تپش

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط 4

امی!! ماں کو دیکھ کر وہ خود آگے بڑھ کر ان کے گلے سے لگی تھی ایک دن کی جدائی سے ہی اسے ماں کی کمی کا شدت سے احساس ہواتھا۔
ماشااللہ میری بچی۔اللہ تجھے خوش رکھے۔اس کا ماتھا گال بے ساختگی سے چومتی وہ اچانک اسے گلے سے لگاگئ۔
بیٹا اپنی ماں کو معاف کردینا۔بہت زیادتی کی تیرے ساتھ۔کبھی تیرے لیے آواز نہیں اٹھائی۔لیکن یہ سمجھ تجھے حمزہ کے حوالے کرنا میری کوتاہیوں کا ایک چھوٹا سا مداوا ہے۔
“حمزہ بیٹے کو میں ہی لے کر آئی ہوں وہ بہت اچھا ہے تیرا بہت خیال رکھے گا۔بس اب تو نے کبھی اس گھر میں نہیں آنا۔میری بچی سمجھ لے اس گھر میں تیری جان کو خطرہ ہے۔میں سب سمجھ گئ ہوں۔”
مجھے معاف کردے
۔وہ اسے گلے لگاتی شدت سے روئی تھیں۔
شفا کی آنکھیں بھی بھیگی تھیں اور شدت سے ماں کے گلے لگی تھی ۔
امی۔۔میں کیسے؟؟ کیسے رہوں گی وہاں۔میں کیا کروں امی۔؟؟ وہ اچھا ہے پر مجھے خوف آتا ہے۔کیسے؟؟بات ادھوری چھوڑتی وہ سسکیاں لے کر رہ گئ۔
بیٹا بس یہ یاد رکھ وہ تیرا شوہر ہے۔تیرا اس کے ساتھ حلال رشتہ ہے۔اب سب کچھ تیرا وہ ہی ہے۔ہم تیرے کچھ نہیں۔میں جانتی ہوں تیرے لیےمشکل ہے لیکن بیٹا اس جہنم سے اچھا تیرے لیے وہ جنت ہے۔بس اپنی جنت کو سنوار میری بچی !! اللہ انشااللہ تیری مدد کرے گا۔”
حمزہ لاؤنج میں ہی موجود تھا۔تبھی شفا چپ چاپ ماں کی ہر بات سن بھی رہی تھی اور سنا بھی رہی تھی۔
بیٹا سمجھ لے تجھے اللہ نے درندوں سے بچایا ہے۔اور میں تیری بے بس ماں بس یہی کرپائی۔میں کل بھی تجھے یہ سب کہہ سکتی تھی لیکن بس میں خاموش رہی کیونکہ کل تیرا یہاں سے جانا ضروری تھا۔
وہ چپ چاپ ماں کو دیکھے گئ۔ابھی شاید اسے اپنی ماں کے انتخاب پر یقین نہیں تھا۔
جا میرا بچہ حمزہ انتظار کررہا ہوگا۔اس کے گال پر ہاتھ رکھتی وہ دوبارہ ماتھا چوم کر اسے اپنے لمس سے نواز گئ تھیں۔
سر اثبات میں ہلاتی وہ باہر کی جانب بڑھی تھی۔
❤❤❤❤❤❤❤
ماں جی !! کیا آپ کے گھر داماد کی عزت نہیں کی جاتی۔حمزہ نے دوبارہ چٹکلا چھوڑ کر فاحد اور احد کی جانب دیکھا۔جو سرد تاثرات سے اسے ایسے گھور رہے تھے کہ گویا کچا چبا جائیں گے۔
دل تو ان کا چاہ رہا تھا کہ وہ اسے دھکے دے کر گھر سے باہر نکال دیں۔لیکن شاید فاحد کو کل کے پنچ ابھی بھی نہیں بھولا تھا۔”
آپ کو کیا لگتا ہے؟؟؟میں ایسے ہی چلا جاؤں گا؟؟ یکدم وہ سیدھا ہوکر بیٹھتا آحد کی جانب مڑا تھا۔
بے ساختہ وہ پیچھے ہٹا کہ کہیں اس کو بھی ایک دو مکے نہ جھڑ دے۔
آج ہمارے مکلاوے کی دعوت ہے۔ہاں جانتا ہوں۔پہلے ولیمہ ہوگا۔پھر ہی مکلاوہ لیکن میں اور میری بیوی تو پہلی بار آئے ہیں کچھ سپیشل تو بننا چاہیے۔
حمزہ کے لبوں پر طنزیہ مسکراہٹ اور آنکھوں میں سرد تاثرات کو سب نے واضح محسوس کیا تھا۔
ایمن ثنا!! کھانے کا انتظام کرو۔فاحد نے ضبط سے کہہ کر ان کو جانے کا حکم دیا۔
دونوں کی گویا آنکھیں حیرت سے پھیلیں تھیں۔لیکن حمزہ کو یہاں سے جلدی بھیجنے کے لیےانہیں کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی تھا۔
پاؤں پٹکتی ایمن ثنا کے پیچھے بھاگی تھی۔
سالے صاحب اس سے پہلے کچھ ٹھنڈا ہوجاۓ۔آخر میں اس گھر کا داماد ہوں۔کچھ تو حق میرا بھی ہے اس گھر پر !! بات ادھوری چھوڑتا اس نے احد کی جانب دیکھا ٹانگ پر ٹانگ جماتا زرا پھیل کر بیٹھاتھا۔
“گوکہ حمزہ کے لیے یہ مشکل تھا کہ وہ اپنی عزت نفس مجروح کرکے یہاں بیٹھا تھا۔لیکن وہ ان سب کو سبق ضرور سکھانا چاہتا تھا۔اپنی بیوی سے کی گئی ناانصافی کا وہ پورا بدلہ چاہتا تھا۔اس نےسوچ لیا تھا کہ وہ ان کے ساتھ کیا کرے گا۔؟”
❤❤❤❤❤❤❤
آخر کار دو گھنٹے کی محنت کے بعد ایمن اور ثنا نے لاؤنج میں رکھے ٹیبل پر کھانا سیٹ کیا تھا۔سیٹ بھی کیا کیا بظاہر پٹکا گیاتھا۔شفا وہاں بیٹھی بیٹھی بور ہوچکی تھی۔
کچھ ڈر بھی تھاکہ اگر وہ اوپر اپنے کمرے میں گئی تو کہیں بھائی اس کی گردن نہ دبوچ دیں۔
کچھ حمزہ کی گھوری نے اسے اٹھنے نہیں دیا تھا۔
چلیں بیگم!! کافی دیر ہوگئ ہے جتنی دیر میں انہوں نے کھانا بنایا ہے۔اتنی دیر میں ہم گھوم بھی آتے اب میرا بلکل موڈ نہیں ہے کہ کھانا کھاؤں۔
شفا تو اس کی بات پر یکدم اچھلی تھی۔یہ کیا کہہ رہا تھا۔
وہ گویا خود موقع دے رہا تھا کہ شفا کو مار پڑے۔
اس نے بے ساختہ اس کی بازو کو تھام کر دبایا۔کہ کس طرح وہ کھانا کھالے۔
ٹیبل پر اچھی خاصی ڈشز کا انتظام تھا۔اور ایسا احد نے ہی کہا تھا کہ اچھا کھانا بنالیں۔
کل سے بھائی کے دو پنچ سے ہی وہ ڈر چکا تھا۔۔وہ قدرے دبو مگر چالاہ تھا۔کچھ حمزہ کی اثرو رسوخ نے اسے بہت متاثر کیا تھا۔وہ کل ہی اس کے بارے میں سب پتہ کرواچکا تھا اور جو خبر اسے ملی تھی۔اس کے موٹی آسامی ہونے کا سن کر گویا اس کے منہ میں پانی آیا تھا۔
یہ کیا حرکت ہے۔؟؟ انہوں نے اتنی محنت سے تمہارے لیے کھانا بنایا اور تم یوں بے قدری کررہے ہو۔
فاحد کی تو تلووں پر لگی سر پر بجھی تھی۔
محنت کی ہے تو خود کھائیں اور اچھی سی تعریف کردیں۔محنت وصول ہوجاۓ گی۔اگرچاہیں تو ہاتھ بھی صاف کرسکتے ہیں۔”
گردن کو ہلکا سا بائیں جانب جھکاتا وہ شفا کا ہاتھ پکڑ کر وہاں سے نکلتا چلا گیا تھا۔
وہاں موجود چاروں کا دل چاہا تھا کہ وہ کھانا اٹھا کر اس کے سر پر دےمارے۔لیکن اب کیا ہوسکتاتھا۔
جانے والا ان کا خون جلا کر جاچکا تھا۔
❤❤❤❤❤❤❤❤
یہ کیا کیا آپ نے؟؟ آپ جانتے ہیں ان سب کے بعد میرے ساتھ کیاہوگا۔؟؟
کیا ہوگا؟؟ حمزہ نے فوراً اس کی جانب رخ موڑا۔اور دہکتی نگاہیں اس کے چہرے پر گاڑی۔
اس کی گھوری سے ہی شفاکی بولتی بند ہوئی۔
بتاؤ شفا کیا ہوگا؟؟حمزہ بضد ہوا۔
وہ اور کر بھی کیا سکتے ہیں سواۓ مجھ پر ہاتھ اٹھانے کے۔شفا کے لہجے میں تلخی نمایاں تھی۔
تو یہ موقع دینے والی بھی تم۔خود ہو۔کیوں اس حدتک چپ رہی کہ وہ تم پر ہاتھ اٹھانے لگیں تم پر ظلم کریں۔کیا خود میں طاقت نہیں رکھتی تھی کہ ان کا مقابلہ کرسکو۔؟؟ کیا اتنی کمزور اور ارزاں تھی تم۔
حمزہ کی تیز آواز نے شفا کو ماضی میں دھکیلا تھا۔
ضبط کرتی وہ تیز تیز سانس لیتی ہلکان ہوئی کہ حمزہ کی نظر بے ساختہ اس کے پیلے پھٹک چہرے پر گئ۔
شفا آر یو آل رائٹ؟؟ کیا ہوا شفا؟؟ گھبرایا سا وہ ایک ہاتھ سے سٹیرنگ سنبھالتا شفا کی جانب متوجہ ہوا۔جو سانس لینے کے لیے ہلکان ہورہی تھی۔
سینٹر باکس میں سے پانی کی بوتل نکال کر وہ اس کے لبوں سے لگاگیا۔
ایک ہی سانس میں کافی مقدار میں پانی اپنے اندر انڈیلتی وہ ہلکان ہوئی تھی۔اور کھانسی کا شدید دورہ پڑا تھا۔
اس کی نازک حالت دیکھتا۔حمزہ گاڑی سائیڈ پر روک گیا۔
اور تیزی سے اس کی کمر مسلی۔
آنکھوں میں موجود نمی کو اس نے ٹشو کی مدد سے صاف کیا۔اور بےساختہ اسے اپنے ساتھ لگاگیا۔
شفا کالم ڈاؤن۔!! ریلکس جسٹ ریلکس!!
ہاتھ کے اشارے سے وہاں سے سات درست کرنے کی ہدایت دینے لگا۔
کچھ وقت بعد اس کی حالت سنبھلی تھی۔
مم۔میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا۔بس ہوگیا تھا۔گاڑی میں گرے پانی کو دیکھ کر صفائی آمیزانداز میں بولتی وہ نیچے جھکی ہی تھی کہ حمزہ اسے تھام کر سیدھا کرگیا۔
کچھ نہیں ہوا۔یہ پانی خشک ہوجاۓ گا۔پہلے تم ٹیک لگاکر بیٹھو۔
شفا نے ٹیک لگاکر آنکھیں موندھی تھی۔اور حمزہ نے گاڑی دوبارہ سٹارٹ کرکے اس کا رخ ریسٹورنٹ کی جانب کیا تھا۔
❤❤❤❤❤❤
میں جانتا تھا تمہیں بھوک لگ رہی ہے اس لیے یہاں لایا ہوں۔یہ میرے خوابوں کی تعمیر میرا چھوٹا سا پیزا پوائنٹ ہے۔گاڑی سے نکل کر وہ باہر آیا تھا۔اور ریسٹورنٹ کے بارے میں اسے بتاتا پرجوش ہوا۔
شاندار سے ریسٹورنٹ کو شفا نے اشتیاق سے دیکھا تھا۔یہ سچ میں آپ کا ہے۔؟؟ شفا اب بھی بے یقین تھی۔ہاں یہ میرا ہی ہے۔یہ میری آٹھ سالوں کی محنت کا نتیجہ ہے۔جس کے بدلے میں نے بہت کچھ کھویا بھی ہے۔آخری الفاظ پر اس نے بے ساختہ نظر جھکائی تھی۔
چلو آؤ اندر چلتے ہیں۔تم اپنی ٹیم سے ملاتا ہوں۔جو اس ریسٹورنٹ میں میرے پارٹنرز کی طرح کام کررہے ہیں۔
قدم سے قدم ملاتی وہ اندر کی جانب بڑھی تھی۔
گیٹ پر موجود گارڈ نے بے ساختہ خوشگوار حیرت سے اسے سلام کیا تھا۔
مسکرا کر جواب دیتا وہ شفا کو لیے اندر بڑھا تھا۔
سر آپ؟؟
ویٹرز نے بھی حیرت کا شدید مظاہرہ کیا تھا۔
آج میں آپ سب کا باس نہیں ایک عام انسان ہوں یہ سمجھ لیں۔کسی کو فیل مت ہونا دینا کہ میں اس پوائنٹ کا اونر ہوں۔انڈر سٹینڈ!!
دھیرے سے ان کو ہدایت دیتا وہ ایک ٹیبل کی جانب بڑھا تھا۔
شفا کی تو اب بھی نظریں اشتیاق سے اردگرد گھوم رہی تھیں۔
مرر والز اور خوبصورت انداز سے ڈیکوریٹ کیا گیا ریسٹورنٹ دیکھنے والے کو یکدم مسمرائز کردیتاتھا۔”
یہی اشتیاق اور واضح تعریف اسے شفا کی آنکھوں میں نظر آئی تھی۔
یہ ۔۔۔تت تو بہت پیارا ہے۔کیا سچ میں۔
ہاں۔ ہاں یہ میرا ہی ہے اب بیٹھ جاؤ!! سب دیکھ رہے ہیں۔اس کو بازو سے تھامتا وہ سامنے بٹھاتا خود دوسری جانب بیٹھا تھا۔
کیسا لگا؟؟ حمزہ نے دھیرے سے قریب ہوکر شفا کی آنکھوں میں جھانکا تھا۔
فشل کے بعد اس کی سکن کافی نکھری تھی۔اس پر ہلکا ہلکا ہوا میک اپ اس کے خوبصورت نقوش کو مزید خوبصورت بنارہا تھا ۔
کافی پیاری لگ رہی ہو۔”حمزہ نے بے ساختہ اس کی تعریف کی ۔
اس کی نظروں میں ناجانے کونسی لپک تھی کہ شفا نظریں جھکاکر رہ گئ۔
اچھا بتاؤ کیا کھاؤ گی؟؟ حمزہ نے بات کا رخ چینج کرکے شفا سے کھانے کا پوچھا۔
جو بھی منگوانا یے منگوالیں ۔مجھے تو اتنا پتہ نہیں ہے۔وہ بلاوجہ شرمندہ ہوئی۔
کوئی بات نہیں دھیرے دھیرے سب جان جاؤ گی۔بس یہ یقین رکھو میں یعنی حمزہ آپ کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑے گا۔اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر وہ اسے یقین دلا گیا۔
شفا نے پہلو بدل کر ہاتھ اس کی گرفت سے آزاد کروایا تھا۔
آپ اپنے ان ورکرز کے ساتھ اتنے اچھے سے بات کیوں کررہے تھے جیسے وہ آپ کے دوست ہوں۔
شفا نے بات کا رخ بدلا۔
میں جانتا تھا آپ نے یہ سوال مجھ سے ضرورپوچھناہے۔
آپ جانتی ہو۔میں ایک پیزاڈیلیوری بواۓ تھا۔
اور ایک پیزا ڈیلیوری بواۓ کی کیا عزت ہوتی ہے اتنا آپ کو اندازہ ہوگا ۔۔جیسے آہ گھر والوں لیے نوکرانی کی حیثیت رکھتی تھی میری بھی یہی حیثیت تھی۔
پیزا اگر لیٹ ڈلیور کیا تب سزا اور بے عزتی الگ۔ا
گر ٹیسٹ میں تھوڑی ردو بدل ہوئی تب بے عزتی۔
گویا ایک بے عزتی طلب کام تھا جو میں نے بہت ضبط سے کیا۔تب سے میں نے سوچا تھا کہ اگر کبھی مجھے ترقی ملی تو اپنے ساتھیوں کو اتنی آسانیاں تو ضرور دوں گا کہ کم ازکم ان کی عزتِ نفس مجروح نہ ہو۔
شفا کو ناجانے اس کی گہری بات پر رشک آیا تھا۔
اب بتاؤ کیا آرڈر کروں ؟؟
آپ کی مرضی ہے۔میں کھالوں گی۔
چلو اس بار میں آرڈر کرتا ہوں نیکسٹ میں تمہیں سب بتاؤں گا۔پھر تم آرڈر کرنا۔
اس کی کم تعلیمی کا اندازہ بھی اسے اچھے سے تھا تبھی وہ آج اسے ہر جانب سے پروٹیکٹ کرتا ایک محبت کرنے والے شوہر کا کردار اچھے سے نبھارہا تھا ۔
شاید وہ ان آٹھ سالوں کا مداوا چند دنوں میں ہی کرناچاہتا تھا۔
❤❤❤❤❤
ایک بھرپور دن گزار کر وہ جب رات کو گھر واپس آۓ تو شفا کے کھلتے چہرے پر ایک مسکان تھی ۔
اور حمزہ شاید اس مسکراہٹ کو دیکھ کر ہی جیسے مطمئن تھا۔اسے لگا آج اس کی محنت اسے شفا کی ہنسی سے وصول ہوگئی ہے۔
کیسالگا آج تمہیں؟؟بیڈ پر نیم دراز کچھ فاصلے پر بیٹھی شفا کو اپنی سیاہ آنکھوں میں سموۓ دلگیر سا بولتا شفا کو کچھ اچھا لگا تھا۔
اچھا تھا۔پر کچھ عجیب بھی؟؟ اس کے عجیب کہنے پر وہ مسکراتا سیدھا ہوا۔۔؟؟
کیا عجیب کیا تھا؟؟
عجیب یہ تھا کہ سب کس طرح گھوم پھر رہے تھے۔کبھی میں نے ایسے نہیں دیکھا ناں۔بس دونوں بہنوں کی شادیوں پر ہی دنیا کو دیکھا۔
اس لیے سب میرے لیے عجیب تھا۔آپ سمجھ رہے ہونگے کہ میں کیا اتنی معصوم ہوں؟؟۔
شفا نے جیسے خود ہی مطلب اخذکرکے اپنا مذاق بنایا۔
ہاں تم معصوم ہی ہو۔تبھی گاڑی میں میرے زرا سا غصہ کرنے پر تم پیلی پڑ گئ۔
وہ تو۔۔بے ساختہ انگلیاں مسل کر اس نے بات ادھوری چھوڑی۔
بتاؤ ؟؟ کیا ہوا تھا۔؟؟
وہ ابا شروع سے امی کو مارتے تھے۔
پھر جب بھائی بھی امی پر چیختے تھے تو بس میری حالت بگڑ جاتی تھی۔مجھ سے مار برداشت ہوجاتی ہے پر اونچی آواز نہیں ہوتی۔اور وہ ۔۔وہ۔بے ساختہ شفا کی آنکھیں حیرت سے پھیلیں۔اپنی نادانی میں وہ ناجانے کیا بولنے والی تھی۔
نن نہیں بس یہی وجہ تھی۔مم میں۔ہاں۔اونچی آواز برداشت نہیں کرسکتی۔
ادھوری ٹوٹی سی بات پر حمزہ کو مزید تجسس نے گھیرا تھا آج وہ سچ جاننے ہی والا تھا کہ شفا کی حالت پھر غیر ہونے لگی تھی
اچھا تم یہ بتاؤ تمہیں پیزا اور سینڈوچ اور باقی سب کیسے لگے؟؟ حمزہ نے سرعت سے بات کا رخ موڑ کر شفا کو نارمل کرنا چاہا۔
میں سوچ رہا تھا میں سینڈوچ بنانا تمہیں بھی سکھاؤں گا کیونکہ مجھے بہت پسند ہیں۔
کیا تم سیکھو گی ؟
حمزہ یہی چاہ رہا تھا کہ وہ نارمل ہوجاۓ تبھی وہ اسے ایسے ڈیل کررہا تھا۔
ہاں میں سیکھوں گی۔مجھے ویسے سب کچھ آتا ہے۔پر مجھے بریانی بنانے کا بہت شوق ہے۔کیا میں وہ بنالوں؟؟
شفا کو بھی جیسے اس کی باتوں میں دلچسپی محسوس ہوئی تھی۔
“ٹھیک ہے کل بریانی بنالینا۔بلکہ جو دل کرے وہ بنانا۔پر ایک بات یاد رکھنا صفائی برتن اور باقی کاموں کو آپ ہاتھ بھی نہیں لگاؤ گی۔”
شفا نے فوراُ اثبات میں سر ہلا کر اس کی بات کی تائید کی تھی۔
اور سب سے ضروری بات میں نے آپ کوچھوڑنے کی نیت سے ہرگز نہیں اپنایا۔
یہ۔میری شام والی بات کا جواب ہے۔جس کا میں نے کہا تھا گھر جاکر جواب دوں گا۔”شفا نے بے ساختہ نظر جھکائی تھی۔
سوجاؤ دیکھو ایک بج گیا۔اور وقت کا پتہ بھی نہیں چلا۔”
اسے سونے کی ہدایت کرتا وہ بھی چت لیٹا تھا۔
شفا بھی کروٹ کے بل لیٹ کر آنکھیں موند گئی تھی۔
❣❤❤❤❤❤❤❤❣
گزرتے دن شفا کو بھی حمزہ کا عادی بنارہے تھے۔ان چند دنوں میں وہ اسے اتنی چھوٹی چھوٹی خوشیاں دے چکا تھا کہ شفا کے لبوں سے کم ہی ہنسی جدا ہوتی۔
اکثر پر مزاح بات کرکے حمزہ اسے باقاعد قہقہ لگانے پر مجبور کردیتا۔”اور یہی مسکراہٹ گویا اس کی طاقت تھی۔
اس پورے ہفتے میں حمزہ نے اسے چھونے سے گریز ہی کیا تھا۔وہ نہیں چاہتاتھا کہ ابھی وہ اس پر اپنے ازواجی رشتے کا بوجھ ڈالے۔
کیونکہ جہاں تک اسے اندازہ تھا کہ وہ اس کے قریب آنے پر اس سے گریز برتتی ۔ہاں جب وہ دور ہوتا تو وہ بلاجھجک بات کرلیتی تھی ۔”
عاقل صاحب کے ساتھ بھی وہ تھوڑی بہت بات چیت کرنے لگی تھی۔”
شام کی چاۓ بناکر وہ چھوٹے سے لان کی جانب آئی تھی جہاں عاقل صاحب پہلے سے ہی اس کا انتظار کررہے تھے۔
آجاؤ بیٹا!!اخبار کو سائیڈ پر رکھتے وہ سیدھے ہوکر بیٹھے۔
چاۓ کے ساتھ بنے سینڈؤچ کو حیران کن نظروں سے دیکھتے وہ شفا کی جانب متوجہ ہوۓ۔جو انگلیاں مروڑتی انہیں ہی دیکھ رہی تھی۔
یہ لگتاہے حمزہ نے سکھاۓ ہیں میری بیٹی کو؟؟
عاقل صاحب کی بات پر وہ جھٹ اثبات میں سرہلا گئ۔
ماشاءاللہ بیٹا آپ تو بہت جلدی سیکھ گئ ہو۔
شفا کو بے ساختہ چند دن پہلے حمزہ کےسینڈوچ سکھانا یاد آۓ اور اس کے لبوں پر بے ساختہ مسکراہٹ نمودار ہوئی۔جب سینڈؤچ سکھاتے سکھاتے وہ دونوں اچھا خاصہ کچن کا کباڑہ کرچکے تھے۔
لیکن آج اس نے خاص احتیاط سے بناۓ تھے۔۔
بابا چیک کریں کیسے بنے ہیں؟ وہ اب بھی تفکر سی تھی۔
ضرور آپ بھی ٹرائی کرو۔”
شفا بھی چئیر سنبھال کر ان کے پاس دراز ہوئی تھی۔
گیراج میں حمزہ کی گاڑی رکنے کی آواز پر شفا کو خوشگوار حیرت نے گھیرا تھا۔
آج جلدی آگئے۔!!شفا ہولے سے بڑبڑائی۔
شفا اٹھتی کچن کی جانب حمزہ کے لیے پانی لینے بڑھی تھی کہ حمزہ اسے لان میں ہی آتا دکھائی دیا۔
دونوں کو سلام کرکے وہ وہی چئیرسنبھالے بیٹھا ۔
بابا یہ دیکھیں!! ایک خوبصورت سا کارڈ ان کی جانب بڑھاکر اس نے راۓ جاننی چاہی۔
شفا کو وہ ہلکا سا مسکرا کر دیکھ کر دوبارہ بابا کی جانب متوجہ ہوا۔
یہ تو بہت پیارا ہے!! اور بینکویٹ بھی تم نے اچھا سلیکٹ کیا ہے۔
شفا سوالیہ نظروں سے ان کو دیکھتی خود کو وہاں مس فٹ محسوس کرتی اٹھنے ہی لگی تھی کہ حمزہ نے اس کا ہاتھ تھام کر اسے دوبارہ بٹھایا تھا۔
شفا نے بے ساختہ ہاتھ جھٹکا۔
یہ دیکھو!!اس کے ہاتھ جھٹکنے کو نظر اندازی کرتا ایک کارڈ اس نے شفا کی جانب بڑھایا۔
یہ کیا ہے؟؟ کس کی شادی کا ہے ؟؟”
کارڈکو الٹ پلٹ کر دیکھتی وہ سوالیہ نظروں سے حمزہ کو دیکھنے لگی۔
یہ ہمارے ولیمے کا کارڈ ہے۔جو کہ اسی اتوار کو ہے۔شفا حیرت سے اپنی جگہ سے اچھلی۔
کارڈ۔؟؟ ولیمہ ؟؟ یہ سب ؟
بلکل ولیمہ تو ہمارا ہوگا ناں شادی بے شک سادہ سی ہوئی لیکن ولیمہ تو ضرور ہوگا۔کیوں بابا؟؟ میں ٹھیک کہہ رہا ہوں۔؟
بلکل بیٹا!! ولیمہ تو ضرور ہونا چاہیے۔بابا کی تائید پر شفا بھی سر اثبات میں ہلاکر خاموش بیٹھی تھی۔
ارے واہ!! یہ شفا نے بناۓ ہیں۔؟؟ حمزہ کی نظر بے ساختہ سینڈوچ کی جانب گئ۔
شفا کے چہرے پر بے ساختہ تجسس نمایاں ہوا تھا۔جیسے وہ حمزہ سے تعریف سننا چاہ رہی ہو۔
واؤ۔یم!! اٹس سو ٹیسٹی۔!!
شفا کو جیسے انجانی سی خوشی ہوئی تھی۔بابا شفا بہت جلدی سیکھ گئ ہے۔حمزہ نے بابا کو بھی تعریف میں شامل کرناچاہا۔
بیٹا وہ پہلے ہی بہت اچھی کوکنگ کرتی ہے۔مجھے تو افسوس ہورہا ہے کہ میں اتنا عرصہ ان مزیدار ذائقوں سے محروم رہا۔اور تمہارے ہاتھ کے بدمزہ کھانے پڑے۔
بابا!! حمزہ نے فوراً مصنوعی غصہ چہرے پر طاری کیا تھا۔
شفا بیٹی کل تو آپ پلاؤ بنانا۔میں یہ فاسٹ فوڈ کھا کر اکتاچکا ہوں۔حمزہ کو شرارت آمیز نگاہوں سے دیکھتے انہوں نے مزید گوہر افشانی کی۔
ٹھیک ہے پھر دوبارہ مت کہیے گا کہ حمزہ ہلکے پھلکے سنیک کھانے کا موڈ ہے کچھ سپیشل بھیج دو۔ دوبدو جواب دیتا وہ عاقل صاحب کی قہقے کی وجہ بنا تھا۔
میرے پاس ہلکے پھلکے سنیک بنانے کے لیے میری بیٹی آگئی ہے۔کیوں شفا بیٹی میں ٹھیک کہہ رہا ہوں ناں۔!!
اسے بھی باتوں میں شامل کرتے وہ حمزہ کو مزید چڑانے لگے۔ جی بابا آپ فکر مت کریں ۔میں آپ کو بنا کردوں گی آپ انہیں بلکل مت کہیے گا۔
شفا کے جواب پر حمزہ اسے گھور کر رہ گیا تھا۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial