قسط: 3
وہ اسے اپنے ساتھ شہر والے گھر لے ایا تھا جہاں وہ زیادہ تر تو نہیں مگر اکثر کام کی وجہ سے رہتا تھا – عنایہ حیرت سے ادھر ادھر دیکھ رہی تھی جہاں کسی زی روح کا نام و نشان بھی نہ تھا – گھر زیادہ بڑا تو نہیں تھا مگر ایک فیملی اسانی سے رہ سکتی تھی – اج سے تم یہاں رہو گی کچن میں سب کچھ کھانے کے لیے موجود ہے تمہیں مشکل نہیں ہوگی – سکندر نے اسے دیکھ کر کہا جو ادھر ادھر دیکھتی گھر کا معائنہ کر رہی تھی –
میں اکیلی رہوں گی یہاں ؟؟ اس نے حیرت سے پوچھا – کیوں تو کیا تمہارے ساتھ پوری کالونی رہے گی ؟؟ وہ اس پر ٹونٹ کرتا بولا جس پر وہ کچھ بھی نہ کہہ سکی – چلیں سائیں بی جان کی بار بار کال ارہی ہے اپ جانتے ہیں نا وہ اپ کے حویلی جانے کے بعد ہی سوئیں گی – داد عنایہ کا سامان لا کر وہاں رکھتا بولا جو شگفتہ بیگم نے دیا تھا – ہاں چلو وہ داد سے کہتا باہر کی جانب چل پڑا پیچھے عنایہ اسے کہہ بھی نہ سکی کہ تنہائی میں وہ ڈرتی تھی – مگر اب تو شاید یہ تنہائی ہی اس کا مقدر تھی –
داد کی باتوں سے اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ یہاں نہیں رہتا تھا – تو اس سے صاف ظاہر تھا کہ وہ اسے یہاں اکیلا ہی رکھنے والا تھا – نہ جانے وہ کس چیز کا بدلہ لے رہا تھا – خیر اس کے ساتھ رشتہ نبھانے میں عنایہ کو بھی کوئی دلچسپی نہ تھی اب تو یہ تنہائی ہی اس کا مقدر تھی – اسے اب اس تنہائی سے ڈر ختم کر کے دوستی کرنی تھی – سمجھوتہ ہی تو کرنا تھا جو ہر لڑکی کرتی ہے اور وہ بھی تو لڑکی ہی تھی- ہر جگہ سے ٹھکرائی ہوئی لڑکی –
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
اپ نے اچانک کیوں نکاح کیوں کر لیا عنایہ بی بی سے ؟؟؟ اور انہیں وہاں شہر کیوں چھوڑائے وہ بھی اکیلا ؟؟ داد کے پوچھنے پر سکندر فاتحانہ ہنسی ہنستے اس کی جانب دیکھنے لگا جو ڈرائیو کر رہا تھا – تسکین کے لیے نکاح کیا ہے اس سے – اپنی انا کی تسکین کے لیے – وہ مجھ سے شادی کے لیے انکار کر رہی تھی –
جس سے شادی کرنے کے لیے لڑکیاں مرتی ہیں تو یہ بات میری انا پر گہرا وار کر گئی وہ لڑکی ہمیشہ میری انا پرواہ کرتی ہے تو بس اب وہاں اس گھر میں اکیلی دیواروں کے ساتھ سر پھوڑے گی – مجھے کوئی دلچسپی نہیں اس میں ساری زندگی وہ میرے نام پر کاٹے گی تنہائی میں اور کوسے کی اس وقت کو جب اس کا مجھ سے ٹکراؤ ہوا اور وہاں اس گھر میں اپنی قسمت پر ماتم کرتی سر تھوڑے کی دیواروں کے ساتھ – اس کے لہجے میں عنایہ کے لیے نفرت ہی نفرت تھی جبکہ داد اسے دیکھ کر رہ گیا تھا –
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
اس سے یہاں رہتے ایک ہفتے سے اوپر ہو گیا تھا – سکندر تو جیسے اسے وہاں چھوڑ کر بھول گیا تھا – اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا تھا سکندر کے اسے یاد رکھنے یا بھولنے پر – وہ سارا سارا دن پورے گھر میں بولائی بولائی پھرتی – اج بھی وہ ہر روز کی طرح سیاہ کپڑے زیب تن کیے لان میں رکھی کرسی پر بیٹھی دونوں ٹانگیں اوپر کیے سر ان پر ٹکائے اداسی بیٹھی خوبصورتی کی مورت لگ رہی تھی – یقینا اگر کوئی مصور اسے یوں دیکھتا تو اس خوبصورت منظر کو قید ضرور کرتا –
رات کے سائے گہرے ہوتے دیکھ وہ اندر جانے کی نیت سے اٹھ کھڑی ہوئی ابھی دو قدم ہی اس نے مشکل سے اٹھائے تھے کہ بخار کے سبب سے شدید قسم کا چکر ایا اس نے فورا پاس والی کرسی پر ہاتھ رکھا – ابھی وہ خود کو نارمل کر رہی تھی کہ داخلی گیٹ کھلنے کی اواز پر اس نے حیرانگی سے پلٹ کر دیکھا – جہاں سے سکندر اور داد اندر داخل ہو رہے تھے – اسے سامنے دیکھ سکندر بھی حیرت میں تھا کیونکہ ان گزرے دنوں میں وہ بالکل بھول چکا تھا اس کے بارے میں اور اب یوں اسے اچانک دیکھ اسے حیرت ہوئی تھی – دودھ کی سی سفید رنگت پر کالا لباس اسے بہت خوبصورت لگ رہا تھا اور اس پر بخار کی تپش کے سبب ہوئے لال گال اسے اور خوبصورت بنا رہے تھے – بے شک وہ سادگی میں بھی قیامت کی ادا رکھتی تھی –
ان دونوں کو وہاں دیکھ وہ بنا کوئی بات کیے بنا کوئی رسپانس دیے وہاں سے اندر کی جانب بڑھ گئی – جبکہ سکندر بھی خاموشی سے داد کے ساتھ اندر جانے لگا – اج ان کی رات کو کوئی ضروری میٹنگ تھی اس لیے وہ افس کے بعد سیدھا یہاں ائے تھے تاکہ رات میٹنگ پر یہاں سے چلے جائیں – ابھی وہ بہت تھک چکے تھے اس لیے کچھ تیرا ارام کرنے کی نیت سے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئے تاکہ میٹنگ پر وہ بالکل فریش ہوں – داد کا کمرہ نیچے والے پورشن میں ہی تھا جبکہ سکندر کا اوپر والے پورشن میں تھا اس لیے وہ اوپر کی جانب بڑھ گیا –
دو کمرے نیچے جب کہ دو ہی کمرے اوپر والے پورشن میں تھے – وہ سیڑھیاں چڑھتا اوپر ایا تو عنایہ کے کمرے کے پاس سے گزرتے اس نے بند کمرے کے دروازے کو دیکھا اور اگے بڑھ گیا – اندر اتے ہی وہ اسے اس کے کمرے میں جاتا دیکھ چکا تھا – جبکہ وہ اندر بیڈ پر لیٹی ادھر سے ادھر کروٹ لے رہی تھی – بخار کے سبب وہ روز رات ایسے ہی بے چینی بھری گزارتی تھی مگر کوئی بھی اس کا خیال رکھنے کے لیے نہیں تھا –
جس دن سے وہ یہاں ائی تھی اس رات سے اسے بخار تھا جو کم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا – اسے بھی کہاں پرواہ تھی اپنی وہ تو خود چاہتی تھی کہ وہ مرے اور کہانی ختم ہو – مگر اتنی اسانی سے تو موت بھی نہیں اتی –
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
رات کے تقریبا ایک بجے اس کی انکھ گلا خشک ہونے کے سبب کھلی تھی – پاس پڑے جگ کو اٹھا کر دیکھا تو وہ خالی تھا – وہ مشکل سے چکراتے دکھتے سر کو سنبھالتی ایک ہاتھ سر پر رکھے دوسرے سے جگ تھامے کمرے سے باہر نکلی اور کچن کی جانب بڑھ گئی جو نیچے والے پورشن میں تھا – کچن میں جاتے اس نے بمشکل جگ میں پانی بھرا – بخار کی حدت اور بڑھ گئی تھی جس کے سبب کھڑے ہونا بھی مشکل تھا – وہ مشکل سے اپنے قدموں پر توازن برقرار رکھے کچن سے نکلنے ہی والی تھی کہ تبھی سکندر بھی ٹراؤزر اور شرٹ پہنے کچن میں داخل ہوا اور اسے سامنے دیکھ وہیں دروازے پر رک گیا –
میٹنگ تقریبا 12 بجے ختم ہوئی تھی تو دادی کو فون کر کے وہ بتا چکا تھا حویلی نہ انے کا کیونکہ صبح اسے جلدی ہی افس جانا تھا تو بہتر یہی تھا وہ یہیں رہتا – ابھی وہ اپنا کا کام ختم کرتا کافی بنانے کچن میں ایا تھا مگر انایا کو سامنے دیکھ وہ وہیں رک گیا – راستہ دیں مجھے جانا ہے – اپنی انکھوں کو بار بار بند کر کے اور کھولتے ہوئے بولی جن کے اگے بار بار اندھیرا چھا رہا تھا – اگر نہ دو راستہ تو ؟!وہ کچن کے دروازے پر دونوں طرف ہاتھ رکھتا بولا مقصد صاف اسے چڑھانا تھا –
پلیز !! اس کی ہمت جواب دے رہی تھی انکھوں میں انسو لیے وہ منت پر اتر ائی تھی – جبکہ اس کی انکھوں میں یوں انسوں انے اور منت کرنے پر سکندر کو جیسے سکون ملا تھا – ارے کیا ہوا بی بی کو ؟؟ بی بی کو رونا ا رہا ہے ؟؟ اس نے عنایہ کا مذاق اڑاتے اسے مزید چھڑانے کے لیے ہاتھ اگے بڑھاتے اس کے انسو صاف کرنے چاہے – مگر اس کے چہرے پر ہاتھ رکھتے ہی سکندر کو ایسے لگا جیسے اس نے کسی جلتے کوئلے کو چھو لیا ہو – تمہیں تو بہت تیز بخار ہے – چہرے سے ساری شوخی دور ہوئی تھی اور خود بخود فکر نے جگہ لے لی تھی – کچھ نہیں ہوا مجھے راستہ دے دیں بس –
وہ اس کی بات پر غصے سے کہتی اگے بڑھنے ہی لگی تھی کہ انکھوں کے اگے مکمل اندھیرا چھایا اور اگلے ہی لمحے وہ بے ہوش ہوئی تھی – اس سے پہلے کہ وہ گرتی سکندر نے فورا اسے تھاما تھا – اس کی طبیعت تو واقع ہی بہت خراب ہے – وہ پریشانی سے خود ہی بڑھایا اور اسے گود میں اٹھاتا اس کے کمرے کی جانب لے کر بڑھ گیا –
::::::::::::::::::::::::::::::::::::
اسے کمرے میں لے جا کر بیڈ پر ارام سے لیٹا کر اس نے اس پر لحاف ڈالا اور کمرے سے باہر نکلا اس کا رخ داد کے کمرے کی جانب تھا – داد جو ارام و سکون سے بھری نیند میں گم تھا کہ اچانک سکندر کے جھنجھوڑتے ہوئے اٹھانے پر ہر بڑا کر اٹھا – کون ہے ؟؟ کون ہے ؟؟؟؟ وہ ادھر ادھر دیکھتے بے ربط بولا جس پر سکندر نے اسے گھورا تھا – کوئی نہیں ہے اٹھو جلدی اور ڈاکٹر کو کال کر کے بلاؤ – سکندر کے کہنے پر داد نے حیرت سے کھڑے ہوتے اس کے ماتھے اور گالوں پر ہاتھ رکھے –
کیا ہوا ہے سائیں اپ کو بخار ہے کیا ؟؟ نہی بخار تو نہیں ہے – خود ہی پوچھ کر خود ہی اس نے جواب دیا تھا – درد ہے کیا کہیں ؟؟ وہ پریشانی سے سے بولا مگر سکندر کو غصہ دلا گیا تھا – مجھے کچھ نہیں ہوا داد – اس کو بخار ہے – اسے کسے ؟؟ سکندر کے کہنے پر داد نے حیرت سے پوچھا – اسے مطلب اس لڑکی عنایہ کو – اب کوئی اور سوال مت کرنا اٹھو ڈاکٹر کو بلاؤ – ایک ایک لفظ چباتے ہوئے بولتے وہ کمرے سے باہر نکلا تھا جبکہ پیچھے داد جلدی سے ڈاکٹر کو کال کرنے لگا جو پتہ نہیں اس وقت ملنے بھی والا تھا یا نہیں –
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
وہ واپس کمرے میں ایا تو اس کے ہاتھ میں ٹھنڈے پانی کا باؤل اور ساتھ چھوٹا سا ٹاول تھا – وہ عنایہ کے قریب دوسری جانب بیڈ پر بیٹھ کر اس کے ماٹھے پر ٹھنڈے پانی کی پٹیاں کرنے لگا – ویسے بھی وہ لڑکی اب اس کی ذمہ داری تھی اور وہ لاکھ اس سے نفرت کرتا مگر اتنا بھی برا نہیں تھا کہ اسے اس حالت میں یوں ہی چھوڑ کر اپنی نیندیں پوری کرتا – ابھی اسے پٹیاں کرتے پانچ منٹ ہی مشکل سے ہوئے تھے کہ اسے محسوس ہوا جیسے عنایہ کچھ کہ رہی ہو –
اپنے کان اس کے منہ کے قریب کرتے اس نے سننے کی کوشش کی – امی….. میں نے…..ک….کچھ ن…نہیں کیا …..م….میرا یق….یقین ….کریں – میں بے…..قص….قصور ہوں – میرا….ک…کوئی ق….قصور نہی – وہ غنودگی میں ایک ہی بات دہرا رہی تھی – سکندر شاہ اس کے منہ سے نکلنے والے الفاظ پر تھوڑا شرمندہ ہوا تھا – اس نے واقع ہی اس لڑکی کو بہت بڑی سزا دی تھی مگر یہ شرمندگی بھی تھوڑی دیر کے لیے ہی تھی – سائیں ا رہا ہے ڈاکٹر بڑی مشکل سے مانا ہے تین گنا زیادہ پیسے دینے کے وعدے پر – داد کمرے میں اتا اسے بتانے لگا مگر اسے یوں عنایا کہ کیئر کرتے دیکھ حیرت سے اسے دیکھنے لگا – سائیں لائیں میں کر دیتا ہوں – اپ کی کمر میں درد ہونے لگ جائے گا – داد اس کے قریب جاتا بولا –
نہیں داد میں کر لوں گا اس کی ضرورت نہیں ہے تم ڈاکٹر کا انتظام کر دو یہی بہت ہے – سکندر اسے ہاتھ کے اشارے سے منع کرتا بولا – جو بھی تھا اسے منظور نہیں تھا کہ کوئی عنایہ کو چھوتا – وہ اس معاملے میں بہت پوزیسو تھا جو اس کی ملکیت ہوتی اس پر وہ کسی اور کی نظر بھی برداشت نہیں کر سکتا تھا پھر چاہے وہ چیز اس کے سامنے کچرے کی حیثیت ہی کیوں نہ رکھتی ہو – تھوڑی ہی دیر میں ڈاکٹر ا چکا تھا مگر ڈاکٹر کو دیکھ سکندر نے دات کو گھوڑی سے نوازا تھا & یہ کیا ہے داد تم نے میل ڈاکٹر کیوں بلایا ہے ؟؟ وہ غصے سے بنا ڈاکٹر کا لحاظ کیے بولا – سائیں اس ٹائم میل ڈاکٹر ہی آ سکتا تھا – وہ خواہ مخواہ شرمندہ ہوتا بولا – بکواس بند کرو تم اپنی اور اپ خبردار جو ہاتھ بھی لگایا میری وائف کو ویسے ہی چیک کریں اسے –
وہ داد کو چپ کرواتا ڈاکٹر سے مخاطب تھا جو اس کی بات سن کر حیرت کی گہرائیوں میں گرا تھا – لیکن مسٹر شاہ بنا ہاتھ لگائے میں کیسے مریض کو چیک کر سکتا ہوں ؟؟ ڈاکٹر بیچارہ اپنی مشکل بیان کرتے بولا – جیسے بھی کرو بس تم اپنے ہاتھ نہیں لگاؤ گے اسے – وہ تو جیسے کچھ بھی سمجھنے اور سننے کے موڈ میں نہیں تھا – ڈاکٹر بےچارگی سے اپنا سامان بیڈ کے سائیڈ ٹیبل پر رکھتا عنایہ کو دیکھ رہا تھا کہ اب وہ اس کا بخار کس طریقے سے چیک کرے وہ بھی بنا ہاتھ لگائے – مسٹر شاہ کیا اپ اپنی وائف کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر مجھے بتا سکتے ہیں انہیں بخار کی کس قدر حدت ہے – وہ سکندر کو کہتے پاس رکھی کرسی پر بیٹھ کر بولا –
اگر میں نے ہی بتانا تھا تو اپ کو کیوں بلایا ہے – اور وہ کہاں ہے وہ تھرما میٹر نکالو اسے باہر اس سے چیک کرو – سکندر کے تیور دیکھ جہاں داد کو ہنسی ا رہی تھی وہیں ڈاکٹر کی جان نکل رہی تھی – وہ جلدی سے اپنے بیگ سے تھرما میٹر نکالتا عنایہ کے منہ میں رکھنے ہی لگا تھا کہ سکندر نے راستے میں ہی اس کا ہاتھ تھام کر اسے تگڑی گھوڑی سے نوازا جس پر ڈاکٹر بیچارا تھوک نگلتا تھرما میٹر اس کے ہاتھ میں پکڑا کر خود پیچھے ہو گیا – اسے خود پر بے حد غصہ ا رہا تھا – کہ کیا ضرورت تھی چند پیسوں کا لالچ کر کے انے کی کم سے کم اس پاگل انسان سے تو بچ جاتا –
سکندر نے خود اگے ہوتے تھوڑا سا جھکتے ایک ہاتھ سے انایا کا منہ کھولا جبکہ دوسرے سے تھرما میٹر اندر رکھا & اس دوران عنایا کے ہونٹوں سے اس کی انگلیاں مس ہوئی تھی جس سے سکندر کے دل کی دھڑکنوں کا شور بڑا تھا – وہ جلدی سے خود کو نارمل کرتا پیچھے ہٹا تھا مگر دل کی دھڑکنوں کی اواز اسے ابھی بھی اپنے کانوں میں سنائی دے رہی تھی – حیرت سے اس نے اپنے دل کے مقام پر ہاتھ رکھا ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ یوں اس کا دل بے ربط دھڑکا ہو – وہ تو مشہور تھا کہ اس کے پاس دل ہی نہیں لیکن اج نہ جانے کیوں اس کا دل اپنے ہونے کی نشانی دے رہا تھا –
عنایہ وہ پہلی لڑکی تھی جسے اس نے چھوا تھا شاید اسی لیے اس کی حالت ہو رہی تھی – اب نکال دیں – ڈاکٹر کی اواز پر اس نے تھرما میٹا نکال کر ڈاکٹر کے حوالے کیا – او میرے خدایا انہیں تو 104 پر بخار ہے اور حالت سے صاف ظاہر ہے کہ ان کا ذرا بھی خیال نہیں رکھا گیا – خیر اپ کو کچھ میڈیسن لکھ کر دیتا ہوں اب ان کو کچھ کھلانے کے بعد دے دیجیے گا –
ڈاکٹر پرچی پر میڈیسن لکھ کر انہیں دیتا کھڑا ہوا میڈیکل سٹور سے اپ کو یہ میڈیسن مل جائیں گی اب مجھے اجازت دیں – شکریہ – ڈاکٹر کو تو جیسے بھاگنے کی جلدی تھی اسی لیے فورا پرچی داد کے ہاتھ میں تھماتے وہاں سے نو دو گیارہ ہو گیا تھا –
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::