قسط: 7
وہ اس یونی میں ڈونیشن دیتا رہتا تھا اور اسی سلسلے میں اج وہ داد کے ساتھ یونی خود ایا تھا – ابھی وہ پرنسپل کے افس کی جانب بڑھ ہی رہا تھا کہ اچانک اس کی نظر کچھ دور کھڑی لڑکی اور اس کے ساتھ کھڑے لڑکے پڑ گئی – دور سے اسے وہ عنایہ لگ رہی تھی تھوڑا سا غور کرنے پر اس کا شک یقین میں بدل گیا مگر اس کے فیس ایکسپریشن سے لگ رہا تھا کہ جیسے سامنے والا لڑکا اسے تنگ کر رہا ہو –
ابھی وہ پاس جا کر معاملہ سمجھنے کا سوچ رہا تھا مگر تبھی اس لڑکے نے عنایہ کا بازو تھام لیا اور وہیں سکندر کے اندر غصے کا لاوہ پھٹا تھا اور اگلے ہی لمحے وہ تیز رفتار سے ان کے قریب جاتا عنایہ کے بازو کو اس لڑکے کی گرفت سے ازاد کرتا اس پر ٹوٹ پڑا تھا – جب کہ وہ لڑکا خود کو بچانے کی کوشش کر رہا تھا –
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
عنایہ نے ہوش میں اتے اپنے ارد گرد دیکھا جہاں پورے یونی کھڑی تماشہ دیکھ رہی تھی – داد بھی اس کے پاس ہی کھڑا تھا جبکہ سکندر تو اج شاید اس لڑکے کو مار دینے کا ہی ارادہ رکھتا تھا – داد بھائی روکے انہیں وہ مار ڈالیں گے اس لڑکے کو – عنایہ نے داد سے کہا جب کہ وہ ساتھ ہی ایک نظر ادھر ادھر بھی ڈال رہی تھی جہاں پوری یونی کھڑی مزے سے تماشہ دیکھ رہی تھی – سوری بہنا میں یہ رسک نہیں لے سکتا اس لڑکے کو تو سکندر سے بچا لوں گا مگر مجھے پھر کون بچائے گا –
تم بھی چپ چاپ کھڑی رہو میری مانو تو – داد نے صاف انکار کرتے اسے بھی مفت سلا دی جس پر عنایہ اس پر تاسف سے سر ہلاتی خود ہی سکندر کی طرف بڑھی تھی – شاہ چھوڑیں اسے وہ مر جائے گا – عنایہ نے اسے میک سے دور کرنے کی کوشش کرتے کہا – نہیں چھوڑوں گا – اس کی ہمت کیسے ہوئی سکندر شاہ کی ملکیت پر نظر رکھنے اور اسے چھونے کی – سکندر نے بنا اس کی بات مانے غصے سے کہا – جبکہ میک تو اب ادھ بے ہوشی میں جا چکا تھا مار کھا کھا کر – مگر سکندر اسے چھوڈنے کا نام نہی لے رہا تھا وہ اب اس پر پاؤں کی ٹھوکریں رسید کر رہا تھا – اسے اپنی بات نہ مانتے دیکھ عنایہ نے سکندر کے سینے سے لگتے اسے زبردستی میک سے دور کرنا چاہا –
بس کر دیں شاہ پوری یونی دیکھ رہی ہے – وہ اسے میک سے دور کرتے بولی جب کہ اب تو داد نے بھی اسے بازو سے پکڑ کر روکا تھا – میک جو زمین پر چوٹوں کی درد سے کراہ رہا تھا اس کی گرل فرینڈ نے ا کر جلدی سے پکڑا تھا – کان کھول کر سن لو اگر اج کے بعد تم نے میری بیوی کو چھونے کی کوشش کی تو میں تمہاری کھال ادھیڑ دوں گا – اس بار تو معاف کر رہا ہوں مگر اگلی بار کوئی رعیت نہیں دوں گا – سکندر نے اپنے سینے سے لگی عنایہ کے گرد اپنا ایک بازو ڈالے دوسرے کی شہادت کی انگلی سے میک کو وارن کرتے کہا جبکہ وہ درد سے کراہتے ہوئے اس کے سامنے ہاتھ جوڑ گیا – پوری یونی حیرت اور حسد سے اس خوبرو نوجوان کا اپنی بیوی کے لیے جذباتی پن دیکھ رہی تھی –
تمام لڑکیاں تو اس کی خوبصورتی میں کھو گئی تھی جبکہ اس پر اس خوبرو جوان کی اپنی بیوی کے لیے محبت ان کے دلوں سے اہ نکلوا رہی تھی – وہ سبھی یہی دعا مانگ رہی تھیں کہ کاش اس جیسا شوہر انہیں بھی ملے – عنایہ تو اس کے رویے سے حیرت میں تھی – کیا واقعی وہ اس کے لیے اتنی خاص تھی کہ وہ کسی سے بھی اس کے لیے لڑ جاتا ؟؟ وہ دل ہی دل میں سوچ رہی تھی – مگر درحقیقت سکندر اپنی ملکیت کے لیے جذباتی ہو جاتا تھا اور یہاں بھی اس کا نقطہ نظر یہی تھا کہ وہ اس کے نکاح میں تھی یعنی اس کی تھی تو اس کی ہونے کے سبب وہ کسی کا سایہ بھی اس پر برداشت نہیں کر سکتا تھا – وہ اسے خود سے دور کرتا اس کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں تھام گیا جبکہ عنایہ اس کی انکھوں میں دیکھ رہی تھی
– تم ٹھیک ہو ؟؟ سکندر کے فکر مندی سے پوچھنے پر وہ مسکرا کر ہاں میں سر ہلایاتی پھر اسے اس کے سینے سے لگ گئی – اسے پسند ایا تھا سکندر کا خود کے لیے لڑنا اور فکر کرنا – دل میں ہلکی سی گُدگدی محسوس کرتے اس کی مسکراہٹ گہری ہوئی تھی – تبھی وہاں یونی کے پرنسپل ائے تھے – کیا ہوا مسٹر سکندر ؟؟ کیا مسئلہ ہو گیا تھا اپ کا اس لڑکے سے ؟؟کیونکہ سکندر بہت بڑی رقم ڈونیشن میں دیتا تھا اس لیے پرنسپل اس کے پاس اتے بہت احترام سے پوچھنے لگا – یہ لڑکا اج کے بعد مجھے یونی میں نظر نہ ائے رفاقت – اس نے سکندر شاہ کی بیوی پر بری نظر رکھی ہے –
سکندر غصے سے پرنسپل کو کہتا عنایہ کو وہاں سے لے کر چل دیا – جبکہ پرنسپل میکال عرف میک کی کلاس لے رہے تھے – اس کی ہمیشہ سے شکایتیں انہیں ملتی رہتی تھی لیکن اج انہیں اس پر بہت زیادہ ہی غصہ ا رہا تھا اس لیے اسے یونی سے نکال دینے کا اعلان کرتے وہ وہاں سے چل دیے –
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
سکندر اسے گھر چھوڑنے کے بعد چلا گیا تھا – گھر ا کر اس نے اچھی خاصی عنایہ کی کلاس لی تھی کہ اخر اس نے کیوں نہیں بتایا تھا اسے – جب کہ عنایہ خاموشی سے اس کی ڈانٹ سنتی رہی –
اج اس واقعے کو تین دن ہو گئے تھے اسے دوبارہ میک یونی میں نظر نہیں ایا ہاں مگر اس کی کلاس فیلوز نے اگلے دن ا کر اس سے سکندر کی بہت تعریفیں کی تھیں اور اس کی قسمت پر رشک بھی کیا تھا جس پر وہ بس مسکرا کر رہ گئی – زندگی میں پہلی بار اس کی کسی مرد نے حفاظت کی تھی اس کے لیے لڑا تھا اور یہ احساس بہت خوبصورت تھا – اس لیے وہ ان کی باتوں پر مسکرادی تھی –
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
وہ کچن میں کھڑی بریانی بنا رہی تھی کومل کو اس نے کچن میں داخل ہونے سے منا کیا ہوا تھا – اس لیے اکیلے ہی کھڑی بریانی بنانے کے ساتھ گانا گنگنا رہی تھی کہ تبھی داد کچن کا کچھ سامان لے کر آیا تھا – داد کو دیکھ اس کی گنگناتی زبان بند ہوئی تھی – اسے سلام کرکے سمائل پاس کرتے داد سامان کچن میں رکھتا باہر نکل گیا – وہ آج جلدی میں تھا اسی لیے باہر کی جانب بڑھ گیا
جبکہ عنایہ اسے جاتا دیکھ بھاگ کر اس کے قریب گئی تھی –
داد بھائی بات سنیں – اس نے داد کے پاس جاتے اسے بلایا – جس پر داد نے پلٹ کر اسے دیکھا تھا – جی عنایہ بہنا کیا بات ہے ؟؟ کوئی کام تھا ؟؟ داد نے اس سے پوچھا – نہیں وہ بس میں نے پوچھنا تھا کہ وہ کیسے ہیں ؟؟ اور ائے کیوں نہیں اس دن کے بعد؟؟ اس نے ہچکچاتے ہوئے داد سے پوچھا – وہ مطلب شاہ سائیں ؟؟ داد کو اس کے وہ کی سمجھ نہ ائی اس لیے کنفرم کرنا چاہا جس پر عنایہ نے ہاں میں سر ہلایا تھا – دراصل شاہ سائیں پاکستان میں نہیں ہیں اور میری ان سے بات بھی نہیں ہوئی تو میں نہیں بتا سکتا وہ کیسے ہوں گے – داد کے جواب پر عنایہ نے حیرت سے اسے دیکھا – پاکستان میں نہیں تو کہاں ہے ؟؟ عنایہ نے حیرت سے پوچھا –
وہ دراصل کسی میٹنگ کے سلسلے میں لندن گئے ہوئے ہیں ایک ہفتے تک ا جائیں گے – داد کے جواب پر اس نے سر ہلاتے واپس پیچھے کی طرف قدم بڑھا دیے اور وہاں سے چلی گئی – دل ایک دم اداس ہوا تھا اس کے باہر کے ملک جانے کا سن کر – وہ جاتے ہوئے اسے بتا کر بھی نہیں گیا تھا یہ بات اسے اور اداس کر رہی تھی – کیا پتا وہ فکر صرف وقتی ہو اس دن – اس کے اندر سے اواز ائی جس پر اسے سمجھ نہ ایا کہ کیا واقعی وہ وقتی فکر تھی یاں نکاح کے دو بول کا اثر تھا جو وہ اس کو پسند کرنے لگ گیا ہو – خیر ان سب باتوں کا ابھی اس کے پاس جواب نہ تھا –
:::::::::::::::::: ::::::::::::::::::::::::::::
رات کے نو کا وقت تھا اور وہ اپنے کمرے میں بیٹھی پڑھ رہی تھی کہ اچانک کومل اس کے کمرے میں ائی تھی – انایا جی وہ شاہ سائیں اگئے ہیں اور اپنے کمرے میں گئے ہیں – کومل کی بات سن اس نے خوشی سے اسے دیکھا تھا – ایک وہی تو تھی جو اس ایک ہفتے میں اس کے ہر ایک جذبات کو سنتی اور سمجھتی تھی –
کب ائے ہیں ؟؟ اپنی کتاب سائیڈ پر رکھتے اس نے خوشی اور بے چینی سے پوچھا – ابھی ائے ہیں – اور میں جا رہی ہوں -جہاں وہ اس کی پہلی بات پر خوش ہوئی تھی دوسری بات پر اس کی خوشی غائب ہوئی تھی – کہاں جا رہی ہو تم ؟؟ اور کیوں ؟؟ اس نے پریشانی سے پوچھا – ارے دو دن کے لیے جا رہی ہوں – داد جی کہہ رہے ہیں اماں ابا بہت یاد کر رہے ہیں تو دو دن کے لیے وہاں گاؤں میں رہوں گی پھر واپس ا جاؤں گی – کومل کی بات پر وہ اداس ہو گئی – اچھا ٹھیک ہے تم چلی جاؤ مگر میں تمہیں یاد کروں گی – عنایہ اسے گلے لگاتے اداسی سے بولی جس پر وہ مسکرا دی -اداس نہ ہوں دو دن کی بات ہے جلدی ہی ا جاؤں گی اور میں بھی بہت یاد کروں گی اپ کو – وہ اسے ہنستے ہوئے حافظ بول کر کمرے سے چلی گئی –
جب کہ عنایہ اس کے جانے کے بعد سوچنے لگی کہ کیا اسے سکندر سے ملنے جانا چاہیے – دل اسے ہاں کہہ رہا تھا جبکہ دماغ نہ کہہ رہا تھا اخر دل بازی لے گیا اور وہ جلدی سے بیڈ سے اتر کر جوتا پہنتی اپنے کمرے سے باہر نکلی تھی اس کا رخ شاہ کے کمرے کی جانب تھا –
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
سکندر کے کمرے کے دروازے کے باہر پہنچ اس نے دروازہ نوک کرنا چاہا مگر دروازے پر ہاتھ رکھتے ہی دروازہ خود بخود کھل گیا – وہ کشمکش میں تھی کہ بنا اجازت مانگے چلی جائے یا پھر اجازت مانگ لے – ابھی وہ وہیں کھڑی کھلے دروازے کو دیکھ رہی تھی اور اجازت مانگنے کا سوچ دروازہ ناک کرنے ہی لگی تھی کہ ادھ کھلے دروازے سے اسے سکندر بیڈ پر لیٹا نظر ایا – جو بے چینی سے کروٹیں بدل رہا تھا اسے دیکھتے ہی فیل ہوا جیسے کہ اس کی طبیعت ٹھیک نہ ہو –
اگلے ہی لمحے وہ پریشانی سے پورا دروازہ کھولتی اندر داخل ہوئی اور سکندر کے پاس جاتے اس نے اپنا نازک ہاتھ اس کے ماتھے پر رکھا جو بخار سے تپ رہا تھا – پانی پانی وہ پریشانی سے سوچ رہی تھی کہ اب کیا کرے کہ تبھی سکندر کو اہستہ اواز میں کچھ بولتا دیکھ اس نے کان اس کے ہونٹوں کے قریب کرتے سننا چاہا تو وہ پانی مانگ رہا تھا اس نے جلدی سے ٹیبل پر رکھے جگ سے پانی کا گلاس بھرتے سکندر کا سر تھوڑا سا اوپر کرتے اسے پانی پلایا – پانی کے دو گھونٹ بھرتے ہی سکندر نے گلاس کو اپنے منہ سے دور کر دیا – جس پر عنایہ نے بھی اس کا سر واپس تکیے پر رکھا اور گلاس واپس ٹیبل پر – وہ جلدی سے بیڈ سے اٹھی تاکہ اپنے کمرے میں جا کر داد کو فون کر سکے اور اسے واپس بلا سکے – اسے یقین تھا ابھی داد قریب ہی ہوگا زیادہ دور نہیں گیا ہوگا –
اس سے پہلے کہ وہ جاتی اس کے کھڑے ہوتے ہی سکندر نے اس کا ہاتھ تھام لیا – سکندر کے یوں ہاتھ تھامنے پر عنایہ کے دل کی دھڑکن تیز ہوئی تھی – مت جاؤ اس نے سکندر کے کچھ ہلکی اواز میں کہنے پر اسے دیکھا جو غنودگی کے سبب بمشکل انکھیں کھولے اسے دیکھتے نہ جانے کیا بول رہا تھا – میں داد بھائی کو فون کرنے جا رہی ہوں تاکہ وہ اپ کو ڈاکٹر کے پاس لے جائیں –
عنایہ نے اس کے ہاتھ پر اپنا دوسرا ہاتھ رکھتے نرمی سے کہا – جس پر سکندر نے نہ میں سر ہلاتے اس کے تھامے ہاتھ کے ذریعے اسے اپنی جانب جھٹکا دیا جس کے سبب وہ ایک دم اس پر گری تھی – نہیں مجھے کسی ڈاکٹر کی ضرورت نہیں بس تمہاری ضرورت ہے – ای نیڈ یو – وہ دم سادھے چہرے پر حیا کی لالی سجائے سکندر کے الفاظ سن رہی تھی –