قسط: 13
اس نے جیسے ہی روم کا دروازہ کھولا تھا اس کے دماغ کے فیوز اڑے تھے ۔۔۔۔۔!
وہ اشنال کو بازوؤں سے اتار گیا تھا اس کے کمرے کی ایک چیز بھی اپنی جگہ پہ نہیں تھی ۔۔۔کپڑے فرش پہ بکھرے پڑے تھے گھڑیاں ، جنٹس پرفیوم اس کے بستر پہ تھا ساتھ میں اشنال کے ڈوپٹے بھی پڑے ہوئے تھے۔۔اس نے اشنال کی طرف گھورا تھا جو آنکھیں بند کیے کھڑی تھیں۔۔۔۔!
جاؤ ایک منٹ میں کپڑے چنیج کرو اور یہ روم صاف کرو یہ نہ ہو میرا میٹر گھوم جائے اور تمھاری شامت آ جائے۔۔۔۔!اس نے لہجے پہ حد درجہ قابو پاتے ہوئے کہا تھا ورنہ دل تو اس کا کر رہا تھا وہ اس کو اتنی لگائے آگے وہ آئندہ یہ کام کرنے کا نہ سوچیں ۔۔۔۔!
پر۔۔۔۔مم۔۔۔میرے کپڑے۔۔۔۔گیلے ۔۔۔۔!وہ منمنائی تھی ۔۔۔
آئی ڈونٹ کیئر ۔۔۔۔اپنے کپڑے پہنو میں ذرا سا گھر سے کگیا تم نے یہ گھر کباڑ خانہ بنا دیا۔۔۔۔۔! جاؤ جا کہ اپنا حلیہ درست کرو جلدی پھر تمھیں بتاتا ہوں کیا کرنا ہے تم نے۔۔۔!
اس کے بعد اس نے کوئی بات نہ کی تھی اپنے کپڑے چینج کیے واپس آئی تو اس کو دیکھا تو وہ اپنے کپڑے زمین پر سے اڑھا رہا تھا۔۔۔
یہ۔۔۔یہ مم۔۔۔میں کر لیتی ہوں ۔۔۔۔! روشنال نے ایک نظر اسے دیکھا جو بڑبڑاتی اس کے ہاتھ سے کپڑے لینے کی کوشش کرنے لگی تھی ۔۔!
میڈم یہ تم نے ہی کرنا ہے ۔۔۔میں بس کپڑے اٹھا رہا تھا وہ اس کو دیکھتے ہوئے جواب دینے لگا جو گلابی رنگ کے کپڑوں میں سر پہ نفاست سے ڈوپٹہ کیے خود ہی کوئی گلاب لگ رہی تھی ۔۔۔۔
جاؤ یہ کپڑے دھوؤ کہ آؤ۔۔۔۔سارے جو جو گندے کیے ہیں ۔۔۔۔!
پ۔۔۔۔پر اتنی۔۔۔۔۔رات ۔۔۔او۔۔اور سردی بھی بہ۔۔۔بہت ہے ۔۔!
میں نے تم سے کوئی آرگو منٹ مانگا ہے جاؤ جا کہ میرے سارے کپڑے واش کرو ایک منٹ میں۔۔۔۔!وہ غصے سے بولا تھا میں ابھی جا رہا ہوں ایک گھنٹے تک واپس آؤ تو مجھے یہ کمرا ایگزایٹ نیٹ اور کلین ملے مسز روشنال ۔۔۔۔۔! یہ کہہ کر گاڑی کی چابی اٹھاتا ایک بھر پور نظر اس پہ ڈالی جو رونے پہ آئی ہوئی تھی۔۔۔!
اس کے جانے سے پہلے تو وہ بیٹھ کہ پھوٹ پھوٹ کہ روئی پھر اس کے سارے اٹھائے واشنگ مشین تک لائی تھی اور سرف ڈال کے کپڑے مشین میں ڈالے اور خود اس کے روم میں آئی تھی اور صفائی کےلیے اس کی بیڈ شیٹ اٹھا کہ چینج کی تھی اس کی ہر چیز اپنی جگہ پہ سیٹ کی وہ ساتھ ساتھ اس کے روم میں جا کام کرتی اور ساتھ ساتھ واشنگ میشین سے کپڑے نکال کر ڈرائیر کرتی ۔۔۔۔۔۔! اس کے سارے کپڑے تقربیاً گھنٹے میں دھلے تھے ۔۔۔۔! بالکونی پہ ڈال کے آئی تھی۔۔۔!اس کے روم کا پونچھا لگا کہ وہ اب تھوڑی پرسکون ہوئی تھی ۔۔۔۔! لیکن اس ڈیڑھ گھنٹے کی محنت نے اسے تھکا دیا تھا۔۔۔! تھکن سے اس کے کندھوں کو درد ہونے لگا تھا ۔۔۔وہ چھوٹی سی لڑکی اسکی بے رخیاں سہتے سہتے تھک گئی تھی روشنال نے آج پھر اسے غصے سے بات کی تھا وہ اس کا سخت رویہ سہتے سہتے تھک گئی تھی اپنے کمرے میں بیٹھی پھوٹ پھوٹ کہ روئی تھی ۔۔
تھوڑی دیر بعد پھر اٹھی اور کچن صاف کیا کہ کہیں وہ اسے گندا کچن دیکھ کہ نہ ڈانٹے کچن تھا تو صاف لیکن اس نے ہر چیز سمیٹی اور پھر اپنے روم میں جاکہ دم لیا ۔۔موبائل دیکھا تو وہ کہیں نہیں تھا وہ اور بد حواس ہوئی تھی اگر اس کے پاس موبائل ہوا اور اس نے تصویریں دیکھ لیں تو وہ تو اسے مار ڈالے گا۔۔۔لیکن اپنے فون پر پاسورڈ کا سوچ اس کے کانپتے دل کو سکون ملا تھا کہ کم از کم فون لاکڈ تو ہے۔۔۔۔۔! لیکن یہ سوچتی وہ پرسکون ہوئی اور مشین کا پانی نکال کہ آئی اور صاف کرکے اپنی جگہ پہ رکھی تھی سارے کام کے بعد اس کا جوڑ دکھنے لگا ۔۔۔سر میں علحیدہ سے درد ۔۔۔۔۔
سردی سے اس کی جیسے ہـڈیوں سے دھواں نکلا تھا وہ بیڈ کرواؤن کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئی تھی ۔۔۔
*****
وہ کھانا لے کر اس کی چیزیں لے کر گھر آیا تھا لاونج کے ٹیبل پر کھانا رکھا اور اپنے لاونج مہں چلا گیا تھا ۔۔۔
وہ کچھ دیر آرام کرنا چاہتا تھا مسلسل پانچ راتوں سے وہ نہیں سوپایا تھ کبھی کسی کا کیس تو کبھی کسی کا وہ بہت تھکا ہوا تھا اپنے روم کا دروازہ کھولا تھا اپنا چمکتا روم دیکھ کر تو وہ اندازہ ہی نہیں کر پایا کہ اس ننھی سی جان نے اتنے تھوڑے وقت میں یہ کام سر انجام تھا ہر چیز نفاست سے لگی تھی اس کی گھڑیاں ہر چیز اپنی جگہ پہ سیٹ تھی لیکن اس کا دل تھا کہ وہ اس کے روم میں آرام کرلے گا کیونکہ اس کے روم کا فرش ہلکا ہلکا گیلا تھا اپنا کمرہ پرفیکٹ دیکھ کر اس کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آگئی تھی ۔۔۔۔!
اشنال ۔۔۔۔اس نے دو تین دفعہ پکارا تھا اس کی آواز نہ پاکر اس کے روم کا دروازہ کھولا تھا۔۔!
وہ ان ہی بھیگے کپڑوں میں بیڈ کرواؤن کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھی تھی ۔۔۔۔!
پانی لے کہ آؤ ۔۔۔ اس کے حکم پر وہ جلدی سے اٹھی جبکہ وہ اسی ہی کہ بیڈ پر لیٹ گیا تھا۔۔۔!
پانی پی لیں۔۔۔۔اشنال پانی لے کہ آئی اس کی بند آنکھوں کو دیکھ کر اس کو پکارا تھا۔۔۔!
روشنال پانی پینے کےلیے اٹھا اور اس کا چہرہ دیکھا جو اسے سرخ لگا تھا اس کی نظریں جھکی ہوئی تھی وہ نوٹ کر رہا تھا تھی کہ وہ جب سے باہر سے واپس ہے وہ تب سے نگاہیں نہیں ملا رہی تھی ۔۔
گلاس لیا تو اس کے ہاتھ سے جان بوجھ اپنا ہاتھ سے ٹچ کیا تھا ۔۔۔اسے اشنال کا ہاتھ غیر مخصوص انداز میں گرم محسوس ہوا تھا۔۔
پانی کا گلاس لے کر پانی پیا اس کو دیکھا جو واپس مڑ رہی تھی روشنال نے پانی کا گلاس ٹیبل پہ رکھا اور ہاتھ بڑھا کر اسے تھام کر اپنے پاس بیٹھایا تھا۔۔۔
اس کی حرکت پر اشنال کی جان نکلی تھی ۔۔۔۔اشنال کو اسے ڈر لگا تھا ۔۔۔ وہ مسلسل اس کی طرف دیکھ رہا تھا جو سر جھکائے ہاتھ پہ نجانے کیا تلاش کر رہی تھی ۔۔۔!
اس کو تھوڑی سے پکڑ کر اس کے منہ کو تھوڑا اونچا کیا
وہ نظریں جھکا کر ایسے ہی بیٹھی رہی تھی
ادھر دیکھو۔۔۔۔! اشنال نے اسے پکارا جو نجانے اپنے خالی ہاتھوں میں کیا تلاش رہی تھی ۔۔۔۔!
روشنال کی آواز پہ بمشکل اس نے اپنی بھاری ہوتی پلکیں اٹھائی تھیں۔۔۔ !
اسکی ہرنی جیسی نشیلی آنکھیں دیکھ کر روشنال کا دل دھڑکا تھا اسے آج کتنے مہینوں بعد احساس ہوا اس کے سامنے بیٹھی اسکی اس معصوم بیوی کابھی دل ہے جو اس کی سخت باتوں سے دکھتا ہے۔۔۔۔!
وہ اس کے باکل قریب ہوا تھا دونوں کے درمیان صرف خامو شی تھی اس کو اپنے قریب دیکھ کر اشنال کی آنکھیں خوف سے پھٹنے لگی تھیں ۔۔۔!اس کی طرف جھکتے روشنال نے اس کی نم آنکھیں چوم لی تھی اس کی آنکھوں کو معطر کرتے روشنال کو لگا کہ اس کی تھکاوٹ ایک پل میں اتر گئی ہے۔۔۔!
بخار ہو رہا تمھیں۔۔۔۔!
اس کے دہکتے گالابی گال اپنے یاتھوں سے سہلاتے ہوئے روشنال نے کہا تھا۔
نن۔۔۔نہیں ۔۔۔۔اشنال اس کے اس اقدامات پر خوفزدہ ہوئی اور بند آنکھیں سے کہتے ہلکا سا کہتے نفی میں سر ہلایا تھا پوچھ نہیں رہا بتا رہا ہوں کہ تمھیں بخار ہے۔
تم ادھر لیٹو میں آ رہا ہوں۔۔۔۔۔! وہ یہ کہتا اس کے اوپر کمفرٹ ڈالتا کچن میں چلا گیا تھا۔
کچن میں آکے پہلے اس کےلیے کھانا نکال کہ اوون میں گرم کیا ۔۔۔۔! اور برگر سنیڈوچ نکالتا علحیدہ پلیٹ میں نکال کہ گرم کیے ۔۔۔۔! اور دو کپ چائے کے بنائے تھے ۔۔۔۔
*********
روم میں آیا اس کی طرف دیکھا وہ شاید تھکن کے زیرِ اثر سو رہی تھی۔۔۔ !
کھانا اور چائے کے کپ ٹرے میں تھے اس نے سائیڈ ٹیبل پہ رکھے ۔۔۔!وہ اس کے پاس بیٹھا تھا ۔۔
اشنال اٹھو ۔۔۔۔۔! اس نے گال پر ہاتھ رکھ اس کے گال کو سہلاتے ہوئے پکارا تھا۔۔۔!
اشنال نے اس کو اپنے اوپر جھکے دیکھا تو ایک دم سے اٹھنا چاہا لیکن اس کوشش میں اس کا سر روشنال کے کشادہ سینے سے مس ہوا تھا وہ جلدی سے پیچھے ہوئی تھی ۔۔۔۔!
کھانا کھاؤ۔۔۔۔۔۔روشنال نے اسے جب کرنٹ کر پیچھے ہوتا دیکھا تو مسکراہٹ دبائی تھی روشنال نے اس کے سامنے چکن ، سینڈ وچ اور برگر رکھا تھا ۔۔
ممم۔۔۔مجھے بھوک نہیں ہے۔۔۔۔۔! س کو سامنے دیکھ کر وہ ڈری تھی ۔۔۔!
ایک کھاؤ یا بے شک دو کھاؤ۔۔۔۔! پر مجھے ان میں سے ایک چیز فنش چائیے لٹل گرل۔۔۔۔وہ سختی سے بولا تھا۔
جبکہ اشنال پھر نہیں بولی خاموشی سے کھانے لگ پڑی اس کے حلق میں نوالہ اٹکا تو وہ زور زور سے کھانسنے لگی ۔۔۔کھانستے ہوئے اس کی حالت بری ہوئی تھی ۔۔
روشنال نے اسے ساتھ لگایا اور اس کی پشت سلانے لگا تھا وہ سانس لیتے خود کو نارمل کرنے لگی مگر جب تھوڑے سے حواس بحال ہوئے تو بوکھلا کر اسے دور ہوئی تھی۔۔۔۔!
یہ دوا لو ۔۔۔۔! وہ ٹبلیٹ پکڑاتے ہوئے بولا تھا ۔۔
اس کو خاموش دیکھ کر اور ٹبلیٹ لیتے نہ دیکھ کر روشنال نے زبردستی اسکا منہ کھولا اور گولی منہ میں رکھ کر اس کو پانی پلایا تھا۔۔۔۔یہ لو چائے پی لو۔۔۔۔۔اس نے بلا تہمید چائے تھام کے پینے لگی تھی ۔۔۔! جتنی دیر وہ چائے پیتی اتنی دیر روشنال کی نظریں اس کے چہرے کا طواف کرتی رہیں ۔۔
چائے پی چکی تو اسے کپ تمھایا جسے روشنال تھام کے سائیڈ پہ رکھا تھا۔۔۔
چلو اب سو جاؤ صبح کالج بھی جانا ہے آرام کرو صبح تک تمھاری طبعت ٹھیک ہو جائے گی۔۔۔۔۔! اسے اپنے حصار میں لیتے ہوئے بولا اس کا لہجہ نرم مگر سنجیدہ تھا۔۔۔۔!
نہ۔۔۔۔نہ۔۔۔نہیں مم۔۔مجھے نیند نہیں آرہی ۔۔۔مم۔۔۔میں اب ٹھیک ہوں۔۔۔۔۔وہ گبھرا کر بولی تھی اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اسے اپنے روم میں آرام کریں لیکن یہ اس کا دل ہی چاہ سکتا تھا اس کے سامنے اونچا بولنے کی ہمت کیسے کر سکتی تھی اس لیے اس نے کہا وہ اس کی بات سن کر اٹھ جائے گا ۔۔۔
گڈ یہ تو اور بھی اچھی بات ہے ۔۔۔۔۔! جاؤ ۔۔۔۔اکاونٹ کی بک لے کہ آؤ یہاں کوئی اور لے آؤ کام سناؤ۔۔۔۔! اس کی طرف دیکھ کر اپنی بیرڈ زدہ گالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اس کو آزاد کیا تھا کہ وہ بک لے کہ آئے۔۔۔۔!
ا۔۔۔۔۔ابھی۔۔۔۔۔آنکھیں پھاڑ کہ اپنے سوکھے حلق کو تر کرتے ہوئے صرف زبان سے اتنا ہی نکلا تھا۔۔۔
جی بالکل ابھی جاؤ لے کہ آؤ ۔۔۔۔!اس نے اس کی بات پہ مہر پکی کی تھی۔۔
وہ ڈرتے ڈرتے بک لے کہ آئی تھی اور اسے پکڑائی ۔۔۔۔۔! روشنال نے رجسڑ کھول کہ اسے پکڑایا اور خود کوئسچن نکالے تھے! کونسا چپٹر کرواؤں ۔۔۔۔۔اس نے اس کی طرف دیکھا تھا جو اسے دور بیڈ کہ کونے پر بیٹھی تھی ۔۔۔۔۔!
کونسئنمنٹ ۔۔۔۔۔یک لفاظی لفاظ سے اسے سمجھایا تھا اشنال کو یہ چپپٹر آتا تھا ۔۔۔۔! جان بوجھ کر بولی وہ یہ کوئسچن کر کے جلدی سے اسے دے گی اور اپنی جان چھڑوا لے گی ۔۔۔۔۔!
پاس آؤ میرے ۔۔۔۔۔! میں نے رائفل نہیں اٹھائی جو تمھیں دے ماروں گا اس کی دور بیٹھنے پر اس نے طنز کیا تھا۔۔۔۔!
یہ کام تو آپ زبان سے بھی سر انجام دے رہے ہیں اس نے دل میں کہا تھا ۔۔۔۔!
یہ کوئسچن اب خود کرو تب تک میں آرام کرلوں ۔۔۔۔ایک کوئسچن کروا کہ اسے خود آنکھوں پہ ہاتھ رکھ کہ لیٹ گیا تھا۔۔۔۔
مجھے تو ایسا لگتا ہے جیسے یہ شخص روبوٹ ہے احساسات سے عاری ۔۔۔۔۔! پتھر دل ۔۔۔۔یہ سجھتے ہیں اپنے سینے میں دل نہیں ہے تو دوسرے کے سینے میں بھی دل نہیں ہوگا۔۔خود بھی بور ہیں اور دوسرے کو بھی اپنے رنگ میں رنگنا چاہتے ہیں ۔!۔۔ وہ پانچ منٹ بعد اس پہ چور نگاہ ڈال کے بولی جو کالے رنگ کے کپڑے پہنے آنکھوں پہ ہاتھ رکھے لیٹا شاید سو گیا تھا۔۔۔۔! بلاشبہ وہ ایک شاندار شخص تھا اشنال نے جب بھی اسے دیکھا وہ آنکھوں پہ ہاتھ رکھ کہ سویا ہوتا۔۔۔۔گویا سوتے ہوئے بھی اپنی آنکھوں کو پڑھنے کی اجازت کسی کو نہیں دیتا تھا۔۔۔!اس کی بھر پور مردانگی دیکھ کر اشنال بخت کی ایک دفعہ دھڑکنیں منتشر ہوئیں تھی اس کی گردن پہ تل دیکھا اپنی نگاہیں جھکائی تھیں گویا وہ سوتے ہوئے بھی اسے ہی دیکھ رہا ہو۔۔۔۔!
وہ کوئسچن کر چکی تھی تو پھر ایک چور نگاہ اس پہ ڈالی جیسے ہی نظر اس کی پاکٹ میں پڑے اپنے فون پہ پڑی تو وہ فون اٹھانے کی کوشش میں اس کے نزدیک ہوئی تھی ۔۔۔!
اس نے سوچا آرام سے اپنا فون اٹھا کہ ہٹ جائے گی اور اپنی تصاویر ڈیلیٹ کر دے گی ۔۔۔۔!اس کے کانپتے ہاتھ اس کے سائیڈ پاکٹ پہ آئے تھے اس نے فون ہاتھ اٹھایا تو اسے کوئی چیز اپنی کمر پہ رینگتی ہوئی محسوس ہوئی تھی ۔
کیا کر رہی تھی ۔۔۔۔۔روشنال نے اسے اپنے اوپر گرایا تھا اور کڑے تیور لیے پوچھا تھا۔۔۔
وہ۔۔۔۔وہ۔۔۔۔ممم۔۔۔میں ۔۔۔۔۔۔ممم۔۔۔کک۔۔۔چھ۔۔۔۔ب۔۔۔۔۔!
تھماری ہمت کیسے ہوئے کہ تمھارے ہاتھ میری پاکٹ تک آئے اتنی اجازت میں نے خود کو نہیں دی اور نہ کسی دوسرے تیسرے کو دیتا ہوں کہ وہ میری ذات تک پہنچے اور الجھے ۔۔۔
اس کی سخت لہجے پہ اشنال اپنی آنکھوں میں آئے آنسوؤں کو ضبط کرنے لگی تھی وہ ایک منٹ میں اسے دوسرا تیسرا کر گیا تھا۔۔۔
چھ۔۔۔۔چھوڑیں مجھے۔۔۔۔وہ اس کی قربت میں بلکی اور پیچھے ہوئی تھی ۔۔۔۔!وہ اس ستمگر کے بدلتے لہجے کو وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی وہ شخص عجیب نہیں بلکہ بہت عجیب تھا۔
اس کو دیکھا جو بامشکل اپنے آنسوؤں پر بندھ باندھ رہی تھی ۔۔۔اس کی رونے کی چغلی کھاتی آنکھیں ۔۔۔اس کا ریڈ انار چہرہ ۔۔۔۔ اسے کو رونے کی تیاری پکڑتا دیکھ مر اس سے پہلے کو وہ اسے اپنےساتھ لگاتا وہ روتی ہوئی اسے اپنا آپ چھڑا کر باہر بھاگی تھی جب کہ پیچھے لیٹا روشنال نے اسے جاتے دیکھا تو نگاہ اپنے ساتھ پڑے اسکے فون پہ پڑی تھی فون اٹھا کہ آن کیا تو وال پیر پر اسکی پک دیکھی تھی ۔۔۔۔! جو اس کی شرٹ میں پوز بنائے بالکل کیوٹ سی لگ رہی تھی ۔۔۔۔! اسکی اپنے قریب آنے کی وجہ سمجھ آئی تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی اور اپنے غصہ پر بھی غصہ آیا کہ کیوں اسے ڈانٹا تھا۔۔! اس کی تصویر پہ لب رکھے اور فون کھولنا چاہا لیکن پاسسورڈ تھا۔۔۔ تقریباً پندرہ منٹ بعد کچھ سوچتے ہوا باہر نکلا تو اسکو لاونج کے صوفے پر سوتے ہوا پایا تھا۔۔۔ !
انوسنٹ اینگری برڈ ۔۔۔۔یہ کہہ کر اس نے دیکھا اس کی روئی روئی آنکھیں اس بات کا ثبوت تھی کہ وہ روتے روتے سوئی ہے ۔۔۔!اندر سے کمفرٹ لا کہ اس پہ ڈالا اس کی آنکھوں پہ لب رکھتے وہ خود سونے چلا گیا تھا۔۔۔
*****”””
وہ صبح سے گھر سے نکلا ہوا تھا ۔۔۔۔پہلے اس نے بال کلر کروائے روشنال کے کہے کے مطابق داڑھی دائی کروائی تھی اپنی ہلکی داڑھی کو سنہری کلر کروا کہ وہ اب عرفان درانی کے بنگلے پر کھڑا ہوا تھا اس کے آنکھیں چندھیا گئی تقربیاً یہ بنگلہ ےقربیاً شیشےکا بنا ہوا تھا ۔۔۔ اس ٹکلے نے یہ گھر بنا کر شیشے لگائے تھے یا شیشے لگواکر یہ گھر بنایا تھا منہ میں بڑابڑتے اس نے مین دور کی بیل بجائی۔۔تو کوئی گارڈ باہر نکلا تھا۔۔۔۔!وہ کانوں میں ہنیڈ فری ٹھونسے ساتھ ساتھ روشنال سے کانٹیکٹ میں تھا۔۔
ہیلو۔۔۔۔۔۔مائی نیم از آمریکہ اینڈ آئی کیم فرام جارج ۔۔۔!
دور فٹے منہ ہے تیرے اوپر تیرا تو وہ والا حساب ہوا جو ساری رات ہیر رانجھا مووی دیکھتا رہا صبح اٹھا اور پوچھا ہیر لڑکا تھا یا لڑکی۔۔۔! ساری رات انگلش سکھا سکھا کر میرا منہ ٹیڑھا ہوگیا ۔۔۔۔۔اور اب تو کہہ رہا ہے میرا نام انگلینڈ ہے اور میں جارج سے آیا ہوں۔۔۔! روشنال نے ساری بھڑاس نکالی تھی ۔۔۔
سوری سر مجھ کو سمجھ نہیں آپ نے کیا بول رہے ہیں آپ اردو میں بات کرو۔۔۔۔! ادھیڑ عمر گارڈ نے بھی گویا معصومعیت کی حد پار کر دی تھی ۔۔۔
وہ تو مجھے بھی سمجھ نہیں آئی کہ میں نے بولا کیا ہے اور ویسے بھی میری انگلش اتنی ہائی کلاس ہے کہ تمھارے اس ٹکلے صاحب کو بھی سمجھ نہیں آئی گی جبکہ گارڈ کی بات سنتا حسنال پرسکون ہوتا ہوا سنجیدہ لیجے میں بڑبڑایا تھا دوسری جانب روشنال اس کی بڑبڑاہٹ سن کر اس کو اس کے انداز پہ مسکراہٹ آئی تھی۔۔
صاحب اونچا بات کرو نا۔۔۔۔۔گارڈ اس کی بڑ بڑاہٹ سن کر پریشان سا بولا تھا۔۔۔!
irfan duranni …..!
اچھا آپ صاحب کے بارے میں پوچھ رہے ہو میں صاحب کو خبرکرتا ہوں کہ کوئی انگلش بولنے والا گورا آیا ہوں ۔۔۔۔!
گل خان تم اس کو پکڑ کہ رکھو ہم ابھی صاحب کو بتا کہ آیا۔۔۔۔۔۔!
وہ اندر چلا گیا تو حسنال کی رکی ہوئی سانس خارج ہوئی تھی ۔۔۔۔۔! وہ روشنال کی کال ڈسکنٹ کرکے اپنی انگلش پکانے لگا تھا۔۔۔!
تقربیاً پانچ منٹ گزرے تو عرفان درانی اس کے پاس آکے آیا جی آپ کون۔۔۔۔۔؟عرفان نے بھنویں اچکا کر پوچھا تھا
مائی نیم از جارج اینڈ آئی کیم فرام امریکہ ۔۔۔۔وہ اب فرفر لہجے میں بولا تھا۔۔۔
جبکہ دوسری طرف عرفان درانی کے فیوز اڑے تھا وہ بمشکل میٹرک پاس سفارشوں پہ پاس تھا اتنی خالص انگش کہاں سے سن پاتا اسے حیرت اس کی انگلش پہ نہیں ہوئی تھی بلکہ اس انگیریز کے لب و لہجے پہ ہوئی تھی ۔۔!
Sir i am english teacher of your daughter……?
وہ پھر سے بولا تھا ۔۔۔۔
O yaha……yaha nice۔۔۔۔۔!plz come.come….!
عرفان درانی نے اپنا منہ بند کرکے اسے رسپونس دیا تھا۔
گل خان گیسٹ آئیں ہیں ان کا خیال رکھنا یہ عنایا کا انگلش ٹیچر ہے اور انگلینڈ سے آیا ہے ابھی میں آفس جارہا ہوں ان کی اچھے سے مہمانداری کرنا ۔۔۔۔!
i am not able to speak english..
(میں انگلش بولنے کے قابل نہیں ہوں )شرمندہ ہوتے عرفان درانی نے بمشکل کہا تھا۔۔۔
sir mention not…..! i learn your english…
وہ کہنا تو یہ چاہتا تھا کہ میں قابل تو تمھیں انگلش تو دور ۔۔۔۔چلنے کے قابل نہیں چھوڑو گا۔۔۔
o.k bye take care …..! and see your in eveneing time ….
اس نے کال کی اور حسنال کی نظروں سے اوجھل ہوا تھا جبکہ یہ میٹرک پاس ٹکلہ اتنی جائیداد ضبط کرکے فیک ڈگریاں بنوا کہ گورنمنٹ کو بیوقوف بنا رہا ہے اور میرے مللک کے نوجوان بی اے ایم بی اے کرکے بے روزگار بیٹھے ہوئے ہیں ۔۔۔۔اس کے چہرے پر تلخیوں بھری مسکراہٹ آئی تھی حسنال کو اپنا یہ آئیڈیا فلاپ ہوتا نظر آر رہا تھا وہ کچھ ایسا سوچ رہا تھا کہ وہ ہر وقت اس کے ساتھ رہ سکے اور اسکی کمزوریوں کو جان سکے لیکن اس کے ذہن میں فلحال کوئی بھی پلان نہیں آ رہا تھا۔
********
یار آج میرے ساتھ چلو میں نے مارکیٹ سے بھائی کے نیو شوز لینے ہیں اور مما کی میڈیسن بالکل ختم ہوئی ہے وہ لینی ہے ۔۔۔ چھٹی ہوئی تو سارہ نے اسے کہا تھا۔۔۔۔
کتنی دیر لگے گی۔۔۔۔۔! اشنال نے سادگی سے پوچھا تھا۔۔۔!
وہ انکار کرنا چاہتی تھی لیکن کر نہ سکی تھی۔۔۔
یار ہم نے کونسا شاپنگ کرنی ہے بس شوز اور میڈیسن لینے ہے لے کر آجائیگے اور آج ویسے بھی میں اکیڈمی نہیں جائیں گے نہ آج ۔۔۔۔!
اچھا سارہ میں تمھارے ساتھ چلتی ہوں پر پلیز تھوڑا جلدی کرنا ۔۔۔۔۔! وہ نا چاہتے ہوئے بھی اس کے جانے کے لیے تیار ہو گئی تھی
*****
یار سارہ جلدی کرو ۔۔۔۔۔۔! میری ہمت جواب دے رہی ہے۔۔۔۔!
مجھے سخت بھوک لگ رہی ہے ۔۔۔سارہ اسے بڑے مال لے کہ آئی تھی ۔۔۔
یار بس ہوگیا ہے۔۔۔۔وہ شوز کے پیسے دیتے ہوئے بولی تھی ۔۔۔۔!
چلو نکلو۔۔۔۔میں ریسٹورنٹ سے کھانا کھلاتی ہوں ویسے بھی تمھاری بھوک مجھ سے نہیں برداشت ہو رہی۔۔۔۔! سارہ نے اس کی حالت کے پیشِ نظر اس پہ طنز مارا تھا ۔۔۔
وہ وہاں سے نکلتے اس ریسٹورینٹ پہ لے آئی تھی ۔۔۔!
یار میں اس طرح کبھی نہیں آئی ۔۔۔۔مجھے سخت ڈر لگتا ہے وہ سامنے بیٹھے لڑکوں کے گرہوں کو دیکھ کر وہ ڈری اور اپنی پہلے سے سیدھی سیاہ شال کو غیر مخصوص طریقے سے ٹھیک کیا تھا یار وہ ۔۔۔وہ ۔۔۔وہ دیکھو لڑکے۔۔۔۔کھانے کا آرڈر دے کر سارہ دے جب فارغ ہوئی تو اس نے اپنا خدشہ ظاہر کیا تھا۔۔۔!
وہ دیکھو مست مال ۔۔۔۔۔۔! کتنا مکمل حسن ہے ادھر۔۔۔۔!
ایک لڑکے نے فقرہ اچھالا تھا۔۔۔!
یو آر باسٹرڈ ۔۔۔۔۔جہاں لڑکی دیکھتے ہو وہاں تمھاری رالیں ٹپکنے لگ پڑتی ہیں۔۔۔۔سارہ نے اپنے پرس سے مرچیں نکالی تھیں ۔۔۔۔! سارہ اللہ کا واسطہ ہے پلیز چھوڑو چلتے ہیں یہاں سے۔۔۔۔۔!
چھوڑو یہ لڑکی پاگل ہے وہ لڑکے اس کی ہاتھوں میں مرچیں دیکھ کر اٹھ کر نکلتے بنیں۔۔۔۔!
ادھر رکتے نہ اپنی خاطر تواضع کروا کہ جاتے ۔۔۔۔۔!سارہ نے ان کو تیزی سے نکلتا دیکھ کر پیچھے سے فقرہ کسا تھا۔
سارہ پلیز چلو۔۔۔۔پلیز اللہ کا نام ہے وہ چلے گئے ہیں گھر چلتے ہیں اشنال اس باغی اور سرپھری لڑکی کو ایسے دیکھ کر رونے والی ہوگئی تھی ۔۔۔۔!
روشنال جو بزنس ڈنر کے سلسے میں وہاں آیا تھا اشنال کی آواز سنتا پیچھے مڑا تھا اور حیران رہ گیا تھا اس کے ساتھ کلائنٹ بھی شور کو دلچسپ نظروں سے دیکھنے لگے تھے ۔۔
اس کی آواز تو اسے دھوکہ لگی لیکن جب مڑا اور دیکھا ۔۔۔۔وہ وہی تھی اس کی آنکھوں میں غضب اترا تھا
ایک ہاتھ سے منہ سے شال درست کرتی ۔۔۔۔۔! اور دوسرے ہاتھ سے ایک لڑکی کو پکڑ رکھا تھا اپنی بیوی کو ریسٹورنٹ میں دیکھ کر اس کی آنکھوں میں خون اترا تھا وہ ان لوگوں سے معذرت کرتا نکل آیا تھا ان کی آنکھوں میں تمسخر دیکھ کر روشنال کے غصے کا گراف بہت زیادہ بڑھا تھا۔۔۔سب کا دھیان کا ان کی طرف دیکھ کر روشنال کا دل کر رہا تھا اشنال کا منہ توڑ دے۔۔۔۔!
دوسری طرف اشنال روشنال کو دیکھ کر ساکت رہ گئی تھی جو ان کی طرف آ رہا تھا اس کا اوپر سانس اور نیچے کا سانس نیچے رہ گیا تھا ۔۔۔! اس کی قسمت ہی پھوٹی ہوئی تھی وہ جتنی آج کے دن ڈر رہی تھی یہ دن اس پہ اتنا ہی بھاری پڑا تھا۔۔۔
یار اشنال ۔۔۔۔۔یہ تمھارے بھائی ہی ہے نہ ۔۔۔۔۔یا میں کوئی خواب دیکھ رہی ہوں سارہ نے اس کی کان میں سرگوشی کی تھی۔۔۔
روشنال جو ان کی طرف آرہا تھا ۔۔۔۔اس لڑکی کی آواز باخوبی اس تک پہنچی تھی یہ سن کر اس نے اپنے لب بھینچے تھے اور اس تک پہنچا تھا ۔۔۔۔!
گھر چلیں۔۔۔۔۔! اس نے اشنال کی طرف دیکھ سخت لہجے مگر نرمی سے کہا تھا۔۔۔۔!
السلام علیکم ۔۔۔۔۔! مائی نیم از سارہ ۔۔۔۔!اینڈ اشنال از مائی بیسٹ فرینڈ ۔۔۔۔! روشنال نے اس لڑکی کو دیکھا تھا جو رٹے رٹائے طوطے کی طرف بول رہی تھی۔۔۔
وعلیکم علیکم …..!آپ سے مل کر خوش ہوئی تھی روشنال نے اس کے برعکس اردو میں جواب دیا تھا۔۔۔
میں نے آپکو صرف دیکھا آپ سے ملاقات ہو جائیگے یہ نہیں سوچا تھا۔۔۔! سارہ نے اس کو اپنے ساتھ بات کرتے دیکھ کر جوش سے کہا تھا۔۔۔۔
چلیں آپ نے بھی اپنے گھر جانا ہے آپ کو بھی ڈراپ کر دیں گے ۔۔۔۔! اس نے اشنال کو دیکھتے ہوئے کہا تھا جس کی نگاہیں جھکی کی جھکیں تھیں ۔۔۔!
اوکے تھینک یو بھائی۔۔۔۔۔! سارہ نے اس کا شکریہ ادا کیا تھا۔۔۔۔!
آپ چلیں گاڑی میں بیٹھے میں آرہا ہوں۔۔۔۔۔اس نے روکھے سے لہجے میں جواب دیا تھا ۔۔!
ان کے باہر نکلنے کے بعد اس نے پے منٹ کی تھی اور برگر اور ساتھ کوک پیک کروا کے باہر نکلا تھا۔۔۔۔
*******
وہ باہر آیا تھا ان کو پیچھے بیٹھے دیکھ کر اس نے گاڑی سٹارٹ کی تھی۔۔۔!
یہ ۔۔۔۔خود بھی کھاؤ اور ان کو بھی کھلاؤ۔۔۔۔۔! اس نے اشنال کو دیکھ کر دئیے تھے ۔۔جبکہ اشنال نے بامشکل کانپتے ہاتھ سے لے کر سارہ کو پکڑائی تھی۔۔۔ !
آپ کتنے اچھے ہیں نا بھائی۔۔۔۔! آپ کی بیوی بہت لکی ہوگی جس کے آپ شوہر ہوں گے۔۔۔۔۔!برگر کھاتی شوخی سے کہا تھا۔۔۔۔!
وہ تو میری بیوی کو پتہ ہوگانہ ۔۔۔۔جب کہ روشنال نے بیک مرر سے اسے دیکھ کر تلخی سے جواب دیا روشنال کی سخت نگائیں اپنے اوپر جمے دیکھ کر اس کا ننھا سا دل کانپا تھا اس سے پتہ تھا کہ وہ اس کے سامنے مروت دیکھا رہا ہے گھر جا کر اپنا سارا غصہ نکالے گا۔۔۔۔!
بس بھائی ۔۔۔۔۔! گاڑی روک دیں میرا گھر ادھر ہی ہے ۔۔۔۔۔سارہ نے اونچی آواز کہا تھا کہ وہ سن لے ۔۔۔۔! روشنال گاڑی روکی تھی ۔
تھینکس بھائی ۔۔۔۔! آپ بہت اچھے ہیں اللہ آپ کی عمر لمبی کرے ۔۔۔۔ اس نے نے دعا اور اتر گئی تھی۔۔۔
روشنال اس کی باتوں کا جواب دیتا ہی کہ وہ اتر گئی تھی ۔۔۔
اس نے پھر سے گاڑی سٹارٹ کی تھیں اور فل سپیڈ پہ رکھی تھی۔۔۔۔
*****
گاڑی روک کہ اسے کھینچ کے گاڑی سے باہر نکالا تھا اور اپنے روم میں آکر اسے بیڈ پہ پھینکا تھا۔۔۔
کس کی اجازت سے تم نے ریسٹورنٹ میں قدم رکھا۔۔۔۔؟
اس کے لہجے میں آج کوئی نرمی تھی۔۔۔۔بس احساسات سے عاری لہجہ تھا اسکا۔۔۔۔!
کالج کے نام پہ تم ریسٹورنٹ کیسے گئی ۔۔۔۔بتاؤ مجھے ۔۔۔!اس کا لہجہ سخت ہوا تھا۔۔۔
وہ۔۔۔۔ممم۔۔۔میں۔۔۔۔سس۔۔۔سارہ ک۔۔۔کے ساتھ گ۔۔۔۔گئی تھی
اس نے اٹکتے ہوئے جواب دیا تھا۔۔۔۔!
تمھیں ۔۔۔۔۔پتہ ہے آفس والوں کے سامنے مجھے کتنی شرمندگی ہوئی تھی
نہ۔۔۔۔نہیں ۔۔۔آ۔۔۔آج چ۔۔چھوڑ دیں ۔۔۔آئ۔۔۔آئندہ میں آپکے پوچھے غیر۔۔۔کہی۔۔۔کہیں نن۔۔نہیں جاؤں گی۔۔
آج کی نافرمانی کی سزا تو دوں نہ ۔۔۔۔۔پھر آئندہ کئی جانے کا سوچو گی بھی نہیں سوچوں گا ۔۔۔۔ان لڑکوں کی غلیظ نظریں تم پر تھیں میرا دل کر رہا تھا میں وہی سے تمھارے حساب نکالوں ۔۔۔۔۔۔!
وہ اٹھ کر اس کے پاس سے نکلتی ہی جب روشنال نے اسے بازوؤں سے پھر بیڈ پہ پھینکا تھا ۔۔۔!
روشنال کو آج پھر اس روپ میں دیکھ کر اسے وحشت ہوئی تھی ۔۔۔۔۔!اور اس کی وحشت میں اضافہ ہوا تھا جب روشنال کو اپنے گلے سے شال کیھنچتے ہوئے دیکھا تھا۔
پل۔۔پلیز۔۔۔۔آج چ۔۔۔چھوڑ دیں۔۔۔۔! اس نے شال کھینچ کر دونوں ہاتھوں سے سختی سے باندھا تھا اور خود جاکر چئیر پر بیٹھ گیا تھا۔۔۔۔۔!
میں کون ہوں۔۔۔۔۔؟اس کی قریب چیئر لا کہ اپنی سرخ ہوتی نگاہیں اس پہ گاڑتے ہوئے بولا تھا۔۔۔
رو۔۔۔۔روشنال۔۔۔۔۔۔! کانپتے لبوں سے اس نے کہ تھا۔۔۔۔!
میں کیا لگتا ہوں تمھارا۔۔۔۔۔۔اب کی بار اس کی آواز اور اونچی ہوئی تھیں جب کہ چئیر پر اسکی گرفت اور مضبوط ہوئی تھی۔۔۔۔!
کک۔۔۔۔۔کزن۔۔۔۔۔۔۔۔! اس نے اٹکتے ہوئے کہا تھا۔۔۔۔۔!
اب کیا رشتہ ہے میرا تم سے۔۔۔۔! چئیر سے اٹھتے وہ اس پہ جھک کہ گڑایا تھا۔۔۔!
ج۔۔۔۔جی مطلب ۔۔۔۔۔۔اس کی باتوں سے الجھ کر اشنال نے پوچھا تھا اس ستمگر کا پل پل بدلتا رویہ اس کی سمجھ سے باہر تھا۔۔۔۔۔!
میرا کزن کے علاوہ تم سے کیا رشتہ ہے۔۔۔۔! اس کا سخت لہجہ آج نرمی کے موڈ میں نہیں تھا روشنال نے اس کے باندھوں کو پکڑ کر پوچھا تھا جو کانپ رہے تھے۔۔۔۔!
ش۔۔۔شوہر۔۔۔۔۔۔! وہ اس کے سخت لہجے سے ڈرتی ہوئے بولی تھی ۔۔۔۔!
تو پھر مجھے بھائی کیوں بولا ۔۔۔۔۔۔اس کے بال کے لٹ پیچھے کرتا اور اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تھا۔۔۔
مم۔۔۔۔میں نے آپکو بب۔۔۔بھائی ۔۔۔ککک ۔۔کب بولا ۔۔۔۔۔؟ اس نے اپنی ہرنی جیسی نشیلی نگاہیں اسے کانپتے لہجے میں پوچھا تھا۔۔۔۔۔!
پھر تمھاری دوست نے مجھے تمھارا بھائی کیوں کہہ رہی تھی ۔۔۔۔!
وہ۔۔۔۔وہ اسے ۔۔۔۔نہیں پتہ تھا ۔۔۔اس نے وضاحت دی تھی۔۔
اچھا میں جارہا ہوں بعد میں بات ہوگی وہ اس کے پاس سے اٹھا تھا ۔۔۔!
پلیز کھول دے مجھے۔۔۔۔۔اس کو اپنے پاس سے اٹھتا دیکھ کر اس کی چوڑی پشت کو دیکھتے وہ چلائی تھی ۔۔۔!
آ رہا ہوں بس دو گھنٹے ویٹ کرو میں تمھارے لیے مٹینگ چھوڑ کہ آیا تھا تم انجوائے کرو میں رات تک آجاؤں گا ۔۔۔۔۔وہ یہ کہہ کر باہر چلا گیا تھا۔
*********
مٹینگ کافی لمبی ہوگئی تھی وہ دو دو کام کر رہا تھا پریزٹیشن بنانا اور فارن کمپنی کو بنا کہ دینا کافی مشکل ہوتا جا رہا تھا اس کے لیے ۔۔۔۔۔! ایمزون کمپنی تھی یہاں وہاں کی ٹائمنگ میں کافی فرق تھا کیونکہ وہاں صبح ہوتی تھی تو ادھر رات ۔۔۔۔۔پھر اس لیے اس کے راتیں کبھی کبھی پے چین گزرتی تھیں رات کے بارہ بج چکے تھے وہ ابھی تک فائل آگے کیے کام کر رہا تھا۔۔۔۔!شام کا منظر اسکے ذہن میں گھوما وہ کبھی بھی اسے باندھ کہ نہ آتا لیکن جب ریسٹورنٹ میں سب کی نگاہیں اس پہ جمی دیکھ کہ اسے غصہ آیا تھا ان کی غلیظ نگاہیں اسکے معصوم حسن پر جمی نگائیں دیکھ کر اسے کے غصے کا گراف بڑھا تھا اوپر سے اس کی فرینڈکا اسے بھائی کہنے پر اسے غصے آیا تھا تو اس کے ذہن میں ہلچل مچ چکی تھی کیونکہ وہ شام چار بجے اسے گھر چھوڑ کہ آیا تھا اور اب رات کے بارہ بج چکے تھے ۔۔۔اس کا خیال آتے ہی لیپ ٹاپ بند کیا فائل بیگ میں رکھی اور آفس سے نکلا تھا ۔۔۔۔۔! گاڑی میں بیٹھا تو پھر اسکا بے بس اور معصوم چہرہ اس کے نگاہوں میں گھوما تو غصے سے سٹیرنگ پہ ہاتھ مارا تھا اور گاڑی کی سپیڈ تیز کی تھی اس کے ذہن میں کئی قسم کے وسوسے آرہے تھے۔۔۔!
گھر پہنچتے ہی بھاگ کر دروازہ کھولا تھا اپنے کمرے کا دروازہ کھولتا ہوا وہ اندیشوں کی زد میں تھا۔۔۔۔! دروازہ کھولا تو وہ اسی کالج کے یونیفارم میں اوندھے منہ پڑی ہوئی تھی اسےجا کے سیدھا کیا تو اس کے بال سارے منہ پہ پڑھے ہوئے تھے آنکھوں سے آنسوؤں سے تر چہرے بال چپکے ہوئے تھے وہ اٹھی ہوئی تھیں اور رو رہی تھی ۔۔۔!
اس کو اپنے پاس بیٹھتا دیکھ کر اشنال ڈر کر پیچھے ہوئی تھی ۔۔۔۔۔!اس کی ویران آنکھیں دیکھ کر روشنال کے دل پہ بڑی سخت چوٹ پڑی تھی اس نے بڑی مشکل سے اسکے ہاتھ کھولیں تھے اور روتی ہوئی اشنال کو اپنے ساتھ لگایا تھا۔۔۔۔۔! وہ اس کے سینے پر سر رکھے اس کے دیے گئے دکھ پر پہلے توخوب روئی تھی پھر اس کے پاس سے اٹھتی واش روم بند کر کہ رونے لگی تھی۔۔۔۔۔!اشنال۔۔۔۔۔۔دروازہ کھولو۔۔۔۔۔۔اسکی رونے کی آوازیں باہر آرہی تھی ۔۔۔۔اسکا شدت سے بلک بلک کر رونا روشنال کو تکلیف دے رہا تھا۔۔۔۔۔
اشنال پلیز میں معافی مانگتا ہوں آئندہ کبھی نہیں کرونگا ڈانٹوں گی بھی نہیں ۔۔۔۔۔دروازہ کھولو ۔۔۔۔اس کو ڈھاڑیں ماڑ ماڑ کر روتا ہوا دیکھ کر وہ پہلی بار التجائی ہوا تھا۔۔۔۔۔!