھ سکتی اسی لیے انہیں یہ راستہ ٹھیک لگا تھا – چاہے جو بھی تھا ان کی بیٹی زندہ تو رہتی چپ چاپ نکاح کے لیے ہاں کہو عنایہ اور جاؤ یہاں سے اور ساری زندگی یہاں مت انا –
ان کے الفاظ کا مطلب تو کچھ اور تھا مگر عنایہ نے کچھ اور ہی لیا تھا – ٹھیک ہے اگر اپ سب کو یہی کرنا ہے تو ٹھیک ہے امی مگر یاد رکھیے گا اج کے بعد بلکہ ابھی سے عنایہ مر گئی اور پیچھے صرف اس کی زندہ لاش بچے گی – وہ تھکے ہوئے لہجے میں کہتی سٹیج پر رکھے صوفے پر جا بیٹھی اور اگلے کچھ ہی منٹوں میں وہ انایہ امجد خان سے عنایہ سکندر شاہ بن گئی تھی –
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
شگفتہ بیگم سے گلے لگانے کے لیے اس کے قریب ائی ہی تھی کہ اس نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں روک دیا اور خود بھی دو قدم پیچھے لیے – عنایہ میری بچی – انہوں نے روتے ہوئے اسے پکارا – نہیں ہوں میں اپ کی بیٹی سنا اپ نے مر گئی وہ عنایہ جو اپ کی بیٹی تھی – اپ نے میرا یقین نہیں کیا – اپنی بیٹی پر یقین نہی کیا یعنی کو اپ کو اپنی تربیت پر یقین نہیں تھا – وہ غصے سے بولتی روتے ہوئے وہاں سے بھاگتی ہوئی گیٹ کی جانب بڑھ گئی جبکہ شگفتہ بیگم کی ممتا تڑپ کر رہ گئی تھی –
سکندر اور داد باہر گاڑی کی جانب بڑھ ہی رہے تھے کہ وہ ان کے پاس سے بھاگتی ہوئی گزری – انہیں لگا وہ گاڑی کی جانب ہی گئی ہے ویسے بھی یہاں کون سا نارمل رخصتی ہو رہی تھی جو کوئی اسے گاڑی تک لے جا کر بٹھاتا – وہ اگے بڑھنے لگے تھے کہ شگفتہ بیگم کی اواز پر رکے جو سکندر سے مخاطب تھیں – بیٹا میری بیٹی کا خیال رکھنا اسے خوش رکھنا وہ ساری زندگی خوشیوں کو ترسی ہے یہ ایک ماں کی تم سے گزارش ہے – وہ ہاتھ جوڑتی ہوئی اس سے بولیں –
ارے یہ کیا کر رہی ہیں اپ ؟؟ وہ ان کے ہاتھ پکڑتا بولا -جبکہ ان کی حالت دیکھ داد کو بھی دکھ ہو رہا تھا مگر وہ اپنے سائیں کے اگے بے بس تھا – میں رکھوں گا خیال اپ پلیز ٹینشن نہ لیں – وہ ان کو دلاسہ دیتا بولا – اسے عنایہ سے کوئی سروکار نہیں تھا مگر اپنی ماں کی عمر کی عورت کا ایا یوں اس کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہونا اسے اچھا نہ لگا اس لیے بول پڑا – شکریہ بیٹا بہت شکریہ وہ مسرت سے بولیں اور اس کے سر پر ہاتھ رکھ گئیں –
وہ گاڑی کے قریب پہنچے تو عنایہ کا نام و نشان بھی وہاں نہ تھا – کہاں گئی یہ لڑکی ؟؟ سکندر پریشانی سے داد کو بولا جو ادھر ادھر دیکھ رہا تھا – تم اس طرف دیکھو میں اس طرف دیکھتا ہوں گارڈ کو اس نے ابھی واپس بھیج دیا تھا اس لیے وہ دونوں ہی اس وقت عنایہ کو ڈھونڈنے نکلے –
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
وہ تھوڑا سا ہی اگے بڑھا تھا کہ اسے سرخ جوڑے میں وہ شکستہ قدم اٹھاتی سڑک پر چلتی نظر ائی – بڑے بڑے قدم اٹھاتا وہ اس کے قریب پہنچا اور اس کا بازو پکڑ کر اسے اپنی جانب کھینچا – وہ جو جسم ڈھیلا چھوڑے چل رہی تھی کسی کے پیچھے سے بازو پکڑ کر کھینچنے پر کٹی پتنگ کی طرح لہرا کر اس کے سینے سے جا لگی جب کہ سکندر شاہ ایک پل تھم گیا تھا –
میک اپ واٹر پروف ہونے کے سبب جوں کا توں تھا اور اوپر سے رونے کے سبب ہوئی لال انکھوں نے تو جیسے خوبصورتی کا الگ ہی روپ دھار رکھا تھا – کہاں جا رہی ہو ہاں ؟؟ ایک دم ہوش میں اتا وہ غصے سے بولا – چھوڑو مجھے نہیں جانا تمہارے ساتھ چھوڑو -وہ غصے سے خود کو چھڑاتے بولی کیوں نہیں جاؤ گی میرے ساتھ ہاں بولو ؟؟ کیوں نہیں؟؟ تمہارے تو اچھے بھی جائیں گے –
سکندر شاہ تو اپنی کوئی ٹوٹی ہوئی چیز بھی اپنی پہنچ سے دور نہیں کرتا تم تو پھر نکاح میں ہو تو تمہیں کیسے چھوڑ دوں – چلو میرے ساتھ اور خبردار جو تمہاری اب اواز بھی نکلی ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا – ایک ایک لفظ چبا کر کہتا وہ اسے ساتھ گھسیٹتے ہوئے زبردستی لے جانے لگا – تم سے کوئی برا ہے بھی نہیں – جب کچھ نہ بن سکا تو وہ غصے اور بے بسی سے ملی جولی کیفیت کے ساتھ بولی جس پر سکندر نے محظ اسے گھور کر دیکھا تھا –
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial