تپش

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط 13

کسی نے مجھے کہا تھا کہ میرے لیے شاپنگ کرو ۔۔۔ بس ان کی خواہش پوری کرنامیرے لیے فرض عین ہو گیا تھا۔ حمزہ کے بازو کو تھام کر وہ سر کندھے پر لگا گئی۔ “شکریہ میری زند گی۔ اسے حصار میں لے کر وہ باہر کی جانب بڑھا تھا۔
پاپا۔۔ پاپاوہ نمرہ کو دو انکل لے گئے ہیں۔ ہانپتا سا 9 سالہ بدر کمرے میں داخل ہوتے ہی ریاض کو دہلا گیا
وہ جو عید کی نماز کے بعد قربانی کے لیے نیچے جانے والا تھا بدر کی قیامت خیز خبر سنتا باہر کی جانب بھاگا۔
ثانیہ کی بھی گویا سانس حلق میں آگی تھی۔ کہاں گئے ہیں۔؟؟ آپ نے بہن کو اکیلا کیوں کیا۔ ؟؟ بڑے بڑے قدم اٹھاتا وہ باہر نکلا تھا۔ ” پاپا اس طرف کہتے ہم چیز دیں گے ۔
ریاض کی تو گویا جان حلق کو آرہی تھی۔ تیزی سے آگے بڑھتا وہ گلی مڑا ہی تھا کہ اسے نمرہ ایک گاڑی میں بیٹھتی نظر آئی۔
اوے رکو۔۔ میری بیٹی کو چھوڑو۔۔ تیزی سے بھا گتاوہ گاڑی کی طرف بڑھالیکن وہ لوگ گاڑی کی سپیڈ بڑھا گئے تھے۔ روکو گاڑی کو روکو۔ راہ گیروں کو متوجہ کر تا وہ مزید تیزی سے بھاگا۔ استاد بچی کے پیچھے کوئی آرہا ہے۔ گاڑی میں بیٹھا شخص نمرہ کے پاس بیٹھے آدمی سے بولا تھا۔ یار تجھے کہا بھی تھا کہ پچھلی گلی سے آنا اور تو نے اس بچے کو کیوں جانے دیا۔ نمرہ بھی خود کو اجنبی مردوں میں گھرا دیکھ چکی تھی۔ چیز کے بہانے میں وہ آ توگئی تھی لیکن اب گھبرا بھی چکی تھی۔
یکدم اس نے تیز آواز میں رونا شروع کیا تھا۔ “اے چپ کر ۔ ورنہ گلا کاٹ دوں گا۔ استاد میں تو کہتا ہوں اس کو چھوڑو۔ دن کا وقت ہے ، ہم پکڑے جائیں گے۔۔ جلدی سے اسے نیچے پھینک دو”۔ ابے چل تو ۔ ایسا کچھ نہیں ہو گا۔ نمرہ کو پکڑ تا وہ سیٹ پر بٹھا گیا۔
چپ کر ورنہ مار دوں گا۔
استاد وہ دیکھو پولیس کی بائیک آرہی ہے۔ بیک مرر سے دیکھتا ڈاریور گھبرایا تھا۔ پہلا شکار تھا۔ اس لیے ڈرائیور زیادہ ہی گھبرا گیا تھا۔
ابے پیچھے پولیس ہے “۔ یکدم وہ دروازہ کھولتا نمرہ کو چلتی گاڑی سے باہر پھینک گیا۔ سپیڈ بڑھا۔ جلدی بڑھا سپیڈ ۔ وقت نہیں ہے۔” گاڑی کی سپیڈ بڑھاتے وہ وہاں سے بھاگ نکلے تھے۔۔ نمرہ بے ساختہ سڑک پر گری تھی۔ ارد گرد راہ گیر کا جھمگٹا اکٹھا ہو گیا تھا ۔۔۔ ریاض جو پیچھے رہ گیا تھا۔ گاڑی میں سے گرتا دیکھ کر وہ مزید تیز بھا گتا ش کے پاس پہنچا تھا۔ ہجوم کو چیرتا وہ “آگے آیا تھا اور گویا سر پر قیامت ٹوٹی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کی بیٹی کے دماغ پر بہت گہری چوٹ لگنے کی وجہ سے شاید وہ اب اپنے حواسوں میں نہی ہے ۔ ہم نے ان کی جان تو بچالی ہے لیکن یہ کہتے ہوئے بھی افسوس ہو رہا ہے کہ بچی کا دماغ شاید اب کبھی کام نہ کر پائے۔ یعنی وہ سکتے کی کیفیت میں رہے گی۔ ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ وہ کوما میں چلی گئی ہے کیونکہ ” کوما میں کنڈیشن اور ہوتی ہے۔
ڈاکٹر کے الفاظ تھے یا پھر دھماکے جو پے در پے دونوں میاں بیوی پر ہوئے تھے۔ غرور سے اٹا وہ شخص آج آنکھوں میں آنسو لیے اپنی بیٹی کی تکلیف کی تفصیل جس طرح سن رہا تھا یہ وہ ہی جانتا تھا کہ اس کی حالت کیا ہے۔؟ “
عید کی خوشیاں کیسے غم میں بدلتی ہیں یہ کوئی آج ان دونوں سے پوچھتا۔ ہم کچھ دن انہیں انڈر آبزرویشن رکھيں گے ۔ پھر ہی مزید آپ کو بتا سکتے ہیں۔ ڈاکٹر ایکسکیوز کرتا آگے بڑھ گیا۔ لیکن ان کی دنیا تو گویا لٹ چکی تھی۔
بے ساختہ شفا کے الفاظ ریاض کے دماغ پر دستک دیتے محسوس ہوئے۔ “تم بھی تکلیف سہو۔ تم بھی تڑ پو۔ ثانیہ باجی آپ کا شوہر درندہ ہے۔”
اپنی شیطانیت میں شاید وہ بھول چکا تھا کہ اللہ پاک بہتر انصاف کرنے والا ہے ۔ اور انصاف تو گویا ہو چکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واہ یہو!! آج تو کمال کر دیا۔ ڈائٹنگ ٹیبل پر بیھٹے عاقل صاحب نے چند نوٹ شفا کی جانب بڑھائے تھے۔
شفانے چونک کر حمزہ کی جانب دیکھا۔
لے لو شفا بابا کبھی کبھی جیب ہلکی کرتے ہیں۔ شرارت کے ساتھ بولتا وہ شفا کو ٹہوکا دے گیا۔ شکر یہ بابا!! نوٹ تھامتی وہ ان کے آگے سر جھکا گئی۔ شام کا وقت تھا۔ شفا کے ہاتھ کی بنی مختلف ذائقے دار ڈشز انہیں بے ساختہ تعریف کرنے پر مجبور کر گئی۔ بیٹا میں زرا تازہ ہوا کھا کر آتا ہوں۔ لگتا ہے کچھ زیادہ کھا لیا ہے ۔
وہ باہر کی جانب بڑھے تو حمزہ کے قہقے پر اسے گھور کر رہ گئے تھے۔ آکر پوچھوں گا۔ پھر دیکھتے ہیں کس کے قہقے پھوٹیں گے ۔ دھمکی آمیز سا بولتے وہ باہر کی جانب بڑھ گئے۔ مسکراتی ہوئی شفا برتن اٹھانے کے لیے ابھی اٹھی ہی تھی کہ حمزہ دوبارہ اسے کھینچ کر چئیر پر بٹھا تا چئیر کارخ ” اپنی جانب موڑ کر شفا کو روبرو کر گیا۔
مجھ سے انعام کون لے گا؟؟”۔ ہاتھوں کو جکڑ تاوہ قدرے قریب ہو کر بولا۔
مجھے نہیں چاہیے آپ سے انعام ۔ “جو ابا نخرے سے بولتی وہ گردن اکڑا گئی۔ ” لیکن میں تو دے کر رہوں گا۔ بے ساختہ اس کے چہرے پر جھکتا وہ شفا کے گال دہکا گیا۔ کیسا لگا میر انعام ؟؟ شرارت کے سنگ بولتا وہ تھوڑی پر انگلی جما تا سامنے کر چکا تھا۔ بہت برے ہیں آپ۔ اسے دور دھکیلتی وہ کھٹری ہوئی تھی کہ وہ اس کی کلائی تھام گیا۔
مجھ سے شادی کرو گی ؟؟ شفا کو بے ساختہ اپنی آخری فون کال یاد آئی۔ چہرے پر گو یا خون سمٹ آیا تھا۔ میں پہلے سے ہی شادی شدہ ہوں مسٹر سبحان۔ ” آپ اپنے لیے کوئی اور ڈھونڈ لیں۔ ورنہ میرے شوہر حمزہ آپ کو جان سے ماردیں گے ۔ وہ شرارت کے سنگ بولتی حمزہ کے قہقہے کی وجہ بن گئی۔ فون کال پر وہ بے ساختہ متوجہ ہوا۔
ہیلو!! فون کان سے لگا تا وہ سپاٹ سا بولا۔ حمزہ وہ نمرہ کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے اور دماغ پر گہری چوٹ آئی ہے ۔۔۔
جس کی وجہ سے وہ ہاسپٹل میں ہی ہے۔ تم پلیز شفا کو بتادینا۔ احد کے الفاظ پر اس کے تنے نقوش ڈھیلے پڑے۔
شفابر تن سمیٹتی حمزہ کو ہی دیکھ رہی تھی۔ جو کچھ پریشان سالگ رہا تھا۔
شفامیں نے تو آپ کے بدلے کی قربانی دے دی تھی۔ مجھے تو لگا تھا جتنی اس کو سزا مل چکی ہے کافی ہے ۔ لیکن شاید اس شخص میں مزید شیطانیت باقی تھی جو وہ آخر تک اپنی غلطی نہیں مان رہا تھا۔ جو آج اس ” کی بیٹی پر اذیت آئی ہے۔
حمزہ۔! اللہ بہتر انصاف کرنے والا ہے ۔ میں جانتی ہوں آپ کو ملال ہو رہا ہے لیکن میری کیفیت کو سمجھیں تو آپ کو اندازہ ہو کہ میں کیسے اپنی تکلیف چھپا رہی ہوں ۔ “میری بھانجی ہے میں تو اس سے مل بھی نہیں سکتی۔
شفا کی نم آنکھیں دیکھتا وہ بے ساختہ اسے اپنے ساتھ لگا گیا ۔۔۔
فون کال کے بعد وہ شفا کو بتاتا وہاں سے نکلا تھا۔ شفا کو اس نے لے کر جانا مناسب نہیں سمجھا تھا۔ ریاض کی ندامت سے بھر پور نظر میں بھی حمزہ کا دل نہیں پگھلا پائی۔
ثانیہ باجی۔!! معصوم کے ساتھ اگر زیادتی کریں تو یاد بھی رکھیں کہ وہ زیادتی آپ کو سود سمیت واپس ملے گی۔ اللہ پاک نے آپ کو بتا دیا ہے کہ کون سچاہے کون جھوٹا۔
نمرہ کے لیے دعا کروں گا کہ وہ جلد ٹھیک ہو جائے۔ لیکن براہ مہربانی اپنی معافی تلافی لے کر میرے گھر “مت آئے گا۔ کیونکہ ۔ میری بیوی جس اذیت سے گزر چکی ہے۔ اس سے میں دوبارہ نہیں گزارنا چاہتا۔ الوداعی کلمات ادا کر تا وہ دونوں میاں بیوی کو ندامت میں گھیر کر وہاں سے چلا تو آیا تھا۔
لیکن شفا کے آگے بکھرا تھا۔ شفامیری جان !! نمرہ کے لیے خصوصی دعا کرنا۔ بے شک وہ اس شیطان کی اولاد ہے۔ لیکن وہ بھی مجھے ” کبھی آپ کے حوالے سے عزیز ہو چکی تھی۔ ادھر دیکھیں۔ ہر مرتبہ آپ مجھے سنبھالتے ہیں۔ تو پھر آج کیوں؟؟ شفا جانتی تھی کہ وہ ملال میں ہے۔ حالانکہ اس سب میں اس کا کوئی قصور نہیں تھا۔ لیکن وہ نرم دل شخص ” اپنے سب سے بڑے دشمن کی بیٹی کی تکلیف دیکھ کر بھی ہمت ہار گیا تھا۔ بے ساختہ وہ بنا کچھ بولے اسے اپنی بانہوں میں سمیٹ چکا تھا۔ کیونکہ لفظوں کی مزید ادائیگی شاید اب اس سے ممکن نہیں تھی۔
❤❤❤❤❤❤
ظلم کا بدلہ ظلم ہے۔ اور مظلوم کی آہ کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ لیکن اللہ پاک نے ظلم کے بعد آسانی بھی رکھی ہے۔ شفامراد کی زندگی میں بھی گویا۔ آسانی طے تھی۔ اس لیے اللہ پاک نے اس کے لیے حمزہ جیسے ” شخص کو چن کر اس کی تمام تکلیفوں کو خوشیوں میں بدلا تھا۔
ایک ملال تو اسے تا عمر رہنا تھا کہ وہ اپنے سگے بہن بھائیوں کے ہوتے ہوئے بھی تنہا تھی۔ لیکن شاید اس میں بھی اس کی بہتری تھی۔
ہر نماز میں وہ اپنے گھر والوں کی خیر کی دعا کرتی جیسے خود بھی ڈرتی تھی کہ جیسے نمرہ کے ساتھ ہوا۔ اللہ کبھی ایسا دن نہ دکھاے ۔۔۔۔۔
بالکنی میں کھڑی باہر کے خوبصورت مناظر دیکھتی وہ چونکی تھی۔ شادی کریں گی مجھ سے ؟؟ اسے حصار میں لیتا وہ آج پھر اسے چھیٹر گیا۔ نہیں کروں گی۔ نہیں کروں گی۔ کبھی بھی نہیں کروں گی مسٹر سجان۔ کیونکہ میں اپنے شوہر سے اپنی جان ” سے بڑھ کر پیار کرتی ہوں۔ نخوت سے بولتی وہ پیٹ پر کہنی مارتی حصار پل بھر میں توڑ گئی۔ ” آہ۔۔۔ ظالم ۔ بیوی کسی دن میری پسلی توڑ دو گی۔ اتنی زور سے مارتی ہو۔
مصنوعی کر اہتاوہ شفا کو دوبارہ اپنی جانب کھینچ گیا تھا۔
مسٹر سبحان اگر اب آپ نے مجھے فون کال کر کے پریشان کیا ناں تو میں نے سچ میں آپ کی شکایت اپنے پیارے ہسبنڈ سے کر دوں گی پھر مجھے الزام مت دینا۔
آپ کے ہسبنڈ کی ایسی کی تیسی۔
لگا کر دکھائیں اپنے ہسبنڈ کو میری شکایت ۔ پھر میں آپ کو پوچھوں گا۔
اس کے چہرے پر جھکتا وہ خمار زدہ سا بولا تھا۔
اس سے پہلے وہ شرارت پر آمادہ ہوتا۔ شفا یکدم اس کی بازو پر چٹکی بھر تی بازو کے نیچے سے نکلتی قبقے لگاتی
باہر کی جانب بھاگی تھی۔
” اتنا آسان نہیں ہے مجھے پوچھنا۔ اور اب مجھے پکڑ کر دکھائیں۔
حمزہ اس کو بھاگتے دیکھ کر رب کا شکر گزار ہو تا باہر کی جانب بھاگا تھا۔ جہاں اس کی زندگی کسی کونے میں چھپ کر اس کا انتظار کر رہی تھی۔ اور وہ جانتے بوجھتے بھی اسے نہ ڈھونڈ کر ہارنے والا تھا۔ کیونکہ شفا سے ہارنا ہی اس کی سب سے بڑی جیت تھی۔
ختم شد
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial