تپش

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط 1

شفا!! اہل کو پکڑ۔دیکھ کب سے رو رہا ہے ؟؟ کہاں مری پڑی ہے منجھلی بھابھی کی چنگا نما آواز,پر روٹی سینکتے ہاتھوں میں یکدم تیزی آئی۔
آئی بھابھی بس دومنٹ!!کچن سے آواز لگا کر اس نے گردن پر آیا پسینہ صاف کیا اور روٹی کو ہاٹ پاٹ میں رکھ کر باہر کی جانب دوڑ لگائی۔
جہاں ڈھائی سالہ آہل زمین پر لیٹا گلا پھاڑ رہا تھا۔کیونکہ کچھ دور بیٹھے عبید نے بڑی بھابھی کے بیٹے نے اس کی گن لے لی تھی۔
شفا آہل کو اندر لے کر آ۔۔ایک تو یہ لڑکی ہر کام میں سست ہے۔
جلد آ شفا!!منجھلی بھابھی پھر سے چلائی۔
آہل چپ کرو۔آؤ ماما پاس,چلتے ہیں۔جلدی سے اٹھو۔۔اسے گود میں اٹھا کر پچکارتی وہ اندر کی جانب بڑھی جب اس ننھے سے بچے نے اس کی بازو میں دانت گاڑے۔مقابل کی چیخ نکلی اور آہل زمین پر گرا تھا۔
دھپ سی کی آوازپر زمین پر گرتا آہل یکدم چیخا تھا۔
اور اندر ماں سے باتوں میں مصروف بھابھی تیزی سے باہرآئی۔
آہل کو زمین پر گرا دیکھ کر غصہ سے آنکھیں لال ہوئی آہل کو اٹھانے سے پہلے وہ شفا پر جھپٹی اور پے درپے اسے تھپڑ رسید کیے۔
اندھی ہے کیا نظر نہیں آتا دیکھ کیسے بلک رہاہے۔۔کیا ہاتھوں میں سوراخ ہے جو میرا بچہ گرادیا۔”
ایک اور کرارے دار تھپڑ اس کے منہ پر مارتی وہ آہل کو پچکارتی اندر بڑھ گئ۔”
پیچھے وہ بےحس سی بنتی اوپر کی جانب سٹور روم میں بڑھ گئ۔
بقول سب کے شفا کا الگ کمرہ تھا۔
اتنی مار کے بعد بھی انکھوں میں آنسو نہیں نکلے تھے کیونکہ ان چند سالوں میں مار کھا کھا کر اس کے گال بھی ڈھیٹ ہوچکے تھے۔
,❤❤❤❤❤❤❤
دیکھو زرا ایسے بھی کوئی مارتا ہے۔؟؟
دیوار پر ٹنگے چھوٹے سے شیشے میں اپنا گال دیکھتی وہ خود سے مخاطب ہوئی۔
ہاتھ ٹوٹیں گے بھابھی کے گال لال کردیے۔اب ناجانے کب نشان جائیں گے۔؟
ہاۓ کہیں یہ نہ ہو یہ نشان جائیں بھی نہیں۔اور ثنا بھابھی تھپڑ ماردیں۔آج میں نے ان کے لیے چاول نہیں بناۓ ناں۔
پر کیسے بناتی؟؟
بھائی چاول دے کر نہیں گئے۔ایمن بھابھی (منجھلی بھابھی)نے تو ڈرم کو لاک لگایا ہوا ہے۔”
چلو کوئی بات نہیں مار کھالوں گی۔چاول کل بنادوں گی۔گویا مار کھانا اس کے لیے چاکلیٹ کھانے جیسا تھا۔”
تھوڑی دیر کمر سیدھی کرلوں۔ورنہ پھر کوئی کام کا آرڈر آجاۓ گا”
چارپائی پر بیٹھتی وہ چھوٹا سا ٹچ سکرین موبائل پکڑ کر سکرین پر انگلیاں چلانے لگی۔؛
یہ موبائل بھی بھابھی نے دنیا کو دکھانے کے لیے اپنی لاڈلی نند کو تحفے میں دیا تھا۔
گیم ایپ ابھی اون ہی کی تھی کہ سکرین پر ان نون نمبر جگمایا۔اب یہ کس کی کال آگئ؟؟ سکرین پر ڈیکلائن کے آپشن پر ٹچ کرتے اس کے ہاتھ تھمے لیکن ناجانے کیوں وہ آنسر پر ٹچ کرگئ۔
ہیلو کون؟؟
فون کان سے لگاتے ہی وہ بیزاری سے بولی۔
کیا یہ راشد صاحب کا نمبر ہے۔؟؟مقابل کی مردانہ آوازسنتی اس نے سکرین کو دوبارہ گھورا۔
شاید کسی نے رونگ نمبر ڈائل کیا تھا۔
نہیں جی یہاں کوئی راشد صاحب نہیں رہتے معاف کرو۔کھٹاک سے بولتی وہ فون کال کاٹ گئ۔
پتہ نہیں کہاں سے ان کو نمبر مل جاتے ہیں۔بڑبڑاتی ہوئی وہ دوبارہ سکرین پر انگلیاں چلانے لگی۔لیکن ایک بار پھر سکرین پر نمبر جگمگایا۔
نمبر دیکھ کر اس کےماتھے پر بل نمایاں ہوۓ۔
یس پر ٹچ کرکے وہ سختی سے گویا ہوتی مقابل کو حیران کرگئ۔
“ایک بار سنائی نہیں دیتا کہ یہ راشد کا نمبر نہیں ہے پھر دوبارہ کیوں فون کررہے ہو۔؟”
“دیکھیں محترمہ مجھے جس نے یہ نمبر دیا تھا یہی کہا تھا کہ یہ راشد صاحب کا نمبر ہے میرا ان سے بات کرنا بہت ضروری ہے۔”مقابل کی وضاحت پر وہ سوچ میں ڈوبی۔کہ اس کا نمبر کس نے دیا ہوگا۔۔ل
شفا!!جلدی آ روٹی دے مجھے۔کہاں مری پڑی ہے؟؟ابھی وہ سوچ میں ہی تھی کہ
اتنے میں باہر سے جمیلہ بیگم کی اواز,گونجی تھی۔
آئی امی۔!! بےساختہ بولتی وہ فون چارپائی پر رکھتی تیزی سے نیچے بھاگی تھی۔کہیں امی بھی آکر اس کی
درگت نہ بنادیں۔
چارپائی پر پڑا موبائل اور اس پر چلتی کال جوں کی توں رہ گئ تھی۔
❤❤❤❤❤
واہ بیگم!! “آج دال تو بہت مزے کی بنی ہے۔لگتا ہے خاص اپنے ہاتھوں سے بنائی ہے۔”بڑے بھیا کی آواز,کمرے سے باہر کھڑی شفا نے بھی سنی تھی۔
اشتیاق سے اپنی تعریف سننے کے لیے وہ بھی تھمی۔
جی میں نے اپنے ہاتھوں سے بنائی۔لیجیے اور کھائیے۔نوالہ فاحد کے منہ کی جانب بڑھاتی بڑی بھابھی مصنوعی سا شرما کر بولی تھیں۔شفا کی آنکھیں حیرت سے پھٹی۔دال تو اس نے بنائی تھی پھر بھابھی اپنی تعریف کیوں کررہی تھی؟؟ ایسا صرف وہ سوچ
بول کر پہلے سے گال لال مزید لال نہیں کرسکتی تھی۔
جلدی سے کھانا کھا لو پھر ابیہا اور عبید کوتیار کرنا باہر آئسکریم کھانے چلیں گے۔اپنی جان کو میں کافی دن سے گھمانےبھی نہیں لے کر گیا۔
فاحد بھائی کا رومینٹک موڈ آن ہوچکا تھا ۔شفا نے اب کھسکنا ہی ضروری سمجھا تھا۔
لیکن ایک حسرت نے شدت سے سراٹھایا تھا کہ کیا اس کا شوہر بھی اسے ایسا ہی چاہنے والا ہوگا سراہنے والا ہوگا۔ایسے بہت سے سوال ذہن میں ادھم مچاتے تھے لیکن کاموں میں مصروف ہوکر سوال سارے دم توڑجاتے۔”
💞💞💞💞💞💞💞
کیا تم بھی مجھے ایسے ہی چاہو گے جیسے میرے بھائی بھابیوں کوچاہتے ہیں؟؟
آئینے میں دیکھتی وہ پھر خود سے مخاطب تھی۔
چوبیس کی ہوچکی تھی ۔دل میں امڈتے جذبات اب سر اٹھانے لگے تھے۔بھائی بھابھی کے محبت کے مظاہرے دیکھتی ہزاروں خواہشیں مچلتی کہ اس کا بھی چھوٹا,ساگھر ہو۔جہاں وہ بھی ٹھاٹ سے رہے۔
اپنے شوہر کو ناز نخرے دکھاۓ ۔لیکن شاید یہ اس کی خیالی پلاؤ تھی۔
کیونکہ حقیقت میں ایسا ہونا ممکن نہیں تھا”۔گھر والوں کا ایسا کوئی ارادہ نہیں لگتا تھا کہ اس کی شادی کریں گے کیونکہ مفت کی نوکرانی کو کون خوشی خوشی رخصت کرتا ہے۔
دکھتی کمر کی وجہ سے وہ چارپائی پر لیٹی اور موبائل ہاتھ میں تھاما۔
سکرین پر تین چار میسجز موجود تھے۔اور اسی ان نون نمبر سے تھے۔
ہیلو شفا! “آپ کی آواز بہت پیاری ہے۔میں مجبور ہوکر آپ کو دوسری مرتبہ کال کرگیا تھا۔اس کے لیے سوری”
مقابل کا میسج اس کے ماتھے پر بل لایا لیکن ایک تسکین بھی ہوئی کہ کسی نے اس کی تعریف کی ہے۔
پلیز مجھے تنگ نہ کریں اور میرا نام آپ کو کیسے پتہ چلا۔؟؟
تجسس کے ہاتھوں مجبور ہوکر وہ اس سے سوال پوچھ بیٹھی۔
“وہ کسی نے آپ کو پکارا تو میں نے بھی سن لیا۔بس آپ کا نام اور آپ کی آواز نے مجھے مجبور کیا۔”مقابل نے پھر وضاحت کی۔
لیکن اس مرتبہ اس نے جواب نہیں دیا تھا۔اور موبائل سائڈ پر رکھ کر کھلی آنکھوں سے چھت کو گھورنے لگی۔
کیا واقع ہی میری آواز پیاری ہے۔؟؟ یہی آخری سوچ اسے نیند کی وادیوں میں دھکیل گئ تھی۔
❤❤❤❤❤
اے شفا کہاں رہ گئ۔جلدی سے پانی پلا۔صبح اس کی آنکھ بڑی بہن ثانیہ کی آواز پر کھلی تھی۔
ہاۓ آٹھ بج گئے باجی صبح ہی صبح آگئ۔آٹا بھی نہیں گوندھا۔کیاکروں۔۔ہانپتی سے دیوار پر لگی گھڑی پر ٹائم دیکھتی وہ بڑبڑاتی نیچے بھاگی تھی۔
جہاں ثانیہ بڑی بہن اپنی سات سالہ بیٹی اور نوسالہ بیٹے کے ساتھ صحن میں ماں کے پاس براجمان تھی۔ اسلام علیکم باجی!! اتنی صبح؟؟
باجی کی تیکھی نظروں سے اس نے بات ادھوری چھوڑی۔
“چاۓ ناشتہ لا جلدی سے پھرمجھے واپس بھی جانا ہے۔
اور زرا میرے آنے جانے پر کم نظر رکھا کر”۔حکم کے ساتھ دھمکی بھی دی گئ تھی۔
جی باجی!! سر اثبات میں ہلاتی وہ کچن کی جانب دوڑی تھی۔،
سنـڈے کی وجہ سے آج سب نے سپیشل حلوہ پوری کا ناشتہ کرنا تھا جو کہ باہر سے ہرگز نہیں آنے والی تھی۔
❤❤❤
شفا مراد کی یہی زندگی تھی۔صبح کام شام کام دن بھر کام ہی کام۔اور پھر کام کرکے مزید کام۔
دونوں بھابیوں کو اس سے کام ہوتا۔ماں کی پکار بھی شفا ہوتی بہنیں آتی تو وہ بھی شفا کی زمہ داری۔بھائیوں کے سامنے اکثر دونوں بھابھیاں چالاکی دکھا کر کام کردیتی لیکن بعض اوقات وہ بے ہوش,ہوکر گرنے والی ہوجاتی تب کچھ آرام نصیب ہوتا۔”
ماں تھی تو نام کی۔جمیلہ کے لیے اپنی باقی اولاد عزیز تھی۔عزیز,تو شفا بھی تھی لیکن بس کام کی حد تک۔اگر ماں کی خدمت اچھی کرتی تو پل دوپل بانہوں ہی نرم گرم چھاؤں نصیب ہوجاتی۔ورنہ کوسنے ہی ملتے۔
شوہر کی مار نے ان پر اس,حد تک بے حسی طاری کی تھی کہ انہیں بیٹی کے زخم عام بات لگتے۔
بھابیاں جب مرضی اس پر ہاتھ اٹھاتی جمیلہ کو پرواہ نہیں تھی۔بقول ان کے غلطی شفاکی ہوگی۔
اور مار کھاکھاکر وہ ڈھیٹ ہونے کے ساتھ ساتھ تنہائی پسند ہوگئ تھی۔مار کھانا اس کے لیے روٹی کھانے جیسا تھا۔
بہنیں کبھی کبھار منہ پر نشان دیکھ کر بھابیوں پر چلاتی۔لیکن انہیں بھی اندازہ تھا کہ یہ گھر اب بھابھیوں کا ہے۔اس لیے چپ سادھ لیتی۔
منجھلی بہن عفیفہ کو شفا کچھ عزیز,تھی۔ناجانے کیا وجہ تھی کہ وہ جب بھی آتی اس کی مٹھی میں چند نوٹ اور محبت بھرا ماتھے پر بوسہ دے جاتی، ہان مگر وہ بھی بھابھی کے سامنے زبان نہیں کھولتی تھی۔
عفیفہ سے چھوٹی عتیقہ کراچی میں مقیم تھی۔جسے ان حالات کا کچھ نہیں پتہ تھا۔اس لیے اسےشفا سے خاص ہمدردی نہیں تھی۔
بے حسی اگر بھابھیوں میں تھی تو بڑی بہن ثانیہ میں بھی کم نہیں تھی۔”اس کی شادی کے ذکر پر سب ایسے آئیں بائیں شائیں کرتے گویا زہر کی ڈبیا کسی نے سامنے کھول کر رکھ دی ہو”
بس یہی شب و روز تھے شفامراد کے جہاں خوشی کے نام پر اس کے پاس,موبائل اور اپنا کمرہ تھا۔
💞💞💞💞💞
سارے نبٹا کر وہ ابھی کمرے میں ہی آئی تھی جب موبائل پر ہوتی مسلسل چھوٹی سی بپ نے اس کی توجہ کھینچی تھی۔
ثانیہ کو آج اپنی بیس سالہ نند کا رشتہ دیکھنے کے لیےجانا تھا۔
“بقول ثانیہ کے اس کی عمر نکلتی جارہی ہے۔نند کی عمر کی فکر تھی چوبیس سالہ بہن کی عمر ابھی شادی کے لیے شاید موزوں نہیں تھی۔”
سب خیال جھٹک کر وہ موبائل کی جانب متوجہ ہوئی۔
سکرین پروہی ان نون نمبر موجود تھا۔اور قریباً دس کے قریب میسجز تھے۔
شفا کا رنگ پل بھر میں فق ہوا.ناجانے کونسی مصیبت تھی جو گلے پڑچکی تھی۔
اسے زیادہ ٹائپ بھی نہیں کرنا آتا تھا۔
اس لیے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ ان میسجز کا کیا جواب دے؟
یہ کیوں میرے پیچھے پڑ گیا ہے۔میں تو اسے جانتی بھی نہیں ہوں۔کسی کو بتاؤں گی تو سب مجھے ہی ماریں گے اور اب میں نے مار نہیں کھانی۔
بھابھی موٹی کا ہاتھ بہت بھاری ہے۔
گال پران کے ہاتھ کا بھاری لمس محسوس ہوتے ہی بے ساختہ اس نے جھرجھری لی تھی۔
توبہ!! “میں کیا سوچ رہی ہوں۔؟؟
کیا تمہیں میرا میسج کرنا برا لگ رہا ہے۔اگر لگ رہا ہے تو میں نہیں کروں گا لیکن تم مجھے کچھ پریشان لگ رہی ہو۔؟ اگر چاہو تو مجھے بتاسکتی ہو۔کیا پتہ میں تمہاری پریشانی حل کردوں۔؟
میری پریشانی کاحل یہ کیسے کرےگا۔کیونکہ میری پریشانی کا حل تو کسی کے پاس نہیں ہے۔
شفا کا دل تو چاہا کہ اسے میسج کرکے پوچھے کہ وہ کیسے اس کی پریشانی جانتا ہے؟
اور ایسی تو کوئی پریشانی نہیں تھی کہ جس کا حل وہ تلاش کرتا۔
پلیز ایک رپلاۓ تو کریں۔میں جانتا ہوں آپ میرے میسجز پڑھ رہی ہیں۔
شفا یکلخت کانپی تھی۔؟؟
اسے کیسے پتہ تھا کہ وہ میسج پڑھ رہی ہے۔؟؟
یہ سوال ذہن میں گھوما تھا اور وہ مقابل سے بھی پوچھ بیٹھی تھی۔
بس تصور کی آنکھ سے دیکھ لیا تو اندازہ ہوگیا کہ آپ میرے میسجز پڑھ رہی ہیں۔”
دیکھیں میں کوئی لمبی چوڑی بات نہیں کروں گا۔نہ میں کوئی ایسا ویسا لڑکا ہوں۔
بس میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ کی جو بھی پریشانی ہے آپ مجھ سے شئیر کریں۔ایسے شاید آپ کے دل کابوجھ ہلکا ہوجاۓ۔”
ؔمقابل کا لمبا چوڑا میسج شفا کے ماتھےپر پسینہ لے آیا۔
یااللہ یہ کیا مصیبت گلے پڑ گئ ہے۔اب اس سے کیسے نمبٹوں؟؟
بے بسی سے موبائل سائیڈ پر پٹکتی وہ سرتھام گئ تھی۔
❤❤❤❤❤❤❤
چند دنوں میں ہی ثانیہ کی نند عالیہ کی شادی طے ہوچکی تھی۔انہوں نے منگنی کے بجاۓ نکاح کو ترجیح دی تھی۔یوں ثانیہ کے چکر میکے میں بڑھ چکے تھےاور شفا کی شامت بھی آئی تھی۔
ثانیہ مراد ان عورتوں میں سے تھی جنہیں اپنی خوشی کے آگے کچھ عزیز نہیں تھا ان کے مطابق خوشی کا حق صرف ان پر ہے اپنے حصے کی خوشیاں وہ دیکھ چکی تھی ان کے لئے یہی کافی تھا۔
اب اس کا یہی کام تھا دوسروں میں کیڑے نکالنا خود کی بڑائی کرنا۔وہ ایسی ہی تھی۔شفا کے ہر کام پر اسے اعتراض ہوتا تھا۔کسی بھی طرح سے وہ اسے اپنی سگی بہن نہیں لگتی تھی۔ناجانے کیا خار تھی ثانیہ کو شفا سے۔شاید وہ اس پر رعب رکھنا چاہتی تھی کہ وہ ساری عمر اس سے دب کررہے۔”
کچھ بہنوں کو ہوتا ہے شوق دھاک بٹھانے کا تاکہ کوئی ان کے سامنے پر بھی نہ مارسکے۔کچھ وہ کافی اچھے گھرانے میں بیاہ کر گئ تھیں۔اس لیے اپنے برابر کسی کو نہیں سمجھتی تھی۔” شفا کی شادی میں رکاوٹ کا سب سے بڑا ہاتھ اگر کسی کا تھا تو وہ ثانیہ مراد تھی۔اس کی سگی بڑی بہن۔
جسے سب اپنے سے کم تر لگتے تھے۔
اپنے سے چھوٹی لڑکی کی شادی ہو تو دیکھ کر وہ شدید احساس کمتری میں گرتی جا رہی تھی لیکن کسی کو شاید اس کا احساس نہیں تھا۔ خود سے باتیں کرنے کاعمل بڑھتا ہی چلا جارہا تھا۔لیکن کسی کو اس سے کوئی سروکار نہیں تھا۔
مفت کی نوکرانی کو کون بیاہنے کا سوچتا ؟؟اس لیے سب دم سادھے بیٹھے تھے۔
❤❤❤❤❤❤❤
عالیہ کے چہرے پر دمکتی خوشی نے شفا کے چہرے پر گویا رقابت کے گہرے اثر پیدا کیے۔”
ثانیہ تو اپنی نند کے ایسے واری صدقے جا رہی تھی جیسے اس کی سگی بیٹی ہو۔”
یہی چیز شفا کی آنکھوں میں آنسو کی وجہ بنی۔”
دل چاہ رہا تھا کوئی اسے بھی ایسے ہی گلے لگائے لیکن یہ صرف اس کی سوچ تھی سب کے لئے ایک فالتو شے کی مانند تھی جس کا جب دل کرتا ہے استعمال کرتاہے اور پھینک دیتا۔
مہندی ابٹن لگانے کے لیے جب وہ سٹیج کی جانب بڑھی ہی تھی تو کچھ چند عورتوں کی آواز اس کے کانوں میں پڑی تھی۔ جو اسی کے متعلق ہی گوہر افشانی کررہی تھیں۔
گڑیا بات سنو؟؟
ایک عورت نے اسے مخاطب کرکے اپنے پاس بلایا۔
گلابی شفون کا ڈوپٹہ سر پر درست کرتی وہ ان کی جانب آئی۔
بیٹا آپ کی امی کہاں ہیں۔؟؟
وہ اس جانب بیٹھی ہیں “
انہیں اشارے سے سمجھاتی وہ اسٹیج کی جانب بڑھ گئ ۔تاکہ دلہن کو ابٹن لگاسکے۔
ان عورتوں کو دیکھتی وہ ابٹن لگا کر سٹیج سے نیچے اتری ہی تھی کہ ثانیہ نے انہیں ناجانے کیا کہا کہ وہ عورتیں برا سا منہ بناتی واپس اپنی چئیر پر بیٹھ چکی تھیں۔
امی پہلے وہ چکر ختم کروائیں پھر اس کے رشتے دیکھتی رہنا۔ابھی رہنے ہی دیں اتنی بھی کوئی عمر نہیں نکلی جارہی ہر آۓ گئے سے امید مت لگالیا کریں۔
جس وقت وہ امی کے پاس آئی ثانیہ کی بڑبڑاہٹ اس کے کانوں میں پڑی تھی۔جس کی اسے خاص سمجھ نہیں آئی تھی۔
کندھے اچکاتی وہ ماں کے پاس بیٹھ چکی تھی۔ثانیہ کی گرم نظریں اپنے چہرے پر محسوس تو ہورہی تھیں لیکن وہ نظر اٹھا کر انہیں مزید شہ نہیں دینا چاہتی تھی۔
❤❤❤❤❤❤
شب و روز یونہی گزر رہے تھے۔
کام تھے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتے۔شفا نے دوبارہ اسے رپلاۓ نہیں کیا تھا۔
لیکن شاید مقابل صدا کا ڈھیٹ تھا۔میسجز پر میسجز کرتا رہتا۔لیکن ایک خاص بات تھی۔اس نے کبھی بھی کوئی اخلاق سے گری بات نہیں کی تھی۔
یہی بات شفا کو حیران کررہی تھی کہ وہ شخص اس سے کیا چاہتا تھا۔
روز صبح میں اور شام میں اس کے میسجز آتے جس میں وہ ایک ہی بات کرتا کہ وہ اس سے اپنی پریشانی بیان کرے۔لیکن بے سدھ ،وہ ڈرتی تھی کہ کہیں اس کی وجہ سے گھر والوں کی بدنامی نہ ہوجاۓ۔کسی کو بتا بھی نہیں سکتی تھی کہ کوئی اسے میسجز کرکے تنگ کرتا ہے۔
سوچیں تھی کہ الجھی ہوئی تھیں۔کبھی کبھار وہ اسے جواب دے بھی دیتی تھی۔شاید وہ حالات سے تنگ آکر ہی ایسا کرتی تھی،
اب بھی اس کا میسج آیا تھا جس میں وہ اس کاحال پوچھ رہا تھا۔
ٹھیک ہوں!! کا رپلاۓ کرتی وہ دیوار سے ٹیک لگا گئ۔لیکن کچھ ہی دیر میں منجھلی بھابھی کی آواز پر وہ موبائل پٹکتی نیچے بھاگی۔
جہاں سے ان کی چیخنے چلانے کی آواز آرہی تھی۔”
❤❤❤❤❤❤❤❤
کیا ہوابھابھی سب ٹھیک ہے۔؟؟ کیوں بول رہی ہیں۔؟؟
ارے یہ پوچھو کیا نہیں ہوا ؟؟ وہ ثانیہ آئی تھی۔تو کیا اس کے لیے اتنا زیادہ کھانا بنانا تھا۔۔؟
اس کا تو روز کا کام ہے آنے کا۔ابھی پچھلے ہفتے رشتہ پکا ہونے پر آئی تھی۔اب کل پھر میرے پیچھے سے آئی تو کیا تم مفت میں سارا راشن کھانا اس کے آگے پیش کردو گی؟؟
اصل وجہ سمجھ میں آتے ہی اس نے بے اختیار بڑی بھابھی کے کمرے کی جانب دیکھا جہنوں نے یہ ساری آگ لگائی تھی۔
نن نہیں بھابھی بس بریانی اور چکن کا سالن سلاد رائتہ بنایا تھا۔
او۔۔ اور تو کچھ نہیں تھا بے شک چیک کرلیں ۔ڈرتے ڈرتے وہ محض یہی کہہ پائی۔
یہ ابھی بس ہے؟؟
قسم خدا کی زبان دیکھو اس لڑکی کی۔” اور تم کہہ رہی ہوں بس؟؟ اتنا تکلف کرنے کی آئندہ ضرورت نہیں ہے۔ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔
“اور ہاں جلدی سے گوشت چڑھاؤ چولہے پر پتہ بھی ہے میں نے آنا تھا لیکن کوئی انتظام نہیں کیا کھانے کا۔”
اسے سناتی وہ دھپ دھپ کرتی کمرے کی جانب بڑھ گئ۔پیچھے وہ بھی کچن کی جانب بڑھی تھی۔
❤❤❤❤❤
شفا پلیز ایک بار مجھ سے بات کرو ،،
دیکھو میں تمہیں کچھ غلط نہیں کہہ رہا لیکن ایک مرتبہ مجھ سے بات کرلو مقابل کا میسج پڑھ کر اس کے رونگٹے کھڑے ہوئے ۔کیا تھا وہ شخص؟؟
جو ایک کال کی وجہ سے اس کے پیچھے پڑ چکا تھا۔ ابھی اسی سوچ میں تھی کہ وہ کیا کہے؟
سکرین پر اس کا نمبر جگمگایا”
کانپتے ہاتھوں سے اس نے کال پک کی۔
ہیلو میں جانتا تھا تم میرے کال ضرور اٹھاؤ گی ۔
کال اٹھاتے ہی وہ تیزی سے بولا۔”
آپ کیا چاہتے ہیں پلیز خدا کے لئے مجھے تنگ کرنا بند کریں میں ایسی ویسی لڑکی نہیں ہوں بنا اس کی کسی بات کا جواب دیے وہ محض یہی بولی تھی۔لہجے میں بے بسی نمایاں تھی۔
شفاء میں تمہیں تنگ نہیں کر رہا بس تمہاری پریشانی کی وجہ جاننا چاہتا ہوں تم مجھے بہت اچھی لگتی ہو۔
میری پریشانی جان کر آپ کیا کریں گے ؟؟کیوں جاننا چاہتے ہیں؟
ہم دونوں کا کوئی ایسا رشتہ نہیں کہ میں آپ کو اپنی پریشانی بتاؤں۔”
شفاء ہم دوستی کا رشتہ تو بنا ہی سکتے ہیں۔مقابل نے فوراً جواب دیا۔
میں دوستی جیسے رشتے کو نہیں مانتی اور نہ مجھے دوست بنانا پسند ہے،
آئندہ مجھے کال مت کیجئے گا۔” خدا حافظ!!
کھٹ سے فون کاٹ کر وہ چار پائی پر چت لیٹی اور گہرے سانس لینے لگی اتنی سی بات پر ہی اس کاسانس پھول چکا تھا۔
مقابل شخص کا لب و لہجہ اسے کسی اچھے گھرانے کا پتہ دیتا تھا۔
لیکن وہ ان لہجوں کی عادت نہیں تھی اسے یہ سب مکر اور فریب لگ رہا تھا۔
اس لیے شفامراد کے قدم اب تک تھمے ہوۓ تھے۔
ورنہ اگر وہ کوئی لوز کریکٹر کی لڑکی ہوتی تو اب تک رابطے بڑھا چکی ہوتی۔”
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial