تپش

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط 6

عبید یہ کیا پکڑا ہوا ہے۔؟؟عبید کے ہاتھ میں موبائل دیکھتی ثنا بھابھی نے فوراً اس سے چھینا تھا۔
جاؤ بھاگو باہر جاکر کھیلو ۔عبید کو باہر بھیجتی وہ موبائل کی جانب متوجہ ہوئی.
وہ شفا کا موبائل تھا شاید وہ لے جانا بھول چکی تھی۔
موبائل کو الٹ پلٹ کرکے وہ ایک نظر دیکھتی الماری کے اوپر رکھ گئ تاکہ عبید اب اس کو ہاتھ نہ لگاۓ۔
یہ موبائل تو ایمن کا تھا جو کئ بار خراب ہوچکا تھا لیکن صدا کا ڈھیٹ ٹھیک کروانے پر فوراً چل بھی جاتا تھا۔اس لیے شفا کے حصے میں آیا تھا۔”
موبائل رکھ کر وہ باہر کی جانب بڑھی تھیں تاکہ کھانے کا انتظام کرسکیں اب شفا تو تھی نہیں جو سب سنبھال لیتی اب جو کرنا تھا خود ہی کرنا تھا۔
جمیلہ خاتون تو گویا ایسی کمرہ بند ہوتی تھی کہ پورا پورا دن باہر نہیں نکلتیں ۔ناجانے وہ بندکمرے میں کیا کرتی تھیں۔یہ بھی شکر تھا کہ وہ ان دونوں پر نظر نہیں رکھ رہی تھیں ورنہ ان کا جینا محال ہوجاتا۔
کھانا بنا کر جس وقت وہ کمرے میں داخل ہوئی میسج بپ نے ان کی توجہ کھینچی ۔
تجسس کے ہاتھوں مجبور ہوتی وہ موبائل تھام کر بیڈ پر بیٹھی تھی کہ آیا دیکھیں کہ اس میں ایسا کیا ہے جس میں شفا فارغ اوقات میں استعمال کرتی تھی۔
موبائل پر کوئی پاسورڈ نہیں تھا سوائپ کرتی پہلے وہ سکرین پر موجود ایپس کو دیکھتی رہیں۔
یکدم انہوں نے میسجز کا فولڈر اوپن کیا تھا فرنٹ پر کسی کمپنی کے میسجز تھے۔تیسرے نمبر پر وہ بے ساختہ چونکی اور تیزی سے میسج اوپن کرتے سب پڑھتی گئ۔
جیسے جیسے وہ پڑھ رہی تھی۔آنکھیں حیرت سے تو پھیل رہی تھیں۔لیکن ان میں شیطانیت بھی واضح تھی۔”اب بتاتی ہوں شفاتجھے۔
بڑی کل اکڑ رہی تھی۔تیرے یہی کرتوت تیرے اس شوہر کو نہ دکھاۓ تو میرا نام بھی ثنا نہیں۔”
دل ہی دل میں شفا کو کوستی وہ موبائل سائڈ پر پٹک گئ تھی۔
❤❤❤❤❤❤
شفا!! شاپنگ بیگ کو وہی پھینکتا وہ شفا کی جانب آیا۔جو زمین پر آنکھیں موندھے گری تھی۔
پل بھر میں وہاں جھرمٹ اکٹھا ہوا جو حمزہ کی ناگواری کا باعث بن گیا۔
جائیے یہاں سے کوئی تماشہ نہیں ہورہا۔یکدم دھاڑتا وہ وہاں کے لوگوں کو کھسکنے پر مجبور کرگیا۔شفا کا منہ اپنی بازو میں چھپاتا وہاں سے لوگوں کے جانے کا انتظار کرنے لگا۔
رش کم ہوتے ہی وہ اسے گارڈ کو پانی لانے کا اشارہ دیتا شفا کے گال تھپتپانے لگا۔
اس کے تنے نقوش حمزہ کو احساس دلا رہے تھے کہ اس نے کچھ غیر معمولی دیکھاہے۔
شفا کے ساتھ ساتھ اسے یہ بھی فکر تھی کہ وہ کون ہے۔جسے شاپ میں دیکھ کر شفا اتنا ڈر گئی ہے۔
گارڈ کے پانی لاتے ہی وہ چند چھینٹے اس کے منہ پر چھڑک گیا۔
شفا کے چہرے کے تنے اعصاب اس کو یہ واضح بتارہے تھے کہ وہ کسی کشمکش میں ہے۔
شفا!! آنکھیں کھولو۔شفا کے گال قدرے زور سے تھپتپا کر اس نے اسے ہوش دلانا چاہا۔
شفا کی لرزتی پلکوں نے حمزہ کو تھوڑاسا پر سکون کیا
شفا چلویہاں سے۔!!
اسے سہارا دیے وہ باہر کی جانب بڑھا ۔گارڈز بھی شاپنگ بیگ اٹھاۓ ان کے پیچھے آیا تھا۔
❤❤❤❤❤❤❤
آپ کی وائف گہرے سٹریس میں ہے۔انہیں شاید چھوٹی سی چھوٹی بات بھی گہری پریشانی میں مبتلا کردیتی ہے۔”
شاید یہ جس ماحول میں رہ رہی ہیں وہ بہت تنگ اور گھٹن زدہ ہے۔جس کی وجہ سے ان کے اعصاب کمزور ہوچکے ہیں کہ بڑا صدمہ یہ برداشت نہیں کرسکتیں۔
اور سب سے اہم بات ان کی ڈائٹ کا خیال رکھیں۔یہ کچھ بھوک کی وجہ سے بھی بے ہوش ہوئی ہیں۔اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ ان سے بھوک برداشت نہیں ہوتی۔”
حمزہ کو بے ساختہ احساس ہوا۔
شاپنگ کے دوران اس نے کھانے کا ایک بار بھی نہیں پوچھا تھا۔اور شاید یہی وجہ اس کی بے ہوشی کی بنی تھی۔اور کچھ غیر معمولی بھی ہوا تھا۔جس کی وجہ سے شفا کی حالت بگڑی تھی۔لیکن وہ ڈاکٹر کو بتا نہیں سکتا تھا۔اور اس وقت شاید ڈاکٹر بھی اسے مشکوک نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
میں آپ کو کچھ میڈیسن اور وٹامنز لکھ کر دیتی ہوں۔آپ ڈیلی انہیں یوز کروائیں۔انشاءاللہ بہت جلد افاقہ ہوگا۔
انہیں ہوش آگیا ہے۔آپ لے جاسکتے ہیں ۔
ڈاکٹر کی ہدایت سن کر وہ شفا کو لے کر وہاں سے نکلا تھا۔
❤❤❤❤❤❤
شفا!! آج آپ کو سب سچ بتانا ہوگا۔”کس سے ڈر رہی تھیں آپ؟؟
دوپہر سے رات ہوچکی تھی۔لیکن شفا کچھ نہیں بولی تھی۔گھر لاکر اسے کھانا کھلا کر وہ باہر نکل گیا کہ وہ ریسٹ کرسکے۔لیکن شفا کو اب سکون حمزہ کی موجودگی میں ہی آتا تھا۔آج ابھی ایسا ہی ہوا تھا وہ حمزہ کے جانے کے بعد ایک پل بھی نہیں سوئی تھی۔
کمرے میں داخل ہوتے ہی وہ چینج کیے اب شفا کے پاس بیٹھا تھا۔
شفا میں آپ سے کچھ پوچھ رہا ہوں۔آپ کسے دیکھ کر ڈری تھیں۔
بے ساختہ اٹھ کر وہ اس کے گرد بازو حمائل کرتی سینے میں منہ چھپاگئی۔
جیسے اسے سہارے کی ہی تلاش میں تھی۔
حمزہ میں آپ کے بغیر نہیں رہ سکتی۔حمزہ مجھے مت چھوڑیے گا۔وہ کہتا ہے میں کسی کے لائق نہیں ہوں۔
بلک بلک کر روتی شفا “حمزہ کو بھی کسی گہرے انکشاف سے دہلا رہی تھی۔
شفا!! میں جانتا اور سمجھتا بھی ہوں۔ایک اکیلی لڑکی کو کیا کچھ سہنا پڑتا ہے اورشاید یہ میرے لیے سزا ہی تھی کہ میں نکاح کرکے تمہیں چھوڑ کر چلا گیا۔جس کے بدلے میں مجھے اتنا کچھ سہنا پڑ رہا ہے۔
نن نہیں حمزہ۔ایسے مت کہیں مجھے چھوڑ کر مت جائیے گا۔وہ میرا گلا دبا دے گا۔”شفا نے بے ساختہ گرفت مضبوط کی تھی۔
شفا مجھے اپنے مجرم کا نام بتاؤ۔حمزہ کی سرد آواز پر شفا کا رونا پل بھر میں تھما۔
ر۔۔ریاض بھائی !! شفا کی لڑکھڑاتی زبان سے ادا ہونے والا لفظ سن کر حمزہ کی شریانوں میں خون کا بڑھاؤ پل بھر میں تیز ہوا تھا۔
شفا کے گرد حمائل بازو یکلخت پہلو میں گرے۔
حمزہ وہ مجھے یہاں پہاں چھوتے تھے۔میں ان سے چھپتی تھی لیکن وہ پھر بھی آجاتے تھے۔اپنی بازو گردن پر ہاتھ کے اشارے سے حمزہ کو بتاتی وہ جیسے اس کی آنکھوں میں نمی بھر گئی۔
وہ مجھے بہن بہن کہہ کر ساتھ لگاتے۔ثانیہ باجی کہتی تھی تمہارے بھائی ہیں۔لیکن نہیں وہ میرے بھائی نہیں تھے۔وہ بھیڑیے تھے حمزہ۔۔
حمزہ مم میں ان سے بہت دور رہتی تھی۔لیکن وہ مجھے دیکھتے تھے۔ان کی نظروں سے مجھے خوف آتا تھا۔
میں روتی تھی تڑپتی تھی حمزہ۔لیکن کوئی مجھے چپ نہیں کرواتاتھا۔
مم میں نے ثانیہ باجی کو بتایاتو انہوں نے مجھے بہت مارا تھا۔کہتی کہ میں جھوٹ بول رہی ہوں۔حمزہ وہ میرے کمرے میں۔۔شفا کے لفظوں نے جیسے اس کا ساتھ توڑا تھا۔
اس کی قمیض کو مٹھی میں جکڑتی جیسے گہری اذیت سے گزر رہی تھی۔
حمزہ کے پاس تو گویا کہنے کو کچھ بچا ہی نہیں تھا۔
اتنی بھیانک حقیقت !! اسے اندازہ نہیں تھا کہ شفا کی حالت اس قدر دگرگوں ہوگی اسے اندازہ نہیں تھا۔
شفا کیااس نے؟؟ حمزہ جیسے گہری حقیقت جاننا چاہ رہا تھا۔لیکن اپنی بیوی سے ہی سوال کرتے وہ کانپاتھا۔
نن نہیں حمزہ!!خدارا ایسا کچھ نہیں ہے۔مم مجھے مت چھوڑیے گا۔میں مرجاؤں گی۔وہ مجھے ماردے گا۔
نہیں میری جان میں نہیں چھوڑوں گا۔میں آپ کے ساتھ ہوں۔نمی کا ایک حصہ آنکھ سے نکلتا شفا کے بالوں میں جذب ہوا۔
اپنے نقصان پر اس کا دل چاہ رہا تھا کہ پھوٹ پھوٹ کر روۓ۔لیکن اس وقت اسے شفا کو سہارا دینا تھا۔
شفا میری طرف دیکھو۔اس کے چہرے کو ہاتھوں کے پیالے میں بھرتاوہ اسے سامنے کرگیا۔
کیا میں آپ کو چھوڑ سکتا ہوں۔؟؟
کبھی بھی نہیں۔!! میں پہلے ہی اپنا بہت نقصان کرچکا ہوں۔اب مزید نہیں کرنا چاہتا۔میں جانتاہوں میری وجہ سے یہ سب ممکن ہوا۔
نہ میں جلد بازی میں نکاح کرتا نہ آپ کو تنہا کرکے جاتا۔کاش کہ میں رک جاتا۔اس وقت اس کے لہجے میں بے بسی کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔شفا کے روح کے زخم جیسے اسے اپنے جسم پر محسوس ہورہے تھے۔
میری بیوی اتنی تکلیف میں رہی اور میں وہاں۔۔ضبط کے باجود حمزہ کے لہجے میں نمی گھلی تھی۔بےساختہ وہ شفا کے سر کے ساتھ اپناسر جوڑتا بے بسی کی انتہا کو پہنچا تھا۔
چہرے پر اب بھی باتھ موجود تھے۔دل تو چاہ رہا تھا اس شخص کی کھال اتار دے یاپھر اسےجلا کر راکھ کردے تاکہ اسے تکلیف کا روم روم میں احساس ہو۔جیسے وہ اس کی بیوی کو اپنے ہاتھوں سے اپنی نظروں سے اپنے لمس سے تکلیف دیتا تھا۔
پر اس وقت اسے صرف شفا کو سوچنا تھا شفا کا ڈر ختم کرنا تھا۔کیونکہ اب یہ بہت ضروری ہوچکا تھا ورنہ اس کا دماغی توازن بگڑ سکتا تھا۔
شفا کو لیے وہ بیڈ پر دراز ہوا ۔نرمی سے اس کے بال سہلاتا وہ جیسے حوصلے کے لیے لفظ جمع کررہا تھا۔
اس کو نرمی سے بانہوں کے حصار میں لیے بے ساختہ اس کے ماتھے پر تاثیر چھوڑ گیا۔شفا کی روح تک جیسے سرشار ہوئی۔
“شفا میرے پاس آپ کی تکلیف کا کوئی مداوا نہیں ہے مجھے لگتا ہے میں بے بس ہوچکا ہوں۔سمجھ نہیں آرہا ان زخموں پر مرہم رکھوں تو کیسے رکھوں۔اس درندے اس جانور کو تکلیف دوں تو کیسے دوں۔شاید میرادماغ اس وقت خالی ہوچکا ہے۔شفا میں آپ سے نظر ملانے کے قابل نہیں رہا۔مجھے لگتا ہے اس سب میں اگر کسی کا قصور ہے تو صرف اور صرف میرا ہے۔میں ہوں اس ساری تکلیف کی وجہ۔”حمزہ کا بھاری نم لہجہ شفا کو جیسے گہری اذیت سے دوچار کرگیا۔بے ساختہ وہ اس کی گردن میں اپنا بازو حمائل کرتی کندھے میں منہ چھپاگئ۔گویا حمزہ کو ڈھارس دی ہو۔
نن نہیں حمزہ !! آپ۔۔۔نے۔۔تو۔۔مجھے۔۔بچایا ہے۔امی کہہ۔۔رہی تھیں۔۔مم میری موت کا سامان تو تیار ہوچکا تھا۔لیکن۔۔آپ مجھے اس موت کی وادی میں سے شہزادے بن کر نکال کر لے گئے۔شفا کی آدھی ادھوری باتیں حمزہ کے جلتے دل کو پرسکون کرگئی۔
میری جان!!اب حمزہ اپنی بیوی کو کبھی خود سے دور نہیں کرے گا۔ایک بار مجھے معاف کردو۔اسے سختی سے خود میں بھینچتا وہ شفا سے معافی کا طلب گار ہوا۔
شفا کہتی بھی تو کیا۔؟؟ جن لوگوں کو معافی مانگنی چاہیے تھی وہ تو اسے مزید تکلیف دینا چاہتے تھے۔اور جو اس کے زخموں پر اپنے ہر عمل سے مرہم رکھ رہا تھا وہی شخص معافی کا طلب گار ہواتھا۔
نن نہیں مانگیں معافی!! آپ کا ان سب میں کوئی قصور نہیں۔بس مجھے اب اس جہنم میں نہیں جانا۔مجھے ریاض بھائی کے پاس نہیں جانا۔وہ ۔۔مم میرا۔یکدم حمزہ نے لبوں پر ہاتھ رکھ کر باقی الفاظ بولنے سے شفا کو روکا تھا۔
مزید نہیں شفا۔!! اب اس شخص کا نام تمہاری زبان پر اب کبھی نہیں آۓ گا۔اس کے گال کو نرمی سے سہلاتا وہ شفا کو اپنے لمس سے روشناس کرواگیا۔
اس شخص سے بدلہ اب میں لوں گا۔جتنی اذیت اس نے آپ کو دی اس سے زیادہ اگر اسے نہ دی تو میرانام بھی حمزہ نہیں۔
“آپ کے بغیر اب میں ادھورا ہوں۔آپ کے زخموں پر مرہم رکھ کر میں ان زخموں کی تاثیر کو محسوس کرکے ان کی روح و جسم کو تڑپاؤں گا۔کہ انہیں بھی احساس ہو کہ تکلیف کیا شہ ہے۔”
اس کی ذات کو خود میں گم کرتا آخری لفظ اس نے یہی کہے تھے۔شفا کی ادھوری ذات کی تکمیل گویا حمزہ کے وجود سے ممکن تھی۔
❤❤❤❤❤❤❤
ایمن بات سنو!!ثنا بھابھی کی آواز پر وہ بے ساختہ مڑی تھی۔
جی بھابھی کوئی کام تھا؟؟ہاں کام تو تھا اور کافی ضروری تھا۔ثنا بھابھی معنی خیز سی مسکراہٹ لبوں پر سجاۓ ایمن کو دیکھا تھا۔
شفا سے اگر فائدہ حاصل کرنا ہے تو پہلے اس کی کمزوری کو پکڑنا ہوگا۔پھر ہی کوئی کام بن سکتا ہے۔”
ایمن کی آنکھوں میں غیر یقینی ابھری۔آپ۔۔کوکیسے پتہ چلا کہ میں شفا کے پاس جانے والی ہوں۔لہجے میں واضح چھبن تھی۔
“دیکھو یہ لڑنے کا وقت نہیں ہے۔اگر شفا سے فائدہ حاصل کرنا ہے تو مل کر حاصل کرنا ہے۔کیونکہ احد اور فاحد ایک ہی دکان پر برابر کے حصے دار ہیں۔اب سوچ لو کیا چاہتی ہو؟ اگر شفا سے فائدہ لوگی تو اس میں فاحد کا حصہ بھی لازمی بنتا ہے۔”
ایمن کے چہرے پر ناگواری تو آئی تھی لیکن وہ ضبط کرگئ۔
تو بھابھی کمزوری کیا ہے شفا کی؟؟ ایمن ضبط کے باوجود تیکھا سا بولی۔
جواباً ثنا نے ادھر ادھر دیکھ کر ایمن کے سامنے موبائل کیا تھا۔
یہ۔؟؟ یہ تو شفا کا ہے۔ ہاں شفا کا ہے اور اس میں شفا کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔
میسجز کھولتی وہ ایمن کے ہاتھ میں موبائل تھما گئ۔
یہ کب ہوا؟؟ ایمن کی گویا آنکھیں حیرت سے پھٹی تھیں۔
ناجانے کب سے چل رہا تھا۔خیر اس بات کی خبر احد کو نہ ہونے دینا ہم دونوں مل کر ہی شفا کو قابو کریں گے۔”ثنا مزید ہدایات دیتی اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئ تھی جبکہ ایمن اب بھی موبائل تھامے وہیں کھڑی رہ گئی تھی۔
❤❤❤❤❤
سورج کی چمکتی روشنی آج اس چھوٹے سے گھر پر خاص الخاص پھیلی تھی۔
پہلو میں لیٹی شفا کی کسمسانے پر اس کی آنکھ کھلی۔گھڑی پر وقت دیکھا تو سات بج رہے تھے۔
لبوں پر بے ساختہ نرم مسکراہٹ سجی۔شفا کے سات بجے اٹھنے کی روٹین پر وہ بھی اب اٹھنے لگا تھا۔اور آج بھی ایسا ہی ہوا ۔
بکھری سی شفا کا سر اب بھی اس کی بازو پر تھا۔بازو کا سن ہونا اسے احساس دلا رہا تھا کہ شفا نے آج یہاں سے سر نہ اٹھانے کی قسم کھالی ہے۔
رات کی اس کی ذات کو نرمی سے جوڑتا جیسے آٹھ سالوں کا مداوا کرگیا۔شفا کی ہر خوشی اب گویا حمزہ سے طے تھی۔
روح پر مرہم رکھتا وہ شفا کے دل میں اپنی جگہ مزید بڑھاگیا۔
اس کی قربت میں سمٹی شفا رات بار بار اپنے رب کا شکرادا کرتی رہی۔کہ اللہ پاک نے اسے واقع ہی جہنم سے نکال دیا ہے۔اور جنت کو اس پر” واجب العین” کردیا ہے۔
اپنی خوشی پر پھر وہ رشک کیسے نہ کرتی۔اس وقت گویا حمزہ کو بھی اپنی قسمت پر رشک آیا۔کہ وہ کسی ایسی لڑکی کو اپنی زندگی میں لایا ہے۔جو دکھوں کی ماری تھی۔جس کے اندر شاید کوئی کھوٹ نہیں تھی۔
اس کا سادہ سا چہرہ بھی حمزہ کے دل کی دھڑکن بڑھادیتا۔نرمی سے اس کے سفید گال پر لب رکھتا وہ اسے اپنے حصار میں قید کرگیا۔
ذہن کے پردے پر “ریاض “کی شبیہ لہرائی۔ولیمہ پر وہ اس سے ملا تو تھا لیکن ملاقات سرسری تھی۔اس لیے اس کا چہرہ ابھی واضح یاد نہیں تھا۔لیکن اب اس چہرے کو اس نے یاد بھی رکھنا تھا اور اپنے بدلے سے جھلسانا بھی تھا۔
آپ اٹھ گئے۔۔!!یکلخت بازو سے سر اٹھا کر وہ قدرے فاصلے پر لیٹی۔حمزہ نے واضح اس کی حرکت کو محسوس کیا۔
جاؤ فریش ہوجاؤ میں آج سپیشل ناشتہ بناؤں گا۔!!
مسکرا کر زرا سا اس کی جانب رخ موڑےقدرے جھک کر وہ شفا کے سرپر لب رکھتا بیڈ سے اتر کی باہر کی جانب بڑھا تھا۔
شرمائی سی وہ سرخ چہرے کے ساتھ وارڈروب کی جانب آئی تھی۔
💞💞💞💞
شفا!! شام کو ریڈی رہنا۔اور وہ بلیو فراک پہننا۔اور میک اپ بھی ڈارک کرنا ہے۔آج ہم سپیشل پرسن کے گھر انوائٹ ہیں۔
ریسٹورنٹ کے لیے ریڈی ہوتے حمزہ نے آئینہ میں سے ہی شفا کو دیکھ کر ہدایت دی تھی۔
کک کس کے گھر؟؟ بے ساختہ اس کی زبان لڑکھڑائی۔
شفا یہ لاسٹ وارننگ تھی۔اب آپ کی زبان لڑکھڑائی یا پھر زرا سی بھی طبعیت خراب ہوئی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔”
اس کی سرد آواز سنتی وہ جھٹکے سے سراٹھا گئی۔نگاہوں میں بے یقینی واضح تھی۔
بلکل ٹھیک کہہ رہا ہوں ۔ان نظروں سے مت دیکھو میں اب نرم نہیں پڑنے والا۔کیوں خود کو اتنا کم ہمت سمجھتی ہو۔؟؟ کیا زبان میں مسلہ ہے ؟؟ کوئی کمی ہے؟؟
شفا کا سر حمزہ کے سوال پر بے ساختہ نفی میں ہلا۔
تو پھر اس طرح ڈر کر کیوں بولتی ہو۔لوگ تمہیں کمزور اسی وجہ سے سمجھتے ہیں۔
اور سب سے اہم بات تیاری میں کوئی کمی نہیں ہونی چاہیے۔میک اپ ڈارک ہوتو لپ سٹک بھی ڈارک ہی ہونی چاہیے۔سادہ چہرہ میں ہرگز نہیں دیکھنا چاہتا۔
اور جہاں ہم۔آج جارہے ہیں اگر آپ وہاں زرا سا بھی گھبرائی یا پھر ہلکی سی بھی طبعیت خراب ہوئی میں آپ کو وہیں چھوڑ آؤں گا۔ساتھ واپس نہیں لاؤں گا۔
حمزہ کا لہجہ حد درجہ تیز تھا۔
یہ آپ کو کیا ہوگیا ہے۔ایسے کیوں بات کررہے ہیں؟؟ میں نے کچھ کیا ہے۔ ؟؟ “شفا روہانسی سی اس کے قریب آکر رکی جو آئینے کے سامنے کھڑا پرفیوم سپرے کررہا تھا۔
میں بلکل ٹھیک کہہ رہا ہوں۔اب یہ آپ پر ہے کہ آپ کو وہیں رہنا ہے یاپھر میرے ساتھ واپس آنا ہے۔”اور دوائی وقت پر لینا ہے۔ورنہ میں نے سب ایک ساتھ آپ کو کھلانی ہے۔
اس کے چہرے کو چند پل دیکھ کر وہ وہاں سے کوٹ اٹھاۓ نکلتا چلا گیا۔
دل مسوس کیے وہ صوفہ پر بیٹھی تھی۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial