قسط: 12
حسنال نے ڈیوٹی پر جانا تھا وہ ایک دفعہ منال کو دیکھنا چاہتا تھا وہ اسے تیسرا دن ٹیبل پر نظر نہ آئی تھی وہ پریشان ہوا تھا خالہ کا رویہ تو اسے بدلہ ہی لگا تھا اس کی ڈیوٹی تقربیاً رات کو ہوا کرتی تھی رات دس بجے کا نکلا صبح یارہ بجے گھر آتا تھا ابھی تقربیاً بھائی سے مل کر اس دل کا بوجھ ہلکا ہوا تھا لیکن پریشان اس لیے تھا کہ f16 تھنڈرز کے ساتھ اسکی پھر سے لڑائی نہیں ہوئی تھی اپنا سفری بیگ پہن کے وہ روم سے نکالا تھا پریشان وہ منال کی وجہ سے تھا اسے تین دن اپنی نظروں کے سامنے نہ دیکھ کر اس کے دل میں بے چینی تھی اس لیے
اپنا بیگ لٹکاتا وہ کمرے سے باہر نکلا تھا۔۔
کیوں اب اس کی یاد آرہی ہے جو اس کے بغیر گزارہ نہیں ہورہا ۔۔۔آغاجان جو باہر ٹہل رہے تھے انہوں سے اس سے کمرے سے باہر نکلتے دیکھ کر کہاں تھا۔۔
مردہ بولے نہ بولے جب بولے تو چھت پھاڑ کر بولے ۔۔۔۔۔وہ ان کی ناراضگی پہ چوٹ کرتا ہوا بولا جو تین دن سے اسے نہیں بلا رہے تھے ۔۔۔
استغفار تمھیں تو منہ لگانا بھی فضول ہے تم نے مجھے مردہ کہہ کر میرے اندر کے حاکم بخت کو جگا دیا ہے اب میں دیکھتا ہوں تم کیسے اسے دیکھنے جاتا ہو۔؟اب تمھارے ہٹلر باپ کو نہ بتایا تو میرا نام بھی حاکم بخت نہ ہوا وہ آج کتنے دنوں بعد اس کی ٹون میں بات کرتے ہوئے بولنے لگے۔۔
آغا جان ۔۔۔۔اب آپ کو سیکنڈ ہینڈ خاتون سے شادی کرلینی چاہیے ۔۔۔۔اوہ میں بھول گیا تھا سیکنڈ ہینڈ نہیں درد تھرڈ ہینڈ کیونکہ اب کوئی اب تو آپ سے پوتے پوتیوں والے خاتون شادی کریں گی کوئی نوجوان حیسنہ تو کرنے سے رہی ایویں آپ ہم سے جیلس نہ ہوں ۔۔زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں آپ اپنا گھر بسائیں اور اللہ کا نام ہے محلے والی پھاپھے کٹنی آنٹیوں کی طرح لوگوں کی زندگیاں خراب نہ کریں وہ ہاتھ ہلا ہلا کر صلاح مشورے دینے لگا تھا ۔
شرم نام کی تم میں تو کوئی چیز نہیں ہے نا۔۔۔۔جو اپنے بزرگ دادا سے بغیرتیاں کر رہے ہو۔۔۔۔؟وہ اسے دیکھ کر غصے اور مصنوعی غصے اور رعب سے بولے جو چابیاں گمائے اپنے ذہن میں کچھ نیا سوچتے انہیں چگمہ دینے کی کوشش میں لگا ہوا تھا ۔۔
آغا جان آپ اور بزرگ ۔۔۔ناممکن یہ نہیں ہوسکتا نہ شاہ رخ بوڑھا ہوگا نہ آپ۔۔۔۔! آپ تو میرے دوست ہیں اور دوست بھی کبھی بوڑھے ہوتے ہیں بھلا ۔۔۔پتا ہے جب میں چھوٹا ہوتا تھا تو دادوں آپکی بہادری کی مثالیں دیا کرتی تھیں ۔۔۔وہ کہتی ہوتی تھی کہ جب میرا رشتہ تمھارے دادا سے طے ہوا تھا اس وقت ہم گاؤں میں رہتے تھے اور تمھارے دادا سارا دن کیھتوں میں بیل سے کام کرتے تھے اور وہ رات میں ادھر ہی رہتے تھے وہ اتنے بہادر تھے شیر بھی ان سے ڈرتے تھے ۔۔۔وہ ان کے پیچھے کھڑا ان کو ان کی بہادری کے قصے ٹھہر کے پچھے لٹکے پردے کے پیچھے چھپا تھا۔۔
باتیں تو ساری ٹھیک ہیں اور بہادر ے میں بھی بہت تھا لیکن تمھاری پیدائش سے پہلے ہی تمھاری دادی فوت ہوچکی تھیں وہ کھوئے کھوئے لہجے میں بولے اور پیچھے مڑے تو دیکھا تو وہ کئی نہیں تھا۔۔۔
بڑا ہی کھوتے کا پتر ہے مجھے بیوقوف بنا کر چلا گیا ہے پتہ تھا بغیرت کے بوڑھا دادی کی یادوں میں کھو جاتا ہے اور پھر کسی چیز کا ہوش ہی نہیں رہتا ۔۔۔۔وہ لاٹھی اٹھاتے نفی میں سر ہلاتے مشکل سےسیڑھوں سے اتر گئے تھے۔۔
کھوتے کا پتر ہوں یا نہ ہوں پر میں پوتا حاکم بخت کا ہوں مجھے ہر چیز کو ٹیکل کرنا آتا ہے ۔۔۔۔حسنال نے ان کی آواز مدھم ہوتے دیکھ کر اپنا سر پردے سے باہر نکالا تھا اور آخری سیڑھی پہ جاتا دیکھ کر اپنے کالر کو ہلاتے بڑے فخر سے انکی نکلاتے ہوئے کہا تھا۔۔
پتر یہ لے۔۔۔۔۔وہ بے بسی اس کی طرف ہاتھ سے لعنت بیجھتے نکل گئے تھے جو اب اوپر نہیں آسکتے تھے ۔۔۔۔
جبکہ حسنال اب قہقہ لگاتے ہوئے منال کے کمرے کی طرف بڑھا تھا لیکن اس کے روم کا دروازہ بند تھا وہ سیڑھیوں سے اترتا دوسرے راستے سے آیا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
بیسن پہ کھڑے وہ سانس لینے کی کوشش میں آدھی ہوگئی تھی اور ٹاول سے منہ صاف کرتے باہر نکلی تو لائٹ نہیں تھی اوہ۔۔۔شٹ لگتا ہے لائٹ چلی گئی وہ یہ کہتے ہوئے بیڈ پر آکے لیٹی تو اسے اپنے غیر محسوس سی ہلچل اور اپنی کمر پہ اسے سرسراتے ہوئے ہاتھ محسوس ہوئے تھے ۔۔۔؟
ککک۔۔۔۔کون ۔۔۔۔خوف سے اس کی گھگھی بند ہوئی تھی۔۔
وہ اپنی آواز کی گبھرائی ہوئی آواز سے بولی تھی۔۔
آپ کا شوہر جیسے آپ تین دن چار گھنٹے پچس منٹ اور تین سیکنڈ سے بھول گئی ہیں۔۔
ت۔۔۔۔تم ۔۔۔۔۔ککک۔۔۔کہاں سے آئے ہو دوازہ تو بند تھا۔۔۔؟۔۔۔۔وہ اپنے چکراتے سر پہ قابو پاتے ہوئی غصے سے بولی تھی منال اس کی قربت میں چکرا کر رہ گئی تھی ایک تو اندھیرہ اور ایک تو اس کے اتنا قریب ۔۔۔
چھوڑو مجھے بہیودہ ٹھرکی انسان۔۔۔۔وہ اس کو خود سے چھڑوانے لگی تھی ۔۔
جب انسان کا دل اور نیت صاف ہو نہ تو میرا رب راستے بنا دیتا ہے۔۔۔۔
تم۔۔۔۔تم ۔۔۔۔مجھے سیدھا سیدھا بتاؤ تم اندر کیسے آئے ؟وہ نفرت سے بولی تھی۔۔۔
ونڈو سے۔۔۔ وہ یک لفظی جواب دیتے ہوئے بولا تھا ۔۔۔ونڈو تو تو بند تھی پھر کیسے آئے ہو ۔۔۔۔؟ اس ی آنکھیں حیرت سے پھٹنے کو تھیں ۔۔۔
سمپل سی بات توڑ کہ۔۔۔! یہ کہتا ایک دفعہ پھر سے اسے حیران کرگیا تھا۔۔
ک۔۔۔۔ککک۔۔۔کیسے۔۔۔۔۔ہ۔۔۔۔ہاتھوں سے تو۔۔۔۔توڑا ہے۔۔ اس کی صدمے سے آواز ہی نہیں نکل رہی تھی ۔۔۔
نہیں آپ کو پاگل نظر آتا ہوں یا رانجھا۔۔۔۔۔اپنے بیڈ سے توڑ کہ آیا ہوں۔۔۔۔۔آپ کو دیکھنے ۔۔۔وہ اس کی کمر پہ گرفت مضبوط کرتے ہوئے بولا تھا۔۔۔
دفع ہو جاؤ یہاں سے میں تمھاری شکل نہیں دیکھنا چاہتی ۔۔۔۔
بے فکر رہیں ۔۔۔۔لائٹ تو آف ہے اور میں شکل دکھانے بھی نہیں آیا۔۔۔میں تو کچھ اور ہی کرنے آیا ہوں ۔۔۔
کک۔۔۔۔کیا۔۔۔۔وہ اس کی کمر سے ہاتھ ہاتھ ہٹاتے ہوئے بولی جو اس کے گرد لپٹے ہوئے تھے ۔۔
پیار وایار نچھاور کرنے آیا ہوں اور کیا ۔۔۔۔۔! حسنال نے منال کی گبھرائی ہوئی آواز سے لطف اٹھایا تھا ۔۔
پل۔۔۔پلیز م۔۔مجھے چھوڑو مجھے ڈر لگ رہا ہے اندھیرے سے ۔۔۔۔وہ روہانسی ہوئی تھی۔۔۔
حب حسنال بخت ہو ساتھ تو ڈرنے کی کیا بات ۔۔۔۔ ویسے جو میرے ساتھ ہوتا ہے وہ تو طوفانوں کی پروا بھج نہیں کرتا وہ اس کے چہرے پر پھونک مارتے ہوئے بولا تھا۔۔۔۔
پلی۔۔۔۔پلیز چھوڑ دو۔۔۔۔مجھے بخش دو ۔۔کہتے ہو تو پاؤں پڑ جاؤں گی ۔۔۔وہ اپنے تپتے جسم پہ درد محسوس کرتے یہ کہتے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔۔۔
کیا ہوا ہے آپکو۔۔۔۔کیوں رو رہی ہیں ۔۔۔۔؟اس کے ہلتے وجود اس کی منہ سے نکلی باتوں سے وہ اپنی جیب سے فون نکالتا ایک پل کو گبھرایا اس کو اٹھ کر اس کو اپنا ساتھ بیٹھاتا اس کے چہرے پہ ٹارچ لگاتا ہوا بولا تھا۔۔۔!مگر اس کے چہرے کو دیکھ کر ساکت رہ گیا تھا۔۔۔
کس نے کیا ہے ۔۔۔۔۔کیسے ہوا ہے ۔۔۔۔وہ اس کے چہرے پر پڑتے پتلی سرخ دھار کو دیکھتے ہوا بولا۔۔۔اس کی سوجی ہوئی آنکھیں ۔۔۔اس کا سفید چہرے دہک رہا تھا اس کی سرخ چہرے پر بکھرے بال اور اسکا اجڑا اور ویران چہرہ دیکھتے ہوئے بولا تھا۔۔۔
بتائیں ۔۔۔۔کس نے آپکے معصوم اور نازک چہرے کا یہ حشر کیا ہے ۔۔۔۔؟
وہ اس کے بکھرے بال سمیٹنے لگا ۔۔۔۔آپ کو تو بخار ہے ۔۔۔آپ نے کیوں نے بتایا مجھے اس کے تپتے چہرے کو محسو س کرتا پریشانی سے بولا تھا ۔۔۔
دفع ہو جاؤ۔۔۔۔نکل جاؤ۔۔۔۔ادھر سے۔۔۔اب میرا چہرہ کیوں نازک لگ رہا ہے ۔۔۔۔! تمھاری وجہ سے میری ماں نے مجھے بیدردی سے مارا ہے صرف اور صرف تھماری وجہ انہوں نے کہا ہے کہ میں تم سے پہلے طلاق مانگی تھی بتاؤ حسنال حاکم بخت میں نے کب طلاق مانگی میں نے تم سے وہ اس کے گریبان کو پکڑتے ہوئے جھنجھوڑنے لگی تھی۔۔۔اور اس وقت یہ چہرہ نازک نہیں لگا جب میرے بال کھینچ کر مجھے تھپڑ مارے تھا وہ روتے روتے اپنی کمر پہ اس کے ہاتھ کی گرفت کو غصے چھڑاوتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی تھی ۔
میں تو ہوں ہی بے غیرت جو اپنے غصے اور خود کو نہ کرسکا۔۔۔پر آپ نے مجھے بتانا گوارا نہیں کیا کہ خالہ نے آپکو اتنی سفاکی سے مارا ہے مجھے کیوں نہیں بتایا میں مر گیا تھا کیا آپ اتنی اذیت برداشت کرتیں رہیں اور میں بے خبر رہا کیوں؟آپ اتنی اذیت برداشت کرتی رہیں میں بے خبر رہا۔۔۔۔۔اس نے غصے کی شدت سے اپنا ہاتھ بیڈ کے ساتھ مارا اور زور سے ڈھارا تھا۔۔۔
دفعہ ہو جاؤ نکل جاؤ یہاں سے ۔۔۔مجھ پر چیخنے سے بہتر ہے کہ اپنی بھڑاس کئی اور نکالو۔۔۔۔منال لائٹ آن ہوئے بولی تھی ۔۔۔۔
خ۔۔۔۔۔خون۔۔۔۔۔وہ جو غصے میں تھی اس کے ہاتھ سے خون نکلتا دیکھ کر پیچھے ہونے لگی تھی وہ بیماری کی حالت میں خون نہ دیکھ سکی اور گبھرائی تھی۔۔۔
ک۔۔۔کچھ۔۔۔۔نہیں ہوا۔۔۔۔۔حسنال نے اس کا پیلا پڑتا خوفزدہ ہوتا چہرہ دیکھا اور اس کی طرف بڑھا اسے اپنا ساتھ لگالیا تھا۔۔۔
پ۔۔۔۔پر ۔۔۔۔خون ۔۔۔۔۔تم۔۔۔تھمارا تو خون بہہ رہا ہے ۔۔۔۔وہ اس کے ساتھ لگی آنکھیں میچتی ہوئی بولی تھی ۔۔۔
کچھ نہیں ہوا ۔۔۔۔۔ میں اپنی بھی پٹی کرواؤں گا اور آپ کو بھی دوا لے کر دوں وہ اسے تسلی دیتا اس کے تپتے چہرے پر اس کے زخم کی جگہ لب رکھتے ہوئے بولا تھا ۔۔
پر میں تمھارے کئی نہیں جاؤں گی۔۔۔وہ نفی میں سر ہلاتے روٹھے لہجے میں بولی تھی وہ اس کے ساتھ باہر کھلی میں ہوا میں جانا چاہتی تھی کیونکہ تین دن سے قیدیوں کی طرح زندگی اسے یہ کمرہ قید خانہ لگنے لگا تھا وہ جانا بھی چاہتی تھی پر یہ ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی کہ اس کے ساتھ جانے کےلیے تیار ہے اس لبوں کا پاکیزہ لمس اسے اپنے درد کی دوا لگا تھا لیکن وہ اس کے سامنے کمزور نہیں پڑنا چاہتی تھی ۔۔
آپ نہیں جائیں گی تو میں اپنی پری کو خود لے جاؤں گا وہ اسے اسے ہلکا سا علحیدہ کرکے اپنے گلے سے مفلر نکال کے اپنے ہاتھ پہ باندھ کہ اس کی الماری سے بلیک کلر کی شال نکالی اس کے اوپر اٹھا کہ اسے بازوؤں میں اٹھالیا۔۔۔
چ۔۔۔چھوڑو مجھے۔۔۔ تم مجھ سے چار سال چھوٹے ہو اور تمھارے اپنا بھی ہاتھ زخمی ہے۔۔وہ غصے سے اسے یاد دہانی کرواتی ہوئی بولی کہ وہ اس سے چھوٹا ہے ۔۔
ہاں تو چلیں پھر میں آپ کو اتارتا ہوں آپ مجھے اٹھا لیں وہ چلتے چلتے رکتا ہوا بولا تھا۔۔۔
اتنے چالاک نہ بنو ۔۔۔۔تم جب چھوٹے تھے تو میں نے تمھیں ایک دفعہ اٹھایا وہ کہتے کہتے زبان دانتوں تلے دباگئی تھی کیونکہ بلیک کلر کی شرٹ پہ ٹائیگر کی تصویر میں وہ خود ہی کوئی ٹائیگر لگا تھا اوپر سے اسکی پیشانی پہ ہلکے بکھرے بال اور اس کے نمایاں ہوتے ڈمپل سے اپنی فکر کرتا یہ شخص منال کو پہلی دفعہ اچھا لگا تھے اس کے گال پہ پڑتا ڈمپل دیکھ کر وہ کبھی کبھی جیلس ہوتی تھی کیونکہ جب وہ ہنستا تو واللہ قیامت ڈھاتا تھا وہ دونوں بھائی ہی شاندار شخصت کے مالک تھے اس مضبوط شخصت والے شخص کا موازنہ ایک سات ماہ کے بچے سے کر گئی تھی ۔۔۔وہ جو اسے چھوٹا بچہ کہتی تھی حقیقت میں وہ اسکے آگے کھڑی بچی لگتی تھی یہ بات منال کے دل نے تو تقسیم کی تھی ۔۔۔لیکن وہ اپنی بڑی عمر کا روعب جھاڑنا اسکے دل کو تسکین دیتا تھا۔۔۔
ہاہا کیا پدی اور کیا پدی کیا شوربہ۔۔۔۔ویسے مجھے نہیں یاد ۔۔۔وہ اس کے نازک سراپے کو بغور دیکھتے ہوا بولا تھا۔۔
دفع ہو جاؤ۔۔۔۔مجھے ان باتوں میں مت لگاؤ اور نہ میرا دماغ چاٹو میری طبعیت پہلے ہی خراب ہے اور مجھے اتارو وہ غضبانہ تیور لیے بولی تھی۔۔
آپ اتنی بری نہیں ہیں جتنی بنتی ہیں۔۔۔وہ اسے اٹھائے تیز چلنے لگا تھا۔۔۔
اور تم بھی اتنے اچھے نہیں ہو جتنے نظر آتے ہو۔۔۔ وہ اس کی حرکتوں سے عاجز آگئی تھی۔۔
آپکا مطلب ہے میں اچھا ہوں ۔۔۔ویسے بتا دیں نا پھر کتنا اچھا ہوں کچھ کچھ تو آپکے دل کو لگتا ہوں ۔۔۔ویسے اتنا تو مجھے یقین ہے کہ میں ہنیڈ سم ہوں ۔۔۔وہ آنکھیں پٹتاتا ہوا بولا اور سیڑھوں سے اترنے لگا تھا۔۔۔
مجھے چھوڑو۔۔۔۔۔سارے دیکھے گے تو کیا سوچیں گیں۔۔۔
سب سوگئے ہیں اور اب اگر آپ بولیں تو یہ ہی سیڑھوں پہ گرادوں گا ۔۔۔۔!
وہ پھر سے اس کے جواب سننے کےلیے رکا تھا۔۔
اتنا مجھے پتا ہے کہ تم مجھے نہیں گرا سکتے ۔۔۔یہ میں یقین سے کہتی ہوں ۔۔۔
تو پھر مان لیں میں صرف اچھا نظر نہیں آتا ۔۔۔۔بلکہ اچھا ہوں بھی ۔۔وہ اسکی بات سنتا اپنی فلاسفی جھاڑتا اسے ہوسپٹل لے گئے تھا۔۔
پلیز مجھے چھوڑ دو میری طبعیت بہت خراب ہے۔۔وہ اس کی ہر بات پکڑانے تنگ آتی بےبسی سے بولی تھی ۔۔
اوہ آپکی طبعیت بہت خراب ہے میں آپ کو کب سے کہہ رہا ہوں کہ مت بولیں آپکی طبعیت اور زیادہ خراب ہو جائے گی ۔۔
تم تو مُردوں کو بھی نہ چھوڑو انھیں بھی قبر سے اٹھالو۔۔۔وہ طنزیہ ہوئی تھی جس نے اسے گاڑی میں بیٹھا کہ دور لاک کر دیا تھا ۔۔۔
اسکا مطلب آپ مُردہ ہے ۔۔۔۔وہ دوسری سائیڈ پہ خود بیھٹتے ہوئے بولا تھا۔۔۔
پلیز اللہ کا نام ہے چپ ہو جاؤ۔۔۔۔اس کی باتیں سن سن کر واسطے دینے لگی تھی۔۔۔۔
اوکے یہ کہتے ہوئے اس نے سنجیدگی سے گاڑی سٹارٹ کی تھی جب کہ یہ لفظ سن منال نے شکر کی سانس لی تھی ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ فائل ملی ہے کہ نہیں۔۔۔۔۔؟جس میں اس خبیث انسان کا سارا ریکارڈ تھا۔۔۔؟
سوری سر میں نے بہت کوششش کی ہے لیکن عرفان درانی نے مجھے اندر تک نہیں گھسنے دیا ۔۔ ایمپلائی روشنال کے سامنے نظریں جھکا کر بولا تھا۔
تو میں نے تمھیں کس کام کےلیے بیھجا تھا ۔۔۔تم سے اتنا نہیں ہوسکا ۔۔۔
فلحال میری نظروں سے اوجھل ہو جاؤ۔۔۔
ایک منٹ سے پہلے پہلے۔۔۔۔!وہ غرایا تھا ایمپلائی بچارہ نظریں جھکا کر جلدی سے نکلا تھا۔
پیچھے وہ اپنے درد میں ہوتے سر کو مسلنے لگا تھا وہ اشنال کو تین دن کہہ کر آیا تھا آج پانچواں دن تھاوہ دوسرے شہر میں تھا۔۔۔وہ بہت پریشان تھا کیونکہ وہ حلیہ بدل کر خود نہیں جاسکتا تھا ایک تو عرفان درانی اسے پیچان لیتا دوسرا اس کو اتنے مکھن لگانے نہیں آتے جو اس کو اپنی باتوں سے پھسلائے اور اس کی کمزوریوں کو جان سکے۔۔۔
وہ روشنال بخت تھا فار ورڈ سٹریٹ اور انسان ۔۔۔۔ نہ وجہ پوچھنے والا نہ دلیل سننے والا بس سیدھا سیدھا منہ توڑنے والا انسان تھا۔۔۔اس سے جس سے نفرت ہوتی وہ اس کے راستہ تک سے نہ گزرتا ۔۔اور عرفان درانی اس کے ذہن میں پلتا ایسا جراثیم تھا جو جب تک مر نہیں جاتا تب تک وہ سکون سے نہیں بیٹھا رہتا ۔۔۔وہ لوگوں کے نام پر حکومت سے لاکھوں کڑوڑوں لے کر خود کے اکاونٹ بھر رہا تھا۔۔
وہ ذہن میں ایسا شخص سوچ رہا تھا جو یہ کام خاموشی اور ہوشیاری سے کرے اور کسی کو پتہ بھی نہ لگنے دے۔۔
حسنال۔۔۔۔۔تقربیاً پندرہ منٹ اس کے ذہن میں حسنال کا نام آیا تھا حسنال سے بہتر انسان اسے اس دنیا میں مل نہیں سکتا ہے حسنال کا نام ذہن میں آتے ہی اس کے چہرے پہ چھائی کثافت ختم ہوگئی تھی اس نے بغیر سوچے سمجھے اس کو کال کی تھی ۔۔۔ایک ہی کال پہ فون اٹینڈ کرلیا گیا تھا ۔۔
السلام علیکم وکیل صاحب۔۔آج کیسے یاد کرلیے مجھ جیسی بندہ ناچیز کو۔۔۔۔حسنال نے ڈرامہ بازی لگاتے ہوئے کہا تھا ۔
وعلیکم سلام ۔۔۔۔یار آج میں بہت پریشان ہوں تجھ سے ایک ضروری کام تھا وہ اپنی تین مہنیے پہلے والی ٹون میں آیا تھا۔ روشنال نے سوال جواب کیے بغیر چھوٹتے ہی کہا تھا۔۔
واہ واہ علامہ اقبال نے پھر سہی کہا تھا۔۔۔۔!
کون یاد رکھیں گا ہمیں اس دور خود غرضی میں
حالات ایسے ہیں لوگوں کو خدا یاد نہیں رہا
آپ کے ابا حضور کا نام کیا ہے ۔۔۔۔؟وہ اس کے شعر سنتا دانت پیستا بڑے اخلاق سے بولا ۔۔۔؟
آپ کو نہیں یاد بھائی تو کوئی بات نہیں میں یاد کروا دیتا ہوں ۔۔۔۔ہمارے ابا کا نام صیغر حاکم بخت ہے ۔۔۔!
بقول میرے ہٹلر ۔۔۔۔وہ روشنال کو واضاحت دیتے ہوئے بولا تھا۔۔۔!
تو پھر انہی ہٹلر کا جانشین بن ۔۔۔۔۔زیادہ اقبال کا جانشین بننے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔!
یہ کیا جب گھر آئے تھے تو میرے لیےبڑا پیار امڈ رہا تھا ۔۔۔۔ہٹلر سے بڑی سفارشیں ہو رہی تھیں میں بھی اس ظالم زمانے میں کتنا معصوم ہوں ۔۔۔۔جو آپ کو سمجھ سکا۔۔۔۔سوچا تھا سگا بھائی ہے دور رہنے کی وجہ سے مجھے یاد کرتا ہو اور پیار کرے گا اور اوپر سے آپ شہر سےدور ہیں پر آپ بھی اُسی ہٹلر کے جانشین نکلے ۔۔۔
بیٹا میں وہیں ہوں جو آج سے ساڑھے تین مہینے پہلے تھا
پیار اپنی جگہ ۔۔۔۔۔فطرت اپنی جگہ ۔۔۔۔!
وہ پھر آغا جان بنجابی زبان میں خوب کہتے تھے۔۔۔۔! اشنال نے اسے تجسس میں ڈالنے کےلیے اسے الجھایا تھا۔۔
کیا۔۔۔۔۔۔۔؟روشنال یک لفظی بولا تھا۔۔۔۔!
آغا جان عرض کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔جہیڑے گھار بیڑے اوہ لاہور وچ بی بیڑے۔۔۔۔!
شٹ اپ ایڈیٹ انسان۔۔۔۔میں اگر تیرے سامنے ہوتا اور تُو میرے سامنے ایسی گفتگو کرتا تو میں تیرا منہ توڑ دیتا ۔۔۔
ہا ہا ہا ہا۔۔۔۔۔آپ کے سامنے نہیں ہوں اس لیے ایسی بکواس کر رہا ہوں ۔۔۔!
میں فون بند کر رہا ہوں تم بکواس کرتے رہو۔۔۔۔۔وہ غصے سے اونچی آواز میں بولا تھا۔۔۔
اچھا اچھا ۔۔۔۔۔عرض کریں ۔۔۔ میں سن رہا ہوں وہ اب سیریس ہوا تھا۔۔۔
میں پہلے ہی بہت ٹنشن میں ہوا۔۔۔۔پوری رات میں سو نہیں پایا۔۔وہ پریشانی سے بولا تاکہ آسانی سے اسے ہر بات کلئیر کر سکے۔۔۔۔
کیوں آپ کی معصومہ نے بیلن سے تو تواضع نہیں کی۔۔۔حسنال نے اسے جان بوجھ کر تپایا تھا جس سے وہ تپ بھی گیا تھا۔۔
حسنال ۔۔۔۔۔ قسم سے میں یہ خیال نہیں کروں گا میں اس وقت کہاں ہوں میں سیدھا گھر آجاؤں گا ۔۔۔۔پھر یہ نہیں دیکھو لگتی کہاں ہے ۔۔۔۔۔!
اچھا اچھا ۔۔۔۔۔سوری ۔۔۔۔۔۔مان لیا آپ ہٹلر کے جانشن ہیں اب پلیز بات بتائیں۔۔۔وہ سچ میں اس کی رعب دار شخصیت ذہن میں سوچتے ہوئے ڈرا تھا ایک سال پہلے کا منظر اس کے ذہن میں گھوما تھا۔۔۔جب مذاق میں لڑتے روشنال نے اسے پنچ مارا تھا اور اس کے ناک سے خون بہنے لگا تھا۔۔
عرفان دارنی کو جانتا ہے تو۔۔۔۔؟ روشنال نے اسے یاد دہانی کروائی تھی ۔۔
ہائے وہ ٹکلا انکل جس کی سائیڈپہ جالر بنی ہوئی ہے ۔۔۔۔۔وہ سینے پر ہاتھ رکھتا حیرانگی سے بولا تھا۔۔۔
ہاں ہاں وہی ۔۔۔بس کا ایسا حال کرنا ہے کہ اس کی نسلیں یاد رکھیں اور ہزار بار باپ کی راہ پر چلنے سے پہلے سوچیں۔۔۔بھائی اللہ کا نام لیں بھائی ایویں نہ کیا کریں ۔۔۔بچارہ تین شادی کرکے تقربیاً گنجا ہوچکا ہے اور جو اس کے دو بال اس کے سر پر ہیں وہ بھی آپ کی نظروں کھٹک رہے ہیں ۔۔۔۔اور اس کی نسلوں سے بھی آپ سے ایسا انتقام لینا ہے کہ آپ کی نسلوں نے بھی یاد رکھنا ہیں ۔۔۔۔پھر آپ بھی ماضی میں گنجے ہو جائیں گے سوچیں بھائی سو چیں خود کو سامنے رکھ کہ سوچیں گے تو آسانی رہیں گی اپنا فیچور دیکھ لیں ۔۔۔
اپنا منہ بند رکھ اور میری بات سن۔۔۔۔گنجا تو نے ہونا ہے میں نے نہیں ۔۔۔۔۔کیوں کہ قربانی کا بکرا میں تجھے بناؤں گا۔۔روشنال نے اس پر حقیقت کھولی تھی ۔۔۔
کیا۔۔۔۔مطلب۔۔۔۔۔!
مطلب تو میں تمھیں بتاتا ہوں تھوڑی دیر منہ بند رکھ لو۔۔۔۔
پھر اس نے آدھا گھنٹا لگا کہ اسے ساری باتیں سمجھائی تھیں کہ کس طرح اس نے عرفان درانی کو ٹریپ کرنا ہے کس طرح اس کو اپنی میٹھی باتوں میں پنھسانا ہے کس طرح چالاکی سے اس کے گھر میں گھس کہ اس کی پیٹھ پہ وار کرنا ہے ۔۔۔۔۔اور آخری بات سن تیرے پاس دو دن کا ٹائم ہے دہی لگا یا مکھن ۔۔۔۔۔! پر دو دن کے اندر تو نے اس کے گھر گھسنا ہے جس طرح بھی گھسنا ہے یہ تیرا ہیڈک ہے میرا نہیں۔۔۔۔۔!
پھر آپ نے مجھےمانا نا کہ ہر بات ہڈیاں توڑنے اورمکوں ٹھڈوں سے نہیں ہوتی ۔۔۔۔کچھ باتیں پیار سے مکھن لگا کہ سر پہ ہاتھ پھیر کہ کی جاتی ہیں۔۔۔۔سب کے زندگی کے اصول اپنے اپنے ہیں ۔۔۔لیکن حسنال بخت کی زندگی کا اصول یہ ہے کہ وہ جس سے نفرت کرتا ہے ۔۔۔ وہ اس سے پہلے محبت کے جال میں پھنساتا ہے ۔۔۔اس کی کمزوری جانتا ہے پھر اسے زیر کرتا ہے ۔۔۔۔اور جو میرے جال میں پھنس جاتا ہے ۔۔۔۔پھر وہ ایسا پھنستا ہے کہ ان زنجیروں کو نہیں توڑ سکتا ہے۔۔۔وہ جب سنجیدہ ہوتا وہ اتنے جوش سے بولتا اسے خود نہیں پتہ ہوتا کہ وہ کیسی باتیں کر رہا ہے۔۔۔۔!
اوکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بائے بائے۔۔۔۔۔! یہ کہہ کر روشنال نے فون ڈسکنکٹ کر دیا تھا ۔۔۔
جب کہ وہ پانچ منٹ اپنی تعریفوں کہ قصیدے پڑھ کر خاموش ہوا تو کال بند تھی ۔۔۔
ضرورت کے وقت شیر کو ہی باپ آپ نے بھائی ۔۔۔۔۔وہ یہ کہہ کر مصنوعی غم سے چائے پینے لگا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روشنال اب پرسکون ہوا تھا کیوں کہ حسنال ہی واحد انسان تھا جو اسکا کام کر سکتا تھا۔۔۔۔دماغ سے بوجھ ہٹا
بقول حسنال کے اس کے آگے اپنی معصومہ کا چہرہ آیا تھا وہ حسنال کی باتیں سوچ کر وہ مسکرایا دیا۔۔
اس نے واٹس اپ آن کی خوش قسمتی وہ آن لائن تھی اس سے ایک بات کا غصہ تھا وہ جب بھی کال کرتا وہ آفلائن ہوجاتی۔۔
اشنال پک اپ دی کال۔۔۔۔۔۔!اس نے ویڈیو کال ملائی اشنال نے ریسو نہیں کی تو اس نے میسج کیا تھا۔۔۔میسج تو سین تھا لیکن اس نے کوئی رپلائی کیا۔۔۔۔
سوری پر میں پڑھ رہی ہوں آپ کی کال نہیں اٹھا سکتی ۔۔۔اس کا جواب دیکھ کر غصے آیا تھا۔۔
آئی سیڈ۔۔۔۔۔اشنال پک اپ دی کال۔۔۔۔۔اس نے اب کی بار وائس میسج کیا تھا۔۔۔
سوری میں نہیں اٹھا سکتی ۔۔۔۔آپ نے بات کرنی ہیں تو میسیج ٹائیپنگ کرلیں۔۔۔۔
مس اشنال میں آج گھر آر رہا ہوں ۔۔۔تو میں پھر دیکھنا میں کیسے تمھارے سکریو ٹائٹ کرتا ہوں ۔۔۔۔میں پانچ دن گھر سے باہر کیا رہا تمھاری ریل تو پٹری سے اتر گئی ۔۔۔ وائس میسج پہ باتیں کرتے ہاتھوں کی مٹھیوں کو زور سے بھینچا تھا۔۔۔وہ حیران تھا کہ وہ اسے اگنور کر رہی ہے بے شک وہ چاہے جتنی بھی اس سے چاہتا تھا لیکن اپنا اگنور کرنا وہ کبھی بھول نہیں سکتا تھا اس نے چابیاں موبائل اور لیپ ٹاپ اٹھایا ۔۔۔۔۔۔ساتھ میں آئمہ درانی کے ڈاکومنٹس اٹھانا نہ بھولا تھا پھر اس نے گاڑی ہواؤں کے سنگ چلائی تھی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اشنال نے روشنال کی باتوں کو محض دھمکی سمجھا تھا وہ جانتی تھی کہ وہ دوسرے شہر میں ہے اس کی دھکیاں سن کر وہ آفلائن ہوئی اپنے کپڑے سارے واش کیے ۔۔۔۔اور فریج ہوکہ اس کی بڑی سی بلیک ٹی شرٹ نکال کہ پہنی تھی بازو بہت بڑے تھے اس نے فولڈ کیے ۔۔۔ول اس کے کپڑے شمیو ۔۔۔روشنال کی غیر موجودگی میں اس نے اسکی ہر چیز کو حق سمجھ کر استعمال کیا تھا۔۔وہ اپنج مرضی سے سوتی اٹھتی تھی پہلے کالج جاتی تھی پھر سارہ کے ساتھ اکیڈمی جاتی تھی ۔۔۔اس کی ٹی شرٹ پہن کہ اسکا پرفیوم اسعتمال کیا تھا اس کی مردانہ چپل پہنی اس کی گھڑی نکال کہ ہاتھ میں پہنی تصویریں بنا کر اپنا شوق پورا کیا تھا ۔۔۔۔اس کی الماری کا ستیا ناس تھا لیکن آج گویا اسے پرواہ نہیں تھی آج اتوار تھی تو اس لیے گھر میں اس نے بہت چل کیا تھا۔۔۔۔اس نے پہلے کی طرح نوڈل بنا کر کھائے ۔۔ہائے لوگوں کے تین دن عید کے ہوتے ہیں میرا آج پانچواں دن ہے وہ چہکی کہ بولی ۔۔اب اپنے لیے پکوڑے بنا کر کچن سے نکلی تھی۔۔۔جب اسے لاونج دروازہ کھللا تھا
رو۔۔روشنال ۔۔۔۔۔رشنال کو دیکھ اس کے ہاتھوں سے پلیٹ گری تھی جب اس نے روشنال کو فلیٹ کا دروازہ بند کرتے دیکھا تھا۔۔۔
اس سے پہلے کے وہ دورازہ بند کر کے پیچھے مڑتا ۔۔۔۔اشنال نے کمرے پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھا اور مرے کی طرف ڈور لگانی چاہی۔۔
رکو ۔۔۔کہاں ۔۔۔جارہی ہو اس کی آوازاسے خود سے دور دیکھ کر اس نے بھاگنا چاہا لیکن وہ ساکت کھڑی رہ گئی جب اس نے اس بازوؤں سے پکڑا تھا۔۔۔
میری کال کیوں نہیں پک کی تم نے۔۔۔روشنال نے اس کے گرد حصار بظاہر تو سختی سے کہہ رہا تھا لیکن اس کے حوش شربا حسن کو دیکھتا وہ مسمرائیز ہوا تھا گھٹنوں سے نیچے آتی اپنی شرٹ میں دیکھا تو دل ہی میں اس کے حسن داد دی تھی ۔۔وہ اتنے دن بعد دیکھتا اپنی چھوٹی سے معصومہ کو دیکھا تو خود پر قابو نہ رکھ سکا اور اسے اپنے بازوؤں میں اٹھا لیا تھا ۔۔۔۔
م۔۔۔۔مجھے ۔۔۔۔۔نی۔۔نیچے اتاریں ۔۔۔۔۔۔قسم سے اب آپ اس بات پہ ماریں گے کہ میں نے آپ کی شرٹ پہنی ہے تو قسم سے میں نے مجبوری پہنی ہے میں نے اپنے سارے کپڑے دھو کہ رکھیں ۔۔۔۔ بس اس لیے ۔۔۔۔وہ ۔۔خود کو اس کے سامنے بغیر ڈوپٹے میں اسے ڈھیروں شرم آئی تھی ۔۔۔۔اس نے دل ہی دل میں آج کے دن پر لعنت بیجی تھی ۔۔۔۔۔