تپش

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط 9

دوپہر سے شام ہوچکی تھی۔لیکن شفا بے سدھ سی بیڈ پر لیٹی ایک ہی نقطے کو گھوری جارہی تھی۔
یہ کیسا مقام آیا تھا کہ ابھی چند خوشیاں ملی ہی تھیں کہ نیاطوفان سر اٹھاۓ کھڑا تھا۔
فون دو بار بج کر بند ہوچکا تھا ۔لیکن شفا کو جیسے کچھ ہوش نہیں تھا۔
جو تھوڑی بہت امید اسے اپنے گھر والوں سے باقی تھی وہ بھی دم توڑتی محسوس ہوئی۔
آنکھوں کے کناروں پر اٹکے آنسوں جیسے سوکھ کر نشان چھوڑ گئے۔
میں یہ سچائی اگر حمزہ کو بتاؤں تو وہ مجھے کیا سمجھیں گے۔ایک غلط لڑکی!!
میں جو اپنے بہنوئی کی ڈسی ہوں۔میرے لیے وہ اس شخص سے لڑگیا۔اور اگر انہیں یہ پتہ چل گیا کہ کسی غیر لڑکے سے خود شادی کی بات کی۔
میری عزت ہی کیا رہ جاۓ گی؟؟
کیا میرا کردار مشکوک ہوجاۓ گا۔وہ مجھ پر اتنا یقین کرتے ہیں لیکن میں نے یہ کیا کیا۔؟؟
ان کا یقین توڑنے والی ہوں۔یااللہ میں کیا کروں مجھے اس اذیت سے بچالے میرے اللہ!!
کانپتے ہاتھ جوڑتی وہ شدت سے روئی تھی۔لیکن کوئی سرا تھا کہ ہاتھ ہی نہیں آپارہا تھا۔
❤❤❤❤❤
کھانا نہیں کھایا دوا بھی نہیں لی۔اور تو اور انکھیں بھی سوج چکی ہیں۔
اب بتاؤ کیا سلوک کروں آپ کے ساتھ؟؟ شفا کے قریب بیٹھے نروٹھے پن سے کہتا وہ اسے نظر جھکانے پر مجبور کرگیا ۔
آج نظر جھکانے سے کام نہیں چلے گا۔جواب دینا ہوگا۔
اس کی تھوڑی کونرمی سے تھامتا وہ چہرہ اوپر کرگیا۔
شفا کیا پریشانی ہے۔؟؟ کیوں چہرہ سوجا ہوا ہے۔
اس کی حالت حمزہ کو بے حال کرنے میں معاون ثابت ہورہی تھی۔
کچھ نہیں ہوا۔بس بخار ایسی ہی حالت کردیتا ہے۔چہرے پرالرجی کے نشان مزید بڑھ چکے تھے۔جس سے حمزہ مزید فکر مند تھا۔
حمزہ مت ہاتھ لگائیں۔یہ آپ کو بھی ہوجاۓ گی۔
اس کے لمس کو گال پر محسوس کرتی شفا بے بسی سے آنکھیں موند گئی۔
ہوجانے دو کم ازکم آپ کی تکلیف کو محسوس تو کرسکوں گا۔
حمزہ مت کہیں۔اتنی محبت نہیں کریں مجھ سے۔یکدم پھوٹ پھوٹ کر روتی وہ حمزہ کو ہلکان کرگئی۔
شفا!! کیاہورہا ہے کہیں درد ہے؟؟بتاؤ مجھےاس کے گال گردن پر ہاتھ پھیرتا وہ پورے چہرے پر نظر گھماگیا۔”
یکلخت شفا نے اس کے ہاتھ جھٹکے۔”کچھ نہیں ہوا مجھے۔۔چھوڑ دیں مجھے”۔اس مرتبہ وہ قدرے چڑ کر بولتی بیڈ پر کروٹ لے کر لیٹی تھی۔
شفا!! حمزہ کی پکار میں نرمی محسوس کرتی وہ شدت سے آنکھوں کو میچ گئ کہ آنسو کنپٹی میں جذب ہوۓ۔
“میں کیاکہوں حمزہ میں تو آپ سے نظریں ملانے کے قابل نہیں رہی۔دل میں ملال شدت سے جاگا تھا۔”
اس کے بال نرمی سے سہلاتا وہ بیڈ سے اٹھ کر وارڈروب کی جانب آیا۔۔
شفا کی بیزاری کو وہ بخار سمجھ کر نظرانداز کرگیا۔؛
نرم گو شفا کارویہ پہلی بار ہی ایساہوا تھا۔اور اگر وہ پہلی مرتبہ میں ہی سختی کرجاتا تو شفا شاید کبھی بھی اپنی باتیں کھل کر نہیں کرپاتی۔”
میں کھانا لے کر آرہاہوں۔پھر آپ نے دوائی لینی ہے۔اس کے بعد بے شک جتنا مرضی غصہ کرلیجیے گا۔”
قدرے بلند,آواز میں کہتا وہ کمرے سے نکلا تھا۔بے حس سی بنی وہ بس اس کی آواز سنتی لیٹی رہی تھی۔
❤❤❤❤❤❤
بھابھی کیا لگتا ہے شفاحمزہ کو بتادے گی؟؟ایمن کے ذہن میں کل سے یہی بات کلبلارہی تھی۔
نہیں بتاۓ گی۔”
اپنے کالے کرتوت وہ خود اپنے منہ سے کسی کو بتا ہی نہیں سکتی۔اور اگر وہ بتابھی دیتی ہے تو حمزہ نے اسے ذلیل و خوار کرکے رکھ دیناہے۔
مزید نمک مرچ ہم چھڑک دیں گے۔”
ثنا کی شیطانیت عروج پر تھی۔بھابھی لیکن شفا ہمیں پیسے کیسے دے گی؟؟”
“وہ تو میرے بائیں ہاتھ کا کام ہے۔بس تم فکر مت کرو۔
بھابھی پہلی مرتبہ میں تو کم ازکم دو لاکھ تو میں اس سے بٹور لوں گی۔باقی پھر بعد میں دیکھیں گے۔
ہمارا کھاتی رہی ہے۔ہمارا دیا پہنتی رہی ہے۔اور اب دیکھو کیسے عیش سے وہاں رہ رہی ہے۔
ایک بار بھی نہیں پوچھا کہ بھابھی آپ لوگوں کو کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ہے۔”
نخوت سے بولتی ایمن ہنڈیا میں چمچا گھماگئی۔
“خیر تم فکر نہ کرو۔دیکھنا کل بھاگی بھاگی آۓ گی۔
ابھی تو بخار میں تپ رہی ہے۔دیکھنا کل ضرور آۓ گی۔کیونکہ جو جال میں بچھا کر آئی ہوں۔اس میں وہ پوری طرح پھنس چکی ہے۔اور جانتی تو ہو کتنی ڈرپوک کبوتری ہے۔
“دونوں کے قہقے فضا میں گونجے تھے۔
❤❤❤❤❤❤
اپنا چہرہ دیکھتا وہ یک دم تو سہم گیا تھا۔جگہ جگہ زخموں کے نشان اور سوجا چہرہ اسے عجیب مضحکہ خیز بنارہے تھے۔
نمرہ بھی اپنے باپ کی شکل دیکھ کر ایسے سہمی تھی گویا کوئی بھوت دیکھ لیا ہو۔
بیٹا تو تھا ہی موڈی۔چھوٹی سی عمر میں ہی ماں نے اتنا سر چڑھایا تھاکہ باپ سے بھی مزاج نہیں ملتے تھے۔”
ریاض آپ پرہشان نہ ہوں۔یہ ٹھیک ہوجاۓ گا۔بس کچھ دن کی بات ہے۔حمزہ نے کہا ہے کہ وہ پتہ کرواۓ گا کہ اس کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے۔
اس کے کندھے پر سرٹکاۓ بظاہر تو وہ دلگیر سی بولتی اسے حوصلہ دے رہی تھی۔لیکن ریاض کے لیے یہ حوصلہ کانچ کی مانند تھا۔جو اس کے وجود میں پیوست ہورہا تھا۔
اے چل نکل یہاں سے دماغ خراب نہ کر۔حمزہ حمزہ کی رٹ تو نے کب سے شروع کررکھی ہے۔ارے یہ اس کمینے نے ہی کیا ہے۔وہ گھٹیا شخص ہی کراۓ کے غنڈے بھیج کر مجھے مروارہا تھا۔اور پھر ہمدرد بنا مجھ سے ملنے بھی چلا آیا۔
یہ یہ کیا کہہ رہے ہیں۔؟؟وہ کیوں آپ کو مارے گا۔اس کی ایسی کیا دشمنی ہے آپ سے۔؟؟
ثانیہ کی حیرت یقینی تھی۔اپنی بہن سے پوچھ لے ناجانے کون سا بیر پال کر بیٹھی ہے۔ثانیہ مجھے تو لگتاہے وہ تیری سوتیلی بہن ہے۔جسے ہمیشہ تجھ سے خار رہی ہے۔
ریاض نے گویا جلتی پر اچھا خاصہ تیل چھڑکا تھا۔
صحیح کہہ رہے ہیں یہ شفا بہت میسنی ہے۔
خود تو چلی گئی لیکن مجھے اماں کے خلاف کرگئی۔اور اماں کو بھی دیکھو کیسے پینترا بدلا ہے ۔کاٹ کھانے کو دوڑتی ہیں۔اس لیے میرا اب اس گھر میں جانے کو دل نہیں کرتا۔
اماں سیدھے منہ بات ہی نہیں کرتی۔ٹسوےبہاتی وہ بیڈ پر ٹک کر ڈوپٹے سے نادیدہ آنکھیں پونچھنے لگی۔
تم پریشان نہ ہو ۔میں ماں جی کو سمجھاؤں گا۔ہمدردی جتاتاوہ ثانیہ کو مزید بھڑکانے کا سامان تیار کرگیا تھا۔
ابھی تم شفا سے کچھ نہیں کہنا ۔میں اس سے بات کروں گا کہ آخر اسے مجھ سے مسلہ کیا ہے۔؟؟
جانتی ہو میں تو اس سے بہنوں والی چاہت کرتا ہوں لیکن۔وہ!! پیشانی مسلتا وہ کن آنکھوں سے ثانیہ کو بھی دیکھ رہا تھا جو پرسوچ سی بیٹھی تھی۔”
یقیناً اب کوئی بڑا دھماکہ ہونے والا تھا۔
❤❤❤❤❤
مجھے امی کے پاس جاناہے.چاۓ کا کپ لبوں سے دور کرتی وہ بیزاری سے بولی تھی۔
آپ کی بھابیوں نے اب کیا زہر اگلا ہے؟؟جو آپ مجھ سے بھی بیزاری کی انتہا پر پہنچ چکی ہیں۔کل سے شفا کا یہی رویہ تھا۔نہ وہ کچھ بول رہی تھی اور نہ ہی حمزہ سے رویہ ٹھیک کررہی تھی۔
رات بھی اسے اپنے قریب کرتا وہ نرمی سے پوچھتا رہا لیکن وہ اس کی قربت سے دور بھاگتی سمٹ کر ایک جانب لیٹ کر کروٹ بدل گئی تھی۔”
شفا یہی بات ہے ناں۔!!
حمزہ کا عام سا لہجہ بھی اس کا خون خشک کرگیا۔
کک کچھ نہیں کہا”وہ بس ملنے آئی تھیں۔اور امی کی طبعیت کا کہہ رہی تھیں۔
مجھے ان کے پاس جانا ہے حمزہ۔”
میں آپ کو کہنا چاہتی تھی ۔لیکن میں کہہ نہیں پائی ۔مجھے امی یاد آرہی ہے۔پلیز آپ مجھے وہاں چھوڑ آئیں۔
شفا کی دلگیر سی آواز گویا حمزہ کے دل پر لگی تھی۔
شفا مجھے بتاؤ ہوا کیا ہے۔؟؟ کیاکہا ہے انہوں نے ؟؟شفا مجھ سے آپ کی یہ بے رخی برداشت نہیں ہورہی ۔کیا آپ کو مجھ پر اب بھی یقین نہیں آیا ؟؟
اس کے چہرے کو تھامے وہ شفا کی آنکھوں میں اپنی سرخ آنکھیں گاڑ گیا۔
مجھے امی کے پاس جانا ہے۔شفا کی گویا ایک ہی ضد تھی۔
شفا میں جانتا ہوں انہوں نے ضرور آپ سے پیسوں کا مطالبہ کیا ہوگا۔
یہ لیں پیسے !! لاکر سے دو گڈیاں لاکر اس نے شفا کے پاس پھینکی۔یہ پیسے ان کے منہ پر ماردیں لیکن مجھ سے ایسا رویہ مت رکھیں۔”
پیسوں کو دیکھ کر اور اس کی درست نشاندہی پر وہ حیرت زدہ ہی تو رہ گئی تھی۔
یہی چاہیے انہیں۔دے آئیں انہیں ۔لیکن اپنا سکون برباد مت کریں۔
میں اپنی خوشیاں دائمی چاہتا ہوں ۔نہ کہ ایسی ادھوری خوشیاں چاہتا ہوں جس میں دوسروں کی لگائی آگ ہمارے رشتے میں دڑاڑ ڈال دے۔”
شام تک ریڈی رہیے گا۔میرے ساتھ ہی جائیں گی میرے ساتھ ہی آپ واپس آئیں گی۔”
اور میں اس معاملے میں کوئی ضد نہیں سنوں گا۔آپ کو وہاں لے کرجارہا ہوں یہی میرے ضبط کے لیے کافی ہے۔اس سے زیادہ اگر مجھے آزمایاگیا تو تباہی ہرجانب پھیلے گی۔
یاد رکھیے گا۔”
طیش بھری نظروں سے اسے دیکھتا وہ کمرے سے ہی نکل گیا تھا۔کیونکہ مزید سختی کا وہ متحمل نہیں تھا۔”
❤❤❤❤❤❤❤
سادہ سی سرخ شلوار قمیض پر دھلے سے چہرے کے ساتھ وہ جانے کو تیار تھی۔
پیسے وہ بیگ میں ڈال چکی تھی۔کیونکہ جب تک وہ انہیں پیسے نہ دیتی ان کے منہ بند نہیں ہونے تھے۔
جانتی تھی وہ غلط کررہی تھی۔لیکن وہ بے بسی کی انتہا پر تھی۔چاہ کر بھی کچھ نہیں کرسکتی تھی۔حمزہ کا یقین وہ توڑنا نہیں چاہتی تھی۔اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ وہاں سے واپس آنے کے بعد حمزہ کو ساری سچائی بتانے کی ٹھان چکی تھی۔اگر بھابھی کے ذریعے حمزہ تک سچائی پہنچتی تو معاملہ بگڑ جاتااور شاید تاعمر وہ اپنی سچائی ثابت نہیں کرپاتی۔”
لیکن فلحال جانا بہت ضروری تھا۔
چلیں!!”۔اس کےہاتھ کو تھامے وہ سہارا دیے اسے باہر کی جانب لایا۔
بخار کی نقاہت اب بھی تھی اور حمزہ لاکھ بے اعتنائی برتتا لیکن اس کی فکر ہرگز نہیں چھوڑ سکتا تھا۔
چند گھنٹوں کے سفر کے بعد وہ گاڑی شفا کے گھر کے قریب رکی تھی۔
شفا میں دوبارہ بتارہا ہوں۔اگر آپ نے کوئی ضد کی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔”
ناجانے حمزہ کو وہم ہورہا تھا کہ شفا ضد ضرور کرے گی”۔اس لیے اترنےسے پہلے اس نے باور کروانا ضروری سمجھا تھا۔
میں آج امی کےپاس ہی رکوں گی۔ آج پلیز مجھے یہاں رہنے دیجیے۔کل میں واپس آجاؤں گی۔پلیز مجھے مت روکیے گا۔”
شفا کے الفاظ پر اس کے ماتھے پر بے ساختہ بل نمایاں ہوۓ۔
شفا کیوں خود کو آگ میں دھکیل رہی ہو؟؟ کیا وجہ ہے اگر کچھ ہے تو بتادو مجھے۔
ضبط کے باوجود آواز تھوڑی اونچی ہوئی تھی۔
میں کل آپ کو ساری وجہ بتادوں گی۔لیکن اس وقت مجھے یہاں رہنے دیں۔میں آپ کو خود سب سچ بتاؤں گی۔”
ٹھیک ہے۔”میں جانتا ہوں آپ مجھ سے کچھ نہیں چھپائیں گی۔اور میں کل تک کا انتظار کروں گا۔کل دوپہر میں لینے آؤں گا۔اور آنٹی کے کمرے میں رہنا ہے۔کہیں نہیں جانا سمجھ گئی آپ۔”
ہدایات کا پلندہ اس کے ہاتھ میں تھماتا وہ گاڑی سے اترکر دروازہ کھٹکا چکا تھا۔
❤❤❤❤❤❤❤
شفا کو چھوڑ کر وہ بنا کچھ کھاۓ پیے وہاں سے نکلا تھا۔بھابھیاں تو گویا کمرے میں پھٹکی بھی نہیں تھی۔لیکن حمزہ کے جاتے ہی دونوں نے اسے گھیرا تھا۔
ہاں بتاؤ ہمارا کام ہوا یا نہیں۔؟؟ جمیلہ بیگم کچھ دیر پہلے ہی سوئی تھیں۔
ہوگیا ہے”۔پر بھابھی خدا کا واسطہ ہے وہ میسج حمزہ کو مت دکھائیے گا۔میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں۔خدا کے لیے میرا گھر خراب مت کریں۔وہ جو بھی تھی میری نادانی تھی۔خدا کا واسطہ میرا گھر خراب مت کریں۔
پھوٹ پھوٹ کر روتی شفا ان کے آگے ہاتھ جوڑ گئی۔
دونوں نے معنی خیز نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھا تھا۔
اچھا تم پیسے دو۔میں نہیں دکھاؤں گی ۔ایمن کی تو گویا پیسے دیکھ کر رال ٹپکی تھی۔
پیسے وہ بیگ سے نکال کر ان کی جانب بڑھا گئی۔
اے شفا۔!! تو اتنی امیر ہے؟؟
نوٹوں کی بھاری گڈی دیکھ کر ان کی آنکھیں حیرت سے پھیلیں۔
جواباً وہ کچھ نہیں بولی تھی۔اچھا سن ابھی ہم یہ رکھ لیتے ہیں آگے کا تو سوچ لے کیسے دے گی پیسے؟؟
شفا تو گویا ان دونوں کی سفاکیت دیکھتی رہ گئی۔کیا وہ اس حد تک خود غرض اور گھٹیاتھیں کہ اس کی التجا کو خاطر میں نہیں لارہی تھی۔
بھابھی میں آپ سے کچھ کہہ رہی ہوں۔”شفا بے ساختہ بولی تھی۔”
سن رہی ہوں۔زیادہ زبان مت چلا۔نوٹ گنتی ایمن بیزاری سے بولی تھی۔
شفا آنسو ضبط کرتی وہاں سے اٹھ کر اوپر سٹور روم کی جانب بڑھ گئی ماں کے کمرے میں اتنی جگہ ہی نہیں تھی کہ وہ اپنا بستر لگاکر وہاں سوجاتی۔”
کمرے میں داخل ہوتے ہی اسے یوں لگا جیسے وہ کسی کباڑ خانے میں آگئی ہے پورے تین ماہ بعد وہ اس کمرے میں قدم رکھ رہی تھی۔
اور کمرے کی حالت بتارہی تھی کہ وہاں جھانکا بھی نہیں گیا۔
چادر جھاڑ کر وہ چارپائی پر لیٹی اور ضبط کے ناوجود پھوٹ پھوٹ کر روئی۔
سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ حمزہ کو یہ سچائی کیسے بتاۓ۔بھابی سے وہ موبائل کیسے حاصل کرے۔؟؟
الجھ کر رہ گئی تھی کوئی سرا ہاتھ نہیں آرہا تھا جس سے وہ اپنا بچاؤ کرپاتی۔”
دوسری جانب گویا حمزہ کو بھی سکون نہیں تھا۔بیڈ پر کروٹ لیتا اس کی سوچ کا رخ شفا کی جانب ہی تھا۔
ناجانے کیا بات تھی جو شفا کو پریشان کررہی تھی۔لیکن وہ اسے وقت دینا چاہتا تھا۔نہیں چاہتا تھا کہ بیزاری اس پر حددرجہ طاری ہوجاۓ۔
اس لیے وہ اپنی تکلیف کو نظرانداز کرکے اسے وہی چھوڑ آیا تھا۔”
❤❤❤❤❤❤❤
شور کی آواز سے اس کی آنکھ کھلی تھی۔ہڑبڑا کر اٹھتی وہ نیچے کی جانب بڑھی۔بکھرے حال کو بھی گویا درست کرنے کا خیال بھی نہیں رہا تھا۔
سیڑھیوں پر ہی اس کے قدم ٹھٹکے۔
ایک اجنبی مرد صحن میں کھڑا تھا پاس ہی ریاض اجڑی حالت میں موجود تھا۔
ثانیہ کی نظر جیسےہی شفا پر پڑی تھی۔وہ بکتی جھکتی اس کی جانب آئی۔
اور بالوں سے پکڑ کر اسے نیچے لائی تھی۔
بے شرم عورت !! میں تو تجھے بڑا سیدھا سادہ سمجھتی تھی۔
ایک تو میرے شوہر پر الزام لگایا۔اور اسے اپنے شوہر سے پٹوایا اور دوسری جانب اپنے یار کے ساتھ رابطے بڑھاتی رہی بے شرم عورت۔حیا بیچ کھائی تھی تو نے۔”
دیکھ اماں یہ ہے تیری بیٹی !!دیکھ اس کے کرتوت۔ثانیہ نے اسے لاکر جمیلہ بیگم کے قدموں میں پٹکا۔
صورتحال کو سمجھتی شفا بے ساختہ زمین پر گری۔
اے شفا!! کو ہاتھ مت لگاؤ۔وہی اجنبی مرد آگے بڑھ کر شفا کی جانب آیا۔شفا بے ساختہ پیچھے کی جانب کھسکی۔
دیکھو اماں اس کو دیکھو زرا۔کیسے اس کا یار اس کی سائڈ لے رہا ہے۔
“بلاؤ زرا اس کے شوہر کو پتہ چلے کہ جس کو وہ سر پر بٹھا رہا تھا وہ پاؤں میں بیٹھنے کے بھی قابل نہیں ہے۔”
ثانیہ کی زہر آلود زبان شفا کو سانس حلق میں اٹکا گئی۔
نن نہیں حمزہ کو نہیں بلائیں ۔
کیا کہہ رہی ہیں؟؟ کون ہے یہ ؟؟میں اسے نہیں جانتی۔
ہمت مجتمع کیے وہ بے ساختہ پیچھے کو ہٹی تھی۔
سانولی سی رنگت اور قدرے بڑی عمر کا شخص اس کے لیے مکمل اجنبی تھا۔
شفا میں ہوں سبحان!!تمہارا سبحان ۔ان سب سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔میں تمہارے ساتھ ہوں۔
کھردری نرم آواز میں بولتا بھی وہ شخص اسے عجیب لگا تھا۔
نن نہیں میں شادی شدہ ہوں دور رہو مجھ سے۔
اس کو قریب آتا دیکھ کر وہ مزید پیچھے ہٹی تھی۔
اے لڑکے کیا بے غیرتی دکھا رہا ہے۔احد یکدم قریب آتا اس شخص کو گریبان سے تھام گیا۔
میرے گریبان پکڑے گا تو میں تیرا بھی پکڑوں گا۔یکدم وہ بدزبانی کرتا احد کا گریبان تھام گیا۔
میں یہاں شفا کو لینے آیا ہوں اور اسے لے کر ہی جاؤں گا۔
اوۓ لڑکے اپنی زبان بند کر۔دیکھو ثانیہ میں نہیں کہتا تھا کہ شفا جھوٹی ہے مجھ پر بے بنیاد الزام لگاکر اس نے مجھے بدنام کرنا چاہا۔
ریاض بس کرو اتنے جھوٹ مت بول۔کل کو خدا کو منہ بھی دکھانا ہے۔
جمیلہ بیگم کی گویا ہمت جواب دے گئی تھی۔
ماں جی یہ آپ کیاکہہ رہی ہیں بجاۓ شفا کو پوچھنے کے آپ مجھ پر چڑھ دوڑیں
نقاہت بھرے لہجے میں بولتا وہ اداکاری کی انتہا کرگیا۔”
ریاض بھائی آپ چپ کریں پہلے اس شخص کا معاملہ صاف کرلینے دیں پھر اس شفا کا تو میں اپنے ہاتھ سے گلا گھونٹوں گا۔
احد کی دھاڑ پر ریاض چپ کرکے تخت پر بیٹھتا لبوں پر استہزایہ مسکراہٹ سجا گیا۔
شفا کی حالت تو جان کنی کے لمحے جیسی تھی۔”حمزہ کی یاد شدت سے آئی۔اور اس کی باتیں بھی ذہن میں گھومیں کہ اس نے کتنا کہا تھا کہ اسی کے ساتھ واپس چلی جاۓ لیکن اس نے ایک بھی نہیں سنی تھی۔اور ایک ہی دن میں وہ عدالت کے کٹہرے میں کھڑی ہوئی تھی جہاں انصاف کرنے والے سب کے سب ظالم سفاک تھے۔”
ہاں اب تو بول شفا کو کیسے جانتا ہے۔؟؟
پہلے میرا گریبان چھوڑ پھر تجھے تیرے ہر سوال کا جواب دیتا ہوں ۔اس سے گریبان چھڑواتا وہ اس خود سے دور دھکیل گیا۔
شفا اور میں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔اور میں شفا سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔
مقابل کے الفاظ اسے جیسے آگ میں دھکیل گئے۔”
یہ جھوٹ بول رہا ہے میں اسے پسند نہیں کرتی یہ جھوٹ ہے۔یکدم اٹھ کر چیختی وہ ماں سے فریاد گو ہوئی۔
دیکھو دیکھو اس گھٹیا لڑکی کی دیدہ دلیری۔ثانیہ نے قریب آکر ایک تھپڑ اس کے منہ پر لگایا تھا۔
اے ثانیہ !! جمیلہ بیگم اسے دور دھکیلتی شفا کو اپنے پہلو میں چھپا گئی۔”
اماں تو غلط کررہی ہے تو جانتی ہے۔اس نے ریاض پر الزام لگایا ہے پھر بھی تو اس کی سائڈ لے رہی ہے۔
باجی جھوٹ مت بولو۔جھوٹ ریاض بھائی بول رہے ہیں۔
اور یہ آدمی کون ہے میں نہیں جانتی۔”
بلک کر روتی وہ سب کے سفاک چہرے دیکھ رہی تھی۔
لیکن شاید وہاں سب ہی بے حسی کی اعلی مثال تھے۔”
شفا میں سبحان ہوں تم کیوں نہیں سمجھ رہی یکدم وہ شخص سختی سے بولتا دوبارہ اس کی جانب آیا ۔لیکن شفا نے ساختہ پیچھے ہٹی تھی اور شدت سے حمزہ کو پکار گئی۔
یکدم دروازے پر ہوتی دستک گویا شفا کو زندگی کی نوید دے گئی ۔
غیر محسوس طریقے سے وہ پیچھے کھسکتی تیزی سے دروازے کی جانب بھاگی تھی۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial