تیری ستمگری

post cover

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

قسط: 19

چلو شاباش جلدی آؤ۔۔۔میں انتظار کر رہا ہوں۔۔۔ مجھے تنہائیوں میں مبتلا کر کے خود یہاں آکہ بیٹھ گئی ہو۔۔۔۔۔وہ اپنی ڈارک براؤن آنکھوں سے اس کا معائنہ کرتے ہوئے بولا تھا۔۔۔۔!
میں نہیں جاؤں گی آپ کے ساتھ۔۔۔۔! یہ میرا آخری فیصلہ ہے اور نہ ہی میں آپ جیسے دوغلے انسان کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی ہوں ۔۔۔۔وہ اس کی طرف دیکھتی پورے اعتماد سے بولی تھی۔۔۔!
آپ کے ساتھ جانے سے بہتر ہے کہ میں زہر کھالوں۔۔۔۔اس شخص کو ہنستا مسکراتا دیکھ کر اس کا چہرے غم و غصے کی زیادتی سے لال ہوا تھا یعنی وہ اس سے جدا ہو کر خوش تھا۔!
کیوں اس کی کوئی وجہ ۔۔۔۔؟ وہ اس کا تپا چہرہ دیکھ کر ہنوز مسکراتا ہوا بولا۔۔۔۔
آپ سے نفرت کرتی ہوں اس سے بڑی وجہ اور کیا ہے۔۔۔۔؟وہ نگاہیں جھکائے تلخی سے بولی تھی۔۔۔
اور اس نفرت کی وجہ کیا ہے۔۔۔۔۔؟ وہ اس کے جھکے سر کو دیکھ کر کھوجتا ہوا بولا۔۔۔۔!
نفرت کی وجہ آپ کو پتہ ہوگی کیونکہ آپ نے خود مجھے یہ کرنے پر مجبور کیا ہے اب مجھے اتنی نفرت ہوگئی ہے کہ آپ جب جب میرے قریب آتے ہیں میرا دل کرتا ہے میں ۔۔۔! وہ یہ کہتے ہوئے کچھ سوچ کر رک گئی تھی ۔۔۔۔!
کتنی ۔۔۔۔۔؟ بولو نہ رک کیوں گئی ۔۔۔۔؟ وہ اس کو خاموش ہوتے دیکھ کر بولا۔۔۔
کہ میں خود کو ختم کرلوں ۔۔۔۔وہ اس کو مسلسل اپنے طرف پاتا دیکھ کر وہ لال چہرہ لیے ایک سانس میں کہہ گئی تھی۔۔۔
اور میری نفرتوں کا اندازہ تم سہہ نہیں پاؤ گی اشنال بخت ۔۔۔۔!میری نفرت کی انتہا تم سے سوگناہ بڑھ کر ہے۔۔! میں تم سے اتنی نفرت کرتا ہوں کہ اگر اب مجھ سے دور ہونے کے بارے میں سوچا بھی تو خود اپنے ہاتھوں سے جان لے لوں گا تمھاری ۔۔۔یہ کہتے ہوئے اس کی طرف قدم بڑھایا تھا۔۔۔!
حد میں رہیں ۔۔۔۔وہ سہم کر پیچھے ہوئی اور ہلکی سی چختی جلدی سے دروازہ اس کے منہ پر مار کر بند کرنے لگی تھی۔۔۔!جب وہ اپنا پاؤں دروازے کے درمیان رکھ گیا تھا۔۔۔!
اگر اپنا تماشہ بنوانا چاہتی ہو تو ٹھیک ہے تمھاری دوست سے مل لیتا ہوں ۔۔۔۔وہ سنجیدگی سے بولا ۔۔۔!
جی نہیں وہ کالج گئی ہوئی ہے ۔۔۔۔۔! میں اور آنٹی ہی گھر اکیلے ہیں ۔۔۔۔! وہ اس کو روکنے کی غرض سے بولی تاکہ وہ اندر نہ آسکے اور باہر ہی سے کسی طرح بھی اس کو بھیج دے۔۔۔۔!
یہ تو اور بھی اچھی بات ہے میں خود آنٹی سے مل لیتا ہوں گپ شپ بھی ہوجائے گی اور ان کا شکریہ بھی ادا کردوں گا۔۔۔!
آنٹی ابھی سورہی ہیں ۔۔۔۔! اس نے پھر سے جان چھڑائی تھی ۔۔۔۔!
چلو تب تک میں ویٹ کرلیتا ہوں۔۔۔وہ ہاتھوں باندھے دروازے کے تمھب سے ٹیک لگا کہ شان بے نیازی سے کھڑا ہوگیا تھا۔۔۔!
جب میں آپ کے ساتھ جانا نہیں چاہتی تو آپ مجھے فورس کیوں کر رہے ہیں جب میری مرضی ہی نہیں ہے ۔۔۔وہ ہرنی جیسی آنکھیں نکال کر بولی تھی۔۔۔۔!
میں اٹھا کر لے کر جاؤں گا ۔۔۔۔تمھاری مرضی کی ایسی کی تیسی۔۔۔۔وہ اب غصے میں آگیا تھا۔۔۔!
جلدی آؤ شاباش۔۔۔۔!
جب نہیں جانا آپ کے ساتھ ۔۔۔۔تو کیوں پریشان کر رہے ہیں مجھے۔۔۔؟ وہ اب کا زور سے دراوزہ بند کرنے لگی۔
اس رات والی ضد بھول گئی جس کی وجہ سے یہاں آکے چھپی ہوئی ہو ۔۔۔۔!
وہ اب کی بار سختی سے بولا ۔۔۔۔پچھلی والی نرمی غائب تھی ۔۔۔۔۔!
جبکہ وہ بھاگ کر اندر چلی گئی تھی روشنال ایسے ہی کھڑا ہوگیا تھا۔۔۔اور تقربیاً پندرہ منٹ بعد وہ خاموش چہرہ لیے آئی تھی ۔۔۔ !
چلو ۔۔۔۔۔وہ اسے ساتھ لیے چلنے لگا تھا۔۔۔!
چلو۔۔۔۔بیٹھو۔۔۔۔گاڑی کے پاس اس کے آنکھوں کی ویرانی کو دیکھتا وہ سنجیدہ سا بولا تھا۔۔۔!
وہ خاموش سی بیٹھ گئی تھی وہ بھی گاڑی میں بیٹھا اور ڈرائیو کرنے لگا تھا۔۔۔۔
روشنال کو اس کی خاموشی کھٹکنے لگی تھی اسے اس خاموشی اور اس کے پتھریلے تاثرات سے کچھ اور ہی محسوس ہوا تھا۔۔۔!عورت کی خاموشی کو سمجھو اگر وہ خاموش ہو جائے سمجھو بہت بڑا طوفان آنے والا ہے اور اس کی ایک دم سے خاموشی اور اس کی خالی آنکھیں دیکھ کر روشنال کا دل کیا اسے جنجھوڑ کر بلوائیں ۔۔۔۔لیکن پھر کچھ سوچ کر ڈرائیو کرنا لگ پڑا تھا۔۔۔۔۔۔جبکہ اس کی ویران نگاہیں باہر خلا ہوں میں تھیں۔۔۔۔! اسے گھر ؒڈراپ کرکے وہ چلا گیا تھا
♥♥♥♥♥♥
آغا ۔۔۔۔۔جان اگر آپ اس منحوس سے ملنے گئے ۔۔۔۔! تو میں منال کو لے کر اس گھر سے نکل جاؤں گی۔۔۔۔ ثمینہ بیگم کو جب سے اس بات کا پتہ لگا تھا وہ تب سے جاہ و جلال میں تھیں۔۔۔۔۔!
منال تو تمھارے ساتھ کئی نہیں جائے گی اگر جانا چاہتی ہو ۔۔۔۔۔اکیلی چلی جاؤ ۔۔۔۔۔! جب اٹھارہ سال کی بچی اس گھر سے نکلی تھی اس وقت اس معصوم کی کسی نے پرواہ نہیں تھی وہ روتی رہی ۔۔۔۔۔بلکتی رہی۔۔۔۔! ترستی رہی سب کی محبت کے لیے ۔۔۔۔۔! اس وقت میں بھی بے حس بنا رہا۔۔۔۔۔دیر سے ہی اب وقت نے میری آنکھوں سے پٹی ہٹا دی ہے……..!
جتنا میں نے تمھارا احساس کیا ہے ۔۔۔۔۔اتنا میں نے کسی بھی رشتے کا نہیں کیا۔۔اگر کرتا تو آج یہ نوبت نہ آتی۔۔میں بس اپنی کی گئی زیادتیوں کا ازالہ اس معصوم بچی سے کروں گا جو میرے کبیر کی نشانی ہے ۔۔۔۔۔اس کے باپ کا گھر تو ہی ہے آج روشنال کو فون کرتا ہوں ۔۔۔۔۔کبیر والا گھر اس کے نام کر دیا جائے گا۔۔۔وہ اونچی آواز سے بولے تھے۔۔۔۔!
آغا جان وہ گھر میرے شوہر کا ہے ایسا میں ہرگز نہیں ہونے دوں گی میں یا اس لڑکی کو مار دوں گی یا خود کو۔۔۔۔؟
وہ یہ بات سنتے غصے سے آگ بگولا ہوگئی تھیں ۔۔۔۔!
میری پوتی کے تم نزدیک بھی آئی تو اس کا انجام اچھا نہیں اس پہ آنے والی ہر بری نظر کو کاٹ کہ پھینک دوں گا۔۔۔۔میں نے تمھاری وجہ سے پہلے کتنا نقصان اٹھایا ہے کاش اتنے بڑے نقصان کا پتا ہوتا تو میں تمھاری طرفداری بالکل نہ کرتا ۔۔۔۔۔! میں نے تمھارے کہنے پر روشنال کے ساتھ زبردستی کی تھی ۔۔۔۔کہ وہ اشنال کو اس گھر اس صورت میں ہی رکھ سکتا ہے اگر وہ منال سے منگنی کرلے۔۔۔ وہ ان کی بات سن کر پہلے تو شاک ہوئے تھے ۔۔۔۔۔بیٹے کی موت تو وہ سہہ گئے تھے لیکن پوتی کی موت۔۔۔۔۔اس سوچ نے ان کے رونگٹے کھڑے کر دیے تھے وہ کب سے بے قرار تھے کہ اس کو سینے سے لگائیں۔۔۔۔۔اس کو گھر لے کہ آئیں۔۔۔۔لیکن وہ آئے گی۔۔۔۔۔کیا وہ ان کے گناہوں پر ان کو معاف کردیں گی۔۔۔۔
پر آغا جان میں ایسا ہونے نہیں دوں گی۔۔۔۔وہ گھر منال کے نام ہوگا منال بھی تو کبیر ہی کی بیٹی ہے ۔۔۔
پر مما مجھے اور اشنال کو گھر نہیں چاہیے ۔۔۔۔۔ہمیں اس گھر میں بستے رشتے چاہیے ۔۔۔۔بغیر کسی غرض کے۔۔۔۔ ایسا گھر چاہیے ۔۔۔۔جہاں خوشیاں ہوں، پیار ہو محبت ہو ، خلوص ہو۔۔۔۔اتفاق ہو ، جہاں اعتماد کی فضا ہو۔۔۔۔نفرتیں نہ ہو۔۔۔۔۔عدواتوں کا ڈیرہ نہ ہو۔۔۔۔ہمیں ہر وہ خوشی دے دیں ۔۔۔بغض کا دور دور تک امکاں نہ ہو ۔۔۔ ہر چیز تو بازاروں سے بھی مل جاتی ہے لیکن محبت یا احساسات بازاروں سے نہیں ملتے
جس سے آپ نے مجھے اور اشنال کو بچپن سے محروم رکھا تھا ۔۔۔آپ میری ماں ہیں آپ کو بھی پتہ ہے آپ نے میرے بچپن میں کتنی کمیاں چھوڑی ہے۔۔۔۔میں آپ کو شرمندہ نہیں کر رہی
لیکن آپ کو احساس ہونا چاہیے ۔۔۔۔ !
آپ دولت اور حسد کے نشے میں اتنی خود غر ض ہوگئی ہو کہ آپ کو رشتے ہی بھول گئے۔۔۔۔۔ایک حسد کی وجہ سے بابا آپ سے دور ہوگئے اس حسد کی وجہ سے میرا آپ سے اعتماد اٹھ گیا ۔۔۔۔!امی ابھی وقت ہے رب سے معافی مانگ لیں ۔۔۔۔نہیں تو ایسا وقت آئے گا کہ آپ کے پاس بے بسی رہ جائے گی اور کچھ نہی رہے گا۔۔۔۔آپ کے پاس پچھتاوے ہی پچھتاوے رہیں جائیں گے۔۔۔وہ کچن سے نکلتی ہوئی بولی تھی۔۔۔
تمھیں مجھے مت سکھاؤ اور میری ماں مت بنو ۔۔۔۔۔جو مجھے اچھا لگے گا وہ ہی میں کروں گی۔۔۔۔۔! وہ اسے ڈانٹ کر چلیں گئی تھیں جبکہ وہ پیچھے کھڑی نظریں چرا رہی تھی جیسے سارا قصور,اسی کا ہو ۔۔۔ آغا جان نے جب اسے شرمندہ دیکھا تو اس کے سر پر ہاتھ رکھ دیا تھا
♦♦♦♦♦♦♦
تم ادھر ہی رکو ۔۔۔۔۔میں آرہا ہوں۔۔۔۔۔عرفان درانی نے کرمو کو رکنے کا بولا اور خود چلا گیا تھا ۔۔۔۔!
کرمو کب سے انتظار کر رہا تھا۔ ۔۔۔لیکن دوگھنٹے سے اوپر ہوگئے تھے عرفان دارنی ابھی تک نہیں آیا تھا یہ ریڈ لائٹ علاقہ تھا ۔۔۔۔۔۔کرمو کو گڑ بڑ لگی تھی یہ دوسری بار وہ اسے اس ٹائم پہ چھوڑنے آیا تھا۔۔۔۔کیونکہ اس نے جس ٹائم بھی اس کو ڈراپ کیا تھا رات کے اندھیرے میں۔۔۔۔۔!
وہ گاڑی سے ٹیک لگا کہ کھڑا ہوگیا تھا۔۔۔۔وہ تین تین دن ساتھ اس کے ساتھ آتا جاتا لیکن آج اسے گڑ بڑ محسوس ہوئی تھی۔۔۔۔وہ ایسے ہی کھڑا تھا ۔۔۔
جب اسے چیخنے کی آواز سنائی دی ۔ ۔۔۔وہ پہلے تو آگے پیچھے دیکھتا رہا۔۔۔لیکن جب اپنے رائٹ سائیڈ پہ نظر پڑی تو ایک بلڈنگ کے قریب۔۔۔۔۔۔کچھ لوگ ایک ایک پندرہ سو سال کی بچی کو گاڑی سے کھینچ کر باہر نکال رہے تھے۔۔۔اس کے زمین و آسماں ہل کر رہ گئے تھے۔۔۔۔۔یہ دیکھ کر اس نے اپنے کرتے کی میلی پاکٹ سے فون نکالا اور ملایا تھا
السّلام علیکم آجاؤ ۔۔۔۔میں تم لوگوں کو ایک ایڈریس سینڈ کر رہا ہوں ۔۔۔۔۔کیمرہ وغیرہ لانے کی ضرورت نہیں ہے پویس کو بھی انولو کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔۔ہاں اگر خود کوئی ارینجمنٹس کر سکتے ہو۔۔۔۔تو جلدی کرنا۔۔۔۔
وہ جلدی سے کال ڈسکنٹ کرکے کہ بفون اپنے پاکٹس میں رکھا تھا اور اپنے بیگ میں ایک پسٹل نکال کر اپنے بیگ سے بلیک کلر کی ہڈی نکالی تھی وہ پہنتا وہ نکل کر اس بنگلے کے قریب آیا تھا۔۔۔
اس روشن محل میں بہت ساری شورو غل کی آوازیں آرہی تھی ۔۔۔۔۔باہر گارڈ کھڑے تھے اتنی سیکیورٹی دیکھتا وہ چکر کاٹ اس محل نما گھر کے پیچھلے حصے میں آیا تھا….!!
اس لڑکی کی چیخو کی آواز مسلسل اونچی اونچی آرہی تھی وہ اس محل کے اونچائی دیکھنے لگا جو کہ بہت بڑی تھی ۔۔۔۔۔ابھی ان لوگوں کو آنے میں بھی کافی
وقت تھا ۔۔۔۔
وہ وقت کی دیری کیے بغیر اس بلڈنگ کے اندر آیا اور پیچھے سے چڑتا چھت پہ آیا تھا اس کا ارادہ وہاں کی کھڑکیوں کو توڑ کر اندر جانے کا تھا۔۔۔
وہ بمشکل چڑنے لگا بلڈنگ کافی اونچی تھی اس کا پاؤں رپٹا وہ نیچے گرا تھا اونچائی تو اتنی اونچی نہیں تھی لیکن اسکے پاؤں سے درد نکلا تھا ۔۔۔۔۔ وہ وہیں بیٹھ گیا تھوڑی دیر اپنے پاؤں کی مالش کرتا پھر چڑھا ۔۔۔۔اب کی بار وہ چڑھنے میں کامیاب ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔ وہ کھڑکی پر پہنچا اور ادھر لٹکا کر زور دار مکا مارا تھا ۔۔جس سے کھڑکی ٹوٹی تھی ۔۔۔۔کچھ سے اس کے ہاتھ پہ دو تین لگے تھے لیکن لڑکی کی عزت سے بڑھ کر کیا تھا۔۔۔۔۔۔!
وہ اس روم سے نکلا جہاں آٹھ دس عورتوں جھول رہی تھی جن کو شاید نشہ آور ادویات وغیرہ دی گئی تھی۔۔۔
اس کی نگاہوں میں غصہ آیا تھا وہ دروازہ کھول کر باہر جاتا ہی کہ اس پہ دو بندوں نے پسٹل رکھے تھے ۔۔۔!
♦♦♦♦♦♦♦
وہ جب سے آئی تھی خاموش تھی ۔۔۔۔۔! اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ اب کسی کو بھی معاف کریں گے ۔۔۔۔وہ اسے گھر ڈراپ کے آفس چلا گیا اور اب تک گھر نہیں آیا تھا وہ عیشا کی نماز پڑھ کر فارغ ہوئی تھی ۔۔۔۔۔کچن بہت گندا تھا اس نے صفائی کی تھی ۔۔۔۔۔!
وہ اب سے بہت دور جانے کا سوچ چکی تھی ۔۔۔۔دل کے ایک کونے سے آواز آئی ۔۔۔۔۔کیا اس کا دل روشنال بخت کو چھوڑنے پر راضی ہو جائے گا۔۔۔
پہلے وہ شخص اسکا محافظ تھا۔۔۔۔پھر سپر مین تھا۔۔۔۔پھر شوہر بنا تھا۔۔۔۔شوہر سے محبوب تک کے سفر میں اس شخص کی ستمگری ہی تھج مہربانی نہیں تھی ۔۔۔! وہ جتنا اس سے نفرت کا اظہار کرتی اندر سے اسکا دل ، اسکی سوچیں ہمک ہمک روشنال بخت کی طرف جاتی تھی۔۔۔
لیکن اس نے سوچا تھا وہ اپنا دل پیروں تلے کچل ڈالے گی اسے اتنا مجبور کر دے گی کہ وہ خود ہی اسے چھوڑ دے گا۔۔۔اس نے مصم ارداہ کر لیا تھا کہ وہ اس شخص کو جیتنے نہیں دے گی۔۔۔۔۔اسے ایسی مات دے گی وہ خود ہی اسے پناہ مانگے گا اب بس اس نےاپنی سوچوں پر عمل پیرا ہونا تھا۔۔
اس نے صرف سنا تھا وقت ایک سا نہیں رہتا ۔۔۔آج اسے اپنی آنکھوں کے سامنے وقت کو پلٹتے دیکھ لیا تھا ۔۔
اس کے بکھرے بال۔۔۔۔۔اسکے آنکھوں کے نیچے ہلکے ۔۔۔۔یعنی اس شخص کو بھی فرق پڑا تھا ۔۔۔۔۔آج اس کی آنکھوں میں اپنے لیے واضح دیوانگی تھی۔۔۔۔وہ شخص آج اسے بہت بدلا لگا تھا۔۔ یعنی اب صرف وہ بے بس نہیں تھی روشنال بھی اسکے ساتھ چاہ و طلب کی اس کھٹن سرحد پر کھڑا تھا۔۔۔!
اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ اب کسی کو معاف نہیں کریں گی سب کو سبق سکھائے گی۔۔۔!
ہر اذیت ، ہر احساس، ہر دکھ ؛ وہ سب سے اپنی تنہائیوں کا بدلہ گی۔۔۔اب وہ کسی کا خیال نہیں کرگے ۔۔۔۔بہت جی لی تھی اس نے اوروں کی زندگی۔۔۔۔!
جس درد سےوہ خود گزری تھی اس درد جب تک کسی اور کو روشناس نہ کرا دے اب تک اس کو سکون نہیں ملنا تھا۔۔۔۔
۞۞۞۞۞
وہ گھر آیا اور فریش ہوا اسے سخت بھوک لگی ہوئی تھی وہ کچھ کھانے کا ارادہ کر رہا تھا۔۔ اسے پتہ تھا وہ سوچکی ہوگی
اس لیے تنگ کرنے کا ارادہ نہیں کیا۔۔۔اور کچن میں چلا آیا ۔۔لیکن خالی برتن اسکا منہ چڑا رہے تھے ۔۔
کچن سے نکل کر وہ روم میں آیا تھا ۔۔۔
کھانا نہیں بنایا آج ۔۔۔۔۔ وہ کمرے میں آکہ بولا جو اپنے اوہر کمفرٹ کیے لیٹی تھی کمفرٹ بھی اس کےاوپر بے ترتیب سا پڑا ہوا تھا وہ خود سوئی ہوئی تھی۔۔
آتشی اورنج کلر کا سوٹ ہم رنگ ڈوپٹہ نماز سٹائل میں لپیٹے اس کے شعاعیں لپٹیے رنگ و روپ اور جکڑ لینے والی جاذبیت میں وہ اس کی نگاہوں میں ستائش اتار گئی تھی وہ اس کے اوپر کمفرٹ صیح کرنے لگا تھا۔۔
سوئی ہوئی اشنال اس کو اپنے اوپر کمفرٹ کرواتے دیکھ کر جاگ تو گئی تھی لیکن آنکھیں نہ کھولی ۔۔۔۔وہ بے حس و حرکت ہو کر لیٹ گئی تھی
وہ اس پہ کمفرٹ سیٹ کرتا ادھر ہی چئیر پر بیٹھ گیا تھا ۔۔
اشنال نے نیم واہ کر کے آنکھیں دیکھا۔۔۔جو فون پہ لگا ہوا تھا۔۔
وہ تنک اٹھی تھی اسے انتہائی برا لگ رہا تھا۔۔۔کہ یہ شخص اس کے روم میں اس وقت کیا کر رہا تھا وہ زچ ہو کر اٹھ بیٹھی تھی ۔۔!
کیا ہوا ہے ۔۔۔۔؟ وہ اس کی طرف دیکھنے لگ پڑا تھا جو ایک دم سے اٹھی تھی جس کا چہرہ غصے سے سرخ تھا۔۔۔۔۔
آپ اس وقت میرے روم میں کیا کر رہے ہیں ۔۔۔؟ وہ کاٹ کھانے کو ڈوری ۔۔۔۔۔!
آج کھانا نہیں بنا ہوا ۔۔۔۔۔! وہ اس کی بات کو اگنور کرتا اس کا تپا تپا چہرہ دیکھ کر نرمی سے بولا تھا۔۔۔۔!
تو میں کیا کروں۔۔۔۔؟ وہ کاٹ کھانے والے انداز میں بولی ۔۔۔
تو کھانا بناؤ نہ ۔۔۔۔؟ وہ اس کے اتنے زیادہ اعتماد کو دیکھ کر پہلے تو شاک ہوا پھر اپنے لہجے پر قابو پاتا ہوا بولا تھا۔۔
میں آپ کی ملازمہ نہیں ہوں۔۔۔۔! وہ تلخ و تیز لہجے لیے بوی گھی
بیوی تو ہو نا۔۔۔! اس کے سرخ چہرے پر نظریں گاڑتے ہوئے وہ دھیمی مسکان لیے بولا تھا۔۔۔!
آپ نے سمجھا تھا روح پر چوٹ لگانے سے پہلے۔۔۔۔۔؟ وہ پچھلی باتوں کو اسے یاد دلاتے ہوئے بولی ۔۔۔!
اشنال پلیز بھول جاؤ ان باتوں کو ۔۔۔۔! وہ اس کو ایک دم سے پرانی بات یاد دلاتے ہوئے ٹوک گیا تھا۔۔۔!
واہ کتنی آسانی سےآپ نے کہہ دیا کہ بھول جاؤ ۔۔۔۔ آپ بھولے تھے جب دیوار پر کیل ٹھونک کر نکالیں جائیں تو نشان تو اس بے جان شے پر بھی رہ جاتے ہیں میں تو پھر جیتی جاگتی انسان ہوں ۔۔۔۔وہ تلخ لہجہ لیے رکی اور پھر بولنا شروع ہوگئی تھی۔۔۔
میں آپ کے سامنے منتں کرتی رہی سب کو لگتا تھا میں قصور وار ہوں آپ کی زندگی میں نے برباد کی ہے ۔۔۔۔منال کی حسنال کی۔۔۔۔ آغا جان نے کبھی پیار سے گلے نہیں لگایا صرف اور صرف میری صرف وجہ سگ کیونکہ ماں اس خاندان کی نہیں تھی ۔۔۔۔چھوٹی امی بچپن سے کام کراوتی رہتی نفرت کرتی رہیں ۔۔۔مجھے منحوس کہتی رہیں مجھے سب نے صرف اور صرف اس لیے دھتکارا کہ میرے باپ نے میری ماں سے پسند کی شادی کیوں کی۔۔۔ایک بڑی امی اور تایا ابو نے پیار کیا لیکن میرے حق وہ کبھی نہیں بولے ۔۔۔۔سب نے میری امید کو میرے بھروسے کو توڑا ۔۔۔۔میں نے کسی سے کوئی سوال نہیں ۔۔۔۔کوئی جواب نہیں مانگا ۔۔۔! آپ کو لگا تھا ستم صرف آپ کے ساتھ ہوا ۔۔۔۔مجھے لگا تھا آپ دنیا کے آخری انسان بھی ہوگے ۔۔۔تب میری بات سنے گے۔۔۔ لیکن اس رات آپ میری بات تو کیا میرے بھروسے کو توڑ گئے تھے۔۔۔
سب نے میری نہیں سنی اس کے بعد صرف آپ ہی تھے آپ کو تو میں فرشتہ سمجھتی رہیں لیکن جس جس پہ میرا بھروسہ تھا ان سب نے مجھے منہ کے بل گرایا تھا آپ تو میرے سپر مین تھے نا ۔۔۔؟
آپ نے بھی مجھے اس رات توڑ دیا تھا سب سے زیادہ آپ نے میرا اعتماد توڑ دیا تھا میرے خسارے میں سب سے ہاتھ آپ کا تھا مج۔۔مھے آپ سے امید نہیں تھی آپ نے مجھے اس رات میری ذات کو گالی بنا دیا تھا۔۔۔۔۔۔وہ بولتے ہچکچیوں سے رونے لگ پڑی تھی ۔۔۔!
ایسے رو تو مت۔۔۔۔اس کو ایک دم سے ہچکیوں سے روتے وہ چئیر سے اٹھتا اس کے پاس آ بیٹھا اور اسے حصار میں لیا تھا وہ جو پہلے اسے رولا کر خوش ہوتا تھا آج اس کے آنسو ،اس کے دل پہ گرے تھے اس کے سر کو سلاتا اس کے ماتھے پر لمس دیا تھااس کو ایسے اپنا ساتھ لگایا جیسے ان کے درمیان کوئی شکوہ نہ ہو۔۔۔۔
سپر مین آپ نے میرا اعتماد توڑ دیا تھا ۔۔۔۔آپ نے مجھ سے میرا سپر مین چھین لیا تھا۔۔۔مجھے آپ پہ غرور تھا آپ پہ یقین تھا آپ نے میرا اس رات غرور توڑ دیا تھا لیکن آ۔۔۔آپ نے میرے اعتماد کو توڑ دیا۔۔۔
اور انسان کے ٹوٹنے کی سب سے بڑی وجہ اس کا کسی پر کیا گیا وہ یقین ہوتا ہے جو وہ ایک پل میں توڑ دیتا ہے۔۔۔۔! آج وہ پورے چار مہنوں پر شکوے شکایت کر کے اپنی گردو غبار نکال رہی تھی ۔۔۔۔
وہ معصوم سی لڑکی اتنے درد اندر چھپائے بیٹھی تھی اس کا دل پاش پاش ہوا تھا اس کے شکوؤں پر۔۔۔۔!
پلیز رو مت ۔۔۔۔میں تمھیں تمھارا یقین واپس دلاؤں گا۔۔۔میں تمھیں تمھارا سپر مین اور تمھارا یقین واپس لوٹاؤں گا۔ ۔وہ اس کا منہ سامنے کرکے اپنا ہاتھوں سے صاف کرتا اس کی پیشانی لب رکھتے ہوئے بولا۔۔۔
یقین جب ایک دفعہ ٹوٹ جائیں تو واپس جڑتے نہیں ہے روشنال صاحب اور اب مجھے یقین چاہیے بھی نہیں ۔۔۔۔وہ یہ کہتی اس کے ہاتھ اپنے چہرے سے ہٹاتی اسے پیچھے کو دھکا دیتی بیڈ سے اترتی چلی گئی تھی ۔۔۔۔۔وہ اس کو بے حس و حرکت چھوڑ کر چلی گئی تھی۔۔۔۔۔
Instagram
Copy link
URL has been copied successfully!

🌟 نئی کہانیوں اور ناولز کے اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے فیس بک پیج کو فالو کریں! 🌟

کتابیں جو آپ کے دل کو چھوئیں گی

Avatar
Social media & sharing icons powered by UltimatelySocial