قسط 6
وہ ہر شام کو یہاں چہل قدمی کرنے کے لئے آتی تھی
ہیلو میڈم آپ یہاں وہ ایک بینچ پر بیٹھی تھی جب ندیم نے اسے محاطب کیا
ارے ندیم صاحب آئیں بیٹھیں سمیرا نے اپنے ساتھ جگہ بناتے ہوئے ندیم سے کہا
تو آپ کو میرا نام پتا ہے مجھے لگا اتنے سارے ورکز میں آپ کہاں مجھے پہچانے گی
نہیں نہیں میں اپنے سارے ورکرز کو ان کے نام کے ساتھ پہچانتی ہوں
آپ تو ہیں ہی بہت قابل آپ کو کیسے نہ پہچانوں
ندیم صاحب ویسے پہلے کبھی آپ کو یہاں دیکھا نہیں سمیرا نےندیم سے کہا
میڈم وہ۔۔۔
سوری مسٹر ندیم یہ آفس ٹائم نہیں
یہاں میں آپ کی میڈم نہیں ہوں آپ مجھے سمیرا کہ کر پکاریں تو مجھے زیادہ خوشی ہو گی
جی جی کیوں نہیں ندیم نے خوش دلی سے کہاتو سمیرا مسکرائی
ندیم سمیرا کا پیچھا کرتا تھا اس کے دن رات کی خبر رکھتاتھا وہ جانتا تھا کہ وہ اس وقت کہاں ہے وہ اکثر اسے اس پارک میں بیٹھے ہوئے دیکھتا اور آج موقع کا فائدہ اٹھا کر وہ بھی اس کے سامنے آگیا
°°°°°
پھر اس دن کے ندیم روزاس پارک میں ملنے کو آتا اور ان کی اجنبیت کی دیوار گرنا شروع ہو گئی
وہ یہاں بیٹھ کے ایک دوسرے سے باتیں کرتے رہتے سمیرا کو ندیم کا ساتھ اچھا لگنے لگاتھا
وہ ندیم سے محبت کرنے لگی ایک دوسرے سے ملتے انہیں تین ماہ گزر گئے ندیم اور سمیرا کی محبت پروان چڑھنے لگی
°°°°°°
میں تم سے محبت کرتی ہوں سکندر عالیہ نے بے بسی سے کہا
تم جانتی ہو عالیہ کہ میری نظر میں تمہاری اس محبت کی کوئی اہمیت نہیں ہے کیوں اپنی اہمیت میری نظروں میں کم کر رہی ہو
عالیہ میں تم سے محبت نہیں کرتا سکندر نے غصے سے کہا
لیکن میں تو کرتی ہوں سکندرمیں اپنے دل کو کیسے سمجھاؤں میں تمہارے بغیر نہیں رہ پاؤں گی
عالیہ سکندر کے پیر پکڑنے کو بھی تیار تھی
لیکن شاید وہ یہ نہیں جانتی تھی
کہ محبت کسی کے پیروں میں گرنے سے نہیں ملتی
سوری عالیہ میں تمہاری اس محبت کو قبول نہیں کرسکتا
ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا
نہیں سکندر تم میرے ہو تمہیں حاصل کرنے کے لئے میں کوئی بھی حد پار کر جاؤں گی
عالیہ نے آج تک جس چیز کو چاہا ہےحاصل کیا ہے اور تم تو میری محبت ہو
تمہیں حاصل کرنے کے لئے میں کچھ بھی کرنے کو تیارہؤں سکندر
تمہیں میں کبھی خود سے دور نہیں جانے دوں گی
میں تمہیں پانے کے لیے کچھ بھی کرجاؤں گی ہر حد پار کر جاؤں گی
عالیہ عباسی نے جس چیز کو چاہا اسے حاصل کیا تھا
آج پہلی بار ایسا ہو رہا تھا کہ وہ محبت کر بیٹھی لیکن سکندر نے اس کی محبت کوکوئی اہمیت نہ دی اور یہی بات عالیہ کے لئے اس کی انا کا مسئلہ بن گئی وہ اپنی انا کے لیے کچھ بھی کر گزرے گی
°°°°°°
رات ساڑھے گیارہ بجے وہ گھر واپس آیاتو
نور کو ابھی تک اسی ساڑھی میں دیکھ کر اسے غصہ آ گیا
تم نے ابھی تک ساڑھی نہیں اتاری نور
تم سے کیا کہا تھا تمہیں سمجھ میں نہیں آتا
اتار دی تھی اب تو میں نے پھر سے پہنی ہے نور نے معصومیت سے کہا
اور ویسے بھی میں نے صرف روم میں پہنی ہے میں کوئی باہر تو نہیں گئی
نور لیکن اس کو پہننے کا کوئی وقت ہوتا ہے 11:30 بج رہے ہیں رات کے اور تم اس وقت کیٹ واک کر رہی ہو
دن میں نہیں پہن سکتی کیونکہ سب لوگ ہوتے ہیں بار بار روم سے باہر جانا پڑتا ہے لیکن اب میں صبح روم سے باہر نکلوں گی تو میں نے سوچا کیوں نہ میں اپنا شوق پورا کرلوں نور نے معصومیت کی انتہا کردی
اس کا مطلب ہے تم ساری رات یہ ساڑھی پہن کے یہاں سے وہاں گھومتی رہو گی الفاظ کونور کی دماغی حالت پر شک ہوا
نہیں ساری رات نہیں بس تھوڑی سی دیر نور نے مسکراتے ہوئے کہا
میں نے دن میں آپ سے پوچھا تھا کہ میں کیسی لگ رہی ہوں اس وقت آپ نے کہا کہ مجھے نہیں پتہ مجھے لگا آپ نے ٹھیک سے مجھے دیکھا نہیں
اس لیے بھی میں نے دوبارہ یہ ساڑھی پہن لی تاکہ آپ ٹھیک سے مجھے دیکھ کر میری تعریف کریں
اس بات سے بے خبر کے سامنے کھڑے الفاظ کی کیا حالت ہے وہ اپنی بات کہ کر سیدھی کھڑی ہو گئی
الفاظ کا دل کیا اپنا سر پیٹ لے
بنا کچھ کہے وہ اسے اگنور کرتے ہوئے واش روم میں گھس گیا
جب واپس آیا تو نورساڑھی کو دائیں بائیں لہراتے ہوئے کیٹ واک کر رہی تھی
اگر کوئی اور رنگ ہوتا تو شاید وہ اپنے دل کو سنبھال لیتا لیکن ریڈ کلر میں نور ہمیشہ سے ہی اس کے دل پر بجلیاں گراتی تھی
وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ وہ نور کو یہ سب کرنے سے کیسے روکے اس وقت اسے واقعی ہی پچھتاوا ہو رہا تھا کہ اگر وہ نور کی دوپہر میں تھوڑی سی تعریف کردیتا تو یہ نہیں ہوتا
نور اب بس کرو سو جاؤ اس کے علاوہ وہ کچھ نہیں کہہ سکا
کیا ہے الفاظ دن میں بھی نہیں پہننے دیتے رات کو بھی نہیں پہننے دیتے میں کروں کیا نور نے اوور ایکٹنگ کی انتہا کردی
الفاظ بیڈ سے اٹھا اور اس کا بازو کھینچ کے اپنے اس قدر قریب کر لیا کہ انچ بر کا فاصلہ بھی ختم ہو گیا اور دوسرے ہاتھ سے اس کے ساڑھی کی ڈوری پکڑی
نور اپنا توازن برقرار نہ رکھ پائی اور اپنی ساڑھی سے الجھتی ہوئی الفاظ کی باہوں میں گری الفاظ نےنور کے کانوں کے قریب آ کر سرگوشی میں کہا
نور اگر تم نے اپنا یہ فیشن ویک ابھی ختم نہ کیا تو میں اسے اپنے ہاتھوں سے ختم کروں گا
الفاظ مجھے چھوریں پلیز الفاظ
میں ابھی یہ ساڑھی اتار کے آتی ہوں
نور اپنی دھڑکنوں کو سنبھالتے ہوئے بولی
الفاظ نے احتیاط سے اسے خود سے دور کیا
تو وہ
بھاگتے ہوئے واش روم گئی
الفاظ اسے اس طرح بھاگتے دیکھ کر بے ساختہ مسکرایا
یا اللہ یہ آدمی میرے ذرا سا قریب آتا ہے تو میرا یہ حال ہوتا ہے اور اگر یہ ہمیشہ کے لئے میرا ہوگیا تو میں تو مر ہی جاوں گی نور نے سوچا
نور چینج کرکے آئی اور آ کر بیڈ پر بیٹھ گئی
تم نے پھر سے یہ رنگ پہن لیا الفاظ نے اسے دیکھتے ہوئے کہا
الفاظ میرے پاس اسی رنگ کے زیادہ کپڑے ہیں مجھے سمجھ میں نہیں آتا ایک تو مجھے یہ رنگ اتنا برا لگتا ہے کہ حد نہیں اور پھر پتا نہیں میرے زیادہ تر کپڑے اسی رنگ کے کیوں ہیں
اس لئے میں نے سوچا ہے کہ میں اس رنگ کے سارے کپڑے پہن لوں تاکہ جلدی جلدی پرانے ہوجائے اور میں نئے لے لوں نور نے بڑی معصومیت سے اپنی پلاننگ الفاظ کو بتائی
الفاظ نے اگلے ہی پل نور کا بازو پکڑ کر اسے اپنے قریب کھینچا
نور اگر تمہارے یہ کپڑے پرانے ہوجائیں گے تو جونئے آئیں گے تو وہ بھی اسی کلر کےہوں گے
اور اگر وہ بھی پرانے ہوں جائیں گے تو اس کے بعد جونئے آئیں گے وہ بھی اسی کلر کے ہونگے کیونکہ یہ میرا فیورٹ کلر ہے
اور تمہاری بری کےسارےکپڑے میں نے خود بنوائے تھے
اورتم ہمیشہ یہی کلر پہنوگی
آئی بات سمجھ میں اس نے نور کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا
جی …. نور نے معصومیت سے کہا
گڈ گرل الفاظ نے اسکا گال تھپتھپاتے ہوئے کہا
اب اچھے بچوں کی طرح سو جاؤ الفاظ نے اسے خود سے دور کرتے ہوئے کہا
اور خود سونے کے لیے لیٹ گیا
جبکہ نور اسی طرح بیٹھی رہی
اب کچھ نہیں کرونگا سوجاؤ الفاظ نے اسے دیکھے بنا کہا