تپش

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط 12

اس کے دونوں گال پر نرمی سے لمس چھوڑ تا وہ محبت کا گہرا احساس شفا کے دامن میں تھما گیا۔
وہ کم ظرف لوگ تھے۔ جنہوں نے آپ کی قدر نہیں کی ۔ لیکن میں اللہ کا پسندیدہ بندہ بنا چاہتا ہوں جو اپنی ” بیوی سے پیار کے ساتھ عزت بھی کرتا ہے ۔ اور سب سے اہم بات۔ مجھے عفیفہ نے کہا تھا کہ میں آپ سے رابطہ کروں۔ اس لیے میں نے رونگ کال کی۔
مجھے لگتا تھا کہ شاید آپ کی امی آپ کو سپورٹ کرتی ہوں۔ لیکن جب اس دن میں نے ان کی پکار سنی۔ یہ میرے لیے برداشت سے باہر تھا۔ میں چاہتا تو پل بھر میں آپ کو وہاں سے لے آتا۔
لیکن کچھ کاموں میں ایسا الجھا کہ وقت ہی نہی ملا اور میری برداشت کا پیانہ اس دن لبریز ہوا جب فہد نے آپ پر ہاتھ اٹھایا۔
مجھے امید نہیں تھی کہ شفا آپ ایسے حالات میں رہ رہی ہیں۔ کاش میں وہاں نہ جاتا۔ کاش کہ میں اپنی محبت نبھالیتا۔
حمزو!! میں آپ کے پاس رہنا چاہتی ہوں۔ پرانی باتیں بھولنا چاہتی ہوں۔ حمزہ مجھ سے ناراض مت ہوئے گا۔ میں نہیں سہہ پاؤں گی اس کے گرد بازو حائل کرتی وہ شدت دکھ سے روئی تھی۔ ساتھ جیے گے ساتھ ہی مر جائیں گے ۔
شفا یکدم تڑپ کر سیدھی ہوئی۔ مرنے کی بات مت کر میں۔ مجھے آپ کے ساتھ ابھی بہت جینا ہے۔ سختی سے بولتی وہ حمزہ کے دل پر مکا رسید کر گئی۔ اچھا سنیں۔!! حمزہ نے ہاتھ کو مٹھی میں جکڑ کر شفا کو قدرے اپنی جانب کھینچا۔ اور اسے لیے بیڈ پر دراز ہوا۔
کیا کر رہے ہیں۔ ؟؟ بوکھلا کر ۔۔۔ شفا بولی ۔ لیکن وہ کمر پر گرفت مضبوط کر تا ہواسے دوبارہ قریب کر گیا۔
دو دن دور رہی ہیں۔ کیا خود کو تسلی بھی نہ دوں کہ آپ میرے پاس واپس آگئی ہیں ۔ ؟؟ خمار آلود سابولتا وہ اس کے چہرے کی جانب جھکا تھا کہ شفا یکدم چیخی۔ دو دن کب ؟؟ کل رات ہی تو گئی تھی ۔ شفا کی حیرت پر وہ برا سا منہ بنا گیا۔۔۔۔
اچھا جو پر سوں کہنی مار کر دور پھینکا تھا اس کا کیا ؟؟ حمزہ کے سوال پر وہ شرم سے دہری ہوئی۔
“وہ تو بس میں کہنی کی طاقت چیک کر رہی تھی۔ نم آنکھوں سے مسکراتی شفا اس کے دل کے تار چھیڑ گئی تھی۔ اب زرا میری بازوؤں کی گرفت بھی چیک کر لیجیے گا”۔
لیکن اس سے پہلے فریش ہو جائیں بابا سے مل لیں وہ آپ کے لیے پرسوں سے پریشان تھے۔ پھر ہم قربانی کے جانور کی خریداری کے لیے جائیں گے ۔ اور اس دوران آپ اپنے گھر کو دیکھ لیں جو دو دن میں ہی آپ کی بے توجہی کا شکار ہو چکا ہے۔
ماتھے پر لب رکھتا وہ شفا کو ہدایات دیتا کمرے سے نکلتا یکدم مڑا۔
رات کو میری بازؤں کی گرفت چیک کرنے کے لیے تیار رہے گا۔
ہلکی سی آنکھ دباتا وہ شفا کو شرمانے پر مجبور کر گیا۔
بے ساختہ کشن اٹھا کر وہ اس کی جانب پھینکتی خود بھی تکیہ منہ پر رکھ گی۔ قہقے کی آواز اسے کافی دیر تک سنائی دی تھی۔
” فہد وہ میرا کزن تھا۔ میرا اس سے کوئی ایسا تعلق نہیں خدارا یقین کر لیں۔ دو دن گزر چکے تھے لیکن فاحد کارویہ بدرجہ بگڑ اہوا تھا۔ شفا کی باتیں نا جانے کیوں اس کے دل میں تیر کی مانند پیوست ہو چکی تھیں۔ تمہاری وجہ سے میں اپنی بہن پر ہاتھ اٹھاتا تھا تمہاری وجہ سے اکثر بے مقصد اسے ذلیل و خوار کیا لیکن تم ” میری ہی پیٹھ پر چھرا گھونپتی رہی۔
کم از کم اس پر اتنا بڑا الزام تو نہ لگاتی۔ محض پیسوں کے لیے تم نے شفا کو ایک غیر مرد کے سامنے لا کر کھڑا کر دیا۔ اور تو اور ریاض بھائی اور ثانیہ کے سامنے بھی اس کا تماشہ لگاتے خوف نہیں آیا کہ تم کیا کرنے والی تھی۔؟؟
لیکن خیر تمہیں تو کہنا ہی فضول ہے ۔
“اب یہ پیسے لے کر نکلو میرے گھر سے ۔ اور اپنے باپ کے گھر رہو۔
کل ہی وہ اس شخص سے مل کر آیا تھا جسے سنا شفا کی بربادی کے لیے لائی تھی۔ لیکن نہیں جانتی تھی کہ اس میں اسی کی بربادی ہو گی۔
کل بظاہر تو وہ ڈر چکا تھا لیکن پیسوں کا ملال اسے کھاے جار ہا تھا جس کا بدلہ اس نے جھوٹ سچ کی آمیزش شامل کرے فاحد کو سب بتا کر لیا تھا۔۔
دوسری جانب احد سے ایمن بگڑی ہوئی تھی۔ پرسوں کا تھیٹر وہاب تک نہیں بھولی تھی۔ جس کا بدلہ وہ احد کو صبح شام ذلیل کر کے نکال رہی تھی۔
جمیلہ بیگم تو گویا بس اپنے کمرے کی ہو کہ رہ گئی تھیں۔ نماز عبادت ہی ان کی زندگی کا مقصد بن گیا تھا جس بچی کے لیے وہ صدا پریشان رہتی تھیں۔ جس کی کبھی انہوں نے قدر نہیں کی تھی۔ آج اسی کے لیے “خوشیوں کی دعائیں کر تی ، اپنی لاپرواہی کی توبہ کرتی اپنے رب کے سامنے گڑگڑاتی رہتی تھیں۔
سکون تو گویا اس گھر سے رخصت ہو چکا تھا۔
کسی معصوم کی آہ لیتے ہیں تو سکون اللہ پاک اس گھر سے ضرور رخصت کرتا ہے ۔ یہی حال مراد صاحب “مرحوم کے چھوٹے سے آشیانے کا ہوا تھا۔
ریاض آپ کھانا کھا لیں۔ ثانیہ کی آواز پر چو نکتا وہ سیدھا ہوا۔ اور ثانیہ کی جانب دیکھا جس کا چہرہ سپاٹ تھا۔
ریاض آپ کھانا کھا لیں۔ ثانیہ کی آواز پر چو نکتا وہ سید ھا ہوا ۔ اور ثانیہ کی جانب دیکھا جس کا چہرہ سپاٹ تھا۔
ثانیہ مجھ سے ناراض ہو ؟؟ نہیں ریاض میں آپ سے کیوں ناراض ہونے لگی۔ میں جانتی ہوں غلطی میری بہن کی ہے ۔ وہ جھوٹ پر جھوٹ بول رہی ہے ۔ اور تو اور آپ پر ہاتھ بھی اٹھایا۔
پھر دو دن سے مجھ سے بات کیوں نہیں کر رہی تھی۔ ؟؟
اس کے جواب کو نظر انداز کر تاوہ پھر سوال کر گیا۔ بس مجھے شفا کی دیدہ دلیری اور بد تمیزی پر دکھ تھا۔ غلطی بھی کی اور پھر الزام ہم پر دھر دیا۔
اور تو اور کہتی ہے معاف نہیں کروں گی۔ تو نہ کرے معاف اور معافی بھی کسی چیز کی ؟؟ مجھے ایسی بہن چاہے ہی نہیں جومیرے شوہر پر الزام لگا رہی تھی ریاض کے شیطانی چہرے پر مزید شیطانیت نمودار ہوئی تھی۔ دل تو یہی چاہ رہا تھا کہ قہقے لگا کر تانیہ کی بیوقوفی کو داد دے۔ لیکن کچھ خواہشات پوری ہو نا ممکن نہیں
جانتے بوجھتے بھی وہ عورت شاید بے وقوف بن رہی تھی۔ یا پھر ریاض نے آنکھوں پر ایسی گہری سیاہ پٹی ” باندھی ہوئی تھی کہ وہ کسی اور پر یقین نہیں رکھتی تھی۔
سفید فراک کے ساتھ گلابی چنری والا ڈوپٹہ کندھے پر پھیلائے وہ بالوں کو پشت پر اچھے سے سیٹ کیے۔ کانوں میں جھمکے پہن رہی تھی جب کسی کی آہنی گرفت سے یکدم ٹھنگی۔
کلون کی خوشبو سے وہ پل بھر میں پہچان گئی تھی کہ آنے والا کون ہے ۔ عید مبارک!! کانوں میں سرگوشیانہ بولتا وہ کلائی تھامے اس کے گلابی چوڑیوں سے بھرے ہاتھ میں گجرا پہنا گیا۔ یہی عمل دوسری کلائی کے ساتھ دہرایا گیا تھا۔
شفا کے لبوں پر بے ساختہ مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ یہ کتنے پیارے لگ رہے ہیں مہندی سے سجے ہاتھ کچھ کسر چوڑیوں نے اور آخری خوبصورتی گویا ان گجروں نے مکمل کی تھی۔
کیا میں پیارا نہیں ہوں۔ ؟؟؟ گرفت ہنوز مضبوط تھی۔ آپ۔ ؟؟ ام !! پتہ نہیں میں نے آپ کو کبھی غور سے نہیں دیکھا۔
شفا کی شرارت بھی عروج پر تھی۔ اوہ تو آپ نے مجھے اب تک غور سے نہیں دیکھا۔ کمر پر گرفت مضبوط کر تاوہ اپنارخ جھٹکے سے اسکی جانب “کر گیا۔ ح۔۔ حمزہ۔!! کٹکتی چوڑیاں اور گجرے کے پھولوں کی پتیاں بے ساختہ حمزہ کی سفید شلوار سوٹ پر گری۔ عید مبارک تو بولا ہی نہیں !! اور تو اور ایک ستم مزید کر دیا۔ کہ مجھے کبھی غور سے نہیں دیکھا۔ یہ تو اچھی بات نہیں کہ میری بیوی نے ہی مجھے غور سے نہیں دیکھا۔ اب تو میں خود دیکھنے پر مجبور کروں گا۔ اس کی تھوڑی جکڑ تاوہ شفا کی آنکھیں میں اپنی نگاہیں ٹکا گیا۔ مسکارے سے لبریز آنکھیں اٹھاتی وہ بھی نظر میں مزہ کے خوبصورت چہرے پر سجائی۔ عید مبارک !!۔ اور شکر یہ میری زندگی بھی مبارک کرنے کے لیے مجھے اعتماد دینے کے لیے میرا یقین کرنے کے لیے۔ اور سب سے بڑھ کر مجھے سب کے سامنے عزت ومان دینے کے لیے ،، ایک اس چیز کی تمنا تھی جو ان تین چار ماہ میں آپ نے بے پناہ دی ہے۔ مجھ جیسی ان پڑھ لڑکی کو جیسے آپ نے مضبوط بنایا “
یہ احسان میں کبھی نہیں بھول سکتی ۔
آج اس مبارک دن میرے دل سے یہی دعا نکل رہی ہے حمزہ !!۔ کہ ہر لڑکی کو جن زاد جیسا شوہر ملے۔۔🤣🤣🤣
۔جو اس کی ہر کمی کے ساتھ اسے اپنائے۔ جو اسے خود اعتمادی دے😋
بے ساختہ بازو گردن کے گر د حمائل کرتی وہ اس کے کندھے پر سر لگا گئی۔۔ میرے جیسا تو میں ایک ہی ہوں۔ تو کیا اپنا شوہر سب کو دے دیں گی ؟؟
آنکھوں میں شرارت واضح تھی۔ ہرگز نہیں جان لے لوں گی۔ اگر ایسا سوچا بھی تو۔ آپ صرف میرے لیے ہیں۔ اللہ پاک نے آپ کو “صرف میرے لیے بنایا ہے۔ “
بلکل میں شفا کا ہی ہوں۔ شفا میرے لیے کافی ہے ۔ اور حمزہ شفا کے لیے کافی ہے۔ اس کے چہرے پر اپنا لمس بکھیر تا وہ شدت گریہ سے بولا تھا۔ ” چلیں باہر بابا سے ملنے اور قربانی کے لیے۔ شفا کو دیکھتا وہ محبت سے بھر پور بولا تھا۔ جی بلکل چلیں ۔ لیکن اس سے پہلے ایک منٹ رک جائیں ۔ شفا اس کے حصار سے نکلتی وارڈ روب کی جانب بڑھی۔
ایک باکس نکاتی وہ اس سے خوبصورت ڈائل والی گھٹڑی نکالتی اس کی کلائی کی زینت بنا گئی۔ سفید شلوار سوٹ پر خوبصورت گھڑی اس کی کلائی کی شان بڑھا گئی۔ واؤ میری بیوی تو سمجھدار ہو گئی ہے ۔ “حمزہ نے بے ساختہ اس کی پسند کو داد دی۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial