تپش

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط 11

لیکن جتنے دکھ تم لوگوں نے شفا کو دیے ہیں۔ اللہ پاک تم لوگوں کو اس کا اجر تو ضرور ہی دے گا۔ اتنی دعاتو ” میں بھی کر تا ہوں کہ تمہیں بھی پتہ چلے کہ ایک چھوٹی سی لڑکی پر ظلم کا کیا نتیجہ ہو تا ہے۔ بس کر بکواس بند کر اپنی۔ چھوٹے انسان تیری بیوی بھی کم نہیں تھی۔ بے شک توہی تھا وہ لڑکا۔ لیکن تیری بیوی بھی دودھ کی دھلی نہیں تھی۔ مجھ جیسے شریف انسان پر بھی الزام لگا دیا۔ ریاض کی غلیظ آواز سنتے ہی شفا کے ضبط کا پیمانہ لبریز ہوا تھا۔
وہ ریاض کی جانب آئی ۔ اور ایک زور دار تھپڑ اس کے منہ پر مارا تھا۔ جھوٹے ۔ غلیظ انسان ۔ مر جاؤ تم !! اللہ کرے تم بھی تکلیف سہو۔ جھوٹ پر جھوٹ۔ کیا خدا کو بھول گئے ہو ۔ بھول گئے ہو کہ اس رب کو منہ بھی دکھانا ہے۔ اس کا گریبان جکڑتی وہ شدید بے چین تھی۔
حمزہ فوراً اس کی جانب بڑھتا اسے کندھوں سے تھام کیا۔ لیکن وہ دوبار بلکتی ہوئی اس پر جھپٹی تھی۔ تم غایت انسان تم نے میری زندگی برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ پل پل مرتی رہی صرف اور صرف تمہاری وجہ و رقی صرف آج شفا کے لہجے میں کوئی لڑ کھڑاہٹ کوئی گھر ایٹ نہیں تھی۔
آپ دونوں !! میرے نام نہاد بھائیو ۔ اللہ کرے تمہیں کبھی بیٹی نہ ملے ۔ کیونکہ میں نہیں چاہتی کسی ” لڑکی کا حال میرے جیسا ہو ۔ کیونکہ جیسے آپ سفاک ہیں ۔ اپنی بیٹی کو بھی ذبح کرنے میں ایک منٹ بھی ” نہیں لگائے گے ۔
اور کس حق سے میرے شوہر سے پیسے مانگ رہے تھے کیا مجھے بیچا تھا اس کے پاس۔ یا پھر میرا سودا کیا تھا
جس کی رقم چاہتے تھے۔ جو حمزہ کے پاس بار بار بھیک مانگنے آتے رہے ۔ اتنے لالچی اور بد فطرت بھائی میں نے آج تک نہیں دیکھے ۔ کیونکہ ایسے بھائی میری قسمت میں تھے۔ کیونکہ اللہ چاہتا تھا کہ میں ان نام نہادر شتوں پر یقین نہ کروں ۔ وہ آیا نہیں تھا۔ اسے لانے والی آپ ” کی بیویاں تھیں۔ اب اگر میں کچھ کہوں تو آپ لوگ شاید اپنی بیوی کا قتل ہی کر دیں۔۔۔
کون تھاوہ شخص اور آپ کی بیویوں سے اس کا کیا تعلق تھا۔ اس بات کی گہرائی کو سمجھ لیں تو حقیقت آپ پر خود آشکار ہو جائے گی۔
احد اور فہد دونوں جیسے سن ہو گئے تھے۔ جس طرح شفا ان کو بتایا تھا۔ ان کا دھیان تو کبھی اس “طرف نہیں جاسکتا تھا۔
اور ثانیہ باجی۔ آج سے میرا آپ سے ہر رشتہ ختم ہے۔ آپ میرے لیے مر چکی ہیں۔ میری بہن نہیں دشمن ہیں۔
کیونکہ جتنی نفرت جتنی کدووت آپ کے اندر ہے۔ شاید بھائیوں میں بھی نہیں ہے۔ آپ کو مجھ سے زیادہ ” اپنے شوہر پر یقین ہے ناں تو رکھیے اس پر یقین ۔ “یقین ٹوٹے گا اللہ پاک توڑے گئے۔ ۔” *
لیکن میں آپ کو اور آپ کے شوہر کو کبھی معاف نہیں کروں گی۔ کیونکہ اس غلیظ شخص نے توجو کیا سو گیا۔ لیکن آپ نے بھی کم برا نہیں کیا۔
بھلے آپ اپنے شوہر کو نہ پو چھتی کہ انہوں نے میرے ساتھ کیا کیا۔ لیکن آپ ایک بار میرا یقین تو کر لیتی ۔۔۔
لیکن۔ شاید آپ ان۔ لوگوں میں سے ہیں جنہیں اپنا شوھر فرشتہ اور باقی “سب درندے لگتے ہیں۔
اور سب سے اہم بات۔اگر میں نے سبحان نامی شخص سے رابطے بڑھائے تھے تو ان سب میں بھی قصور ” آپ سب کا ہی ہے۔ کیو نکہ انسان کی تنہائی اسے غلط راہ پر جانے پر مجبور کرتی ہے ۔
مجھے کوئی افسوس نہیں کہ میں نے اس شخص سے رابطے بڑھاۓ۔۔ کیونکہ ہوں تو میں آپ سب کی ہی ” بہن۔ جو غلط کو غلط کبھی نہیں کہے گی۔
ایک تیز نظر حمزہ پر ڈال کر وہ واپس ثانیہ کی جانب متوجہ ہوئی تھی۔ حمزہ کو نا جانے کیوں اس کی نظریں چھبتی ہوئی محسوس ہوئی۔ ۔ سر پر ڈوپٹہ درست کرتی وہ حمزہ کو مخاطب کیے گھر سے نکلتی چلی گئی۔
حمزہ جو سن سا کھٹرا تھا۔ ایک قہر آلود نظر سب پر ڈالتا ہوا شفا کی جانب بڑھا۔ جو گھر سے باہر نکل چکی تھی ۔
!! کہاں جارہی ہو۔ ؟؟ گاڑی پیچھے کھڑی ہے ۔ شفا کو گلی سے باہر نکلتا دیکھ کر حمزو اس کی جانب لپکا ۔ لیکن وہ نظر انداز کیے آگے بڑھتی چلی جارہی تھی۔
شفا کیا ہوا ہے ایسے کیوں کر رہی ہو ۔۔اسکے قدموں میں تیزی محسوس کرتا وہ بھی اپنی رفتار بڑھا گیا۔ لیکن وہ اپنے آنسور گرآتی آگے بڑھتی چلی جارہی تھی۔
حمزہ میں شور مچادوں کی خدا کے لیے میرا پیچھا چھوڑ دیں۔ بھاری آواز میں بولتی وہ تیزی سے آگے بڑھ گئی ۔۔۔۔
حمزہ نے بھی ارد گرد نظر دوڑا کر راہ گیروں کو دیکھا جو آتے جاتے انہیں ہی دیکھ رہے تھے۔ میری بیوی ہو۔ میں بھی شور مچاکر کہہ سکتا ہوں کہ مجھ سے ناراض ہو کر جارہی ہے ۔ اور چپ چاپ گاڑی میں بیٹھو۔
نہیں بیٹھوں گی۔ اور اگر زیادہ کہا تو کسی گاڑی کے آگے آکر اپنی جان دے دوں گی ۔ آپ کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا۔ خدا کے لیے چھوڑ دیں میرا پیچھا۔ بنا کسی کا لحاظ کیے وہ حمزہ کے سامنے ہاتھ جوڑ گئی۔ شفا کیا کر رہی ہیں۔ گھر چلیں۔ گھر جا کر بات کرتے ہیں۔ اس کے ہاتھ نیچے کی جانب کر تاوہ اسے بازو سے تھام گیا۔
” میں جار ہی ہوں۔ میرے پیچھے مت آئے گا۔ میں سچ کہہ رہی ہوں میں خود کو ختم کر لوں گی۔ شفا کی شدت پسندی نے یکدم حمزہ کو دہلا دیا تھا۔
اوکے ۔ ۔ میں ہٹ رہا ہوں ۔۔۔ لیکن آپ کہاں جا ری ہو ۔ اندر چل کر بات کرتے ہیں۔ گھما پھرا کر بات کو وہ پھر وہی لے آیا تھا۔ نہیں آؤں گی کبھی بھی نہیں آؤں گی۔ جار ہی ہوں میں۔ آنسو رگڑتی وہ رکشتے کو روکتی اس میں سوار ہوئی تھی۔
شفا میں اب زبردستی کروں گا تو یہاں سب دیکھیں گے “۔ رکشے کے دروازے پر ہاتھ رکھتا وہ قدرے سختی سے بولا تھا۔
کر لیں وہ بھی کر کے دیکھ لیں اور کر ہی کیا سکتے ہیں آپ؟؟ سب جھوٹے ہیں۔ جان گئی ہوں۔ کسی پر اعتبار نہیں کر نا چاہیے۔
شفا کی بات پر حمزہ کو شدی طیش آیا تھا۔ بھائی صاحب چلیں۔ !! رکشے والے کو کہتی وہ سامنے دیکھتی رہی۔ حمزہ بے ساختہ پیچھے ہٹا۔ اسے اس ایڈریس پر پہنچادینا۔ جیب میں سے ہزار کا نوٹ نکال کر ایڈریس سمجھا تا وہ دور ہٹا تھا۔ ” میں نہیں آؤں گی۔ میں سچ کہہ رہی ہوں میں گھر نہیں آؤں گی۔ کہیں اور جاؤں گی۔
وہ بنامڑے اپنی گاڑی کی جانب بڑھ گیا۔ اس کے جاتے ہی وہ سیٹ سے ٹیک لگا گئی۔ اور پھوٹ پھوٹ کر روئی تھی۔
بیٹا کہاں جانا ہے ؟؟ رکشہ ڈرائیور کی آواز سے آنکھیں پونچھتی وہ اسے ایڈریس سمجھاتی چلنے کا اشارہ دے گئی ۔۔۔۔
شفا کو اندر داخل ہوتے دیکھ کر وہ بھی گاڑی پارک کرتا اس کے پیچھے آیا۔ جو کمرے کی جانب بڑھ رہی تھی۔ اس سے پہلے وہ لاک لگاتی حمزہ نے تیزی سے آگے بڑھ کر پیچھے سے ہی حصار میں لیے کمرے کا دروازہ بند کیا تھا۔
میں جانتا تھا آپ سیدھا گھر ہی آئیں گی۔ اس لیے میں نے آپ کو وہاں روکا نہیں۔ حمزہ کی بات پر وہ سن سی کھڑی رہی ۔۔۔
شفا!! میری جان ایک بار پوری بات سن لیں۔ پھر بے شک ناراض ہو جانا ۔ حصار میں لیے ہی وہ بولا تھا۔ ” مجھے نہیں سننا کچھ بھی نہیں سننا۔ آپ بھی دھو کہ دیں۔
۔ادھر میری طرف دیکھیں۔ اس کے بال چہرے سے بنا تاوہ اس کا رخ اپنی طرف کر تا بولا تھا۔ ۔چھوڑ دیں مجھے۔ اس کے کندھے سے اپنے سر کی پشت ٹکاتی وہ شدت سے روئی تھی۔ لیکن رخ نہیں موڑا تھا۔ شفاایسے مت روئیں۔ میری بات تو سن لیں۔ کہ میں نے ایسا کیوں کیا۔ اس کے گال سے گال جوڑ تاوہ بوجھل سا بولا تھا۔
شفا کی خاموشی جیسے اسے بولنے کا موقع دے گئی۔ یکدم اس کے رخ کو موڑ تا وہ حصار مضبوط تر کر تا چلا گیا۔
نازک سی جان اس کی پناہوں میں ہلکان ہوئی تھی۔تم میری زندگی ہو ۔ اور زندگی کو کون دھو کہ دیتا ہے ۔ ؟؟ اس کے بالوں کو نرمی سے سہلا تا سر پر لب رکھ گیا۔ آپ دیتے ہیں۔ مجھے نہیں پتہ تھا کہ سبحان آپ ہی ہیں “۔ شفا کو رہ رہ کر ایک ہی ملال کھائے جار ہا تھا۔
اچھا آپ کو اپنے بے وقوف بننے پر دکھ ہو رہا ہے ۔ اس کی آنکھوں کو صاف کر تا وہ اس کا رخ موڑ کر کندھے کے گرد بازو حمائل کر گیا۔ حمزہ !!! شفا یکدم چیخی تھی۔ اور بازو پر ناخن گاڑ کر اسے دور ہٹانا چاہا۔
۔!! میں تو آپ کو بہت معصوم سمجھتا تھا لیکن آپ تو ظالم پری کا روپ دھارتی جارہی ہیں۔ ناخن کی خراشوں کو دیکھتاوہ بات کو مزاح کی طرف موڑ گیا۔
حمزہ۔!! کیوں کیا سب نے میرے ساتھ ایسا؟؟ کیا میں سب کو اتنی بری لگتی ہوں۔
جانتے ہی کتنی اذیت میں تھی میں ۔۔۔ دو چار بار کوشش کی آپ کو بتادوں۔۔
لیکن ہمت ہی نہیں تھی کہ آپ کو یہ شرمناک حقیقت بتاتی۔ ہچکیاں لیتی وہ دوبارہ روئی تھی۔
اچھا پہلے آپ یہ بتادیں کہ آپ کو دکھ کس بات کا ہے ۔ میرے جھوٹ کا یا پھر اپنے گھر والوں کی سفاکیت کا ۔۔۔
حمزہ کے سوال پر وہ سسکیاں روکتی آنکھیں پونچھ گئی۔ رکیں میں صاف کر تاہوں ۔ کب سے رگڑ رگڑ کی آنکھوں کی حالت بگاڑ دی ہے۔ جیب سے رومال نکال کر وہ نرمی سے دونوں آنکھوں کو صاف کرتاشفا کی جانب متوجہ ہوا تھا۔ حمزہ انہوں نے کیوں کیا میرے ساتھ ایسا؟؟ میں نے تو پیسے بھی دے دیے تھے۔ لیکن پھر بھی ؟؟ کیا میں اتنی بری ہوں۔ حمزہ میں نے تو کبھی ان کا بر انہیں چاہا۔ آنسو تھے کہ بہتے چلے جارہے تھے۔ اور تکلیف تو جیسے اذیت میں بدل رہی تھی۔ حمزہ میں مانتی ہوں میں نے فون کال پر رابطے بڑھائے کاش میں وہ نہ کرتی ۔ تو آج یہ سب نہ ہوتا اب وہ شخص میرے بارے میں کیا سوچے گا۔
کس کس کو بتائے گا کہ ۔ آج اس نے کیا کارنامہ انجام دیا۔ ۔ شفا کی باتیں سنتا حمزہ اسے بیڈ کی جانب لایا تھا۔
بیڈ پر اپنے قریب بٹھائے وہ اسے سینے سے لگا گیا۔
کسی کی اتنی فکر کیوں ہے شفا!! جب آپ کا شوہر آپ کے ساتھ ہے۔ اسے آپ سے کوئی مسلہ نہیں وہ آپ سے پیار کر تاہے آپ پر یقین کر تا ہے ۔ اور میرا یقین دیکھ لیں کہ مجھے پتہ تھا آپ یہاں آنے کے علاوہ کہیں نہیں جاسکتی۔ اس لیے میں نے آج آپ کو آٹورکشہ میں آنے دیا۔ ” چاہتا تو زبر دوستی کر کے لے آتا لیکن پھر یہ غبار غم تو اندر سے نہیں لکھتا۔۔
اس کی بازو سہلا تاوہ بالوں کی خوشبو خود میں جذب کر تا بولا۔ حمرہ میرے بھائی جھوٹ بول رہے تھے۔ بھا بھی بھی جھوٹ بول رہی تھیں ایسا کچھ نہیں تھا۔ حمزو۔۔ م ۔ یکدم وہ اس کے الفاظ اپنے ہاتھ کی گرفت سے روک گیا۔ ادھر میری جانب دیکھیں۔ اس کا چہرہ ہاتھ میں بھرتا وہ اس کو روبرو کر گیا۔ میں نے آپ کو کہا کہ آپ جھوٹی ہیں۔ یا پھر ایسا کچھ کہ جس سے آپ مجھے صفائیاں دے رہی ہیں۔
میری زندگی میری محبت میرا عشق ہو آپ پر خود سے زیادہ یقین ہے۔ ۔ مجھے اب اپنی زندگی میں کسی کی مداخلت برداشت نہیں ہے۔ آپ میں بابا اور ہمارے بچے ہماری فیملی ہے۔ اس کے علاوہ میری فیملی میں کسی کی گنجائش نہیں ہے ۔ آپ کو مجھ پر یقین ہے اور مجھے آپ پر اس کے بعد مجھے کسی پر یقین کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ آپ کے وجود میں میری زندگی میری خوشیاں ہیں۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial